فکر و تحقیق، اکتوبر-دسمبر2024
تلخیص
رشید حسن خاںنے 1990 میںرجب علی بیگ سرورکی داستان’
فسانۂ عجائب‘ کو پہلی مرتبہ فرہنگ، حواشی،تعلیقات، تشریحات، ضمیمے، اختلاف
نُسَخْ، تلفظ اور املا، الفاظ اور طریقِ استعمال اور اشاریے وغیرہ کے ساتھ جدید
اصول وضوابط کی روشنی میں مرتب کرکے شائع کیا ہے۔نثاراحمدفاروقی نے اپنے مضمون
’فسانۂ عجائب پرایک نظر‘ میںرشیدحسن خاںکے تدوین کردہ نسخے میںبے شمار غلطیوںکی
طرف اشارے کرتے ہوئے کہا کہ کتاب کی تدوین منشائے مصنف کے بجائے منشائے مدوّن کے
مطابق ہوئی ہے۔اس کے علاوہ وہ کہتے ہیںکہ فسانۂ عجائب میںایسی کوئی خاص بات نہیںکہ
اس کے لیے اس قدرمحنت ومشقت اٹھاکرعمرِعزیزکے آٹھ سال بربادکیے جائیںاورنہ اس میں
طالب علموںکے لیے کوئی ذہنی خوراک ہے۔ حالانکہ اس مرتب کردہ داستان میں رشید حسن
خاںنے ایک طویل مقدمہ،سات ضمیمے، فرہنگ کے تین ابواب اور اشاریے کا اضافہ کردیا
ہے۔خاںصاحب کے اس تحقیقی نسخے نے نہ صرف اس کی قرأت کوآسان بنادیاہے بلکہ اس کی
افہام وتفہیم میںبھی بڑی سہولتیںپیداہوگئی ہیں۔
کلیدی الفاظ
رشید
حسن خاں، رجب علی بیگ سرور، نثاراحمدفاروقی،فسانۂ عجائب،فرہنگ،حواشی،تعلیقات، تشریحات،
ضمیمے، اختلاف نُسَخْ، متروک الفاظ،طریقِ استعمال، اشاریے، نسخے، منشائے مدّوِن،
مقصودِمصنف
————
اردو ادب میں تدوین ِ متن کی روایت زیادہ قدیم نہیںہے
اس کی ابتدا غالباً عہد سر سید سے ہوتی ہے۔ انھوں نے ’آئین اکبری‘، ’تاریخِ فیروز
شاہی‘ اور ’توزک جہانگیری‘کی تصحیح وترتیب اس طرح کی کہ آج بھی تدوین ِ متن کے
سلسلے میںبطور مثال ان کتابوںکو پیش کیا جاتاہے۔ یہ سلسلہ کچھ اس طرح شروع ہوا کہ
رفتہ رفتہ اسے باقاعدہ ایک فن کی حیثیت مل گئی۔بیسوی صدی میںجدیداصول وضوابط کی پیروی
کرتے ہوئے مولانا امتیازعلی عرشی نے’مکاتیب غالب‘کو1937 میںاور ’دیوانِ غالب‘ کو
تاریخی ترتیب کے لحاظ سے 1958 میں مرتب کرکے شائع کیا۔ان دونوںکتابوںنے اردومیںترتیب
متن کی روایت کوبطورخاص معیاربخشا۔
اسی زمانے میں تدوینِ
متن سے متعلق ایک نام جواپنے کارناموںکی وجہ سے مستندقرارپایاوہ رشید حسن
خاں کا ہے۔انھیں اس فن میں غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔موجودہ دور میںاگریہ کہا جائے
کہ تحقیق،تدوین، ترتیب اور تصحیح متن کے میدان میںانھیں استنادکی حیثیت حاصل ہے
توغلط نہ ہو گا۔ گیان چند جین نے رشیدحسن خاںکو ’خدائے تدوین‘ کہا ہے۔ تاہم انھیں
’قدیم ادبی روایت کا امین‘ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کلاسیکی
متون کی تدوین وترتیب کے بے مثل نمونے پیش کیے ہیں اور یہی ان کا اختصاص بھی ہے۔اس
ضمن میںآپ دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ رشید حسن خاںنے سائنٹفک نقطۂ نظر سے باغ
وبہار کی تر تیب میں کم و بیش بیس سال صرف کیے۔ جہاں متنی تنقید کے اصول وضوابط کا
استعمال کرتے ہوئے حواشی اور متن کی تیاری میںلسانی پہلوؤں کو زیر بحث
رکھا۔اشخاص،مقامات اوراملاوتلفظ کے لحاظ سے بدلے گئے لفظوںپرضمیمے بنائے۔متن کے
درست تلفظ کو برقرار رکھنے کے لیے انگریزوں کی خاطر بنائے گئے اصولوں کا التزام کیا۔اسی
طرح مثنویات شوق کی تدوین میںتشریح کے ساتھ مشکل الفاظ کی فرہنگ اس طرح تیار کی ہے
کہ اس عہد کے تہذیبی آثار اورتمام رسم ورواج آسانی سے سمجھ میں آجائیں۔یہاں’نثاراحمدفاروقی‘کا
یہ قول ملاحظہ فرمائیںجورشیدحسن خاںکی فنی پختگی پراپنی مہرثبت کررہاہے:
’’
خاںصاحب نے کلاسیکی اردونظم ونثرکے کئی متون بہت دیدہ ریزی
سے ایڈٹ کیے ہیں۔ زبان کے قواعد اوراملاکے مباحث پرانھوںنے بہت تفصیل سے کام لیا
ہے..... رشید حسن خاںاپنی تنقیدوتحقیق میںسخت احتساب اورقطعیت کے لیے جانے جاتے ہیں۔وہ
نقدونظرمیںآزادیِ اظہار اورسخت گیری کے قائل ہیں۔‘‘
)رشیدحسن
خاں تحریروںکے آئینے میں، مرتب ابراہیم افسر، مشمولہ ’فسانۂ عجائب پرایک نظر‘ ایچ-ایس-آفسیٹ
پرنٹرس،دہلی2019،جلددوم، ص337(
رشید حسن خاںکے اہم تدوینی کارناموں میں فسانۂ
عجائب1990،باغ وبہار1992، گلزار نسیم1995، مثنویاتِ شوق1998، سحرالبیان2000،مصطلحاتِ
ٹھگی2002 اورکلیات جعفر زٹلی2003 وغیرہ شامل ہیں۔یہاںصرف فسانۂ عجائب
پرگفتگومقصودہے۔رشید حسن خاںسے پہلے’فسانۂ عجائب‘ کی ترتیب وتدوین کا کام کئی
مرتبہ کیا گیا۔ اگر ہم گذشتہ ایک صدی کا جائزہ لیں تو فسانۂ عجائب کو 1928 میںسیدمحمدمحمودرضوی(
مخموراکبرآبادی) نے،1969 میںاطہر پرویزنے،1973 میںڈاکٹر محمود الٰہی نے، 1975 میں
لالہ رام دیال اگروال نے اور1981 میں ڈاکٹر سید سلیمان نے مرتب کرکے شائع کیا۔ اس
کے علاوہ ’ڈاکٹر رفیق حسین ‘ نے بھی اس کی ترتیب کا کام انجام دیا ہے۔ مذکورہ تمام
اشاعتوں میں تحقیق وتدوین کے نقطۂ نظر سے کچھ نہ کچھ خامیاں ضرور نظرآتی ہیں۔لہٰذا
ان تمام کاموں کے باوجود دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو نے جدید اصول ونظریات کے
مطابق فسانۂ عجائب کو مرتب کرنے کا فیصلہ کیا اور شعبے کے صدر ’پروفیسر قمر رئیس‘نے
یہ ذمے داری تدوین کے روح رواں ر شید حسن خاں کو سونپ دی جس کا انھوں نے بخوبی حق
ادا کیا۔
رشید حسن خاںنے 1990 میںرجب علی بیگ سرورکی داستان ’
فسانۂ عجائب‘ کو پہلی مرتبہ فرہنگ، حواشی،تعلیقات، تشریحات، ضمیمے، اختلاف
نُسَخْ، تلفظ اور املا، الفاظ اور طریقِ استعمال اور اشاریے وغیرہ کے ساتھ جدید اصول وضوابط کی روشنی میں اس طرح
مرتب کرکے شائع کیا ہے کہ اس کو بنیاد بناکر
تدوین ِ متن اور تصحیح وترتیب کی روایت کو آگے بڑھا یا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب
تدوین، تحقیق اور ترتیب کے لیے ہر لحاظ سے نئے معیار، نئے انداز اور نئی رَوِش کو
قائم کرتی ہے۔ اس کی ترتیب وتدوین کا کام مثالی انداز کا ہے۔ جس میں ایک معروف اور
ممتاز محقق کی زندگی کا عمیق تجربہ جو اس نے تحقیق کی دنیا میں صرف کیاتھا اور
آٹھ سالہ محنت، لگن اور جستجو کار فرما ہے۔ ہوا یوں کہ جب فسانۂ عجائب کی ترتیب
کا کام پانچ سالہ محنت ومشقت کے بعد مکمل ہوا تو اچانک رشید حسن خاں کے ہاتھ
مذکورہ کتاب کا تصحیح کیا ہوا وہ نسخہ لگا جس کو مصنف نے اپنی زندگی میں آخری بار
اپنے ہاتھوں سے درست کیا تھا۔ پھر کیا تھا رشید حسن خاں نے اپنی پانچ سالہ محنت کو
رد کرتے ہوئے نئے سرے سے مزید تین سال صرف کرکے فسانۂ عجائب کی دوبارہ تدوین کی،اوراس
طرح آٹھ سال میں یہ نایاب تحفہ اردو ادب کے قارئین کے سامنے پیش کیا گیا۔ جو اپنی
نوعیت کے اعتبار سے بالکل منفرد اور جدا گانہ تھا۔اس سلسلے میں ’پروفیسرخلیق انجم‘
لکھتے ہیں:
’’فسانۂ
عجائب کازیرِنظراڈیشن رشیدحسن خاںصاحب کے تقریباًتیس سالہ تجربے اوران کی سات آٹھ سالہ غیر معمولی محنت اوردیدہ ریزی کا
نتیجہ ہے۔انھوں نے پہلی بارطلبہ اوران کے اساتذہ کے لیے ایسا متن تیارکیاہے جو
کلاسکی نصابی متون کی ترتیب کے نئے اندازسے ہمیں روشناس کراتاہے اورمثال اورمعیارکی
حیثیت رکھتا ہے۔اس میںمشکل الفاظ کا صحیح تلفظ نظروں کے سامنے آجاتاہے، فارسی ترکیبوںکو صحیح طور
پر پڑھا جا سکتاہے اور پیچیدہ جملوں کو صحیح طور پر سمجھاجاسکتاہے۔ضمیموںمیںجو تشریحات
ہیں، اُن کی مدد سے اِس کتاب کے مشکل مقامات واضح اورروشن ہو جاتے ہیں۔میں اِس تنقیدی
اڈیشن کے بارے میںپورے یقین اوروثوق کے ساتھ کہہ سکتاہوںکہ استاد اور طالب علم اِس
مشکل متن کواب آسانی کے ساتھ پڑھ سکیںگے اورسمجھ سکیںگے۔
‘‘
)فسانۂ عجائب،
مرتب رشیدحسن خاں، مشمولہ’حرف آغاز‘، انجمن ترقی اردوہند،نئی دہلی، 1990 ص، 14(
اس سے رشید حسن خاں کی محنت اور تدوین کے عمل میں کتاب
کے آخری نسخے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہی تحقیق وتدوین کا لازمی جزوبھی
ہے۔کیوں کہ تدوین کے لیے مصنف کی زندگی میں تصحیح شدہ آخری نسخہ زیادہ معتبر تسلیم
کیا جاتا ہے۔ یہ تمام عوامل تدوین کے میدان میں رشید حسن خاںکے سخت گیرروّیے
کاواضح ثبوت پیش کرتے ہیں۔حالاں کہ کوئی بھی کام حتمی یامکمل نہیںہوتااورکچھ نہ
کچھ خامیاںدبے پاؤںاس میںجگہ پاہی لیتی ہیں۔لہٰذا نثاراحمدفاروقی نے اپنے مضمون
’فسانۂ عجائب پر ایک نظر‘ میںرشیدحسن خاںکے تدوین کردہ نسخے میںبے شمار غلطیوںکی
طرف اشارے کرتے ہوئے ان کو دلائل سے ثابت بھی کیاہے جوبلاشبہ لائقِ تحسین عمل ہے۔لیکن
کیا ان کایہ کہنادرست ہوگاکہ مذکورہ کتاب کی تدوین منشائے مصنف کے بجائے منشائے
مدوّن کے مطابق ہوئی ہے،فسانۂ عجائب میں ایسی کوئی خاص بات نہیںکہ اس کے لیے اس
قدرمحنت ومشقت اٹھاکرعمرِعزیزکے آٹھ سال بربادکیے جائیںاورنہ اس میں طالب علموںکے
لیے کوئی ذہنی خوراک ہے۔ان خیالات کے اظہار سے اندازہ ہوتا ہے کہ فسانۂ عجائب کی
اہمیت اورمعنویت اب باقی نہیںرہی۔اگرایساہے توپھریہ کتاب ہمارے ادب کاحصہ کیوںہے؟کس
بناپراسے ادب میںاتنی مقبولیت حاصل ہے؟کس لحاظ سے یہ کتاب مختلف جامعات اوربہت سے یا
پھرتقریباًتمام معروضی امتحانات کے نصاب کا حصہ بنی ہوئی ہے؟ نثار احمد فاروقی کے
مطابق فسانۂ عجائب کااسلوب چندہی برسوںکے بعدغیر مقبول ہوگیاتھا (جب کہ اس کتاب کی
مقبولیت کاایک سبب آج بھی اس کے مقفّیٰ ومسجّع اسلوب ہی میںمضمر ہے) اور طلبا کویہ
کتاب نثر مرصّع کارکے نمونے کے طورپڑھائی جاتی تھی (حالانکہ ابھی بھی پڑھائی جارہی
ہے) توکیااب اسے نصاب سے ہٹادیناچاہیے؟اس طرح کے بہت سے سوالات قائم کیے جاسکتے ہیں۔اس
سلسلے میں ’نثاراحمدفاروقی ‘نے جو باتیںلکھی ہیںآپ اسے خود ہی پڑھ لیں:
’’فسانۂ
عجائب کے موجوہ(موجودہ)متن کی تدوین کو’مقصودِمصنف‘ کے مطابق نہیں کہا جاسکتا۔یہ
خودتدوین کرنے والے کے منشاسے زیادہ قریب ہے… اس( فسانۂ عجائب) میںکسی اعتبارسے ایساکچھ
نہیںہے جس سے طالب علم کوکچھ ذہنی خوراک مل سکے……
یہ کتاب ایسی توہرگزنہیںہے کہ عمرِعزیزکے آٹھ سال اس کے زیر و زبر ٹھیک
کرنے میںکھپادیے جائیں۔‘‘
)رشیدحسن
خاں تحریروںکے آئینے میں، مرتب ابراہیم افسر،مشمولہ’فسانۂ عجائب پرایک نظر‘ ایچ-ایس-آفسیٹ
پرنٹرس،دہلی2019، جلددوم، ص339)
درج بالاسطورمیں بیان کیے گئے نثاراحمدفاروقی کے خیالات
سے اتفاق مشکل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی نسل کوکلاسیکی نثرسے روشناس کرانے کے لیے
فسانۂ عجائب کاگہرائی سے مطالعہ کرنااشدضروری ہے۔شایداسی لیے دوسوسال کاعرصہ
گزرجانے کے بعدبھی یہ کتاب مختلف سطحوںکے تعلیمی نصاب کا حصہ ہے۔ بلامبالغہ اس کے
ہزاروںایڈیشن شائع کیے جاچکے ہیں۔ہرعہدمیںاس کی اہمیت کوتسلیم کیا گیا ہے۔ یہ کتاب
نہ صرف ہمارے قدیم نثری سرمائے کااہم حصہ ہے بلکہ آج بھی اس کاشمارادبِ عالیہ یعنی
کلاسیکس میں ہوتاہے اوراس کے ذریعے ہمیںلکھنؤکی شاہی تہذیب،مختلف نوعیت کے کھانے،
طرح طرح کے ملبوسات،ظروف کی تفصیلات،شکاری جانوروں کے اسما،آتش بازی کے اقسام، گویّوں
کے طبقے، موسیقی کے آلات کی قسمیں،چوراُچکّوںکے فرقے،آبی سواریاں،موسموںکے رنگ،
کھیل کود اور سیر و تفریح کے ذرائع،قدیم طرزکی سواریاںاوران کی آرائش وزیبائش،ملازموںکی
درجہ بندی جیسی کتنی ہی باتوں کا پتا چلتاہے۔ الغرض قدیم زمانے کی تہذیب وتمدن
اوررسم ورواج کا بھرپور رنگ اورایک خاص عہد کا لکھنؤ جیتاجاگتانظرآتاہے۔اس کے
علاوہ کلاسیکی عہدکے وہ الفاظ جو متروک ہوچکے ہیں،ایسے جملے اور محاورے جن
کااستعمال کم ہوگیاہے اورایسے فقرے جن کے املے اور تلفظ میںتبدیلی ہوگئی ہے ان سب
سے بھی واقفیت ہو جاتی ہے۔چنانچے آپ دیکھیںگے کہ بہت سے لوگوں نے فسانۂ عجائب
کوترتیب دیا اوراس پر تنقیدی مضامین بھی لکھے لیکن رشیدحسن خاںجیساتحقیقی وتدوینی
ایڈیشن کسی نے بھی تیار نہیںکیا۔ خاںصاحب کے اس تحقیقی نسخے نے نہ صرف اس کی قرأت
کو آسان بنادیاہے بلکہ اس کی افہام وتفہیم میںبھی بڑی سہولتیں پیداہوگئی ہیں۔رشیدحسن
خاں اپنے مقدمے میںفسانۂ عجائب کی اہمیت سے متعلق لکھتے ہیںکہ:
’’یہ
کتاب(فسانۂ عجائب)محض ایک داستان نہیں،صرف زبان کا نگارخانہ نہیں، یہ دراصل ایک
اسلوب کادوسرانام ہے، اوراصل حیثیت اُس اسلوب کی تھی اور ہے… زمانہ بدل گیا،ذہن بدل گئے،اندازِنظربدل گیا،اِن
بہت سی تبدیلیوںکے باوصف یہ کتاب اپنی حیثیت کواب بھی برقراررکھے ہوئے ہے… اِس
(فسانۂ عجائب) کی حیثیت صرف ادبی نہیں،تاریخی بھی ہے اور یہ تاریخی حیثیت بہت زیادہ اہمیت رکھتی
ہے۔ اِس کی خاص وجہ یہ ہے کہ دہلی و لکھنؤکی دبستانی بحث کے فروغ میںاِس کاحصہ
بہت زیادہ ہے۔سرورنے دیباچے میں میرامن اور دہلی،دونوںکے متعلق جو کچھ لکھا تھا،
اُس نے باضابطہ اعلانِ جنگ کا کام کیا۔‘‘
)فسانۂ
عجائب، مرتب رشیدحسن خاں، مشمولہ ’مقدمہ‘، انجمن ترقی اردوہند،نئی دہلی، 1990 ص17)
حالانکہ سرسیدتحریک کے بعدہمارے ادیبوں نے مسجّع ومقفّیٰ
نثر کے بجائے سادہ،سلیس،عام فہم اور مدلل نثر کو اپنایا لیکن اس کے باوجود فسانۂ
عجائب کی اہمیت میںکمی واقع نہیں ہوئی، ہزاروں اعتراضات کے بعد بھی اس کی معنویت
کوگرہن نہیںلگا۔واضح رہے کہ فسانۂ عجائب سے دبستانِ لکھنؤکی نثری روایت شروع ہوتی
ہے، اس کو جانے اورسمجھے بغیرلکھنوی اسکول کے باب کی صحیح تفہیم مشکل ہے۔اس اعتبار
سے معلوم ہواکہ اس داستان کی جاذبیت مسلم ہے اورآگے بھی رہے گی۔سچ تو ہے کہ آج بھی اردوادب کوپڑھنے اوراردوکے نثری
ارتقاکوسمجھنے میںاس کتاب کی اہمیت بے نظیراورعدیم المثال ہے۔ لہٰذا نثار احمد
فاروقی کارشید حسن خاںکی تدوین کردہ فسانۂ عجائب سے متعلق اس طرح کے خیالات کا
اظہار کرنا انصاف پرمبنی نہیں۔اس طرح کی اوربھی باتیںلکھی جاسکتی ہیںلیکن یہاںان
تفصیلات کی گنجائش نہیں۔
ہاںاتنی بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ رجب علی بیگ سرور کی
داستان’فسانۂ عجائب‘ کے شائع ہونے سے پہلے زبانِ دہلی کا بول بالا تھا، شاعر ی میں
میرتقی میر تو نثر میں میرامن کی بادشاہت برقرار تھی۔ لیکن رجب علی بیگ سرورنے ان
سب سے گریز کرتے ہوئے نہایت ثقیل زبان کا استعمال کیا۔ میر امن کی باغ وبہار اگر
دہلی کی روز مرہ زبان کا مرقع سمجھی گئی تو فسانۂ عجائب لکھنوی دبستان کے مقفّیٰ
اور مسجع اسلوب کی علمبردار بنی۔ باغ وبہار ہو یا فسانۂ عجائب دونوں کی اپنی ایک
الگ انفرادیت اور پہچان ہے جس سے فراریاانکار ممکن نہیں۔لیکن فسانۂ عجائب کی زبان
اور طرز تحریر میں خامیوں کی طرف نشاندہی بہت سے ادیبوں اور نقادوں نے کی ہے۔مثلاً
مرزاغالب نے کسی جگہ لکھا ہے کہ’’اس میں لطفِ زبان کہاں ایک تک بندی اور بٹھیار
خانہ جمع ہے ‘‘۔ اسی طرح کلیم الدین احمدلکھتے ہیں کہ ’’غرض فسانۂ عجائب میں ہر
جگہ لکٹریاں گیلی ہیں‘‘ مرتِّب رشید حسن خاں نے بھی مثالوں اور وضاحتوں کے ذریعے
رجب علی بیگ سرور کے اسلوب،زبان اور طرزِ نگارش کی کمزوریوں اورخامیوں کو واضح کیا
ہے۔لیکن یاد رہے کہ ان باتوںکے باوجوداس کتاب کی مقبولیت اور قدرومنزلت میںآج بھی
کوئی حرف نہیںآیا۔ رشیدحسن خاںکاقول ملاحظہ فرمائیںوہ مقدمے میں اس کتاب کی کجی
سے متعلق رقم طرازہیں:
’’زبان
کے لحاظ سے بھی اِس( فسانۂ عجائب)میںبہت سے جھول تلاش کیے جاسکتے ہیں۔اُکھڑے
اُکھڑے سے جملے تواچھی خاصی تعدادمیں مل جائیںگے۔حسنِ بیان کا رنگ بھی کئی جگہ
اُڑاہوادکھائی دے گا۔لفظوں کابے محل صرف بھی ملے گا اور ایسا پیرایۂ بیان بھی ملے
گاجس کوبے کمالی کی نشانی بھی کہا جا سکتا ہے۔‘‘
)فسانۂ
عجائب، مرتب :رشید حسن خاں، مشمولہ
’مقدمہ‘، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی، 1990، ص17-16)
مذکورہ بالاسطورمیںجن باتوں پر اظہارِخیال کیا گیا ہے
اس کاہرگز یہ مطلب نہیںکہ رشید حسن خاں نے فسانۂ عجائب کو تنقیدی نقطۂ نظرسے
جانچا اور پرکھا ہے۔ تنقیدی جائزہ ایک الگ امر ہے، یہاں تدوینِ متن اورمتعلقاتِ
متن سے گفتگو مقصود ہے۔ ان باتوںکاحاصل صرف یہ ہے کہ فسانۂ عجائب کی قدر وقیمت کو
اجاگر کیاجائے اور داستان سے متعلق نثاراحمدفاروقی کے اعتراضات اورحرف گیری کا
مدلل انداز میںجواب دیاجائے،اوراس بات کو بھی واضح کردیا جائے کہ کلاسکی متون کی
تدوین میںاس کتاب کی شمولیت کیوں کر ضروری ہے،کن خوبیوں کی بنیادپراسے دوسرے فن
پاروںپرفوقیت دی جاتی ہے۔
ر شید حسن خاںنے فسانۂ عجائب کے تدوینی عمل کو دو حصوں
میں تقسیم کیا ہے، ایک تحقیق دوسرا تدوین۔ پہلے حصے میں متن کے نفسِ مضمون، متن کی
صحت اور اس کے عہد سے متعلق کچھ اہم معلومات کو اجاگر کرتے ہیں یہ ’تحقیق‘کا عمل
ہے۔ جب کہ دوسرے حصے میں صرف متن کے متعلقات پر روشنی ڈالتے ہیں یہ’تدوین ‘کا عمل
ہے۔اب چوں کہ واقعات کا تعین تحقیق سے کیا جائے گا لہٰذا اچھی تدوین دو حصوں میں ہی
ہوگی۔تحقیق کا حصہ مختصر اور تدوین کا حصہ جو مقصود بالذات ہے اور تصحیح متن ہی اس
کا اصل مقصد ہے وہ کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
ماہر لسانیات مسعود حسین خاںکا کہنا ہے کہ ’’لسانیات کا
یہ اٹل اصول ہے کہ بول چال کی زبان جتنی تیزی سے بدلتی ہے ادب کی زبان اس کا ساتھ
نہیں دے سکتی ‘‘اس لحاظ سے فسانۂ عجائب کی ترتیب وتدوین اشد ضروری ہوگئی تھی، کیونکہ
تقریباً دوصدیاں گزرنے کو ہیں جب یہ مقفّیٰ ومسجع داستان پہلی بار منظر عام پر آئی
تھی اورواقعہ یہ ہے کہ تمام اردو داں حضرات چاہے وہ اساتذہ ہوں یا طالب علم یا
پھربحیثیت قاری مذکورہ داستان کو پڑھتے ہیں اور زبان کی مشکل پسندی کے سبب الفاظ
کا صحیح تلفظ یا لفظوں کے صحیح مطلب تک نہیں پہنچ پاتے،ساتھ ہی فارسی زبان سے
ناواقفیت کے پیشِ نظر اور بھی زیادہ پریشانی محسوس کرتے ہیں۔اس لیے جہاںتک سمجھ میںآتی
ہے پڑھتے ہیںپھرواپس لوٹ جاتے ہیں۔ چونکہ فارسی کا چلن اب بالکل کالعدم ہوتا جارہا
ہے، اساتذہ ہوں یا پھر طالب علم یا بیشتراردو داں حضرات فارسی سے نابلد ہیں۔اس لیے
قدیم متون کو پڑھنااورسمجھنا ایک مشکل ترین عمل بنتاجا رہا ہے، لیکن رشید حسن
خاںنے اپنی بے انتہاکوششوں کے نتیجے میں فسانۂ عجائب کے مطالعے کو خاصاآسان بنادیا
ہے۔ ان کے ترتیب وتدوین کردہ اس اہم کام کی وجہ سے ادبی حلقوں کے علاوہ عام قاری
بھی اس مشکل داستان سے بآسانی لطف اندوز ہوسکتا ہے۔
اس مرتب کردہ داستان میں رشید حسن خاںنے ایک طویل
مقدمہ،سات ضمیمے، فرہنگ کے تین ابواب اور اشاریے کا اضافہ کردیا ہے۔101صفحات
پرمشتمل یہ طویل مقدمہ معلوماتی اورمعنی خیز ہے۔ اس میںمصنف کے احوال و کوائف کے
علاوہ کتاب کا نام،وجہِ تصنیف اورزمانۂ تصنیف،نوازش اور اصلاح، بیانِ لکھنؤکے
اختلافات،’آسان کہنے کی فرمائش،میرامن،باغ وبہار‘،ضمنی داستانیں،بندرکی تقریر،
زبان و بیان، سرورکاخاص انداز،قافیۂ مکتوبی،خطی نسخے،مطبوعہ نسخے،ایک جعلی ایڈیشن،بنیادی
متن، طریقِ کار، علامات، رموزِاوقاف،ضمیمے اورباعثِ تاخیرجیسی سرخیاںشامل ہیں۔ان
ضمنی سرناموں کو دیکھ کرہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک مقدمہ نہیںبلکہ اسے اپنے
آپ میںایک کتاب بھی کہا جاسکتا ہے۔اس مقدمہ نماکتاب میںمعلومات کا اتناذخیرہ
موجود ہے کہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مکمل کتاب کوسمجھنے اوراس سے بھرپوراستفادہ
کرنے کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیرحیثیت کا حامل ہوگا۔
سات ضمیموں میں پہلا ضمیمہ
’نثرہائے خاتمۂ کتاب‘کے عنوان سے ہے جو صفحہ نمبر 347سے شروع ہو کرصفحہ363 پرختم
ہوتاہے۔فسانۂ عجائب کی پہلی اشاعت کے وقت رجب علی بیگ سرورنے کتاب کے آخر میںایک
طویل نثر’شرف الدولہ‘کی مدح میںتحریر کی تھی۔اس کے بعد چار مرتبہ یہ داستان سرورکی
نظروں سے گزرنے کے بعداس طرح چھاپی گئی کہ
ہر مرتبہ مصنف نے کتاب کے خاتمے کی ایک نئی اور الگ نثرلکھی۔یعنی اشاعتِ اوّل
کوملاکرکل پانچ مرتبہ سرورنے نثرخاتمۂ کتاب لکھی۔ وہ پانچوںنثری تحریریں جسے رجب
علی بیگ سرور نے مختلف نسخوں کے آخر میںلکھا تھااشاعتی ترتیب کے ساتھ رشید حسن
خاںنے اس ضمیمے میںنقل کردی ہیں،اورہر تحریر سے قبل اُس نسخے کا سنہ اشاعت
اورمقامِ اشاعت کااحتمام بطورِخاص کیاہے،تاکہ یہ بھی علم ہو سکے کہ کون سی تحریر
کس نسخے سے لی گئی ہے اور اس میںکس طرح کی تفریق کی گئی ہے۔ شامل ہونے والی تحریروںکے
پانچوںنسخوںکی تفصیل اس طرح ہے:
1 تحریراول
1259ھ میرحسن رضوی کے مطبع حسنی لکھنؤکے نسخے سے۔
2 تحریردوم
1263ھ میرحسن رضوی ہی کے مطبع حسنی لکھنؤکے نسخے سے۔
3 تحریرسوم1267ھ
مطبع ِخاص محمدی کانپور کے نسخے سے۔
4 تحریرچہارم1276ھ
مطبع ِافضل المطابع محمدی کانپور کے نسخے سے۔
5 تحریرپنجم1280ھ
مطبع ِافضل المطابع فرنگی محل لکھنؤ کے نسخے سے۔
دوسرا ضمیمہ’تشریحات‘کی سرخی کے ساتھ شروع ہوتا ہے،جس کی
ابتداصفحہ نمبر364سے ہوتی ہے اور صفحہ394پریہ اختتام پذیرہوتا ہے۔ اس کاتعلق
داستان کے ان مقامات سے ہے جہاں جملے اور فقرے گنجلک تھے،نفسِ مضمون تک رسائی مشکل
تھی اورعبارت کے ثقیل اوربھاری بھرکم ہونے کی وجہ سے اصل مطلب تک پہنچ پانادشوارکن
معلوم ہورہاتھا،اس حصے میںان تمام مقامات کی مطلوبہ وضاحت کے ساتھ تشریح وتوضیح
کردی گئی ہے اور آخر میں ’اضافے‘ کی سرخی لگاکر الگ سے بھی ان چیزوںکی تشریحات
شامل کی گئی ہیںجوکسی اسباب وعلل کی بنیادپراپنی اصل جگہ نہیںرکھی جاسکیں۔ اس ضمیمے
کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی مددسے اصل متن کی تفہیم وتعبیرآسان ہو جاتی
ہے۔مشکل الفاظ کے معنی ومفہوم،تذکیروتانیث کا مسئلہ،حرکات وسکنات کی پیچیدگیاں،
اورایسی اصطلاحیںجوزمانے کے ساتھ متروک ہوگئیں یا ان کا برمحل استعمال کم ہوتاچلاگیا،ان
سب سے واقفیت ہوجاتی ہے۔ یہاں تذکیر و تانیث سے متعلق ایک مثال پیش کی جاتی ہے
تاکہ اس ضمیمے کوسمجھنامزیدآسان ہوسکے۔مثال دیکھیں:
’’لُنجوں
نے بٹیرپکڑے‘‘۔ن میں(ن سے مراد یہاںنسخۂ ثامن1283ھ ہے)
’بٹیرپکڑی‘
ہے۔لفظ ’بٹیر‘بہ لحاظِ تذکیروتانیث مشترک الفاظ میں سے ہے۔ فرہنگِ آصفیہ میںاِسے
’اسمِ مونّث ومذکر‘لکھا گیاہے۔صاحبِ نوراللغات
نے لکھا ہے کہ: ’’دہلی میں مونّث،لکھنؤمیںمذکرومونّث دونوںطرح بولتے ہیں۔‘‘
لیکن یہ درست نہیںکہ دہلی میں(صرف)مونّث ہے۔صاحبِ فرہنگِ آصفیہ نے ’بٹیربازی‘ کے
تحت جو طویل عبارت لکھی ہے،اس میں ہر جگہ بٹیر کومذّکرلکھا ہے، … دہلی اور لکھنؤ دونوںجگہ استعمال میںبیش
تربہ تذکیر رہا ہے اوراسی نسبت سے یہاں’بٹیر
پکڑے‘ لکھا گیاہے۔اس جملے میںفاعل’لُنجو‘ہے اوراس کاتقاضابھی یہی ہے کہ یہاں ’بٹیرپکڑے‘لکھا
جائے۔‘‘
)فسانۂ
عجائب، مرتب :رشید حسن خاں، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی، 1990، ص 390)
تیسرا ضمیمہ’اِنتسابِ اشعار‘ کے عنوان سے ہے،جو صفحہ
نمبر395سے لے کرصفحہ 413تک کا احاطہ کرتا ہے۔فسانۂ عجائب میںرجب علی بیگ سرور نے
جو اشعار استعمال کیے ہیں ان میں زیادہ تر ان کے استاد’آغا نوازش حسین خاںنوازش‘
کے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے مختلف شعرا کے اشعار بھی درج کیے ہیں۔ لیکن اشعار نقل
کرتے وقت رجب علی بیگ سرور سے کئی طرح کی چوک ہوئی ہے مثلاً: کچھ اشعار غلط کو ڈکیے
ہیں، شاعر کا نام کئی مقامات پر غلط لکھ دیا ہے یا پھر شاعر کا ذکر ہی نہیں کیا
ہے۔ رشیدحسن خاںسے جتنا ممکن ہوسکاانھوںنے غلط اشعار کی وضاحت،نامعلوم شعرا کے نام
اور الحاقی شاعروں کے مقابلے میں صحیح اور درست شاعروں کا سراغ لگاکر ان کی نشاندہی
کردی ہے۔ میرتقی میر، میرسوز، آغانوازش اور ناسخ وغیرہ کے جن اشعار کو ان کے جس
کلیات یا دیوان سے لے کر تصحیح کی ہے رشیدصاحب نے ان کی بھی وضاحت کردی ہے۔ اسی
طرح کون سے اشعار کس مثنوی،مرثیے یا قصیدے سے ماخوذہیں ان کا بھی ذکردیکھنے کو
ملتا ہے۔ بطورِ نمونہ یہاںایک مثال پیش کی جاتی ہے تاکہ کام کی نوعیت کااندازہ
بآسانی لگایا جاسکے۔
’’چاک
کوتقدیر کے ممکن نہیںکرنارفو
سُوزَنِ تدبیرساری عمرگُوسیتی رہے‘‘
مذکورہ بالاشعرفسانۂ عجائب مرتب رشید حسن خاںکے اصل
متن میں(ص 43)پردرج ہے۔اس شعر کی بابت رجب علی بیگ سرورسے دوغلطیاںہوئی ہیں۔ ایک
تویہ کہ انھوںنے اس شعرکو مرزا محمد رفیع سودا کی طرف منسوب کیاہے، دوسرے یہ کہ
شعربھی غلط لکھاہے۔ لیکن رشید حسن خاںنے تلاش و جستجو کے بعداسے جعفرعلی خاںزکی
کابتایاہے اوریہ مبنی برحقیقت ہے۔ رشید حسن خاں تیسرے ضمیمے میں لکھتے ہیں:
’’یہ
شعر تذکرہ ٔمیر حسن میں جعفرعلی خاںزکی کے نام لکھا ہواہے اوریہی صحیح معلوم ہوتا
ہے۔ (کلیاتِ سودانول کشوری اڈیشن میں یہ موجود نہیں)تذکرے میںیہ شعراس طرح ہے ؎
چاک کو تقدیر کے ممکن نہیںہونارفو
تاقیامت سُوزَنِ تدبیراگرسیتی رہے
)فسانۂ
عجائب، مرتب :رشید حسن خاں، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی، 1990، ص 398)
چوتھے ضمیمے کا عنوان ’اشخاص،مقامات،عمارتیں ‘ہے۔ یہ ضمیمہ
اپنی تمام خوبیوںکے ساتھ صفحہ نمبر 414 سے شروع ہوکرصفحہ442 پر ختم ہوتا ہے۔رجب علی
بیگ سرورنے کتاب کے دیباچے میں صفحہ 1 سے صفحہ31تک جتنے افراد، مقامات اور
عمارتوںوغیرہ کے نام ذکر کیے ہیں(جن میں شعرا کے تخلص بھی شامل ہیں) اس ضمیمے میںاُن
سب کی تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔اُن اشخاص،مقامات اور عمارتوں کے نام حروف تہجی کے
اعتبارسے ترتیب وارنقل کیے گئے ہیں۔جن کی تفصیلات اس طرح ہیں: آتش، آغا باقر کا
امام باڑہ، ابوتراب خاںکاکٹرا،استر ی منجن،اسدعلی(حکیم،سید)اکبرثانی،امام باڑہ،
اندراسن، انوار (مولوی) ایسری پرشاد(مہاراجا)بخشو،برق،پراچیوںکی گلی، پکاّپُل،
جلوخانہ، چھجّو خاں، حسین علی خاں، خواجہ باسط،خواجہ حسن،خواجہ حسین،دلکشا،دلگیر،دوازدہ
امام کی درگاہ، دھنیاکہاری، رومی دروازہ،
سر راہ کی بارہ دری،سید حسین خاںکے کٹرے کا دروازہ،سیدمحمد(مجتہد)شاہ پیر
محمد،شاہ خیراللہ، شوری، ظہوراللہ (مولوی )عبدالرحمن (مولوی)عطاحسین خاں،عمدو(مولوی)عیش
باغ،غلام رسول، فرح بخش، فرنگی محل،فرنگی محل کا میلا،قدسیہ محل،کاظم علی(مرزا)کولی(شیخ)کھجوا،گلاب
باڑی،گلشنِ ارم، مبین (مولوی) محمد (آغا محمد تبریزی قادری)محمدرضا(اخوند)محمد یعقوب
انصاری،مخدوم(مولوی سید)، مرزائی صاحب، معتمدوالدّولہ، مکّا(خیّاط)منصورنگر،موتی
جھیل، مولوی، میرامن، میرعلی (خطّاط) میر علی (سوزخاں) میرک جان، میرنصیر، نصیرالدین
حیدر،نوازش،نہر،نیریزاوریاقوت رقم۔ اس کے علاوہ چارایسے ناموں کاذکربھی اس ضمیمے میں
موجود ہے جن کاتذکردیباچے میں نہ ہوکراصل متن میںکیاگیاہے۔وہ نام یہ ہیں:حسین بیگ(مرزا)،درگاپرشادمدہوش،للوجی
اورگھنٹابیگ کی گڑھّیا۔مصنف کے دیباچے اوراصل متن میںچند نام ایسے بھی مل جائیںگے
جو صفاتی طور پر استعمال ہوئے ہیں جیسے:جم شوکت، رستم اور حاتم وغیرہ۔انھیںاس ضمیمے
میںشامل نہ کر کے فرہنگ والے زمرے میں جگہ دی گئی ہے۔کیونکہ ان ناموں سے اشخاص
مراد نہ ہوکرناموں کی مناسبت سے ان کی صفات مقصودبالذات ہیں۔
واضح رہے کہ داستان میںاستعمال ہونے والے معروف شعراکے
نام یا تخلص جیسے: میر،سودا، مصحفی اور انشا وغیرہ اور مشہورشہروںکے نام مثلاً:دہلی،کلکتہ،لکھنؤ،کان
پور اورملتان وغیرہ کی وضاحت سے رشید حسن خاںنے اس ضمیمے میں پرہیزکیا ہے۔ظاہر ہے
شہرت یافتہ اشخاص اورمقامات سے تقریباًسبھی واقف ہوتے ہیں۔لہٰذاان کے متعلق تفصیلات
کی ضرورت محسوس نہیںکی گئی۔لیکن اس ضمیمے میں چند ناموںکا ذکربھی موجودہے جو عام
وخاص کے درمیان مقبول عام کی سند رکھتے ہیں مثلاً: آتش، میرامن اورعطاحسین خاںتحسین
وغیرہ۔حالاںکہ مرتِّب اپنے مقدمے میںاس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ یہ ضمیمہ معروف
لوگوںاورمشہورمقامات سے پاک ہے۔تاہم یہاںمذکورہ بالا اشخاص کے ذکرکاجواز کسی طرح پیدانہیں
ہوتا۔
پانچواں ضمیمہ ’تلفظ اور املا‘ کی سرخی کے ساتھ صفحہ
نمبر443سے صفحہ516 تک پھیلا ہوا ہے۔ جس میں داستان کے مخصوص الفاظ کے املے کی
درستگی اور الفاظ پر اعراب لگانے کی وجہ بھی بیان کردی گئی ہے۔ یہ رشید حسن خاںکا
خاص میدان ہے جس سے اردو نثر کے قدیم متون کو سمجھنا اور پڑھنا خاصا آسان ہوگیا
ہے۔ اس حصے میںکچھ کمیاںنظرآتی ہے مثلاًرشیدصاحب کے لگائے ہوئے اعراب خود ان کے بنائے ہوئے اصول وضوابط سے ٹکراتے ہیں،
جس کی طرف نثاراحمدفاروقی نے اپنے مضمون ’فسانۂ عجائب پرایک نظر‘ میںبطورخاص
اشارے کیے ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کی چندجگہوںپر زبان وقواعدکے اصول اور رشید
حسن خاںکے رموزواوقاف میں ٹکراؤکی صورت پیداہورہی ہے،لیکن اس کے بعد بھی اس ضمیمے
کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔واقعہ یہ ہے کہ فسانۂ عجائب کی قرأت ہمیشہ سے طالب
علموں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لیے بھی کسی چیلنج سے کم نہیںرہی۔الفاظ کے صحیح تلفظ
اوراملاکی درست لکھاوٹ کے بغیرعبارت کے اصل مفہوم تک رسائی ممکن نہیں،اوراس مسئلے
کو حل کرنے میںرشید حسن خاںبڑی حد تک کامیاب نظرآئے ہیں۔ یہاں کام کی باریک بینی
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک چھوٹی سی مثال پیش خدمت ہے:
’’
دست آویز(ص78)سب نسخوں میںاسی طرح ہے،یہ اس لفظ کا قدیم
املا ہے۔ فارسی میںتوعموماً’’دست آویزملتا ہے،اگرچہ اب اردووالے’’دستاویز‘‘لکھتے
ہیں۔ اس لفظ کے اس قدیم املا کو برقرار رکھا گیا۔‘‘
)فسانۂ
عجائب، مرتب :رشید حسن خاں، انجمن ترقی
اردو ہند، نئی دہلی، 1990، ص 475)
چھٹے ضمیمے کا سرنامہ ’الفاظ اور طریقِ استعمال ‘ ہے۔یہ
ضمیمہ صفحہ نمبر 517 سے صفحہ 526تک
کااحاطہ کرتاہے۔ اس میںاصل متن سے ایسی عبارتیں، جملے اورلفظوںکے ٹکڑے یک جا کیے
گئے ہیں جو مصنف کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ بطورِخاص یہ حصہ ان اسکالرزکے لیے زیادہ
مفید ثابت ہوگا جو اُس قدیم عہدکی زبان وبیان پر تحقیقی کام انجام دے رہے ہوں۔اس
ضمیمے میں موجودجملوںاورفقروں سے رجب علی بیگ سرور کی زبان کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ان
کی طرزنگارش میںموجود خوبیاں ایک طرف مگر اس میںپراناپن،غیرضروری جملوںکی بہتات
اورلفظوںکابے محل استعمال بھی خوب دیکھنے کوملتاہے۔ جیسے: جمع الجمع، عدد
ومعدوداور واحد اور جمع وغیرہ۔یہ ایسے الفاظ ہیں جن کے استعمال میںرجب علی بیگ
سرور سے غلطی ہوئی ہے۔ ان میں بہت سے جملے ایسے ہیںجوفی الوقت متروک اور غیر
مستحسن الفاظ کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں اورکچھ کاتوطریقِ استعمال ہی اب مستعمل
نہیں رہا۔ یہاں ان سب کی نشان دہی کردی گئی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میںمصنف کی
ناتجربہ کاری اورکم مشقی کابڑادخل ہے،کیوںکہ یہ ان کی پہلی تصنیف تھی۔
ساتواں اور آخری ضمیمہ ’ اختلاف نُسَخْ‘ کے بارے میں
ہے۔جو صفحہ نمبر527سے لے کر صفحہ 540تک ہے۔اس میں صرف دیباچۂ فسانۂ عجائب(جسے
رجب علی بیگ سرور نے اصل متن سے پہلے ص1سے ص31 تک تحریر کیا تھا)کا ہی اختلاف نسخ
موجود ہے۔رشید حسن خاںنے کتاب کے مکمل متن پر مشتمل 85صفحات میں اختلاف نُسخ کا ضمیمہ
تیار کیا تھا مگر افسوس کہ ضخامت کے پیشِ نظر اختلاف نُسخ کے وہ صفحات جو اصل متن
سے متعلق تھے حذف کرنے پڑے اورپچاسی(85)صفحات
پر مشتمل معلومات محض چودہ(14)صفحے تک محدودہوکررہ گئی۔یعنی صرف14صفحات میںدیباچۂ
کتاب کے اختلاف نُسخ والاحصہ ہی اس ضمیمے میںشامل کیا جاسکا۔اس واقعے کی پوری تفصیل
رشیدحسن خاںنے مقدمے میں بیان کردی ہے جسے (ص110اور111)میں دیکھاجاسکتاہے۔ ظاہرہے
اس عمل سے بہت سی اہم باتیں شاملِ کتاب ہونے سے رہ گئی ہوںگی۔ بہر حال آٹھ نسخوں
سے مل کر تیار ہوئے اختلاف نسخ کے اس ضمیمے میںیہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پہلے
نسخے کے دیباچے میںمصنف نے جو باتیںلکھی تھیںاس کے مقابل بعد کے آنے والے نسخوںکے
دیباچوںمیںبہت سی باتیںتبدیل کردی ہیں۔مطالعے کے بعداندازہ ہوتاہے کہ
چندجگہوںپرپوری پوری عبارتیں ہی بدل دی گئی ہیںتو کچھ مقامات پرجملے،فقرے
اورلفظوںکی تبدیلی پراکتفاکیاگیاہے۔رشیدحسن خاں نے انتہائی جاںفشانی سے ایک ایک
لفظ کے فرق کوپوری صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
رشید حسن خاںنے جس باریک بینی سے کتاب کے اصل متن کی
تصحیح کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ساتھ ہی تمام ضمیموںکے تیار کرنے میںجس دل جمعی
اورسلیقہ مندی کا مظاہرہ کیاہے وہ دیکھتے ہی بنتاہے۔کتاب کے مطالعے سے ان سب
کابخوبی مشاہدہ کیاجاسکتاہے۔اس سلسلے میں’’ نیّرمسعود‘‘کایہ قول بھی اس بات کی اہمیت
کی طرف اشارہ کررہاہے۔عبارت ملاحظہ فرمائیں:
’’واقعہ
تویہ ہے کہ اس کاہرضمیمہ بھی قریب قریب ایک پی ایچ۔ڈی تھیسس کی اہمیت رکھتاہے۔‘‘
)رشیدحسن
خاںتحریروںکے آئینے میں، مرتب ابراہیم افسر، مشمولہ’ فسانۂ عجائب مرتّبۂ رشیدحسن
خان ‘ ایچ-ایس-آفسیٹ پرنٹرس،دہلی2019
جلددوم۔ص333)
ضمیموںکی تکمیل کے بعد’ فرہنگ‘ کا نمبر آتا ہے۔جس کی
ابتداصفحہ نمبر 541سے ہوتی ہے اور صفحہ 594پراس کا اختتام ہوتاہے۔ اس کے تین حصے ہیں۔
’الف‘ اس میں عام الفاظ ہیں۔’ب‘ اس میں عربی عبارتوں کے معنی ہیں۔ ’ج‘ اس میں فارسی
اشعاراور مشکل وگنجلک جملوں وفقروں کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس حصے میں لفظوںکے وہ معنی
بتانے پر زیادہ زور صرف کیا گیا ہے جن معنوں میںوہ اصل متن کے اندراستعمال ہوئے ہیں۔جہاں
جہاںایک لفظ کے کئی معنی لکھے گئے ہیںاُس کی وجہ یہ ہے کہ اس لفظ کی مزیدوضاحت
ہوجائے اوربس۔بعض الفاظ کے آگے ان کی صفات کاذکربھی کردیاگیاہے اورحوالے کے طور
پروہ صفحہ نمبردیاگیا ہے جہاںداستان کے متن میںان کاذکر پہلی دفعہ آیاہے۔بہت ممکن
ہے کہ داستان کے دوسرے مقامات پر وہی لفظ اپنی الگ صفات کے ساتھ استعمال ہوا ہو۔
اگرایک ہی لفظ مختلف جگہوں پرالگ الگ صفاتی معنی کے ساتھ مستعمل ہوتوہر ایک کااپناصفحہ
نمبر ڈالنا ضروری قرار پائے گا۔لیکن فرہنگ کے حصے میںاس کااہتمام نہیںکیاگیا۔رشیدحسن
خاں کی کشادہ دلی ہے کہ انھوں نے مقدمے میںاپنی اس کمی کااعتراف بھی کیا ہے۔
فرہنگ کے بعد ’اشاریہ‘کا اہتمام دیکھنے کوملتاہے۔یہ
اشاریہ صرف کتاب کے اصل متن پرمبنی ہے۔ یعنی مرتب کاتیارکردہ مقدمہ اورضمیموں وغیرہ
کی تفصیلات اس حصے میںشامل نہیں ہیں۔ یہاں ایک بات قابل غورہے کہ رشیدحسن خاںنے
فسانۂ عجائب کی ترتیب کے بعدجو مقدمہ لکھاان کے صفحات کاشماربشمول پیش لفظ،حرفِ
آغازاورفسانۂ عجائب کی فہرست کے علاحدہ تیارکیاہے۔جب کہ داستان کے اصل متن کی
شروعات ازسرنوصفحہ نمبرایک سے کی ہے۔یعنی ص1سے ص116تک خاں صاحب کا تحریر کردہ
مقدمہ ہے۔اس کے بعدداستان کی اصل عبارت
دوبارہ صفحہ نمبر1سے شروع ہو کرضمیموں، فرہنگ اوراشاریے کے ساتھ صفحہ
نمبر601پر ختم ہوتی ہے۔
اس قدرنکتہ شناسی کے باوجود بھی ترتیب وتقدیم کے وقت
کچھ کمیاںاورکوتاہیاںضرورجگہ پاگئی ہیں۔ اس بات سے قطعِ نظر دورانِ تدوین چھوٹی سے
چھوٹی باتوں کا اہتمام پوری داستان میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً ہائے مخلوط اور ملفوظ کی صورت کا
لحاظ رکھا ہے، یائے معروف اور مجہول میں امتیاز برتا ہے، تشدید کا التزام کیا ہے،
پیش کے استعمال کے لیے اصل متن میںلفظ اُس کی جگہ’او س‘ اورلفظ اُستاد کی جگہ’
اوستاد‘ ملتا ہے، ہر جگہ سے لفظ’ و‘کوہٹاکر پیش لگا یا ہے۔ پوری کتاب میں پیراگراف
کا کوئی اہتمام نہیں تھا جس سے عبارت اور واقعات خلط ملط ہورہے تھے، اس سے بچنے کے
لیے پیراگراف تیار کیے ہیں۔ آخری لفظ میں جہاں بھی نون غنہ (ں) تھا ان سب پر نقطہ
یعنی(ن) ملتا ہے اس کی تصحیح کی ہے۔ داستان میں کہیںبھی اضافت کا زیر نہیں ملتا
ہے، ساری اضافتوں پر زیر کا اہتمام کیا ہے۔ اسی طرح لفظ ’اُس‘ کے مقابلے میں
لفظ’اِس‘ پر لازماً زیر لگایا ہے اورساتھ ہی علامات، نشانات، اعراب اور رموز
ِاوقاف کو شامل کرکے عبارت آرائی کو سہل اور آسان بنادیا ہے۔ قدیم عہد میں الفاظ
کے آخرمیںلفظ ’ہ‘ خوش نمائی کی غرض سے بڑھادی جاتی تھی مثلاً ’کچھہ‘ اور ’ہاتھہ‘
وغیرہ۔ان کو درست کرکے ’کچھ‘ اور’ ہاتھ‘ کر دیا ہے۔ عہد مصنف میں لفظوں کو ملاکر
لکھنے کا رجحان عام تھا مثلاً’کرنیلگا‘ اور’اوسنے‘ وغیرہ۔ مرکبات کو الگ کرکے صحیح
اور درست متن تیار کیا ہے۔ اصل کتاب میں استعمال ہوئے لفظوں پر علامتوں کا اہتمام
بھی رشید صاحب کا خاص عمل ہے۔ یائے معروف کے نیچے کھڑا زیر، یائے مجہول کے پہلے
والے حرف پر زیر،یائے لین کے ماقبل حرف پر زبر، واؤ معروف پر الٹا پیش، واؤ
مجہول کے ماقبل حرف پر پیش، واؤ معدولہ کے نیچے خط، تخلص پر بت،خاص خاص ناموں پر
خط، جیسی علامتیں لگاکر اردو ادب کے دیوانوں اور متوالوں کے لیے ایک منفرد رنگ روپ
کی کتاب پیش کی ہے۔ تاکہ اس کو ہرتعلیم یافتہ اورخواندہ بآسانی پڑھ سکے اور بھر
پور حظ حاصل کر سکے۔مندرجہ بالاسطروںمیں کہی گئی باتوںکی دلیل کے طوریہ اقتباس دیکھیں
جہاں’شہزادہ جان عالم‘ ’ملکہ مہر نگار‘ کے والد سے وطن واپس لوٹنے کی رخصت طلب کرتا
ہے۔اس اقتباس میںاعراب اوررموزِاوقاف کاکس طوراہتمام کیاگیاہے۔ عبارت ملاحظہ فرمائیں:
’’شہزادہ
مُوافِقِ معموٗل دربار میں آیا اور سلسلۂ سخن بہ طَلَبِ رُخصت وطن کھول کے،
عَزْم بالجَزم سنایا۔ بادشاہ محزوٗن وغم ناک ہو فرمانے لگا: یہ کیا کہا،جو کلیجا
منہّ کو آنے لگا ! جانِ مَنْ !تابِ جدائی نہیں، رُخصت ِ بادیۂ پیمائی نہیں۔ اگر
خواہش ِ سیر ہے، تو فِضا اس نواح کی جابہ جا مشہور ہے۔ خزانہ موجود، فوج فرماں
بردار، مُلک حاضِر، میری جاں نثار،اگر منظور ہے۔حکمِ سفر، اجازت دوری بہت دور ہے۔‘‘
)فسانۂ
عجائب، مرتب: رشید حسن خاں، انجمن ترقی
اردو ہند نئی دہلی، 1990، ص 17)
مذکورہ عبارت سے یہ صاف ہوجاتاہے کہ کتاب میںروانی پہلے
کے مقابلے میںبڑی حدتک بڑھ گئی ہے۔اورنثاراحمدفاروقی کے وہ اعتراضات کہ
اعراب،رموزِاوقاف اورعلامات وغیرہ کے لگانے میںرشید صاحب سے اغلاط واقع ہوئی ہیں
اوریہ کہ مذکورہ کتاب منشائے مصنف کے بجائے منشائے مرتِّب کے مطابق زیادہ ہے۔تو’ نیّرمسعود‘کایہ
قول بھی دیکھیںوہ لکھتے ہیں:
’’رشیدحسن
خاںنے کوشش کی اوربہت حدتک کامیاب رہے کہ یہ علاماتِ اوقاف جوہیں،اس طرح لگائیں کہ
متن تقریباًاپنی شرح آپ کرتا چلے یہ اس کااصل معیار ہے اوراس کو انھوںنے ملحوظ بھی
رکھاہے۔اب اس میںیہ ضرورہوگا کہ کہیں آپ کو
اختلاف بھی ہوگاکہ مثلاًآپ نے یوںلکھا ہے لیکن یہ کاماہمارے نزدیک یہاں نہیں
وہاںہوناچاہیے تھا۔‘‘
)رشیدحسن
خاں تحریروںکے آئینے میں، مرتب ابراہیم افسر، مشمولہ’فسانۂ عجائب مرتّبۂ رشیدحسن
خاں ‘ ایچ-ایس-آفسیٹ پرنٹرس،دہلی2019، جلددوم،ص332)
فسانۂ عجائب کی ترتیب وتقدیم کے وقت رشید حسن خاں کا
اصل مقصد اس متن کو پیش کرنا تھا جسے مصنف نے آخری مرتبہ تصحیح کرکے بنیادی نسخے
کے طورپر پیش کیا تھا، ساتھ ہی مختلف نسخوں سے اس آخری نسخے میں جو فرق ہے وہ بھی
واضح کرنا مقصود تھا۔ اسی لیے انھوںنے آٹھوں نسخوں کو سامنے رکھا جو اپنے آپ میں
بڑی محنت، مشقت اور دیدہ وری کاکام ہے۔تدوینِ متن اوراس کے متعلقات کے تناظر میںآخری
نسخہ جومصنف کی نظر سے گزرکر آیاہواس کی کیا اہمیت ہوتی ہے اس کااندازہ اس بات سے
بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ فسانۂ عجائب کے اکثر نسخے میںمصنف نے’بیانِ لکھنؤکے
آغاز‘ میںیہ عبارت لکھی ہے’مرزارجب علی تخلص سرورمتوطّن خطّۂ بے نظیردل پزیر‘لیکن1882میںمنشی
نول کشور پریس سے شائع شدہ ایڈیشن میںیہی عبارت اس طرح ہے’’رجب علی تخلص
سرورمتوطّن حال خطّۂ بے نظیردل پزیر‘‘یعنی اس عبارت میں دو فرق ہے،ابتدا میںلفظ’مرزا‘کوحذف
کردیا گیا ہے اوردرمیان میںلفظ’حال‘کا اضافہ ہے۔ ابتدا میںحذف کیے گئے لفظ
’مرزا‘سے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑا مگر درمیان میں اضافہ شدہ لفظ ’حال‘کااثریہ ہوا
کہ ’مخموراکبرآبادی‘ نے اپنے تیارکردہ ایڈیشن میںجوالٰہ آباد سے شائع ہواتھا رجب
علی بیگ سرورکاوطن اکبرآبادقراردے دیا۔اس کی وضاحت مخموراکبرآبادی کے تیارکردہ
مقدمہ کے( ص4)میںدیکھی جاسکتی ہے۔ اس دعوے کی بنیادی وجہ صرف اس تحریفی جملے
’متوطّن حال‘پر موقوف معلوم ہوتی ہے،کیوںکہ مخموراکبرآبادی کی مرتب کردہ فسانۂ
عجائب میںمتوطّن حال والی ہی عبارت درج ہے۔
فسانۂ عجائب کی تدوین میں رشید حسن خاں نے نسخۂ ’ل‘
کو بنیاد بنایا ہے اس لیے کہ ان کی تحقیق کے مطابق مصنف کے ہاتھ سے درست کیا ہوا یہ
آخری نسخہ ہے۔ترتیب کے دوران انھوںنے جن جن نسخوں سے استفادہ کیا ہے ان سب کی
علامتیں بھی وضع کی ہیں تاکہ امتیاز اورفرق باقی رہے۔ وہ علامتیں اس طرح ہیں
مثلاً: 1259ھ میں شائع ہونے والے نسخۂ اوّل کو ’ح‘ سے، نسخۂ ثانی1262ھ کو ’م‘
سے،نسخہ ثالث1262ھ مطبع حیدری کو ’د‘ سے، نسخۂ رابع 1263ھ کو ’ض‘ سے،نسخۂ
خامس1267ھ کو ’ک‘ سے، نسخۂ سادس 1276ھ کو ’ف‘ سے،نسخہ سابع 1280ھ کو ’ل‘ سے، اورنسخہ
ثامن1283ھ کو ’ن‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ چیزیں قاری کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہیں
تاکہ وہ الجھاؤ سے بچ کر پورے انہماک اور یک سوئی کے ساتھ مطالعہ کر سکے۔
داستان فسانۂ عجائب کااصل نسخہ محض347صفحات پر مشتمل
ہے۔لیکن ترتیب وتدوین کے بعداس داستان کی ضخامت719صفحات کی ہوجاتی ہے۔ اس طوالت سے
رشید حسن خاںکے کام کی نوعیت اور اس کی گہرائی وگیرائی کا بخوبی اندازہ لگایا
جاسکتا ہے۔خاں صاحب کی تدوین نے فسانۂ عجائب کے اصل متن کو سہل اورآسان بنادیا
ہے،تاہم داستان کا ہر گوشہ اس طرح واضح اور صاف ہوگیا ہے جیسے رات کی تاریکی میں
کھلے اور صاف آسمان میں تارے جگمگاتے ہیں۔ کتاب کے اصل متن کے ساتھ خاںصاحب کے
تدوینِ متن کا حصہ اس طرح اٹوٹ رشتے میں بندھ جاتا ہے کہ اس کو الگ نہیں کیا
جاسکتا۔لاہورسے تعلق رکھنے والے ’ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی‘ کے اس قول سے بڑی حدتک
مذکورہ خیالات کی تصدیق کی جاسکتی ہے:
’’جناب
رشیدحسن خاںکی مرتبہ’ فسانۂ عجائب‘( 1990)اور’باغ وبہار‘( 1992) اسی سلسلے کی
تازہ ترین کڑی ہے،اردوکے تدوین شدہ ذخیرۂ کتب میںرشیدحسن خان کا مدوّن یہ نمونہ
قطعی منفرداوربے مثال ہے اور’چیزے دیگری‘کے ذیل میںآتا ہے جوشخص متذکرہ
نسخوںکامطالعہ کرے گاوہ اس کی تصدیق پرمجبورہوگا۔‘‘
)رشیدحسن
خاں تحریروںکے آئینے میں، مرتب ابراہیم افسر۔مشمولہ ’فسانۂ عجائب، باغ وبہار،
مرتبہ رشیدحسن خان ایک تعارف ایک جائزہ‘ ایچ-ایس-آفسیٹ پرنٹرس، دہلی 2019جلددوم،
ص 355-56)
سچ تو یہ ہے کہ رشید حسن خاں کوتحقیق،ترتیب،اورتدوینِ
متن کے میدان میںایک قدآورشخصیت کی حیثیت سے شہرت اوربلندی حاصل ہے۔کلاسیکی متون
کی تصحیح و تدوین اور ان کی پیش کش کاکام تحقیقی ذوق اورتنقیدی شعوردونوں کا
مطالبہ کرتا ہے اوریہ دونوںصفات رشیدحسن خاںکے اندردرجۂ کمال کوپہنچی ہوئی ہیں۔اس
میدان میںانھوں نے جوکارہائے نمایاںانجام دیے ہیںاس سلسلے میںوہ ہم سب کے شکریے
اورتبریک کے مستحق ہیں۔ آخرمیںخاں صاحب کے علم وہنرکے معترف مخمورسعیدی کی غزل کے
دوشعردیکھیںجس سے ان کی انفرادیت کومزیدتوانائی ملتی ہے۔یہ غزل بطورِخاص رشیدحسن
خاںکے لیے ہی خلق کی گئی تھی جسے مخمورسعیدی نے خاں صاحب پرلکھے اپنے مضمون کی
ابتدا میں شامل بھی کیا ہے۔
مصدرِعلم و فضل ذات تری
تجھ سے مشتق ہیں سب صفات تری
سب سے ممتاز ہمسروں میں تو
مختلف سب سے کائنات تری
مآخذ ومنابع
1 رشید
حسن خاںکے تحقیقی وتدوینی متعلقات، مرتب ابراہیم افسر، اصیلا آفیسٹ پرنٹرس،نئی
دہلی2023
2 رشید
حسن خاںکی ادبی جہات، ڈاکٹرابراہیم افسر،اصیلا آفیسٹ پرنٹرس،نئی دہلی2021
3 رشید
حسن خاںحیات اورادبی خدمات،مرتب اطہرفاروقی ،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی2002
4 تدوین
متن کی روایت آزادی کے بعد: ڈاکٹر صابرعلی سیوانی ،روشان پرنٹرس دہلی 2021
5 فسانۂ
عجائب ، مرتب رشید حسن خان،انجمن ترقی اردو ہند نئی دہلی 1990
6 رشید
حسن خاں تحریروں کے آئینے میں، مرتب ابراہیم افسر،ایچ، ایس آفیسٹ پرنٹرس دہلی،جلداول2019
7 رشید
حسن خاں تحریروں کے آئینے میں، مرتب ابراہیم افسر،ایچ، ایس آفیسٹ پرنٹرس دہلی،جلددوم2019
8 رشید
حسن خاںکچھ یادیںکچھ جائزے ،مرتبین ڈاکٹرمحمدآفتاب،اشرف،جاویدرحمانی،مکتبہ
الحرا،محلہ رحم،گنج، دربھنگہ،بہار2008
9 مونوگراف
رشیدحسن خاں:عبدالحمید،قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نئی دہلی2017
10 رشیدحسن خاں(کلام
غالب کے شارح) عمیرمنظر، غالب انسٹی ٹیوٹ2019
11 ماہنامہ آج کل،نئی
دہلی،نومبر1993
12 ہفت
روزہ ہماری زبان،انجمن ترقی اردو ہند نئی دہلی،مارچ1993
13 نیادور،لکھنؤ،دسمبر2021
14 ادبی میراث،ویب
سائٹ اگست2021
Mo Faisal Khan
Research Scholar, Dept of Urdu
Delhi University
Delhi- 110007
Mob.:9918998144
fk.nadwa123@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں