6/1/25

اردو کے چند اہم غیر مسلم ادیب، مضمون نگار: ارشاد سیانوی

 فکر و تحقیق، اکتوبر-دسمبر2024

تلخیص

ہندوستان ابتدا سے ہی گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں پر بہت سی زبانوں، بولیوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کے دل میں جگہ بنائی ہے۔مسلمانوں نے اردو، عربی اور فارسی کے ذریعے سب کو گلے لگایا۔ غیر مسلموں نے ہندی سنسکرت کے ذریعے محبت کے پیغام کو عام کیا۔ سکھوں نے پنجابی زبان میں حب الوطنی کے گیتوں سے ہندوستانی قوم کو سر شار کیا۔ جب ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی وغیرہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کر نے لگے تو سبھی نے ایک دوسرے کی زبان کا احترام کیا اور زبان کے ذریعے ایک دوسرے کے دل میں میٹھا رس گھولا۔ ہندوستان کو ’سونے کی چڑیا‘ بنانے والے بھی ہندو اور مسلمان تھے۔ ہندوستان کو انگریزوں کی غلا می سے آزاد کرانے والے بھی مسلم اور غیر مسلم ساتھ ساتھ تھے۔ یہاں تک کہ ملک کی آ زادی میں ملک کے سبھی ہندو، مسلم، سکھ، عیسا ئیوں نے مل کر ملک کو آ زاد کرایا۔

اردو زبان کے فروغ میں جہاں مسلمانوں کا اہم کردار رہا ہے وہیں غیر مسلم ادبا نے بھی اردو زبان کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے شعری کلام، نثری خدمات افسانوں، ناولوں، تنقیدی و تحقیقی مضامین وغیرہ لکھ کر غیر مسلم ادبا نے منفرد کار نامے انجام دیے۔ غیر مسلم شعرا میں منشی ہر گوپال تفتہ، دیا شنکر نسیم، چکبست، تلو ک چند محروم، فراق گو رکھپوری، جگن نا تھ آ زاد، گلزار دہلوی، ستیہ پال آنند، چندر بھان خیال، کما ر پاشی، وشال کھٹر وغیرہ نے اپنے شعری کلام سے ہندوستانیوں کی زبوں حالی، خو شیاں، غم اور روز مرہ کے مسائل کو منفرد انداز میں پیش کیا۔ شعرا کے علاوہ غیر مسلم فکشن نگاروں نے بھی اپنے نا ولوں، افسا نوں اور تنقیدی تحریروں کے ذریعے ہندوستان میں امن و چین، سکون اور سلامتی کا پیغام عام کیا۔ ان غیر مسلم فکشن نگاروں میں پنڈت رتن ناتھ سر شار، پریم چند، گو پال متل، کنہیا لال کپور، راجندر سنگھ بیدی، بلونت سنگھ، رام لعل، جو گندر پال، رتن سنگھ، گو پی چند نارنگ، بلراج مین را، راجیو پر کاش ساحر، ڈاکٹر اجے مالوی وغیرہ نے ہندوستان کی ہندو مسلم مشترکہ تہذیب و تمدن میں اہم کردار ادا کیاہے۔ہندوستان میں محبت کے پیغام کو عام کرنے اور اردو کے فروغ میں ان ادبا کے ادبی کارناموں کو کبھی فرا موش نہیں کیا جاسکتا۔

کلیدی الفاظ

غیرمسلم شعرا، مثنوی، نظم، غالبیات، ناول، افسانے، شعری مجموعے، حب الوطنی، ہندو مسلم اتحاد، تہذیب و تمدن، رسم و رواج، رہن سہن، تاریخ و تمدن۔

ہندوستان کومشترکہ تہذیب کا گہوارہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں پر بہت سی زبانیں اور بولیاں بو لی جاتی ہیں۔ ہر زبان کی اپنی اہمیت و انفرادیت ہو تی ہے اور ہندوستان میں سبھی زبانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اورپڑھاجاتا ہے۔ قدیم زمانے سے ہی ہندوستان میں ہندی، اردو، عربی، فارسی وغیرہ زبانوں کے بولنے والے اور لکھنے پڑھنے والے رہے ہیں۔ ہندوستان کی آ زادی سے قبل بھی یہاں کے لوگ بہت سی زبانوں کے ساتھ اردو کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ہندو مسلم، سکھ، عیسائی وغیرہ سبھی نے ایک دوسرے کی زبان اور بولی کو تسلیم کیا اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اردو زبان صدیوں سے دہلی اور میرٹھ کے اطراف میں بولی جاتی رہی ہے۔ اس کا تعلق شور سینی پرا کرت سے بھی رہا ہے اور اس زبان کو مغربی ہندی بھی کہا جاتا ہے۔ رام بابو سکسینہ نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ:

’’عام لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے بمقابلہ ہندی کے ہندوئوں کی مخصوص زبان سمجھی جاتی ہے اور اسی غلط فہمی سے ایک عرصۂ دراز سے سخت مقابلہ اور مبا حثہ درمیان معاونین اردو اور طرفد ار ان ہندی کے ان دونوں زبانوں کی عمدگی اور خوبی اور نیز اس کی استعداد قبو لیت عامہ کی نسبت چلا آ تا ہے اور اس بحث میں لوگ ایک معمولی بات یعنی زبان اردو کی اصل کو نظر انداز کرجاتے ہیں۔‘‘

           تاریخ ادب اردو، رام بابو سکسینہ، ص 25، بزم خضرراہ، نئی دہلی،2000

یہ سچ ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترقی میں مسلم ادبا وشعرا اور معروف فکشن نگاروں کا بڑا اہم کردار رہا ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ مسلم ادبا کی مانند غیر مسلم ادبا کا بھی اردو زبان و ادب میںخاصا رول رہا ہے۔ اردو شاعری ہو یا اردو نثر دو نوں میں غیر مسلم ادیبوںنے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اپنی قربانیاں پیش کی ہیں اور اپنی اردو تصانیف کے ذریعے ادب کے قارئین کے درمیان مقبول بھی ہوئے۔ اگر ہم اردو کے غیر مسلم شعرا کے بارے میں بات کریں تو ایک بڑا حلقہ ایسا ہے جس نے اردو شاعری کے میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اردو شاعری کے میدان کو وسیع کیا۔  اردو زبان و ادب میں شاعری کے میدان کو وسیع کرنے وا لے بہت سے غیر مسلم شعرا ایسے ہیں جن کو کبھی فرا موش نہیں کیا جاسکتا۔ان غیر مسلم شعرا میں منشی ہر گو پال تفتہ، پنڈت دیاشنکرنسیم،منشی دوارکا پرشاد افق لکھنوی،دُرگاسہائے سرور جہاں آ بادی، پنڈت برج نارائن چکبست، تلوک چند محروم، فراق گورکھپوری، پنڈت بال مکندعرش ملسیانی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر،جگن ناتھ آزاد، پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی، بلراج کومل، ستیہ پال آ نند، کرشن کمار طور، کمار پاشی، جمنا پرشاد راہی، چندر بھان خیال، ش،ک، نظام، وشال کھلر وغیرہ نے اردو شاعری کی زلفیں سنواریں ہیں۔

اردو ادب میں بہت سے غیر مسلم شعرا ایسے بھی ہیںجنہوں نے اردو ادب کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا نام، اپنے استاد کا نام اور اپنے علاقے کے نام کو بھی دوردور تک روشن کیا۔ ایسے غیر مسلم شعرا میں ایک اہم نام منشی ہر گوپال تفتہ کا ہے جسے اردو شاعری کے حوالے سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ منشی ہر گو پال تفتہ غالب کے شاگرد تھے اور غالب نے اپنے شاگردوں میں جن کو خطوط لکھے ان میں منشی ہر گو پال تفتہ کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی مقبولیت کا سبب یہ بھی ہے کہ ان کی زندگی میں ان کے چار دیوان شائع ہو گئے تھے۔ منشی ہر گوپال تفتہ کا پہلا تخلص رامی تھا مگر غالب نے ان کے تخلص کو تبدیل کر کے تفتہ کردیا تھا۔ منشی ہر گو پال تفتہ قصبہ سکندرآ باد[بلند شہر] میں پیدا ہوئے تھے۔منشی ہر گو پال تفتہ اپنے عہد کے نامور ادیب اور شاعر تھے۔ غالب سے خاص قربت تھی اور غالب بھی آپ کو بہت پسند کرتے تھے۔ اردو کے ساتھ ساتھ تفتہ فارسی کے بھی عالم تھے اور فارسی میں چار دیوان بھی شائع ہو گئے تھے۔

پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنؤ کے با کمال شعرا میں شا مل تھے۔ آپ لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور لکھنؤ میں ہی آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کا پورا نام پنڈت دیا شنکر کول تھا اور نسم تخلص کرتے تھے۔ آپ کے والد کا نام پنڈت گنگا پرشاد کول تھا۔ آپ آتش کے شاگرد تھے۔مثنوی ’گلزار نسیم‘ نے آپ کو ایسا مقبول کیا کہ یہ نام آپ کے نام کے ساتھ جڑ گیا آپ کی غزلوں میں آتش کا رنگ نظرآ تا ہے۔ پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی ’ گلزار نسیم‘1844 میں شا ئع ہوئی۔ اب تک اس مثنوی کے کئی ایڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں۔ اس مثنوی میں لکھنوی تہذیب و تمدن کی جھلکیاں نظرآتی ہیںاور سادگی و سلیس انداز بیان اس مثنوی کو ایک نیا حسن عطا کرتا ہے۔

منشی دوار کا پرشاد افق لکھنوی کی پیدا ئش13؍ جولائی1864 کو لکھنؤ کے مقام نو بستہ میں ہوئی۔ آپ کے والد منشی پورن چند ذرہ بھی ایک اچھے شاعر تھے۔ ساتھ ہی آپ کے دادا منشی ایشوری پرشاد شعا عی اور پردادا ادے راج مطلع بھی اپنے عہد کے نا مور شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کا پو را خانوادہ علم و ادب سے وابستہ تھا۔ یہ سب ماحول کی دین تھی کیو نکہ اس زمانے میں لکھنؤ بھی علم و ادب کا گہوارہ ہو تا تھا۔لکھنوی تہذیب پورے ہندوستان میں مشہور تھی۔ منشی دوار کا پرشاد نے اپنی شاعری سے لکھنوی تہذیب میں ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کو فروغ دیا۔ آپ کی شاعری میں حب الوطنی کے عنا صر کے ساتھ ساتھ تاریخ و تہذیب اور تمدن کی خوبصورت جھلکیاں ملتی ہیں۔ آپ کی شاعری میں غزل، مثنوی، قصیدہ،رباعی،مرثیہ وغیرہ شامل ہیں۔ منشی دوار کا پرشاد افق کے چند اشعار ملا حظہ کیجیے    ؎

دیر میں، کعبے میں، گرجا میں تجھی کو دیکھا

دنگ ہوں یا مرے اللہ یہ وحدت کیسی

بو سا لے کر ترا احسان کوئی کیا مانے

اپنے مطلب کے لیے کی وہ سخاوت کیسی

شجر نہیں ہیں تو گلزار میں بہار نہیں

شجر نہیں ہیں اگر، لطف مرغزار نہیں

منشی دوارکا پرشاد افق لکھنوی نے شاعری میں تقریباً تمام اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ آپ ایک قادر الکلام شاعر ہیں۔آپ نے ایک مثنوی’سوانح عمری گرو گووند سنگھ‘ لکھی۔ملکہ  وکٹوریہ کے انتقال پر مرثیے لکھے۔ رباعی، تاریخ گوئی اور مسدس نگاری میں بھی مہارت حاصل ہے۔ ایک قادر الکلام شاعر کے علاوہ آپ ایک اچھے نثر نگاربھی رہے ہیں۔ آپ نے دس ناول لکھے۔ رامائن بالمیکی، مہابھارت، استری سنبودھن سناتن دھرم کی تاریخ کو اہمیت حاصل ہے۔ آپ ایک اچھے ڈرا ما نگار بھی ہیں۔ قواعد نویسی میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا۔ ایسے ممتاز شاعر و ادیب پر اردو ادب کو بھی ناز ہے۔

پنڈت برج نارائن چکبست کشمیری پنڈت تھے جن کا شمار ممتاز نظم نگاروںمیں ہو تا ہے۔ آپ فیض آ باد لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد پنڈت اُ دت نارا ئن چکبست اپنے زمانے میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ آپ کی تعلیم و تربیت لکھنؤ میں ہی ہوئی۔ وکا لت کا امتحان پاس کر نے کے بعد وکیل بن گئے اور لکھنؤ کے مشہور وکیل ہو گئے۔ لیکن بچپن سے ہی شعرو شاعری کا شوق تھا اور آپ کی شاعری نے عوام کے دلوں کو جیت لیا تھا۔ آپ کی شاعری میں حب الوطنی کے عناصر تھے۔ آپ کے یہاں عشق و محبت، حسن، محبوب، شباب وغیرہ کے افسا نے نہیں ہیں بلکہ ملک سے محبت اور قربانی کا جذبہ آپ کی شاعری میں جگہ جگہ نظر آ تا ہے۔ ’خاکِ ہند‘ ان کی مشہور نظم ہے۔ ان کی نظموں کا مجمو عہ ’صبح وطن‘ اور مضامین کا مجموعہ’مضامین چکبست‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

برج نارائن چکبست کو اگر ہندو مسلم اتحاد کا زبردست حامی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیو نکہ آپ کی شاعری نے ہندو مسلم کے دلوں میں نفرت کو دور کرنے کاکام کیا ہے اور ایک دوسرے سے پیار و محبت،خلوص، ہمدردی رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ دیگر شعرا جیسے آتش، انیس، غالب، اقبال وغیرہ سے کافی متاثر تھے۔ وہ سچے ہندوستانی تھے۔ آزادی کی تڑپ، ہندوستان سے محبت، صداقت اور بیداری ِ وطن کے جذبات ان کی نظموں میں جا بجا ملتے ہیں۔ ملک سے محبت اور عظمت کی جھلکیاں ان کے کلام میں شامل ہیں      ؎

اے خاکِ ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے

دریائے فیض قدرت تیرے لیے رواں ہے

لرز رہا تھا وطن جس خیال کے ڈر سے

وہ آج خون رُلا تا ہے دیدۂ تر سے

 چمن کو دیدۂ عبرت سے دیکھ اے بلبل

گلوں سے پھوٹ کے رنگ خزاں نکل آ یا

تلوک چند محروم کا شمار ایسے شعرا میں ہو تا ہے جنھوں نے گونا گوں مسائل پر طبع آزمائی کی۔ ان کی شاعری میں ادبی، اخلاقی، سماجی اور انسانیت سے الفت اور نیچرل مضامین کا ذخیرہ موجود ہے۔ آپ کی شاعری میں بے جان چیزوں اور منا ظر قدرت کے خوبصورت کرشموں کی سچی تصاویر نظر آ تی ہیں۔ تلوک چند محروم کے عہد میں اقبال، چکبست، اسماعیل میرٹھی، سرور جہاں آ بادی وغیرہ اہم شاعر اپنے کلام سے عوام کا دل جیت رہے تھے۔ اسی عہد میں تلوک چند محروم نے اپنی شاعری کا ڈنکا بجایا اور اپنے کلام سے عوام کو نہ صرف چونکایا بلکہ ان کے روز مرہ مسائل کو اپنی شاعری میں پیش کر کے ان کے دلوں کو بھی جیت لیا۔ ان کی شاعری میں پہاڑوں،ندیوں، جنگلوں، کھیت، کھلیان، سماجی تحریکات، سماجی و سیاسی رہنما اور وطن سے محبت کا جذ بہ اور وطنی شاعری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ خواب جہانگیر، نورجہاں کا مزار، مرزا غالب، مہاتما بدھ، سیتا جی کی فریاد وغیرہ قابل ذکر نظموں نے عوام کے دلوں کو جھنجھوڑ دیا ہے۔کلام میں صفائی، سادگی اور طرز بیان کی سنجیدگی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ تجربوں کے انتخاب میں شگفتگی اور روا نی کی خو بصورت دلکشی موجود ہے۔

تلوک چند محروم کا پہلا مجمو عہ’کلام محروم‘ (حصہ اول) 1916 میں شا ئع ہوا جس کا دوسرا ایڈیشن 1921 میں منظر عام پر آیا۔ ’کلام محروم‘ کادوسرا حصہ1920 میں اور تیسرا حصہ1923 میں شا ئع ہوا۔ آپ کا ضخیم مجمو عہ کلام’گنج معا نی‘ 1932 میں لاہور سے شا ئع ہوا جس میں کلام محروم کا سارا حصہ شا مل کیا گیا ہے۔ جس کا دوسرا حصہ1957 میں شا ئع ہوا۔ محروم کی مذہبی نظموں کا مجمو عہ ’مہرشی درشن‘ 1937 میں منظر عام پر آ یا۔ رباعیوں کا مجمو عہ’رباعیات محروم‘ کا پہلا ایڈیشن1947 میں شا ئع ہوا۔محروم کی نظموں کا مجمو عہ’بہار نظم‘ 1947 میں اور قو می نظموں پر مشتمل نظموں کا مجمو عہ’کاروان وطن‘1961 میں منظر عام پر آیا۔ ان مجمو عوں کے علاوہ دیگر نیرنگ معانی، شعلۂ نوا، بہار طفلی، بچوں کی دنیا جیسے مجمو عوں نے بھی عوام کے دلوں کو جیت لیا۔ سماج و معاشرے کے تمام مسائل اور پیچیدگیوں کو تلوک چند محروم نے اپنے کلام میں پیش کیا ہے۔ انسانیت، شرافت، صداقت اور حقیقت پر مبنی ان کی شاعری نے وطن کی آزادی میں بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ رباعی کے میدان میں مشاہیر ادب نے بھی ان کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ نظموں کے علاوہ غزلوں میں انسانی جذبات، خیالات، احساسات وغیرہ نے ان کے کلام کو سچا اور کھرا حسن عطا کیا ہے، چند اشعار ملا حظہ کیجیے      ؎

مندر بھی صاف ہم نے کیے، مسجدیں بھی پاک

مشکل یہ ہے کہ دل کی صفائی نہ ہو سکی

اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا

موج نسیم تھی ادھر آئی اُدھر گئی

رگھو پتی سہائے فراق گو رکھپوری گورکھ پور میں1896میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام منشی گورکھ پرشاد عبرت تھا جو اپنے زمانے کے مشہور وکیل تھے اور شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ فراق کی ابتدا ئی تعلیم تو گھر پر ہی ہو ئی۔ شروع سے ہی ذہین تھے اور ہر درجے میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد خاندان کی ذمے داری آ گئی اور بڑے ہوئے تو ترقی پسند تحریک میںشامل ہو گئے۔ پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی سے کافی متاثر تھے۔ آگے چل کر فراق نے اپنی زندگی کے تجربات کو شعری پیکر میں ڈھالنا شرو ع کردیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آ ئے شعلۂ ساز (1945)، روح کائنات (1946)، رمز و کنایات (1947)، شبنمستان (1947)، گل نغمہ (1959)، ہزاروں داستان (1964)، غزلستان (1965)، چراغاں (1966)، گل بانگ (1967)، اور پچھلی رات (1969)  وغیرہ نے آپ کو قادر الکلام شاعر بنا دیا۔

فراق گورکھپوری کی ابتدا ئی غزلوں میں دیگر شعرا جیسے امیر مینائی، میر وغیرہ کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ میر کے کلام سے آپ اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی تقلید کرنے لگے۔ جذبات کی نفسیات کو آپ اپنے کلام میں اس ہنر مندی سے پیش کرتے ہیں کہ آپ کا کلام جتنی بار پڑھا جائے اتنی بار اس کی معنویت میں بلندی نظر آ تی ہے۔ آپ کی غزلوں، رباعیوں اور نظموں نے عوام کو اس قدر متاثر کیا کہ لوگ بے ساختہ گنگنا نے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ آپ کے شعری مجمو عے’گل نغمہ‘ پر آ پ کو1961 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ آپ کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے پدم بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا اور کمال کی بات یہ ہے کہ ان اہم انعامات کے علاوہ انہیں ہندوستان کے اعلیٰ اور ادبی اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی1970 میں نوازا گیا۔ فراق گو رکھپوری کے چند اشعار ملا حظہ کیجیے     ؎

اہل زنداں کی یہ مجلس ہے ثبوت اس کا فراق

کہ بکھر کر بھی یہ شیرازہ پریشاں نہ ہوا

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

 اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی

یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

 میری گھٹی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زباں

جو بھی میں کہتا گیا حسن بیاں بنتا گیا

پنڈت بال مکند عرش ملسیانی کی پیدا ئش ملسیان ضلع جالندھر میں24؍ ستمبر1908 کو ہوئی۔ آپ اپنے عہد کے ممتاز ادیب، معروف شاعر اور عمدہ نثر نگار و صحافی تھے۔ ان کے آس پاس کا ماحول بھی تعلیم و تربیت والا تھا۔اسی لیے اچھے ما حول کے سبب علمی فضا میں سانس لیتے ہوئے ادبی محفلوں کے چہیتے بن گئے۔ کئی شعبہ جات میں نو کریاں کیں۔ ماہنا مہ ’آجکل‘ میں اردو کے معاون مدیر بھی رہے۔ مشرقی اور مغربی تعلیم سے آ راستہ تھے، ہندی، اردو، انگریزی، فارسی اور پنجابی زبانوں کے ماہر تھے۔ کلا سیکی ادب سے فیض یاب ہو ئے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجمو عہ’ ہفت رنگ‘ کے نام سے1951 میں شائع ہوا۔ دوسرا مجمو عہ ’چنگ و آہنگ‘ 1952 میں شائع ہوا اور تیسرا مجمو عہ’شرار سنگ‘ کے نام سے1967 میں منظر عام پر آ کر داد و تحسین حاصل کر نے میں کامیاب رہا۔ آپ کی نعتوں کا مجمو عہ بھی’آہنگ حجاز‘ کے نام سے1953 میں شا ئع ہوا۔  اردو میں غالبیات پر بھی آپ کی دو مشہور کتابیں ’دیدار غالب‘ 1974 اور’فیضان غالب‘ 1977 میں شا ئع ہوئیں۔ عرش ملسیانی ایک اچھے مترجم بھی ہیں۔ آپ کے ترجموں میں قاضی نذر الاسلام، ہند قدیم کی تمدنی تاریخ، بنگر واڑی، ادھ چنی رات وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کو قدرت نے اردو غزل اور نظم دونوں کا ایک کامیاب شاعر بنایا۔ غزل میں کلا سیکی انداز برتنے والے آپ ایک اہم اور منفردر شاعر ہیں۔ زبان و بیان پر بھی خاصی قدرت رکھتے تھے۔ غزلوں میں قارئین پر اثر کرنے والا ہنر، روانی اور لوچ موجود ہے۔ تخیل کی بلند پرواز اور جذ بات کی پاکیزگی ان کی شاعرا نہ عظمت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ اشعار ملا حظہ کیجیے      ؎

زباں سے کچھ کہو صاحب مگر معلوم ہے ہم کو

تمھارے دل کی سب باتیں ہمارے دل کی باتیں ہیں

تم کو معلوم ہو، اے شیخ و برہمن، تو کہو

اور بھی کوئی عبادت ہے محبت کے سوا

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کے علمبردار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ وہ جس طرح انسان دوستی کے طرف دار نظر آتے ہیں، گنگا جمنی تہذیب کے فروغ میں بھی آپ کے کردار اور قربانی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، دہلی اور دہلی کے قرب و جوار میں منعقد ہونے والے مشاعروں کی رونق سمجھے جاتے تھے۔ ہند وپاک کی ادبی محفلوں اور مشاعروں میں آپ کی شر کت، ادبی محفلوں کی مقبولیت اور کامیابی کی دلیل سمجھی جاتی تھی۔ آپ کا شعری مجمو عہ’طلوع سحر‘ کے نام سے1962 میں منظر عام پر آ یا۔ آپ کی دلچسپ خود نوشت ’یادوں کا جشن‘ کے نام سے1986 میں منظر عام پر آ یا۔ آپ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ شخصی مرثیے اور قطعات پر بھی آپ نے طبع آ زمائی کی ہے۔ تقریباً60برس تک آپ نے شاعری کی زلفیں سنواریں۔ غزل کے یہ اشعار ملا حظہ کیجیے      ؎

دامن سے آ کے مجھ کو اے قاتل ہوا بھی دے

جس نے کیا ہے خون وہی خوں بہا بھی دے

 اداسی، سرد آ ہیں، کرب حسرت، درد مجبوری

 محبت تلخیوں کا ایک شیریںنام ہے ساقی

جگن ناتھ آ زاد مغربی پنجاب میں1918 کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد تلوک چند محروم عیسیٰ خیل اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ جگن ناتھ آ زاد نے بی۔ اے کی تعلیم راولپنڈی سے حاصل کی اور ایم۔ اے کی تعلیم لاہور سے۔ تقسیم ہند کے بعد آ پ دہلی آ گئے اور رسالہ ’آجکل ‘ میں نائب مدیر ہوگئے۔ آپ کو شعرو شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا اور ادبی محفلوں میں آ ناجانا، مشاعروں میں دلچسپی لینا ان کے شوق میں شمار تھا۔ اسی شو ق و ذوق نے آپ کو ایک باکمال شاعر بنا دیا۔ آزاد کا ذہن نظم نگاری کی جانب زیادہ تھا، حا لانکہ غزلوں میںبھی خاصی طبع آزمائی کی اور خوبصورت غزلوں سے بڑے بڑے مشاعروں کو جیت لیا۔ آپ نے علامہ اقبال کا تہہ داری سے مطالعہ کیا اسی لیے ان کو ماہر اقبالیات بھی کہا جاتا ہے۔

جگن ناتھ آ زاد کواردو سے والہانہ محبت تھی۔ اردو کو آپ اپنا اوڑھنا، بچھونا سمجھتے تھے۔ ساتھ ہی قو می اور وطنی شاعری سے ملک کی محبت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ نے نظم کو اپنا خاص میدان بنایا مگر ساتھ ہی غزلوں میں بھی طبع آ زمائی کی۔ ان کی غزلوں میں انسان دوستی، نرم لہجہ، تہہ داری و گہرا ئی، منفرد انداز بیان، احساس کی شدت اور سوز و گداز وغیرہ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ غزلو ں کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے    ؎

 نظر جمتی تو کیا جمتی، قدم رکتے تو کیا رکتے

کہ ہم نے اپنی منزل کو بھی اپنی رہ گزر جانا

تری نظروں کا تبسم، تری باتوں کی مٹھاس

 یاد رکھ بھی نہ سکوں اور بھلا بھی نہ سکوں

پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کو اردو ادب میں وہ مقام حاصل ہے جو آزادی کے بعد کے اردو کے اہم ادبا و شعرا کو ہی حاصل ہے۔ آزادی کے بعد بہت سے شعرا نے اردو محفلوں کے چرا غوں کو پورے ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر روشن کیا ایسے ہی اہم ادبا و شعرا میں گلزار دہلوی کو احترام کی نظروں سے دیکھا اور پڑھاجاتا ہے۔ آپ کے والد کا نام پنڈت تر بھون ناتھ زتشی زار دہلوی تھا جو نواب مرزا داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ آپ کی والدہ بھی ایک اچھی شاعرہ تھیں۔ اردو شاعری آپ کو وراثت میں ملی تھی۔ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کے عنا صر آپ کی شاعری میں جابجا نظر آتے ہیں۔

گلزار دہلوی پنڈت برج مو ہن دتاتریہ کیفی کے شاگرد تھے اور ان کی شاگردی کی ہی وجہ تھی کہ آپ کی شاعری کی گونج پورب پچھم، اتر دکن میں تھی۔ آپ نے اپنی شاعری میں غزلیں بھی لکھیں اور نظمیں بھی۔ آپ صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ آپ کے کلام سے مشترکہ تہذیب کی خوشبو پھوٹتی تھی۔ اردو زبان وادب سے والہانہ محبت، ملک سے لگائو اور ایک ایک ہندوستانی سے اُلفت و شفقت آپ کے کلام اور خطبوں میں جا بجا نظر آ تی ہے۔ اردو زبان و ادب سے محبت کی مثال دیکھیے     ؎

تاریخ وطن حسن وفا ہے اردو

ہر ذرے پہ بھارت کے فدا ہے اردو

آزادی کی تحریک پہ ڈالو تو نظر

کھل جائے گا یہ راز کہ کیا ہے اردو

بلراج کومل کی پیدا ئش 25؍ ستمبر1928 کو سیالکوٹ، پاکستان میں ہوئی۔ آپ ایک اچھے ناقد، افسا نہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے مقبول ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا آ غاز نظم’ اکیلی‘ سے 1946 میںکیا۔ آپ مشاعروں، ادبی محفلوں میں ہمیشہ نظم کے اچھے شاعر کے بطور مقبول تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں کئی قومی اور بین الا قوامی سمینار و مشاعروں میں شر کت کی اور بہت سے مقبول مشاعروں، مذاکروںمیں شریک ہو کر مقبو لیت حاصل کی۔ ان کے شعری مجمو عوں میں میری نظمیں، رشتۂ دل، ناریل کے پیڑ، سفر مدام سفر، انتخاب، نثر اور آ ہنگ، پرندوں بھرا آسمان،شہر میں ایک تحریر، اگلا ورق، لمبی بارش وغیرہ نے آپ کی مقبولیت میں چار چاند لگا ئے۔ بلراج کومل ایک اچھے افسا نہ نگار بھی ہیں۔ اپنے عہد کے معتبر رسائل و جرائد میں آپ کے افسا نے شائع ہوتے تھے اور قارئین کو متاثر کرتے تھے۔ افسا نوی مجمو عہ’آنکھیں اور پا ئوں‘ کافی مقبول ہوا۔ آپ کے تنقیدی مضامین، ادب کی تلاش، تواتر اور تسلسل سے ادب کے قارئین نے خوب اثر قبول کیا۔ آپ کا افسا نوی مجمو عہ کسی اہم کارنامے سے کم نہیں جس میں سیدھے سادے اور سلیس انداز بیان میں کہانیاں تحریر کی گئی ہیں مگر اپنی شاعرا نہ عظمت اور منفرد کلام کے ذریعے آپ زندہ و جا وید رہیں گے۔ بلراج کومل انسانیت کے پجاری تھے اور ہندوستان کے ایک ایک فرد سے سچی محبت کرتے تھے۔ دوسرے کے دکھ درد کو اپنا غم اور درد سمجھتے تھے۔ اپنی نظم نگاری سے آپ نے قارئین اور ناظرین کو کافی متاثر کیا۔ ترقی پسند شعرا میں بلراج کومل کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے’زرد بچے‘،ایک پر اسرار صدا، اکیلی ترسیل، دیدہ تر، منظر وغیرہ آپ کی مشہور نظمیں ہیں۔

ستیہ پال آ نند2؍اپریل1931 کو ضلع چکوال،پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں مگر آپ نے ناول بھی لکھے اور افسا نے بھی۔ افسا نوی مجمو عوں میں جینے کے لیے، اپنے مرکز کی طرف،اپنی اپنی زنجیر، دل کی بستی اور پتھر کی سلیب کا فی مقبول ہوکر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں اور ان مجمو عوں نے قا رئین کو کافی متاثر بھی کیا۔ آپ کے ناول آہٹ، عشق، موت اور زندگی، چوک گھنٹہ گھر بھی کا فی اہم ہیں جنھوں نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

ستیہ پال آ نند کے شعری مجمو عوں میں دستِ برگ، وقت لا وقت، آنے والی سحر، بند کھڑ کی ہے، لہو بولتا ہے، آخری چٹان تک، مجھے نہ کر وداع، میرے اندر ایک سمندر، بیاض عمر وغیرہ نے کافی مقبو لیت حاصل کی۔ آپ بچپن سے ہی کافی ذہین طالب علم رہے ہیں۔ تقسیم وطن کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ سے ایم۔اے انگریزی سے امتیازی نمبروں کے ساتھ کیا اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری بھی پنجاب یو نیورسٹی سے ہی حاصل کی۔آپ اس یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد رہے اور دیگر یو نیورسٹیوں جیسے کولمبیا یونیورسٹی، اوپن یونیورسٹی، انگلینڈ، سعودی عرب یو نیورسٹی وغیرہ۔ بہت سے معتبر رسائل و جرا ئد میں گوشے اور نمبر شائع ہو ئے۔ بہت سے اسکالرز نے آپ پر پی یچ، ڈی بھی کی اور مقالا ت لکھے۔ آپ نظم کے بڑے شعرا میں شمار ہو تے ہیں اور آپ کی تخلیقات کو علمی، ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

کمار پا شی جو لائی 1935 کو بہاول پور پاکستان میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ دہلی آ گئے۔ آپ کا شمار جدید شعرا میں ہو تا ہے۔ آپ کو اپنی زندگی میں ہی کا فی مقبو لیت حاصل ہو گئی تھی۔ آپ ایک نامور شاعر کے ساتھ ساتھ سماج و معاشرے میں امن، چین، سکون، مشترکہ تہذیب و تمدن اور بھا ئی چار گی کو فروغ دینے والے ادب نواز شخصیات میں بھی شامل تھے۔ سماج و معاشرے کی تہذیب و معاشرت، مسائل اور عوامی زندگی کے مسائل سے آپ بخوبی واقف تھے۔ اسی لیے اپنے گہرے تجربات، احساسات سے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں بھی کامیاب ہو ئے۔ ان کی شاعری میں تہہ داری اور وسعت نظری کے تمام عنا صر ملتے ہیں۔ فرد کی تنہائی، اضطرابی کیفیت کو اپنے کلام میں بخوبی پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی شاعری میں قدیم تہذیب کے عناصر، ہندوستان کی تہذیب کا بکھرتا شیرازہ، مذہبی قدریں، سماج و معاشرے کی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی چالبازیاں، انسان دوستی کی عمدہ تصاویر نظر آ تی ہیں۔آپ کے شعری مجمو عوںمیں پرانے مو سموں کی آواز 1966،خواب تماشا 1968،  انتظار کی رات1973،ایک موسم میرے دل کے اندر ایک موسم میرے باہر 1979،اردھانگنی کے نام1987، چاند چراغ1994 نے آپ کو ایسا شاعر ثابت کیا کہ جس کی نظیر مشکل سے ہی ملتی ہے۔

کمار پاشی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے ادیب اور افسانہ نگار بھی تھے۔ آپ نے شاعری کے ساتھ ساتھ افسا نے بھی رقم کیے اور ڈرا مے بھی تحریر کیے۔ان کا افسا نوی مجموعہ’پہلے آ سمان کا زوال‘ 1972 میں منظر عام پر آ یا اور ڈرا موں کا مجمو عہ’ جملوں کی بنیاد‘ 1974 میں شا ئع ہو کر مقبول ہوا مگر جو دلچسپی آپ کو شاعری یعنی غزل اور نظم میں تھی اس دلچسپی نے آپ کو ایک زندہ و جاوید ادیب اور شاعر بنا دیا۔ ان کے شعری و نثری کلام نے قارئین کو سوچنے پر مجبور کیا اور ان کے کلام پر ہندوستان کے بہت سے ناقدین ادب نے تنقیدی مضامین لکھ کر ان کی شعری معنویت میں اضافہ بھی کیا۔ ہندوستان کی قدیم تہذیبی جڑوں کو اپنی شاعری میں بخوبی پیش کر کے آپ نے ملک سے محبت کا ثبوت دیا ہے۔

چندر بھان خیال30؍ اپریل1946 کو مدھیہ پردیش کے ایک گائوں بابئی میں پیدا ہوئے تھے۔ غریبی، مفلسی اور ناداری نے آپ کے گھر کا دروازہ دیکھ لیا تھا اس لیے ابتدا سے ہی غریبی کی زندگی گزاری مگر اسی حالت میں بچپن میں ہی شاعری کا شوق لگ گیا تھا اور مادری زبان ہندی ہو نے کے ساتھ ساتھ شیریں زبان اردو نے آپ کو اس قدر متاثر کیا کہ گائوں میں امام مسجد کے پاس اردو سیکھنے گئے مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا کیونکہ مسجد کے امام صاحب حافظ قرآن تھے اور اردو سے نا واقف تھے۔ کچھ دن کے بعد ایک کتاب’اردو ہندی ٹیچر‘ ملی تو انھوں نے وہ کتاب خریدی اور اس کتاب کے مطالعے سے اردو زبان کو لکھنا، پڑھنا سیکھا۔ 1970 میں روز نامہ’ملاپ‘ کے دفتر میں رام کرشن مضطر معروف اردو شاعر سے آپ کی ملا قات ہوئی اور آپ ان کے شاگرد ہوگئے۔مقبول شاعر فراق گو رکھپوری کے کہنے پر چندر بھان خیال نے اپنا تخلص ’ خیال‘ رکھا۔

چندر بھان خیال کی نظموں کے مجمو عے’شعلوں کا شجر‘1989، گمشدہ آدمی کا انتظار1997، اور حضرت محمدؐ کی سیرت مبارک پر آپ کی مقبول نظم’ لو لاک‘2002 میں شائع ہوئی۔ شعری مجمو عہ ’صبح مشرق کی اذان‘ 2008 میں شائع ہوئی، ’احساس کی آنچ‘ 2015 ایک تنقیدی کتاب ’کمار پاشی:شاعری اور شخصیت‘ 1997، ہندی مجمو عہ کلام ’سلگتی سوچ کے سائے‘ 2002 وغیرہ نے آپ کو ایک منفردشاعر، اہم ناقد اور ممتاز ادیب بنا دیا ہے۔ چندر بھان خیال کی ادبی خدمات کے سلسلے میں اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،مدھیہ پردیش اردو اکادمی، دہلی اردو اکادمی، ساہتیہ اکادمی اور ایران کے خصوصی بین الا قوامی ایوارڈ کے ساتھ ساتھ بھو پالی ایوارڈاقبال سمّان، سیمسنگ ٹیگور لٹریچر ایوارڈ، آل انڈیا یو نانی طبی کانفرنس ایوارڈ وغیرہ سے نوازا جا چکا ہے۔

ش۔ک نظام کی پیدا ئش جودھ پور، راجستھان میں1947 کو ہوئی۔ آپ کا اصل نام شیو کمار نظام ہے اور والد صاحب کا نام گنیش داس بسّا ہے۔ ش۔ ک نظام شاعر بھی ہیں اور محقق بھی۔ناقد بھی ہیں اور اچھے ادیب بھی مگر مابعد جدید شاعر کی حیثیت سے آپ اردو ادب میں اہم مقام بنا چکے ہیں۔ آپ کے شعری مجمو عوں’گمشدہ دیر کی گونجتی گھنٹیاں‘، راستہ یہ کہیں نہیں جاتا، بیاضیں کھو گئی ہیں، سایوں کے سائے میں، سایہ کوئی لمبا نہ تھا،دشت میں دریا وغیرہ نے آپ کو وہ مقبو لیت عطا کی جو بہت کم شعرا کے حصے میں آتی ہے۔ تنقیدی کتابوںمیں تذ کرہ معاصر شعرا جودھپور، منٹو احتجاج اور افسانہ اور مرتبہ کتابوں میںغالبیات اور گپتا رضا، بھیڑ میں اکیلا، دیوان غالب وغیرہ نے ش۔ ک نظام کی مقبولیت میں اضا فہ کیا۔

ش۔ک نظام نے غزل اور نظم میں خاص طبع آزمائی کی۔ تفکرا نہ خیالات، ہندو دیو مالائی عناصر، ہندوستانی تہذیب وغیرہ کا استعمال ان کی شاعری کو کمال عطا کرتے ہیں۔ انداز بیان میں تازگی، سادگی، معصومیت اور تخیلات کی پرواز ان کی غزلوں اور نظموںکو انفراد عطا کرتی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے   ؎

ظلمتوں میں ڈوب جائے گا زمانے کا ضمیر

آسماں سے آگ لے کر آئوں گا کہتا تھا وہ

بدلتی رُت کا نوحہ سن رہا ہے

ندی سوئی ہے جنگل جاگتا ہے

ش۔ک نظام کی شاعری میں اشاروں کنایوںکا خوب استعمال کیا گیا ہے۔ نظمیں ہوں یا غزلیں دو نوں میں آپ نے خاص طبع آزمائی کی مگر آپ کو ایک جدید نظم نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا تسلیم کرتی ہے۔

اردو شعرو ادب کے فروغ میں بہت سے شعرا کی قربا نیوں اور ادبی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر پنجاب میں شعرو ادب کے فروغ میں ادبی خدمات پیش کرنے والوںکی کافی تعداد ہے۔ ان میں وشال کھلر کو قدرو احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کی شاعری کے مجموعوں دھند میں اماں(2011)، خواب پلکوں میں(2017) میں منظر عام پر آ ئے۔ آپ چھوٹی چھوٹی بحروں میں بڑی بڑی باتوں کو کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ نظم اور غزل سے آپ نے شعری محفلوں کو اس قدر پر نور کیا کہ بہت جلد قارئین ان کے داخلی جذبات و احساسات اور تجربات سے واقف ہوگئے۔ نئے استعارے، سادہ اور سلیس زبان، تسلسل، انسلاک، شگفتگی، شائستگی ان کے شعری کلام کی خصوصیات ہیں۔  وشال کھلر کے چند اشعار ملا حظہ کیجیے    ؎

اس نے خوشبو کا تب پتا پوچھا

جب گلابوںمیں تازگی کم تھی

جگنو چراغ رہتے ہیں مجھ سے خفاخفا

یہ اور بات ہے کہ اُ جالا نہیں ہوں میں

اردو کے غیر مسلم ادیبوں نے جہاں اردو شاعری کے میدان کو وسیع کیا وہیں اردو فکشن میںبھی خاصی طبع آزمائی کی۔ یہ حقیقت ہے کہ غیر مسلم شعرا نے اپنے شعری مجمو عوں اور منفرد کلام سے جہاں قارئین اور سامعین کو متاثر کیا وہیں کچھ ادیبوں نے فکشن کے میدا ن میں داخل ہو کر سماج و معاشرے کے تمام مسائل و معاملات کو اس قدر شامل کیا کہ فکشن کے میدان میں ان کے کار نامے تاریخی ہو گئے۔ غیر مسلم ادیبوں کی کاوشوں میں شاعری کے علاوہ افسا نے، ناول، ڈرامے تحقیقی اور تنقیدی مضامین وغیرہ شامل ہیں اور اردو فکشن کے میدان میںان غیر مسلم ادیبوں نے اپنی کارہا نمایاں خدمات سے اپنی اہمیت کا لو ہا منوایا ہے۔ ان غیر مسلم فکشن نگاروںنے اردو فکشن کے حوالے سے بلا تفریق مذہب و ملت اردو فکشن کا ایک اہم اور ادب پرور ماحول تیار کیا۔ غیر مسلم اردو فکشن نگاروںکی فطری،جذباتی صلاحیتوںنے ارتقا کی منازل طے کیں جس سے مشترکہ تہذیب اور ہندوستا نی تہذیبی قدروںمیں اضافہ ہوا۔

مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم ادبا و شعرا اور فکشن نگاروں نے اس زبان کے فروغ میں ہاتھ بٹایا۔ غیرمسلم اردو فکشن نگاروں میں پنڈت رتن ناتھ سرشار، منشی پریم چند، کرشن چندر، اوپیندر ناتھ اشک، دیویندر اسّر، سریندر پرکاش، بلراج مین را، پنڈت برج مو ہن دتاتریہ کیفی، سدرشن، دیویندر سیتارتھی، راجندر سنگھ بیدی، بلونت سنگھ، رام لعل، جوگندر پال،ہر چرن چائولہ، رتن سنگھ، نند کشور وکرم، ڈاکٹر کیول دھیر،دیپک بدکی، راجیو پرکاش ساحر وغیرہ نے اردو فکشن کولائق افتخار بنا دیاہے۔

پنڈت رتن ناتھ سرشار1846 کو لکھنو ٔ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا پورا نام پنڈت رتن ناتھ اور تخلص سر شار تھا۔ آپ نے فکشن کی مشرقی روایات سے انحراف کیا۔ آپ نے ایک تنقیدی مضمون ’ناول نگاری‘ تحریر کیا جس میں داستان، ناول کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے ناول پر اپنے بھر پور تاثرات پیش کیے ہیں۔ آپ ناول نگاری کے میدان میں جدید ناول نگاری کے بنیاد گزاروں میں ہیں۔ آپ کا پہلا ناول ’ فسانۂ آزاد‘ بہت مشہور ہوا۔ رتن ناتھ سر شار نے یوں تو کئی ناول لکھے جن میں جام سر شار، سیر کوہسار، کامنی، خدا ئی فو ج دار، گورِ غریباں، چنچل نار،بچھڑی ہوئی دلہن، ہشو،پی کہاں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

رتن نا تھ سر شار نے اپنے ناولوں میں ہندوستان کی مٹتی ہوئی مشترکہ تہذیب کے شیرا زے کو فن کا ری سے پیش کیا ہے۔ ناول’فسا نۂ آ زاد‘ میں لکھنو ی تہذیب کو خاص طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سر شار کو اردو زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی دسترس تھی۔ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی مضامین لکھتے تھے۔

منشی پریم چند کو اردو میں پہلا افسا نہ نگار تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ نے کائناتِ فکرو نظر کے مروجہ اصو لوں سے ہٹ کر ایسی تخلیقا ت قارئین کو عطا کیں جن سے زندگی اور انسان دوستی کا درس ملتا ہے۔ آپ نے اپنی تخلیقا ت میں دیہی پس منظر، غریب مزدور،کسان، کھیت، کھلیان، غریبی، مفلسی،نا داری کو پیش کیا ہے۔ اعلیٰ اور متوسط طبقات کے درمیان خلش، نفرت، ظلم و ستم کی سچی تصاویر کو پیش کرنے میں منشی پریم چند کو امتیاز حاصل ہے۔ پریم چند کے ناولوں، افسا نوں کے کردار، کسان، مزدور، غریب اور متوسط طبقات کے لوگ ہیں۔ انھیں کرداروں کے ذریعے آپ نے ملک میں بسنے والے کروڑوں کسانوں کی اصل صورت حال اور ان کی روز مرہ زندگی کی پیچیدگی کو پیش کیا ہے۔ ان کے ناولوں اور افسا نوں میں تمام سماجی کیفیات جابجا نظر آ تی ہیں۔ سوا سیر گیہوں، بوڑھی کاکی، نجات،دو بیل، پنچ پرمیشور، دودھ کی قیمت، کفن،پوس کی رات وغیرہ کہا نیاں منشی پریم چند کو زندہ جاوید بنانے میں معاون و مدد گار ثا بت ہوئی ہیں۔ منشی پریم چند کے ناولوں میں گئو دان، میدان عمل، گو شۂ عافیت، چو گان ہستی وغیرہ ایسی تخلیقات ہیں جو اردو ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ تمام شاہکار تخلیقات نا انصافیوں اور جاگیر دارانہ نظام اور زمین داروں کے خلاف صدائے احتجاج ہیں۔ ان سبھی تخلیقا ت میں فن کی اعلیٰ قدریں بھی موجود ہیں۔

کرشن چندر ترقی پسند مصنفین کی انجمن کے اہم اراکین میں شامل تھے۔ ان کے مشہور ناول’شکست‘ نے قارئین کو کافی متاثر کیا۔ آپ نے اپنی تریسٹھ سالہ زندگی میں تقریباً چالیس سال ادب کو دیے۔ ان کے ناول،افسا نے، ڈرا مے، مکالمے کافی مقبول ہوئے۔ آپ نے کل31ناول لکھے۔ ترقی پسند تحریک میں شامل ہو نے کے ناطے آپ کھلے ذہن کے مالک تھے۔ رو مانیت اور حقیقت پسندی آپ کے اندر موجود تھی۔ آپ نے اپنے ناولوں کے لیے بھی الگ الگ اسلوب نگارش، تکنیک اور عمدہ کرداروں کا انتخاب کیا۔ ان کے ناولوں میں طنز کی لہریں دکھائی دیتی ہیں۔ آپ نے جتنے اچھے ناول لکھے اتنے ہی کامیاب افسا نے بھی لکھے۔ آپ نے بچوں کے لیے ایک ناولٹ’الٹا درخت‘ بھی لکھا۔ جس میں طنز کے مختلف پہلو نظر آ تے ہیں۔ ان کا ناول’شکست‘ طا قتور کے ہاتھوں کمزور کے استحصال کے خلاف بغاوت کی داستان ہے، غریبوں، مزدوروں کے جذبات و احساسات ناول میں جا بجا نظر آ تے ہیں۔

اوپیندر نا تھ اشک ایک اچھے افسا نہ نگار ہو نے کے ساتھ ساتھ اچھے نا قد بھی ہیں۔ آپ افسا نے کے فن،اسلوب، تکنیک، پلاٹ وغیرہ سے بخوبی واقف ہیں۔ اسی لیے آپ کے افسا نے عوام میں آج تک مقبول ہیں۔  ان کا افسا نوی مجمو عہ’ کونپل‘ آج بھی اپنی انفرادیت کو بر قرار رکھے ہوئے ہے۔ اس مجمو عے کے دیبا چے میں اوپندر ناتھ اشک لکھتے ہیں:

’’ افسا نہ  نویس سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک کامیاب مقرر کی طرح پہلے ہی فقرے سے ناظر کی دلچسپی میں اضا فہ کرتا جائے۔ حتیٰ کہ کلائمکس پر پہنچ کر اس طرح افسانے کو ختم کردے تا کہ جو اثر وہ اپنے ناظرین پر ڈالنا چاہتا ہے، وہ تمام تر شدت کے سا تھ اس کے دل و دماغ پر مسلط ہو جا ئے۔‘‘(دیباچہ، کونپل، اپندر نا تھ)

دیویندر اسر ایک اچھے ادیب، نا قد، فکشن نگار اور دانشور تھے۔ دیویندر اسرنے ادب، نفسیات اور ماس میڈیا میں بخوبی خدمات انجام دیں۔ اردو، ہندی، انگریزی اور پنجابی میں اب تک آ پ کی پچا س سے زا ئد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ وہ ایک اچھے ناقد بھی ہیں اس لیے ان کی تنقیدی کتابیں فکرو ادب، ادب اور نفسیات، ادب اور جدید ذہن،مستقبل کے رو برو، ادب کی آ برو، نئی صدی اور اردو ادب وغیرہ بہت اہم ہیں۔ ان کے افسا نوی مجمو عے’گیت اور انگارے‘، شیشوں کا مسیحا، کینوس کا صحرا اور پرندے اب کیوں نہیں اُ ڑتے اردو افسانوی ادب میں اہمیت کے حامل ہیں۔ آپ کا ایک اہم ناول’خوشبو بن کے لوٹیں گے‘ بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ ہندی میں بھی ان کی بہت سی کتابوں نے قارئین کو چونکا یا ہے۔انگریزی اور پنجابی میں بھی کئی کتابیں منظر عام پر آ کر داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں۔اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیویندر اسر ایک منفرد تخلیقی فن کار ہونے کے ساتھ ساتھ اہم شخصیت کے مالک تھے۔

سریندر پرکاش نے ابتدا ئے جوا نی میں ہی لکھنے کا آ غاز کردیا تھا۔ ان کی پہلی کہانی ہفتہ وار ’پارس‘ میں شائع ہوئی۔ وہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے چار افسانوی مجمو عے دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم(1968)، دوسرا افسا نوی مجمو عہ برف پر مکالمہ (1981)،تیسرا افسا نوی مجمو عہ باز گوئی (1988) اور چو تھا افسا نوی مجمو عہ’حاضر حال جاری‘(2002)منظر عام پر آ کر مقبول ہوچکے ہیں۔ سریندر پرکاش ایک اچھے افسا نہ نگار ہیں۔لیکن آپ نے کچھ ناول بھی لکھے اور کئی فلموں کی کہانیاں اور ڈائیلاگ بھی لکھے۔

بلراج مین را بھی ایک اچھے اور جدید افسا نہ نگار ہیں۔ آپ کا نام جدید اردو افسا نے میں اتنا اہم ہے کہ بلراج مین را کے بغیر جدید اردو افسا نے کی تاریخ ادھو ری محسوس ہو تی ہے اور جدیدیت کی کہانیاں بلراج مین را کی کہا نیوں کے بغیر اپنا کوئی وجود نہیں رکھتیں۔ اردو فکشن کو ایک نئی طرح سے متعارف کرانے میں بلراج مین را کا خاص کار نامہ ہے۔ بلراج مین را نے زندگی میں جو کچھ دیکھا وہی لکھا۔ آپ نے علامتوں اور تجرید کا سہارا لے کر کہانیاں لکھیں۔ آپ نے افسا نے کو انسان کے دل میں جھانکنے پر مجبور کردیا۔مغربی کہانیوں کے آپ قریب رہے۔ آپ کی کتاب’سرخ و سیاہ‘ بہت مشہور ہے جس پر بہت سے نا قدین نے مضامین تحریر کیے۔ ان کی کہانی’وہ‘ ایک علامتی افسا نہ ہے۔ اس کہانی میں انسانی ذات کی تلاش کو منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مرکزی کردار وہ اندھیری رات میں ماچس کی تلاش میں ادھر اُ دھر پھرتا رہتا ہے۔ یعنی زندگی کے راز کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے بلراج مین را کا یہ افسا نہ ایک اہم اور منفرد کہانی ہے۔ اس میں انسانی در بدری اور تنہائی کو پیش کیا گیا ہے۔

اردو کے اہم غیر مسلم فکشن نگاروںمیں راجندر سنگھ بیدی کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اردو افسا نے کی تاریخ میں آپ کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ آپ کے افسا نوںمیں انسانی فطرت اور نفسیات کا گہرا شعور ملتا ہے۔ آپ نے اپنے عہد و ماحول کا نفسیاتی، جنسی، تہذیبی، اخلاقی پس منظر عوام کے سامنے پیش کیا۔ آپ کے ہر افسا نے میں کچھ نہ کچھ انفرادیت ہے۔ ان کے افسانوں کو پڑھ کر قاری نئے ما حول کا احساس کرتا ہے۔راجندر سنگھ بیدی اکثر اپنے افسا نوں میں کسی نہ کسی دیو ما لائی، تاریخی، تہذیبی واقعے کو سامنے رکھ کر اس میں نئی روح پھونکنے کا کام کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے ہر افسا نے میں انسانوں کی حکا یتوں کو منفرد انداز میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ بوڑھوں کی نفسیات،غلاموں کی مجبوریو ں کو ہنر مندی سے کہانی میں پرو نے کی کوشش کرتے ہیں۔    

راجندر سنگھ بیدی کے ویسے تو سبھی افسا نے مقبول ہیں مگر ان مقبول افسا نوںمیں بھی کچھ افسا نوں نے بیدی کو زندہ و جاوید بنا دیا ہے۔  اس افسانے کی کردار’اندو‘ میں وہ تمام خصوصیات ہیں جو ایک وفا دار بیوی میں ہو تی ہیں۔ ادب کے نا قدین نے اس کہانی کو شاہکار افسا نہ تسلیم کیا ہے۔بیدی کی دوسری کہا نیاں انفرادی حیثیت رکھتی ہیں۔ کہانیوں میں ان کے یہاں پنجاب کے دیہات اور گائوں کی تلخ سچائیاں موجود ہیں۔

بیدی نے سماج و معاشرے پر مبنی ہر طرح کے افسا نے رقم کیے۔ معاشی بد حالی،بے روزگاری، غریبی،مفلسی پر مبنی افسا نے بیدی کو ایک عمدہ افسانہ نگار ثابت کرتے ہیں۔ افسا نوی مجمو عوں دانہ و دام (1939)،گرہن(1942)، کوکھ جلی(1949)، اپنے دکھ مجھے دے دو(1965)، ہاتھ ہمارے قلم ہوئے(1967)، مکتی بودھ(1982)نے راجندر سنگھ بیدی کو ایک اہم اور ممتاز افسا نہ نگار ثابت کیا ہے۔

راجندر سنگھ بیدی نے ایک ناولٹ ’ ایک چادر میلی سی‘ کے نا م سے 1962 میں لکھا اور’خود نوشت‘ آئینے کے سامنے (جریدہ بیدی نمبر1984،’ہاتھ ہما رے قلم ہوئے‘(جریدہ بیدی نمبر، 1984) چلتے پھرتے چہرے وغیرہ سے ادبی خدمات کا پتہ چلتا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کے فن میں تصورات کی اہمیت، تیز مشاہدہ، دلکش اسلوب اور سادہ انداز بیان شامل ہے۔ ان کے افسانوں میں پنجاب کی سر زمین بولتی نظر آ تی ہے اور کہتی نظر آ تی ہے کہ بیدی اپنے عہد کا ایک ممتاز فکشن نگار ہے۔

بلونت سنگھ ایک ادیب، افسا نہ نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے اہم مقام رکھتے ہیں۔ آپ نے سات افسانوی مجمو عے، چار ناول اور ہندی کی تقریباً تیس کتابیں لکھیں۔ آپ اردو، ہندی، انگریزی میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کے ناول’رات،چور اور چاند‘، ایک معمولی لڑ کی، عورت اور آبشار اور کالے کوس کا شمار اہم ناولوں میں ہو تا ہے۔ افسا نوی مجمو عوں میں جگا، تاروپود، ہندوستان ہما را، پہلا پتھر، سنہرا دیش وغیرہ شامل ہیں۔اب تک آپ کے اردو اور ہندی میں 22 ناول اور300کہانیاں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان کی کہانیوں میں پنجاب کے تہذیبی اقدار و ثقافت اور وہاں کی عشقیہ کہا نیاں ملتی ہیں۔

جب ہم اردو کے غیر مسلم ادبا اورفکشن نگاروں کی بات کرتے ہیں تو ان میں رام لعل کا نام سر فہرست نظر آ تا ہے۔ اردو، انگریزی اور سنسکرت زبانوں سے بخوبی واقف تھے۔ آپ کے افسا نوں کا پہلا مجمو عہ’آئینے‘1945 میں منظر عام پر آ یا اور اس مجمو عے کے بعد ان کے دیگر افسا نوی مجمو عے جیسے انقلاب آ نے تک، جو عورت ننگی ہے، وہ مسکرائے گی، نئی دھرتی پرا نے گیت، گلی گلی آ واز تو پہچانو، چراغوں کا سفر، انتظار کے قیدی، کل کی باتیں، اکھڑے ہوئے لوگ، گزرتے لمحوں کی چاپ، معصوم آنکھوں کا بھرم، ڈوبتا ابھرتا آدمی، سدا بہار چاندنی منظر عام پر آ ئے۔ آپ نے ناولوں میں بھی اپنا مقام پیدا کیا اور ناول’مٹھی بھر دھوپ‘، کہرا اور مکان، نیل دھرا شائع ہو ئے۔     

 رام لعل نے بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں۔ ان کہانیوں میں اڑتا ہوا سردار، پانچ مصیبتیں، آنے والے کل کے سپاہی، دادی ماں، بھیا نک مو نچھوں والا پو سٹ مین، ڈیڈی کی چو ری وغیرہ شامل ہیں۔ رام لعل نے ڈرا مے اور سفر نامے بھی لکھے۔ آ پ نے ہمیشہ سماج و معاشرے کے پے چیدہ مسائل کو اپنی کہا نیوں کا موضوع بنایا۔

جوگندر پال اردو فکشن نگاروں میں احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کے احترام کی خاص وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے تخلیقی سفر کے دوران ہی ناقدین ادب نے ان کے فکرو فن پر لکھنا شروع کردیا تھا۔ جو گندر پال، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین وغیرہ پر بے شمار نا قدین نے قلم اٹھا یا اور ان کے فن پر بحث کی۔ جوگندر پال کی کہا نیوں کا جب تہہ داری سے مطا لعہ کیا تویہ نتیجہ اخذ ہوا کہ ان کی کہا نیوں میں فن، فلسفہ، تفکراتی لہریں قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ان کے فکشن میں فکر بھی ہے اور فلسفہ بھی۔ ان کے افسانوں میں فکر کی بلندی نظر آتی ہے۔ آپ کے افسا نوی مجمو عوں میں دھرتی کا لال (1961)، میں کیوں سوچوں (1962)، رسائی (1969)، مٹی کا ادراک (1970)، لیکن (1977)، بے محاورہ (1978)، بے ارادہ (1981)، کھلا (1989)، کھودو بابا کا مقبرہ (1994)  وغیرہ ہیں۔

جوگندر پال کے ناول ایک بوند لہو کی(1962)،نا دید(1983)، خواب رو(1991) نے ناول کے میدا ن کو وسیع کیا۔ ناول کے علاوہ ناولٹس جیسے ’بیانات‘ (1975)، آمد و رفت (1975)  وغیرہ نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ جو گندر پال کے کچھ ناول، افسانے اور افسا نوی مجموعے دیگر زبانوں میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔

اردو کے غیر مسلم ادبا نے اپنی تخلیقا ت کے ذریعے گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم اتحاد کو بر قرار رکھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ہندو اور مسلمانوں کے کرب کو شاعری، ناولوں اور افسا نوں کے ذریعے وسیع پیمانے پر نمایاں کرنے کی کو ششیں کیں تا کہ نئی نسل بھی ان سے واقف ہوسکے، ساتھ ہی ہندوستانی معاشرے کی خو بصورت تصاویر کی عمدہ جھلکیاں، رسم و رواج، رہن سہن، ہندوستانیوں کا لباس اور ملک کی شاندار تاریخ سے سب واقف ہو سکیں۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی میں میل جول، بھائی چارہ، امن و سکون اور تہذیب و تمدن کو بر قرار رکھنے میں مسلم ادبا کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ادبا و شعرا اور مشاہیر ادب کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ ان غیر مسلم ادبا کی ادبی خدمات کو کبھی فرا موش نہیں کیا جاسکتا۔

 

Dr. Irshad Siyanvi

Urdu Deptt., Chaudhary Charan Singh University

Meerut- 250001 (UP)

Mob.: 9759238472

Email: irshadali223234@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

فسانۂ عجائب اور رشید حسن خاں کی تحقیقی ژرف بینی، مضمون نگار: محمد فیصل خان

فکر و تحقیق، اکتوبر-دسمبر2024 تلخیص رشید حسن خاںنے 1990 میںرجب علی بیگ سرورکی داستان’ فسانۂ عجائب‘ کو پہلی مرتبہ فرہنگ، حواشی،تعلیقات، تش...