اردو دنیا، دسمبر 2024
جگ جیون داس ولد رتی رام مردم خیز صوبہ بہار کے رہنے
والے تھے، یعنی یہ بہار کے ان ہندو شعرا میں سے ایک تھے جنھوں نے اردو کو اپنے وطن
کی خوبصورت اور شیرین زبان سمجھ کر اپنا یااور اس کی عظیم خدمات انجام دے کر اس کی
حفاظت کا سامان کیا۔
’خوشحال صبیان‘ ان کی بہت وقیع مثنوی ہے، جو
انھوں نے مبتدیوں کے لیے لکھی تھی، کیونکہ اس کے نام کا جزء ثانی ’صبیان‘ اس بات
پر دال ہے کہ یہ تالیف انیق نو آموز طلبا کے لیے مرتب کی گئی تھی جس میں مترادفات
و متضادات کو خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
پھر مولف نے سیکڑوں
الفاظ اور ان کے معانی بڑی سادگی سے بیان کیے ہیں، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ
صرف لفظ کا معنی مختلف زبانوں میں ان کے تضاد کے ساتھ پیش کیا ہے جو کہ درست بھی
ہے۔ لیکن غور وفکر سے کام لیں تومعلوم ہوگاکہ صرف معنی ہی بیان نہیں کیاہے بلکہ
الفاظ کی صحیح نشست وبرخاست، حسن ترتیب اور فنی چابکدستی وہنرمندی سے ایک اہم معنی
اور عقیدے سے جڑا ایک اہم معاملہ رمز وکنایے کے لبادے میں بیان کیا ہے۔
مثلاً حقیقت میں خدا ایک ہے لیکن بت خانے میں مٹی یا
پتھر کی رکھی ہوئی مختلف مورتیاں اس کے اوتار ہیں جس کی پرستش بندے کرتے ہیں۔ اسی
طرح منڈپ کی آگ کو لوگ طاقتور مان کر پوجا کرتے ہیں اور اس کو گواہ بنا کر ساتھ جینے
مرنے کی قسمیں بھی کھاتے ہیں۔جیسے
؎
واحد ایک ثانی دوجا
بت خانہ منڈف پرست پوجا
اس مذکورہ بالا شعر میں بظاہر لفظوں کے معانی بیان کیے
ہیں لیکن لفظوں کی نشست وبرخاست اور حسن ترتیب نے ایک دوسرے معنی کا احتمال پیدا کیا
جو کہ قرین قیاس ہے، ملتے جلتے الفاظ کے درست استعمال سے ایک نیا پہلو سامنے آیا
جو کہ دوراز قیاس نہیں۔
محولہ بالاشعر میں عربی کے الفاظ ’واحد، ثانی‘ فارسی کے
’بت خانہ، پرست ہندی کے پوجا، سنسکرت کے ’دوجا، منڈف‘ ہیں جو کہ شعر کے حسن کو
دوبالا اور چاشنی میں اضافہ کرتے ہیں۔ شاعر نے اس شعر میں چار مختلف زبانوں کے ا
لفاظ بحسن و خوبی استعمال کرکے جہاں اپنے زور بیان کا ثبوت دیا ہے، وہیں اپنی علمی
وادبی صلاحیت کا بھی مظاہرہ کیاہے۔
ذیل میں چندمزید اشعار بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں جن
سے یہ معلوم ہوگا کہ کس خوبصورتی سے مختلف زبان کے الفاظ کو ایک ہی شعر میں موصوف
نے یکجا کیاہے اور اپنی فنی پختگی کا ثبوت دیاہے؛ملاحظہ ہو ؎
لجام لگام ہے کردار
صارم تیغ دوہے تلوار
مجّن ڈھال ہے قوس کمان
سہم تیر جو کھانڈ بکھان
درع زرہ ہندوی سلاہ
معاذ بلجا سرن پناہ
راس سر جو کہیے ماتھا
جارحہ دست ہندوی ہاتھا
دراج بٹیر سلفات کچھوا
حوت گیر کو کہیے مچھوا
ظبی آہو ہندوی ہرن
تراب قدم و سور ہے چرن
حوض پوکھر چاہ کنواں
سرمہ کاجل دود ہے دھواں
خون لہو الماس ہیرا
بیت خانہ کو کہیے ڈیرا
نعلین کھڑاون چوبدست لاٹھی
چارپائی کھاٹ خرابات بھاٹی
صنائع لفظی و معنوی کا صرف انھیں علم ہی نہ تھا بلکہ ان
کے صحیح استعمال سے بھی بخوبی واقف اور باخبر تھے۔ ایک اہم بات بتادوں کہ شاعری کا
اصل مقصد صنائع بدائع کا استعمال نہیں ہے، لیکن یہ شاعری کے زیور کا کام کرتے ہیں
ان کے استعمال سے شعر کی تاثیر اور
خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔مثلاً ؎
ترش کٹھا شیریں میٹھا
شور کھارا بے مزہ ہے سیٹھا
اس شعر میں ایک خوبصورت صنعت ’صنعت تضاد‘کا استعمال
شاعر نے بحسن و خوبی کیا ہے جو حسن شعر کے ساتھ اثر انگریزی کا باعث ہے۔ دوسری
صنعت، مراعاۃ النظیر ہے، یہ بھی شعر کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہے اور یہی شعر
کا حسن ہے۔
خوشحال صبیان سے مزید اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیںجن میں
اس صنعت تضاد کا استعمال کیا گیا ہے اور موزوں طریقے سے اس کو برتا گیا ہے ؎
کہتر چھوٹا فربہ موٹا
لاغر دبلا استیارہ بھروتا
برنا جوان ترنا جان
پیر ضعیف بوڑھا پہچان
عروس کنواری خام ہے کاچا
پختہ پا کا رقص ہے ناچا
کسوف خسوف ہندوی گہنا
ویران اجاڑ آباد بسنا
پوشیدہ ڈھانکا برہنہ ننگا
معذوری زحمت صحت ہے چنگا
فلک آسمان ارض ہے دھرتی
مزروعہ حاصل افتادہ پرتی
قریہ گائوں زمستاں ہے جاڑا
بلدہ شہر دفن ہے گاڑا
مثنوی نگار نے اس صنعت کا بڑی ہنرمندی سے اشعار میں
استعمال کیاہے اور حسن ولطف کا جہان آباد کیا ہے جس کے سبب شعر کی نزاکت ، لطافت
ومتانت اپنے کمال پر ہے او رایسا کرکے مثنوی نگار نے ذوق جمال کی تسکین کا سامان
فراہم کیاہے۔ یہی خوبی انھیں دوسروں سے الگ اور ممتاز کرتی ہے ؎
خلد بہشت جنت جان
سقر جہنم دوزخ مان
محولہ بالا شعر میں صنعت مقابلہ سے جو خوبی اس میں پیدا
ہوئی ہے وہ ظاہر ہے ، بتانے کی حاجت نہیں۔
تجنیس بھی ایک ایسی صنعت ہے جس میں الفاظ شکل وصورت اور
تلفظ میں ایک جیسے ہوتے ہیں ، لیکن وہ معنی کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں ۔اس صنعت کا
شعر میں برتنا گویاشعر میں ایک بڑی خوبی کا پیدا کرنا ہے کیوں کہ تکرار صورت سے
شعر میں حسن پیدا ہوتاہے اور کانوں پر نہ گراں گزرتاہے اور نہ بوجھل پن کا احساس ہوتا
ہے، بلکہ اس سے ذوق جمال کی تسکین ہوتی ہے۔
مثنوی نگار جگ جیون داس نے اس صنعت کا استعمال بڑی حوبی
اور عمدگی سے کیاہے ؎
زنجبیل ادرک زرد چوب ہلدی
گو گرد گندھک ٹھنڈک سردی
ضیافت مہمانی کہیے
خلعت سراپا عنایت کہیے
کنیز باندی جو کہیے دائی
تارک چاندی کوشش ساعی
بحرو دریا کو کہیے سموند
نوشیدن پینا قطرہ بوند
صنعت مراعاۃ النظیر جسے تناسب، توفیق، تلقین بھی کہتے ہیں
اورمعمولی بول چال میں یہی صنعت ضلع جگت کے نام سے مشہور ہے؛ اس کو بھی انھوں نے
بڑی خوش اسلوبی سے برتاہے اور اس کے باعث کلام کا رنگ نہایت ہی خوشنما، دلچسپ و
پُرفریب ہوگیا ہے۔ مثال سے واضح ہوگا ملاحظہ کریں ؎
عسکر، سپاہ لشکر جان
ظفر نصرت فتح کو مان
شمس آفتاب سورج بکھان
اختر ستارہ تارہ جان
حلبہ میتھی سونف بادیان
اجمودہ اجوائن کشنیزہ دھنیا
جولان بیڑی اسیر بند جان
فیل ہاتھی مہاوت فیلبان
وجہ روے جو کہیے
مونھ
سلبت مونچھ ابرو بھونھ
زبدہ سکّہ جو کہیے ماکھن
شیر دودھ چشیدن چاکھن
خسر سسر خس پورہ سالہ
خوشدامن ساس گوپ گوالا
بحرو دریا کو کہئے سموند
نوشیدن پینا قطرہ بوند
ایہام و توریہ، ایسی صنعت ہے جسے ایک قادر الکلام
پُرمغز شاعر، بہترین سخنور اور خوش بیاں نکتہ سنج بڑی عمدگی سے کلام میں استعمال
کرکے شعر کی زینت بنا سکتاہے جس کے باعث
صحیح معنوں میں شعر کا حسن اور کلام کا جمال اور نکھر کر سامنے آئے گا اور اس کی
سحر انگیزی بڑھ جائے گی۔ مثنوی نگار نے اس صنعت کا بھی بڑی ہنرمندی سے استعمال کیا
ہے ؎
عقد گرہ جو کہیے نکاح
شادی خوشی ہندوی بیاہ
لفظ شادی کا ایک معنی نکاح اور بیاہ ہے جو کہ قریب ہے
اوریہ معنی قاری یا سامع کی سمجھ میں جلد آئے گا وہیں اس کا دوسرا معنی ’فرحت
وانبساط‘ ہے یعنی اندرونی خوشی جس کا اثر باہر نمایاں طورپر دکھائی دیتاہے ؛ اور یہی
معنی شاعر کا مقصود ہے۔
مختصر یہ کہ’گنجینۂ معانی‘ پر مشتمل خالص علمی مثنوی
’خوشحال صبیان‘ میں اس فن کی روایت ودرایت کی پابندی بحسن وخوبی کی گئی ہے۔ الفاظ
کی صحیح نشست وبرخاست، عمدہ تراکیب اور ان کی خوبصورت ترتیب سے جو لطف شاعر نے پیدا
کیا ہے وہ کمال ہے۔
لیکن ساتھ ہی مثنوی نگار نے کہیں کہیں وزن شعر کو
برقرار رکھنے کے لیے کسی حرف کا اضافہ کیاہے جس سے پھوہڑپن بھی پیدا ہوگیاہے جو کہ
عیب ہے، کیوں کہ وہاں شعرکا حسن اور اس کا اثر دونوں مفقود ہے۔ مثلاً ؎
کنیز باندی جو کہیے دائی
تارک چاندی کوشش ساعی
ساعی اصل میں سعی ہے، یہاں پر صرف وزن کو برقرار رکھنے
کے لیے الف کا اضافہ کیا گیا ہے۔
اسی طرح بعض مقام پر کسی لفظ کو قافیہ اور وزن سے ہم
آہنگ کرنے کے لیے، غلط املا میں لکھا گیا
ہے۔ یہ کلام میں غلطی قاعدے کی خلاف ورزی اور بعض دفعہ عجز بیان کی طرف اشارہ
کرتاہے، مثال سے واضح ہوگا ؎
جرس گھنٹہ خلخال چوڑا
حسن خوب بھلا بدبورا
عروس کنواری خام ہے کاچا
پختہ پا کا رقص ہے ناچا
کسوف خسوف ہندوی گہنا
ویران اجاڑ آباد بسنا
خلاف جھوٹ یقین ہے سہی
زوالِ بِرَنج چوڑا جغرات دہی
مغرب پچھم مشرق پوروب
شمال اتر دکھن جنوب
پہلے شعر میں برا کی جگہ بورا، واو کے ساتھ ہے جو کہ
صرف وزن کے لیے ہے ورنہ بد کا معنی بُرا با کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ شعر دوم میں کچا کی
جگہ کاچا، گہن کی جگہ گہنا، چہارم میں صحیح کی جگہ سین سے سہی، پنجم میں پورب کی جگہ پوروب را کے بعد واو کے اضافہ کے ساتھ یہ
سب وزن کو برقرار رکھنے، قافیہ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے حروف کا اضافہ کیا گیا ہے۔
یہ خوبی کے بجائے خامی، کمال کے بجائے نقص اور حسن کے بجائے عیب ہے۔ ان بعض خامیوں
کے باوجود یہ مثنوی بے مثال، ممتاز اور منفر دہے جس میں زبان صاف ، شستہ اور فصیح
ہے، زور بیان عمدہ ہے ، لطافت وشیرینی ہے، علاوہ ان سب کے اس میں جدت ہے۔ الفاظ کے
معنی کو مختلف زبانوں میں نظم کی ہیئت اور خوبصورت پیکر میں بیان کرنا یقینا قابل
تعریف ہے۔ ان کی اس منفرد تالیف نے اردو۔فارسی زبان وادب کی ترویج وارتقامیں ایک
اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کی جداگانہ محنت اور عظیم خدمت انہیں بہار کے ان ہندو
شعرا کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جن کا نام زبان وادب کے حوالے سے بڑے احترام کے
ساتھ لیا جاتاہے ۔
حوالہ جات
1 خوشحال
صبیاں ، مصنف جگ جیون داس، ناشر: نازبک ڈپو،کلکتہ3
2 مقدمہ
شعر وشاعری،از الطاف حسین حالی، مطبع مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، ص 202
Mohd Farhat Husain
Research Scholar, Dept of Urdu
B R A, Bihar University
Muzaffarpur- 842001 (Bihar)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں