8/9/25

رفعت سروش: جن کی آواز ریڈیو کی شناخت بن گئی تھی، مضمون نگار: ایم اے کنول جعفری

 اردو دنیا، اپریل 2025

اترپردیش کے مغرب میں گنگا کے کنارے آباد ضلع بجنور میں نجیب آباد، بجنور، نگینہ، چاندپور، دھام پور،شیرکوٹ، سیوہارہ، افضل گڑھ،منڈاور اور کرت پور جیسی کئی اہم بستیاں ہیں۔یہ بستیاں نہ صرف اپنی قدیم طرز،تاریخ،تعلیم اور سیاسی اعتبار سے اہم ہیں،بلکہ انھیں ادب کی دولت سے مالامال ہونے کی سعادت بھی نصیب ہے۔سجاد حیدر یلدرم، عبدالرحمان بجنوری، ڈپٹی نذیر احمد،تاجور نجیب آبادی اور اختر الایمان سمیت اردو ادب کے کئی سپوتوں کا تعلق اسی ضلع سے ہے۔اسی ضلع کی ادب نواز بستیوں میں ایک بستی کا نام ہے نگینہ۔ ادب پارے کی اس مردم خیز بستی کو اردو ادب کی نثری اور شعری دونوں اصناف کی قابل قدر خدمات سے وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس ادب گاہ سے ایک ایسے شخص کا گہراتعلق رہا ہے،جس کی حیثیت اردو ادب کے دائرہ کار (انگوٹھی )میںدمکتے نگینے کی طرح اہم اور نمایاںہے۔ اپنے انفرادی لب و لہجے اور جداگانہ مزاج کے اس کردار کو خدادادصلاحیت اور خصوصیات کی بنا پر ادبی دنیا میں صدیوں تک یاد کیا جائے گا۔ اس منفرد ادیب،معروف شاعر، منظوم ڈرامہ نگار، بہترین انشاپرداز، دم دار مترجم،بے مثل نثر نگار اور اعلیٰ براڈ کاسٹر جیسی خوبیوں کی شخصیت کا اصل نام شوکت علی ہے۔ وہی شوکت علی،جسے ادبی حلقوں میں رفعت سروش کے نام سے جانا پہچاناجاتا ہے۔یوں بھی جن شوقین افراد کو ریڈیو کا ارتقائی زمانہ یاد ہے،ان کے لیے یہ نام نیا نہیں ہے۔ایک اچھے براڈکاسٹر کے طور پر ان کی یادیقینی طور پرا ذہان میں محفوظ رہے گی۔انھوں نے چار دہائی تک ریڈیو کے شائقین لوگوں کو ان کی ضیافت طبع کا  پسندیدہ مواد فراہم کرانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ’آل انڈیا ریڈیو‘ کے اپنے دور کے مشہور پروگرام ’اردو مجلس‘ کے تعلق سے ان کی آواز ریڈیو کی شناخت بن گئی تھی۔

شوکت علی کی پیدائش 02 جنوری 1926 کو نگینہ میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام سید محمد علی اور والدہ کا نام کنیز فاطمہ تھا۔ ان کے دادا سید علی کا شمار نگینہ کے مخصوص لوگوں میں ہوتا تھا۔ رفعت سروش کی ابتدائی تعلیم نگینہ کے ایک مکتب میں ہوئی۔ مدرسے میںدرجہ تین تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ  میرٹھ ضلع کی تحصیل موانہ چلے گئے۔ 1935 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر بمبئی چلے گئے۔ 1949 میں ممبئی سے ہندی ودیا پیٹھ کے بھاشا رتن کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصلی کی۔ شروع سے ہی وظائف ملنے لگے تھے، اس لیے آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بڑے بھائی سید ممتاز علی نے رفعت سروش کی تربیت اور ذہن سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے بھائی کی سرپرستی میں رہ کر نہ صرف خوش خط میں لکھنا سیکھا،بلکہ ادبی صفحات پرنثر اور نظم کو پڑھنے اور سمجھنے کی باریکیاں بھی سیکھیں۔ مصوری میں ان کی مہارت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پیمانے کا استعمال کیے بغیر سامنے رکھی ہوئی چیز کی ہو بہو کئی گنا بڑی تصویر بنا لیتے تھے۔

رفعت سروش بنیادی طور پر شاعر تھے۔ انھوں نے میٹرک کے دوران ہی جدید طرز پر نظمیں لکھنی شروع کر دیں، جو’ہمایوں‘ اور’شاہکار‘ جیسے جرائد میں متواتر شائع ہونے لگیں۔انھیں ادبی دنیا میں شوکت نام پسند نہیں تھا۔اس لیے دو لفظی قلمی نام ’رفعت سروش‘ سے لکھنا شروع کردیا۔ اس نام سے ان کی پہلی نظم ’گلاب کا پھول‘ شائع ہوئی          ؎

کھلا ہوا  ہے جھاڑیوں  میں  پھول  اک گلاب کا

اٹے ہوئے غبار  میں ہیں جس کے  عارض و جبیں

کچھ کے دے رہے ہیں خار خنجروں سے پے بہ پے

لہو  لہان   ہے   تمام   اس  کا  جسم  ناز  نیں

ان کا پہلا مجموعہ کلام’وادی گل‘1963میں منظر عام پر آیا۔ دوسرا مجموعہ کلام ’ذکر اس پری وش کا‘ 1966 میں شائع ہوا۔اس کے بعد وقفے وقفے سے ان کی کتابیں شائع ہوتی رہیں اور قارئین ان سے استفادہ کرتے رہے۔

رفعت سروش نے شاعری کے علاوہ نثر کے میدان میں بھی اپنی پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ انھیں ناول نگار،افسانہ نگار،خاکہ نگار،انشائیہ نگار، ڈرامہ نگار اور اوپیرا نگارکی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔  رفعت سروش ادبی دنیا میں افسانہ نگاری کے لیے کافی کچھ کر سکتے تھے،لیکن ایسا کرنے کی بجائے انھوں نے شاعری کی طرف زیادہ توجہ دی۔ ایک اندازے کے مطابق انھوں نے کل جمع تیس چالیس سے زیادہ افسانے نہیں لکھے ہوں گے۔اس کی ایک وجہ ان کا شعر گوئی کی طرف رجحان کا ہونا ہے۔ یہ رجحان فطری بھی ہو سکتا ہے۔ ان کی افسانوی جمع پونجی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ افسانے جن میں اپنی بات کو افسانوی اسلوب میں پیش کرنے کے لیے پلاٹ کا سہارا لیا گیا اور دوسرے وہ افسانے جن میں رفعت سروش نے محض اپنی سوچ اور فکر کو الفاظ کا خوبصورت جامہ پہناکر پیش کیا۔ان افسانوں میں ایک صالح اور صحت مند مقصد کی دم دار جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ان میں وہ جو بات کہنا چاہتے ہیں، وہ قاری کے سامنے عیاں ہو جاتی ہے۔ اس طرح کے افسانوں کو قلم بند کرنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے ذہن کی پختگی اور احساس کی گہرائی کے علاوہ وسیع مطالعے اور انسانی خواص سے آگاہی اور نفسیاتی تجربات بھی درکار ہیں۔ 1965 میں کراچی کے ماہنامہ’ساقی‘ میں شائع ہونے والے ’دھندلکے کی زنجیر‘ کوان کا بہترین افسانہ قراردیا جاتا ہے۔اس میں رفعت سروش نے دنیا کی بے ثباتی، انسان کی بے بضاعتی،زندگی کی کشمکش، خودغرضی اور حقیقی دوست کی ضرورت کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ رفعت سروش کے دوسرے افسانوں میں ’رنگوں کی چنگاریاں‘ اور’ مثلث‘ خصوصی حیثیت کے حامل ہیں۔ رنگوں کی چنگاریاں رنگوں پر مشتمل ایک انتہائی خوبصورت علامتی افسانہ ہے۔افسانہ مثلث میںرنگوں کی بجائے بے ضابطہ مگر ایک نقطے سے دوسرے نقاط کو ملاکر مثلث بنانے والی سیدھی لکیروں کی کہانی ہے۔افسانے میں ایسے متعدد مثلث ہیں۔ہر مثلث میںایک بھرپور زندگی سمائی ہوئی ہے۔ان کے افسانوں میں مختلف رنگ اور مختلف زاویے ہیں۔معاشرتی برائیوں کو جنم دینے اور ذہنوں کو جھنجوڑنے والی اقتصادی کشمکش ہے۔ان کے افسانوں میں ضمیر فروش، نفرت کا پھول، ایک ڈوبتا جزیرہ، قلم کا درد، بے وقوف، چراغ مردہ، کلامندر،  شکار، تیسری شادی اور ’کٹی پتنگ‘ قابل ذکر ہیں۔دیگر بیانیہ افسانوں کا پلاٹ سیدھا سادہ ہے۔افسانوں میں جذبات کی عکاسی اور زندگی کی جدوجہد کے ساتھ ہر عمر کے جانے پہچانے اور اپنے آس پاس رہنے والے کردار موجود ہیں۔ 

رفعت سروش کے دوسرے سب افسانے بیانیہ افسانوں کے ذیل میں آتے ہیں۔ ان میں سیدھا سادہ پلاٹ ہے۔قریبی کردار ہیں۔جذبات کی عمدہ عکاسی ہے۔ زندگی کی جدوجہد ہے۔ دکھ بھری زندگی کی تصویریں ہیں۔ نفسیاتی تجزیہ اور تصادم ہے۔ مقصدیت کی دل پذیر چاشنی ہے مگر کوئی بات چونکادینے والی نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے،یہ سب کہانیاں ان کے افسانوی سفر کی مختلف منزلوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ خاص طور پر ابتدائی اور درمیانی منزلوں کی۔اسی لیے چند کہانیوں میں مختلف افسانوی کڑیوں کا وہ ربط اور وہ طاقتور اظہار اور وہ بہاؤ نہیں ملتا،جو رفعت سروش کے بعد کے افسانوں میں ہمیںمتاثر کرتا ہے۔  

(رفعت سروش ہمہ کمال ادبی شخصیت: م م راجندر: ’رفعت سروش بحیثیت نثر نگار‘ مرتبہ ڈاکٹر رضیہ حامد،ص36)

رفعت سروش نے دسمبر 1945میں’آل انڈیا ریڈیو ممبئی‘ میں ملازمت شروع کی اور39برس تک اس خدمت کو انجام دیتے رہے۔ انھوں نے 13برس ممبئی اور26سال دہلی میں آل انڈیاریڈیو سے وابستہ رہ کربڑی فعال زندگی گزاری۔ مختلف پروگراموں کے انچارج رہے۔ گجرا، گیتوں بھری کہانی اور آخر میں اردو مجلس ان کی پہچان بن گئے۔ انھوں نے زندگی کے ہر رنگ کا خوب مزہ لیا۔ ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنانے میں سلیقہ شعار، ہنر مند اور مہمان نواز بیوی صبیحہ سروش نے اہم کردار ادا کیا۔31 جنوری 1984کو آل انڈیا کی ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔قریب تین برس بعد 15 دسمبر 1987 کو اہلیہ صبیحہ سروش کا انتقال ہوگیا۔ا س کے بعد رفعت سروش اکیلے پڑ گئے۔غم زدہ رہنے لگے۔ غم بڑھ کر ناقابل برداشت ہو،تو انھوں نے  پھر قلم اٹھایا اورایک بار پھر لکھنا شروع کردیا۔وہ سوچتے گئے اور ان  کے ہاتھ کے انگوٹھے اور دو انگلیوں کے درمیان لکھنے کو بیتاب قلم کی نوک سے نکلنے والے الفاظ کے جادو  اور منظرکشی نے ایسے نایاب موتی بکھیرے،جن کی چمک آج بھی باقی ہے۔رفعت سروش کا یہ کمال محض نظموں تک ہی محدود نہیں رہا۔انھوں نے غزلوں اور مرثیوں میں بھی ایسا کمال دکھایا کہ ہر ایک آنکھ کا کونا گیلا ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ایک دوسرے کی جدائی اور کرب برداشت نہیں کرنے والے افراد تڑپ اٹھے۔

 30نومبر 2008 کو84برس کی عمر میں رفعت سروش کا انتقال ہو ا،لیکن قرطاس ابیض پران کے قلم سے نکلے الفاظ کے جادو نے اردو ادب کے قارئین کے لیے87کتابیں تحریر کرنے کا ایک ایسا کارنامہ انجام دیا،جو ہر کسی ادیب و شاعر کے حصے میں نہیںآتا۔اردو کی کتابوں میں وادیِ غزل (1963)، عروج آدم (1967)، ذکر اس پری وش کا(1968)، جہاں آرا (1973)، روشنی کا سفر (1974)،نقش صدا (1977)، شاہجہاںکا خواب(1980)، نقوش رفتہ (1983)، تاریخ کے آنچل میں (1984)، میری صدا کا غبار (1985)، پھولوں کی وادی(1986)،بمبئی کی بزم آرائیاں (1986)، اسی دیوار کے سائے میں (1987)، کرب شہنائی (1989)، قلم کے صفیر (1990)، ڈگر پنگھٹ کی(1991)، اور بستی نہیں،یہ دلی ہے (1992)، قافلہ (1994)، پتہ پتہ، بوٹابوٹا (1996)، دھندلکے کی زنجیر (1996)، یادوں کے چاند ستارے(1996)، پانی پت (1997)، شہر غزل (1998)، زاویۂ نور(1998)، زندگی ایک سفر (1998)، سرشام (1999)، خواب اور تعبیر خواب (1999)، براڈ کاسٹنگ(2000)، خانوادۂ نور (2003)، گم ہوتا آسمان(2003)،بہار نو بہار (2004)،  شہرنگاراں (2004)، تھکے نہ میرے پاؤں (2005)، حرف حرف ممبئی(2006)،علم و ادب کے روشن ستارے (2006)، جہان نقش و نغمہ(2007)،ہم سخن فہم(2008)،آل انڈیا ریڈیو اور اردو(2008)، ادب شناسی (2008)، آنسوؤں کے چراغ(2008)، یادوں کا دریچہ (2010)، پھر وہی دلی کی گلیاں اور میں،  شعور آگہی،شاخ گل،دیوناگری رسم الخط میں تحریر کردہ ان کی چھ کتابوں میں’رنگ منچ کے پانچ رنگ‘، ’اندھیرے اجالے کے بیچ‘ اور’ ریت کی دیواریں‘ (1987) خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ رفعت سروش کے منظوم ڈرامے،اوپیرا اور خود نوشت نے خاصی شہرت پائی۔ شاعری، افسانے،تنقید، ڈرامے اور تاریخ جیسے موضوعات پر ان کی کتابیں آج بھی دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں اور انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد، دیمک اور رانی لکشمی بائی کا ترجمہ کیا۔

علم و ادب کے فلک پر ان کی بلندی سے یہ اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ رفعت سروش ایک اعلیٰ قلم کار اور ہمہ جہت فن کار تھے۔انھوں نے خاص طور پر ’اوپیرا‘ کو جس بلند مقام تک پہنچایا وہ ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ اوپیرا منظوم غنائیہ کو کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ ڈرامہ جس میں مکالمہ برائے نام ہو اور رقص وسرود و موسیقی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے، اوپیرا (Opera) کہلاتا ہے۔ اوپیرا کی بابت رفعت سروش کی دختر ڈاکٹر شبانہ نذیر کی کتاب، ’اوپیرا   47ء کے بعد ‘کے دیباچے میں بلراج ورما نے مشہور عالم اوپیر’جہاں آرا‘ کی بابت تحریرکیا ہے۔

سب سے طویل اور اہم تجزیہ رفعت سروش کے مشہور عالم اوپیر’جہاں آرا‘ سے متعلق ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ اور ڈاکٹر خلیق انجم جیسے ناقدین اور محققین نے رفعت سروش کو اوپیرا نگاری میں سر فہرست رکھا ہے۔ان کی ذات اور ان کے تخلیقی محرکات کے بارے میں جو تفصیلات بطور اقتباسات  پیش کی گئی ہیں وہ اس باکمال فنکارکی گوناگوں شخصیت اور اوپیرا کے فن کو سمجھنے میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ 

) اردو اوپیرا(47کے بعد)،مصنفہ: ڈاکٹر شبانہ نذیر، دیباچہ: بلراج ورما جنوری1997ص21)

رفعت سروش کی نثر انتہائی سادہ،آسان اور شگفتہ ہے۔لیکن افسوس رفعت سروش کے شعری اور فنی محاسن پر نہ تو اتنی توجہ دی گئی اور نہ ہی اتنا کچھ تحریر کیا گیا،جتنا ان کے بارے میں تحریر کیے جانے کا حق تھا۔

 

M. A. 'Kanwal' Jafri

127/2, Jama Masjid, 

NEENDRU, Tehsil Dhampur,

District: Bijnor (U.P.) 246761

Email: jafrikanwal785@gmail.com                                                                                    

               

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ڈاکٹر تابش مہدی، مضمون نگار: ابوالبشر

  اردو دنیا، اپریل 2025 ڈاکٹر تابش مہدی اردو زبان و ادب کا نمائندہ اورایک معتبر حوالہ تھے۔ انھوںنے زندگی کا ہر لمحہ علم وادب کے فروغ میں وقف...