25/3/22

قیصر شمیم :شخص اور شاعر - مضمون نگار: صوفیہ محمود

 



          سر زمین بنگال میں ضلع ہگلی کے انگس نامی محلے کے ایک غریب گھرانے میں تاریخ 2؍اپریل 1936 ، ایک تابندہ ستارہ طلوع ہوا جسے اردو دنیا قیصر شمیم کے نام سے جانتی ہے جبکہ ان کا اصل نام عبدالقیوم خاں تھا ۔ انھوں نے عمید انگسی کے نام سے اپنا ادبی سفر شروع کیا تھا۔موصوف پانچ کتابوں کے خالق ہیں۔انھوں نے کم و بیش تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی جن میں غزل،نظم،گیت،دوہا،رباعیات،قطعات،حمد، نعت،تضمین وغیرہ شامل ہیں وہیں دوسری طرف تنقیدی مضامین اور تراجم وغیرہ کو بھی انھوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا جو ان کی اردو کے ساتھ ہی ساتھ دوسری زبانوں مثلاًبنگلہ،ہندی اور انگریزی پر مکمل دسترس کا ثبوت ہے۔

          مو صوف کے والد مرحوم جناب عبدالرحیم خاں ایک کارخانے میں ملازم تھے ۔قلیل آمدنی کے سبب قیصر شمیم کو کم عمری سے ہی چھوٹی   موٹی ملازمت سے جڑنا پڑا۔انھوں نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز انگلش بوائز پرائمری اسکول سے کیا  اوراپنی ابتدائی تعلیم چاپدانی میونسپل پرائمری اسکول سے مکمل کی۔1946 کے فرقہ وارانہ فسادات کے زمانے میں آپ پریسی ڈنسی مسلم ہائی اسکول میں درجہ ششم کے طالب علم تھے ۔ناسا ز گار حالات کے سبب کچھ دنوں کے لیے تعلیم ترک کرنا پڑی پھر شیام نگر 24پرگنہ کے گرولیہ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ ابھی درجہ نہم  ہی میں تھے کہ گھر کی مالی مشکلات کے سبب اسکول چھوڑنا پڑااوربہ حالت مجبوری میں کلکتہ کے ایک چھوٹے سے مدرسے میںدرس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔ ملازمت سے جڑنے کے باوجود تعلیم سے قلبی لگاؤ ہمیشہ رہا چنانچہ 1952 میں ہگلی ہائی مدرسہ میں داخلہ لیا اور یہیں سے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈیویژن سے1953 میں پاس ہی نہیں کیابلکہ مغربی بنگال ہائی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کرکے ایک ریکارڈ بھی بنا لیا۔پھر مولانا آزاد کالج سے آئی ۔ا ے فرسٹ ڈیویژ ن 1955 میں پاس کیا اور کلکتہ یونیورسٹی سے 1963 میں بی۔اے اور 1965 میں ایم۔اے (فرسٹ کلاس )کیا۔

          بقول قیصر شمیم:

’’مجھے یاد ہے کہ جوٹ مل کے جس علاقے میں میں پیدا ہوا تھا وہاں جی ٹی روڈ کے ایک طرف مزدوروں کی بستی تھی جس میں مرغیوں کے ڈربوں جیسے چھوٹے چھوٹے گھر تھے ان میں اکثریت بانس اور مٹی سے بنے ہوئے ایسے گھروں کی تھی جو بیشتر اوقات بوسیدہ رہا کرتے تھے۔میاں بیوی،بیٹے بیٹیاں، پورا خاندان ایک ہی گھر میں ٹھسا پڑا رہتا تھااورگھٹ گھٹ کر اسی طرح زندگی گزارتا تھا۔‘‘

(پہاڑ کانٹتے ہوئے،قیصر شمیم،ص۔14)

          قیصر شمیم ہوڑہ مسلم ہائی اسکول میں 1957 سے 1968 تک بحیثیت استاد اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کے بعد 16؍اپریل 1968 سے سی۔ایم۔او۔ ہائی اسکول کلکتہ میں درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔عارضی طور پر خضر پور کالج (ایوننگ)میں بحیثیت لیکچرار بھی رہے ، مو صوف مولانا آزاد کالج اور کلکتہ یونیورسٹی کی طرح عالیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بھی جزوقتی لیکچرر رہ چکے تھے۔

          ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1950 میں افسانہ نگاری سے ہوا لیکن انھیں شہرت بحیثیت شاعر نصیب ہوئی ۔نظم و غزل دونوں اصناف پر انھیں عبور حاصل تھا ۔ان کا رجحان ہمیشہ ترقی پسندانہ رہا ۔مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد ان پر ’جدیدیت ‘ کارنگ بھی غالب آگیا تھا۔قیصر شمیم صاحب کو بچپن ہی سے شعر و شاعری کا شوق تھا۔شروع شروع میں انگس کی نسبت سے عمید انگسی کے قلمی نام سے لکھتے تھے لیکن 1957 کے بعد مظہر امام کے مشورے سے قیصر شمیم کے قلمی نام سے لکھنے لگے اور قیصر تخلص کیا۔

وہی  پیاس  کا  منظر  وہی  لہو  قیصر

ہنوزپھرتی ہے کوفے کی نہر آنکھوں میں

          ان کی ابتدائی زندگی مشترکہ تہذیب و کلچرمیں گزری جن کا ان کی شخصیت پر بھر پور اثر ہے۔ان کی شہرت ہندو پاک کے ساتھ ہی بنگلہ دیش تک پھیلی ہوئی ہے۔موصوف غزل،نظم،اور گیت پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔شاعری میں انھوں نے پہلے علامہ مہدی لکھنوی کے شاگرد مولوی شمس الہدیٰ مظفر پوری سے اصلاح لی پھر پروفیسر عباس علی بیخود سے مشورہ سخن کرنے لگے ۔بعد از یونیورسٹی کے زمانے میں چند غزلوں پر پروفیسر پرویز شاہدی سے بھی مشورہ سخن لیا۔

          موصوف کو اردو،ہندی،انگلش اور بنگلہ زبان میں دسترس حاصل تھی۔اس لیے ان کی نظموں میں گہرائی وگیرائی ملتی ہے۔نظموں کے عنوان سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ پیچیدہ موضوع سے لبریز ہیں۔ان کی نظمیں نہ ترقی پسندی سے انحراف کرتی ہیں اور نہ ہی جدیدیت سے، بلکہ دونوں کا ملا جلا امتزاج ان کی نظموں میں دیکھا جاتا ہے۔جیسے سجدہ،پہاڑ کٹنے تک،نئے کوہ کاف کی کھوج،زیر دیوار،مجھے چھوڑو،دردآنسو مسکان،مجھے دکھ ہے،بنتی کے دو بول،عید مناؤ،نیا سال،ایک سوال،سر راہے،یہ وہ سر زمیں ہے، اپمان،آدمی اور آئینہ،وہ شام،کیا تم پرچھائیںتھے،یہ سپنا کب پورا ہوگا، میرا ساتھ کہاں تک دو گے، مگر قدرشناسی،قلم کا سپاہی ،ہمارے اپنے لہو کا حصہ،خود کشی کرنے والے کے نام،نیلسن منڈیلا کے نام، ایک صبح، ملن، خلیج، آج کا انسان،آئینہ آب،تاش کے پتے،گمشدگی بے وجودی،انتظار،ایک دن اور ملا،امل کانتی وغیرہ اہم ہیں۔قیصر شمیم کی شاعری کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ پانچویں جماعت کے طالب علم تھے،کیسے ہوا؟اس کی تفصیل انھیں کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:

’’مجھے یاد ہے کہ 1946 میں جس دن سالانہ امتحان کے نتائج سنائے  جانے والے تھے۔میں پانچویں جماعت کی حیثیت سے کلاس روم میں اپنے ہم سبق لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر ہیڈ ماسٹر صاحب کے آنے اور ان سے اپنا نتیجہ سننے کا انتظار کر رہا تھاجیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھامیری گھبراہٹ اور پریشانی بڑھتی جاتی تھی۔خوف تھا کہ ناکام ہونے پر گھر میں بہت سخت سزا ملے گی ۔اسی عالم میں خاموشی کے ساتھ اللہ سے دعا کرنے لگا،یا اللہ مجھ پر رحم کراس بار کسی طرح کامیاب کردے یا اللہ،کامیاب ہوجاؤںگا تو روزانہ قرآن کی تلاوت کروں گا،پنج گانہ نمازیں پڑھوں گا،رمضان میں روزے بھی رکھوں گا ،یا اللہ اب جی لگاکرپڑھوں گا، پڑھنے سے جی نہیں چراؤں گا،صرف اس بار مجھے کامیاب کر دے اللہ۔میں اسی طرح دعا مانگنے میں کھویا ہوا تھا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کمرے میں آگئے چاروں طرف سناٹا چھا گیا اور نتائج سنائے جانے لگے ،تھوڑی ہی دیر میں جب ہیڈ ماسٹر صاحب کی زبان سے میرے رول نمبر کے ساتھ پاس لفظ ادا ہوا تو بے حد خوشی ہوئی کہ اللہ نے میری سن لی لیکن اس کے بعد حیرت کے ساتھ خوشی کی ایک دوسری لہر میرے دل میں پیدا ہوئی ،میں نے دیکھا کہ ڈسک پر میری کاپی کھلی پڑی تھی،جس پر پنسل سے ایک نظم کی صورت میں وہی تمام باتیں درج تھیں جو میں دل ہی دل میں اللہ سے دعا کرتے ہوئے کہہ چکا تھا ۔ اسے دیکھ کر مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں شاعری کر سکتا ہوں ۔کاش وہ نظم میرے پاس محفوظ ہوتی تواسے اشاعت کے لیے کہیں نہ کہیں ضرور دیتاکہ وہ نظم جیسی بھی تھی میری نظم نگاری کا نقطہ آغاز تھی۔‘‘

          (پہاڑ کاٹتے ہوئے،قیصر شمیم،ص۔13۔14)

          قیصر شمیم کی پوری عمر مغربی بنگال کی سرزمین پر اردو ادب بالخصوص شاعری کی ریاضت میں گزری ہے۔ان کی تحریر کردہ کتابوں میں ساعتوں کا سمندر(1971)،تری دھارا(1994)،سانس کی دھار (1997)، پہاڑ کاٹتے ہوئے(1998) اور زمین چیختی ہے(2021) اہمیت کی حامل ہیں۔یہ صرف قیصر شمیم کے شعری مجموعے ہی نہیں بلکہ ایک شاعر کی زندگی کی رودادہیں۔ان کا شمار دور جدید کے ان شعرا میں ہوتا ہے جو قاری کو فکر و عمل کی دعوت دیتے ہیں۔ان کی شاعری نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے جو گہرائی و گیرائی سے مزین ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں ذات کے علاوہ سماج و معاشرہ  اورکائنات کے اسرار و رموز سے بھی اپنا رشتہ استوار کیا ہے موصوف اپنی شاعری کے متعلق کچھ اس طرح کا خیال رکھتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:

’’میری شاعری نہ آباؤاجد اد کا ورثہ ہے نہ استاد کا عطیہ ،شاعری میراپیشہ بھی نہیں ہے اورسنڈے پینٹرزکی اتوار کا مشغلہ بھی نہیں میرے نزدیک شاعری’ساعتوں کے سمندر ‘میں ڈوبتے ابھرتے ہوئے ہاتھ پاؤں مارتے رہنے کے عمل سے ملتا جلتا ایک عمل ہے لیکن سخت تراور لطیف۔‘‘

(ساعتوں کا سمندر،قیصرشمیم،ص۔6)

          قیصر شمیم کا پہلا شعری مجموعہ’ــ ساعتوں کا سمندرـــ ‘1971 میں اردو اور دیوناگری رسم الخط میں شائع ہوا تھا۔اس میں غزلوں کے ساتھ سولہ نظمیں بھی ہیں۔’ــ ساعتوں کا سمندر‘ میں نظموں کی ایک مخصوص فضاہے۔مصنف نے ان نظموں میں ایمائیت کے پہلو بہ پہلو اپنی آواز کی صداقت کو  بلند آہنگ عطا کیا ہے۔

          قیصر شمیم کا دوسرا شعری مجمو عہ ’تری دھارا ‘ہے جو دیوناگری رسم الخط میں (1994 ) ڈاکٹر ہزی کنور کی وساطت سے منظر عام پر آیا اس میں 45 نظموں کے علاوہ گیت اور غزلیں بھی شامل ہیں۔ان نظموں اور گیتوں کا معیار اعلی ہے،یہ گیت نہ صرف موسیقی ریز اور فکر آسا ہیں بلکہ شاعری کی دردمندی ہر لفظ میں نگینے کی طرح جڑی ہوئی ہے۔گیت کے یہ ٹکڑے دیکھیں:

کیسے عید مناؤں ساجن

کیسے عید مناؤں

ساتھ تمھارا چھوٹ گیا ہے

بن کے قسمت بگڑگئی ہے

میری دنیا اجڑ گئی ہے

اب روؤں یا گاؤںساجن

کیسے عید مناؤں

          (پہاڑ کاٹتے ہو یٗ ،قیصرشمیم،ص۔155)

          سانس کی دھار‘قیصر شمیم کا تیسرا شعری مجمو عہ ہے جو 1997 میں     منظر عام پر آیا ،یہ مجمو عہ اردو رسم الخط میں ہے۔’سانس کی دھار‘ موصوف کا ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف شاعری کے تمام فن و علوم سے واقفیت رکھتے ہیں۔ایک اہم اور بڑے شاعر کے تمام امکانات ان کے یہاں موجود ہیں۔’سانس کی دھار‘ میں ایک سو غزلیں ہیں جن کا انتخاب 1951 سے 1996 تک کے کلام سے دستیاب کیا گیا ہے،یعنی مصنف نے اپنے تخلیقی سفر کی مختلف روداد کو غزل کے پیرایے میں سمودیا ہے۔اس میں ان کے تجربات ،حیات و کائنات کے معاملات اور ان کے قلبی واردات کی داستان ان کی غزل کی مبادیات ہیں۔ان کی شاعری میں نبض زیست کی دھڑکنیں ہیں،جذبات میں خلوص اور بیان میں سنجیدگی ہے ان کی شاعری ان کی شخصیت کی غماز ہے۔

          قیصر شمیم ادب کے اس روشن و تابندہ ستارے کا نام ہے جو آسمان ادب میں کسی تعارف کا محتا ج نہیں ہے۔ان کا شمار بین الاقوامی سطح پر ہوتا ہے۔ملک کے بیشتر رسائل و جرائد کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی ان کا کلام شائع ہوتا رہا ہے ۔2006 انجمن اردو فروغ برطانیہ لندن میں موصوف کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ڈاکٹرشارب ردولوی کی کتاب ’گل صد رنگ‘  میںملک کے پانچ سو شعرائ کی غزلوں میں موصوف کی بھی دو غزلیں شامل ہیں۔ایودھیا گوئل کی کتاب’نئے موڑ‘ میں بھی موصوف کی دو غزلیں شامل ہیں۔اس کے علاوہ ماہنامہ ’تحریک ‘ سے شائع شدہ شاعری کا انتخاب ’شہزادہ‘ میں بھی ان کا کلام شامل ہے۔جمشید پور سے شائع ہونے والے ’انتھالوجی گلوب‘ میں مع تعارف ان کی غزلیں شامل ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر مظفر حنفی مرحوم کی غزلوں کا انتخاب ’روح غزل ‘ میں بھی قیصر شمیم کی غزلیں شامل ہیں۔

          قیصر شمیم متعدد اعزازات و انعام سے بھی نوازے جا چکے ہیں: جن میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی کا مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ایوارڈ (1996)، بنگلہ رسالہ’ابھینواگرنی،سنیہہ لتا چودھری میڈل(1997)، ’سانس کی دھار‘پر مغربی بنگال اردو اکیڈمی کاانعام(1997)،’پہاڑ کاٹتے ہوئے‘پرمغربی بنگال اردو اکیڈمی کا انعام(1998)،بھارتیہ بھاشا پریشد کلکتہ کا سلور جبلی اعزاز(1999)وغیرہ اہم ہے۔      

 ہوں آپ زمانے میں سرفراز زیادہ

اللہ کرے اور بھی اعزاز زیادہ

          قیصر شمیم کاا فسانوی سفر1951 سے 1960 پر محیط ہے ۔ابتدائی دنوں میں انھوں نے رومانی افسانے لکھے لیکن بعد کے افسانے معاشرتی اور نفسیاتی نوعیت سے لبریز تھے ۔ان کا پہلا افسانہ’وہ لڑکی‘ کے عنوان سے1951 میںدہلی کے ہفتہ وار ’پارس‘ میں شائع ہوا تھا۔ماہنامہ’ صبح نو‘ میں بھی ان کے افسانے’ٹوٹ گئی پتوار‘اور ’دھندلے آئینے‘ شائع ہوئے تھے۔ان کا افسانہ ’’بر‘‘اتنا مشہور ہوا کہ ماہنامہ’پگڈنڈی‘ امرتسر،صبح نو کے علاوہ دوماہی ’چراغ راہ‘ میں بھی شائع ہوا ۔

          قیصر شمیم بحیثیت مترجم بھی اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔انھوں نے بنگلہ ،ہندی،اور انگریزی زبان سے ادب کے قیمتی اثاثوں کو اتنی آسان اور سہل زبان میں اردو میں منتقل کیا ہے کہ ترجمہ کے بجائے ان کی تصانیف معلوم ہوتے ہیں۔ان کے ترجمہ شدہ مضامین روزنامہ ’آبشار‘، ماہنامہ ’نکہت(الہ آباد)،آج کل( دہلی)،پگڈ نڈی (امرتسر)، اجالا (کلکتہ)، اور انگریزی ہفت روزہ  (Struggle)وغیرہ میں تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔بحیثیت مترجم انھوںنے ’’آزاد ہند‘‘،’اقدار‘،اور ’’ہوڑہ ٹائمز‘‘وغیرہ اخبارات میں بھی اپنے صحافتی فرائض انجام دیئے تھے۔قیصر شمیم صاحب کی شاعری ان کی روح کے کرب و تذبذب کی ترجمانی کرتی ہے جس کا بخوبی اندازہ ان کے درج ذیل شعر سے کیا جاسکتا ہے ملاحظہ فرمائیں:

مرے قلم سے ٹپکتا ہے میرے دل کا لہو

مری نگاہ  میں ہیں ماہ و سال کے پیکر

          جناب قیصر شمیم ایک خوش مزاج ،ملنسار انسان دوست اور باوقار شخصیت کے مالک تھے ۔اس ناچیز کو ادبی محفلوں میں ان سے ملنے کا موقع میسر ہوا ،موصوف ہمیشہ نیک مشوروں سے نوازتے تھے۔ان کے گزر جانے سے سر زمیں بنگالہ کی ادبی محفلوں میں اداسی طاری ہوگئی ہے۔ادب سے ان کی بے لوث محبت ،ان کی ادبی کاوشیں ہمیشہ ہم سب کے دلوں میں زندہ و پابندہ رہیں گی اور ادب کے طالب علموں کو ان کی ادبی کاوشیں ہمیشہ فیض یاب کرتی رہیں گی۔ قیصر شمیم کی ذات ارض بنگالہ کی آبرو ہے جو علم و ادب کے چراغوں کو ہمیشہ روشن کرتی رہے گی۔

کتابیات

1۔ساعتوں کا سمندر،قیصرشمیم،سپرنا پبلی کیشنز،شیب پورہوڑہ،1971

2۔تری دھارا،قیصر شمیم،سپرنا پبلی کیشنز،شیب  پورہوڑہ،1994

3۔سانس کی دھار،قیصر شمیم،عرفان گرافکس،شیب پور ہوڑہ،1997

4۔پہاڑ کانٹتے ہوئے،قیصر شمیم،عرفان گرافکس،شیب پور ہوڑہ،1998

5۔اور زمین چیختی ہے،قیصر شمیم،عرفان گرافکس،شیب پور ہوڑہ،2021



 

Ms. Sufia Mahmood

Research Scholar

Dept. of Arabic, Persian, Urdu

Bhasha Bhawan

Vishwabharti University

Shantiniketan-731235 (W.B)






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں