بنارس
میں فارسی ادب کی ایک صحت مند روایت رہی ہے۔ قدیم زمانے کے بعض فارسی ادبی آثار
آج بھی باشندگان بنارس کے ذاتی کتب خانوں کے علاوہ قلعہ رام نگر اور
کلابھون بی۔ایچ۔یو کے ذخیرۂ کتب میں موجود ہیں۔ اس بات سے ادب کے تقریباً تمام
طالب علم بخوبی واقف ہیں کہ ہندوستان میں فارسی زبان وادب کو مغلوں کے دور میں زیادہ
ترقی حاصل ہوئی۔مغلیہ حکومت کے زمانے میں بے شمار فارسی کتب وجود میں آئیں اور اس
زبان کو ملک کی سرکاری زبان کی حیثیت بھی حاصل ہوئی لیکن بنارس کی تاریخ کا مطالعہ
کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بنارس میں فارسی زبان مغلوں کی آمدسے قبل آچکی
تھی۔ ہندی زبان کے مشہور شاعر کبیر داس اردو اور سنسکرت کے علاوہ فارسی بھی جانتے
تھے۔ عبد الرحیم خانخاناں بنیادی طور پر ہندی کے شاعر تھے لیکن انھیں فارسی زبان
سے گہری رغبت تھی۔ ان کی ہندی شاعری میں عربی وفارسی الفاظ کی خوبصورت آمیزش ان کی
فارسی دانی کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے۔ہندی زبان کے مشہور شاعر تلسی داس صرف ہندی
اور سنسکرت کے عالم ہی نہیں تھے بلکہ عربی و فارسی بھی جانتے تھے۔ان کی شاعری میں
ہندی کے ساتھ فارسی الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام
بنارس میں گزارے اور یہیں اسّی گھاٹ پر وفات پائی۔
شاہجہاں
کے بڑے بیٹے دارا شکوہ نے عربی و فارسی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔پنڈت رامانند
ترپاٹھی جو سنسکرت اور فارسی کے اچھے عالم تھے 1632 میں بنارس آئے۔ان کے علم
وکمال کی شہرت جب شاہ جہاں تک پہنچی تو انھوں نے اپنے بیٹوں دارا شکوہ اور اورنگ زیب
کو ان کی شاگردی میں دے دیا۔ان کے زیر سایہ دارا شکوہ نے فارسی اور سنسکرت کی تعلیم
حاصل کی چونکہ دارا شکوہ کو سنسکرت علوم سے خاصی دلچسپی تھی لہٰذا انھوںنے بنارس
کے کئی پنڈتوں سے سنسکرت کی تعلیم حاصل کی۔انھوںنے اپنشدوں اور علم وید کی کئی اہم
کتابوں کا فارسی ترجمہ کرایا اوراس کام کے لیے 150پنڈت مقرر کیے۔دارا شکوہ نے
اپنشدوں کے ترجمے کا نام ’سر اکبر‘رکھا۔دراصل ا نھوں نے سنسکرت کی تعلیم حاصل کر
کے ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد مستحکم کرنے کی کوشش کی۔داراشکوہ سے متاثر ہوکر کئی
ہندو دانشوروں نے سنسکرت کے ساتھ فارسی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کیا۔چو نکہ
داراشکوہ ایک اچھے شاعر تھے اور انھیںشعرو ادب سے گہری رغبت تھی۔اس لیے شعرا و
ادبا کی قدربھی کرتے تھے اور انھیں اعزازواکرام سے بھی نوازتے رہتے تھے۔ دارا شکوہ
نے بہ زبان فارسی کئی قطعات لکھے۔ان کی فارسی دانی اور سنسکرت سے دلچسپی نے فارسی
زبان و ادب کے ارتقامیں اہم کردار ادا کیا۔اسی زمانے میں فارسی کے ادبی افق پر منشی
چندربھان برہمن کا نام لہرایا جو ایک عظیم المرتبت شاعر ہونے کے ساتھ ایک بہترین
انشا پرداز بھی تھے۔وہ دارا شکوہ کو بے حد عزیز تھے۔بنارس کے پروردہ چندربھان کا
درج ذیل شعر آج بھی ادبی حلقوں میں مشہور ہے
؎
مرادلیست
بکفر آشنا کہ چندیں یار
بکعبہ
بزم بازش برہمن آوردم
(تحقیقی مقالہ:مسلم الحریری اور ان کے تلامذہ: مسرت
شاہین، ص15)
ترجمہ:
’’میرا دل ایسا کفر آشنا ہے کہ میں نے چند بار کعبہ کی زیارت کی اس کے باوجود میں
برہمنیت سے چھٹکارا نہ پا سکا۔‘‘
دارا
شکوہ کے ایک منشی بنواری داس تھے انھیں فارسی زبان پر قدرت حاصل تھی۔وہ صرف ایک
مترجم ہی نہیں تھے بلکہ اچھے شاعر بھی تھے اور صوفیانہ شعر کہتے تھے انھوں نے نثر
میں راجہ ولی،رام گپت اور بودھ چند اودے کا فارسی میں ترجمہ کیا۔تقریباً اسی زمانے
میں مرزا فطرت موسوی نے اپنی مشہور مثنوی’در ماجرائے بنارس‘تصنیف کی تھی جس میں
انھوں نے عشقیہ داستان پیش کرتے ہوے گنگا کے حسن اور پاکیزگی کو انتہائی خوبصورتی
سے پیش کیا ہے۔یہ شاعر بھی بنارس کی مٹی سے نمودارہوا اور یہیں کی خاک کا پیوند
بنا۔دارا شکوہ کے زمانے میں ہی ملا طغریٰ مشہدی بنارس تشریف لائے۔ہندوستان کے
مختلف خطوں کی سیاحت کرتے ہوے جب وہ بنارس پہنچے تو یہاں کی خوشگوار فضا اور رنگینی
کو دیکھ کر ان کی زبان سے بے ساختہ حسب ذیل اشعارنکل پڑے:
ز
بنگالہ تا احمدا ٓبا د
و سندھ
شدم
کوچۂ پیمائی ہر شہر ہند
صف
آرا می باغ است گنگ بنارس
ارم
چو کند طرح چنگ بنارس
حسن
بت را سیر کردم ذوقہا در دیر کردم
نقد
ایماں خیر کردم پیش دربان بنارس
(ایضاً،ص16)
ترجمہ:
’’ بنگال سے احمدآباد اور سندھ ہوتے ہوئے میں نے ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیاحت
کی یعنی ہندوستان کے کئی شہروں میںگھوما۔
بنارس
کی گنگا ندی اور یہاں کے باغوں کی صف آرائی کا مقابلہ کوئی دوسرا شہر نہیں کر
سکتا جنت بھی اس کو دیکھ کر رشک کرتی ہے۔
میں
نے بنارس کے بت خانوں کی سیر کی۔ مندروں میں جاکر بھی اپنا شوق پورا کیا اور اپنے
ایمان [اس کی قیمت ] کو بھی بنارس کے دربانوں کے سامنے پیش کر دیا۔‘‘
گزرتے
وقت کے ساتھ بنارس میں کئی ایسے شاعرو ادیب پروان چڑھے جنھوں نے فارسی شعرو ادب سے
دلچسپی کے تحت ایک نئی ادبی روایت کو استحکام بخشا۔اٹھارہویں صدی عیسوی میں یہاں
فارسی زبان وادب کے کئی جید علماموجود تھے جن میں بعضوں نے فارسی شاعری کو عروج تک
پہنچایا اور بعضوں نے نثر نگاری میں نئے نئے گل بوٹے کھلائے۔شیخ علی حزیں،لالہ متن
لال آفریں،ملا عمر سابق بنارسی اور مخلص بنارسی وغیرہ نے شہر بنارس کے باشندوںمیںفارسی
زبان و ادب کا ذوق پیدا کیا۔ شیخ علی حزیں کی بنارس آمد اور سکونت سے متعلق بہت
کچھ لکھا جاچکا ہے۔بنارس کی ادبی روایت سے متعلق جتنے بھی مضامین تحقیقی مقالے اور
کتابیں راقمتہ السطور کی نظر سے گزرے ہیں ان سب میں حزیں کے تعلق سے گفتگو کی گئی
ہے کیونکہ ان کے پائے کا کوئی دوسرا فارسی شاعر اس زمانے میں نہیں تھا۔وہ نہ صرف ایک
شاعر تھے بلکہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ان کی تصانیف کی ایک طویل فہرست ہے جسے پیش
کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔حزیں کے زمانے میں کئی شعرا و ادبا بنارس میں رہ کر علم
وادب کی آبیاری کر رہے تھے جب کہ کچھ شعرا ایسے بھی تھے جو حزیں کے رنگ میں اشعار
کہتے تھے۔ان میں ملا عمر سابق بنارسی کا نام سر فہرست ہے۔ملا کے اجداد کا تعلق
بخارا سے تھا لیکن ان کی پیدائش بنارس میں ہوئی۔انھوں نے محلہ کتوا پورہ میں اپنا
ذاتی مکان بنواکر مستقل رہائش اختیار کی۔شعرو شاعری سے انھیں گہرا شغف تھا۔ چونکہ
شیخ علی حزیں اپنی صلاحیت سے بخوبی واقف تھے اور اپنے علم و کمالات پر انھیں حد درجہ
زعم تھا جس کے سبب وہ ہر کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے لیکن یہ بھی ایک مستند حقیقت
ہے کہ وہ ملاکی ذہانت و فطانت سے متاثر تھے۔ان کی علم فہمی اور پرہیزگاری نے حز یں کو
ان سے رشتہ استوار رکھنے پر مجبور کر دیا۔حالانکہ ملا کے استاد سراج الدین علی خاں
آرزو سے حزیںکے تعلقات اچھے نہ تھے،اس کے باوجود انھوں نے ملا سے دوستانہ مراسم
رکھے اورزندگی کے آخری ایام تک دونوں کے درمیان باہمی روابط اور محبت وخلوص کی
فضا برقرار رہی۔ دونوں ایک دوسرے کے کلام سے نہ صرف محظوظ ہوتے بلکہ ستائش بھی
کرتے تھے۔ملا نے حزیں کے رنگ میں بھی اشعار کہے بلکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حز
یں کوئی غزل سناتے اور ملا دوسرے ہی دن اسی طرح میں غزل کہہ کر حز یں کی خدمت میں
حاضر ہو جاتے۔حزیں انتہائی شوق سے نہ صرف ان کا کلام سنتے بلکہ دادوتحسین سے نواز
کرعزت افزائی بھی کرتے تھے۔اس سلسلے میں دونوں کے اشعارملاحظہ ہوں ؎
ای وای بر اسیری کز یاد رفتہ
باشد
دردام
ماندہ باشد صیاد رفتہ باشد
(حزیں)
ترجمہ:
’’افسوس ہے ایسے قیدی پر جس کی یاد جاتی رہے کہ دام میں پڑا رہے اورصیاد اسے چھوڑ
کر چلا جائے۔‘‘
جانش
چساں بہ حسرت ناشاد رفتہ باشد
کز
ہجر بر دل او بیداد رفتہ باشد
(ملاسابق)
ترجمہ:’’
اس کی روح حسرتوں سے دوچار رہی اور وہ ناشاد ہی چلاگیااس کے دل پر جدائی کا بوجھ
رہا اور پھر بھی وہ ظالم چلا گیا۔‘‘
ملا
عمر سابق نے کئی مثنویاں بھی لکھیں۔بنارس کے مشہور قصے ’قصۂ عاشق معشوق‘پر انھوں
نے ایک طویل مثنوی تحریر کی۔اس میں انھوں نے شہر بنارس کی تعریف اس طرح کی ہے ؎
چہ
شہر آنکہ از حسن سر انجام
زلطف
حق بنارس یافتہ نام
چہ
شہری انتخاب ہفت کشور
زروم
ومصروبردہ رونق و فر
(اوراقِ پریشاں:پروفیسر شمیم اختر،ص58)
ترجمہ:
’’ اپنے حسن وزیبائش کی وجہ سے بالآخر ایک شہر خدائے لطف سے بنارس نام سے موسوم
ہو گیا۔
کیا
ہی حسین شہر ہے کہ ہفت کشور سے انتخاب کیا گیا ہے اور اس کے جا ہ وجلال اور رونق
کو روم ومصر سے لیا گیا ہے۔‘‘
اسیرالحق
مخلص بنارسی کا تعلق بھی اسی زمانے سے تھا۔حالانکہ ان کے تخلص کے سلسلے میں اختلاف
رائے ہے۔بعضوں نے ان کا تخلص ’اسد‘تحریر کیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے
’مخلص‘تخلص اختیار کیااور اسی نام سے مشہور بھی ہوے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں
بارہا اپنا تخلص استعمال کیا ہے۔وہ صرف ایک بلند پایہ صوفی شاعر ہی نہیں تھے بلکہ
ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ عربی و فارسی زبان پر مہارت کے ساتھ مروجہ علوم سے بھی
انھیں خاصی دلچسپی تھی۔انھوں نے بھی حزیں کے رنگ بلکہ اسی بحر میں اشعار کہے ہیں۔
حزیں اور ملا سابق کے مذکورہ شعر کی طرح
پر مخلص کا درج ذیل شعر دیکھیے ؎
عمری
کہ بی گل و مل ناشاد رفتہ باشد
فصلِ
بہار رنگیں برباد رفتہ باشد
ترجمہ:’’ایک
عمر بغیر شراب وشباب کے ناشاد ہی چلی گئی اور فصل بہار کی رنگینیاں بھی بیکار چلی
گئیں۔‘‘
اس
کے علاوہ ان کا اپنا مخصوص رنگ تھا جن میں صوفیانہ افکارو خیالات واضح طورپر نظر
آتے ہیں۔مثلاً ؎
رندان
مئی پرست زکونین فارغ اند
کر
دند صرف بادہ کثیرو قلیل را
(ایضاً،ص64)
ترجمہ:
’’شراب کا رسیا قلیل و کثیر یعنی تمام شراب کو ختم کرکے اب دونوں جہاں سے فارغ ہو چلا ہے۔‘‘
اس
بات کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہندوستان کے مختلف خطوں کے شعرا و ادبا نے بنارس میں
سکونت اختیار کی جن میں سے بعض اہل علم تا عمراسی شہر کے ہوکر رہے۔لالہ متن لال
آفریں بھی انھیں میں سے ایک ہیں۔ان کا تعلق الٰہ آباد سے تھالیکن جوان بیٹے کی
موت کے بعد وہ بنارس آگئے اور یہیں مستقل طور پر رہنے لگے۔ فارسی زبان وادب سے
انھیں گہری رغبت تھی۔ انھوں نے بنارس کی تعریف میں تین ہزار اشعار پر مشتمل ایک
فارسی مثنوی بہ نا م ’کاشی استُتِ‘تحریر کی جو اس زمانے میں بے حد پسند کی گئی۔
نواب
علی ابراہیم خاں ’حاکم بنارس ‘نے جب یہاں مستقل سکونت اختیار کی تو یہاں کے ادبی
ذخیرے میں قابل قدر اضافے ہوئے۔ انھوں نے اپنے قیام کے دوران کئی اہم کتابیں تصنیف
کیں۔ان کی تصانیف میں تذکرہ شعرا، وقائع جنگ مرہٹہ، خلاصتہ الکلام اور گلزار ابراہیم
زیادہ مشہور ہوئیں۔دراصل خلاصتہ الکلام فارسی گو شعرا کا ایک تذکرہ ہے جس میں 188
مثنویات کا انتخاب بھی شامل ہے۔
فارسی
چونکہ مغلوں کی مادری زبان تھی اس لیے انھوں نے اس کی سر پرستی اور حفاظت کی پوری
کوشش کی اور مملکت کا نظم ونسق کچھ اس طرح قائم کیا کہ بلاامتیاز قوم وملت اور بلا
تفریق ذات وبرادری ہندوستانیوں نے فارسی زبان سیکھی۔کسی نے مصلحت کے تحت فارسی
زبان میں مہارت حاصل کی توکسی نے ذاتی ذوق وشوق کی بنیاد پر اس زبان میں کمال حاصل
کیا۔چونکہ مغلوں کے دور حکومت میں ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہی مکتب میں ایک ہی
استاد سے عربی،فارسی اور سنسکرت کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔اس لیے دونوںمذاہب کے
ماننے والوں میں خلوص و محبت اور اشتراک وتعاون کا جذبہ بھی پرورش پارہا تھالیکن
انگریزوں کو یہ تال میل اور باہمی اتفاق بری طرح کھٹکتا تھا۔اس لیے انھوں نے
ہندوستان میں کئی ایسے ادارے قائم کیے جہاں ہندوستانی زبانوں کی مشترکہ تعلیم دی
جاتی تھی۔اس سلسلے میں بنارس میں بھی ایک اسکول قائم ہوا۔ڈاکٹر ابو الحسن اختر
لکھتے ہیں:
’’بنارس اسکول 1818میں قائم ہوا تھا۔اس مدرسے کے
ابتدائی اخراجات کے لیے جے کشن گوپال نے 1814 میں20000 کی رقم عنایت کی تھی۔اس میں
انگریزی، فارسی اور بنگلہ زبان کی درس وتدریس کا معقول انتظام تھا۔‘‘
(فارسی ادب بعہد بہادر شاہ ظفر:ڈاکٹر ابو الحسن
اختر،ص88)
اٹھارہویں
صدی عیسوی کے آخری عشرے میں ملک کے سیاسی وسماجی حالات انتہائی فتنہ خیز تھے۔یہی
وہ زمانہ ہے جب مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ فارسی زبان و ادب بھی تنزلی کا شکار
ہو رہا تھا لیکن بنارس کے ذی علم طبقے میں فارسی ادب کا وقار باقی تھا۔انیسویں اور
بیسویں صدی میں بھی یہاں فارسی داں موجود تھے۔ انیسویں صدی کے نصف میں امیر بیگ
بنارسی نے ’حدائق الشعرا ‘کے نام سے ایک تاریخ رقم کی۔وہ خود بھی ایک اچھے شاعر
تھے اور انھیں نثر نگاری پر بھی عبور حاصل تھا۔ مرزا غالب نے کلکتہ جاتے ہوے جب
بنارس میں قیام کیا تو 108 اشعار پر مشتمل ایک مثنوی ’چراغِ دیر ‘تحریر کی۔اس مثنوی
میں غالب جیسے خود پسند شاعر نے بنارس کی تعریف دل کھول کر کی ہے۔مثنوی کے چند
اشعار ملاحظہ ہوں ؎
تعالی
اللہ بنارس چشم بد دور
بہشت
خرم و فردوس معمور
بنارس
را کسے گفتا کہ چین است
ہنوز
از گنگ چینش بزجبین است
بخوش
پُرکاریٔ طرز وجودش
زدہلی
می رسد ہر دم درودش
بنارس
را مگر دیدست در خواب
کہ
می گردد زنہرش در دہن آب
(آثار بنارس:مفتی عبدالسلام نعمانی،ص28)
ترجمہ:’’
سبحان اللہ بنارس کو بری نظر نہ لگے یہ ایسی جنت ہے جہاں خوشی کے شادیانے بجتے ہیں اور
یہ بھرا پُرا فردوس ہے۔
کسی
نے جب کہا کہ بنارس حسن و زیبائش میں چین کی طرح ہے [یہ بات بنارس کو بری لگی]اسی
وجہ سے آج تک بنارس کے ماتھے پر شکن پڑی ہوئی ہے۔
اس
کے وجود کا نازو انداز ایسا بھلا اور خوش گوار ہے کہ اس پر دہلی ہمیشہ درود بھیجتا
رہتا ہے۔
چونکہ
[دہلی]نے بنارس کو خواب میں دیکھ لیا ہے اس لیے اس کے منھ میں نہر کا پانی بھر آیا
ہے۔‘‘
بنارس
کے معروف شاعر ذاکر بنارسی کے چھوٹے بھائی’ مولوی پناہ علی‘عربی وفارسی کے جید
عالم تھے۔ان کے علم وفضل سے متاثر ہوکرمہاراجہ ایشوری پرساد نرائن سنگھ نے انھیں
اپنے بچوں کا استاد مقرر کر دیا تھا۔وہ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور خود پناہ علی
بھی اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کر تے تھے۔اس زمانے میں رجب علی بیگ سرور بھی
بنارس میں مقیم تھے۔وہ مہاراجہ بنارس کے خاص مہمان تھے۔سرور نے مہاراجہ کی فرمائش
پر’ محمد رضی تبریزی ‘کی فارسی تصنیف’حدائق العشاق‘کا ترجمہ’ گلزارسرور ‘کے نام سے
کیاجو ان کی اردو اور فارسی دانی کا بہترین نمونہ ہے۔’پنڈت دیا رام عاشق‘ عربی
وفارسی لسانیات کے ماہر تھے ان کا قریبی تعلق دلّی سے تھا لیکن وہ مستقل طور پر
بنارس میں ہی رہتے تھے۔فارسی زبان وادب میں ’لالہ بشیشر پرساد‘کا نام محتاج تعارف
نہیں۔وہ بیک وقت کئی صفات کے مالک تھے۔وہ ایک بلند پایہ مصنف اور مترجم ہونے کے
ساتھ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔ فارسی زبان وادب پر مہارت کے ساتھ رموز شعر گوئی سے
بھی انھیں گہری واقفیت تھی۔ان کی تمام تصنیفات وتالیفات کا علم تو نہ ہو سکاالبتہ
’تحفت الاحباب بنارس‘(یہ ان کی اہم تصنیف ہے)میں انھوں نے اپنے احوال درج کیے ہیں۔
راجہ
رام موہن رائے بھی عربی وفارسی کے عالم تھے۔پھر بھی انھوں نے سنسکرت اور فارسی کے
خلاف آواز بلند کرتے ہوے عوام کو انگریزی تعلیم کی طرف راغب کیا۔ ڈاکٹربھگوان داس
ہندی،سنسکرت اور بنگلہ کے ساتھ عربی و فارسی کے بھی عالم تھے۔حافظ رحمت اللہ رحمت
بنارسی اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے۔منشی آفاق بنارسی،فائز بنارسی،مسلم الحریری
اور مولانا کریم الدین احمد وغیرہ نے بھی فارسی زبان وادب کی خدمت کی۔ان کے علاوہ
بنارس ہندو یونیورسٹی کے اساتذہ میں مولوی سلیمان عباس،امرت لعل عشرت، حنیف نقوی
اور شمیم اختر کو بھی فارسی زبان وادب سے گہری وابستگی تھی۔موجودہ دور میں فارسی
زبان و ادب کی خدمت کرنے والوں میں یونیورسٹی کے اساتذہ خصو صاً پروفیسرسید حسن
عباس اور پروفیسر محمد عقیل کے نام قابل ذکر ہیں۔ا س سلسلے میں مزید تفصیلات سے گریز
کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہر بنارس میں فارسی زبان وادب کا ماضی جتنا
شاندار اور تابناک تھا اس کا حال اتنا ہی ابترہے۔فارسی جاننے والے آج بھی یہاں کثیر
تعداد میں موجود ہیں لیکن زبان پر مہارت اور ادب سے اصل واقفیت رکھنے والوں کی شدید
کمی ہے لہٰذا بنارس میںاس کے مستقبل سے متعلق کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
Dr. Tamanna Shaheen
Guest Faculty, Department
Of Urdu
DAVPG College,
Varanasi- 221001 (UP)
Mob: 9389201652.
Email:
tamannashaheen@yahoo.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں