7/1/25

حلقۂ ارباب ذوق اور نظم نگاری میں ہیئتی و موضوعاتی تجربات، مضمون نگار: معصوم زہرا

 فکر و تحقیق، اکتوبر-دسمبر2024

تلخیص

اردو نظم نگاری کا بہ نظرغائر مطالعہ کیاجائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے بعد حلقۂ ارباب ذوق نے اردو نظم نگاری میںناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ حلقۂ ارباب ذوق سے وابستہ شعرا نے ہیئتی وموضوعاتی تجربات سے اردو نظم نگاری میں جدت پیدا کی اور نظم نگاری ان کی اصل شناخت بن گئی۔ ان فنکاروں نے قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے نظم کے مروجہ اصولوں میں تبدیلی پیدا کی جو ان کے شعری نظریات سے پوری طرح ہم آہنگ تھی۔

حلقۂ ارباب ذوق کا آغاز 1939 کو ہوا۔ ابتدا میں حلقۂ ارباب ذوق کا نام ’بزم داستان گویاں‘ رکھاگیا، پھر محمد باقر کی تجویز پر حلقۂ ارباب ذوق رکھاگیا۔ 1940 کے آخر تک پہنچتے پہنچتے حلقۂ ارباب ذوق بہت مقبول ہوچکا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک ساتھ دو تحریکیں منصہ شہود پر تھیں، ایک طرف ترقی پسند تحریک اپنے قائم کردہ اصول وضوابط کے تحت اردو شاعری کے گیسو سنواررہی تھی تو دوسری طرف حلقۂ رباب ذوق۔ ترقی پسند تحریک ’ادب برائے زندگی‘ کے نظریے کی قائل تھی اورحلقۂ ارباب ذوق کی تحریک کانظریہ ’ادب برائے ادب‘ تھا۔ حلقۂ ارباب ذوق کے اہم شعرا میں میراجی، ن م راشد، ممتاز صدیقی،یوسف ظفر، قیوم نظر، ضیا جالندھری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان شعرا میں اہم نام میراجی کا ہے جن کی شمولیت سے حلقہ کے قدم جدیدیت کی طرف تیزی سے بڑھنے لگے اورمیراجی کو حلقہ کے بنیادی رکن اور روح رواں کی حیثیت حاصل ہوئی۔

کلیدی الفاظ

بزم داستان گویاں، حلقۂ ارباب ذوق، نصیراحمدجامعی، ادبی دنیا، میراجی، ن م راشد، قیوم نظر، یوسف ظفر، مختار صدیقی،خارجیت، داخلیت، ہنس رام رہبر، دیوندرستیارتھی، بہترین نظمیں، جدت پسندی، ہیئت، آزاد نظم، مغربی شاعری، تحلیل نفسی، جنسیت، ابہام، علامت۔

———

’بزم داستان گویاں‘ کا قیام اس وقت عمل میں آیا، جب ترقی پسند تحریک بام عروج پر تھی۔ شعرا و ادبا ترقی پسند تحریک کے قائم کردہ اصول و ضوابط کے تحت جوہر قلم کی آزمائش کررہے تھے۔مجاز، جوش، فیض، علی سردار جعفری وغیرہ جیسے بلند پایہ شعرا کی شاعرانہ لیاقت کی دھوم تھی۔ ان شعرا کے نعرۂ انقلاب سے ادبی دنیا گونج رہی تھی۔ ایسے ماحول میں چند ادبا نے ایک ساتھ بیٹھنے اور ادبی تخلیقات پر بحث و تمحیص کرنے کے لیے ایک بزم منعقد کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ چنانچہ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے نصیر احمد جامعی نے اپنے دوستوں شیر محمد اختر، نسیم حجازی، تابش صدیقی، محمد فاضل، اقبال احمد، محمد سعید، عبدالغنی کو جمع کرکے29اپریل 1939 بروز شنبہ لکشمی مینشن (میکلوڈ روڈ) لاہور میں اپنے ہی مکان پر ایک جلسے کا انعقاد کیا، جس میں نسیم حجازی نے طبع زاد افسانہ ’تلافی‘ سنایا اور جلسے کی صدارت کے فرائض حفیظ ہوشیارپوری نے انجام دیے۔ یونس جاوید نے لکھا ہے کہ:

’’حلقہ کو شروع کرتے وقت کوئی سیاسی یا دوسرا مقصد پیش نظر نہیں تھا۔ ادیبوں اور دوستوں نے آپس میں مل بیٹھنے اور اپنے اپنے ادب پارے ایک دوسرے کو سنانے کی خواہش کی تکمیل کے لیے کسی انجمن کو وجود میں لانے کی تجویز پیش کی تھی، جس میں بقول شیر محمد اختر’ نصیر احمدجامعی (مرحوم) پیش پیش تھے اور انھوں نے ہی پہلی مرتبہ مل کر ادبی تخلیقات کو سننے، پڑھنے اور ادبی مسائل پر گفتگو کرنے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔‘‘1؎

حلقہ کا دوسرا جلسہ 14مئی 1939 کو ہوا، جس میں محمد فاضل صاحب نے افسانہ پڑھا۔ پھر اس جلسہ کے بعد یکے بعد دیگرے جلسے منعقد ہوتے رہے۔ ادبا افسانے اور دوسرے مضامین سناتے رہے، شعرا بھی کثیر تعداد میں جلسے میں شرکت کرتے اور اپنی منظوم تخلیقات پیش کرتے۔ اس طرح بزم کا دائرہ وسیع ہوگیا اور چونکہ بزم سے وابستہ افسانہ نگاروں کے مقابلے میں شعرا کی تعداد زیادہ تھی، اس لیے ’بزم داستان گویاں‘ کا نام بدلنے کی تجویز کی گئی۔ لہٰذا3ستمبر 1939 کو بزم کے دسویں جلسے میں ڈاکٹر محمد باقر کی تجویز پر’بزم داستان گویاں‘ کو ’حلقۂ ارباب ذوق‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔

1940 کے آخر تک پہنچتے پہنچتے حلقۂ ارباب ذوق بہت مقبول ہوچکا تھا۔ 2جون 1940 کو قیوم نظر نے حلقہ کے ایک جلسے میں شرکت فرماکر حلقہ سے وابستگی کا ثبوت دیا اور قیوم نظر نے ہی میراجی کو حلقہ کی طرف راغب کیا۔ میراجی نے 25اگست 1940 کو حلقہ کے ایک اجتماع میں شریک ہوکر وابستگی کا ثبوت دینے کے ساتھ ساتھ حلقہ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ بھی کیا۔ اس دوران میراجی ’ادبی دنیا‘ کے مدیر تھے اور بسنت سہائے کے نام سے لکھتے تھے۔ میراجی کی عظیم المرتبت شخصیت کا حلقہ پر یہ اثر ہوا کہ بہت تیز رفتاری سے دوسرے شاعر و ادیب حلقہ میں شامل ہوتے رہے اور جس بزم کی حیثیت صرف ایک رجحان کی تھی، اب وہی بزم ایک تحریک کی صورت میں منظر عام پر آگئی۔

اس طرح میراجی کی شمولیت سے حلقہ کے قدم جدیدیت کی طرف تیزی سے بڑھنے لگے اور میراجی کو حلقہ کے بنیادی رکن اور روح رواں کی حیثیت حاصل ہوئی۔ میراجی نے حلقہ کی ترقی کے لیے جو تجاویز پیش کیں انھیں حلقہ کے قوانین میں شامل کیا گیا۔ میراجی کی ہی تجویز پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور حلقہ کے جلسے میں پیش کیے گئے مضامین، نظم اور نثر کی صرف خوبیوں کی داد دینے کے بجائے ان کی خامیوں پر بھی نظر رکھی جانے لگی۔

اگر میراجی نے حلقہ کو سنوارنے اور مزید ارتقائی مراحل کی طرف گامزن کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تو ان کے رفقا قیوم نظر، یوسف ظفر، مختار صدیقی وغیرہ نے بھی حلقہ کے دیگر امور کو منظم کرنے اور ادب کو مقبول بنانے میں قابل قدر خدمات انجام دیں، جن کا اعتراف ن۔م۔ راشد نے اپنے مضمون میں ان الفاظ میں کیا ہے:

’’حلقۂ ارباب ذوق آج بڑی حد تک میراجی اور اس کے رفقائے کار کے خیالات اور عزائم کا عکاس اور ترجمان ہے، جن میں یوسف ظفر، قیوم نظر، شیر محمد اختر، مختار صدیقی اور بیسیوں اور اسمائے گرامی خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ اس ادارے نے نہ صرف ادبی تجربات اور زبان و بیان، ہیئت اور افکار کی ہر جدت کی پیش قدمی کی ہے بلکہ زندگی کو اس کے ہر پہلو سے سمجھنے اور سمجھانے کی خواہش پر بھی عمل کیا ہے۔ یہی وہ ادارہ ہے، جس نے جدیدیت کے متحرک بالذات اور زندۂ جاوید نظریے کا اعتراف کیا ہے اور اسے اپنی کوششوں سے وسعت دی ہے۔‘‘2؎

ان ادیبوں اور شاعروں کی کاوشوں سے حلقۂ ارباب ذوق اس منزل پر پہنچ گیا کہ موجودہ تحریک کے متوازی ہوگیا۔ اب ایک ہی وقت میں دو متوازی طبقے منظر عام پر تھے، ایک ترقی پسند تحریک اور دوسرا حلقۂ ارباب ذوق۔ دونوں تحریکوں میں مماثلت بھی تھی اور افتراق بھی اور اسی افتراق کی بنیاد پر حلقۂ ارباب ذوق کو ترقی پسند تحریک کا رد عمل قرار دیا گیا۔ روایت سے بغاوت اور نئی قدروں کی ترجمانی دونوں طبقوں میں ملتی ہے، دونوں تحریکوں کا منبع بھی رومانی تحریک ہی ہے۔ ایک ہی سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی صورت میں دونوں تحریکیں پروان بھی چڑھیں مگر جس امتیاز کی بنیاد پر حلقہ ارباب ذوق کو ترقی پسند تحریک کا رد عمل کہاجاتا ہے وہ یونس جاوید کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:

’’یہ رد عمل ہمیں حسن عسکری اور ممتاز شیریں اور ان سے متاثر دیگر ادیبوں کے یہاں ضرور ملتا ہے کیونکہ یہ لوگ ادب کو ادب ہی کے حوالے سے پہچانتے اور ہیئت و اسلوب کواہمیت دیتے ہیں..... حسن عسکری اور اس کے گروہ کے دوسرے لوگ فرانسیسی ادیبوں مثلاً بادلیر، ملارمے وغیرہ سے متاثر ہیں۔ جنھیں ترقی پسند سراسر انحطاط کی علامت قرار دیتے ہیں۔ راشد اور میراجی بھی اس ذیل میں یوں آجاتے ہیں کہ راشد کے یہاں گریز کے ساتھ مایوسی اور پژمردگی کی جو فضا ملتی ہے وہ سراسر ترقی پسندوں کے نظریے اور بنیادی فلسفے کے خلاف ہے۔ میراجی کا ابہام اور علامت پسندی فرانسیسی اثرات ہی کی مرہون منت تھی۔ سو راشد اور میراجی چونکہ حلقۂ ارباب ذوق سے وابستہ تھے اس لیے خواہ مخواہ حلقے کو ایک مخالف رد عمل کی تحریک تصور کرلیا گیا۔‘‘3؎

انور سدید نے لکھا ہے کہ:

’’حلقۂ ارباب ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بالعموم ایک دوسرے کی ضد قرار دیا جاتا ہے..... ایک تحریک کا عمل بلاواسطہ خارجی اور ہنگامی تھا اور دوسری کا عمل بالواسطہ داخلی اور آہستہ رو، چنانچہ ان دونوں تحریکوں نے نہ صرف اپنے عہد کے ادب کو متاثر کیا بلکہ دو الگ الگ اسلوب حیات بھی پیدا کیے۔ ترقی پسند تحریک نے مادی وسائل پر فتح حاصل کرنے کی سعی کی جبکہ حلقۂ ارباب ذوق نے مادیت سے گریز اختیار کرکے روحانیت اور داخلیت کو فروغ دیا۔‘‘ 4؎

لہٰذا مادیت اور روحانیت، خارجیت اور داخلیت بلاواسطہ اور بالواسطہ جیسے افتراق نے دونوں گروہوں کے درمیان اختلاف کی دیوار کھڑی کردی اور ان دونوں تحریکوں کے ادبا نے ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔علی سردار جعفری نے ’ترقی پسند ادب‘ میں ’حلقہ‘ پر ان الفاظ میں تنقید کی ہے:

’’اس تحریک نے تین چار سال بڑا شور مچایا او ربعض ترقی پسندوں کو بہکانے میں بھی کامیاب ہوئی، لیکن پنپ نہیں سکی۔ یہ در اصل جاگیرداری او ربورژو انحطاط کی گندگی کا بدرو تھا، جو بڑے زور وشور سے بہا لیکن اس کا بہاؤ اس کی گندگی کو چھپا نہ سکا..... یہ ادیب اپنے عہد کے حساس بچے تھے جو جاگیرداری اور سامراجی سماج سے دور بھاگنا چاہتے تھے لیکن اسے تبدیل کرنے کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے تھے۔ جاگیرداری اور سامراجی سے بھاگ کر وہ عوامی قدروں تک نہ آسکے، اس لیے نراجیت کا شکار ہوگئے۔ انھوں نے قدامت سے بچ کر جدت کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کی اور فرائڈ اور ٹی۔ایس۔ ایلیٹ کی آغوش میں پہنچ گئے۔ ‘‘5؎

اس اقتباس میں ’کامیاب ہونا‘ اور ’پنپ نہ سکنا‘ یہ دو متضاد باتیں ہیں۔ سردار جعفری نے ایک طرف تو حلقہ کی کامیابی کااعتراف بھی کیا اور دوسری طرف انکار بھی کیا ہے لیکن ان باتوں کا اثر نہ حلقہ پر پڑا اور نہ ترقی پسند ادبا پر۔ اتنے نظریاتی اختلاف کے باوجود بہت سے ترقی پسند ادیب حلقہ کے جلسوں میں مضامین اور دوسری تخلیقات پیش کرنے کے لیے آتے رہے۔ ان شرکا میں فیض احمد فیض، کرشن چندر، ظہیر کاشمیری، ہنس راج رہبر، دیوندر ستیارتھی وغیرہ شامل ہوئے کیونکہ حلقۂ ارباب ذوق ایسی تحریک بن کر منظر عام پر آیا کہ ہر ادیب کے لیے اس کا دروازہ کھلا ہوا تھا چاہے وہ صوفی ہوں، مذہبی ذہن رکھنے والے، جدیدیت کے قائل افراد ہوں یا، روایت پرست یا جمالیت پرست۔ غرض ہر اس تحریر کو مقبولیت حاصل تھی، جس میں ادبیت پائی جاتی ہو۔ انور سدید نے حلقۂ ارباب ذوق کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے:

1        پہلا دور- ابتدا سے میراجی کی شمولیت تک (اپریل 1939 سے اگست 1940 تک)

2        دوسرا دور- میراجی کی شمولیت سے اردو شاعری پر تنقید کے اجرا تک (اگست 1940 سے دسمبر 1940 تک)

3        تیسرا دور- دسمبر 1940 سے 1947 میں قیام پاکستان تک۔

4        چوتھا دور- آزادیِ پاکستان 1947 سے مارچ 1972میں حلقۂ ارباب ذوق کی تقسیم تک۔

5        پانچواں دور- مارچ 1972 سے زمانۂ حال 1975 تک۔ 6؎

پہلا اور دوسرا دور حلقہ کی تشکیل اور بنیادی استحکام کا دور ہے اور اسی عہد میں حلقہ کے اغراض و مقاصد کا تعین کیا گیا، جس کی تفصیل ’ماہ نو‘ میں قیوم نظر کے ایک انٹرویو میں اس طرح ملتی ہے:

1        اردو کی ترویج و اشاعت

2        نوجوان لکھنے والوں کی تعلیم و تفریح

3        اردو لکھنے والوں کے حقوق کی حفاظت

4        تنقیدی ادب میں خلوص اور بے تکلفی پیدا کرنا

5        اردو ادب اور صحافت کے ناسازگار ماحول کو صاف کرنا7؎

تیسرے دور میں حلقہ مکمل تحریک کی صورت میں منظر عام پر آیا۔ حلقہ کے نظریات واضح ہوئے، لہٰذا موجودہ تحریک کی جانب سے حلقہ کے خلاف شدید رد عمل شروع ہوا۔ بقول سردار جعفری:

’’اسی زمانے میں ایک اور گروہ نے سر اٹھایا۔ یہ ہیئت پرست، ایہام پرست اور جنس پرست ادیب تھے، جن کے مشہور نمائندے میراجی، یوسف ظفر، ممتاز مفتی، مختار صدیقی وغیرہ تھے۔ یہ ذہین اور ہوشیار لکھنے والے تھے، جو یورپ کے انحطاطی ادب سے متاثر تھے اور شعور کے بجائے تحت الشعور اور لاشعور پر اور معنویت اور مواد کو چھوڑ کر ہیئت و اسلوب پر زور دیتے تھے۔ انھوں نے اپنی ایک الگ انجمن حلقۂ ارباب ذوق کے نام سے قائم کرلی تھی..... ان کی بنیاد یہ تھی کہ ادب کا سماج سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی رومانیت مجہول اور گندی تھی..... ان کی ’انا‘ کسی قسم کی سماجی ذمہ داری کو برداشت نہیں کرتی تھی، جس کا لازمی نتیجہ ابہام، قنوطیت اور فرار تھا۔ ‘‘8؎

اس شدید مخالفت کا محور ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحث تھی مگر ایسا نہیں ہے کہ حلقۂ ارباب ذوق کے ادبا سماج اور زندگی کے مخالف تھے۔ اصلیت یہ ہے کہ حلقہ والوں نے خارجیت کے بجائے داخلیت پر زور دیا اور زندگی کے خارجی پہلو کے بجائے داخلی پہلو کو مد نظر رکھا اور ترقی پسند ادیبوں نے زندگی کے خارجی پہلو کو اپنی تخلیقات کا محور بنایا۔ علامت نگاری، وجودیت، سرئیلزم وغیرہ شعری لوازمات کو ترقی پسند ادیبوں نے نظر انداز کیامگر حلقۂ ارباب ذوق نے ان لوازمات کا رشتہ ادب سے جوڑا اور ادیب کو خارجی دنیا کے بجائے داخلی دنیا کی طرف رجعت دلائی۔ ان تجربوں کی آزمائش نظم نگاری میں زیادہ کامیاب رہی اور جلد ہی قیوم نظر، یوسف ظفر، مختار صدیقی، ضیا جالندھری، انجم رومانی،مجید امجد، منیب الرحمن وغیرہ نے اپنی نظموں کے ذریعے زندگی کے مختلف زاویے روشن کرنے کی کوشش کی۔ جہاں ترقی پسند شعرانے لہجے میں بلند آہنگی اور نعرہ بازی اختیار کی وہیں حلقۂ ارباب ذوق نے لطیف اور دھیمے لہجے کو اہمیت دی۔ ترقی پسندوں کے یہاں اظہار کے لیے پابندیاں عائد تھیں جبکہ حلقۂ ارباب ذوق نے تخلیق کاروں کو ہر پابندی سے بری رکھا اور ہر موضوع کو فن کے دائرے میں پیش کرنے کی کوشش کی۔

اسی زمانے میں ’بہترین نظمیں‘ کے عنوان سے سال بھر کی عمدہ نظموں کا مجموعہ حلقہ کی جانب سے شائع ہونا شروع ہوااور کچھ ہی عرصے میں بہت مقبول ہوگیا۔ اس کی بھی مخالفت کی گئی۔ دوسرے ادارے بھی شعری مجموعے شائع کرنے لگے۔ حلقہ کے ادیبوں نے ترقی پسند شعرا کی نظموں کو بھی اس مجموعے میں شامل کرکے بے تعصبی او رغیر جانبداری کا ثبوت دیا۔ پھر بھی ترقی پسند معترض رہے۔ غرض کہ ترقی پسند ادبا نے حلقۂ ارباب ذوق کی مقبولیت کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر انھیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ ن م راشد نے اپنے مضمون ’حلقۂ ارباب ذوق اردو زبان و ادب کے مسائل‘ میں حلقہ کی خدمات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:

’’پہلی یہ ہے کہ یہی وہ تنہا ادارہ ہے، جس نے ادب میں ہر قسم کے تجربے اور جدت کی حوصلہ افزائی کی..... دوسرے حلقے نے تنقید میں آزادی اور بیباکی کی روایت کو زندہ اور قائم رکھا..... تیسرے حلقے نے ادب کو ان غیر ادبی تصورات کے غلبے اور ان غیر ادبی گروہوں کے استیلا سے محفوظ رکھنے کے لیے حصار کا کام دیا ہے، جو ہمارے زمانے میں ادب کے حق میں سب سے بڑا خطرہ ہے۔‘‘ 9؎

اس مضمون میں حلقۂ ارباب ذوق کی جدت پسندی کا اعتراف کرتے ہوئے ن م راشد لکھتے ہیں کہ:

’’یہ وہ اہل قلم ہیں، جنھوں نے اپنی بساط کے مطابق زندگی کو اس کی تمام وسعتوں سے دیکھنے کی کوشش کی اور جن کی تحریروں میں زندگی کی وسعت، جامعیت اور تنوع کا شاندار پرتَو ملتا ہے۔ اس لیے یہی وہ ادیب و شاعر ہیں، جنھیں صحیح معنوں میں ’جدید‘ کہاجاسکتا ہے۔ یوں نہیں کہ ان سب نے مل کر کسی سازش کے تحت جدیدیت کی بنیاد رکھی ہو بلکہ یہ سب الگ الگ ان غیر ادبی تعصبات سے طبعاً آزاد تھے، جو گزشتہ نسل کے شاعروں اور ادیبوں کے ذہنوں پر چھائے ہوئے تھے اور جن کو آج بھی ہمارے بظاہر ترقی پسند اور بباطن اشتراکیت پسند ادیبوں کے ذہن اٹے ہوئے ہیں۔‘‘ 10؎

اس طرح حلقۂ ارباب ذوق نے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا، جو ہر ادبی تخلیقات کے لیے کھلا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے باوجود بعض ادیبوں نے حلقہ کے جلسوں میں مضامین پڑھے اور جلسے کی صدارت بھی قبول کی۔ اس طرح حالی و آزاد کی قائم کردہ نئی نظم کی تحریک کو حلقۂ ارباب ذوق نے انتھک ریاض اور مساعی کی بدولت پروان چڑھایا۔ الفاظ و خیالات کو علامتی پیرایے میں پیش کرکے گہرائی و گیرائی عطا کی۔ ان کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ حلقہ کی شاخیں دلی، بمبئی، کراچی تک پھیل گئیں اور تابش دہلوی، محمد حسن عسکری، اکرام قمر، اخترالایمان اور مختار صدیقی نے حلقے کے مقاصد کو مقبول بنانے کی سعی کی او رمیراجی نے بھی انھیں مقاصد کے لیے لاہور، دلی، بمبئی کا سفر کیا اور حلقہ کو اتنی توانائی بخش دی کہ میراجی کی غیرموجودگی میں بھی کامیابی کی طرف گامزن رہا۔

حلقۂ ارباب ذوق کے تصورات عام شعری روایات سے مختلف تھے۔ اولاً تو انھوں  نے غزل سے انحراف کیا اور اپنے تجربات و احساسات کو تجسیم عطا کرنے کے لیے صنف نظم کا انتخاب کیا، جو حلقۂ ارباب ذوق کی شناخت بن گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ حلقہ کے بعض شعرانے بہترین غزلیں بھی کہی ہیں مگر حلقہ کا بنیادی رجحان نظم نگاری ہی رہا ہے۔ بقول عقیل احمد صدیقی:

’’حلقہ کے شاعروں نے قدیم ادب میں سب سے زیادہ غزل کی صنف کو موردِ الزام ٹھہرایا اور اسے جدید زندگی کے تقاضوں کے سامنے عاجز صنف سخن قرار دیا۔ غزل کے بارے میں حلقہ اور ترقی پسند ادیبوں کے خیالات ایک سے ہیں۔ حلقہ کے شاعروں میں میراجی،مختار صدیقی اور ضیا جالندھری وغیرہ نے بہت سی کامیاب غزلیں لکھیں، حلقہ کا بنیادی رجحان نظم نگاری ہے۔ حلقہ کے ادیبوں کامزاج تجزیاتی تھا اس لیے یہ شاید نظم کی طرف زیادہ مائل ہوئے۔‘‘11؎

اور دوسرے حلقۂ ارباب ذوق نے ’جدت، انفرادیت اور آزادی‘ کو بنیادی حیثیت دے کر اپنے تخلیقی سفر کا آغاز نظم نگاری کے ذریعے کیا اورنظم نگاری کا یہ رجحان حلقہ والوں نے مغربی شاعری کے زیر اثر اختیار کیا۔ اختصار کے بجائے ایسی ہیئت کا انتخاب کیا، جس میں تفصیل کے ساتھ خیالات کا اظہار کرسکیں۔

حلقۂ ارباب ذوق نے ہیئت میں جو تجربے کیے، ان میں خاص اہمیت آزاد نظم کو حاصل ہے۔ حلقہ سے پہلے بھی شعرا نے ہیئت میں نئے تجربے کرنے کی کوشش کی۔ ان شعرا میں پہلا نام اسمٰعیل میرٹھی کا ہے، جنھوںنے انگریزی نظموں سے متاثر ہوکر معریٰ نظمیں لکھنے کی کوشش کی۔ اسمٰعیل میرٹھی کی معریٰ نظمیں کوشش ہی سہی مگر جدید شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔عبدالحلیم شرر کے یہاں آزاد نظم نگاری کے اولین نقوش ملتے ہیں۔ ان شعرا کے بعد نادرکاکوروی، نظم طباطبائی اور پنڈت دتاتریہ کیفی نے بھی نظم کی ہیئت پر تجربے کیے لیکن علامہ اقبال نے ہیئتی تجربوں کی طرف اپنی زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی۔ ان شعرا کے بعد اخترشیرانی اور افسرمیرٹھی وغیرہ نے بھی مختلف تجربات کیے۔ بحروں کے ارکان میں کمی اور زیادتی کرکے نئے نئے تجربے کیے گئے اور 1936 تک پہنچتے پہنچتے ان تجربوں نے آزاد نظم کے لیے مکمل تشکیلی فضا متعین کردی تھی۔ ترقی پسند شعرا میں فیض احمد فیض نے آزاد نظم میں طبع آزمائی کی۔ ن۔م۔راشد نے مضمون ’ہیئت کی تلاش‘ میں لکھا ہے کہـ:

’’جدید شاعروں میں جنھوں نے ان ابتدائی تجربوں سے حوصلہ پاکر آزاد نظم کی ترویج کی ہے، تصدق حسین خالد اورمیراجی کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں نہ صرف مصرعوں کے ارکان کی مقررہ تعداد اور قافیے کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ مصرعوں کو ایک دوسرے سے ملاتے چلے جاتے ہیں تاکہ ایک مصرعے کی معنوی تصویریں دوسرے مصرعے کی معنوی تصویروں سے مل کر گھلتی چلی جائیں اور آخر تک پہنچتے پہنچتے ایک ہم آہنگی محسوس ہونے لگے۔میراجی کی نظموں کی مثال ایک کپڑے کے تھان کی ہے، جس سے ڈیزائن یا دھاریوں کی رنگا رنگی کے باوجود ایک ہی تاثر پیدا ہوتا ہے... ‘‘12؎

پروفیسر عقیل احمد صدیقی نے آزاد نظم میں ن۔م۔راشد کی اولیت کااعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’ویسے آزاد نظم کے رواج دینے میں اہم رول ن۔م۔ راشد کا ہی سمجھا جاتا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ پہلی بار تصدق حسین خالد نے آزاد نظم لکھی، لیکن انھیں اس لیے شہرت نہیں ملی کہ ان کی نظموں میں وہ گہرائی نہیں تھی، جو کسی فن پارے میں کشش کا سبب بنتی ہے۔ راشد کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی نظموں نے پہلی بار لوگوں کو چونکایا۔ نہ صرف یہ کہ موضوع زیر بحث کیا بلکہ وہ ہیئت بھی جو جدید تھی۔‘‘13؎

ان اقتباسات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میراجی اور ن۔م۔راشد نے ہی آزاد نظم کو باقاعدہ فروغ دیا۔ ان کے علاوہ حلقہ کے دوسرے شعرا قیوم نظر، یوسف ظفر، خالد تاثیر، ضیا جالندھری، سلام مچھلی شہری وغیرہ نے بھی راشد او رمیراجی کے اتباع میں آزاد نظم لکھنے کی کوشش کی۔

یہ حقیقت ہے کہ حلقۂ ارباب ذوق کے شعرا نے نظم نگاری کے مروجہ اسالیب سے انحراف کرتے ہوئے جدید اسالیب پر توجہ مرکوز کی۔ عشقیہ اور رومانی موضوعات تقریباً سبھی شعرا کے یہاں پائے جاتے ہیں لیکن ان شعرا میں بالخصوص راشد اور میراجی نے دیگرموضوعات و مسائل کے علاوہ فرائڈ کی تحلیل نفسی سے متاثر ہوکر جنسی موضوعات پر بھی طبع آزمائی کی۔ عقیل احمد صدیقی نے راشد اور میراجی کے جنسی نظریات سے متعلق لکھا ہے:

’’میراجی اورراشد نے اپنی تخلیقات میں ایسے فرد کا تجربہ پیش کیا ہے، جو جنسی ناآسودگی کے سبب ذہنی اور جذباتی پیچیدگیوں سے دوچار ہے۔ اس پیچیدگی کا حل ضبط نفس نہیں کہ اس صورت میں لاشعور بھوتوں کی سرزمین بن جاتا ہے اور انسان اپنا ذہنی توازن کھوبیٹھتا ہے بلکہ اس کا حل خواہشات کی تکمیل ہے۔ راشد اس رویے کو ’جسم و روح‘ کی ہم آہنگی کا نام دیتے ہیں۔‘‘14؎

اسی جدت پسندی کے سبب راشد اور میراجی کو باغی شاعر کہاجاتا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کرشن چندر نے راشد سے متعلق لکھا ہے کہ:

’’فنی نقطۂ نگاہ سے راشد ایک صحیح باغی شاعر ہے۔ اس کا تخیل ہمیشہ موروثی زبان کے الفاظ، ان کے معانی، اسالیب بیان، بندشوں او رترکیبوں کو توڑتا، پگھلاتا، انھیں نئے سانچوں میں ڈھالتا، نئی صورتیں دیتا اور ان میں سے نئے نئے مطالب کشید کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس کی شاعری میں نفسیاتی تحلیل اور جذباتی تسلسل ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ان دونوں کے ہم آہنگ ہونے سے ایک آزاد تسلسل کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘15؎

راشد کی شاعری کے اہم موضوعات میں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور دوسرا جدید موضوع جنس ہے، جہاں تک راشد کے جنسی نظریے کا تعلق ہے تو ان کے یہاں خیالی یا تصوراتی محبوب کے بجائے محبوب کا اصل روپ ملتا ہے اور روحانیت کے بجائے مادیت، خارجیت کے بجائے داخلیت کا رجحان ملتا ہے۔ یہ جنسی تصورات راشد کے پہلے مجموعۂ کلام ’ماورا‘کی چند نظموں میں ہی ملتے ہیں۔ ان نظموں میں ’مکافات‘، ’حزن انسان‘، ’اتفاقات‘، ’انتقام‘، ’ ایک رات‘ جیسی نظمیں قابل ذکر ہیں، مثلاً       ؎

آسماں دور ہے لیکن یہ زمیں ہے نزدیک/آ اسی خاک کو ہم جلوہ گہِ زار کریں

روحیںمل سکتی نہیں ہیں تو یہ لب ہی مل جائیں/آ اسی لذت جاوید کا آغاز کریں

صبح جب باغ میں رس لینے کو زنبور آئے/اس کے بوسوں سے ہو مدہوش سمن اورگلاب

جنس کے علاوہ راشد نے سیاسی، سماجی، معاشرتی موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔ انھوں نے جس عہد میں شاعری کا آغاز کیا وہ جنگ و جدال، افراتفری اور اضطراب کا عہد تھا۔ ’ماورا‘ کی بیشتر نظموں میں اسی کشمکش کا عکس نمایاں ہوتا ہے، مثلاً نظم ’انسان‘ جس میں راشد نے سماج کے پست طبقے کے انسانوں پر نظر کی اور ان کی لاچاری و بے بسی پر اظہار افسوس کیا ہے    ؎

الٰہی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں

غریبوں،جاہلوں، مُردوں کی بیماروں کی دنیا ہے

یہ دنیا بے کسوں کی اور لاچاروں کی دنیا ہے

ہم اپنی بے بسی پر رات دن حیران رہتے ہیں

ہماری زندگی اک داستاں ہے ناتوانی کی

(انسان)

راشد کے دل میں قومی جذبہ تھا، انگریزوں سے گہری نفرت تھی، اس بنا پر اس کی نظموں میں قنوطیت اور مایوسی کے بجائے جدوجہد اور ولولے کا پیغام ملتا ہے۔ اس نوع کی نظموں میں ’سپاہی‘ نظم ملاحظہ ہو، جس میں آزادیِ وطن کے لیے دشمن سے مقابلہ کرنے کا جذبہ اور حوصلہ ملتا ہے،مثلاً    ؎

زمزمے اپنی محبت کے نہ چھیڑ/اس سے اے جان پروبال میں آتا ہے جمود

میں نہ جاؤں گا تو دشمن کو شکست/آسمانوں سے بھلا آئے گی؟

دیکھ خونخوار درندوں کے وہ غول/مرے محبوب وطن کو یہ نگل جائیں گے

ان سے ٹکرانے بھی دے/جنگ آزادی میں کام آنے بھی دے

تو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟                   (سپاہی)

اس نظم میں رومان بھی ہے اور حقیقت بھی۔ راشد کا یہ جذبۂ انتقام اس وقت اور بھڑکا جب انھوں نے ایران کا سفر کیا، وہاں کی عوام کو بھی انھوںنے سامراجی نظام کے شکنجے میں جکڑا ہوا پایا۔ ان تاثرات کو راشد نے ’ایران میں اجنبی‘ کی نظموں میں پیش کیا ہے۔ اس مجموعے کی نظموں میں ’انتقام‘، ’زنجیر‘، ’پہلی کرن‘ اور ’طلسم ازل‘ وغیرہ میں انگریزوں سے نفرت اور بیزاری کا انھوںنے کھل کر اظہار کیا ہے۔

’زنجیر‘ نظم تین بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ راشد کی انقلابی نظم ہے مگر معاصر شعرا کی انقلابی نظموں کے مقابلے میں اس نظم کا انداز بدلا ہوا ہے۔ اس میں نعرہ بازی نہیں ہے بلکہ شاعر ان صنعت کاروں سے مخاطب ہے، جنھوں نے فرنگی عورتوں کے لیے ’تارہائے سیم وزر‘ بنائے ہیں۔ راشد ان صنعت کاروں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اب تم ’تارہائے سیم وزر‘ بنانے کے بجائے ان کے مردوں کے لیے ایسا ’سنگین جال‘ بُنو، جس میں غلامی مقید ہوجائے،مثلاً     ؎

تونے جن کے حسن روز افزوں کی زینت کے لیے

سالہا بے دست و پاہوکر بُنے ہیں تارہائے سیم وزر

ان کے مردوں کے لیے بھی آج ایک سنگین جال

ہوسکے تو اپنے پیکر سے نکال

(زنجیر)

اس کے علاوہ ’ایران میں اجنبی‘ کی دوسری نظمیں ’سوغات‘، ’ایک شہر‘، ’سباویراں‘، ’نمرود کی خدائی‘ وغیرہ میں معاشرتی اور سیاسی مسائل کا گہرا احساس ملتا ہے۔ مثلاً ’سباویراں‘ میں شاعر سامراجی نظام کے خلاف نہایت غم و غصے میں مبتلا ہے اور اس ملک کی تباہی و بربادی پر خون کے آنسو بہاتا ہے اور سلیمان جیسا کردار تخلیق کرکے ’ملک سبا‘ کی ویرانی کی عکاسی کرتا ہے، مثلاً     ؎

سبا ویراں کہ اب تک اس زمیں پر ہیں

کسی عیار کے غارت گروں کے نقش پا باقی

سلیماں سر بہ زانو

اب کہاں سے قاصد فرخندہ پے آئے

کہاں سے کس سبو سے کاسۂ پیری میں مے آئے        (سباویراں)

’سباویراں‘ راشد کی علامتی نظم ہے، جو تہذیبی اور تاریخی معنویت کی حامل ہے۔ اس نظم میں انھوں نے سلیمان جیسا علامتی کردار تخلیق کرکے ایشیا کے حکمرانوں کی موجودہ صورت حال کی وضاحت کی ہے۔ ’سباویراں‘ کے علاوہ ’ابولہب کی شادی‘، ’حسن کوزہ گر‘، ’اندھا کباڑی‘ وغیرہ علامتی نظمیں ہیں۔ ’ابولہب کی شادی‘ میں ’ابولہب‘ کو علامتی کردار بنایا ہے۔ ’حسن کوزہ گر‘ میں ’حسن کوزہ گر‘ اور ’اندھا کباڑی‘ میں ’اندھا کباڑی‘ علامتی کردار ہے۔ ان کرداروں کے ذریعے شاعر ماحول اور حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کی علامتی نظموں کی یہ خاصیت ہے کہ نظموں میں ’ابہام‘ کم ملتا ہے۔جہاں ابہام ہوتا بھی ہے تو وہ اسے دوسرے مصرعوں میں واضح کردیتا ہے۔

علامت کے علاوہ تمثیل، تشبیہات و استعارات وغیرہ بھی راشد کا طرز اظہار رہا ہے۔ انھوں نے مروجہ استعارات اور علامتوں سے بھی گریز کیا ہے۔ قیام ایران کے دوران انھوں نے فارسی تراکیب سے استفادہ کیا اور نئی نئی تراکیب تراشیں۔ ایران کے تہذیب و تمدن کا بھی ان کی شاعری پر گہرا اثر پڑا، جو ’ایران میں اجنبی‘ کی نظموں سے واضح ہوتا ہے۔ لیکن مشرقیت کی گہری چھاپ بھی اس کی شاعری میں نمایاں ہے۔ راشد کے شاعرانہ اسلوب سے متعلق وقار عظیم نے لکھا ہے کہ:

’’لفظوں اور ترکیبوں کے استعمال میں راشد کے یہاں ایک توانا جدت اور شگفتگی ہے۔ ان کی شاعرانہ فطرت ہر جگہ پرانے لفظوں میں نئے مفہوم کی تلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور اسی مسلسل جستجو کا نتیجہ ہے کہ پرانے فرسودہ لفظوں میں نئی زندگی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ ان کے کنایے اور تشبیہیں قدیم اور جدید کا ایک شیریں امتزاج ہیں۔ پرانی محدود تشبیہوں سے ایک زیادہ وسیع مفہوم اور تصور کا کام اور ان سے خیال کے تسلسل میں مدد لینا، پھرنئی تشبیہوں سے تصویریں بنانا، راشد کے طرز میں یہ چیزیں پسندیدہ مشرقی انداز کے گہرے اثر کا پتہ دیتی ہیں۔‘‘ 16؎

اس طرح راشد نے جدید اسالیب کے ذریعے جدید نظم کو مزید تقویت پہنچائی۔ قدیم فضا سے نکال کر جدید فضا سے روشناس کرایا۔ اگر وہ روحانیت سے مادیت کی طرف راغب ہوئے تو رومان اور حقیقت کا امتزاج بھی کیا ہے۔ زندگی سے متنفر ہوئے ہیں مگر زندگی کو چاہا بھی ہے۔ ان کے دل میں وطن کی محبت تھی اور وطن کو سدا بہار دیکھنے کی خواہش بھی تھی۔ ان تصورات کی مظہر ان کی وہ نظمیں ہیں، جو ان کے مجموعۂ کلام ’ماورا‘، ’گماں کا ممکن‘، ’لا=انسان‘ اور ’ایران میںاجنبی‘ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔

اس طرح راشد نے شاعری کی قدیم ڈگر سے ہٹ کر نئی شاہراہ پر شعری سفر کا آغاز کیا، جس نے راشد کو ادبی دنیا میں لافانی بنادیا۔

حلقۂ ارباب ذوق سے وابستہ اہم شعرا کے تفصیلی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ حلقہ سے وابستہ شعرا وادبا کو ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آیا جہاں وہ اپنے نئے تخلیقی تجربات واحساسات کو آزادانہ طور پر برت سکیں۔ حلقہ سے میراجی کی والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کے اعجاز سے حلقہ کی مقبولیت و افادیت میں اضافہ ہوتا رہا۔ ان شعرا نے نئے خیالات و تجربات سے اردو نظم نگاری میں جو توسیع کی ہے وہ اردو شعروادب کا گرانقدر قیمتی سرمایہ ہے۔

m

حلقۂ ارباب ذوق کو روحانی توانائی بخشنے والے شعرا میں میراجی کا نام سرفہرست ہے، جن کی شمولیت کے بعد ہی حلقہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا رہا۔میراجی جدت پسند، آزاد طبیعت کے مالک اور انفرادیت کے قائل تھے۔ اسی لیے انھوں نے شاعری کی قدیم روایات سے ہٹ کر جدید رجحانات کو اپنی شاعری کامحور بنایا۔میراجی کی شاعری کے تین بنیادی اور اہم پہلو ہیں:

(1) جنسیت (2)ابہام         (3)آزادنظم

میراجی کی شاعری میں یہ تین ایسے پہلو ہیں، جو اس سے قبل کسی بھی شاعر کے یہاں نہیں ملتے۔ جنس اور تصور جنس کو فرائڈ کی تحلیل نفسی سے متاثر ہوکر اپنی نظموں کا حصہ بنایا، جس پر بہت اعتراضات بھی کیے گئے۔ ان اعتراضات کا جواب میراجی نے ان الفاظ میں دیا ہے:

’’بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا محض جنسی پہلو ہی میری توجہ کا واحدمرکز ہے لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو میں قدرت کی بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتا ہوں اورجنس کے گرد جو آلودگی تہذیب و تمدن نے جمع کررکھی ہے وہ بھی مجھے ناگوار گزرتی ہے۔ اس لیے رد عمل کے طور پر دنیا کی ہر بات کو جنس کے اس تصور کے آئینے میں دیکھتا ہوں، جوفطرت کے عین مطابق ہے اور جو میرا آدرش ہے۔‘‘ 17؎

اس اقتباس کی روشنی میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ میراجی نے اپنے منفرد جنسی تصورات و خیالات کے اظہار کے لیے مبہم طریقہ اپنایا اور شاعرانہ فنکاری سے ایسی جلابخشی کہ ابہام ان کی شناخت بن گیا۔ جنسی تصورات کے علاوہ میراجی کی شاعری کا ایک اور اہم پہلو آزاد نظم کی ہیئت ہے، جس میں انھوں نے اپنے خیالات کو بڑی حریت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے آزاد نظم کی بنیاد روایتی عروض پر ہی رکھی لیکن ارکان کی ایسی ترتیب بنائی جو قدیم ترتیب سے مختلف تھی۔ ابتدائی دور کی نظم میں پابند نظم کا اثر جھلکتا ہے لیکن جیسے جیسے آزاد نظم آگے بڑھتی گئی ویسے ویسے روایتی اثرات سے منحرف ہوتی گئی اور بالکل نیا روپ اختیار کرلیا۔ ن۔م۔راشد نے میراجی کی آزاد نظموں سے متعلق اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:

’’میراجی کی نظموں کی مثال ایک کپڑے کے تھان کی ہے، جس سے ڈیزائن یا دھاریوں کی رنگا رنگی کے باوجود ایک ہی تاثر پیدا ہوتا ہے۔‘‘ 18؎

میراجی کی آزاد نظموں میں طویل مصرعوں کے ساتھ ایک رکن کے مصرعے اور بہت مختصر مصرعے بھی ملتے ہیں۔ مصرعوں کے زیر وبم سے نظم میں نیا آہنگ پید اہوجاتا ہے اور خیالات و تصورات چھوٹی بڑی بحروں کی لہروں پر متحرک رہتے ہیں اورمنزل اختتام تک پہنچ جاتے ہیں لیکن بے ربطی کا کہیں بھی احساس نہیں ہوتا، ہم آہنگی اور روانی برقرار رہتی ہے۔

میراجی کی فنکارانہ صلاحیت وہاں اور نمایاں ہوتی ہے، جہاں پرانھوں نے مکالمہ اور خود کلامی کے ذریعے ڈرامائیت پیدا کی ہے۔ کہیں افسانوں کا رنگ جھلکتا ہے توکہیں متحرک پیکر نظر آتے ہیں۔ اس طرح ان کی آزاد نظم کا تجربہ بہت کامیاب رہا۔

میراجی کی نظموں میں دیومالائی فضا بھی ملتی ہے، جس میں ہندوستانی دیومالا سے متعلق الفاظ و اشارات کا استعمال کیا ہے مثلاً جمناتٹ، گیان، آرضی، پجاری،مندر، دیوداسی وغیرہ۔ اس کے علاوہ کرشن، رادھا، اجنتا، دریودھن، برندابن جیسے الفاظ سے دیومالائی نقوش مزید نمایاں ہوگئے ہیں۔

میراجی نے علامتوں کے ذریعے ابہام کو اپنی شاعری کا اہم جزو بنایا اور براہ راست کے بجائے بالواسطہ طریقۂ اظہار اپنایا۔ علامتوں کے استعمال میں میراجی کو کمال حاصل ہے۔ مثلاً انھوں نے ترقی پسند ادیب کے لیے ’کالے بھنورے‘ کی علامت استعمال کی ہے۔’قدیم ادب‘ کے لیے ’  سکھیاں‘ اور ’کاجل‘ کے لیے رنگ کی مناسبت سے ’کوا‘ کو علامت بنایا ہے۔ جن کی تفہیم کے بغیرنظم کو سمجھنا ناممکن ہے لیکن میراجی علامت سے منسلک اشیا کا ذکر اس طرح کردیتے ہیں کہ نظم کی تفہیم میں آسانی ہوجاتی ہے۔

’ابوالہول‘ میں ماضی کی عظمت کا ا عتراف کیا ہے۔ ’میں ڈرتا ہوں مسرت سے‘ میں میراجی مسرت کے ساتھ تلخیوں سے نبرد آزما ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسرت کے ساتھ تلخیاں نہ ہوں تو پھر جینے کا مزہ نہیں ملتا۔

یہ حقیقت ہے کہ میراجی نے جدید موضوعات و اسالیب سے جدید نظم کو روشناس کرایا اور اپنی تصانیف ’میراجی کے گیت 1943‘، ‘میراجی کی نظمیں 1947‘، ’ گیت ہی گیت 1944‘، ’پابند نظمیں 1968‘، ’تین رنگ 1968‘، ’کلیات میراجی‘ مرتب: جمیل جالبی 1988‘ جیسی تصانیف کے ذریعے جدید نظم میں گرانقدر اضافہ کیا۔

m

میراجی اور ن۔م۔راشد کی طرح یوسف ظفر بھی حلقۂ ارباب ذوق کے بڑے سرگرم رکن تھے۔ وہ مقصدی ادب کے سخت مخالف تھے۔’زہرخند‘ کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ:

’’وہ حضرات جومیرے اسلوب سے مجھ پر ترقی پسندی کا لیبل لگاتے ہیں سمجھ لیں کہ میں کسی مقصدی ادب کا قائل نہیں۔ میرے سامنے میری زندگی،میرا ماحول، میرا وطن، میری دنیا،میری بے بسی اور بس۔‘‘ 19؎

اس اقتباس میں لفظ ’بے بسی‘ یوسف ظفر کے زخمی دل اور پریشان زندگی کا ترجمان ہے۔ پندرہ برس کی قلیل عمر میں 23جولائی 1929 میں سایۂ پدری سے محرومی اور والد کی فرقت کا صدمہ برداشت نہ ہونے سے والد کے ساتھ ہی یوسف ظفر کی ہمشیرہ نے بھی دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ یہ دو ایسے حادثات تھے، جس نے شاعر کی زندگی کو غم آلود بنادیا۔ شریک حیات اور بیٹی کی جدائی کا غم سہتے سہتے یوسف ظفر کی والدہ بھی 23جولائی 1935 کو اس دارفانی سے کوچ کرگئیں۔ بقول یوسف ظفر:

’’ہر سال کی 23جولائی مجھے جانکنی کے صدمے سے کم نہیں ہوتی۔‘‘20؎

ان تلخ کامیوں اور زہرناکیوں کے باوجود شاعر زندگی کی خارزار راہوں میں سفر کرتا رہا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ’زنداں‘ کے پیش لفظ میں لکھا:

’’میری زندگی مجموعی اعتبار سے ایک المیہ نظم ہے اور اس کا ہر تجربہ بھی انفرادی نوعیت سے نظم کا حکم رکھتا ہے۔‘‘21؎

یوسف ظفر کی زندگی کے انفرادی تجربوں کی بدولت ہی ’زہرخند‘، ’زنداں‘، ’صدابصحرا‘ جیسے مجموعے منظر عام پر آئے۔ ’زہر خند‘ میں 1940 سے مارچ 1944تک کی منتخب نظمیں ہیں۔ ان نظموں سے متعلق یوسف ظفر رقم طراز ہیں:

’’مجھے تو ان منتشر اجزا کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرے سامنے ایک ہجوم ہے، جس میں قہقہوں کے ساتھ ماتم کی صدائیں بھی بلند ہورہی ہیں۔ مسکراہٹیں آنسوؤں میں لتھڑی ہوئی ہیں، مسرتیں چیخوں سے ہم کنار ہیں۔ کسی کو کسی کا غم نہیں، ہر کوئی اپنی سی کیے جارہا ہے۔ میںنے زندگی میں یہی کچھ پایا ہے اور زندگی کے اس آئینے میں اسی کا عکس پیش کررہا ہوں۔‘‘22؎

’طوفان‘، ’طمانچہ‘، ’قیدی‘، ’موت‘ وغیرہ نظمیں انھیں تلخیوں کی پیداوار ہیں۔مثلاً نظم ’طمانچہ‘ کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں:

زندگی کے رخ آسودہ پر/حادثات ایک طمانچہ ہی تو ہیں

پاس کا ایک طمانچہ کھاکر/آرزو خاک میں مل جاتی ہے

——

زندگی ان سے نہیں بچ سکتی/مجھ کو آتے ہیں نظر ہر جانب

ہاتھ اٹھتے ہوئے تقدیر کے ہاتھ/اور آتی ہے طمانچوں کی صدا

گورے گالوں سے، سیہ گالوں سے                    (طمانچہ)

یوسف ظفر حالات و ماحول کے تھپیڑے کھاتے رہے، کبھی خود کو تنہائی کے ساحل پہ کھڑا پایا، کبھی وطن عزیز کو غلامی کی زنجیر میں مقید دیکھا اور کبھی وطن کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہوئے دیکھا۔ شاعر نے ان اثرات کو خارجی دنیا سے قبول کیا اور داخلی دنیا میں پہنچ کر شعری تخلیقات کا عمل انجام دیا، جس سے ان کی شاعری میں خارجیت کے بجائے داخلیت کا عنصر غالب ہے۔ یوسف ظفر زندگی کی زبوں حالی،معاشرے کے انتشار، وطن عزیز کی محکومی اور تقسیم سے بڑے مضطرب تھے۔نظموں کو درد دل سناتے تھے اور غم حیات سے گھبراکر عشق کی رنگین وادیوں میں پناہ لینا چاہتے تھے تو تسکین قلب کے لیے رومانی اور عشقیہ نظموں کا سہارا لیا۔ ان نظموں میں ’وحشت‘، ’فردوس گوش‘، ’ابدیت‘، ’آخری سہارا‘، ’تحلیل‘ وغیرہ نظمیں بطور نمونہ پیش کی جاسکتی ہیں،مثلاً     ؎

ایک وادی میں جہاں تیری صدا

گھل کے بن جاتی ہے اک جادو کی جھیل

(تحلیل)

اگر حیات کے رازوں کو پا نہیں سکتا

تو تیرے چہرے کے پھولوں میں پھول سکتا ہوں

یہ کم نہیں ہے سکون دل حزیں کے لیے

کہ تیرے حسن کے جھولوں میں جھول سکتا ہوں

                                                                     (آخری سہارا)

شاعر خوابوں کی دنیا میں پہنچ کر غم حیات سے نجات پانے کی کوشش کرتا ہے۔یوسف ظفر کی شاعری میں ’روشنی‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ جو حالات اور ماحول کی تاریکیوں میں مشعل راہ بن جاتی ہے۔ اس لیے اس نے منبع نور، سورج، چاند، تارے، آگ، شعلے وغیرہ کے ذریعہ اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، مثلاً     ؎

تیرگی میں کانپتے شعلے کئی

چونک اٹھتے ہیں نگاہوں میں مری

                                             (حیات رائیگاں)

اب مرا عزم ہے فولاد کی مضبوط چٹان

اب یہاں کانچ کی تلواریں نہیں رہ سکتیں

اب میں خود آگ ہوں ہر شے کو جلاسکتا ہوں

مجھ سے اب ہاتھ اٹھالو کہ میں جاسکتا ہوں

                                                                                        (زنداں)

یوسف ظفر کے یہاں متحرک پیکروں کی بہتات ہے۔ انھوں نے حرکت و حرارت اور روانی کو زندگی کی علامت قرار دیا ہے اور انجماد، خاموشی،سکوت کوبے جان زندگی کے مترادف یعنی موت کا مظہر قرار دیا ہے۔ شاعر منجمد اشیا میں بھی حرکت و روانی دیکھنے کی خواہش کرتا ہے۔ سڑکیں، کھمبے، پتھر وغیرہ کو بھی متحرک دیکھنا چاہتا ہے اوربرستے ہوئے بادل، ہواؤں، تاروں وغیرہ کی حرکت و عمل کا ذکر کرتا ہے، جس میں اسے اپنی ذات منعکس نظر آتی ہے۔

’زنداں‘ اور ’زہرخند‘ کی نظموں میں یوسف ظفر اپنی ذات کی قندیل سے کائنات کی تاریکی کومٹانا چاہتے ہیں اور عمل پیہم سے کائنات کو متحرک دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس نوع کی نظموں میں روشن مستقبل کی امیدیں نظر آتی ہیں لیکن سولہ برس کے بعد شاعر کو اپنی یہ امیدیں صدا بصحرا معلوم ہوئیں۔ ’صدا بصحرا‘ کی نظموں سے شاعر کی ذات میں تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔ شاعر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ذات مثل ایک نقطے کے ہے۔ اسی لیے اسے اپنی کوششوں کی شکست کا احساس ہوتا ہے، لہٰذا ’صدا بصحرا‘ میں جوش وولولہ کے بجائے کرب اور کسک کی آواز سنائی دیتی ہے     ؎

جمی رہی مرے چہرے پہ گردِ فکر حیات

بجھارہا مرے سینے میں آرزو کا چراغ

نہ سرخوشی نہ تمنا نہ ہاؤ ہو کا دماغ

نہ اب وہ آنکھ میں شوخی رہی نہ بات میں بات                                         (تکمیل)

 

گئی، مِٹی، گُل ہوئی وہ نازک سی لَو جو سینے میں ناچتی تھی

وہ لَو جو تابانی نظر تھی

جو دل کے تاروں کو چھیڑتی تھی                                                                (زندگی)

یوسف ظفر کے شاعرانہ طرز پر مشرق ومغرب کا گہرا اثر ہے۔ تشبیہات میں جدت ہے۔ قدیم تشبیہات کو نئے مفاہیم میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ طرز ادا میں اجنبیت ہونے کے باوجود شگفتگی اور روانی ہے۔اس لیے حلقۂ ارباب ذوق کے شعرا میں میراجی اور ن۔م۔راشد مرکزی اور بنیادی حیثیت کے حامل ہونے کے باوجود یوسف ظفر کے بغیر اپنی منزل اور حلقہ کے مقصد کو حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ ان شعرا کے علاوہ بھی ادیبوں کی ایک کثیر تعداد ہے جو حلقہ سے وابستہ تھے، ان میں ایک اہم نام قیوم نظر کا بھی ہے، جنھوں نے میراجی کے اتباع میں نظم، غزل اور گیت کو جذبات و تصورات کا محور بنایا اور دنیا کے تغیرات کو موضوع شاعری بنایا۔ یہ تصورات ان کی نظموں میں کبھی نغمہ کی صورت میں رونما ہوتے ہیں تو کبھی کسک بن کر فضا کو غمگین بنادیتے ہیں۔

قیوم نظر کی نظموں کو یہ کسک ان حالات اور ماحول نے بخشی جن میں وہ اپنی زندگی کا طولانی سفر طے کررہے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے ہیبت ناک مناظر نے بھی ان کی شاعری میں یاسیت اور افسردگی پیداکی وہ اپنی ناہموار زندگی سے بھی بہت افسردہ تھے۔ لہٰذا ان مجموعی تاثرات نے ان کی شاعری میں اداسی، افسردگی، یاسیت اور کرب انگیز کیفیات پیدا کردیں۔ ان کیفیات کا مظہر ’بے بسی‘، ’انجام‘، ’محرومی‘، ’جوانی‘، ’خلش تاثر‘ وغیرہ سے موسوم نظمیں ہیں، مثلاً ’انجام‘ کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں       ؎

میں ہوں اور اک بسیط تنہائی

خشک و تر پر محیط تنہائی

راہ بھولا ہواہوں منزل کی

کیا کہوں کیا ہے کیفیت دل کی

اشک آنکھوں سے بہتے جاتے ہیں

کتنے افسانے کہتے جاتے ہیں

سانس رکتا ہے لڑکھڑاتا ہوں

ذرے ذرے سے خوف کھاتا ہوں

 

(انجام)

قیوم نظر کی نظموں میں سماج کے پست اور مظلوم انسانوں سے ہمدردی کا اظہار ملتا ہے۔ ’بازار میں ایک شام‘، ’مجبوری‘، ’داشتہ‘ وغیرہ نظمیں اسی موضوع کے تحت لکھی ہیں۔

انھوں نے بعض تاثرات کو فطرت کے پس منظر میں بڑے جذباتی انداز میں پیش کیا ہے۔ ’برسات کی رات‘، ’شکست‘، ’خواب گراں‘، ’زندگی‘ وغیرہ نظموں میں یہ تصورات نمایاں ہیں، مثلاً     ؎

کالی کالی بہت ہی ہے کالی/بے ربط مگر جواں حسینہ!

کیا رکھتی ہے زیست کا قرینہ؟/ہلنے لگے اس کے سرنگیں لب

دانتوں کی لکیر ہے درخشاں/یا روح بہار ہے پُرافشاں

(برسات کی رات)

اس نوع کی نظموں سے متعلق قیوم نظر نے ’قندیل‘ کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ:

’’میں اپنے گردوپیش سے بہت متاثر ہوتا ہوں اور بنی آدم کی بیشتر بوالعجبیاں یا قدرت کے اکثر مظاہر مجھے اپنی دنیا میں گم کرکے مجھ پر داخلی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘‘23؎

قیوم نظر کا مجموعہ ’قندیل‘ 1945 میں منظر عام پر آیا اور دس برس کے وقفے کے بعد ‘سویدا‘ شائع ہوا۔ ’قندیل‘ کی نظموں میں شاعر نے اپنے عہد اورماحول کی تباہ حالی اور ہنگامہ خیزی کو عنوان بنایا ہے۔ لیکن ’سویدا‘ میں یہ حالات ایک یاد کی صورت اختیار کرلیتے ہیں، جو خلش کی صورت میں نظموں میں عیاں ہوتی ہے، مثلاً      ؎

یاد آیا وہ زمانہ برسوں/تم نے کیا سمجھا- نہ جانا برسوں

اب نہ وہ خواب نہ وہ باتیں ہیں/وقت نے منزلیں کی ہیں کیا طے

مجھ سے بیگانہ ہوئی ہے ہر شے/ہر طرف پھیلی سیہ راتیں ہیں

اب نہ وہ خواب نہ وہ باتیں ہیں                                                    (خواب کار)

قیوم نظر نے بھی دیگر شعرا کی طرح تصورات کا اظہار مختلف پیکروں کے ذریعے کیا ہے۔ ان کی نظموں میں اختصار اور نغمگی کا حسن ملتا ہے۔ علامتوں او راستعاروں کے استعمال میں جدت اور تازگی ملتی ہے۔

ان شعرا کے علاوہ مختار صدیقی، تابش صدیقی، اختر ہوشیارپوری، عظیم قریشی وغیرہ نے میراجی اور راشد کے قائم کردہ جدید اسالیب کی روشنی میں نظمیں لکھیں۔ نظم کی جدید ہیئت پر طبع آزمائی کی اور داخلیت پر خاص توجہ دی۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حلقہ سے وابستہ شعرا و ادبا کو ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آیا جہاں وہ اپنے نئے تخلیقی تجربات و احساسات کو آزادانہ طور پر برت سکیں۔ان شعرا نے نئے خیالات و تجربات سے اردو نظم نگاری میں جو تو سیع کی ہے وہ اردو شعرو ادب کا گراں قدر قیمتی سرمایہ ہے۔

حواشی

1        حلقۂ ارباب ذوق: یونس جاوید، ص20-21

2        حلقۂ ارباب ذوق (اردو زبان و ادب کے مسائل) ن۔م۔راشد (از: شعر و حکمت، ن۔م۔راشد نمبر) ص379

3        حلقۂ ارباب ذوق :یونس جاوید، ص19

4        اردو ادب کی تحریکیں(ابتداء تا 1975) : ڈاکٹر انور سدید، کتابی دنیا، دہلی 2008، ص536-37

5        ترقی پسند ادب: علی سردار جعفری، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی 2013، ص175

6        اردو ادب کی تحریکیں: ڈاکٹر انور سدید، کتابی دنیا، دہلی 2008، ص545-46

7        انٹرویو، قیوم نظر، ’ماہ نو‘ نئی دہلی، 1972، ص19

8        ترقی پسند ادب: علی سردار جعفری، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی 2013، ص174

9        حلقۂ ارباب ذوق اور اردو زبان و ادب کے مسائل:  ن۔م۔ راشد (شعرو حکمت ن۔م۔راشد نمبر) ص376-77

10      ایضاً،ص378

11      جدید ارد ونظم: نظریہ و عمل: پروفیسر عقیل احمد صدیقی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ 2012، ص176-77

12      ہیئت کی تلاش: ن۔م۔ راشد (سوغات جدید نظم نمبر) 1941، ص170

13      جدید ارد ونظم: نظریہ و عمل: پروفیسر عقیل احمد صدیقی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ 2012، ص205

14      ایضاً،ص224-25

15      تعارف:کرشن چندر ( ’ماورا‘ ن۔م۔راشد) ،ص112

16      نئے شاعروں پر ایک سرسری نظر: وقار عظیم ( ’ساقی‘ جنوری 1945) ص23

17      میراجی کی نظمیں: دیباچہ ’مرغوب علی‘ 1990، ص8

18      ہیئت کی تلاش: ن۔م۔ راشد ( سوغات جدید نظم نمبر) 1941، ص170

19      زہرخند‘ پیش لفظ: یوسف ظفر،ص12

20      پیش لفظ ’زنداں‘: یوسف ظفر، ص12

21      ایضاً،ص10

22      پیش لفظ ’زہرخند‘ یوسف ظفر، ص11

23      پیش لفظ ’قندیل‘ قیوم نظر، ص8

 

Dr Masoom Zahra

4/163 Toti Boundry, Choti Masjid

Jamalpur

Aligarh -202002 (UP)

Cell No: 8115382611

masoomzahra3@gmail..com

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

فارسی تذکروں کے تنقیدی اثرات اردو تذکروں پر، مضمون نگار: عمران احمد

  اردو دنیا، دسمبر 2024 تذکرہ عام طورپرایسی کتاب کوکہتے ہیں جس میں شاعروں کے احوال وآثارکو تفصیلی   یامختصرطورپر بیان کیا گیا ہو شاعروں کی ...