25/3/22

رضیہ سجاد ظہیربحیثیت خاکہ نگار - مضمون نگار : ڈاکٹر بی بی رضا خاتون

 



’’نوع انسان کا دلکش ترین مرکز مطالعہ ہمیشہ سے انسان رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔‘‘ ادب کی دو اصناف سوانح اور خاکے ہمیں انسان سے متعارف کراتی ہیں۔ خاکہ شخصیت کی عکاسی کا نام ہے۔ اچھا خاکہ دراصل کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے۔۱؎ عموماً  مختلف شعبۂ حیات میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے کامیاب اور نامور لوگوں کے خاکے لکھے جاتے ہیں۔ کامیابی کو ناپنے کا ہمارا پیمانہ دولت اور شہرت ہے۔ کیا ایک معمولی اور عام آدمی کا بھی خاکہ لکھا جاسکتا ہے؟ جواب ہے ہاں۔ مولوی عبد الحق نے نام دیومالی اور رشید احمد صدیقی نے ’’کندن‘‘ چپراسی کا خاکہ لکھ کر اس کلیشے کو توڑا کہ کسی عظیم علمی یا ادبی شخصیت کا ہی نہیں بلکہ معمولی انسان کا بھی خاکہ لکھا جاسکتا ہے۔ رضیہ سجاد ظہیر کے خاکوں میں زیادہ تر عام اور معمولی انسان ہیں، لیکن مصنفہ کی ذوقِ نظر ان میں کچھ ایسی خوبیاں اور ایسے گُر ڈھونڈ نکالتی ہے جو انھیں بے حد خاص بناتے ہیں۔ عام انسان کے حوالے سے ’’آبِ گم‘‘ میں مشتاق احمد یوسفی نے بہت خوبصورت بات لکھی ہے:

’’ان میں جو کردار مرکزی، ثانوی یا محض ضمنی حیثیت سے ابھرتے ہیں، وہ سب کے سب اصطلاحاً بہت ’’عام‘‘ اور سماجی رتبے کے لحاظ سے بالکل ’’معمولی‘‘ ہیں، اسی لیے خاص التفات اور تامّل چاہتے ہیں۔ میں نے زندگی کو ایسے ہی لوگوں کے حوالے سے دیکھا، سمجھا، پرکھا اور چاہا ہے۔ اسے اپنی بدنصیبی ہی کہنا چاہئے کہ جن ’’بڑے‘‘ اور ’’کامیاب‘‘ لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، انھیں بحیثیت انسان بالکل ادھورا، گرہ دار اور ایک رُخا پایا۔ کسی دانا کا قول ہے کہ جس کثیر تعداد میں قادرِ مطلق نے عام آدمی بنائے ہیں، اِس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بنانے میں اُسے خاص لطف آتا ہے، و گر نہ  اتنے سارے کیوں بناتا۔ اور قرن ہا قرن سے کیوں بناتا چلا جاتا۔ جب ہمیں بھی یہ اتنے ہی اچھے اور پیارے لگنے لگیں تو جاننا چاہئے کہ ہم نے آپ کو پہچان لیا۔‘‘

(آب گم، ص 23)

رضیہ سجاد ظہیر کے خاکوں میں سے اکثر کردار ایسے ہیں جنھیں ہم زبانِ عام میں عام آدمی کہتے ہیں۔ ان خاکوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر عام انسان میں کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور ہوتی ہے، لیکن اسے دیکھنے اور سمجھنے کے لیے بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت درکار ہے جو رضیہ سجاد ظہیر میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ان کی انسان دوستی ، روشن خیالی ،وسیع النظری،‘ انسان کو دولت، شہرت، طبقے، مذہب اور سماجی رتبے سے پرے دیکھتی ہے۔ وہ انسانیت اور اعلیٰ اقدار کو افضل تصور کرتی ہیں۔

رضیہ سجاد ظہیر کے خاکے نہایت سادہ اور دلکش ہوتے ہیں۔ تکلف اور تصنع سے پرے یہ خاکے انسان کی ان بنیادی خصوصیات اور اوصاف کو پیش کرتے ہیں جو ایک انسان کو صحیح معنوںمیں انسان بناتے ہیں۔ خاکوں میں اصحابِ خاکے سے ان کا خلوص اور وابستگی ان خاکوں کو موثر بناتی ہے۔

شرافت، نیک نفسی، قلندرانہ صفت، بے نیازی، وفاداری، جذبۂ ایثار، اپنے کام سے بے انتہا شغف، استغنائ (قناعت)،بے لوث محبت، احساسِ ذمہ داری، ، وسیع النظری، فراخ دلی، دوسروں کے دکھ درد کا احساس، دردِ دل، احترامِ انسانیت جیسے اوصاف کے حامل ان کے خاکے انسان دوستی کے آفاقی تصور کو پیش کرتے ہیں۔

رضیہ سجاد ظہیر کی دو تصانیف ’’اللہ دے بندہ لے‘‘ اور ’’زرد گلاب‘‘ ایسی ہیں جن میں افسانے اور خاکے دونوں شامل ہیں۔دراصل رضیہ سجاد ظہیر کے خاکوں اور افسانوں میں فرق کرنا بڑا مشکل ہے۔ اکثر افسانوں میں ایک مرکزی اور نمایاں کردار ہوتا ہے اسی کے اردگرد کہانی گھومتی ہے جس پر خاکے کا گمان ہوتاہے اور خاکوں میں افسانوی رنگ پایا جاتا ہے۔

’’اللہ دے بندہ لے‘‘ میں بادشاہ، نیچ، نگوڑی چلی آوے ہے، رئیس بھائی، سورج مل، اللہ دے بندہ لے، اب پہنچا نو، راکھی والے پنڈت جی، لاوارث، تلی تال سے چینا مال تک، انتظار ختم ہوا انتظار باقی ہے وغیرہ ایسی تحریریں جو خاکہ کی تعریف پر پوری اترتی ہیں اور ان کا دوسرا افسانوں اور خاکوں کا مجموعہ ’’زرد گلاب‘‘ ہے جس میں لنگڑی ممانی، ستون، ایک یاد وغیرہ خاکے شامل ہیں۔

رضیہ سجاد ظہیر عام طور پر عام انسان کہلانے والی شخصیتوں کی منفرد اور نمایاں خصوصیات کو اس خوبی سے بیان کرتی ہیں کہ ان کی مکمل اور متحرک تصویریں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ ان کرداروں کی وضع قطع، رکھ رکھاؤ، عادات و اطوار، سیرت و افکار کی عکاسی قاری کو متاثر کرتی ہے اور اس تاثر ہی میں خاکہ کی کامیابی کا راز مضمرہوتا ہے۔

’’اللہ دے بندہ لے‘‘ کا پہلا خاکہ ’’بادشاہ‘‘ ہے۔ اس خاکے کوپڑھتے ہوئے رشید احمد صدیقی کے خاکے ’’کندن‘‘ اور مولوی عبد الحق کے خاکے ’’نام دیو مالی‘‘ کی یاد آجاتی ہے۔ اوصاف حمیدہ کا تعلق کسی مذہب، ذات یا طبقے سے نہیں ہے بلکہ یہ کسی بھی انسان میں ہو سکتی ہیں۔ کسی بھی سماج میں زندگی کے نظام کو برقرار رکھنے میں ہر چھوٹے اور بڑے کام کی اتنی ہی اہمیت ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہندوستانی سماج میں جس طرح طبقاتی نظام قائم کیا گیا ہے، جسے اعلیٰ طبقہ اور نچلا طبقہ کہا جاتا ہے اسی طرح پیشوں کے اعتبار سے بھی سماج کو اعلیٰ اور ادنیٰ طبقوں میں بانٹا گیا ہے۔ لیکن اعلیٰ انسانی قدروں کی حامل رضیہ سجاد ظہیر انسان کو بحیثیت انسان پرکھتی ہیں اور جنھوں نے انھیں متاثر کیا کسی تفریق کے بغیر انھیں اپنے خاکوں کا موضوع بنایا۔ اُن کی اچھائیوں، ایمانداری، دردمندی، قناعت پسندی، خود اعتمادی، ہنر مندی اور انسان دوستی جیسے اوصاف کو اپنے خاکوں میں اجاگر کیا ہے۔

بادشاہ عرف بابو لال کی قلندرانہ صفت، استغنا، خود اعتمادی اور ہنر مندی اسے ایک دلچسپ کردار بناتی ہے۔ وہ ہر فن مولا ہے، کرسیاں بھی بن دیتا ہے، مستری کا کام بھی کرتا ہے، پلمبر کاکام بھی۔ اسی طرح کے مختلف چھوٹے بڑے کام بخوبی انجام دیتا ہے۔ اپنے کام کو نہایت ایمانداری، انہماک اور دلجمعی سے انجام دیتا ہے اور اپنی اجرت سے ایک پیسہ بھی بڑھ کر نہیں لیتا اور کوئی دینے لگے تو کہتا ہے کہ اللہ نے مجھے بہت دیا ہے کہاں رکھوں گا۔ بازار میں سڑک کے کنارے ایک چھوٹی سی دکان ہے اور اسی سے متصل ایک جھونپڑی جو اس کی کل کائنات ہے۔ اس کے گھر میں کوئی اور نہیں ہے سوائے ایک پالتو بلی کے۔ اس کا ایک عزیز رشتے دار کی طرح خیال رکھتا ہے۔ اسے اپنا کام کر کے طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ قناعت سے جو ذہنی آسودگی ملتی ہے وہ امیری غریبی سے پرے انسان کو قلبی سکون عطا کرتی ہے۔ مصنفہ لکھی ہیں:

’’بابو لال تم واقعی بادشاہ ہو۔ بھلا بادشاہوں کو بھی یہ نیند کہاں میسر؟ یہ تو اسی کا حصہ ہے جس کے دل میں قناعت کا نور ہو، سر میں ہنر اور محنت کا غرور، پھر وہ چاہے چیتھڑوں میں لیٹا ہو مگر وہ بادشاہ نہیںتو پھر کون بادشاہ ہے۔‘‘

بابو لال کی زبان میں لکنت ہے۔ وہ ہکلاتا ہے، لیکن لکنت ِزبان کا اس کی خود اعتمادی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہ کہتا ہے کہ میرا دماغ زیادہ تیز چلتا ہے۔ زبان اس رفتار کا ساتھ دینے سے قاصر ہے اسی لیے لڑکھڑا جاتی ہے۔ بابو لال بظاہر انپڑھ سا معمولی انسان ہے لیکن اس کی فکر بڑی ہے۔ مذہبی تعصب اور نفرت سے بیزار انسانیت کا پرستار ہے۔ مصنفہ جب اس سے اس کے مذہب کے بارے میں سوال کرتی ہیں تو وہ کہتا ہے:

’’میرا نام ہے بابو لال۔ بابو لال کے معنی سمجھتی ہو؟ ب ب بابو کا بیٹا۔ تم کو جئے ہند تو کیا تھا م م مسلمان ہوتا تو سلام کرتا۔ ہندو ہوتا تو نمسکار۔ م م میں نے کہا دونوں کو گ گ گولی مارو، جئے ہند س س سب سے اچھا…۔‘‘

رضیہ سجاد ظہیر نے جن لوگوں کے خاکے لکھے ہیں ان میں زیادہ تر وہ شخصیات ہیں جنھیں وہ بچپن سے جانتی تھیں اور یہ شخصیات ان کی یادداشت کا حصہ بن گئی تھیں۔ گویا ان میں بہت سے خاکے ان کے بچپن کی یادوں کی لفظی تصویریں ہیں، جس میں عقیدت، احترام، محبت، دوستی جیسے جذبات کارفرما ہیں۔ انھوں نے ان خاکوں میں اپنی قوتِ تخلیق اور فنی بصیرت سے جان ڈال دی ہے۔

اس نوعیت کے خاکوں میں راکھی والے پنڈت جی، رئیس بھائی، سورج مل، اللہ دے بندہ لے (فخرو)، لنگڑی ممانی، نگوڑی چلی آوے ہے (جِلّو خالہ)، ایک یاد (ابراہیم)، ستوں (امیر خاں) وغیرہ ہیں۔ آس پاس کی دنیا کے یہ وہ کردار ہیں جن کی شخصیت کے کسی نہ کسی پہلو نے رضیہ سجاد ظہیر کو اس قدر متاثر کیا اور وہ ان کے ذہن و دل میں ایسے بس گئے کہ ان کے لاشعور کا حصہ بنے رہے۔ جب انھوں نے کاغذ قلم کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا تو بچپن کی یادوں کے گلیاروں میں بسنے والے ان کرداروں کو صفحۂ قرطاس کی زینت بنایا۔

راکھی والے پنڈت جی کے خاکے میں رضیہ سجاد ظہیر نے اپنے گھر کے ماحول اور اس میں پائی جانے والی مذہبی ہم آہنگی و رواداری کے بے حد حسین منظر پیش کیے ہیں۔ وہ گنگا جمنی تہذیب کی پروردہ تھیں۔ ان کے گھر میں راکھی کا تیوہار بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ اصل میں ان کے والد کی بہن کا جوانی میں انتقال ہو گیا تھا۔ مصنفہ کہتی ہیں:

’’اس لیے ابا کو بہنیں بنانے کا بڑا چاؤ تھا۔ ان کی دو ہندو بہنیں بھی تھیں جو راکھی کے دن خاص کر آیا کرتی تھیں۔‘‘

اس دن ان کے گھر میں بڑی چہل پہل ہوا کرتی تھی۔ بہنوں کو تحفے کے طور پر دئیے جانے والی تھال صبح ہی سے سجائے جاتے، جن میں ریشمی بنارسی کپڑے اور ان کے بچوں کے کھلونے اور چوڑیاں، جھنڈولے ناریل، سندور، مہندی اور سوکھے میوے وغیرہ رکھے جاتے تھے۔ پنڈت جی مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لیے راکھیاں لے کر آجاتے تھے۔اورانھیں بھی نذرانے کے طور پر بہت سارا سامان دیا جاتا تھا۔سماجی رشتوں کے تانے بانوں سے بُنا گیا یہ کہ خاکہ پنڈت جی کے حوالے سے اس دور کے انسانوں کی بے تعصبی، احترام مذاہب کے ذریعے احترام انسانیت کی فلاسفی سے روشناس کراتا ہے۔

حساب میں کچے رئیس بھائی کا خاکہ نہایت مختصر ہے۔ اس میں ان کی حساب کے مضمون میں کم فہمی کو شگفتہ اندازپیش کیا ہے۔ دن رات کی محنت کے باوجود میٹرک میں حساب کے پرچے میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ نوکری کی تلاش میں بمبئی چلے گئے اور وہاں سے ماسٹر صاحب جو مصنفہ کے والد ہیں ان کے نام خط لکھا کہ انھیں سو روپئے ماہانہ تنخواہ کی نوکری مل گئی ہے اور خط میں یہ بھی اطلاع دی کہ ان کی تنخواہ میں پانچ روپیہ سالانہ ترقی ہوگی اور یہ آٹھ سو تک جائے گی۔ تو انھوں نے کہا کہ جب آٹھ سو روپئے ہو جائے گا تو اجمیر آپ سے ملنے آؤں گا اور بی بی (مصنفہ جو اس وقت بچی تھیں) کے لیے گڑیا اور کھلونے لاؤں گا۔ اس کردار میں Common Sense کی کمی ہے اور حساب میں کمزوری سے لطیف مزاح پیدا کیا ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ پانچ سو روپئے سالانہ کی ترقی میں آٹھ سو روپئے تنخواہ ہونے تک کتنے برس بیت جائیں گے اور یہ چھوٹی سی بچی، بچی نہیں رہے گی۔

سورج مل مصنفہ کے والد کے کالج میں چپراسی ہے، گھر کا کام بھی کرتاہے۔ اس میں راجپوتانہ شان اور وضع داری باقی ہے۔ وہ اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ سورج مل، اس معمولی سے کردار میں خاکہ نگار نے زندگی کو پیش کیا ہے۔ مصنفہ بچپن میں ان سے کہانیاں سنا کرتی تھیں۔ وہ راجپوتوں کی بہادری، عورتوں کی عزت کرنے کا انداز، وعدہ وفائی اور دوستی کے قصے سنایا کرتے تھے۔ خاکہ نگار نے اپنے بچپن کے ایک واقعے کے ذریعے ان کے کردار ان اوصاف کو نمایاں کیا ہے۔ سورج مل نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مصنفہ کے خاندان کی جان بچائی اور ان کی ماں کی پردہ داری کا مان رکھا۔

ایک موقع پر جب خاکہ نگار کی والدہ پردے کے اندر بگھی پر جارہی تھیں تو اس کا پہیہ الگ ہو گیا اور ان کی والدہ بھی گھبراہٹ میں گاڑی کا دروازہ کھول کر کودنا چاہتی تھیں کہ سورج مل کے بوڑھے مگر مضبوط ہاتھوں نے ان کو روک دیا پھر، چشم زدن میں انھوں نے نکلے ہوئے پہیہ کی جگہ اپنا کندھا لگا دیا اور گاڑی سیدھی کھڑی ہو گئی۔ وہ لکھتی ہیں کہ:

’’پھر وہ وہیں گاڑی کے نیچے سے چیخ چیخ کر اماں سے کہنے لگے کہ اترنے اور بے پردہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ عزت دنیا میں سب سے بڑی چیز ہے۔‘‘

بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے لیکن اس میں دوستی اور وفاداری کی کتنی عظیم مثال پیش کی گئی ہے۔

’’اللہ دے بندہ لے‘‘ ایک دلچسپ خاکہ ہے۔ فخرو ایک گھریلو ملازم ہے اور مصنفہ کے ماموں وکیل صاحب کے گھر کام کرتا ہے۔ اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا تا ہے دوسرے بھلائی کے کام بھی کرتا ہے لیکن نماز پڑھنے سے جی چراتا ہے۔ جب بھی مالک اسے نماز پڑھنے کو کہتے ہیں وہ ایسا جواب تیار رکھتا ہے یا ایسی تاویلات بیان کرتا ہے کہ کہنے والے سر پکڑ کر پیٹھ جائیں۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ اس کے پاس ایک جوڑی جوتے (بوٹ) ہوں وہ اپنی تنخواہ سے اتنے قیمتی جوتے نہیں خرید سکتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہے اور جب مالک یہ کہتے کہ چل مسجد میں نماز پڑھ کر دعا مانگوگے تو ضرور قبول ہوگی تو وہ حجت کرنے لگتا کہ اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہے۔ اپنے علم کے مطابق دلائل دینے کی کوشش کرتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے کنویں سے دعا کی، حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ سے دعا کی … تو اللہ تعالی تو ہر جگہ سے کی گئی دعا سنتے ہیں اور قبول کرتے ہیں۔ جب بھی نماز کے لیے کہا جاتا وہ سرے سے انکار بھی نہیں کرتا لیکن باتیں اور بہانے بنا کر ٹال دیتا ہے۔

خیر خیر کر کے ایک دن اس کی دعائیں رنگ لائیں اور وکیل صاحب کے ایک دوست جن کا مقدمہ انھوں نے جیتا تھا فخرو کو مہنگے جوتے تحفے کے طور پر دے دیے۔ وہ جوتے پہن کر دوست کے ہمراہ مسجد کے پاس سے گزر رہا تھا کہ مالک نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ آج تو تمھیں ہر حال میں نماز ادا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ تمھاری اتنی بڑی اور دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔ اس دن اس کے پاس کوئی معقول بہانہ نہیں تھا لہٰذا وہ نماز کے لیے مسجد میں داخل ہو گیا۔ نماز ادا کی اور جب واپس ہو رہا تھا تو دیکھا کہ اس کے نئے قیمتی جوتے چوری ہوگئے ہیں۔ بہت آزردہ ہوا۔ ایک دن جب مولوی صاحب وعظ کے لیے کھڑے ہوئے تو اس نے اجازت مانگی کہ مجھے کچھ کہنا ہے مولوی صاحب نے اجازت دے دی۔

’’فخرو لوگوں کو مخاطب کر کے بولا، ’’بھلے آدمیوں، نرسوں یہاں سے میرا نیا بوٹ چوری ہو گیا۔ نمازیوں کے سوا تو کوئی یہاں آتا نہ ہے سو کسی نمازی نے ہی لیا ہووے گا۔ خیر، پر میں نے سوچا کہ جس مسجد میں جوتا گیا سو ہوئیں گے پالش کی ڈبیہ اور برش بھی چلا جاوے سو وہ میں لیتا آیا ہوں اور آپ نمازیوں کو بخش دوں ہوں۔ اللہ سے دعا مانگوں گا کہ ایک بار دیا تھا سو دوسری بار بھی دیوے اور وِس کی کریمی سے کچھ دور نہ ہے۔ دیوے گا اور پھر دیوے گا۔ ضرور دیوے گا۔‘‘

(اللہ دے بندہ لے، ص130)

فخرو نماز پابندی سے نہیں پڑھتا لیکن اُسے خدا کی ذات پر کامل یقین ہے کہ وہ دعا مانگے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرے گا۔ بین السطور میں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ جو نمازیں پابندی سے ادا کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ پر یقین کیوں نہیں ہے۔ وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے چوری جیسا گناہ کرتے ہیں۔

رضیہ سجاد ظہیر اپنے خاکوں میں شخصیت کے حوالے سے کسی نہ کسی اخلاقی اور سماجی پہلو کو اجاگر کرتی ہیں،جیسے خاکہ لاوارث میں انھوں نے اپنی ٹیچر مس گنگولی کی زندگی میں تنہائی کے کرب اور گمنام موت کے ذریعے سماج کی اس تلخ حقیقت کو پیش کیا ہے جہاں اولاد عمر رسیدہ والدین کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتی۔ اولڈ ایج ہوم یا پھر اکیلا پن ا ن کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔

اب پہچانو‘، ایک بھکارن کا خاکہ ہے جس سے مصنفہ کا ہر دن کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ مصنفہ اپنے تجربات اور مشاہدات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیںکہ وہ صاف صفائی سے نہیں رہتی، دیکھنے والوں کو اس سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ وہ نہایت ڈھیٹ ہے کسی کے پیچھے پڑ جائے تو کچھ لیے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتی۔ دکانداروں سے سامان مانگ کر، گڑگڑاکر یا ہٹ دھرمی سے لے لیتی ہے۔ کوئی اسے خیرات نہ دے تو اسے جی بھر کے گالیاں دیتی ہے، کوستی ہے۔ اس کی یہ تمام حرکتیں مصنفہ کے دل میں اس کے لیے نفرت سی پیدا کرتی ہیں۔ ریڈیو پر جب جنگ کی خبریں نشر ہوتیں تو وہ بہت دھیان سے خبریں سنتی تھی۔ جنگ کے زمانے میں عوام سے امداد کی گزارشیں کی جانے لگیں۔ چندہ اکھٹا کرنے کے لیے ایک دن خواتین کے ایک بہت بڑے اجتماع کاانعقاد عمل میں آیا۔ جہاں دولت مند خواتین سینکڑوں، ہزاروں روپیوں کا چندہ دے کر داد و تحسین وصول کر رہی تھیں۔ وہیں یہ بھکارن اپنا زندگی بھر کا سرمایہ جسے وہ گٹھری میں باندھ کر رکھتی تھی وہ چندے کے طو رپر دے جاتی ہے۔ اسے کوئی نہیں جانتا، اس کے لیے کسی نے تالیاں نہیں بجائیں، کوئی ستائشی الفاظ اس کے لیے نہیں کہے گئے۔ نام و نمود سے بے پرواہ اس کی یہ بے نیازی قاری کو متاثر کرتی ہے۔

اس واقعہ نے مصنفہ کو جھنجھوڑ دیا کہ ہم لوگوں کے ظاہر کو دیکھ کر ان کے بارے میںرائے قائم کر لیتے ہیں جبکہ انسان کی باطن کی پاکیزگی، کشادہ دلی، سخاوت اور دردمندی کو سمجھنے کے لیے اس کی روح تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ایک واقعہ، ایک قدم، غلط فہمیوں، تنگ نظری، حقیقت سے عدم واقفیت کے سبب بنی دیوار کو مسمار کر دیتا ہے تو حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے ،انسانی فطرت کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں، کسی کو جاننے اور پہچاننے کا فرق واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔

 اس طرح اس کے جذبے سے اس کی شخصیت کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ بظاہر ایک بالکل معمولی بھکارن جسے سماج میں کوئی اہمیت حاصل نہیں لیکن اس میں جو جذبہ پیوست ہے اس کو خاکہ نگار نے بڑے پر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔

لنگڑی ممانی زرد گلاب کا سب سے عمدہ خاکہ ہے۔ ممانی پورے خاندان اور محلے میں ایک باوقار اور مخلص انسان کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ اس کردار کی وضع داری، خودداری، دردمندی، چھوٹوں سے شفقت اور محبت، نوجوانوں سے رعب و تمکنت اور بزرگوں سے اپنائیت اور خلوص قاری کو متاثر کرتا ہے۔ ایک رشتے کو دل سے مان لینے کے بعد پوری زندگی اس رشتے کی نذر کر دینا اس کردار کو بے مثال بنا دیتا ہے۔ ان کی شادی تیرہ برس کی عمر میں ہو رہی تھی بارات لے کر آتے ہوئے راستے میں ایک حادثے میں دولہے کا انتقال ہو گیا۔ شادی کا گھرماتم خانہ بن گیا۔ مصنفہ لکھتی ہیں:

’’اس واقعہ کے بعد، بہت سے لوگوں نے یہاں تک کہ ان کے ماں باپ نے بھی اشاروں میں ان سے کہا اور اوروں سے بھی کہلوایا کہ ان کا رشتہ کہیں اور کر دیا جائے کیونکہ وہ تو کنواری ہی تھیں۔ نکاح تک تو ہوا نہیں تھا، شادی اور رخصتی کو کون کہے۔ پر انھوں نے جو ’نہ‘ کی تو پھر ’ہاں‘ کہنے کا نام نہیں لیا۔‘‘ (زرد گلاب، ص 49)

خواتین سے متعلق رضیہ سجاد ظہیر کے خاکوں کی زبان میں نسوانی لب و لہجے کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یو پی کے مغربی اضلاع کے متوسط طبقے کی گھریلو زندگی اور وہاں کی زبان اور لہجے کی انفرادیت سے مصنفہ گہری واقفیت رکھتی ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں رضیہ سجاد ظہیر کا لڑکپن گزرا۔ انھوں نے اس پوری فضا کو اس کردار کے ذریعہ سمیٹ لیا ہے۔ دراصل یہ محض ایک دلچسپ اور پُر لطف خاکہ نہیں بلکہ اس میں ایسے فرد کے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے جو غم و الم کے ماحول میں بھی اپنے کو دوسروں کی خوشی کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک خاکہ جلو خالہ کا ہے جسے مصنفہ نے صاحبِ خاکہ کے تکیہ کلام’’نگوڑی چلی آوے ہے‘‘ کو عنوان بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ زندگی سے بھرپور ایک ایسی خاتون کا خاکہ ہے جو ہر دم ہنستی مسکراتی رہتی ہے۔ ان کا نام تو جلیل فاطمہ ہے لیکن انھیں بڑے بزرگ جِلّو، اور چھوٹے جِلّو خالہ، جلو آپا، جلو ممانی اور جلو پھوپی وغیرہ کہتے ہیں۔ یہ نہایت خوش مزاج اور زندہ دل کردار ہے۔ بات بے بات کھلکھلاکر ہنسا کرتیں ہیں۔ اس بے اختیار ہنسی پر کوئی ناراض ہوتا یا شکایت کرتا تو کہتیں کہ’’ہنسی تو نگوڑی چلی آوے ہے۔‘‘

اس بے اختیار ہنسنے کی عادت کے سبب ان کے شوہر نے انھیں طلاق دے دی، لیکن ان کی عادت نہ بدلنی تھی نہ بدلی۔ اُس واقعے کو اس طرح بیان کرتی ہیں:

’’میں نے اندر سے کُرتا لاکے تیرے خالو کو پکڑ ادیا، پھر پیڑھی پر بیٹھی اور اتّتے لوئی بنا کے چنگیر بناؤں تھی کہ کیا دیکھوں ہوں، اے کر مردوا آنگن بھر میں ناچتا پھر رہا ہے۔ ایسا ایسا اچھل رہا ہے کہ جیسے وہ سرکل آیا تھا نہ وِ س میں ایک آدمی نہ تھا جسے سب کوئی جوکر کئے رئے تھے۔ اور میں کمبخت ہنسنے لگی۔ بس اور لگا چیخنے۔ اور تم ہنسو …… ایں …… اماں نے لقمہ دیا۔

تو بھنو اب تو ہی انصاف سے بتا۔ نگوڑی ہنسی تو چلی آوے ہے۔ جب آنگن بھر میں کوئی ناچتا پھرے گا تو ہنسی نہ آوے گی۔ وہ تو کہو خیریت گزری کہ چولہے میں نہ جا پڑا۔ تو پھر اسی بات پر اس نے مجھے طلاق دے دی۔‘‘

(زرد گلاب، ص 52)

فطرتاً زندہ دل اور ہنس مکھ انسان زندگی کے بڑے سے بڑے غم کو اپنی مسکراہٹوں میں آنسوؤں کے سمندر اپنے بے لاگ قہقہوں میں چھپانے کا ہنر جانتے ہیں۔ خود ہنس کر آس پاس والوں کو ہنسانا اور ان کا غم غلط کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔

’’انتظار ختم ہوا، انتظار باقی ہے‘‘ سجاد ظہیر کا خاکہ ہے۔ سجاد ظہیر کی اچانک موت کا صدمہ اور زندگی بھر کبھی نہ ختم ہونے والا انتظار اس خاکے کو رنجیدہ بناتے ہیں۔ اس میں رضیہ سجاد ظہیر نے سجاد ظہیر کے معمولاتِ زندگی، عادات و اطوار، منکسر المزاجی، انسان دوستی، خوش اخلاقی، وسیع النظری اور سادہ لوحی کو بیان کیا ہے۔ ان کی شخصی زندگی کے حوالے سے لکھتی ہیں:

’’میں ان کی کچھ ایسی صفات کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جو بادی النظر میں بالکل معمولی بات لگتی ہیں لیکن جن سے ہی دراصل ان کی عظیم شخصیت مرکب تھی۔ مثلاً اچھے کھانے کے حد درجہ شوقین ہوتے ہوئے بھی مجھے یاد نہیں کہ انھوں نے کبھی بھی بدمزہ کھانے پر نکتہ چینی کی ہو۔‘‘

(اللہ دے بندہ لے، ص 149)

ان کی خوش مزاجی کے حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’انھیں جوش ملیح آبادی کی ایک رباعی کے یہ دو مصرعے بہت پسند تھے:

یا احمق بے پناہ، یا مردِ حکیم

یہ دو ہی خوشی سے جی سکتے ہیں

اور اس میں کیا شک ہے کہ وہ جب تک جیئے خوب جیئے، خوشی سے جیئے، مطمئن جیئے۔ انھوں نے زندگی کی ہر خوبصورت چیز سے پیار کیا۔ حق کے لیے جستجوئے مسلسل کی۔ اپنے ضمیر کے خلاف کبھی کچھ نہیں کیا۔ کسی سے حسد، کسی سے دشمنی نہیں کی۔ انھیں وہ قلب مطمئنہ حاصل تھا جو ذہنی مسرت کی بنیاد اور روحانی عظمت کا سرچشمہ ہے۔ جدید ادب میں جو کبھی کبھار مایوسی کا ایک مریضانہ عنصر ملتا ہے۔ اس کو دیکھ کر وہ اکثر حیران رہ جایا کرتے تھے کیوں کہ خود انھوں نے زندگی اور زندگی میں نیکی کی قوت پر اعتماد کبھی نہیں کھویا۔‘‘ (اللہ دے بندہ لے، ص 171)

ان کے دیگر خاکوں میں’’ ایک یاد ‘‘ کا ابراہیم، ایک کم عمر یتیم لڑکا زندگی کی تلخیوں سے جوجھتا ہوا تھوڑی سی تفریح کے ذریعے راحت و فرحت حاصل کرنا چاہتا ہے۔’’ تلی تال سے چینا مال تک‘‘ کا ڈانڈی چلانے والا مزدور زندگی کی حقیقتوں اور سماج کے دوہرے رویّے سے واقفیت حاصل کر چکا ہے اور اس کا یہ خیال ہے کہ انسان جس کرب سے خود نہیں گزرتا اس کو سہی طور پر بیان بھی نہیں کر سکتا۔ ’’نیچ‘‘ کی شاملہ کی رام اوتار کے لیے محبت اس منزل پر پہنچ گئی ہے جہاں انسان اپنے بجائے دوسرے کی خوشی کو ترجیح دیتا ہے۔ ان خاکوں کے ذریعے مصنفہ نے ذات پات، اونچ نیچ جیسی تمام سماجی برائیوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔ ان کی انسان دوستی، روشن خیالی، سماج میں مساوات قائم کرنے کی آرزومندی ان کے ترقی پسند خیالات کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انسانیت اور اخلاق انسان کو بلند درجے پر رکھتے ہیں۔ عام کہے جانے والے انسانوں کو انھوں نے کیسے خاص پایا اور ایک عام اور معمولی انسان پر بھی خاکہ لکھنا کیوں ضروری ہے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں:

’’یہ کیفیت مخصوص ان کرداروں میں ہوتی ہے جو دیکھنے میں اتنے اہم کبھی نہ لگے ہوں گے۔ نہ وہ کوئی بڑے شہنشاہ یا حاکم ہیں یا سیاست داں، نہ مصور، نہ شاعر، نہ ادیب! وہ زندگی کے وسیع صحرا کا ایک ذرہ ہیں۔ حیات کے بے پایاں سمندر کا ایک قطرہ ہیں۔ مگر یہ کون نہیں جانتا کہ ان قطروں کے بغیر نہ تو سمندر ہے اور نہ ان ذروں کے بغیر صحرا۔ یہ وہ چھوٹی چھوٹی حقیقتیں ہیں جن کو ملا کر زندگی کی عظیم حقیقت کا بے پایاں کینوس تیار ہوتا ہے۔‘‘

 (زرد گلاب، ص 106-107)

رضیہ سجاد ظہیر کے خاکے مختصر مگر جامع ہیں۔ تاثراتی نوعیت ان خاکوں میں وہ شخصیت کے تمام پہلوؤں کو پیش کرنے کے بجائے کسی ایک نمایاں پہلو کو پیش کرتی ہے جو اس شخصیت کی پہچان بن جاتے ہیں۔



 

Dr. Bibi Raza Khatoon

Assistant Professor

Dept. of Urdu

MANUU

Hyderabad-500 032 (T.S)

                  




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں