مخصوص
تہذیب اور محدود زاویۂ نگاہ کی بنا پر کسی زبان میں اعلیٰ ادب تخلیق نہیں کیا
جاسکتا۔ ادب آفاقیت سے قبل مقامیت سے عبارت ہے لہٰذا مخصوص تہذیب اور محدود زاویۂ
نگاہ کی بنا پر کسی ادب میں آفاقیت کی تلاش بے معنی ہے۔ آفاقی ادب مشترکہ تہذیب (Composite
Culture) کے بطن سے
پیدا ہوتا ہے۔ اردو زبان و ادب کی شاندار تہذیب ہمیشہ سے اس طرح کے باہمی اختلاط
اور آپسی رواداری کا پیش خیمہ رہی ہے۔اردو زبان اپنے ابتدائی دور سے ہی کسی ایک
مخصوص مکتبۂ فکر یا کسی ایک خاص تہذیبی روایت سے سروکار نہیں رکھتی۔ مختلف مذاہب
کے پیروکار شعرا اور ادبا ماسوا ذاتی معاملات کے سیاسی، سماجی اور مذہبی
خیالات پیش کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اس زبان کا سہارالیتے رہے ہیں۔ زبان کی یہ
روایت اتنی مستحکم اور پائیدار ہے کہ شاعروں نے اپنے مذہبی رہنماؤں اور دانشوروں کے
علاوہ مختلف مذاہب کے رہنماؤں اور دانشوروں کو اس زبان میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے
میں خود کو کبھی عاجز محسوس نہیں کیا۔ اردو زبان میں جہاں ایک طرف مختلف مذہبی
پیشواؤں کی شان میں قصیدے لکھے گئے اور مذاہب کی تبلیغ و اشاعت اس زبان میں کی گئی،
وہیں دوسری طرف مارکسی خیالات و نظریات کی تشہیر میں بھی اس زبان نے نمایاں
کارنامے انجام دیے ہیں۔ سیکولرزم کی جو صحت مند روایت اردو زبان و ادب کی تاریخ
میں ملتی ہے، بنگالی ادب کو چھوڑدیں تو اس کی مثال ہندوستان کی ایسی کسی اور دوسری
بڑی زبان میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ جس وقت ہندوستانی اقوام باطل انگریز
قوم سے برسر پیکار تھی تو’انقلاب زندہ باد ‘ کا پرشکوہ نعرہ اسی زبان کے بطن سے
پیدا ہوا تھا۔ سیکڑوں شعرا نے اس زبان میں وطن اور قوم سے متعلق گیت لکھ کر حب
الوطنی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ اردو زبان میں قلی قطب شاہ، نظیر اکبرآبادی،اقبال،
جوش ملیح آبادی اور پنڈت برج نرائن چکبست کے علاوہ جن شعرا نے وطن سے متعلق جذبے
کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے ان میں سرور جہان آبادی کا نام سرفہرست ہے۔
اردو
شاعری میں وطن سے متعلق اشعار سب سے پہلے قلی قطب شاہ کے یہاں ملتے ہیں۔ قلی قطب
شاہ نے اپنی نظموںمیں ہندوستانی پھلوں، پھولوں اور رسم و عقائد کی عکاسی بڑے
خوبصورت انداز میں کی ہے۔ نظیر نے قلی قطب شاہ کی اس روایت کی توسیع کی۔ نظیر کو
اپنے ماحول سے نہایت لگاؤ تھا۔ انھوں نے بلا امتیاز ملت و مذہب ہندوستان کے تمام تہواروں
اور رسم و رواج کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔ ان کی نظموں میں ہندوستان ہنستا، کھیلتا
اور اٹکھیلیاں کرتا نظرآتا ہے۔ مختصر یوں کہا جاسکتا ہے کہ نظیر کی شاعری میں قدیم
ہندوستان اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
نظیر
کے بعد سرور جہان آبادی کے یہاں حب الوطنی کا جذبہ نسبتاًزیادہ واضح نظرآتاہے۔
انھوں نے نظم کی تعمیر و ترقی میں ہندوستانی عناصر کو شامل کرنے جیسا اہم اور
نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ان کے مجموعۂ کلام میں نظموں کے علاوہ رباعیات بھی شامل ہیں جو
ہمیں ہندوستانی رنگ میں رنگی ہوئی دکھائی دیتی ہےں۔یہ نظمیں اور رباعیات ہندوستان کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، تاریخی اور تہذیبی
نظریات کی ترجمان وعکاس ہیں۔سرور کی نظموں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے عہد
کا ہندوستان سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحران کا شکار تھا۔ ملک ایسے موڑ پر کھڑا
تھا جہاں حب الوطنی کے جذبے کو ابھارنے کی اشد ضرورت تھی ،سرور نے یہ کارنامہ بحسن
خوبی انجام دیا۔
سرور
کو وطن اورو طن کی ہر شے سے دلی وابستگی ہے۔ نظیر نے اپنی نظموں میں جو ہندوستان
پیش کیا تھا سرور کی شاعری میں ایسا ہی ہندوستان ایک بار پھر اپنی تمام تر
رعنائیوں کے ساتھ ہمارے روبرو دکھائی پڑتا ہے۔ ان کے کلام میں ہرجانب ہندوستان کی
تصویر بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی نظریں ہندوستان کو دلہن کے روپ میں دیکھتی
ہےں۔ ان کی پوری شاعری میں ہندوستان پر شباب برستا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے
ہر شے کی تصویر اتنی عمدگی سے پیش کی ہے کہ اس کی مثال بعد کے شعرا میں جوش کے سوا
کسی اور کے یہاں نظر نہیں آتی۔ نسیم سحر کا یہ بند ملاحظہ کیجیے:
گھونگھٹ
الٹ الٹ کے رخ نازنیں سے تو
کرتی
ہے چھیڑسلسلۂ عنبریں سے تو
ہونے
کو ہمکنار گل و یاسمیں سے تو
چلتی
ہے بس کے عطر میں خلد بریں سے تو
یوں
دھیمی دھیمی آتی ہے تاروں کی چھاﺅں میں
مہندی
لگا کے جیسے چلے کوئی پاﺅں میں
سرور
کے یہاں حب الوطنی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ انھیں وطن کے ذرّے ذرّے سے بے تحاشہ
لگاﺅ ہے۔ ان کے نزدیک وطن کبھی دیوی ہے تو کبھی وطن میں انھیں
ماں کا روپ دکھائی دیتا ہے۔ کچھ جگہوں پروطن کو لکشمی ،درگا اور سرسوتی بھی کہا
گیا ہے۔ غرض وطن کی محبت ان کے دل کے نہاں خانوں میں گہرائی سے رچی اور بسی ہوئی
ہے۔ مادرِہند کا یہ بند ملاحظہ فرمائیے:
تیرا
دیو استھان دیوی دل کے کاشانے میں ہے
تیری
تصویر مقدس ہر صنم خانے میں ہے
لکشمی
تو ہے زمانے میں اُجالا ہے تیرا
ہر
کنول کا پھول پانی میں شوالا ہے تیرا
سرسوتی
کا روپ ہے درگا کا ہے اوتار تو
نطق
و دانش کی ہے دیوی مادرِ غم خوار تو
اُف
یہ سندر چھب تری، یہ سانولی صورت تری
دل
کے مندر کی ہے زینت موہنی صورت تری
وطن
سے متعلق سرور نے جو نظمیں کہی ہیں ان میں موضوعات کی وسعت اور ہمہ گیری کے ساتھ
دلکشی اور رعنائی کی جھلک بھی ملتی ہے۔ سرور کے ذریعے اردو شاعری میں پہلے پہل
ایسے موضوعات پر طبع آزمائی کی گئی جو اردو شاعری کے لیے بالکل نئے اور اچھوتے
تھے۔ گنگا، جمنا، پریاگ کا سنگم، نورجہاں، پدمنی، بیربہوٹی، گلِ فردوس، لکشمی جی،
سیتا جی کی گریہ وزاری، پھولوں کا کنج، مہاراجہ دشرتھ کی بیقراری، نسیم سحر، فضائے
برشگال، عروسِ برشگال، شفق شام ، بھنورے کی بیقراری جیسے مضامین کو اردو میں سب سے
پہلے متعارف کرانے کا سہرا سرور کے سر ہے۔ متقدمین شعراے اردو نے اس سے قبل اس طرح
کے موضوعات سے کبھی استفادہ نہیں کیا تھا۔ ان موضوعات کی اہم بات یہ ہے کہ ان سے
متعلق نظموں کی فضا اور رنگ خالص ہندوستانی ہے۔
گنگا
جمنا پر لکھی نظموں میں سرور نے قدیم ہندوستانی روایت کو بروئے کار لاتے ہوئے چھیڑ
چھاڑ اور عشق و عاشقی کے پیرائے میں وطن سے اپنی محبت اور انسیت کا اظہار کیا ہے۔
اس طرح کی شاعری میں بعض جگہ جمال پرستی کے ساتھ ساتھ جنسیت کا دھوکا ہوتا
ہے۔شاعرنے اپنے محبوب کے پیکر اور سراپاکا ذکر کرتے ہوئے اسے برج کی پاک دامن اور
مقدس نازنین جیسے القاب سے خطاب کیا ہے اور اس کی جادوئی روش کو حسینوں سے بھی
زیادہ البیلی روش قرار دیا ہے۔ جمنا کے تقدس اورپاکدامنی کا بیان بھی اسی بند میں
کیا گیا ہے۔ یہاں لفظوں کا تضاد بآسانی دیکھا جاسکتا ہے
آہ!او
رنگیں ادا او دلی والی نازنیں
او
دو عالم کے حسینوں سے نرالی نازنیں
دھیمی
دھیمی وہ تری رفتار بل کھائی ہوئی
وہ
نظرجھینپی ہوئی چتون وہ شرمائی ہوئی
وہ
حسینوں سے نرالی تیری البیلی روش
دل
پہ جادو کرنے والی تیری البیلی روش
برج
کی او پاک دامن اور مقدس نازنیں
نقش
ہے دل پر ترے اک اک ادائے دلنشیں
اسی
نظم کے اگلے اشعار میں وہ جمنا سے پوچھتے ہیں کہ وہ کون ہے جو تیری لہروں میں پردہ
نشیں ہوکر بیٹھا ہے، تیری موجوں سے آرہی صدائے دلفریب کس کی ہیں کون تیرے خانۂ دل
میں رقص کناں ہے، اور یہ چھا گل کی صدائے جاں نواز کس کی ہے؟ (حرکت کے باعث لہروں
میں پیدا ہورہی آواز کو سرور نے چھاگل کی صدائے جاں نواز کہا ہے):
کون
یہ پردہ نشیں ہے تیرے دامن میں نہاں
کس
کا چہرہ ہے نقابِ زلفِ پرفن میں نہاں
تیری
موجوں میں ہے یہ کس کی صدائے دلفریب
گارہی
ہے کون یہ غارت گرِ صبر و شکیب
خانۂ
دل میں ہے تیرے کون محوِ رقص و ناز
آرہی
ہے کس کی چھاگل کی صدائے دل نواز
اسی
طرح گنگا سے متعلق اشعار میں بے پایاں محبت اور خلوص کا اظہار کرتے ہوئے اس حیات
آفریں ندی کو پاک نازنیں، ناز آفریں اور صدق و صفا کی دیوی کے ساتھ ساتھ بحرِ
معرفت اور پاکباز ہستی جیسے الفاظ سے خطاب کرکے گنگا کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار
کیا ہے۔ درج ذیل اشعار ملاحظہ کریں:
اوپاک
نازنیں او پھولوں کے گہنے والی
سرسبز
وادیوں کے دامن میں بہنے والی
او
ناز آفریں اوصدق و صفا کی دیوی
اوعفتِ
مجسم، پربت کی رہنے والی
حسنِ
غیور تیرا ہے بے نیازہستی
تو
بحرِ معرفت ہے اوپاک باز ہستی
حب
الوطنی ایسا جذبہ ہے جو تقریباً ہر ذی روح میں پایا جاتا ہے۔ وطن کی محبت میں
انسان بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتا ہے۔ سرور کا وطن ان کا پرستش کدہ
ہے۔ ان کی شاعری میں وطن اس قدر اعلیٰ اور عظیم قدروں کا حامل ہے کہ یہاں تمیز
مذہب و ملت کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی ہے وطن سے عشق سرور کا ایمان ہے:
ناقوس
اور اذاں میں نہیں قیدکفر و دیں
اس
کے لیے کہ جس کا پرستش کدہ ہے تو
گنگا
نہانے شیخ اگر تیرا اذن ہو
تیرا
اشارہ ہو تو برہمن کرے وضو
تیرا
طریقِ عشق ہی ایمان ہے مرا
تیرے
فدائیوں میں ہوں اے شوخ خوبرو
جلوہ
نہ ہو کسی بت رعنا کا سامنے
وہ
دن خدا کرے کہ ہو آنکھوں میں تو ہی تو
سرور
کے عہد کا ہندوستان تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ملک کے آسمان پر شکست و ریخت کے بادل
منڈلارہے تھے تو زمین پر ہر سو مفلوک الحالی کا دور دورہ تھا۔ سرور کو ملک کے
حالات کا بخوبی علم تھا۔ وہ اپنے تہذیبی سرمائے سے بھی مکمل واقفیت رکھتے تھے۔اس
شکست وریخت اور پرآشوب عہد میں ہندوستانی قوم میں بیداری کی غرض سے سرور نے انھیں
ملک کی عظمتِ پارینہ کی داستانیں سنائیں اور وطن کی عظمت کے نغمے گائے۔ اسلاف کے
کارناموں کاذکر ان کی نظموں میں بڑے موثر اور دلنشیں انداز میں ملتا ہے۔ ان کی
نظموں کو دیکھ کر یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ سرور کی نظمیں ہندوستان کی عظمت کی
تاریخ اور عظیم ہندوستانیوں کی داستان ہیں۔ خاکِ وطن کے یہ اشعار ملاحظہ
فرمائیں:
آہ
اے خاکِ وطن اے سرمۂ نور نظر
آہ
اے سرمایۂ آرائشِ جان و جگر
تیرے
دامن میں شگفتہ تھے کبھی قدرت کے پھول
گندھ
رہے تھے تیری چوٹی میں کبھی وحدت کے پھول
جب
مسلط خلق پر تھی خوابِ غفلت کی گھٹا
موتی
برساتی تھی تجھ پر ابررحمت کی گھٹا
رفعت
بامِ فلک تھی تیری پستی میں نہاں
عظمت
خود تھی شرارِ اوجِ ہستی میں نہاں
جب
تمدن کا بندھا عالم میں شیرازہ نہ تھا
شاہدِ
قدرت نے جب رخ پر ملا غازہ نہ تھا
بادۂ
تہذیب سے خالی تھا جب یورپ کا خم
ایشیا
کا آہ جب بیڑا تھا تاریکی میں گم
جب
نہ تھی یونان میں علم و ہنر کی روشنی
جلوہ
افروزِ خرد تھی تیرے گھرکی روشنی
سرور
کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے شاعری کے ذریعے عوام کے دلوں میں بغاوت کا جذبہ پیدا
کرنے کی بجائے ان کے دلوں میں محبت کا جذبہ بیدار کیا۔ مزاج میں شرافت اور سادگی
کی وجہ سے انقلاب کا نعرہ بلند کرنے کی بجائے انھیں مصلحت پسندی پر آمادہ کیا۔
احتجاج کے بجائے دلوں میں مادر وطن کی عظمت کا احسا س پیدا کیا۔ قومی اتحاد اور
آپسی محبت کا درس دیا۔ آزاد ہندوستان کا ایسا واضح اور دل خوش تصور پیش کیا جو دوسرے کسی اور شاعر کے یہاں
قطعی نظر نہیں آتا۔ پھولوں کا کنج ان کی ایسی ہی ایک نظم ہے۔ اس نظم کے چند اشعار
سے سرور کی جدتِ طبع کا احساس بخوبی ہوجاتا ہے:
پھولوں
کا کنج دل کش بھارت میں اک بنائیں
حب
وطن کے اس میں پودے نئے لگائیں
خونِ
جگر سے سینچیں ہرنخلِ آرزو کو
اشکوں
سے بیل بوٹوں کی آبرو بڑھائیں
ایک
ایک گل میں پھونکیں روحِ شمیم وحدت
اک
اک کلی کو دل کے دامن سے دیں ہوائیں
فردوس
کا نمونہ ہو اپنا کنج دل کش
سارے
جہاں کی جس میں ہوں جلوہ گر فضائیں
مل
مل کے ہم ترانے حب وطن کے گائیں
بلبل
ہیں جس چمن کے گیت اس چمن کے گائیں
سرور
نے سیاست میں کبھی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ان کے عہد کا ہندوستان جس کشمکش سے دوچار
تھا، سرور اس سے لاعلم قطعی نہیں تھے۔ وطن سے متعلق ان کی نظموں میں سیاسیات کی
جگہ جمالیاتی عنصر زیادہ نمایاں ہے۔ ان کی بعض نظموں میں سیاسی رنگ و آہنگ ملتا
ہے، لیکن یہاں بھی ان کا انداز دیگر شعرا سے مختلف اور جدا ہے۔ شہرآشوب کا ذیل بند
انھیں خیالات کی نمائندگی کرتا ہے:
جگر
فگار جدا دل ہے درمند جدا
کہ
قومیت کے ہے پتلے کا بند بند جدا
روش
جدا ہے، طریقہ جدا، پسند جدا
کہ
ایک ایک کے ہے درپئے گزند جدا
یہ
غیریت مرے پروردگار کیسی ہے؟
روش
یہ قوم نے کی اختیار کیسی ہے؟
سرور
کی قومی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ:
”ان کی قومی
شاعری کی شان دوسری ہے۔ یہ قدیم و جدید کی کشمکش سے آزاد ہے۔ ا س کے جذبے میں
سادگی، خیال میں معصومیت اور محبت میں عقیدت کا عنصر ملتا ہے....ان کی وطن دوستی
اور قوم پرستی بے میل، بے ریا اور بے لوث ہے۔ یہ اجتماعی احساس سے ناآشنا نہیں
لیکن سیاست کے داﺅ پیچ سے بلند اور بے نیاز ہے۔“
(ڈاکٹر گوپی
چند نارنگ، اردو شاعری میں ہندوستانی عناصر ،ص 277)
ان
مختصر تجزیے کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ قومی اور وطنی شاعری کے لیے فکر و نظر
کی جوگہرائی، تخیل کی جو بلند پروازی، جذبات کی جو آہنگی اور فطرت سے جس قدر
وابستگی درکار ہے سرور کی وطنی شاعری ان تمام خوبیوں سے مالا مال ہے، نظمیہ شاعری
جن حسین جذبوں اور خوبصورت احساسات سے عبارت ہے سرور کی شاعری میں وہ تمام اوصاف و
عوامل پوری طرح پائے جاتے ہیں۔
اردو دنیا کے اس شمارے کے مطالعے کے لیے یہاں کلک کریں
اردو دنیا کے اس شمارے کے مطالعے کے لیے یہاں کلک کریں
Abdur
Rahman
Tapti
Hostel, JNU
New
Delhi - 110067
Mob.:
9015763031
Email.:
uharahman@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں