انسانی زندگی کے کچھ واقعات و لمحات ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں انسان عمر بھر
بھلا نہیں سکتا۔ ایسے کئی دلچسپ واقعات وہ اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کے درمیان
بیان کرتا رہتا ہے۔ ان میں سے کچھ واقعات کو زیرتحریر بھی لاتا ہے مثلاً زندگی کے
تلخ و شیریں واقعات، مختلف نشیب و فراز، خوشی و غم کے لمحات قلم بند کرتا ہے جسے
خودنوشت (سوانح عمری) کہا جاسکتا ہے۔
خودنوشت میں مصنف اپنی زندگی کے واقعات خود بیان کرتا ہے۔ خودنوشت کے ذریعے
نہ صرف کسی مخصوص شخصیت کی زندگی کے واقعات منظرعام پر آتے ہیں بلکہ اس دور کے
سیاسی، سماجی، تہذیبی، تاریخی، تمدنی اور ثقافتی، پہلو بھی اُبھر کر سامنے آتے
ہیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کس قسم کے ماحول میں مصنف کی پیدائش و پرورش ہوئی
ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ خودنوشت کے ذریعے صرف
ایک فرد کی زندگی کے گوشے ہی نہیں بلکہ اس دور کے متعلق بہت سی جانکاری ملتی ہے
جسے اس دور کی تاریخ بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی صنف ہے جس کا مصنف خود ہی
مجرم و گواہ اور جج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امانت داری، دیانت داری، سچائی اور
صداقت پسندی اس صنف کے خاص جوہر ہیں۔ بہترین خودنوشت وہی ہوتی ہے جس میں امانت
داری اور سچائی سے کام لیا جائے۔
اس صنف نے بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ارتقائی منازل طے کیں۔ خاص
طور پر اس صنف کو آزادی کے بعد ترقی ملی۔ اگر آزادی سے پہلے کے دور پر نظر ڈالی
جائے تو اس صنف کے چند عمدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے مولانا جعفر تھانیسری
کی خودنوشت ’تواریخ عجائب‘ (کالا پانی) جو 1885 میں منظرعام پر آئی۔ اس خودنوشت
میں انھوں نے اپنی جلاوطنی کا مکمل نقشہ پیش کیا ہے۔ جعفر کو ’انڈمان‘ میں جلاوطن
کیا گیا تھا جہاں پر وہ 20برس رہے۔ اس کتاب میں ’انڈمان‘ کے رہن سہن، رسم و رواج،
طرزِ زندگی اور عادات و اطوار کا بہترین نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس خودنوشت سے پتہ
چلتا ہے کہ آپ قید کے دوران بھی اپنے کاموں میں مصروف رہے۔ کبھی مایوسی کا شکار
نہیں ہوئے حالاں کہ ان کو ناگوار تجربات و حادثات سے بھی گزرنا پڑا۔
ظہیر دہلوی نے اپنی زندگی کی داستان کو ’داستانِ غدر‘ کے عنوان سے لکھا۔ اس
میں 1857 کے ہولناک واقعات کا ذکر ہے۔ خواجہ حسن نظامی جو اردو ادب میں انشاپرداز
کی حیثیت سے مشہور و معروف ہیں۔ ’آپ بیتی‘ کے عنوان سے داستان حیات لکھی۔ حسرت
موہانی نے ’قید فرنگ‘ اور وزیر سلطان جہاں نے ’نیرنگی بخت‘ کے عنوان سے بیتی زندگی
کی داستانیں قلم بند کیں۔ اسی طرح اور بھی بہت سارے ادیب و مصنف تھے جنھوں نے اپنی
زندگی کو ابدی حیثیت دینے کے لیے خودنوشتیں قلم بند کیں۔
آزادی کے بعد بھی اردو ادب میں بہت سی خودنوشتیں لکھی گئیں۔ اس سلسلے میں
ایک قابل ذکر خودنوشت چھتاری احمد خان کی ’یادایام‘ ہے جو 1949 میں شائع ہوئی۔
چھتاری اپنی زندگی میں بہت سارے عہدوں پر فائز رہے۔ حیدرآباد اور سلطنت برطانیہ کے زیرنگیں
علاقوں میں ملازمت کی۔ انھوں نے اس خودنوشت میں برطانیہ حکومت کا ذکر بھی کیا ہے۔
چھتاری نے اپنی داستان حیات کو سپاٹ اور بے کیف داستان کی صورت میں پیش کیا ہے۔
عبدالمجید سالک نے اپنی داستان حیات ’سرگذشت‘ کے عنوان سے قلم بند کی۔ سالک
اردو ادب میں نامور ادیب مترجم، صحافی، شاعر، نقاد اور مزاح نگار کی حیثیت سے
مشہور ہیں۔ انھوں نے اس خودنوشت میں اپنی زندگی کے اکیاون برس کے واقعات و تجربات
کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ خودنوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے
حصے میں سوانحی حالات دوسرے حصے میں قید و بند کی تکالیف اور آخر میں اہم شخصیات
کے خاکے قلم بند کیے گئے ہیں۔ ابتدا میں آبا و اجداد کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ یہ
ایک ایسی آپ بیتی ہے جس میں انھوں نے نہ صرف حالات و واقعات کو بیان کیا ہے بلکہ
ہندوستان و پاکستان اور خاص کرسرزمین پنجاب کی سیاسی، سماجی، علمی و ادبی اور
تہذیبی رجحانات و تحریکات کے متعلق بھی جانکاری پیش کی ہے۔ اپنے عہد کی بہت سی اہم
ہستیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایسے تذکروں میں اپنی خاکہ نگاری کے جوہر بھی دکھائے
ہیں۔
رشید احمد صدیقی جو کہ اردو ادب میں طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے جانے جاتے
ہیں۔ اپنے بیتے کی کہانی ’آشفتہ بیانی میری‘ کے عنوان سے تحریر کی۔ وہ علی گڑھ
مسلم یونیورسٹی کے طالب علم اور استاد بھی رہے ہیں۔ اسی لیے علی گڑھ سے والہانہ
عشق ان کی تحریروں سے عیاں ہے۔ بچپن سے لے کر خاندانی تفصیل کا ذکر مختصراً کیا
ہے۔ سرسید سے ان کو کافی لگاو تھا۔ انھوں نے سرسید کو رول ماڈل بتایا ہے۔ ڈاکٹر
ذاکر حسین کے ساتھ بھی والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ اردو خودنوشت کی خاص خوبیاں
جیسے حق گوئی، شگفتگی اور روانی اہم ہیں۔ ان کے یہاں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
ڈاکٹر اعجاز حسین اردو ادب کی اہم شخصیت ہیں۔ آپ ایک بہترین استاد اور زندہ
جاوید ادیب کی حیثیت سے اردو دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کی
روداد ’میری دنیا‘ کے عنوان سے لکھی جو 1965 میں شائع ہوئی۔ اس خودنوشت میں انھوں
نے اپنے احباب اور اساتذہ کا بطور خاص ذکر کیا ہے لیکن روداد محبت بیان نہیں کی ہے
کہ ان کے بقول آئین محبت کا احترام ایک لمحہ کے لیے بھی مجھ سے الگ نہ ہوا کہ
تفصیل بتا کر داستان کو پرلطف بنا سکتا۔
1958 میں شاد عظیم آبادی کی خودنوشت ’شاد کی کہانی شاد کی زبانی‘
منظرعام پر آئی۔ یہ خودنوشت 281 صفحات پر مشتمل ہے۔ انھوں نے نظم و نثر کی خوبیاں
بھی بیان کی ہیں۔ اساتذہ کا ذکر پرخلوص انداز میں کیا ہے۔ خودنوشت کی اہم خوبی یہ
ہے کہ انھوں نے داستان حیات کو واحد متکلم میں نہیں بلکہ واحد غائب کے صیغے میں
لکھا ہے۔ یعنی کتاب میں ’میں‘ نہیں ’وہ‘ حاوی رہتا ہے۔ زبان و بیان کے لحاظ سے
خودنوشت عام فہم سادہ اور بہترین ہے۔ اگرچہ یہ خودنوشت خامیوں سے یکسر پاک نہیں
پھر بھی اس کی خوبیاں، خامیوں پر حاوی ہیں۔ اس خودنوشت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
مصنف نے اس کا عنوان ’کمال عمر‘ رکھا تھا اور اسے وہ کسی اور نام سے شائع کرانا
چاہتے تھے۔ اس خودنوشت میں اس عہد کی تہذیب و ثقافت کے نقوش روشن ہیں۔
ڈاکٹر یوسف حسین خان کی خودنوشت ’یادوں کی دنیا‘ 1965 میں منظرعام پر آئی۔
مصنف اردو ادب میں مورخ و ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ یہ خودنوشت مصنف کی
شخصیت اور نفسیات سے پردہ اٹھاتی ہے۔ کتاب آٹھ ابواب اور 472 صفحات پر مشتمل ہے۔
تاریخ نگار ڈاکٹر ذاکر حسین کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ بیتی میں ڈاکٹر ذاکر حسین کو
فخر خاندان کے نام سے یاد کیا ہے۔ پہلے دو ابواب میں خاندانی تاریخ اور دوسرے اہم
واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے بچپن کی یادوں کا ذکر مختصر ہے۔ ہندوستان میں پٹھانوں
کی آمد کا سلسلہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں بھائیو ں کے متعلق جانکاری دی
گئی ہے۔ چوتھے باب میں فخر خاندان کے عنوان سے ڈاکٹر ذاکر حسین کے بارے میں
جانکاری ملتی ہے۔ ان کی شخصیت کے ہر پہلو پر تفصیلاً بحث کی گئی ہے۔ یہ تفصیل 70
صفحات پر مشتمل ہے۔ پانچویں باب میں طالب علمی کے زمانے کی یادوں کو تازہ کیا گیا
ہے۔ چھٹے باب میں فرانس کے سیاسی، سماجی، ادبی اور معاشرتی پہلووؤں پر روشنی ڈالی
گئی ہے۔
اردو ادب کے مشہور و معروف شاعر جوش ملیح آبادی جو شاعر انقلاب، شاعر شباب
اور شاعر فطرت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کی داستان کو ’یادوں
کی برات‘ کے عنوان سے لکھا۔ یہ خودنوشت اردو ادب کی خودنوشتوں میں منفرد مقام
رکھتی ہے۔ اس خودنوشت کو 5حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ زندگی کے بنیادی چار عناصر
کا ذکر بھی کیا گیا ہے جیسے شعرگوئی، عشق بازی، حصول علم اور انسان دوستی وغیرہ
ابتدائی حصے میں ’چند ابتدائی باتیں‘ کے عنوان سے اپنی بیتی زندگی کے ابتدائی دنوں
کو پرجوش انداز میں بیان کیا ہے۔ دوسرے حصے میں آبا و اجداد کا ذکر کیا ہے۔ خاص کر
اپنے پردادا کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ ان کے پردادا فقیر محمد خان گویا اردو ادب کے
اہم شاعرتھے۔ اسی حصے میں والدین، بھائی اور بہنوں کا ذکر بھی ملتا ہے تیسرے حصے
میں دوستوں اور عزیز و اقارب کا بیان کیا ہے۔ انھوں نے اپنی 75 سالہ زندگی کے کیف
و کم کو بہت ہی شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے اور کہیں کہیں مبالغے کا سہارا بھی
لیا ہے۔ ’یادوں کی برات‘ میں جوش ملیح آبادی کی شخصیت، نظریات اور عقائد کے بارے
میں بہت سی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
خواجہ غلام السیدین اردو ادب کے مشہور ادیب ہیں۔ انھوں نے اپنی خودنوشت
’مجھے کہنا ہے اپنی زبان میں‘ کو بارہ ابواب میں تقسیم کیا تھا لیکن بے وقت موت نے
انھیں کتاب کو مکمل کرنے کی اجازت نہیں دی وہ صرف تین ابواب مکمل کرپائے۔ یہ کتاب
260 صفحات پر مشتمل ہے۔ شاید مصنف زندہ رہتے تو اس کتاب کے صفحات کی تعداد ہزاروں
سے بھی زیادہ ہوتی۔ اس کا پہلا باب ’خواب ہے جو کچھ بھی دیکھا‘ کے عنوان سے درج
ہے۔ اس باب میں سنی سنائی باتوں پر بچپن کے حالات واواقعات قلم بند کیے ہیں۔ رشید
احمد صدیقی کی طرح انھیں بھی علی گڑھ سے محبت تھی شاید یہی وجہ ہے کہ جب وہ علی
گڑھ کا ذکر کرتے ہیں تو جذباتی ہوجاتے ہیں۔
اردو ادب کے مشہور و معروف ادیب و نقاد کلیم الدین احمد نے ’اپنی تلاش میں‘
کے عنوان سے خودنوشت لکھی جو 1975 میں شائع ہوئی۔ یہ داستان حیات تین جلدوں پر
مشتمل ہے۔ خودنوشت کی ابتدا میں خاندانی حالات پر بحث کرتے ہوئے پٹنہ کے علمی
تہذیبی اور معاشرتی حالات کا ذکر کافی تفصیل سے کیا ہے۔ ساتھ ساتھ بچپن کے کھیلوں
کاذکر بھی ملتا ہے۔ مشاعروں کی روداد قلم بند کرتے ہوئے اپنے نانا عبدالحمید اور
شادعظیم آبادی کی معاصرانہ کشمکش کا ذکر بہترین طریقے سے کیا ہے۔ اس خودنوشت سے
وہابی تحریک اور کلیم الدین احمد کے معاصرین سے متعلق بہت قیمتی معلومات حاصل ہوتی
ہیں۔ اس وقت کے سیاسی اور سماجی حالات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ اس خودنوشت میں اگرچہ
انھوں نے اپنی ذاتی زندگی کے متعلق کم جانکاری پیش کی ہے لیکن پھر بھی اس کا شمار
اردو ادب کی اہم خودنوشتوں میں ہوتا ہے۔
مسعود حسین خان اردو ادب کی بے نظیر ہستی ہیں وہ بیک وقت شاعر، ادیب، نقاد،
محقق، سوانح نگار، ماہر دکنیات، ماہر لسانیات اور بہترین استاد کی حیثیت سے مشہور
ہیں۔ انھوں نے زندگی کی روداد کو ’ورود مسعود‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ داستانِ
حیات کو بیان کرنے کے سلسلے میں امانت داری اور دیانت داری سے کام لیا ہے۔
آل احمد سرور نے اپنی بیتی زندگی کو ’خواب باقی ہیں‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔
آپ بیک وقت ادیب، نقاد، عالم اور استاد کی حیثیت سے اردو ادب میں مشہور و مقبول
ہیں۔ انھوں نے زندگی کے نشیب و فراز کو اجاگر کرنے کے لیے خودنوشت کا سہارا لیا۔
یہ کتاب 1991 میں شائع ہوئی ۔ بے باکی، صفائی، سچائی، اور امانت داری اس کتاب کی
خاص خوبیاں ہیں۔ یہ کتاب 6 دہائیوں کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔ انھوں نے عبارت
آرائی سے پرہیز کیا ہے۔ بدایوں جو کہ ان کا آبائی وطن تھا اس کا ذکر نہایت خلوص کے
ساتھ کیا ہے۔ اس کتاب میں ہندوستان کے مختلف شہروں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ علی گڑھ
میں دور طالب علمی میں وہاں کے مشاعروں اور مباحثوں وغیرہ کی تفصیل بھی ملتی ہے۔
ساتھ ساتھ اساتذہ کرام کا ذکر بھی ملتا ہے جن میں خواجہ منظور حسین کا نام کافی
اہم ہے۔ انھوں نے ملازمت کے دوران اہم ہستیوں سے ملاقات کا ذکر بھی کیا ہے۔ سر ضیاءالدین
جو اس وقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ان کا ذکر نہایت احترام کے ساتھ کیا ہے۔
انھوں نے لکھنؤ کے علمی و ادبی اور معاشرتی حالات و واقعات پر بھی بحث کی ہے۔ لکھنؤ کا ذکر بہت محبت سے کیا ہے۔ لکھنؤسے ان کو کافی
لگاو تھا۔ انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں
بحیثیت ریڈر 8 سال کام کیا تھا۔ پھر علی گڑھ چلے گئے مگر لکھنؤ کو کبھی بھول نہیں
پائے۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ خودنوشت مبالغہ آرائی سے یکسر پاک ہے۔ اس
کا شمار اردو ادب کی بہترین خودنوشتوں میں ہوتا ہے۔
عصمت چغتائی نے اپنی داستان حیات کو ’ کاغذی ہے پیرہن‘ کے عنوان سے لکھا۔
عصمت چغتائی اردو ادب میں ناول نگار اور افسانہ نگار کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔
یہ کتاب 14 ؍ابواب پر مشتمل ہے۔ ابتدا میں
رسالہ ’آجکل‘ میں مارچ 1979 سے لے کر 1980 تک سلسلہ وار شائع ہوتی رہی۔ 1994 میں
کتابی شکل میں شائع ہوئی۔ اس خودنوشت کو مکمل خودنوشت نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ
مکمل خودنوشت میں بچپن سے لے کر وفات تک کے سارے حالات و واقعات تفصیل کے ساتھ
بیان کیے جاتے ہیں لیکن اس میں یہ سب دیکھنے کو نہیں ملتا۔ البتہ عصمت کی زندگی کے
بہت سارے گوشے ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اس میں گریجویٹ، ملازمت اور لحاف پر مقدمہ
تک کے زمانے کے واقعات درج کیے گئے ہیں۔ پہلا عنوان ’غبارکارواں‘ کے نام سے شامل
ہے۔ اس عنوان کے تحت انھوں نے بچپن کے بارے میں جانکاری فراہم کی ہے۔ عصمت کی
شخصیت کی تعمیر باغی حالات کے زیراثر ہوئی۔ شاید اسی وجہ سے باغیانہ پن ان کی رگوں
میں رچ بس گیا تھا۔ ان کو باغی قلم کار بھی کہا جاتا ہے۔اس خودنوشت میں علی گڑھ، لکھنؤ، دہلی اور راجستھانی تہذیب کا ذکر بھی ملتا
ہے۔ راجستھان کی یادوں کا بہانہ کرکے وہاں کی جاگیردارانہ زندگی پر طنز کیا ہے۔
اخترالایمان نے اپنی داستانِ حیات کو ’اس آباد خرابے میں‘ کے عنوان سے لکھا
۔ وہ مشہور شاعر، مکالمہ نویس اور فلمی دنیا سے وابستہ شخصیت کی حیثیت سے جانے
جاتے ہیں۔ یہ کتاب 1996 میں منظرعام پر آئی۔ ابتدا میں ’سوغات‘ میں قسط وار شائع
ہوتی رہی۔ انھوں نے اس کتاب میں بچپن کے حالات، ابتدائی تعلیم، ہل چلانا، جنگلوں
میں گھومنا پھرنا، فصلیں کاٹنا، باغوں میں ٹہلنا، گائے اور بھینس چرانا اور دودھ
بیچنے کا ذکر بھی کیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں اپنے والد کے ساتھ بہت سی
جگہوں کی سیر کی۔ انھوں نے یتیم خانے میں بھی زندگی گزاری تھی جس کا ذکر دلکش
انداز میں کیا ہے۔ طالب علمی کے زمانے پر بھی بحث کی ہے جیسے علی گڑھ کی طالب علمی
کا زمانہ، تلاش معاش کے سلسلے میں پونے اور بمبئی کا سفر اور زندگی کی ناکامیوں کا
ذکر اس طریقے سے کیا ہے کہ پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی اہمیت
یہ ہے کہ انھوں نے ابتدائی زندگی سے لے کر آخری وقت تک کے مشاہدات، تجربات، حالات
و واقعات کو بڑی بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے سبھی پہلوؤں
کو امانت داری اور دیانت داری سے واضح کیا ہے۔ ازدواجی زندگی کی نقاب کشائی بھی کی
ہے پتہ چلتا ہے کہ پہلی بیوی سے ان کے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ انھوں نے بہت ساری
فلمیں بھی لکھیں جیسے ’وقت‘ جس کو کافی مقبولیت ملی اس فلم کا ایک مکالمہ کافی
مشہور ہے ”جن کے گھر شیشے کے ہوں وہ دوسروں پر پتھر نہیں پھینکتے“، مجموعی طور پر
کہا جاسکتا ہے کہ اس خودنوشت کو اردو ادب کی بہترین خودنوشتوں میں شامل کیا جاسکتا
ہے۔
ان کے علاوہ اور بھی خودنوشتیں ہیں جو اس اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ہیں کہ ان سے ہمارے
عہد کی مکمل تہذیبی، تاریخی، سماجی، سیاسی تصویر سامنے آتی ہے اور کچھ ایسی شخصیات
ذہن میں روشن ہوجاتی ہیں جنھیں ہم فراموش کرتے جارہے ہیں۔ میں نے خودنوشتوں کا صرف
اجمالی جائزہ لیا ہے کہ تفصیل کے لیے ایک سفینہ درکا رہے۔
Shahida Nawaz D/o Muneer Husain
Room No 114, Srojni Naidu Girls Hostel University of Jammu - 180006 (J&K)
bahut acha G
جواب دیںحذف کریںکار آمد مواد ہے۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ
جواب دیںحذف کریں