28/3/22

بلراج مین را کے افسانوں کی فکری و فنی جہتیں - مضمون نگار : اقلیمیہ حبیب

 



بلراج مین را کا شمار اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی تخلیق کے توسط سے جدید افسانے کو نئی فکر اور انوکھے طرز اسلوب سے مالا مال کیا۔ افسانہ نگاری کے علاوہ ان کا بڑا کارنامہ رسالہ’شعور ‘ کی ادارت ہے، جس نے قلیل عرصے میں اپنی منفرد شناخت قائم کی تھی۔وہیں منٹو کی تمام تحریروں کو ’دستاویز ‘کے نام سے یکجا کرکے بحیثیت مرتب بھی مشہور ہوئے۔

بلراج مین را کا افسانوی مجموعہ’مقتل‘ محض 37 کہانیوں پر مشتمل ہے۔لیکن یہ کہانیاں وہ گوہر نایاب ہیں جن پر اردو ادب کو ہمیشہ فخر و ناز رہے گا۔دراصل انھوں نے اپنے افسانوں کے موضوعات کے لیے ان تجربات و احساسات کا انتخاب کیا جن سے واقعی ان کا گہرا رشتہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں شہری زندگی (بالخصوص دہلی)، وہاں کے رہن سہن، چوڑی اور چکنی سڑکیں، بڑی بڑی عمارتیں،ٹی ہاؤس، بس اسٹاپ،ہسپتا ل،ڈاکٹر،نرس اور بجلی کے کھمبوں کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔شمیم حنفی رقمطراز ہیں:

’’... مین را کا ادراک شہری ہے۔وہ ہمیں جس فرد کی آپ بیتی سناتاہے یا جس کی ذاتی ڈائری کے ورق ہمارے سامنے لاتاہے اس کے تمام ترتجربوں کا کلیدی حوالہ شہری تمدن ہے۔پورٹریٹ ان بلیک اینڈ بلڈ،ساحل کی ذلت، ریپ، بس اسٹاپ، واردات، وہ، شہر کی رات، غرض یہ کہ آپ ایک کے بعد ایک ورق الٹتے جائیے، اس تصویر کا کوئی نہ کوئی رخ سامنے آتا جائے گا۔‘‘   1

مین را کے افسانوں کے موضوعات شہر اور اسی شہر کے افراد ہیں۔لیکن وہ افراد کے خارج سے زیادہ ان کے باطن کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔خود کو پانے کی جستجو،جبر کے خلاف احتجاج،کم تری کا احساس اوران مانوس اجنبی کیفیات کا اظہار جوہمارے ہیں لیکن جن سے ہم واقف نہیںان جیسے مختلف احساسات وکیفیات مین را کے افسانے میں الگ الگ پیکر میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ کبھی علامتی پیکر میں توکبھی ٹوٹی پھوٹی منتشر شکل میں یاکبھی آدھی ادھوری کہانی بن کر۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بعض کہانیاں اتنی مبہم ہوجاتی ہیں کہ قاری کی گرفت میں بآ سانی نہیں آپاتیں۔

مین را کے بیشتر افسانے علامتی ہیں۔ وہ علامتی افسانہ لکھنے میں اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ کامیاب ہیں۔ اس ضمن میںکمپوزیشن سیریز، وہ، ایک مہمل کہانی، پورٹریٹ ان بلیک اینڈ بلڈ، ریپ، مقتل اور ساحل کی ذات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ وہ اپنے افسانوں کے لیے علامات کا انتخاب اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی ہی سے کرتے ہیں۔ ان کے علامتی افسانے تہہ در تہہ معنویت سے لبر یز ہو تے ہیں اورکئی ابعاد رکھتے ہیں۔ ان کے علامتی افسانوں سے متعلق عہد ساز نقاد گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:

’’مین را اپنی علامتوں کا انتخاب سامنے کی چیزوں سے کرتا ہے، اور پھر اپنے ذہنی تجسس کی سان پر چڑھا کر ان میں تہہ داری پیدا کرتا ہے۔ اس کے افسانے جدید انسان کے فکری سفر، اس کی ذہنی تنہائی اور اس کے تجارتی قدروں کے معاشرے سے کٹ کر علاحدہ رہ جانے اور استحصالی طاقتوں کے خلاف شدید احتجاج کی روداد پیش کرتے ہیں۔‘‘   2

بلراج مین راکاافسانہ ’وہ‘ شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ ایک ایساعلامتی افسانہ ہے جس کی پوری کہانی ماچس کی تلاش پر موقوف ہے۔اس افسانے میں ایک ایسے شخص کا قصہ ہے جس کی آنکھ رات میں بے وقت کھل جاتی ہے اور وہ سگریٹ جلانے کی غرض سے ماچس تلاش کرنا شروع کرتا ہے۔ لیکن اسے کہیں ماچس نہیںملتی۔ وہ پورے کمرے میں ماچس تلاش کر نے کے بعد دسمبر کی سرد رات میں باہر نکل جاتا ہے اور ماچس کی تلاش جاری رکھتا ہے لیکن ماچس نہیں ملتی۔ آوارگی کے الزام میں اسے پولیس اسٹیشن جانا پڑتا ہے۔ وہاں ماچس موجودہوتی ہے لیکن اسے لے نہیں پاتا۔پولیس اسٹیشن سے لوٹتے وقت اسے ایک ایساشخص ملتا ہے جو اسی کی طرح ماچس کی تلاش میں بھٹک رہا ہوتاہے۔اور وہ پوچھتا ہے:

’’آپ کے پاس ماچس ہے؟

ماچس؟

آپ کے پاس ماچس نہیں ہے؟

ماچس کے لیے تو میں.....

وہ اس کی بات سنے بنا ہی آگے بڑھ گیا۔

آگے،جدھر سے وہ خود آیا تھا۔

اس نے قدم بڑھایا۔

آگے،جدھر سے وہ آیاتھا۔‘‘ 3

دراصل انھوں نے ’ماچس‘کو بطور علامت استعمال کیا ہے۔’ماچس ‘وجود کو سمجھنے کی تڑپ، باطنی اضطراب یا زندگی کی معنویت کی تلاش کی علامت ہے۔اور افسانے کا ’وہ‘جدید دور کا ہروہ فرد ہے جو اس نا مسا عد حالات میں اپنے باطن سے یا اپنی زندگی کی معنویت سے غافل ہے، جو بس ایک مشینی زندگی گزار رہا ہے لیکن جب اس معنویت کا احساس دل میں ابھرتا ہے تو اسے پانے کی ایسی تڑپ پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان وقت، راستہ، مصیبت، تکلیف سب سے بے خبر ہوجاتا ہے اور کسی طرح بھی اسے پانے میں ہمہ تن مصروف ہوجاتا ہے۔افسانے کا یہ اقتباس دیکھیے:

’’آج یہ بے وقت نیند کیسے کھل گئی؟      

میں وقت سے بے خبر تھا،

ایک بار آنکھ کھل جائے،پھر آنکھ نہیں لگتی!

ماچس کہاں ملے گی؟‘‘  4

بعض اوقات غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کے باوجود معاشرے کے چاروں طرف پھیلی ہوئی بے حسی انسان کے حوصلے کو پست کردیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ’وہ‘ یہ جان کر بہت حیران ہو تا ہے کہ ماچس جیسی معمولی چیز کسی کے پاس بھی نہیں یا اگر ہے بھی تو اس کی معنویت سے بے خبر ہے۔ افسانے کے آخر میں دوسرے فرد کو بھی ماچس کی تلاش میں بھٹکتے دیکھ کر اسے اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ اس کی طرح کوئی اور بھی ہے جو اس کی تلاش میں سرگرداںہے۔

بلراج مین را احتجاج پسند افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانے ایک انقلاب پسند باغی کے افسانے ہیں۔انھوں نے صرف اپنی تخلیقات ہی نہیں بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیاہے۔ ابو الکلام قاسمی لکھتے ہیں:

’’ ان کی لغت میں سمجھوتہ کا لفظ نہیں ہے۔ صرف یہی سبب ہے کہ اپنے قاری کے محدود حلقے کا علم رکھتے ہوئے بھی اظہار اور ہیئت کی سطح پروہ کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ‘‘  5

مین را نے غیر معمولی تخلیقی صلاحیت رکھنے کے باوجود صرف 37؍ افسانے تخلیق کیے۔یہ بھی ایک طرح سے ان کا احتجاجی رویہ ہی ہے۔ جس میں ہمارے معاشرے کی مفادپرستی، منافقت، شہرت وزرکی ہوس، دوسروں پر فوقیت لے جانے کی حسرت، ادبی گروہ بندی، علم کا فقدان  اوربے عملی کا دخل ہے۔

مین را کا احتجاجی رویہ، ان کا غصّہ اورجھنجھلاہٹ ان کے کئی افسانوں میں نظر آتا ہے۔آخری کمپوزیشن، بیزاری، کوئی روشنی، کوئی روشنی،ہوس کی اولاد اس کی عمدہ مثال ہیں۔ قاضی جمال حسین مین را کی کہانی سے متعلق کہتے ہیں:

’’.....مین را کی کہانیوں میں جو زہرہ گداز حدت اور تیزابیت تھی اس کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ کہانیاں کم ہی لکھتے۔ ہڈیوں میں سرایت کرجانے والی یہ تیز ابیت بہت دیر تک باقی بھی نہیں رکھی جا سکتی۔یہی شدت اور ارتکا زمین را کا امتیاز ہے جو محدود سرمایے کے باوجود معاصرین میں ان کے قد کو بہت نمایاں کر دیتا ہے۔‘‘  6

افسانہ’آخری کمپوزیشن‘ میں ظلم و استبداد کے سامنے کبھی سرنہ خم کرنے والا باغیانہ رویہ نظر آتا ہے۔یہ کہانی تیسری دنیا کی انقلابی حرارتوں کا رزمیہ ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ لفظ کو پورے ایقان واعتماد کے ساتھ استعمال کرنے کا حوصلہ بھی۔ایک ادیب کے لیے لفظ ہی سب سے بڑی قوت اور ہتھیار ہے، جس کا تحفظ ان کا پہلا فریضہ ہے۔ جسے افسانہ نگار نے علامتی انداز میں بیان کیا ہے۔

مین را کا افسانہ’کوئی روشنی،کوئی روشنی‘ انفرادیت کا حامل ہے۔یہ افسانہ جدید دور کے انسان کا المیہ ہے۔ افسانے کا کردار ’گیان‘جدید دور کے مشینی وصنعتی جبر کا شکار ہے۔دہشت اورکر ب کی فضا میں سانس لیتا ہوا ایک ایسا شخص ہے جو اس جاںسوز عہد میں’خود‘ کو پانے کی جستجو میں سرگردا ںہے۔اور یہی اس کی تمام تر الجھنوں کا سبب ہے۔

گیان اسی جستجو میں اپنے شہر سے دور کسی گائوں میں گوشہ نشینی اختیار کرلیتا ہے اور آخر کار موت کے دامن میں ہمیشہ کے لیے پناہ گزیں ہو جاتا ہے۔ گیان کی طرح افسانہ ’بیزاری‘کا جیت اور موہن معاشرے کے ستائے ہوئے کردار ہیں دونوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ زمانہ ا نہیں حقیر نظروں سے دیکھ رہا ہے۔یہی احساس بیگانگی یا اس کے پس پردہ اپنی زندگی میں ناکامی کا احساس ا نہیں خودکشی کے لیے مجبور کرتا ہے۔ خودکشی، زندگی کے تئیں ایک منفی رویہ ہے۔لیکن اس کے پیچھے ان کا یہ رد عمل ان کی حساس طبیعت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ دنیا میں ذلت ورسوائی کی زندگی نہیں گزارنا چاہتے ہیں۔

مین را کے افسانوں میں ’سفر‘کی بڑی اہمیت ہے۔ انھوں نے اپنے بہت سارے افسانوں میں سفر کے وسیلے سے مختلف ومتنوع افکار وخیالات اورذہنی کیفیات کا اظہار کیا ہے۔ افسانہ ’بس اسٹاپ‘، ’واردات‘، ’شہر کی رات‘ اس کی عمدہ مثال ہیں۔

بس اسٹاپ‘ ایک شخص (میں) کا بس کے لیے انتظار اور اس دوران اس کے ذہن میں ابھرنے والے مختلف خیالات کے اظہار پر مبنی ہے۔ایک شخص جون کی تپتی دوپہر میں بھولے بھٹکے ایک ایسے بس اسٹاپ پر پہنچ جاتا ہے جہاں دور دور تک سناٹا چھایا ہوتاہے۔نہ کوئی دوسری سواری،نہ کوئی آدم زاد،نہ پینے کے لیے پانی،نہ سرچھپانے کے لیے کوئی سایہ۔ وہ تھا، سڑک تھی، دھوپ تھی اور بجلی کا کھمبا تھا۔وہ بس اسٹاپ پربس آنے کے ایک گھنٹہ پہلے ہی پہنچ گیا تھا۔اس بس کے لیے ایک گھنٹے کا انتظار اس کے لیے اتنا جان لیواہوتا ہے کہ اسے ہر ایک لمحہ کے گزرنے کا احساس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب وہ پل بھر میں بکھر جائے گا۔ ’’ہم نشچت سمے تک بس کا انتظار بھی نہیں کر سکتے... ہماری زندگی کس قدر ناپائیدار ہے۔‘‘وہ بس کے انتظار میںاتنے جان لیوا تجربہ سے پہلی بار گزر رہا تھا۔اس انتظار کے دوران اس کا ذہن ماضی کی ان یادوں کی طرف مراجعت کرتا ہے جب وہ جوان تھا۔

مین را نے اس افسانے میں کردارکے شعور اور لاشعور کی کیفیا ت کو بڑے سلجھے ہوئے انداز میں پیش کیا ہے۔ بس اور بس اسٹاپ کو علامت بناکر زندگی کے ایک اہم پہلو سے روشناس کرایا ہے۔ یہ بس اسٹاپ وہ دنیا یا پناہ گاہ ہے جہاں ہم سب رہتے ہیں اور’بس‘ زندگی کی خواہش ہے۔یہ دنیا بھی کبھی ایک جیسی نہیں رہتی ہے۔ ہم بدلتے وقت اورحالات میں زندگی گزار نے کے لیے مجبور ہیں۔ کبھی کبھی ہماری زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہماری کوئی خواہش زبان تک آتی بھی نہیں اور پوری ہوجاتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے زندگی کی آخری سانس بھی کم پڑجاتی ہے۔اس طرح مین را نے اس افسانے میںزندگی اور بدلتے زمانے کے حقائق کو بڑی کامیابی کے ساتھ علامتی انداز میں پیش کیا ہے۔

 زندگی اور کائنات دو ایسی کتابیں ہیں جن سے ہم ہر لمحہ کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔صرف دیکھنے اورمحسوس کرنے کی وہ قوت ہونی چاہیے جن کے ذریعے ہم سبق حاصل کر سکتے ہیں۔یہ قوت کم وبیش ہر انسان میں ہوتی ہے لیکن ہرکسی کو اس قوت کا اندازہ نہیں ہوتا۔کسی کے لیے زندگی کا ہر قدم ایک نیا افسانہ بن جاتا ہے اور کسی کے سامنے پوری زندگی محض ایک کورا کاغذ۔مین را وہ فن کار ہیں جو اپنے مشاہدات وتجربات سے زندگی کی چھوٹی سی چھوٹی حقیقت کو افسانے کے پیکرمیں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ افسانہ ’واردات‘ اور ’شہر کی رات‘ ایسی ہی کہانیاں ہیں۔ جن کے ذریعے شہر کی زندگی اور یہاں کے افراد کا مزاج اور ماحول پتہ چلتا ہے۔ ’شہر کی رات‘ جیسا کہ عنوان سے ہی پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ایک شخص کے ذریعے شہر کی رات اور اس کی خاموشی کی عکاسی کی ہے۔افسانہ ’واردات‘ ایک عورت کے اس نئے اور انجانے تجربے کا بیان ہے جو اسے دورانِ سفر حاصل ہوتاہے۔ اس کے بغل میںایک انجان آدمی غنودگی کے عالم میں بیٹھا ہوتا ہے اور اس کا سر اس عورت کے کاندھے سے مس ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح اس کے سرسے مس ہوجانا اس عورت کو عجیب کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔اس کہانی کا انجام عورت کے اس جملے سے ہوتا ہے ’’میرے کندھے پر اس کی نیند کا بوجھ میرا پہلا سکھ تھا۔‘‘

مین را کے افسانے میں سفر کی طرح ’جنس‘کی بھی بڑی اہمیت ہے۔انھوں نے جنسی مسائل کو کئی افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔و ہ جنسی مسائل کا اظہاربڑی بے باکی، شدومد اور جزئیات کے ساتھ کرتے ہیں۔ ’بھاگوتی‘ مین را کا پہلا افسانہ ہے۔جو بیانیہ تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ بنیادی طورپر اس کاموضوع جنس نہیں ہے۔ لیکن اس کا جنس سے تعلق ضرور ہے۔یہ ایک ایسی درد مند اورحساس عورت (بھاگوتی)کی کہانی ہے جو اسقاط حمل کا طریقہ بخوبی جانتی ہے اور یہی اس کا ذریعہ معاش ہے۔یہ ایک ایسا کا م ہے جس کو ہمار ا سماج پسند نہیں کرتا اور حقارت کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی یہی کام سماج میں رہنے والے انسان کوذات سے بچاتا ہے۔ بھاگوتی کو اپنے کام سے کسی طرح کی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا۔ لیکن کبھی کبھی اس کام سے اس کادل افسردہ ہوجاتا ہے۔ ایک دن جب خود اس کی بیٹی، جسے بھاگوتی نے یہ گر سکھا یا تھا اور جو مستقبل میں اس کے سکھ اور آرام کی ایک کرن تھی،اس گناہ کی زد میں آجاتی ہے اور وہ بھی یہی راہ اپنانے جاتی ہے لیکن بھاگوتی اسے یہ گناہ کرنے سے روک لیتی ہے۔

مین را کا ایک منفرد افسانہ ’ہوس کی اولاد ‘ہے۔ اس افسانے میں تین کردار راہی، کرشن اور ہربنس ہیں۔ مرکزی کردار راہی ہے اور اسی کے خیالات پر اس افسانے کا وجود قائم ہے۔راہی دوسروں سے الگ ایک باغی ذہن کا مالک ہے۔ جس کے اندر تصنع اور مکروفریب نہیں ہے۔ ہر آدمی کی طرح صرف باتیں نہیں بناتا بلکہ جو باتیں کرتا ہے اس پر عمل بھی کرتا ہے اور اپنے خیالات پر استوار کی گئی دنیا میں رہتا ہے۔راہی کی نظر میں ہمارا معاشرہ ایک بیمار معاشرہ ہے۔ جہاں ہر طرف مکروفریب اورخود غرضی کابازار گرم ہے۔وہ ایسے انسان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو جنسی آسود گی کے لیے شادی کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور باپ بنتے ہیں۔اس کی نظر میں افزائش نسل ایک مقدس جذبہ ہے۔ مثلاً یہ اقتباس دیکھیے:

’’مجھ میں ہو س ہے۔اس ہوس کو مٹانے کے لیے میں شادی کا ڈھونگ رچاتا ہوں کیونکہ ہوس کی پیاس بجھانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں، اور اگر ہے بھی تو مجھ میں ہمت نہیں  اور پھر میں باپ بن جاتا ہوں۔کر رہا تھا میں اپنی ہوس کا مداوا مگر بن گیا باپ۔اب وہ بچہ میری اولاد ہے۔ نہیں صاحب، میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا ..... اولاد،یعنی افزائش ِ نسل بڑا مقدس جذبہ ہے جسے ہوس سے کوئی علاقہ نہیں۔‘‘7

افسانے کا مرکزی کرداررا ہی زندگی کی خوشی ڈولی اور پریماسے حاصل کرلیتا ہے لیکن شادی تب ہی کرتا ہے جب افزائش نسل کا مقدس جذبہ اس کے دل ودماغ میں ابھرتا ہے۔مین را نے اپنے اس افسانے میں افزائش نسل اور مباشرت کے مابین فرق کو خوبصورتی کے ساتھ واضح کیا ہے۔اس طرح ’حسن کی حیات‘، ’غم کا موسم‘، ’جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے‘ جنس سے متعلق افسانے ہیں لیکن معنوی سطح پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ بلراج مین راکبھی کبھی جنس کے اظہار میں جزئیات سے اتنا کام لیتے ہیں کہ اسے خامی تصور  کیاجا سکتا ہے۔ جس کی مثال ان کا افسانہ ’’جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے‘‘ ہے۔لیکن اس خامی سے انہیں شایداس لیے منسوب نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ’ان کی لغت میں سمجھوتہ کا لفظ نہیں ہے‘۔

 مین را کے افسانے صرف موضوعات ہی نہیں بلکہ اسلوب اور زبان وبیان کے اعتبار سے بھی منفرد ہیں۔ ان کے اسلوب کی سب سے بڑی خوبی الفاظ پر مکمل گرفت اور جملوں کااختصار ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وہ ماہر نباض کی طرح لفظوں کے ہر نبض سے واقف ہیں اور صرف واقف ہی نہیں بلکہ اس کو برتنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ ایسے بہت سارے خیالات،احساسات اورکیفیات ہوتے ہیں جسے ہم محسوس تو کر سکتے ہیںمگر لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے،بالخصوص باطنی کیفیات۔مین را کے افسانے خارجی سے زیادہ باطنی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ان باطنی دنیا کے اظہار کے لیے انہیں لفظوں کی دنیا کی خاک چھاننا نہیں پڑتا بلکہ ان کی کہانی کا Themeاپنا مناسب اور موزوںاسلوب کے ساتھ سامنے آتا ہے۔مثال کے طور پر افسانہ ’کمپوزیشن سریز‘ کا جو موضوع ہے اسے کسی دوسرے اسلوب میں نہیں لکھا جا سکتا۔ اگر اسے دوسرے اسلوب میں لکھاجائے تو وہ کہانی کہانی ہی نہیںرہے گی۔یا ’بھاگوتی‘ کی کہانی ’کمپوزیشن سریز‘ کے اسلوب میں نہیں لکھا جا سکتا۔ان کا اسلوب موضوع کا تقاضا ہے۔وہ کسی موضوع پر کسی اسلوب کو زبردستی ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔

مین را کے زیادہ تر افسانے تین یا چار صفحات پر مشتمل ہوتے ہیںلیکن ان کے مختصر سے مختصر افسانے میں بھی اتنی تہہ داری اور گہری معنویت ہوتی ہے کہ جس کو کوئی دوسرا افسانہ نگار سو صفحات میں بھی بیان کرنے سے قاصر ہوگا۔ اس کی اصل وجہ ان کا شعری اسلوب ہے۔ ان کے جملے مصرعوں کی طرح ہوتے ہیں۔ان کے منتشر اوربے ربط جملے اپنے اندر ایک جہان معنی لیے ہوتے ہیں۔ مہدی جعفر ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’زبان کے لحاظ سے بلراج مین را بڑی احتیاط برتتے ہیں۔ زبان جامع ہوتی ہے اور اس میں ٹھہراؤ ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے تسلسل سے ملتے ہیں اور کہیں کہیں اتنے لمبے کہ پورے پیراگراف میں ایک جملہ نظر آتا ہے۔ الفاظ کی تکرار اور جملوں یا عبارت کا بار بار دہرانا فنی طور پر ان کے افسانوں کی تشکیل میں معاون ہیں۔ ‘‘   8

گویا  لفظوں کی تکرار سے وہ اپنے افسانے میں شعری حسن وتاثر پیدا کرتے ہیں۔ان کے جملوں کے درمیان وقفے میں خاموش گفتگو کا حسن ہوتا ہے جو کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔اس ضمن میں کمپوزیشن ایک، کمپوزیشن پانچ، آخری کمپوزیشن، وہ، میرانام میں ہے اورساحل کی ذلت وغیرہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔

مین را کے افسانے میں پلاٹ یا واقعے کی وہ تر تیب نہیں ملتی جو روایتی افسانوں کا خاصہ ہے۔ ان کے افسانے بے ربط اورمنتشر ہوتے ہیں۔ لیکن احساس وکیفیات کی سطح پر باہم مربوط ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ تضاد کے ذریعے افسانے کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ وہ روشنی اور تاریکی دونوں سے کام لیتے ہیں۔ محسوسات کے باریک سے باریک تضاد پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔

مین را حقیقت پسند افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ ان ہی تجربوں اور افکار کو اپنے افسانے کا حصہ بنایا ہے جسے بہت قریب سے دیکھا اور اپنے اندر محسوس کیا ہے۔ اس لیے ان کے افسا نے کے کردار،موضوع اور مقام حقیقی وارضی ہیں۔ان کے افسانوں کے بیشتر کردار بے نام ہوتے ہیں۔اس نئی دنیا اورنئے تمدن میں اضطراب، تنہائی، اضمحلال،روحانی وجذباتی خلا جن کا مقدر ہے۔ وہ ایک انجانی شے کوپانے کی جستجو میں سرگرداں ہیں۔جس کی تلاش میں وہ گلی گلی اور شہر شہر بھٹک رہے ہیں۔ان کے باطن کی دنیا میں اورروح میں کہرام برپا ہے۔اسی دنیا اور کہرام سے آگہی مین را کا مقصد ہے اور جس پر ان کے فن کی بنیاد ہے۔

مین را کے افسانوں کے کردا ربھلے ہی بے نام ہیں اور افسانے ’میں‘ اور ’وہ‘کے صیغے میں آتے ہیں۔لیکن یہ بے نام کردار ہمارے اسی معاشرے کا ایک معمولی آدمی ہے، جو جدید دور کے فر د کی نمائندگی کرتا ہے۔مین رانے اپنے افسانوں کے ذریعے انسانی وجود سے وابستہ نہایت لطیف اور پیچیدہ حقیقتوںکا انکشاف کیا ہے۔ ان کے کردارزندگی کی رنگینیوں میں ڈوبے نظر نہیں آتے بلکہ زندگی کی بدصورت اور تلخ حقیقت کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ کردار زندگی کے تئیں ہماری بصیرت میں اضافہ کرتے ہیں۔

بلرا ج مین را کے افسانے فکر وفن کے اعتبار سے انفرادیت کے حامل ہیں۔انھوں نے اپنے افسانے کے ذریعے قارئین کوان گم گشتہ حقائق سے روشناس کرایا ہے جہاںدوسروں کی نگاہ بھی نہیں پڑتی۔گرچہ ان کی تخلیقات اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں کم ہیں لیکن انھوں نے اپنے مخصوص علامتی،استعاراتی اور امیجری انداز میں افسانے لکھ کر جدید اردو افسانے کے دامن کو مالا مال کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مختلف تکنیک اور مخصوص اسلوب اور زبان وبیان کے ذریعے عصر حاضر کے مختلف موضوعات ومسائل کو افسانوی پیکر میں ڈھالا ہے۔

حواشی

1      چھلاوا،شمیم حنفی، بحوالہ سرخ وسیاہ، بلراج مین را، ترتیب وتعارف، سرور الہدیٰ، ص509

2      گوپی چند نارنگ، اردو افسانہ روایت اور مسائل، ص508

3      وہ‘ بلراج مین را،مقتل، ص52

4      وہ‘ بلراج مین را، مقتل،ص46

5      ابوالکلام قاسمی، منٹو کے بعد اردو افسانوں کی صورت حال، تحریک (سلور جبلی)،ص137

6      مین را کی کہانی، امکانات کا نیا افق، بحوالہ سرخ وسیاہ، ترتیب وتعارف سرور الہدیٰ، ص537

7      ہوس کی اولاد، بلراج مین را، مقتل، ص210

8      مہدی جعفر، نئی افسانوی تقلیب، ص133






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں