اردو دنیا، دسمبر 2024
ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے، جہاں ذیلی علاقائی
زبانوں کے علاوہ ایک درجن سے زائد ایسی زبانیں بولی جاتی ہیں جو ایک دوسرے سے یکسر
مختلف ہیں اور ہر زبان اپنے آپ میں مستقل تاریخ اور روایت کی آئینہ دار ہے۔
موجودہ ہندوستان کے جغرافیائی علاقوں میں بطور خاص ہندی، اردو، پنجابی، گجراتی،
مراٹھی، تیلگو، ملیالم، کنڑ، اڑیہ اور بنگلہ زبانیں رائج ہیں، غرضیکہ ہر ریاست تقریباً
اپنی جداگانہ زبان اور تہذیب وثقافت رکھتی ہے اور تجارتی نیز دیگر کچھ امور کے لیے
سرکاری اور غیر سرکاری طور پر ایک بڑے طبقے کے درمیان انگریزی زبان کا چلن ہے۔
انگریزی بلاشبہ غیر ملکی زبان ہے تاہم باشندگان ہند کا
بڑا پڑھا لکھا اور ترقی یافتہ طبقہ بڑے شوق اور فخر سے اسے بولتا اور لکھتا ہے۔اس
طرح فارسی زبان ہے، جسے صدیوں تک اس ملک کے طول وعرض میں بلا تفریق رنگ ونسل اور
بلا امتیاز مذہب وملت عام چلن پانے کا اعزاز حاصل رہا ہے، بلکہ مغل دور حکومت میں
اسے باضابطہ سرکاری زبان ہونے کا درجہ بھی حاصل تھا اور آج بھی ڈیڑھ صدی گزرنے کے
بعد اس کی بہت سی اصطلاحات اور محاورے جوں کا توں مستعمل ہیں اور ملک کی دانش
گاہوں اور تعلیمی اداروں میں ایک فن کی حیثیت سے فارسی زبان وادب کی تعلیم جاری
ہے۔
الغرض سرزمین ہند سے فارسی زبان وادب کے عروج وارتقا کی
ایک سنہری تاریخ وابستہ ہے۔ یہاں فارسی کے ایسے ایسے نامور علما، شعرا اور
ادباگزرے ہیں جن پر اہل ایران کو بھی رشک آتا ہے۔ ہندوستان کے مختلف خطوں ،
صوبوں، شہروں اور مردم خیز قصبات میں بہ کثرت علما اور صوفیا باقاعدہ صاحب دیوان
شاعر اور ادیب تھے، ان مردم خیز قصبات میں ایک قصبہ کاکوری بھی ہے جو دارالسلطنت
لکھنؤ سے تقریبا پندرہ میل کے فاصلے پر مغرب جانب واقع ہے۔کاکوری شریف اولیاء
اللہ کی سرزمین ہے،اور یہاں خانقاہ کاظمیہ قلندریہ موجود ہے۔ کاکوری اردو اور فارسی
کا مرکز رہا ہے، یہاں نامور شعرا ہوئے ہیں، مشہور نعت گو شاعر محسن کاکوروی، نور
اللغات کے مصنف نور الحسن نیر اور صحافی شمس الرحمن علوی کا تعلق یہیں سے ہے۔
موجودہ جغرافیائی نقشے کے اعتبار سے یہ لکھنؤ کے قریب ایک قصبہ ہے۔ وکی پیڈیا
لکھتا ہے: یہ صوبہ اترپردیش کے اودھ علاقے کا اہم قصبہ ہے، کاکوری ہندوستان کی جنگ
آزادی کے لیے بھی جانا جاتا ہے، یہیں بسمل اور اشفاق اللہ خان نے انگریزی خزانہ
لے جانے والی ٹرین پر حملہ کیا تھا اور بعد میں ان کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔اسی
قصبے سے تعلق رکھنے والی ایک مشہور ومعروف ذات شاہ تراب علی قلندر کی ہے۔
آپ کی پیدائش 1181ھ مطابق 1768 میں قصبہ کاکوری میں ہوئی۔ آپ نسبی اعتبار سے
علوی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔
آپ کا نسب نامہ اس طرح سے ہے:
’’شاہ
تراب علی بن شاہ محمد کاظم قلندر بن حضرت شاہ محمد کاشف چشتی بن حضرت شیخ حافظ خلیل
الرحمن شہید بن شیخ عبد الرحمن بن حضرت شیخ غلام محمد بن حضرت شیخ سیف الدین بن
حضرت شیخ ضیاء اللہ بن حضرت شیخ ملا عبد
الکریم قدس سرہ بن حضرت حافظ شہاب الدین عرف سوندہن بن حضرت مخدوم نظام الدین قاری
قادری معروف بہ شاہ بھیکا کاکوری بن حضرت قاری امیر سیف الدین بن حضرت ابوالقاسم
محمد الحنفیۃ بن سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ۔
والدہ ماجدہ کی طرف سے
شاہ تراب قلندر کا نسبی تعلق ہندوستان کے مایہ ناز عالم ربانی حضرت ملا احمد جیونؒ
سے ہے، جن کا سلسلۂ نسب خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓسے ملتا ہے۔
آپ نے ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولیں جو علم وفضل کا
گہوارہ اور زہد وتقویٰ کا مخزن تھا، جیساکہ آپ کے شجرۂ نسب میں درج بزرگوں کے
اسما سے ظاہر ہے۔ آپ کی ذات ان منتخب اشخاص میںتھی جو کمالات اور اوصاف کا ایک
زندہ معجزہ اور روشن نشانی تھے ، آپ کے ظاہری باطنی کمالات نے آپ کو اپنے ہم
عصروں میں ایک امتیازی درجہ دے رکھا تھا،جس کو مورخین اور سوانح نگاروں نے اپنی
اپنی تصنیفات میں قلم بند کیا ہے۔
صاحب اذکار الابرار آپ کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے
رقم طراز ہیں:
’’بچپن سے تحصیل علم
وفضل میں منہمک اور صلاح وتقویٰ سے آراستہ تھے اور بسبب حسن ادب واستعداد کے حضرت
عارف باللہ (والد محترم شاہ محمد کاظم قلندرؒ) کے محبوب ومقبول تھے۔ سات برس کی
عمر سے تعلیم شروع کردی۔ ذکر سہ پایہ ونماز تہجد جبھی تعلیم فرمائی جب بارہ برس کے
ہوئے اور تکیہ پر رہنے لگے تو آپ کے ذہن واستعداد کی رسائی ملاحظہ فرماکر اسی وقت
سے حضرت عارف باللہ نے تصوف کی تعلیم شروع کردی اور آپ کو تیسیر الاحکام مصنفہ
شہاب الدین ملک العلما اور زاد الآخر اور منہاج العابدین وکیمیاے سعادت وتصانیف
حضرت شاہ ولی اللہ محدث پڑھائیں اور برابر اخلاق وتصوف خصوصاً مسائل معرفت وتوحید
کی زبانی وعملی تعلیم بھی فرماتے رہے اور امتحاناً کبھی کبھی توحید کے متعلق
سوالات بھی کرتے اور حسب دل خواہ جواب سن کر بہت خوش ہوتے تھے، ایک بار آپ نے عرض
کیا کہ حقیقت ومعرفت توحید کا مجھ کو ایسا یقین ہو گیا ہے جو کسی اعتراض سے جا نہیں
سکتا، آپ کا یہ طریقہ تھا کہ حضرت عارف باللہ جب کسی کو کوئی نماز یا دعا بتاتے
تھے تو آپ سن کر یاد کر لیتے تھے۔ ‘‘1
آپ کی تعلیم وتربیت میں سب سے اہم کردار آپ کے والد
ماجد کا ہے، اس اعتبار سے وہی آپ کے اول اور اعظم استاذ ومربی ہیں، ان کے علاوہ
جن حضرات علما سے آپ نے اکتساب علم وفن کیا ان کا تذکرہ پروفیسر عمر کمال الدین
صاحب نے اس طرح کیا ہے:
’’ابتدائی
تعلیم ملا قدرت اللہ بلگرامی خلیفہ خاص حضرت عارف باللہ اور مولوی معین الدین
بنگالی سے حاصل کی، بقیہ درسیات ملا حمید الدین محدث کاکوروی سے پڑھے، فن عروض قاضی
القضاۃ نجم الدین علی خان بہادر ثاقب کاکوروی سے اور فقہ مولوی فضل اللہ ساکن نیوتنی
سے پڑھی۔‘‘2
آپ کے اولین شیخ آپ کے والد ماجد ہی ہیں والد محترم
شاہ محمد کاظم قلندر نے بچپن ہی میں اجازت وخلافت سے سرفراز کر دیا تھا۔ تقریباً
پندرہ سال کی عمر میں ہی آپ تحصیل علوم وفنون اور مراحل ریاضت ومجاہدے کی تکمیل
سے فارغ ہو گئے تھے اور اسی وقت سے خدمت خلق اور بندگان خدا کی اصلاح وارشاد میں
لگ گئے تھے۔ آپ کے تذکرے میں موجود ہے کہ والد محترم کے زمانے سے ہی آپ عائلی
اور خانقاہی امور کے ذمے دار بنا دیے گئے تھے۔صاحب تذکرہ گلشن کرم لکھتے ہیں:
’’پندرہ سال کی قلیل
عمر میں تمام مراتب ارشاد وتلقین سے فارغ ہو گئے، غرض کہ استعداد خداوندی، خوش نصیبی
اور توفیق الٰہی میں مخلوط ہوکر وہ شان پیدا کرلی کہ کم سنی میں ہی ان تمام
دشوارگزار مراحل سے گزر گئے جو ہر سالک کے لیے ناگزیر ہیں، والد بزرگوار نے فرزند
رشید کی عبادات واشغال میں محویت ملاحظہ فرمائی تو کاروبار خانقاہی وخانہ داری
سپرد فرما دیے، حتیٰ کہ شجرہ نویسی کی اہم خدمت بھی۔‘‘3
باضابطہ مسند نشینی والد ماجد کے وصال کے بعد ہوئی، اس
وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی، پھر مسلسل 54 سال تک مسند ارشاد پر متمکن رہے۔
آپ نے علمی، خانقاہی اور دیگر ضروری مشاغل کے ساتھ
عبادت وریاضت میں انتہائی انہماک کے باوجود اپنے اشہب قلم سے علوم وفنون کی دنیا
کو بیش قیمت سرمایے عطا کیے ہیں۔ آپ کی جملہ کتابیں اہم اور مفید ہیں، جن کی افادیت
واہمیت رہتی دنیا تک کم نہیںہوگی۔ اس مقالے میں آپ کی تمام تصنیفات سے تعرض مقصود
نہیں ہے، صرف آپ کی فارسی شاعری کا قدرے تفصیلی تذکرہ پیش کیا جانا ہے۔
قدرت نے بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ شعر وشاعری
کا ملکہ بھی آپ کی ذات میں ودیعت کر رکھا تھا، یہ جوہر بھی دیگر جواہر کی طرح خوب
نکھر کر سامنے آیا اور سخن وری کی دنیا میں آپ کا نام آفتاب نصف النہار کی طرح
آشکار کر گیا۔ آپ نے فارسی، اردو اور ہندی تینوں زبانوں میں طبع آزمائی فرمائی،
اور تینوں زبانوں میں صاحب دیوان شاعر کی حیثیت سے نمایاں ہوئے۔
آپ کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے گلشن کرم کے مصنف
لکھتے ہیں:
’’آپ
نے شاعری کو نہ نام ونمود کا ذریعہ بنایا اور نہ کبھی اہل نظر سے داد کے متمنی
ہوئے، محض اپنی تسکین خاطر کے لیے اپنی معنوی صلاحیتوں سے راستے کی آمد ورفت میں
الہامی اور ماورائی طرز فکر کو اپنایا۔‘‘4
پروفیسر عمر کمال الدین صاحب لکھتے ہیں:
’’واہب
العطایا نے آپ کو شعر وسخن کا کافی ذوق دیا تھا۔ آپ کا کلام فارسی، اردو اور ہندی
تینوں زبانوں میں ہے۔ آپ قصبہ کے واحد خوش نصیب شاعر ہیں جس کے اردو، فارسی اور
ہندی تینوں زبانوں میں دیوان شائع ہوئے۔‘‘5
آپ نے شاعری کب شروع کی اس بارے میں ڈاکٹر شبیب
انورعلوی لکھتے ہیں:
’’
از احوال شعر سرودن ایشاں در کتابہا ایں نکتہ معلوم نمی
شود کہ از کدام عمر آغاز کرد الا ایں کہ از عبارت پسر خرد شاں شاہ تقی علی قلندر
اشارت می شود کہ در دورہ اے تحصیلات مقدمات تصور شعر گفتن آغاز کرد۔‘‘6
(آپ
کی شعر گوئی کی ابتداکب سے ہوئی اس کے بارے میںکتابوں سے کچھ پتہ نہیں چلتا لیکن
آپ کے چھوٹے صاحبزادے کی ایک عبارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی تعلیم کے زمانے
سے ہی شعرگوئی شروع کردی تھی۔)
آپ کی شاعری کے تعلق سے ایک پرلطف روایت یہ ملتی ہے کہ
آپ نے اپنی شاعری پر کسی سے اصلاح نہیں لی اور شعر اپنے ہاتھ سے لکھتے بھی نہیں
تھے اور یہ کہ تکیہ شریف پر کوئی شعر نہیں لکھتے تھے، فقط آتے جاتے کہہ لیا کرتے
تھے۔
چنانچہ صاحب اذکار الابرار لکھتے ہیں:
’’
آپ نے نہ کبھی کسی کو اپنا کلام دکھایا نہ اصلاح لی
اور نہ کبھی کوئی شعر تکیہ شریف پر نظم کیا بلکہ جب بستی میں تشریف لے جاتے تھے تو
آنے جانے میں دو غزلیں کہہ لیا کرتے تھے اور تکیہ شریف پر آکر مولوی عبد الباسط
خلف حضرت شاہ رحیم باسط کو سنا دیتے تھے وہ لکھ لیتے تھے۔‘‘
لیکن بمطابق صاحب تذکرہ گلشن کرم ’’اپنے ہاتھ سے نہ
لکھنے کا معاملہ فارسی شاعری کے ساتھ نہ تھا بلکہ فارسی کلام وہ اپنے ہاتھ سے خود
لکھا کرتے تھے۔‘‘7
اذکار الابرار کے مولف لکھتے ہیں:
’’قسام
ازل نے شعر وسخن میں بھی آپ کو کافی حصہ دیا تھا، ابتدا میں شہید تخلص تھا پھر
تراب ہو گیا۔‘‘
شروع میں آپ نے شعری تخلص کے لیے ’شہید‘ کا انتخاب کیا،
مگربعد میںجب بزم و رزم میں قابلیتوں اور
موشگافیوں کے جوہر کھلے تو ’تراب‘ سے مشہور ہو گئے۔ چنانچہ منشی رحمن علی اورشیخ
عبدالحی لکھنوی وغیرہ تذکرہ نگاروں نے آپ کا نام تراب علی ہی لکھا ہے۔ 8
آپ کی شاعری محض زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ نظری کے ساتھ
عملی بھی ہے، آپ کا کلام تفکرو تعقل کے ان نتائج کا مجموعہ ہے جس میں گوناگوں بیانات
کے دوش بدوش عالم ملکوت و لاہوت کے وہ مخفی امور اور دنیائے روحانیت کی بدیہی باتیں
نظم کی گئی ہیںجو ضمیر کو آلائشوں سے پاک کرتی ہیں، معاصر شعرااگر جگ بیتی بیان
کرتے ہیں تو آپ نے آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں بیان کی ہے۔آپ کی شاعری کسبی نہیں
بلکہ وہبی ہے،جو نہ کسی کی اصلاح سے پروان چڑھی اور نہ نقدو نظر و تبصرے سے، یہ
صرف اس سحر حلال کا کرشمہ تھا جس نے ’نگار من کہ بمکتب نہ رفت و خط ننوشت‘ کو ’بہ
غمزۂ مسئلہ آموز صدمدرس شد‘کا جامۂ رنگین زیب تن کر دیا تھا، اس لیے آپ کی
شاعری میں تعلیمات، حقائق و معارف، حسن اخلاق اور طرز معاشرت کا حسین مرقع نظر
آتا ہے۔
شاہ تراب کی شاعری میں سلاست، بلاغت اور روانی پائی جاتی
ہے،ان کے اشعار میں زیادہ تر اہل معرفت بزرگ شعرا جیسے مولانا رومی، حافظ شیرازی
،شیخ سعدی، امیرخسرو، عراقی اور جامی کی عرفانی شاعری کی جھلک ملتی ہے، ان اشعار میں
مذکورہ شعرا کی باطنی وعرفانی کیفیات، عشق حقیقی کے جذبات اور حال ومقام کی جلوہ
گری نظر آتی ہے، چونکہ اس مختصر سی تحریر میں زیادہ نقد وتجزیے کی گنجائش نہیں اس
لیے چند مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
شاہ تراب کی شاعری کا
مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اشعار تین بنیادی موضوعات میں منقسم ہیں :
1 اخلاق
وحکمت والے اشعار
2 عرفانی
اشعار
3 عشق
و عاشقی والے اشعار
شاہ تراب کی شاعری میں بہت سارے اشعار اخلاق اور حکمت
والے ہیں، جو رومی اور سعدی کے اشعار میں تتبع کرنے سے نظر آتے ہیں، چونکہ معرفت،
تصوف، اخلاق اور ادب کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اسی لیے آپ کے اشعار میں بہت سارے
اشعار اخلاق سے متعلق ہیں اور یہ اخلاق اور حکمت والے اشعار آپ کے مخمس کریمااور
غزل کے دیوان سے ظاہر ہیں۔
آپ کے کلام پر نظر ڈالنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اخلاق
و حکمت والے اشعار بھی دو طرح کے ہیں:
1 وہ
اشعار کہ جن میں تہذیب اخلاق، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، شریعت وسنت، زہد و ورع
محمود اور تقوی وپرہیزگاری کی پابندی پائی جاتی ہے۔
2 وہ
اشعار جوریا، تکبر، حسد، خودبینی، خود نمائی اور غرور کی مذمت کے بیان میں ہیں اور
بدزبانی طعن وتشنیع کے ترک کرنے کے بیان میں ہیں اور دوسرے مضامین بھی اس میں شامل
ہیں۔
اور یہ وصف آپ کے کلام میں اس طرح سے ملحوظ ہے کہ اگر
آپ کی غزل کا ایک شعر پڑھا جائے تو یہ وصف مقطع میں بھی نظر آتا ہے اور پورا کا
پورا کلام اخلاق اور حکمت والا دکھائی دیتا ہے ؎
جاں بلب آمدم ز درد کردم از و دوا طلب
گفت اگر توعاشقی صبر کن و رضا طلب
یار دم کہ بر سرت تیغ رندتو دم مزن
سر بہ فدائے یار کن ہیچ نہ خوں بہا طلب9
(عشق
میں میری جان لبوں پر آگئی تو میں نے اپنے معشوق سے دوا مانگی اس نے کہا اگر تم
سچے عاشق ہو تو صبر کرو اور میری خوشی میں خوش رہو، جب محبوب اپنی تلوار سے تم کو
قتل کرنا چاہے تو دم نہ مارو اور خوں بہا مت مانگو بلکہ اپنے سر کو یار کے قدموں میں
نثار کردو)
آپ کے اشعار سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ
معرفت شریعت سے تجاوز کرنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ معرفت کا حصول شریعت کی پابندی
سے ہوتا ہے۔فرماتے ہیں ؎
تراب حد شریعت نشان معرفت است
قدم در از نہ باید مگر بقدر گلیم 10
(تراب
شریعت کی پابندی ہی معرفت کی نشانی ہے اپنی چادر سے باہر پیر نہ پھیلانا چاہیے)
شاہ تراب اپنے اشعار کے آئینے میں کبھی کبھی ایک درد
مند ناصح نظر آتے ہیں جو نفس پرست اور خود بینی کرنے والے گمراہوں کو راہ راست
اور درستگی کی طرف لاتے ہیں، انھیں تزکیہ کا راستہ دکھاتے ہیں، انھیں نصیحت کرتے ہیں
اور کبھی کبھی ڈینگیں ہانکنے والے زاہدان خشک اور غیر متقی مدعیان تقوی کا مذاق
اڑاتے ہیں اور اپنی ہنرمندی اور قلندری کے تقاضے سے خود کو اس طرح سے پیش کرتے ہیں
کہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ حقائق کے بیان کرنے میں آزاد اور جرات مند ہیں ؎
ہزار مرتبہ سر سود بر زمین زاہد
چہ سود برد بجز خاک بر جبین زاہد
ریا و زہد ترا شہرت و تماشاھاست
بر آ ز خلوت و در جلوہ گہ نشین زاہد11
(زاہد
نے ہزاروں سجدے کیے لیکن سوا اپنی پیشانی کو خاک آلود کرکے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ریا
کاری اور دیکھاوے کا زہد ہی زاہد کی شہرت ہے اگر تو واقعی زاہد ہے تو خلوت سے باہر
نکل۔)
آپ کے عرفانی اشعار بھی دو طرح سے ہیں:
(الف)
عرفان وتصوف کے عام مسائل کے بیان میں جو نام ہے تزکیہ، تصفیہ، تجلیہ، دنیوی
تعلقات سے کنارہ کشی، بے ثباتی اور مسائل طریقت، اوراد و وظائف اور کچھ دیگر چیزوں
کا جن کی طرف آپ درست رہنمائی فرماتے ہیں۔
(ب) خالص عرفانی اشعار کہ جن میں حقائق
ومعارف جیسے وحدت وجود ،وحدت شھود ،تجدد امثال ،کثرت میں وحدت ، وحدت میں کثرت اور
ان سے متعلق دیگر مسائل نہایت ہی گہرائی و بینائی کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔
وحدت وجود ایک ایسی بحث ہے کہ شاہ تراب نے اس سے متعلق
اپنے بہت سارے آثار چھوڑے ہیں اور آپ کے کلام میں موجود تمام عناصر میں یہ عنصر
اس طرح سے غالب ہے کہ پتا چلتا ہے کہ وحدت وجود کہنے کی نہیں بلکہ سمجھنے کی چیز
ہے، اس بحث سے متعلق آپ کی غزلیں اس قدر اور
اتنی اچھی ہیں کہ ان کی زیبائش اور دل نشینی قابل دید ہے ، آپ کی زبان
سادہ اور ہر طرح کے تکلف اور پابندی رسم سے دور ہے۔
آپ کے اشعار میں سے کچھ اشعار جن کا تعلق غزل سے ہے
ادراک حقیقت در مجاز کے قبیل سے ہیں کہ ہر شعر سے حقیقت ظاہر ہوتی ہے، یا زلف،
رخسار اور ہونٹ وغیرہ کی تمثیل اور لفظی مناسبات سے حسن وعشق مجازی کو اس طرح سے بیان
کیا گیا ہے کہ قاری کا ذہن حقیقت کی طرف ایک بارگی مائل ہوجاتا ہے۔
آپ کے کلام میں ایک خوبی معنی آفرینی ہے جو درست طریقے
سے نظر آتی ہے اور اس وصف سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے بے جان چیزوں میں آپ نے جان
ڈال دی ہے اور بے علت چیزوں کو علت ومعلول بنا دیا ہے۔
علاوہ ازیں آپ کی شاعری کے موضوعات میں ایک موضوع اور
ایک موثر طریقہ اور مفید لہجہ یہ ملتا ہے کہ موسیقی کلام کے ہر نوع کو وہ اپنے
کلام میں اس طرح سے برتتے ہیں کہ اجناس کے انواع، ظاہر اور پوشیدہ حروف، تکرار
کلمات ،مناسب نکات ،لفظی ہم آہنگی، لف ونشر مرتب اور غیر مرتب، رنگا رنگ تشبیہات،
استعارات، عربی فارسی محاورات بطریق احسن استعمال کیے گئے ہیں۔
تشبیہات واستعارات کی کثرت استعمال اور دیگر صنائع و
بدائع کے لحاظ کے باوجود محبوب کی تعریف میں آپ کا دل کلی طور سے محو نہیں ہوتا
بلکہ ہمیشہ محبوب کے عشق میں بیدار رہتے ہیں اور گل وبلبل ، شمع وپروانہ کو محض
تشبیہ واستعارہ ہی سمجھتے ہیں، ان عناصر سے استفادہ اتنے ہنر مندانہ اور زیرکانہ
طریقے سے کرتے ہیں کہ آپ کے اشعار کو سننے یا پڑھنے والا قبل اس کے کہ صنائع کی
طرف متوجہ ہوکر از خود رفتہ ہوجائے وہ آپ
کے اشعار کی زیبائش ، لطافت اور ہم آہنگی میں ڈوب جاتا ہے۔
شاہ تراب علی یقینا علوم روحانی کے معلم اور اسرار باطنی
کے حکیم بھی تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں روحانیت کی گہرائی نظر آتی ہے
اور پڑھنے والوں کو رموز مخفی سے آگاہی ہوتی ہے، شاہ تراب کے کلام میںتصوف کے بنیادی
مسائل مثلاً: وحدت الوجود، طریقت کے مسائل، معرفت کے امور، تسلیم و رضا کی تلقین،
صبر وقناعت کی ہدایت، ترک دنیا کا خیال، سکون قلب کی تدابیر، آفرینش کائنات کی حقیقت،
کن فیکون کا مفہوم، حسن و عشق کے رموز، دنیائے فانی کی بے حقیقتی کا افسانہ اور بے
ثباتی کا ترانہ،موت وحیات، ذات حق کی قدامت، غیب و شہود، وجود مطلق کے اوصاف، وجود
مقید کی بے مائیگی، حسن ازل کی جھلک، یوم الست کا وعدہ و پیمان،تزکیہ نفس کی اہمیت
وغیرہ بخوبی موجود ہیں۔ان کے کلام میں تصوف کی سطح سے ہٹ کر بھی ذاتی فکر کی روشنی
اور شخصی اجتہاد کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔
آخر کار94 سال کی عمر میں ربیع الآخر1275ھ/ 1858 کو
فالج کا شکار ہو کر داعی اجل کو لبیک کہا اور اس طرح سے روحانیت کے پیالے سے محبت
کا جام پلانے والے ہونٹ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے، فارسی شاعری کی تاریخ کا ایک
باب مکمل ہو گیا اور علم و فضل کاآفتاب عالم تاب روپوش ہوگیا۔
حواشی
1 تذکرہ
گلشن کرم، شاہ تقی انور قلندر، ص67، نامی پریس لکھنؤ، 1213 ھ
2 خانوادۂ
کاظمیہ کی ادبی خدمات، پروفیسرعمر کمال الدین، ص155 ،عادل پبلی کیشنز، 1230 کلاں
محل،نئی دہلی، 1996
3 تذکرہ
گلشن کرم ،تقدیم و ترتیب جدید، ڈاکٹر حافظ شبیب انور علوی کاکوروی،ص88،سنہ
اشاعت،2020
4 مصدر
سابق،ص95
5 خانوادۂ
کاظمیہ کی ادبی خدمات، پروفیسر عمر کمال الدین، ص: 178,179، عادل پبلی کیشنز،
1230کلاں محل،نئی دہلی،1996
6 دیوان
فارسی شاہ تراب علی قلندر،بکوشش دکتر حافظ شبیب انور علوی کاکوروی،ص24، سنہ
اشاعت،2015
7 مصدر
سابق،ص96
8 مصدر
سابق، ص95
9 دیوان
فارسی شاہ تراب علی قلندر،بکوشش دکتر حافظ شبیب انور علوی کاکوروی،ص45، سنہ
اشاعت2015
10 مصدر سابق،ص90
11 مصدر سابق،ص68
Sayyad Anwar Safi (Safi Ibn Safi)
Research Scholar, Dept of Persian
University of Lucknow
Lucknow-226007 (UP)
Cell.: 9918300200
sayyadanwarsafi@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں