6/1/25

شبلی کے شعری ابعاد، مضمون نگار: عادل حیات

 

 فکر و تحقیق، اکتوبر-دسمبر2024


 تلخیص         

سرسید احمد خاں کے رفقا میں شبلی نعمانی نے سیرت، سوانح اور تاریخ نگاری کو ایک سمت دی اور اردو نثر کی مختلف اصناف میں اپنی خاص پہچان بنائی۔انھوں نے فارسی میں شاعری کی اور اردو شعر و ادب کے چراغ کو بھی جلائے رکھا۔ ان کی طبیعت بچپن ہی سے شعر و ادب کی طرف راغب تھی، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کا شعری ذوق فطری اور وجدانی تھا۔ شبلی کی ابتدائی شاعری روایتی ضرور تھی، لیکن علی گڑھ آنے کے بعد کالج کی فضا اور سرسید کے اثر سے ان میں تبدیلیاں آتی گئیں، جو کہ حیدرآباد اور لکھنؤ کے زمانۂ قیام کے دوران بھی جاری رہیں۔ چنانچہ شبلی کی شاعری میں بتدریج فنی اور فکری پختگی کا احساس ہوتا ہے۔علامہ شبلی نعمانی نے غزل، نظم، مثنوی، مرثیہ، قصیدہ، قطعہ اور مسدس جیسی متعدد اصنافِ شاعری اور ہیئتوں میں دادِ سخن دی ہے۔ ان کی مذہبی، اخلاقی، تاریخی اور سیاسی نظمیں اردو کے شعری سرمائے میں گراں قدر اضافے کا حکم رکھتی ہیں۔

کلیدی الفاظ

علامہ شبلی نعمانی، کلیاتِ شبلی، جدید، نیچرل، تسنیم، ذوقِ مطالعہ، فکرِ سخن، بتدریج، غزل، نظم، مثنوی، قصیدہ، قطعہ، مسدس، ہیئت، صنف، مذہبی، اخلاقی، سیاسی،طبعی، تقابلی، کلاسیکی، بلقان، شہرآشوب، خانماں، برطانیہ،  تاریخی نظمیں، جنگ بلقان، مثنوی صبح امید، سلطان عبدالحمید خان، قصیدہ، قطعات۔

———

اردو شاعری اپنے ارتقائی دور کے ہر زمانے میں تغیر و تبدل سے دوچار ہوئی ہے۔ جنگِ آزادی کے بعد برطانوی حکومت کے زیرِ اثر حالات بدلے تو اس وقت بھی اردو شاعری میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ شعرا نے خیال و خواب کی دنیا سے الگ ہوکر نیچرل انداز میں اپنے تجربہ و احساس کو شاعری کی مختلف ہیئت میں پیش کیا۔ ان شعرا میں سرسید احمد خاں کے رفقا بھی شامل تھے۔ انھوں نے بھی علی گڑھ تحریک کے مقاصد کے پیشِ نظر نیچرل شاعری کو ترجیح دی۔ علامہ شبلی نعمانی اسی دور کے شاعر ہیں۔ ان کی تخلیقات میں شاعری کا روایتی تصور نہیں، بلکہ اس کا جدید رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ انھوں نے سیرت، سوانح اور تاریخ نگاری کو ایک سمت دی اور اردو نثر کی مختلف اصناف میں اپنی خاص پہچان بنائی، جہاں انھوں نے فارسی میں شاعری کی وہیں اردو شعر و ادب کے چراغ کو بھی جلائے رکھا۔ اسداللہ خاں کو اپنی فارسی شاعری پر ناز تھا، لیکن اردو شاعری نے انھیں ادب کی دنیا میں غالب بنایا۔ اسی طرح شبلی نعمانی نے اردو شاعری کو اپنا قابلِ فخر کارنامہ قرار دینے کے بجائے اسے زمانۂ جاہلیت کی یادگار بتاکر رد کردیا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ شبلی نعمانی کا ایک شاعر کی حیثیت سے مطالعہ کرتے ہوئے لامحالہ ان کی اردو شاعری زیرِ بحث آئے گی۔ شبلی نعمانی کی طبیعت بچپن ہی سے شعر و ادب کی طرف راغب تھی، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کا شعری ذوق فطری اور وجدانی تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی وہ کتب فروشوں کی دکانوں پر جابیٹھتے اور گھنٹوں مختلف شعرا کے دواوین کا مطالعہ بڑے ہی انہماک سے کرتے،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھیں بہت سے شعرا کے اشعار ازبر ہوگئے۔ شبلی نعمانی کے استادوں میں مولانا فاروق چڑیا کوٹی اور شمشاد لکھنوی نے ان کے شعری ذوق کو مزید جلا بخشی۔ علاوہ ازیں ان کے ذوقِ شعری کو نکھارنے میں علی گڑھ، حیدرآباد اور لکھنؤ کی ادبی فضا، شعرا کی صحبتوں اور ذاتی مطالعے و مشاہدے کا دخل بھی ہے۔ ان کے بچپن کے ایک استاد کے مطابق شبلی کو لڑکپن کے زمانے میں ایک چادر کی ضرورت ہوئی۔ ان کے والد نامور وکیل تھے۔ اعظم گڑھ کے لوگ انھیں عزت و احتشام کی نظروں سے دیکھتے اور انھیں اپنا رہنما خیال کرتے تھے۔ شبلی نعمانی نے خط یا کسی اور ذرائع سے اپنی حاجت گوش گزار کرانے کے بجائے کاغذ پر ایک شعر لکھ کر والد کو بھیج دیا         ؎

پدر جس کا یوں صاحبِ تاج ہو

پسر اس کا چادر کو محتاج ہو

ان کے والد بھی چونکہ ادبی ذوق رکھتے تھے، اس لیے بیٹے کے طریقۂ طلب سے محظوظ ہوئے اور انھیں ایک نفیس قسم کی چادر انعام میں بھجوا دی۔ایسا ہی ایک واقعہ شبلی کے عربی اور فارسی کے استاد مولانا فاروق چڑیا کوٹی کے حوالے سے درج کرتے ہوئے سیدسلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ شبلی ننگے سر بیٹھے تھے۔ مولانا فاروق چڑیاکوٹی نے پیچھے سے سر مبارک پر ہلکی سی چپت لگائی اور خوش طبعی سے فرمایا      ؎

ہے گا چپت گاہ خلائق پہ سر

شبلی ہڑبڑا گئے، لیکن ہوش و حواس کھوئے بغیر انھوں نے اپنے استاد کے مصرعے پر فی البدیہہ دوسرا مصرعہ لگا دیا  ع

جتنے ہیں سر ان پہ ہے فائق یہ سر1؎

مولانا شبلی نعمانی ابتدائی زمانے میں بالکل روایتی قسم کے شاعر تھے۔ ان کا کلام طریقۂ اظہار اور موضوعات کی سطح پر بھی روایتی تھا۔ اس وقت منشی امیراللہ تسلیم لکھنوی کی شاعری کا ڈنکا بجتا تھا۔ شبلی نے بھی تسلیم کے وزن پر اپنا تخلص تسنیم رکھا، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد انھوں نے اپنے نام ’شبلی‘ کو  اپنا تخلص بنالیا۔علامہ شبلی نعمانی کی اردو شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

’’مولانا شبلی کی اردو شاعری بالکل خودرو پودا ہے، نہ انھوں نے اس میں کسی سے اصلاح لی، نہ جم کر اردو شاعری کی اور نہ کبھی اردو شاعری کو عزت و شہرت کا ذریعہ سمجھا۔‘‘ 2؎

شبلی کے شعری ذوق کو سنوارنے اور سجانے میں مولانا فاروق چڑیا کوٹی اور شمشاد لکھنوی کا بڑا ہاتھ ہے، لیکن انھوں نے اپنے زمانے کے کسی بھی استاد شاعر سے اصلاح نہیں لی اور نہ ہی غالب کی طرح کسی کو اپنا خیالی استاد بنایا۔ ان کا شعری سرمایہ ذوقِ مطالعہ اور فکرِ سخن کا نتیجہ ہے۔ ان کی ابتدائی شاعری روایتی ضرور تھی، لیکن علی گڑھ آنے کے بعد کالج کی فضا اور سرسید کے اثر سے ان میں تبدیلیاں آتی گئیں، جو کہ حیدرآباد اور لکھنؤ کے زمانۂ قیام کے دوران میں بھی جاری رہیں۔ چنانچہ شبلی کی شاعری میں بتدریج فنی اور فکری پختگی کا احساس ہوتا ہے۔علامہ شبلی نعمانی نے غزل، نظم، مثنوی، مرثیہ، قصیدہ، قطعہ اور مسدس جیسی متعدد اصنافِ شاعری اور ہیئتوں میں دادِ سخن دی ہے۔ ان کی مذہبی، اخلاقی، تاریخی اور سیاسی نظمیں اردو کے شعری سرمائے میں گراں قدر اضافے کا حکم رکھتی ہیں۔ شبلی کا اردو کلام نالۂ شبلی اور کلام شبلی کی صورت میں شائع ہوا۔ مولانا سیدسلیمان ندوی نے ’کلیاتِ شبلی‘ مرتب کرکے شائع کیا، جو دیگر شعری مجموعوں کے مقابلے میں زیادہ جامع اور مکمل ہے۔

زمانۂ طالبِ علمی میں شبلی نعمانی نے شاعری کی ابتدا کی اور اپنی آخری عمر تک اس کی زلف کو سنوارتے رہے، لیکن انھوں نے شاعر ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ ہی تذکرہ اور تاریخ نویسوں نے انھیں شاعر کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ عبدالسلام ندوی نے ’شعرالہند‘  مرتب کیا تو اس میں بھی شبلی نعمانی کو ایک شاعر کی حیثیت سے کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ شبلی کے لیے شاعری فرضِ طبعی کی حیثیت رکھتی تھی، لیکن انھوں نے شاعری پر کوئی خاص تو جہ نہیں کی اور نہ ہی اس پر کبھی گفتگو کی گئی۔ شبلی ایک خط میں زہرہ بیگم کو لکھتے ہیں:

’’ندوہ کی جھنجٹ اور شاعری ساتھ ساتھ چلنے کی چیز نہیں ہے، لیکن بہرحال چارہ بھی نہیں۔ نددہ فرضِ مذہبی اور شاعری فرضِ طبعی، کس کو چھوڑوں۔ پھر انھیں پر موقوف نہیں، یک دل اور ہزار سودا۔‘‘ 3؎

واقعہ یہ ہے کہ شبلی نعمانی کی شخصیت کئی خانوں میں بٹی ہوئی تھی۔ وہ اسلامی مفکر ہونے کے ساتھ سوانح اور تاریخ نگاری میں یکتا و یگانہ تھے۔ انھوں نے ادب میں تنقید بالخصوص تقابلی تنقید کو ایک سمت دی۔ فرضِ مذہبی کے طور پر انھوں نے ندوۃ العلما کو کھڑا کیا اور ہزاروں ایسے کام کیے، جن سے اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے آسکے، لیکن وہ شاعری کو فرضِ طبعی سمجھتے تھے۔ اس لیے اپنی تمام تر مصروفیا ت کے باوجود شبلی نعمانی فکر شعر کے لیے وقت نکال ہی لیتے تھے۔ شبلی کی شاعری ان کے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے، لیکن کیفیت کے لحاظ سے کئی ایک پر سبقت رکھتی ہے۔شبلی کی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے عبدالقادر سروری لکھتے ہیں:

’’یہ بڑی حد تک درست ہے کہ اگر شبلی اپنی تمام قابلیتوں کے ساتھ اردو شاعری اور صرف شاعری کے لیے وقف ہوجاتے تو وہ حالی سے بہت آگے نکل جاتے۔ ان میں ایک شاعر کی تمام قابلیتیں قدرت کی طرف سے ودیعت تھیں۔ اگر یہ دوسرے فردوسی نہیں تو پہلے اقبال ضرور ثابت ہوتے۔ وہ علی گڑھ کی اصلاحی تحریکات میں بری طرح پھنس گئے تھے، ورنہ ان کی شعری پیداوار کا بیشتر حصہ بہت بلند رتبہ ہوتا۔‘‘4؎

اس میں کوئی شک نہیں کہ شبلی شاعری کی باریکیوں سے واقف تھے اور ان میں ایسی قابلیتیںبھی تھیں کہ اگر وہ خود کو شاعری کے لیے وقف کردیتے تو حالی سے آگے نکل سکتے تھے۔ اس میدان میں فردوسی نہیں بنتے تو پہلے اقبال ضرور بن سکتے تھے، لیکن اس کی ضمانت کیا ہے کہ جو مقبولیت عصر حاضر میں شبلی کو حاصل ہے، اسی طرح کی ایک شاعر کی حیثیت سے بھی ہوتی۔ عبدالقادرسروری ان کی شاعری کی انحطاط پذیری کو علی گڑھ سے جوڑ کر کہتے ہیں کہ اگر شبلی اس کالج سے وابستہ نہیں ہوتے تو ان کا شعری سرمایہ کافی بلند ہوتا۔ اس ضمن میں صرف اتنا کہنا ہے کہ شبلی کی اتبدائی شاعری روایتی قسم کی تھی۔ علی گڑھ سے وابستہ ہونے کے بعد ان کا ذہن کشادہ ہوا اور انھوں نے سیاسی، سماجی، مذہبی اور تاریخی موضوعات پر بہترین شاعری کی۔ ان کے حوالے سے یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ علی گڑھ کالج سے وابستہ نہیں ہوتے تو ایک روایتی قسم کے مولوی اور اسی قسم کے شاعر بھی ہوتے۔ انھیں علی گڑھ کی فضا اور سرسید کی صحبتیں راس آئیں اور وہ ایک مذہبی رہنما کے علاوہ شاعروادیب کی حیثیت سے بھی اپنا الگ مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔

 شبلی نعمانی نے شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا، لیکن انھوں نے اپنی غزلوں کو لائق اعتنا سمجھا اور نہ ہی انھیں یکجا کرکے ترتیب دینے کی کوشش کی۔ چنانچہ ان کی زیادہ تر غزلیں مکاتیب میں محفوظ ہونے کے علاوہ دیگر رسائل و جرائد میں بکھری ہوئی ہیں۔ سید سلیمان ندوی نے ’کلیاتِ شبلی‘ کو ترتیب دیا تو انھوں نے بھی شبلی کی غزلوں کو کلیات میں جگہ نہیں دی۔ یہ غزلیں زمانے کی آنکھوں سے پوشیدہ رہیں۔ شبلی کے ناقدوں نے بھی ان کی غزل گوئی پر کچھ نہیں لکھا۔ نتیجتاً شبلی کی شاعری پوری طرح اپنی خوبی و خرابی کے ساتھ سامنے نہیں آسکی۔ غزل کے کلاسیکی رچاؤ سے شبلی پوری طرح واقف ہیں۔ ان کی غزل بھی اسی رچاؤ کا احساس فنی اور فکری سطح پر دلاتی ہے۔ ان میں موضوعات کا دائرہ حسن و عشق کے قصے سے شروع ہوکر اس کے انجام پر ختم ہوجاتا ہے، لیکن اس دائرے میں عاشق و معشوق کے جذبات و احساسات اور ان کے تجربات کا بیان بالکل فطری انداز میں ہوا ہے      ؎

پوچھتے کیا ہو جو حالِ شبِ تنہائی تھا

رخصتِ صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا

جذبۂ دل کا ذرا دیکھو اثر

تیر نکلا بھی تو پیکاں رہ گیا

 اور پھر کس کو پسند آئے گا ویرانۂ دل

غم سے مانا بھی کہ اس گھر کو میں خالی کر لوں

اس میں در پردہ وہ سمجھتے ہیں اپنا ہی گلہ

شکوۂ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے

کچھ اکیلی نہیں مری قسمت

غم کو بھی ساتھ لگا لائی ہے

شبلی نعمانی کی غزلیں حسن و عشق کی کیفیات و واردات کی ترجمان ہیں۔ ان میں عطیہ فیضی کے لیے شبلی کے دھڑکتے ہوئے دل کی دھک دھک بھی سنائی دیتی ہے۔ ان سے بچھڑنے کا ملال اور گریہ و زاری کی تیز آواز بھی ہے۔ شبلی نے اپنے موضوع ومواد کو تخلیقی تقاضوں کے ساتھ غزل میں پیش کیا ہے، اس لیے ان میں دل و دماغ کو جھنجھوڑنے والی کربناکی نہیں بلکہ احساس کو سہلا کر چلے جانے کی کیفیت پائی جاتی ہے       ؎

کہاں یہ لطف، یہ منظر، یہ سبزہ، یہ بہارستاں

عطیہ! تم کو یاد لکھنؤ ہوگی تو کیوں ہوگی

سبزۂ گل سے بھرا تھا دامنِ کہسار سب

غیرت خلد بریں ہر گوشۂ ویرانہ تھا

اب نہ وہ صحبت نہ وہ جلسے نہ وہ لطفِ سخن

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

 شبلی کی غزل کا اسلوب بھی کلاسیکی روایت کا آئینہ دار ہے۔ اس میں سیدھے سادے الفاظ اور سامنے کی تشبیہات و استعارات نیز محاورات کے علاوہ صنعتِ لفظی و معنوی کی کلاسیکی شان دیکھنے کو ملتی ہے۔ نظم نگاری کے مقابلے میں شبلی کی غزلیں کمزور ضرور ہیں، لیکن کلاسیکی غزل کے حسن و خوبی کی عکاسی کرتی ہیں۔

شبلی نے نظم نگاری کے ابتدائی زمانے میں اپنے اصل نام کے بجائے ’کشاف‘ کا استعمال کیا۔ ان کی نظمیں چونکہ ہنگامی موضوعات پر تھیں اور لوگوں کو زیادہ اپیل کرتی تھیں، اس لیے نظم کے اصل خالق کی تحقیق و تلاش کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ زیادہ دنوں تک شبلی کی ذات پردۂ خفا میں نہیں رہ سکی، جلد ہی ان کا راز طشت از بام ہوگیا تو انھوں نے اپنے نام سے نظمیں لکھنی شروع کردیں۔ ان کی نظم نگاری کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا سید سلیمان ندوی نے ’کلیاتِ شبلی ‘ میں لکھا ہے:

’’مولانا نے تاریخی اور اخلاقی نظموں کے دو نئے سلسلے شروع کیے، جن میں سے ہر ایک اپنی خوبی اور بلندی کے لحاظ سے اردو کے بڑے بڑے ضخیم دیوانوں کے مقابلے میں بھاری ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اردو ادب میں ان کی کوئی مثال نہیں اور نہ اب تک ان کی تقلید کی جاسکی۔ ان نظموں  نے ایک طرف اسلامی تاریخ کے انمول موتیوں کو ایک دھاگے میں پروکر قومی اخلاق کے حسن کو دوبالا کیا، دوسری طرف ہماری زبان کی شاعری میں صحیح واقعات کو نظم کرنے کے بہترین نمونے پیش کیے۔ اکثر کہا گیا ہے کہ بہترین شاعری وہ ہے جس میں جھوٹ یعنی مبالغہ اور خیال آرائی کا حصہ زیادہ ہو، مگر مولانا کی ان نظموں نے یہ دکھادیا کہ واقعیت کی سطح پر بھی شاعری کا کمال دکھایا جاسکتا ہے۔‘‘5؎

شبلی نعمانی نے مذہبی، اخلاقی اور سبق آموز تاریخی نظمیں لکھی ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے عصری مسائل و موضوعات پر سیاسی نظم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، جو بہت ہی کامیاب ثابت ہوا۔ انھوں نے اپنی تاریخی نظموں میں مشاہیر اسلام کے اہم پہلوؤں کو موضوع بنایا ہے۔ ان نظموں میں مساواتِ اسلام، خلافتِ فاروقی کا ایک واقعہ اور عہد فاروقی کا ایک نمونہ قابلِ ذکر ہے، لیکن ان نظموں میں سب سے مقبول نظم ’عدلِ جہانگیری‘ ہے۔ یہ افسانوی نظم ہے، جو قطعہ کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ اس نظم میں گہری سنجیدگی اور روانی ہے۔ اس میں نورجہاں بیگم کے ذریعے ایک راہگیر کو تیر سے ہلاک کرنے اور جہانگیر کے انصاف کا قصہ پر لطف انداز میں بیان ہوا ہے۔ یہ نظم بلا کی سنجیدگی اور روانی کے ساتھ نقطۂ عروج یعنی کلائمکس پر پہنچ کر اس شعر پر ختم ہوجاتی ہے     ؎

دفعتاً پاؤں پہ بیگم کے گرا اور کہا

تو اگر کشتہ شدی آہ چہ می کردم من

شبلی نعمانی نے زیادہ تر تاریخی واقعات کا منظوم ترجمہ کردیا ہے، لیکن اس میں فن کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ ان نظموں میں اسلامی روایتوں کے پر تاثیر واقعے ہیں، جو اسلامی تاریخ کے فخریہ کارنامے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ ان میں شبلی نے تاریخی واقعات اور اس کی سچائیوں کو توڑنے مروڑنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے تخیل کا سہارا لیا اور نہ ہی مبالغہ آرائی کی ہے۔ شبلی ایک مؤرخ کی طرح تاریخی واقعے کو نظم کرتے ہیں، لیکن فن کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان میں طرزِ ادا کی چستی، اثرانگیزی، تشبیہات و استعارات کی انفرادیت کے ساتھ سلاست و روانی پائی جاتی ہے۔ یہ تمام خوبیاں شبلی کی مذہبی اور اخلاقی نظموں میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔

مولانا کی طبیعت کافی حساس تھی۔ وہ کسی بھی واقعے سے بہت جلد متاثر ہوجاتے تھے۔ چنانچہ ان کی شاعری میں عصری اور ہنگامی موضوعات پر بہت سی نظمیں شامل ہیں۔ ان میںشہرِ آشوبِ اسلام، ہنگامۂ مسجدِ کانپور، تفرقہ حق و باطل، مذہب یا سیاست قابلِ ذکرہیں۔1911 میں تقسیم بنگال ہوا تو اس کے اثرات سے مسلمان غیر معمولی طور پر مضطرب اور پریشان ہوئے۔ جنگِ بلقان نے آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کیا، جس سے بے چینیاں اور بھی بڑھ گئیں۔اس جنگ سے متاثر ہوکر شبلی نعمانی نے "شہرِ آشوبِ اسلام"کے عنوان سے ایک نہایت پُراثر نظم لکھی، جس میں ہنگامۂ طرابلس و بلقان کو درد مندی کے ساتھ موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ اس نظم کو شبلی نے رفاہِ عام، لکھنؤ کے جلسے میں پڑھی تو اس کے اثر سے چاروں طرف گریہ و زاری ہونے لگی      ؎

حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک

چراغِ کشتۂ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک

قبائے سلطنت کے گر فلک نے کردیے پرزے

فضائے آسمانی میں اڑیں گی دھجیاں کب تک

مراکش جاچکا، فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے

کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریضِ خستہ جاں کب تک

یہ سیلاب بلا، بلقان سے جو بڑھتا آتا ہے

اسے روکے گا مظلوموں کی آہوں کا دھواں کب تک

یہ سب ہیں رقصِ بسمل کا تماشہ دیکھنے والے

یہ سیر ان کو دکھائے گا شہیدِ نیم جاں کب تک

یہ وہ ہیں نالۂ مظلوم کی لے جن کو بھاتی ہے

یہ راگ ان کو سنائے گا یتیمِ ناتواں کب تک

کوئی پوچھے کہ اے تہذیبِ انسانی کے استادو

یہ ظلم آرائیاں تاکے یہ حشر انگیزیاں کب تک

یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے

ہماری گردنوں پر ہوگا اس کا امتحاں کب تک

زوال دولتِ عثماں زوالِ شرع و ملت ہے

عزیزو! فکرِ فرزند و عیال و خانماں کب تک

خدارا تم یہ سمججھے بھی کہ یہ تیاریاں کیا ہیں

نہ سمجھے اب تو پھر سمجھوگے تم یہ چیستاں کب تک

ڈاکٹر انصاری کا طبی وفد ہندوستان سے بلقان کی لڑائی میں گیا تھا۔ واپس آیا تو اس وقت شبلی ممبئی میں تھے۔ انھوں نے تین بندوں پر مشتمل ایک استقبالیہ نظم لکھ کر اسے ایک جلسے میں پڑھا۔ اس نظم کے دوسرے بند کی اثرانگیزی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس بند سے چند اشعار ملاحظہ کریں       ؎

مسلمانوں کے تم نے طالع و اژدوں بھی دیکھے ہیں

نئے سب انقلاب گردش گردوں بھی دیکھے ہیں

یتیموں کے سنے ہیں نالہ ہائے جاں گزا تم نے

زنان بینوا کے چہرۂ محزوں بھی دیکھے ہیں

گھروں کے لوٹنے کے بعد زندوں کو جلا دینا

بلادِ مغربی کے یہ نئے قانوں بھی دیکھے ہیں

تمھاری چشم عبرت گیر خود ہم سے یہ کہتی ہے

کہ ہم نے وہ مصائب ہائے گونا گوں بھی دیکھے ہیں

نگار آرائیاں دیکھی ہیں چشم گوہر افشاں کی

شہیدان وفا کے عارض گلگوں بھی دیکھے ہیں

جنگِ بلقان کے زمانے میں سرآغا خان نے اپنے ایک مضمون میں ترکوں کو صلاح دیتے ہوئے لکھا کہ ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ سرزمین پورپ کو چھوڑ کر ایشیا چلے جائیں تا کہ وہ یورپ کے حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اس مضمون سے مسلمانوں کے وقار کو دھچکا لگا اور ان کے دل و جان پر صدموں کا پہاڑ ٹوٹ کر ایسا گرا کہ اس کی زد میں آکر ہمت و حکمت پاش پاش ہوگئی۔ غصے کی ایک لہر تھی کہ مسلمانوں کے چہرے پر صاف دکھائی دینے لگی۔ شبلی کے دل میں بھی رنج و ملال کا سیلاب ٹھاٹھیں مارنے لگا اور وہ فرط جذبات سے مغلوب ہوکر طنزیہ انداز میں دو بندوں پر مشتمل ایک نظم ’سرآغاخان کا خطاب ترکوں سے‘ لکھی۔ اس نظم کے دوسرے بند سے چار اشعار پیش ہیں، جن میں انھوں نے سر آغاخان سے خطاب کیا ہے     ؎

ترک سے حضرت آغا نے یہ ارشاد کیا

کیوں ہو بے فائدہ یورپ میں گرفتار الم

ایشیا میں اگر آجاؤ تو پھر تا ابد

پاؤں پھیلا کے پڑے چین سے سوؤگے چہ غم

نظر آجائے گی بے کاری آلات جدید

جب کہ تم وادیِ تاتار میں رکھوگے قدم

ریل یا تار کی پھر ہوگی نہ حاجت تم کو

ڈاک پہنچانے کو آجائیں گے مرغانِ حرم

جنگ بلقان میں فتح اڈریا نوپل پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے شبلی نے ’ترکوں سے خطاب‘ اور اس موقع پر برطانیہ کے اہلِ اسلام سے دوستی کی تردید میں ’ہستیِ مسلم کی رہائی‘جیسی کامیاب نظم لکھی۔ اسی زمانے میں برطانوی حکومت کے خلاف ہندوستانیوں میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ایک اسلامی انجمن جو پردۂ خفا میں تھی، مسلمانوں کے عام خیالات کی مخالفت میں تجویزیں شائع کراتی تھی، جس کی پردہ دری کے لیے ’ممبئی کی وفادارانجمن‘ جیسی اہم نظم لکھی۔ اس نظم میں شبلی نے علامات وتلمیحات کے پردے میں اپنی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔

شبلی نے مسلم لیگ کو موضوع بناکر بہت سی نظمیں کہی ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی ’مسلم لیگ‘ کے قیام کا مقصدہم وطنوں سے مخالفت اور حکومت سے اظہارِ ہمدردی بتاتے ہیں، لیکن جنگِ طربلس و بلقان اور معرکۂ مسجد کانپور کے واقعے نے برطانوی حکومت کی طرزِ سیاست کے تئیں مسلمانوں میں مخالفانہ جذبات کو ابھارا اور ان کے اندر ہیجان پیدا کردیا۔ اس وقت کے آزاد منش لوگ مسلم لیگ سے نفرت کرنے لگے۔ وقت اور حالات سے مجبور ہوکر مسلم لیگ میں بھی تبدیلی آئی اور اس نے بھی اپنے آئین میں خودمختار حکومت کے مطالبے کو شامل کرلیا۔ ان کے لیے خودمختار حکومت ’سوٹ ایبل‘ یعنی حالات کی مناسبت سے تھی، اس لیے آزاد منش لوگوں نے مخالفت کی اور مسلم لیگ دھیرے دھیرے اپنے زوال کی طرف بڑھنے لگی۔ مسلم لیگ کے مخالفین کی رہنمائی شبلی نعمانی کررہے تھے۔ انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعے ایک انقلاب پیدا کردیا۔ مسلم لیگ کے متعلق شبلی نے اپنی نظموں میں جو کچھ کہا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا۔ یہ نظمیں سیاسی نقطۂ نظر سے اہم نہیں، ان کا طنزیہ انداز ان نظموں کو اہم بنادیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک نظم کے چند اشعار پیش ہیں       ؎

لیگ کی عظمت و جبروت سے انکار نہیں

ملک میں غلغلہ ہے، شور ہے، کہرام بھی ہے

ہے گورنمنٹ کی بھی اس پہ عنایت کی نگاہ

نظر لطف رئیسان خوش انجام بھی ہے

کوئی ہے جو نہیںاِس حلقۂ قومی کا اسیر

اس میں زہاد بھی ہیں، رندمے آشام بھی ہے

ربط ہے اس کو گورنمنٹ سے بھی ملک سے بھی

جس طرح صرف میں اک قاعدہ ادغام بھی ہے

اس کے آفس میں بھی ہر طرح کا سامان ہے درست

ورق سادہ بھی کلک خوش اندام بھی ہے

چند بی اے ہیں سند یافتہ علم و عمل

کچھ اسسٹنٹ ہیں کچھ حلقۂ خدام بھی ہے

ہو جو تعطیل میں تفریح و سیاست مقصود

سفر درجۂ اول کے لیے دام بھی ہے

یہ تو سب کچھ ہے، مگر ایک گزارش ہے حضور

گرچہ سوئِ ادب بھی ہے اور ابرام بھی ہے

مجھ سے آہستہ مرے کان میں ارشاد ہو یہ

سال بھر حضرتِ والا کوئی کام بھی ہے

شبلی کی سیاسی نظمیں اردو شعر و ادب کی دنیا میں اضافے کا حکم رکھتی ہیں۔ انھوں نے مسلم لیگ کی مخالفت میں تسلسل کے ساتھ کئی نظمیں لکھیں اور مسلمانوں کے خواب کی تعبیر یعنی مسلم یونیورسٹی پر نظم لکھ کر پنجاب اور لاہور کے جلسے میں پڑھی۔ یہ نظمیں شبلی کے سیاسی نقطۂ نظر کی وضاحت کرتی ہیں۔ شبلی نعمانی کی شاعری اتنی مقبول ہوئی کہ قوم کا اندازِ فکر بدل گیا۔ان کی شاعری کو شعرا نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کے رنگ کی ترجمانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

شبلی نعمانی کے تخلیقی عہد سے پہلے تک اردو مثنوی حسن و عشق کے فرسودہ اور فرضی واقعات پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ اس کی فضا عموماً طلسمی ہوتی اور اس میں عقل کو حیران کردینے والی عشقیہ داستانوں کا بیان ہوتا تھا۔زمانے کے تقاضوں کے پیشِ نظر شبلی نعمانی نے مثنوی کو قصّے کہانیوں کی طلسماتی فضا سے باہر نکالا۔ اس میں سرسید کی شخصیت اور علی گڑھ تحریک کو موضوع بناکر قومی عروج و زوال کی داستان رقم کی۔ غزل کی طرح شبلی نعمانی نے مثنوی کو اپنے تخلیقی سرمائے سے باہر کردیا تھا، لیکن سید سلیمان ندوی نے ’کلیاتِ شبلی‘کو ترتیب دیا تو انھوں نے شبلی کی مثنوی ’صبحِ امید‘ کو اس کی فنی اور فکری انفرادیت کے پیشِ نظر کلیات میں شامل کرلیا۔ اس مثنوی کے لیے شبلی نعمانی نے بحرِ ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف ’مفعول مفاعلن فعولن‘ کا انتخاب کیا ہے۔ یہ بحر بہت ہی مختصر ہے، لیکن اس میں شعر کہنا استادانہ فنکاری کا متقاضی ہوتا ہے۔ اسی بحر میں پنڈت دیا شنکر نسیم نے اپنی شہرہ آفاق مثنوی ’گلزارِ نسیم‘ لکھی تھی۔ اس مثنوی کا آغاز مندرجہ ذیل اشعار سے ہوتا ہے      ؎

کیا یاد نہیں ہمیں وہ ایام

جب قوم تھی مبتلائے آلام

وہ قوم کہ جان تھی جہان کی

جو تاج تھی فرقِ آسمان کی

تھے جس پہ نثار فتح و اقبال

کسریٰ کو جو کر چکی تھی پامال

گل کردیے تھے چراغ جس نے

قیصر کو دیے تھے داغ جس نے

وہ نیزۂ خوں فشاں کہ چل کر

ٹھہرا تھا فرانس کے جگر پر

ان اشعار کے مطالعے سے شبلی نعمانی کے تیور اور مثنوی کے موضوع و مواد کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس مثنوی میں شبلی نے قومی عروج و زوال کی داستان سنائی ہے۔ مسلمانوں کے سماجی و سیاسی، تہذیبی و ثقافتی اور علمی کارناموں نیز ان کی شان و شوکت اور عظمتوں کے ذکر کے ساتھ تاریخ کے مختلف مراحل اور زندگی کے مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی پستی و زبوں حالی اور ان کی نا قدری کا تذکرہ کیا ہے۔ شبلی اپنے تخلیقی عہد کے مسلمانوں کی پست حالی و پست خیالی، علم و فن میں تنزل اور اخلاقی و سماجی کمزوریوں کی تفصیل بیان کرنے کے بعد عاجزانہ لہجے میں کہتے ہیں      ؎

کیا کوئی سنے فغاں ہماری

دلدوز ہے داستاں ہماری

ہم مایۂ عبرتِ جہاں ہیں

ہم ننگِ زمن و آسماں ہیں

ناچار ہیں خستہ حال ہیں ہم

عبرت کدۂ زوال ہیں ہم

مٹنے پہ ہے اب نشاں ہمارا

گم گشتہ ہے کارواں ہمارا

اس مثنوی کو لکھنے کا مقصد علی گڑھ تحریک اور اس کے بانی سرسید احمد خاں کی انقلاب آفریں شخصیت کی مرقع کشی تھا، چنانچہ مسلمانوں کی خستہ حالی، اس کے عبرت کدۂ زوال اور گم گشتۂ کارواں کے ذکر کے بعد علی گڑھ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں       ؎

ماتم تھا یہی کہ آئی ناگاہ

اک سمت سے اک صدا ہی جانکاہ

اس شان سے تھی وہ آہِ دلگیر

پہلو میں اثر، بغل میں تاثیر

دل ہاتھ سے لینے میں بلا تھی

جادو تھی؟ فسوں تھی؟ جانے کیا تھی؟

ڈوبی ہمہ تن جو تھی اثر میں

نشتر سی اتر گئی جگر میں

وہ صدا جو جگر میں اتر کر اپنا جادو کرگئی وہ علی گڑھ تحریک کی صدا تھی۔ یہ تحریک مسلمانوں کو پسماندگی اور زبوں حالی کے دلدل سے نکال کر انھیں سماجی، معاشی، اقتصادی اور علمی طور پر ہندوستان کے مرکزی دھارے (Mainstream) میں شامل کرنا چاہتی تھی۔ اس تحریک کے روحِ رواں سرسیداحمد خاں تھے، ان کی مرقع کشی شبلی نعمانی نے بہت ہی خوبصورت انداز میں کی ہے     ؎

صورت سے عیاں جلالِ شاہی

چہرے پہ فروغِ صبح گاہی

وہ ریشِ دراز کی سپیدی

چھٹکی ہوئی چاندنی سحر کی

پیری سے کمر میں اک ذرا خم

توقیر کی صورت مجسم

اٹھتے ہوئے جوش سے برقّت

 ہے مرثیہ خوانِ قوم و ملّت

 شبلی نعمانی نے سرسید احمدخاں کے خواب کی تعبیر کے لیے ان کی جدوجہد کاتفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں ان کی تقریر کی اثرانگیزی، مسلمانوں کو عمل کے طرف مائل کرنے کا انداز اور قوم کے امراض کی چارہ گری کا تذکرہ بھی ہوا ہے۔ انھوں نے سرسید کے رفقا کے افکار و خیالات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس وقت کے تعلیمی اداروں بالخصوص مدرسوں کی زبوں حالی، سرسید کے تعلیمی خیالات و نظریات، ان کی جدو جہد میں ہونے والی رکاوٹوں کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے کہ مثنوی ’صبحِ امید‘ اپنے تخلیقی عہد کا آئینہ بن گئی ہے۔ شبلی نعمانی ’صبح امید‘ کا خاتمہ مندرجہ ذیل اشعار پر کرتے ہیں       ؎

اسلاف کے وہ اثر ہیں اب بھی

اس راکھ میں کچھ شرر ہیں اب بھی

اس حال میں بھی روش وہی ہے

دن ڈھل بھی گیا طپش وہی ہے

 اس جام میں ہے شراب باقی

 اب تک ہے گہر میں آب باقی

گو خوار ہیں طرز و خو وہی ہے

مرجھا گئے پھول، بو وہی ہے

 اس مثنوی میں علامہ شبلی نعمانی نے روایت کی پاسداری کرتے ہوئے ہر باب کے شروع میں فارسی کے اشعار لکھے ہیں۔ پنڈت دیاشنکرنسیم کی مثنوی ’گلزارِ نسیم‘ کی طرح ’صبحِ امید‘  میں بھی ایجاز و اختصار کے ساتھ دریا کو کوزے میں بند کیا گیا ہے۔ اس میں فصاحت و بلاغت کی خوبی اور تشبیہات و استعارات کا اچھوتا انداز اثرانگیزی کی کیفیت کو دوبالا کردیتا ہے۔ ’صبحِ امید‘ موضوعاتی طور پر حسن و عشق کے فرسودہ قصے کہانیوں اور مافوق الفطری عناصر سے پاک اپنے تخلیقی عہد کی سچائیوں کو آئینہ کرتی ہے، لیکن فنی طور پر اس کا رشتہ مثنوی کی روایت سے بہت گہرا دکھائی دیتا ہے۔

علامہ شبلی نعمانی نے اپنے بھائی محمد اسحٰق، وکیل ہائی کورٹ الہٰ آبادکی وفات پر ’بربادیِ خانمانِ شبلی‘ کے نام سے ایک مرثیہ لکھا تھا۔ اس میں اپنے ذاتی غم و اندوہ کو خلوص اور درد مندی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

’’اس مرثیہ کو پڑھ کر ہر شخص مصنف کے درد و غم کا اندازہ کرسکتا ہے، یہی غم ان کے لیے پیامِ موت ثابت ہوا اور اس کے چند ہی مہینوں کے بعد خود انھوں نے بھی وفات پائی۔‘‘6؎

شبلی نعمانی نے اس کے علاوہ دوسرا کوئی مرثیہ نہیں لکھا، لیکن ’بربادیِ خانمانِ شبلی‘  مرثیے کے فن پر شبلی کی مکمل دسترس کا پتہ دیتا ہے۔ محمد الیاس الاعظمی نے اس مرثیے کی اثرانگیزی کی کیفیت سے متاثر ہوکر اسے عربی شاعرہ خنسا کے مرثیوں سے مماثل قرار دیا ہے۔7؎ اس مرثیے کے بندوں سے گزرتے ہوئے آنکھوں کا نم ہونا یقینی ہے۔ اس مرثیے کے دوبند ملاحظہ کریں      ؎

وہ برادر کہ مرا یوسفِ کنعانی تھا

وہ کہ مجموعہ ہر خوبی انسانی تھا

وہ کہ گھر بھر کے لیے رحمتِ یزدانی تھا

قوتِ دست و دل شبلیِ نعمانی تھا

جوش اسی کا تھا جو مرے سر پرشور میں تھا

بل اسی کا یہ مرے خامۂ پر زور میں تھا

یہ بھی اے جانِ برادر کوئی جانے کا ہے طور

اپنے بچوں کی نہ کچھ فکر نہ تدبیر نہ غور

ابھی آنے بھی نہ پایا تھا ترے عروج کا دور

کیا ہوا تجھ کو کہ تو ہوگیا کچھ اور سے اور

چھوڑ کر بچوں کو بے صبر و سکوں جاتا ہے

کوئی جاتا ہے جو دنیا سے تو یوں جاتا ہے

علی گڑھ آنے سے پہلے شبلی نے سلطان عبدالحمید خاں کی تعریف میں انشا کے مشہور قصیدے کی زمین ’بگھیاں پھولوں کی تیار کر اے بوئے سمن‘ پر بہت ہی پرجوش قصیدہ لکھا تھا، جس میں انھوں نے بہت ہی نازک اور لطیف تشبیہوں اور استعاروں کا تخلیقی استعمال کیا ہے      ؎

پھر بہار آئی جو شاداب ہیں پھر دشت و چمن

بن گیا رشکِ گلستانِ ارم پھر گلشن

شعلہ زن پھر چمنستاں میں ہوئی آتشِ گل

پھر صبا چلتی ہے گلشن میں بچا کر دامن

آگ پانی میں لگا دی ہے کسی نے شاید

حوض میں عکس گل و لالہ ہے یا جلوہ فگن

باغ میں بادِ بہاری کی جو آمد کی ہے دھوم

بہرِ تسلیم ہر اک شاخ کی خم ہے گردن

اس کے علاوہ شبلی نعمانی نے علی گڑھ کالج کے زمانۂ قیام میں تین اور قصیدے لکھے۔ ان میں سے ایک قصیدہ 1893 کے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں پڑھا گیا۔ اس قصیدے میں شبلی نے مسلمانوں کے عروج و زوال کو موضوع بنایا ہے۔ ماضی کی عظمتوں کو یاد دلاکر ان کے مردہ جسم میں ترقی کی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے۔ شبلی نے مسلمانوں کی کسمپرسی اور ان کی سماجی، معاشی، اقتصادی اور علمی زبوں حالی کے اسباب بتائے ہیں اور قصیدے کے آخری شعر میں کہا ہے      ؎

سنبھلنا اب بھی گر چاہو تو ہے وقت اور ضرورت بھی

وگرنہ پھر نہیں رہنے کی جو کچھ ہے یہ حالت بھی

 شبلی نعمانی نے اپنا رجائیہ قصیدہ 1894 میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں پڑھا تھا۔ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ اس قصیدے کو ایک طالبِ علم نے ’تماشائے عبرت‘ میں پڑھ کر سنایا تھا8؎۔ اس قصیدے کی تشبیب کے کچھ اشعار دیکھیں      ؎

بزمِ احباب سے پرجوش ہے جلسا کیسا

جم گیا پھر طرب و عیش کا نقشا کیسا

نوجواں جمع ہیں یا جوش کی تصویریں ہیں

میں نے اس بزم کا کھینچا ہے سراپا کیسا

جوش کی آتی ہیں ہر سو سے صدائیں کیسی

گونج اٹھا زمزمۂ عیش سے کمرا کیسا

اپنے ہی ہاتھ میں ہے عقدہ کشائی اپنی

کیا زمانے کا گلہ چرخ کا شکوا کیسا

اس کے ہر مصرعے اور ہر شعر سے امید کی کرن پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں عظمتِ رفتہ اور اسلاف کے کارناموں کا تذکرہ ہے۔  ان میں آج بھی ویسا ہی دم خم موجود ہے۔ وہ ترقی کے لیے کمربستہ ہوجائیں تو ان کے نخلِ تمنا میں برگ و بار لگنے میں دیر نہیں لگے گی       ؎

ہاں کمر بستہ ہوا قوم ترقی کے لیے

آج کے کام میں اندیشۂ فردا کیسا

نوجوانو! یہ زمانے کو دکھا دینا ہے

اپنی قوت کو کیا قوم نے یکجا کیسا

قوم کے تازہ نہالانِ چمن ہو تم لوگ

دیکھیں پھل لاتا ہے یہ نخلِ تمنا کیسا

اس میں شبلی نعمانی نے اچھوتی تشبیہوں اور نادر استعاروں کا استعمال کیا ہے۔ قصیدے کے آخری شعر میں تعلّی کے طور پر انھوں نے حریفوں سے پوچھا ہے      ؎

اے حریفو! تمہیں خالق کی قسم سچ کہنا

شبلیِ خستہ نے لکھا یہ قصیدہ کیسا

شبلی نعمانی کا سب سے بہترین قصیدہ ’درتہنیت شادی کدخدائی آنریبل جسٹس سید محمود‘ ہے۔ یہ قصیدہ بہت ہی پرزور اور پرشکوہ ہے، جس میں شبلی نے اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ یہ قصیدہ محسن کاکوروی کے قصیدے ’سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل‘ کی زمین میں کہا گیا ہے۔ شبلی نے تشبیب کے شعر میں جو سماں باندھا ہے، وہ پڑھنے اور محسوس کرنے کے لائق ہے     ؎

پھر ہوا بادِ بہاری کا جو عالم میں عمل

چھالیا سبزۂ نوخیز نے سب دشت و جبل

ناز سے سوئے چمن جاتی ہے پھر بادِ بہار

جھومتے آتے ہیں پھر صحنِ چمن میں بادل

نو عروسانِ چمن کے ہیں نرالے انداز

کہ صبا گود میں لیتی ہے تو جاتی ہیں مچل

سمت قبلہ سے جو اٹھتی ہیں گھٹائیں ہر بار

کہتی ہیں توبۂ زاہد سے کہ اب کی تو سنبھل

کچھ عجب شان سے تنتے ہیں جوانانِ چمن

صحنِ گلزار ہے یا عیش و طرب کا دنگل

جھومتی چلتی ہے بیخود روشوں پر جو نسیم

غنچے کہتے ہیں چٹک کر کہ سنبھل دیکھ سنبھل

اے صبا باغ میں آنا تو دبے پاؤں ذرا

نیند میں سبزۂ خوابیدہ کے آئے نہ خلل

اس قصیدے کی بہاریہ تشبیب اور اس کے بعد کے اشعار اثرآفرینی کی کیفیت سے مملُو ہیں۔ سیدمحمود کی تعریفیں کرتے ہوئے شبلی مقطع میں کہتے ہیں      ؎

میں بھی ہوں عنصریِ وقت، جو محمود ہے تو

میں بھی ہوں نازِ سلف تو ہے اگر فخرِ اول

اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ قصیدہ گوئی کے آخری چراغ کی لَو کو شبلی نعمانی نے بجھنے نہیں دیا بلکہ اپنے قصیدوں کے ذریعے اسے مزید روشن کرنے کی سعی کی۔ ان کے قصیدوں میں فنی اور فکری طور پر روایت کی گونج سنائی دیتی ہے۔ انھوں نے تشبیہوں، استعاروں، علامتوں اور صنعتِ لفظی و معنوی کا تخلیقی استعمال کیا ہے۔ چنانچہ ان کے قصیدوں میں گنجلک پن کے بجائے سہلِ ممتنع کی کیفیت نمایاں ہوگئی ہے۔ انھوں نے لفظوں، محاوروں اور کہاوتوں کا بھی صحت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔

شبلی نعمانی نے اصنافِ نظم کی مختلف شکلوں کے علاوہ اپنے فکر و خیال کا اظہار قطعات میں بھی کیا ہے۔ان کے قطعات میں ڈرامائی عناصر اور طنز کے نشتر ہیں، جو استعارات و تلمیحات سے مزین ایجاز و اختصار اور بلاغت کا جادو جگاتے ہیں۔ ان میں شبلی نعمانی کا رواں دواں اسلوب اور فکری گداز قابلِ توجہ ہوتا ہے۔ شبلی نعمانی کی زیادہ تر نظموں کا آغاز قطعات کے پہلے شعر کی طرح قافیہ اور ردیف کی پابندیوں کے بغیر ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کی ایسی تمام نظموں پر قطعہ کا گمان ہوتا ہے۔ پروفیسر شہپررسول نے لکھا ہے:

’’کلیات شبلی میں جدید مذہبی اور اخلاقی نظموں کے طورپر جن قطعات کو پیش کیا گیا ہے، وہ تمام کے تمام ہی بہترین شعری تجربات کے مرقعے ہیں لیکن ہجرتِ نبوی، تعمیر مسجد نبوی، ایک خاتون کی آزادانہ گستاخی، اہل بیت رسول کی زندگی، مساواتِ اسلام اور ایثار کی اعلا ترین نظیر وغیرہ کے عنوان سے پیش کیے جانے والے قطعات نہایت جاذبِ توجہ ہیں۔‘‘ 9؎

شبلی نے زیادہ تر نظمیں قطعات کی ہیئت میں لکھی ہے، چنانچہ شہپرصاحب کا کہنا درست ہے کہ یہ دراصل قطعات ہیں، جن کو نظموں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ نظم نگاری کے لیے ہیئت کی کوئی پابندی نہیں ہوتی، وہ کسی بھی ہیئت میں کہی جاسکتی ہے۔ شبلی نعمانی نے بھی ایسا ہی کیا اور اپنی زیادہ تر نظموں کے لیے قطعہ کی ہیئت کو ترجیح دی۔ان نظموں کو سیدسلیمان ندوی نے قطعات کے ذیل میں نہ رکھ کر نظم کے خانے میں رکھا ہے، چنانچہ ان کا مطالعہ نظموں کے طور پر ہی کرنا زیادہ مناسب ہے۔ شبلی کے قطعات مربع کی شکل میں بھی ہیں اور ان میں مصرعوں کی تعداد چھ اور اس سے زیادہ بھی ہے۔ شبلی نعمانی نے مختلف موضوعات پر کامیاب قطعے لکھے ہیں۔ ایک قطعہ ’درسِ پیشوائی کی ابجد‘ دیکھیے، جس میں گورنمنٹ کی نگاہ میں عزت حاصل کرنے کے طریقے پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے      ؎

میں نے یہ حضرتِ والا سے کئی بار کہا

یہ تو اندازِ خوشامد ہے اسے کیا کیجے

مسکراکر یہ کہا مجھ سے کہ ہاں! سچ ہے مگر

کامیابی کی یہ ابجد ہے، اسے کیا کیجے

اس قطعے میں مسلم لیگ پر طنز کیا گیا ہے، لیکن شبلی کا اسلوب اس میں آفاقیت کا عنصر پیدا کرنے میں کامیاب ہے۔ اسی طرح شبلی نعمانی نے اپنی پوری زندگی کی سعیِ مسلسل کو بہت ہی خوبصورت انداز میں ایک قطعے میں پیش کیا ہے     ؎

عجم کی مدح کی، عباسیوں کی داستاں لکھی

مجھے چندے مقیم آستانِ غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہا ہوں سیرتِ پیغمبر خاتم

خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

شبلی نے اپنے قطعات میں زبان کا تخلیقی استعمال اتنی خوبصورتی سے کیا ہے کہ ان میں معنی کا ایک دفتر سما گیا ہے۔ ان میں سے بعض قطعہ نگاری کی تعریف پر پورے نہیں اترتے، انھیں مختصر نظم کہنا زیادہ مناسب ہے۔

سرسیداحمد خاں نے 1893 میں علی گڑھ کالج کی سالانہ نمائش کے موقع پر ’تماشائے عبرت‘ کے نام سے قومی تھیٹر منعقد کیا تھا، جس میں سرسید احمد خاں اور ان کے رفقانے لباس اور اپنا حلیہ بدل کر مختلف پروگرامس پیش کیے تھے۔ اس تقریب میں شبلی نعمانی نے بھی ’تماشائے عبرت یعنی قومی مسدس‘ کو اپنے پردرد اور پرسوز لہجے میں پڑھا۔ اس مسدس میں شبلی نے غفلت کی بدولت ہونے والی قومی زبوں حالی اور خستہ حالی کاذکر بہت ہی پردرد لہجے میں کیا تھا۔شبلی نعمانی نے اپنی نظموں میں تاریخِ اسلام کے سنہرے ادوار اور ان کرداروں کا ذکر تسلسل سے کیاہے، جنہوں نے اپنے افکار و خیالات، مصمّم رادے اور اپنے بازوؤں کے دم پر دنیا میں فتح یابی کے جھنڈے لہرائے۔ اسی طرح زیرِ تذکرہ مسدس میں بھی شبلی نے خوابِ خرگوش میں محو مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ چودہ بندوں پر مشتمل ’قومی مسدس‘ کے آخری دو بند میں شبلی اپنے اسلاف کے قصوں کو بھلا دینے کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں     ؎

ہم نے مانا بھی کہ دل سے یہ بھلا دیں قصّے

یہ سمجھ لیں کہ ہم ایسے ہی تھے اب ہیں جیسے

یہ بھی منظور ہے ہم کو کہ ہمارے بچے

دیکھنے پائیں نہ تاریخِ عرب کے صفحے

کبھی بھولے بھی سلف کو نہ کریں یاد اگر

یادگاروں کو زمانے سے مٹادیں کیوںکر

مرو و شیراز و صفاہاں کے وہ زیبا منظر

بیت حمرا کے وہ ایوان وہ دیوار وہ در

مصر و غرناطہ و بغداد کا ایک ایک پتھر

او ر وہ دہلی مرحوم کے بوسیدہ کھنڈر

ان کے ذروں میں چمکتے ہیں وہ جوہر اب تک

داستانیں انھیں سب یاد ہیں از بر اب تک

یہ سچ ہے کہ اس میں مولانا الطاف حسین حالی کی نظم مسدس ’مدوجزرِ اسلام‘ جیسی انفرادیت اور اثرانگیزی کی کیفیت نہیں پائی جاتی ہے، لیکن اس نے بھی قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ایک زمانے تک شبلی نعمانی کا ’قومی مسدس‘ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائے رکھا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہے۔

 جنگِ آزادی کے بعد سرسید احمد خاں کے رفقا نے بھی علی گڑھ تحریک کے مقاصد کے پیشِ نظر نیچرل شاعری کو ترجیح دی۔ ان شعرا میں شبلی نعمانی بھی شامل ہیں۔ان کی ابتدائی شاعری روایتی ضرور تھی، لیکن علی گڑھ آنے کے بعد کالج کی فضا اور سرسید کے اثر سے ان میں تبدیلیاں آتی گئیںاور اپنے تجربات و مشاہدات کے طور پر شاعری میں پیش کرنے لگے۔ اس طرح دیکھا جائے تو شبلی کی شاعری تاریخی واقعات کے آئینے میں مذہب اور اخلاق کی تصویر کشی کے ساتھ قومی و ملی بے حسی اور بے ضمیری پر خطِ تنسیخ کھینچنے کا کام کرتی ہے۔

حواشی

1        کلیاتِ شبلی، مرتب: مولانا سیدسلیمان ندوی، ص:  04

2        ایضاً،ص :  05

3        خطوطِ شبلی، مرتب : محمدامین زبیری، ص :  102

4        جدید اردو شاعری، مصنف : عبدالقادرسروری، ص :  134

5        کلیاتِ شبلی، مرتب : مولانا سیدسلیمان ندوی،ص :  17

6        ایضاً، ص :  19

7        شبلی نعمانی )مونوگراف(، ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی، ص :  69

8        کلیاتِ شبلی، مرتب : مولانا سید سلیمان ندوی، ص :  10

9        معنی و معانی، مصنف پروفیسرشہپررسول، ص :  118

 

Dr. Adil Hayat

s-11/11, 2nd Floor, Jogabai Extention,

Jamia Nagar, Okhla

New Delhi- 110025

Mob.: 8077131607

adilhayat10@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

فارسی تذکروں کے تنقیدی اثرات اردو تذکروں پر، مضمون نگار: عمران احمد

  اردو دنیا، دسمبر 2024 تذکرہ عام طورپرایسی کتاب کوکہتے ہیں جس میں شاعروں کے احوال وآثارکو تفصیلی   یامختصرطورپر بیان کیا گیا ہو شاعروں کی ...