7/1/25

دیگر اصناف نثر میں خودنوشت سوانح نگاری کے عناصر، مضمون نگار: سید وجاہت مظہر

 فکر و تحقیق، اکتوبر-دسمبر2024

تلخیص

روزنامچہ،ڈائری یا یاد داشت بنیادی طور پر ایک ہی چیز ہیں۔اس صنف میں جزئیات نگاری کا وصف ہونے کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ تحریر کرنا لازمی عنصر ہے۔روزنامچہ لکھتے وقت مصنف منظر نگاری اور خاکہ نگاری کا بھی احاطہ کر سکتا ہے۔روزنامچے یا ڈائری میں کئی بار معمولی اہمیت کی حامل باتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں،جن کی کوئی ادبی یا تار یخی اہمیت نہیں ہوتی۔لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ روزنامچہ،ڈائری یا یادداشت خودنوشت سوانح نگار کے لیے خام مواد کا کام سر انجام دے سکتے ہیں۔بعض واقعات سوانح نگار کی یاد داشت سے محو ہو سکتے ہیں۔وہ اس کی ڈائری یا روزنامچے میں اگر محفوظ ہوں تو وہ انہیں از سرِ نو بھولی بسری یادوں کی تجدید مع سیاق و سباق کر سکتا ہے۔

مکاتیب، سفرنامے، ملفوظات و تذکرے بھی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ خودنوشت سوانحی مضامین بھی بڑی حد تک خود نوشت سوانح نگاری کی ایک مختصر شکل کے طور پر ادب میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔

تذکرے، سوانح نگاری کے فن سے قریب تر مانے جاتے ہیں۔ خودنوشت سوانح عمری لکھنے والا اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بذاتِ خود اُجاگر کرتا ہے۔اُس کا مقصد اپنی داستان سنانا اپنی زندگی کے احساسات و تجربات کو دوسروں کے ساتھ ساجھا کرنا ہوتا ہے۔جبکہ ایک سوانح نگار کسی اور شخص کی حیات و کائنات سے وابستہ فراہم شدہ احوال و حقائق کی ترتیب و تدوین کر رہا ہوتا ہے اور اس عمل کے حصول کی غرض سے وہ دوسری کتابوں، خطوں، روزنامچوں،  مضامین و خطبات، باہمی گفتگو جیسے وسائل کا استعمال کرتا ہے۔

کلیدی الفاظ

روز نامچہ ڈائریاں اور یادداشتیں، گلشنِ بے خار،مکتوبات،تبرکات ِ آزاد،سفر نامہ،آثار الصنادید،خود نوشت سوانحی مضامین، تذکرہ، سوانح نگاری اور خودنوشت سوانح نگاری، سفینۃ الاولیا، الفاروق، المامون، مضامین و خطبات، جزئیات نگاری،  انکشافِ ذات،داد طلبی،خود نمائی،نسلی اور علاقائی امتیازات و تعصبات، علم الرجال، فن سیرت نگاری۔

———

 اردو زبان میں باقاعدہ خودنوشت سوانح نگاری کے آغاز سے قبل اوربعد میںتا حال دیگر اصناف سخن میںجو خودنوشت سوانحی عناصر پائے جاتے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ یہاں خصوصی طور پر روزنامچوں، ڈائریوں، مکتوبات اور سفرناموں میں خودنوشت سوانح عمریوں کے عناصر و اجزا کا تذکرہ ناگزیر ہے۔

دراصل روزنامچہ،ڈائری یا یاد داشت بنیادی طور پر ایک ہی چیز ہیں۔اس صنف میں جزئیات نگاری کا وصف ہونے کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ تحریر کرنا لازمی عنصر ہے۔روزنامچہ لکھتے وقت مصنف منظر نگاری اور خاکہ نگاری کا بھی احاطہ کر سکتا ہے۔روزنامچے یا ڈائری میں کئی بار معمولی اہمیت کی حامل باتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں،جن کی کوئی ادبی یا تار یخی اہمیت نہیں ہوتی۔لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ روزنامچہ،ڈائری یا یادداشت خودنوشت سوانح نگار کے لیے خام مواد کا کام سر انجام دے سکتے ہیں۔بعض واقعات سوانح نگار کی یاد داشت سے محو ہو سکتے ہیں۔وہ اس کی ڈائری یا روزنامچے میں اگر محفوظ ہوں تو وہ انہیں از سرِ نو بھولی بسری یادوں کی تجدید مع سیاق و سباق کر سکتا ہے۔

 یہاں ان خود نوشت سوانحی مضامین کا ذکر بھی ضروری ہے جو خود نوشت سوانح نگاری کی ابتدائی شکل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایسے مضامین میں آپ بیتی کی سی گہرائی و گیرائی کا فقدان اور مصنف کی زندگی کے بھولے بسرے واقعات اور تمام تر نشیب و فراز تو شامل نہیں ہوتے جنھیں وہ ہزار جتن کے ساتھ خود نوشت سوانح حیات میں جمع کرتا ہے،لیکن دورِ جدید کی نفسا نفسی کے عالم میں کسی مصنف کی زندگی کے تمام تر وہ پہلو جنھیں وہ قاری تک ترسیل کرنا چاہتا ہے، ’خود نوشت سوانحی مضامین ‘ اس نصب العین کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل قرار دیے جا سکتے ہیں۔ بالیقین یہ مضامین مصنف کا ’بائیو ڈیٹا‘ نہیں ہیں بلکہ ان کی اپنی ادبی اہمیت مسلم ہے۔ اسی لیے اردو کے رسائل و جرائد میں خود نوشت سوانحی خاکوں کے سلسلے شائع ہوتے رہے ہیں۔

انسانی زندگی میں مکتوبات کی اپنی ایک خاص اہمیت و افادیت ہے۔ اردو زبان و ادب میں مکتوبات کا ایک مخصوص مقام رہا ہے۔غالب کے خطوط کے مجموعے ’عودِ ہندی‘اور ’اردوئے معلی‘مولانا آزاد کے خطوط کے مجموعے ’غبارِ خاطر‘، ’نقشِ آزاد‘، ’تبرکاتِ آزاد‘ اور’ کاروانِ خیال‘کے علاوہ مومن، اقبال، سرسید، مرزا رجب علی بیگ سرور،مولوی عبد الحق،مولانا محمد علی جوہر،شبلی نعمانی،خواجہ حسن نظامی اور عبد الماجد دریا بادی  وغیرہ کے مکتوبات کی ادبی و تاریخی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔

سفر ناموں میں مصنف ان واقعات و مناظر کو صفحہ قرطاس پر اُتارتا ہے جن کا وہ خود عینی شاہد ہوتا ہے۔ دورانِ سفر جن تجربات و محسوسات سے مصنف گزرتا ہے انھیں لفظی پیکر عطا کر دیتا ہے۔ اس پیکر تراشی میں وہ اپنی ادبی و تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کرتا ہے۔ دورانِ سفر جن واقعات و مشاہدات کو وہ قلمبند کرتا ہے تو اس میں جگ بیتی و آپ بیتی کی آمیزش سے حسن و نکھار لانے کی سعی کرتا ہے۔ داستانوی ادب تخیلاتی اسفار سے بھرے پڑے ہیں۔ ’باغ و بہار‘ کے کردار اپنے سفر نامے ہی پیش کرتے ہیں۔ دورِ جدید میں اردوادیبوں نے بڑی اہمیت کے حامل سفر نامے قلمبند کیے ہیںمثلاً محمود نظامی کا سفر نامہ ’نظر نامہ‘،بیگم اختر ریاض الدین کا سفر نامہ’سات سمندر پار‘،ڈاکٹر سید احتشام حسین کا سفر نامہ ’ساحل اور سمندر‘،ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کا سفر نامہ’قصہ میرے سفر کا‘،رام لعل کے سفر نامے’خواب خواب سفر‘، ’ماسکو یاترا‘اور’زرد پتوں کی بہار‘اردو ادب میں اپنا اہم مقام رکھتے ہیں۔ 

سوانح نگاری کے اولین نقوش قدیم مذہبی کتابوں اور اساطیری ادب میں ملتے ہیں اور اسلام کی آمد کے بعد فنِ سیرت نگاری کا بھی ارتقا ہوا۔ہندوستانی ادبیات میں صوفیا و شعرا کے ملفوظات و تذکرے بھی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میںاردو میں فارسی اور عربی زبانوں کی روایت کو بخوبی اپنایا گیا۔ ’نکات الشعرا‘، ’گلشنِ بے خار‘،’آبِ حیات‘جیسے تذکروں کے بطن سے جو روایت قائم ہوئی اس نے اردو میں خود نوشت سوانحی اد ب کی صورت اختیار کر لی۔لہٰذا 1783میں میر تقی میر نے ’ذکرِ میر‘ کی شکل میں خود نوشت سوانحی کتا ب تحریر کی۔سعادت یار خاں رنگین کی کتاب ’مجالسِ رنگین‘ بھی اولین سوانحی کتب کی حیثیت رکھتی ہے۔

آگے چل کر حالی نے غالب کی سوانح حیات ’یادگارِ غالب‘اورفارسی کے شاعرسعدی کی شخصیت اور فن پر ’حیاتِ سعدی‘لکھی،نظامی بدایونی نے ’نکاتِ غالب‘تحریر کی، سرسید احمد خاں نے ’سیرتِ فریدیہ‘، ’آثار الصنادید‘، ’خطباتِ احمدیہ‘، شبلی نعمانی نے ’سیرۃ النعمان‘، ’الغزالی‘، ’سوانح مولانا روم‘، ’الفاروق‘ اور ’المامون‘جیسی سوانحی کتابیں لکھیں۔ان تمام سوانحی کتابوں نے اردو ادب میںصنف خود نوشت نگاری کے لیے راہ ہموار کی۔

ان تمام عناصر کے اثرات خودنوشت سوانح نگاری کے فن اور ارتقا پر جو مرتسم ہوئے ہیں، ان کے علاوہ خود نوشت سوانح عمری کا بحیثیت صنف ادب جائزہ لیتے ہوئے، اس کے فنی مفہوم کے تحت،اس کے آغاز و ارتقا اور امکانات کی وضاحت پیش کرنے کی سعی بھی کی جانی لازمی ہے۔

روز نامچے، ڈائریاں اور یادداشتیں

روزنامچوں،ڈائریوں،مکتوبات اور سفر ناموں میں خودنوشت سوانحی عناصر بحسن و خوبی پائے جاتے ہیں۔ ان میںاپنی شخصیت کی یافت کا عنصر بھی جھلکتا ہے جو کہ خود نوشت سوانح نگاری میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔خودنوشت سوانح عمری کا اہم وصف یہ ہے کہ خود مصنف اپنی داستان بیان کرے اور یہی وصف روزنامچوں، ڈائریوں،مکتوبات اور سفر ناموں میں بھی پایا جاتا ہے۔یہ بات  واضح ہے کہ روزنامچے،ڈائریاں اور یاد داشت ایک ہی شے کے تین مختلف نام ہیں۔ان تینوں میں جزئیات نگاری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ڈائری میں جزئیات نگاری کی صفت خود نوشت سوانح سے زیادہ موجود ہو تی ہے۔ روزنامچے کا بنیادی وصف اس کا روزانہ لکھا جانا ہے۔اس لیے اس میںمصنف کی زندگی زیادہ نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔روزنامچے کا لازمی عنصر یہ ہے کہ تقریباً ہر دن کی روداد ایک خاص تسلسل کے ساتھ قلمبند کی جائے۔ اس صنف میں منظر نگاری اور خاکہ نگاری بھی عموماً شاملِ حال ہوتی ہیں۔ اس لیے اہم اور غیر اہم شخصیات کا بیان،خصوصی اہمیت کے حامل مقامات کا ذکر اور زندگی سے جُڑے ہوئے مناظر کی عکاسی بھی قلمبند کی جاتی ہے۔یہاں روز مرہ واقع ہونے والے سانحات کو باریکی کے ساتھ ضبطِ تحریر کیا  جاتا ہے۔مصنف عموماََ ان سانحات و مناظر و مقامات کا چشم دید گواہ بھی ہوتا ہے،اس لیے روزنامچے کے اندراجات خود نوشت سوانح عمری کے لیے خام مواد کے طور پر کام آتے ہیں۔روزنامچے کو اپنے آپ میں بڑی حد تک بے ترتیب خودنوشت بھی کہا جاسکتا ہے، کیونکہ روزنامچہ اصولاً مصنف اپنے آپ ہی کے لیے لکھتا ہے،اس لیے اس میں حقائق جوں کے توں ملنے کے امکانات قوی تر ہوتے ہیں۔سماج اور قاری کا اخلاقی دبائو عموماً روزنامچہ یا ڈائری نگاری میں نہیں ہوتا اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ روزنامچے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اسے تاریخ وار تحریر کیا جائے۔ اس میں روز کے واقعات و مشاہدات کو ضبطِ تحریر میں لایا جاتا ہے۔اس طرح روز نامچے کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ لکھنے والے کے جذبات و تاثرات تازہ بہ تازہ قلمبند ہو تے جاتے ہیں۔ان واقعات میں بھول چوک کی گنجائش نہیں رہتی۔روز نامچے کی تحریر محفوظ اور مستند تصور کی جاتی ہے۔

یاد داشت میں لکھنے والا اپنے حافظے میں محفوظ واقعات یا جذبات کی تفصیلات تحریر کررہا ہوتا ہے۔یاد داشت کو انگریزی میں memoirs کہتے ہیں۔اسے خودنوشت سوانح عمری کا بنیادی عنصر کہاجا سکتا ہے۔ دونوں باہم ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوتے ہیں۔مگر فرق بس یہ ہے کہ خود نوشت میں مرکزی کردار خود مصنف ہوتا ہے جبکہ یاد داشت میں مرکزی اہمیت ان حالات و واقعات کو دی جاتی ہے جن سے مصنف کا سابقہ پڑتا ہے۔خودنوشت سوانح عمری میں اپنی داستانِ حیات تحریر کرتے وقت مصنف اپنے آپ سے محبت کے جذبے،عوام کے خوف اورانا کی تسکین کے نقطۂ نظر سے واقعات میںتحریف و تصحیح کر دیتا ہے جبکہ روزنامچہ یا یادداشت مصنف کے ذاتی تصرف کی چیز ہوتی ہے۔اس لیے  روزنامچہ یا یاد داشت میں بنا کسی خوف یا ہچکچاہٹ کے واقعات،مشاہدات اور شخصیات کے بارے میں مصنف اپنی دو ٹوک رائے لکھ کر محفوظ کرتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ خودنوشت سوانح عمری کے مقابلے میں روز نامچے یا یاد داشت زیادہ وقیع ہوتے ہیں۔ خود نوشت سوانح نگاری میں انکشافِ ذات،داد طلبی،خود نمائی  اور دوسروں کی رہنمائی کا جذبہ کار فرما ہو تا ہے۔اس کے برعکس روزنامچے یا ڈائری میں حقائق جلدی جلدی لکھے جاتے ہیں اور ان حقائق کا زندگی سے گہرا رشتہ ہوتا ہے۔لہٰذا روزنامچے یا ڈائری میں زندگی کے نشیب و فراز کا بآسانی مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے کوئی ہیئت یا فارم کی ضرورت نہیں ہوتی،نا ہی ادبی معیار اس کی ناگزیر شرط ہے۔

اردو زبان میں روزنامچے خال خال ہی ملیں گے۔مولوی مظہر علی سندیلوی،خواجہ حسن نظامی اور خواجہ غلام الثقلین کے روزنامچے ادبی اہمیت کے حامل مانے جاتے ہیں۔ مولوی مظہر علی سندیلوی کا تحریر کردہ روزنامچہ ’ایک نادر روزنامچہ‘ عنوان سے 1954میں منظرِ عام پر آیا۔یہ روزنامچہ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے مرتب کیا تھا۔ رام لعل کا روزنامچہ ہما جمال رضوی نے مرتب کیا اور ’رام لعل کے روز وشب: ادبی ڈائری کے اوراق‘ عنوان سے 1996میں منظرِ عام پر آیا۔خواجہ حسن نظامی نے ادبی و سماجی اہمیت کے حامل روزنامچے تحریر کیے جو کافی مقبول ہوئے۔ انھوں نے اپنی روزنامچہ نگاری کو ’عرفانِ ہستی کے بہی کھاتے‘سے تشبیہ دی۔مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ روزنامچوں میں خودنوشت نگاری کے ابتدائی نقوش موجود ہوتے ہیں اور ایک اچھے خودنوشت نگار کو اپنی زندگی کے احوال،تجربات و مشاہدات کو پیش کرنے میں اپنے روزنامچے یا ڈائری سے بڑی مدد ملتی ہے۔

مکتوبات

خطوط کسی مصنف کی زندگی سے واقف ہونے کا ایک اہم اور معتبر وسیلہ ہوتے ہیں۔جب کوئی شخص اپنی بات یا پیغام دوسرے شخص کو اس کی غیر موجودگی میں لکھ کر ارسال کرتا ہے تو اسے مکتوب نگار ی کہا جا سکتا ہے۔مگر ضرورتاً لکھا گیا خط ادب کے زمرے میں نہیں آتا۔بلکہ ڈاکٹر سید عبد اللہ کے مطابق خطوط نگاری خود ادب نہیں مگر جب اس کو خاص ماحول،خاص مزاج،خاص استعداد،خاص گھڑی اور خاص ساعت میسر آجائے تو یہ ادب بن سکتی ہے۔اردو ادب میں خطوط نگاری کی بڑی مضبوط روایت ہے۔ اردو ادب میں اس صنف کا رشتہ مشرقی علوم سے ملتا ہے۔عہدِ قدیم کی اس روایت ہی سے رقعات، فرامین، تمسّک اور محضر نامے معرضِ وجود میں آئے۔نبیوں،ولیوں اور بادشاہوں کے نوشتے اس فنِ ادب کے ابتدائی نقوش ہیں۔ہندوستان میں مغلیہ دور کے مکاتیب با لخصوص اورنگ زیب عالمگیر کے خطوط ’رقعاتِ عالمگیری‘کی شکل میں محفوظ ہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں خطوط نویسی کے لیے باقاعدہ منشی کا عہدہ ہوا کرتا تھا۔ غالب کے خطوط کے مجموعے ’عودِ ہندی‘ اور ’اردوئے معلیٰ‘ اور مولانا ابوالکلام آزاد کے خطوط کے مجموعے ’غبارِ خاطر‘،’نقشِ آزاد‘، ’تبرکاتِ آزاد‘ اور ’کاروانِ خیال‘ ادبی و تاریخی اہمیت کی کتابیں ہیں۔ ’انشائے مومن‘اور’کلیاتِ مکاتیبِ اقبال ‘کی ادبی و علمی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ سر سید اور ان کے رفقا کے خطوط بھی بڑی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔اردو میں خطوط نگاری کو صنفِ ادب کے درجے تک پہنچانے میں مرزا رجب علی بیگ سرور کا نام بھی قابلِ ذکر ہے۔ اول الذکر ادیبوں کے علاوہ مہدی افادی،مولوی عبد الحق، سید سلیمان ندوی،نیاز فتح پوری، مولانا محمد علی جوہر، خواجہ حسن نظامی، عبد الماجد دریابادی جیسے مشاہیر ادب نے اردو میں خطوط نگاری کے ارتقا میں اپنا تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ آگے اردو میں خطوط نگاری کی ایک مستحکم اور مضبوط روایت قائم ہوئی۔ اردو ادب میں دوسری زبانوں کی بہ نسبت خطوط نگاری بطور ایک ادبی صنف کافی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ مرزا غالب کے خطوط، مولانا ابو الکلام آزاد کے خطوط، شبلی نعمانی کے خطوط اور صفیہ اختر کے خطوط اہلِ اردو میں مقبولِ عام ہیں۔ ان خطوط کے توسط سے ہمیں ان اہلِ قلم حضرات کی خانگی زندگی کے اہم پہلوئوں کے ساتھ ساتھ ان کے ادبی افکار اور سیاسی و سماجی شعور کا پتہ چلتا ہے۔مرزاغالب کے خطوط میں آپ بیتی کا عنصر غالب ہے۔اسی وجہ سے نظامی بدایونی نے ’نکاتِ غالب ‘ عنوان کے تحت غالب کی ایک خود نوشت سوانح عمری مرتب کی تھی،جو 1920 میں منظرِ عام پر آئی۔ مکتوبات آپ بیتی کے قائم مقام تصور کیے جاتے ہیںاور سوانح نگاری میں ایک اہم مآخذ کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔منجملہ یہ کہ خطوط نگاری نثر کی ایک مستقل صنف ہے جس میں لکھنے والا اپنا مافی الضمیر، اپنا کردار، اپنے عادات و اطوار، اپنے جذبات و احساسات اور اپنی بے لاگ رائے راست انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ اردو زبان میں خطوط نگاری کا کافی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔اردو خطوط نگاری کے ابتدائی دور میں فارسی کا رنگ نظر آتا ہے۔ ابتداً اردومکتوبات میں بڑی پر تکلف، مرصع اور مسجع زبان کا چلن تھا لیکن غالب کے خطوط نے یہ انداز یکسر بدل دیا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔ نجی خطوط میں آپ بیتی کا عنصر اور خانگی زندگی کا کوئی پہلو ضرور اُجاگر ہوتا ہے۔غالب کے خطوط میں یہ وصف بہت نمایاں ہے۔ ان خطوط سے اُن کے ذوق و شوق اور خیالات و رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔ اردوادب میں مولانا ابوالکلام آزاد کے خطوط کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔غبارِ خاطر کی ادبی،تاریخی،سماجی و سیاسی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔اس طرح مرزا غالب ہوں یا علامہ اقبال، شبلی نعمانی ہوں یاابوالکلام آزاد، ان سب کے خطوط نہ صرف ان کے احساسات، جذبات و افکار کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان کے خطوط کے توسط سے ان کی جبلتوں کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔مختصر یہ کہ آپ بیتی کی قسموںمیں مکتوبات بہت مفید اور اہم صنف کارآمد صنف کے طور پر تسلیم کیے جاتے ہیں اور ان میں خودنوشت سوانحی عناصر بدرجۂ اتم موجود ہوتے ہیں۔

سفر نامے

سفرنامہ ایک بیانیہ صنفِ ادب ہے۔اس میں خود نوشت سوانح نگاری کے عناصر خوب موجود ہوتے ہیں۔سفر نامہ چشم دید واقعات و مناظر کو پیش کرتا ہے۔اس لیے اس صنف کی بنیادی شرط سفر کرنا ہے۔ سفر نامے میں تجسس اور تحیر پایا جاتا ہے۔سفر کرنے والا اگر اہلِ قلم ہو تو وہ اپنے سفرکے تجربات، مشاہدات اور واقعات سفر نامے میں لکھ کراسے تخلیقی دوام عطاکر سکتاہے۔ شبلی نعمانی،مولانا الطاف حسین حالی اور خواجہ حسن نظامی کے سفر نامے بڑے معلوماتی اور ادبی اہمیت کے حامل مانے گئے ہیں۔ سفر کے احوال کے ساتھ ساتھ مصنف سفرنامے میں اپنے تجربات اور احساسات کا بھی ذکر کرتا ہے۔ ان واقعات و شخصیات کا بھی حوالہ دیتا ہے جن سے دورانِ سفر اس کا سابقہ پڑتا ہے۔اپنے ان بیتے ہوئے لمحات کو جب وہ سفر نامے کی شکل میں پیش کرتا ہے تو گویا آپ بیتی اور جگ بیتی کا حسین امتزاج پیش کر رہا ہوتا ہے۔مصنف کے لیے سفر نامہ لکھتے وقت اپنی ڈائری یا روز نامچے سے بڑی مدد ملتی ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ڈائری یا روزنامچہ بذاتِ خودایک آپ بیتی ہے۔یوں تو میر امن کا قصۂ ’باغ و بہار‘ بھی در اصل اس کے کرداروں کے سفر ناموں ہی کی حیثیت رکھتا ہے،اگرچہ یہ سفر تخیلی ہیں۔ سفر ناموں کے طویل سلسلہ میں بعض بڑ ی ادبی اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔محمود نظامی کا ’نظر نامہ‘، بیگم اختر ریاض الدین کا ’سات سمندر پار‘، ڈاکٹر سید احتشام حسین کا ’ساحل اور سمندر‘، ڈاکٹر شکیل الرحمن کا ’قصہ میرے سفر کا‘ اور رام لعل کے سفر نامے ’خواب خواب سفر‘، ’ماسکو یاترا‘ اور ’زرد پتوں کی بہار‘اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ مانے جاتے ہیں۔ رام لعل نے ادب کے حوالے سے کئی ملکوں کے سفر کیے۔ وہ اپنے سابق وطن پاکستان کے علاوہ نیپال،فرانس، سوئٹزرلینڈ، مغربی جرمنی سَووِ یت روس، انگلینڈ، ڈنمارک، سوئیڈن اور ناروے میں ادبی سرگرمیوں میںحصہ لینے گئے تھے۔ انھوںنے سفرناموں میں ساری روداد اپنے مخصوص افسانوی لب و لہجے میں بیان کی ہے۔ انھوںنے بیرونی ممالک کے لوگوں سے زیادہ ان تارکینِ وطن کا ذکر کیا ہے جو تلاش ِ معاش کے سلسلے میں برِ صغیر ِ ہند سے وہاں گئے ہوئے تھے۔ یہ لوگ وہاں نسلی اور علاقائی امتیازات و تعصبات سے بھی دو چار تھے۔ رام لعل نے نہ صرف اپنے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے بلکہ وہ ان کی روح تک پہنچنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ ’ زرد پتوں کی بہار‘ رام لعل کا سب سے اہم سفرنامہ ہے۔ تقسیم کے تقریباً بتیس برس بعد 1980  میں رام لعل اپنی جنم بھومی ’میانوالی‘ گئے۔ وہاں پہنچ کر در پیش آنے والے اپنے شدید جذبات کے لمحات و احساسات کو رام لعل نے بڑی تاثیر اور افسانوی نثر میں قلم بند کیا ہے۔ اس سفرنامے کا ایک اقتباس مہاراشٹر گورنمنٹ کے محکمۂ تعلیم نے ’مٹی کی خوشبو‘ عنوان سے بارہویں جماعت کے نصاب میں بھی شامل کیا ہے۔

خود نوشت سوانحی مضامین

خودنوشت سوانحی مضمون در اصل خود نوشت سوانح حیات ہی کی نسبتاً غیر مکمل اور مختصر شکل کہی جا سکتی ہے۔ اس کا بنیادی وصف اختصار ِ بیان ہے۔اگرچہ خود نوشت سوانحی مضمون کو کسی شخص کے بائیو ڈیٹا کا روپ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں وہ تمام خالص ذاتی نوعیت کے خیالات و افکار اور واقعات بھی کسی حد تک شامل ہوتے ہیں جو بائیو ڈیٹا کا حصہ نہیں بن سکتے۔البتہ ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ خود نوشت سوانحی مضمون اور خودنوشت سوانح حیات میں وہی فرق ہوتا ہے جو افسانے اور ناول میں ہوا کرتا ہے۔ ایک اچھی خودنوشت سوانح حیات مصنف کی زندگی کے تقریباََ تمام نشیب و فراز اور اچھے برے پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔اس میں مصنف کی زندگی کے داخلی اور خارجی پہلوئوں کا عکس نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس خودنوشت سوانحی مضمون میں اختصار کے وصف کی وجہ سے تمام امور کا احاطہ کرنا محال ہوتا ہے۔پھر بھی مصنف کی زندگی کی اہم جھلکیاں خودنوشت سوانحی مضمون میں یقینا شامل ہوتی ہیں۔ سوانحی مضمون میں بھی اختصار کے ساتھ ہی سہی لیکن مصنف کے ابتدائی دور سے تا دمِ تحریر اہم ترین تجربات و مشاہدات کا احوال تو قلمبند ہوتا ہی ہے۔ایسے مضمون میں قلمکار اپنی مجموعی زندگی کا سر سری جائزہ سپردِ قرطاس کرتا ہے لیکن اس میںکوئی بڑا ادبی و فنی کمال دکھانا محال ہوتا ہے۔ایسے مضامین میں بصیرت کا نصب العین تو پورا نہیں ہوتا مگر خصوصی اہمیت کے حامل واقعات تو شامل ہو جاتے ہیں۔عام طور پرخودنوشت سوانحی مضمون پڑھنے کے بعد قاری کو تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔لیکن بڑے اہلِ قلم  مصنفین نے اپنے سوانحی مضامین میں بھی شخصیت کے خارجی اور داخلی دونوںپہلوئوں کو سمیٹنے کی کامیاب سعی کی ہے۔دورِ جدید کی گہما گہمی اور پیچیدہ و ہنگامہ خیز طریقِ زندگی میں سب سے بڑا مسئلہ  قلت ِ وقت ہے۔خود نوشت سوانحی مضمون قاری کی اس قلت کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھے گئے ہیںاور یہی بات احساسِ تشنگی کے باوجود ان کی پسندیدگی کا باعث قرار دی جا سکتی ہے۔

اردو زبان میں اکثر ادبی رسائل و جرائد میں خودنوشت سوانحی مضامین پر مبنی خصوصی شمارے شائع کرنے کی مضبوط روایت رہی ہے۔ماہنامہ’ آجکل‘ نئی دہلی میں خود نوشت سوانحی مضامین کے اہم سلسلے جاری و ساری رہے ہیں۔ 1912میں ماہنامہ رسالہ’کشمیری میگزین‘لاہور کے مدیر منشی محمد الدین فوق  نے خصوصی ’ایڈیٹر نمبر‘نکالا،جس میں اس دور کے معروف مدیروں نے اپنے سوانحی مضامین قلمبند کیے  اورجنھیں اس ماہنامے میں شائع کیا گیا۔  ماہنامہ ’نگار‘کے ایڈیٹرنیاز فتح پوری تھے۔انھوں نے ماہنامہ ’نگار‘میں اپنے دور کے معروف و معتبر شعرا سے خودنوشت سوانحی مضامین تحریر کرنے کی درخواست کی اورانھیں اس رسالے میں 1941 کے جنوری/فروری کے شمارے میں شائع کیا۔نیاز فتح پوری نے شعرا کے مضامین کے ساتھ ساتھ ان کے نمائندہ کلام کو بھی اس میں شامل رکھا۔اس شمارے میں جن اکابرشعرا کے مضامین و کلام کا انتخاب شامل کیا گیا وہ یہ تھے آرزو لکھنوی،  اثر لکھنوی، احسان  دانش، علی اختر  اختر، اختر شیرانی، اُمید امیٹھوی، بیخود  دہلوی، تاجور  نجیب آبادی، مرزا ثاقب لکھنوی، جلیل مانکپوری، جگر مرادآبادی، جوش  ملیح آبادی، حسرت موہانی، حفیظ جالندھری، دل  شاہجہانپوری، روش صدیقی، امرناتھ سحر، سیماب اکبر آبادی، فانی  بدایونی، فراق گورکھپوری، پنڈت برج موہن دتّاتریہ کیفی، ترلوک چندمحروم، آنند نرائن ملا، ناطق گلائوٹھوی، ناطق لکھنوی، نوح  ناروی، وحشت  لکھنوی، یگانہ چنگیزی، آزاد انصاری، افسر میرٹھی۔

اردو کے جن دیگر ادبی رسائل نے خودنوشت سوانحی مضامین اور شخصی خاکوں پر مبنی خصوصی نمبر شائع کیے ان میں ’نقوش‘ (لاہور)اور ’فن اور شخصیت‘(بمبئی) بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ماہنامہ’نقوش‘ کے مدیر محمد طفیل تھے جنھوں نے 1964میں کم و بیش دو ہزار صفحات پر مبنی اور دو جلدوں پر منقسم آپ بیتی نمبر کی اشاعت کی۔ان خصوصی شماروں میں انھوں نے نہ صرف اردو کے معرکتہ الآرا  اشخاص پر سوانحی مضامین شامل کیے بلکہ دیگر شعبۂ حیات سے متعلق اربابِ حل و عقد کی زندگی کے نشیب و فراز پر محیط خود نوشت سوانحی مضامین،بعض اہم اشخاص کی آپ بیتیوں کی تلخیصات کے علاوہ سوانحی خاکے بھی پیش کیے۔’نقوش‘کے یہ خصوصی نمبرات نہایت کم دستیاب یا نایاب کتب کا درجہ رکھتے ہیں:

فن اور شخصیت (بمبئی) کے مدیر صابر دت تھے جنھوں نے نہ صرف معروف ادبا و شعرا کی شخصیت اور فن سے متعلق بڑے اہم ادبی و تاریخی نوعیت کے مضامین و خاکے تیار کروائے اور انھیں شائع کیا بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں اور فنون کے سرکردہ لوگوں کو بھی اہلِ اردو سے روشناس کرانے کا تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ انھوں نے بڑی اہمیت کے حامل آپ بیتی نمبر نکالے۔ اس ضمن میں انھوں نے کالی داس گپتا رضا کی ترتیبی صلاحیتوں کا بھی بھر پور استعمال کیا۔چنانچہ ماہنامہ فن اور شخصیت کے آپ بیتی نمبر کا پہلا شمارہ مارچ 1980میں منظرِ عام پر آیا تھا۔جریدہ ’فن اور شخصیت ‘ میں شامل سوانحی مضامین و خاکوں اور آپ بیتیوں کی تلخیص پر مبنی سلسلے کو مندرجہ ذیل ترتیب میں پیش کیا گیا۔رسالے کی درجہ بندی  مختلف عنوانات کے تحت کی گئی۔جیسے ’شعر‘ عنوان کے تحت مرزا اسد اللہ خاں غالب،ڈاکٹر محمد اقبال، جگر مراد آبادی،یگانہ چنگیزی،جوش ملیح آبادی،فراق، حفیظ جالندھری،اختر شیرانی،فیض احمد فیض، مجاز، سردار جعفری،جاں نثار اختر،احمد ندیم قاسمی،نریش کمار شاد،قتیل شفائی،ساحر ہوشیار پوری،عزیز قیس،ندا فاضلی اور جاوید (اورنگ آبادی)کی شخصیت اور فن پر مبنی مضامین  شامل کیے گئے۔

صابر دت کے اس تاریخ ساز رسالے میں’افسانہ‘ عنوان کے تحت منشی پریم چند، منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عباس، راجیندر سنگھ بیدی، قرۃ العین حیدر، امرتا پریتم، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، جیلانی بانو، سلمیٰ صدیقی، شکیلہ اختر، آمنہ ابوا لحسن،کشمیری لال ذاکر،سہیل عظیم آبادی،رام لعل، پرکاش پنڈت،مانک ٹالہ،جوگیندر پال،رتن لال، اور وید راہی وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے اور طنز و مزاح کے تحت رشید احمد صدیقی، شوکت تھانوی،کنہیا لال کپور اور فکر تونسوی کا احاطہ کیا گیا ہے۔

رسالے میں’تحقیق و تنقید‘ کے عنوان کے تحت قاضی عبد الودود، مجنوں گورکھ پوری،گیان چندجین، گوپی چند نارنگ،ظ انصاری،کالی داس گپتا رضا کے مختصر سوانحی مضامین شامل کیے ہیں۔ اسی طرح میدانِ صحافت سے نیاز فتح پوری، شاہد احمد دہلوی،گوپال متّل،عابد علی خاں، حسن کمال،کلام حیدری، رضوان احمد اور محمود ایوبی کے مضامین رسالہ’شخصیت اور فن‘میں شامل ہیں۔

اس جریدے میں ’فلم‘ عنوان کے تحت سلیم جاوید،سنیل دت،دھرمیندر،منوج کمار،سنجیو کمار، امیتابھ بچّن، ہیما مالنی سے متعلق مضامین شامل ہیں۔ان کے علاوہ بیگم اختر،جے دیو،صادقین اور سید دائود کی شخصیت اور کارناموں پر مبنی خودنوشت سوانحی مضامین شامل ہیں۔غیر ادباکے ان مضامین کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاوضاً لکھوائے گئے مضامین کے زمرے میںلیے جا سکتے ہیں۔ اس نوعیت کی خامیوں سے قطع نظر اس جریدے میں بے شمار دلچسپ،عمدہ اور منفرد خودنوشت سوانحی مضامین شامل ہیں جو اس کی ادبی اور تاریخی اہمیت کا ثبوت ہیں۔مختصر یہ کہ’نقوش‘ اور ’فن اور شخصیت‘ جیسے رسالوں کے آپ بیتی نمبروں نے اس صنفِ ادب کو ایک مخصوص پہچان عطا کی اور یہ سلسلہ دوسرے رسالوں وجریدوں نے بھی اپنے اپنے انداز میں جاری و ساری رکھا۔

پس یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خودنوشت سوانحی مضامین بھی بڑی حد تک خود نوشت سوانح نگاری کی ایک مختصر شکل کے طور پر ادب میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں کہ ماہ نامہ آجکل (نئی دہلی)میں گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں ’غبارِ کارواں‘کے عنوان سے خودنوشت سوانحی مضامین کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ایسا ہی سلسلہ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں نیا دور (لکھنؤ) نے بھی شروع کیا تھا۔

2016میں عالمی اردو ادب کے کتابی سلسلے بعنوان ’دستاویز ‘کا آپ بیتی نمبر منظرِ عام پر آیا ہے جس میں اہم آپ بیتیوں کے تعارف و تجزیے کے علاوہ اردو کے ممتاز ادیبوں اور نقادوں کے خودنوشت مضامین بھی شائع ہوئے ہیں۔اس دستاویزی اہمیت کے حامل جریدے میں جو خودنوشت سوانحی مضامین شامل ہیں ان کے عنوانات اور مصنفین کے نام یہ ہیں۔ ’تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ‘ ازگوپی چند نارنگ، ’اوائلِ عمری کی کہانی‘ از ظ انصاری، ’بیت گئی ہے جیسی تیسی‘ از سلمیٰ صدیقی، ’یادوں کے چراغ‘از اختر انصاری، ’مکر چاندنی‘ از احمد ہمیش،’اپنے بارے میں ‘از جاوید اختر،’میری کہانی ‘ از خورشید رضوی، ’سب رنگ کی داستان‘ از شکیل عادل زادہ، ’میری داستان‘ از عبداللہ شاہ، ’ان آنکھوں نے کیا کیا نظارہ دیکھا ‘از آصف جیلانی، ’سر گزشت اپنی جو لکھیے تو قلم رکتا ہے‘ از سید انیس شاہ جیلانی، ’رو میں ہے رخشِ عمر‘ از مظفر حنفی، ’عمرِ رفتہ‘ از خالد محمود، ’تہذیب سے تعلیم تک ‘ از علی احمد فاطمی، ’آپ بیتی ‘ از محمد حمزہ فاروقی، ’میرے گزشہ شب و روز‘ از یونس حسن، ’ایک آبلہ پا وادیٔ پُر خار میں آوے‘ از سہیل انجم۔ یہ مضامین نہ صرف مصنفین کی پیدائش سے تاحال سوانحی کہانی پیش کرتے ہیں بلکہ ان کے عہد کے مافی الضمیر کی بھی عکاسی کرتے ہیں اور خود نوشت مضامین یا خاکہ نگاری کا ایک صنفِ ادب کے طور پر مقام و مرتبہ متعین کرتے ہیں۔  

سوانح نگاری اورخودنوشت سوانح نگاری

سوانح نگاری کے ابتدائی نقوش ہمیں دیو مالائی قصوں اور قدیم مذہبی صحیفوں میں ملتے ہیں۔محلوں کی آرائشی تحریروں اور مقبروں کے کتبوں پر بھی سوانحی معلومات تراشی جاتی رہی ہیں۔اس نوعیت کے بنیادی تاریخ نویسی میں بڑی اہمیت کے حامل مانے جاتے ہیں۔ مذہبی تبلیغ و اشاعت کے ساتھ سوانحی کاموں کا فن بھی آگے بڑھا۔ اصحابِ رسول نے حضوؐرکی زندگی کے ہر پہلو کو قلمبند کیا۔بعد کی نسلوں میں حضوؐرکی احادیث و اقوال کی صحت کو جانچنے کے لیے اُصول و ضوابط تیار کیے گئے اور اسے علم الرجال کہا گیا۔اس طرح فن ِسیرت نگاری کا ارتقا ہوا۔ بنی عباس کے دور میں سیرتِ پاک اور اصحابِ رسول کے تذکروں کے ساتھ دیگر دینی علما کی حیات و کارناموں پر مبنی سوانحی کتابیں لکھی گئیں۔ ان مشاہیر میں موسیقار اور شاعر بھی شامل تھے۔ عربی کے ساتھ فارسی زبان میں بھی سوانح نگاری کا فن اپنے ارتقائی ادوار سے گزرا۔صفوی عہد میں شیعہ دانشوروں کے حالاتِ زندگی بھی رقم کیے گئے۔ ہندوستانی ادبیات میں شعرا اور صوفیا کے تذکرے و ملفوظات ملتے ہیں جن میں فارسی اور عربی زبان کی تقلید نمایاں ہے۔داراشکوہ کی سفینۃ الاولیا سوانح نگاری کی اہم ابتدائی کاوش مانی جاتی ہے۔اردو زبان کی دکنی ادبیات میں سوانحی ادب ابتدائی دور سے ہی لکھا گیا جو زیادہ تر منظوم تھا۔گولکُنڈہ اور بیجا پور کے باد شاہوں کے حالاتِ زندگی مثنویوں کی شکل میں لکھے گئے۔ان مثنویوں میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ؐ اور اہلِ بیت کے ساتھ ائمہ کے اوصاف بھی ابتدا میں بیان کیے گئے اور اس کے بعد پھر شاہانہ زندگی سے متعلق حالات و واقعات تحریر کیے گئے۔یہ مثنویاں اپنے دور کے معاشرے کی عکاسی بھی کرتی ہیں، لیکن فنِ سوانح نگاری کے لوازمات پر کھری نہیں اُترتیں۔مثنویوں کی طرح مرثیہ نگاری بھی دکن ہی سے شروع ہوئی جن میں واقعاتِ کربلا کو جذباتی انداز میںبڑے عقیدت و احترام کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس صنف ِ شاعری کو انیس و دبیر جیسے شعرا نے بامِ عروج تک پہنچا دیا۔

ہندوستان میں تذکرے بڑے لمبے عرصے تک فارسی زبان میں لکھے جاتے رہے۔تذکرہ نگاروں نے عموماً سنے سُنائے واقعات بیان کر دیے ہیں۔ان تذکروں میں شاعروں کے کلام کے نمونے اور ان پر تنقیدی تبصروں کے ساتھ ساتھ شعراکی ذات و صفات کو بھی پیش کیا گیا۔اس لحاظ سے تذکرے، سوانح نگاری کے فن سے قریب تر مانے جاتے ہیں۔ میر کا تذکرہ ’نکات الشعرا‘، شیفتہ کا تذکرہ ’گلشنِ بے خار‘ اور مولانا محمد حسین آزاد کی مشہورکتاب’آبِ حیات‘ تذکروں کی بہترین مثالیں ہیں۔میر تقی میر نے 1783میں ’ذکرِ میر ‘عنوان سے اپنی زندگی اور ذاتی حالات سے متعلق خودنوشت سوانحی کتاب لکھی۔ میر نے اس میں اپنے ذاتی حالات کے علاوہ اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی منظر نامے سے متعلق بڑی اہم باتیں بیان کی ہیں۔سوانحی ادب کی تاریخ میں ’ذکرِ میر‘ کا ایک اہم مقام ہے۔ 1215ھ میں ایک اور اہم سوانحی کتاب منظرِ عام پر آئی۔ اس کتاب کا عنوان ’مجالسِ رنگین ‘ تھا۔ یہ کتاب سعادت یار خاں رنگین نے تحریر کی تھی۔اس میں مصنف نے اپنی زندگی کے حالات اوراپنے احباب کے ذاتی اور ادبی نوعیت کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس میں انھوں نے اپنے دور کی معاشرتی و ثقافتی سرگرمیوں کی بڑی سچی تصویرکشی کی ہے۔خواجہ الطاف حسین حالی نے غالب کی شخصیت اور فن پر مبنی مشہور و مقبول سوانحی کتاب ’یادگارِ غالب‘ لکھی۔ نظامی بدایونی نے غالب کے خطوط پر مبنی ان کی ایک خودنوشت سوانح حیات مرتب کی جس کا عنوان ’نکاتِ غالب‘ تھا۔ سر سید احمد خاں نے سوانح نگاری کے میدان میں بڑے اہم کارنامے سر انجام دیے۔انھوں نے پہلے اپنے نانا فرید الدین کے حالاتِ زندگی ’سیرتِ فریدیہ‘کے عنوان سے تحریر کیے۔

حالی نے ’حیاتِ سعدی‘کے دیباچے میں سوانح نگاری کے فن پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ انھوں نے سعدی، سرسید اور غالب جیسی یکتا و یگانۂ روزگار ہستیوں کی سوانح عمریاں لکھ کر اس فن میں اپنا ممتاز و منفرد مقام بنا یا۔شبلی نعمانی نے مشاہیرِ اسلام پر بڑی علمی،ادبی اور تاریخی نوعیت کی سوانح عمریاں لکھیں۔ سیرۃ النعمان، الغزالی، سوانح مولاناروم، الفاروق اور ’المامون‘ جیسی تاریخی و تحقیقی کتابیں لکھ کر فنِ سوانح نگاری میں شبلی نے اپنی منفرد شناخت بنائی۔شبلی نے ’الفاروق‘ میں حضرت عمرؓکی سیرت،ان کا تاریخ ساز کردار اور ان کے دورِ خلافت کے  اہم واقعات کو پیش کیا ہے۔ اس کتاب کے دیباچے میں انھوں نے تاریخ نویسی کے فن پر عالمانہ بحث کی ہے۔شبلی کی تحریر کردہ سوانحی کتاب ’الغزالی‘ 1902میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کو اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ مانا جاتا ہے۔شبلی نے اس میں امام غزالی کی زندگی کا عکس پیش کرتے ہوئے اُس دور کے سماجی اور تعلیمی معیار کا جائزہ لیا ہے۔شبلی نعمانی کی تحریر کردہ ایک اور سوانحی کتاب’سوانح مولانا روم‘ہے۔ یہ بھی 1902میں ہی شائع ہوئی۔ اس کتاب سے شبلی  کے زورِ قلم کے ساتھ ساتھ ان کے مذہبی شعور اور تحقیقی و فنکارانہ صلاحیتوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ شبلی نعمانی کی آخری کتاب ’سیرت النبیؐ ‘ تھی۔اس کتاب کا مسودہ انھوں نے 1910سے تیار کرناشروع کیا تھا اور 1914تک اس کی دو جلدیں مکمل ہو گئی تھیں کہ ان کا انتقال ہو گیا۔باقی کام ان کے ہونہار شاگرد علامہ سید سلیمان ندوی نے پورا کیا۔شبلی اور شرر نے مذہبی اور تاریخی اہمیت کی حامل شخصیتوں پر سوانحی کام کرکے اردو ادب کے دامن کو وسعت عطا کی۔ شرر نے اپنے رسالے ’دلگداز‘ کے توسط سے سوانحی مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں نہ صرف تاریخ کی مقتدر شخصیتوں کی زندگیوں اور کارناموں پر روشنی ڈالی گئی بلکہ اس رسالے میں تاریخ ساز خواتین کو بھی اہل ِ اردو سے متعارف کرایا گیا۔ شرر نے اردو میں شخصی مرقع نگاری کی راہ ہموارکی۔ اس ڈگر پر فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی اور عبد الحق جیسے ممتاز ادیبوں نے شخصی مرقع نگاری کے عمدہ نمونے پیش کیے۔ اس ادبی روایت کو فکر تونسوی اور شاہد احمد دہلوی نے آگے بڑھایا۔شخصی مرقع نگاری کے سلسلے کو شورش کاشمیری اور رئیس احمد جعفری نے بھی اپنے زورِ قلم سے مزید جلا بخشی۔ 

سوانح نگاری میں کسی شخص کی زندگی کی روداد پیدائش سے لے کر موت تک بیان کی جاتی ہے۔ اس میں اس شخص کی زندگی کے اہم واقعات وحالات اور کامیابیوں اور نا کامیوں کابیان شامل ہوتا ہے۔ سوانح عمری کا تعلق فرد سے ہوتا ہے نہ کہ انسانی گروہوں یا خِطّوں کی تاریخ سے۔ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سوانح عمری در اصل کسی ایک انسان کی تاریخ ہوتی ہے اور اس کے توسط سے ہم فردِ واحد کی زندگی کا تاریخی نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے ہیں۔اس طرح سوانح نگاری تاریخ نگاری کی ہی مخصوص صنف کہی جا سکتی ہے۔ اس میں مرکزی اہمیت فردِ واحد کو حاصل ہوتی ہے۔جبکہ تاریخ نویسی میں قوموں کا عروج و زوال لکھا جاتا ہے۔ اسی لیے سوانح نگاری میں تاریخ نویسی کے اصول و ضوابط جھلکتے ہیں۔ سوانح نگار اور مورخ دونوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ صداقت اور حقیقت کا دامن نہ چھوڑیں لیکن ایک خودنوشت نگار کے لیے صداقت نگاری اور حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ فنکارانہ چابک دستی بھی ضروری ہے۔ایک خودنوشت نگار دراصل ایک فن پارے کی تخلیق کر رہا ہوتا ہے۔ڈاکٹر سید شاہ علی نے اس بات کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے :

’’سوانح عمری کا موضوع ایک انسان ہے اور تاریخ کا ایک ملک۔سوانح نگار کے لیے ہجوم ثانوی اہمیت رکھتا ہے اور تاریخ کے لیے افراد خواہ وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں ضمنی حیثیت رکھتے ہیں۔مورخ انسانوں کا ایک دوربین کے ذریعے اور سوانح نگار آدمیوں کا ایک خورد بین کے تحت مشاہدہ کرتا ہے۔ تاریخ ہمیں سرکاری ایوانوں میں لے جاتی ہے۔ سوانح عمری نجی قیام گاہوں میں،تاریخ میں ایک فاتح کی سپاہیانہ صفات اہم ہوتی ہیں اور سوانح نگاری میں اسے بحیثیت انسان پیش کیا جاتا ہے ـ‘‘ 

(ڈاکٹر سید شاہ علی از مضمون تاریخ،سوانح اور خودنوشت کے لوازمات و امتیازات، ’دستاویز‘شمارہ نمبر 4،اشاعت2016 صفحات60-61)

یوسف حسین خاںسوانح نگاری اور خودنوشت سوانح نگاری کے فرق کو ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں :

’’آپ بیتی میں تاریخ کے بر خلاف فرد کی کہانی موضوع ہوتا ہے۔اس کے دل کی، دماغ کی،عمل کی کہانی۔ لیکن یہ کہانی معمولی قسم کی کہانی سے الگ ہوتی ہے۔اس واسطے کہ اس میں جو کچھ پیش کیا جاتا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔اس میں افراد کی شخصیت کو از سرِنو تخلیق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔آپ بیتی لکھنے والے اور مورخ میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں صداقت کی روشنی میں قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ آپ بیتی لکھنے والا ناول نویس کی طرح آرٹ کی تخلیق کرتا ہے۔ دونوں واقعات کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ اگر کہیں زندگی کا بے تُکا پن دکھانا مقصود ہے تو اس سے تصویر کے رنگوں کی ہم آہنگی متاثر نہیں ہوتی۔ دونوں انسانی شخصیت کی پیچیدگی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور سادہ اور من مانے اُصول کے ذریعے سے اس کی توجیہہ  نہیں کرتے۔دونوں صداقتوں کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں جن کا علم سچی انسان دوستی کے لیے ضروری ہے دونوں ادعا پسندی سے احتراز کرتے ہیں ‘‘

(حوالہ از مضمونِ صفدر رانابعنوان ’تاریخ،سوانح اور خودنوشت کے لوازمات و امتیازات‘، ’دستاویز‘شمارہ نمبر 4 ،اشاعت2016، ص61)

خودنوشت نگاری نے دراصل سوانح نگاری کے بطن سے جنم لیا ہے۔حقیقت میں جب سوانح نگاری کا فن اپنے ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا اپنے بامِ عروج پر پہنچ گیا تو خودنوشت نگاری کی ابتدا ہوئی۔ خودنوشت سوانح عمری لکھنے والا اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بذاتِ خود ہی اُجاگر کرتا ہے۔ اُس کا مقصد اپنی داستان سنانا اپنی زندگی کے احساسات و تجربات کو دوسروں کے ساتھ ساجھا کرنا ہوتا ہے۔جبکہ ایک سوانح نگار کسی اور شخص کی حیات و کائنات سے وابستہ فراہم شدہ احوال و حقائق کی ترتیب و تدوین کر رہا ہوتا ہے اور اس عمل کے حصول کی غرض سے وہ دوسری کتابوں، خطوں، روزنامچوں،  مضامین و خطبات، باہمی گفتگو جیسے وسائل کا استعمال کرتا ہے۔بعض ہمہ گیر شخصیت کے حامل افراد کی ذات و صفات پر مبنی سوانحی کتب میں ان کی شخصیت کی مکمل ترجمانی نہیں ہو پاتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ تاریخ کے اوراق و دستاویزات سے ایسے دیگر مزید حقائق بھی سامنے آجاتے ہیں جو،متضاد بھی ہو سکتے ہیں اور ان حقائق کی افہام و تفہیم کے نظریات بھی وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔تو اس طرح سوانحی کتب میں نظرِ ثانی کی گنجائش بھی ہوتی ہے اور از سرِ نو تحریر و ترتیب کے امکانات بنے رہتے ہیں۔ لہٰذا یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خودنوشت نگاری،سوانح نگاری کے مقابلے میں زیادہ طبع زاد اور قابلِ اعتنا صنفِ ادب ہے۔اسی لیے سید علی شاہ اسے زیادہ قابلِ اعتماد صنف قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’خودنوشت سوانح نگار کے لیے اس کی پردہ داری کہ وہ کس قسم کا انسان ہے، ناممکن ہے۔ اس کاطرزِ بیان ہی اسے ظاہر کر دیتاہے۔چونکہ وہ اپنے آپ سے بہترین واقفیت رکھتا ہے،وہ اپنی تصویر بھی عمدہ ترین پیش کر سکتا ہے۔بہرحال سوانح نگار جو اس سے کم تر معلومات کا مالک ہے،اس سے صحیح تر تصویر نہیں کھینچ سکتا۔خودنوشت سوانح عمری قاری کو پسِ پردہ داخلے کی اجازت دیتی ہے اور وہاں سے ہر ایک چیز کا مطالعہ کر سکتا ہے،گویا یہ تصنیف اس کے لیے ایک آئینہ ہے جس میں وہ مصنف کے خد و خال اور شخصیت کا عکس دیکھ سکتا ہے۔  ‘‘

(حوالہ از مضمونِ صفدر رانابعنوان ’تاریخ،سوانح اور خودنوشت کے لوازمات و امتیازات‘، ’دستاویز‘شمارہ نمبر 4،اشاعت2016 صفحہ 62)

لہٰذایہ بات واضح ہے کہ خودنوشت سوانح نگاری کی ابتدا ہی سے اردو زبان کی دیگر اصناف سخن میںبھی خودنوشت سوانحی عناصر پائے گئے ہیں جن کایہاں تفصیلی جائزہ لینے کی سعی کی گئی ہے۔اس ضمن میں یہاں خصوصی طور پر روزنامچوں، ڈائریوں، مکتوبات اور سفرناموں میں خودنوشت سوانح عمریوں کے عناصر و اجزا کا تذکرہ کیا گیاہے۔

کتابیات

1        ڈاکٹر صبیحہ انور،اردو میں خودنوشت سوانح حیات، نامی پریس لکھنؤ، 1982

2        پروفیسر وہاج الدین علوی، اردو میں خودنوشت سوانح : فن و تجزیہ،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،1989

3        خود نوشت اور تنقید خود نوشت، مرتبہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری و اُمراؤ طارق، الوقار پبلی کیشنز، لاہور،1998

4        ڈاکٹر عمر رضااردو میں سوانحی ادب : فن اور روایت،کتابی دنیا،نئی دہلی،2011

5        کیسلس انسائیکلو پیڈیا آف لٹریچر، جلد 1،1953

6        ماہ نامہ نگار، ایڈیٹر نیاز فتح پوری،جنوری /فروری،1941

7        نقوش،آپ بیتی نمبر،جلد اول، لاہور،1964

8        ڈاکٹر سید شاہ علی از مضمون تاریخ،سوانح اور خودنوشت کے لوازمات و امتیازات،’دستاویز‘شمارہ نمبر 4،اشاعت2016

9        حوالہ از مضمونِ صفدر رانابعنوان’تاریخ،سوانح اور خودنوشت کے لوازمات و امتیازات‘، ’دستاویز‘شمارہ نمبر 4،اشاعت2016

10      دستاویز،عا لمی اردو ادب کاکتابی سلسلہ،عزیز نبیل، اردو کی اہم آپ بیتیاں، دوحہ، دہلی

11      اندازِ بیاں، یک موضوعی مجلہ، مدیر حقانی القاسمی،امکانات پبلیکیشنز، دہلی، 2016

 

Dr. Syed Wajahat Mazhar

T-116/1,2nd Floor, Main Market

Okhla Village, New Delhi- 110025

Mob.: 7217718943

mazharwajahat@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

فارسی تذکروں کے تنقیدی اثرات اردو تذکروں پر، مضمون نگار: عمران احمد

  اردو دنیا، دسمبر 2024 تذکرہ عام طورپرایسی کتاب کوکہتے ہیں جس میں شاعروں کے احوال وآثارکو تفصیلی   یامختصرطورپر بیان کیا گیا ہو شاعروں کی ...