13/10/17

مشترکہ وراثت اور جمہوری زبان از رضوانہ

اردو زبان رنگ و نسل، مزاج وا حتیاج اور دل میں اُتر جانے والے اپنے استعاروں اور کانوں میں شہد گھولنے والی اپنی شیرینی کے باوصف آج بھی تروتازہ، شگفتہ اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ اردو ہماری اور ہمارے ملک کی مشترکہ وراثتوں کی نہ صرف امین ہے بلکہ اپنے جمہوری طرز ادا، اندازِ بیان اور دلوں میں تحرک و تموج پیدا کرنے کی وجہ سے عالمی سطح پر اپنی موجودگی کا ایسا احساس جگا رہی ہے کہ عالم کاری کے اس دور میں اردو سے نابلد افراد بھی اس کی چاشنی اورمٹھاس کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔

بحمد اللہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہندوستان میں اردو کی صورتِ حال جیسی بھی ہو سخن فہمی برقرار ہے ۔ یہاں بازاروں سے لے کر ایوانوں تک اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ہندی اور انگریزی کے الفاظ اور جملے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک ہم خود کو ہر قسم کے تعصب سے پرے رکھ کر اردو کی سماجی، لسانی اور تہذیبی صورت حال کا از سرِ نو جائزہ نہیں لیتے اس وقت تک زبان کے ساتھ انصاف نا ممکن ہے اور مشترکہ تہذیبی و رثہ کا احیا بھی ممکن نہیں۔  زبانیں انسان کی امتیازی صفات کے ساتھ ساتھ سماجی اور تہذیبی عناصر کی مظہر بھی ہوتی ہیں۔ اس سے ماورا  رہ کر ہم زبان کے تعلق سے سماجی تشکیل اور اس کی معنویت کو برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ کیوں کہ زبان ہمارے سماجی، تہذیبی، فکری اور تعلیمی رشتوں سے ہی پہچانی جاتی ہے اور یہی وہ زمین ہے جسے اساس قرار دیتے ہوئے زبان کی قدرو قیمت کا تعین کرتے ہیں۔ پس اردو زبان و ادب کی جڑوں کا ہندوستان کی فضا، فکر اور مزاج سے استوار ہونا ایک لازمی امر ہے۔

شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور پھر دہلی میں ان کی حکومت 1193 کے بعد ہندوستان کے مقامی باشندوں اور نو وارد مسلمانوں کے باہمی اختلاط اور میل جول سے ایک نئی زبان وجود میں آئی۔ جو مختلف ادوار میں ہندوی، ریختہ، دکنی اور پھر اردو کے نام سے مشہور ہوئی۔ چوں کہ باہر سے آنے والے مسلمانوں کی زبان ترکی، فارسی اور عربی تھی۔ آریوں نے سنسکرت کو سرکاری زبان کی حیثیت دے رکھی تھی لیکن وہ عام بول چال کی زبان کا مقام حاصل نہ کرسکی۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ وہ اسے پسند بھی نہیں کرتے تھے، لیکن مسلمانوں کا مسئلہ اس کے برعکس تھا۔ انھوں نے آتے ہی اپنی ترکی، فارسی، عربی زبانوں پر ہندوستانی رنگ کا اثر قبول کرنا شروع کردیا ۔ جس سے ایک نئی تہذیب پروان چڑھنے لگی۔ اب چوں کہ زبانوں کا تعلق انسانوں کے تہذیبی ، تمدنی، معاشرتی ارتقا سے براہِ راست ہوتا ہے اور اسی تعلق کے باعث زبانیں غیر ارادی طور پر پیدا ہوتی ہیں اور رفتہ رفتہ سماجی ضرورت کے تحت پروان چڑھتی ہیں۔ مسلمانوں کے مذہبی منشور کے اصول و ضوابط عالمی سطح پر مبنی ہیں اس وجہ سے ان میں قومی اتحاد و اشتراک کی گنجائش بہت ہے۔ لہٰذا ہندوستان کی مقامی قوموں کے اشتراک اور باہمی ارتباط نیز ہندوستان کی مختلف بولیوں کے آپسی اختلاط و امتزاج نے زبانِ اردو کو جنم دیا ،اس سے متعلق ڈاکٹر تارا چند رقم طراز ہیں :
مسلم ذہن ہندوانہ رنگ وروپ قبول کرنے لگا اور اس نے فارسی و ترکی کی جگہ مقامی زبانوں کو سیکھا اور استعمال کرنا شروع کیا ۔ ہندوؤں نے عربی ،فارسی اور ترکی الفاظ کو مقامی محاوروں میں جگہ دی ۔ اس لین دین کا منافع ہماری تہذیب کے خزانے میں اردو کی شکل میں شامل ہوا۔
(ہندوستانی کلچر کا ارتقا، تاریخ کے آئینے میں ، ڈاکٹر تارا چند، اگست1967، ص: 48)

ہندوؤں اور مسلمانوں کے اشتراک اور نئی تہذیبی معاشرتی ضرورتوں کے تحت سب سے زیادہ ترقی کرنے والی زبان اردوتھی۔ تقسیم ہند 1947 کو تاریخ کا ایک ایسا سانحہ پیش آیا جس نے ملک کے ہر چھوٹے بڑے طبقے کو سیاسی، سماجی، معاشرتی، مذہبی، ادبی اور لسانی سطح پر بری طرح سے متاثر کیا۔ انگریزوں کی پیدا کردہ منافرت نے مذہبی فرقہ پرستی کی بنیاد پر ملک کے ٹکڑے کرنے کے علاوہ صدیوں پرانی تہذیب و تمدن کو پارہ پارہ کردیا۔ قیام پاکستان کے بعد اردو زبان کے ساتھ لسانی سطح پر بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ اس کی ایک وجہ مسلمانوں کی حالت زارتھی ،دوسرے برطانوی حکومت کی شہہ نے ہندوؤں میں یہ خیال اورقوی کر دیا کہ ہندی بھی دفتری و عدالتی زبان ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد لوگوں میں اردو زبان کے خلاف مخالفت کا جذبہ شدید ہوتا گیا اور یہی وجہ ہے کہ سیاست دانوں نے ہندی کو مرکزی زبان کا درجہ دے کر اردو کا دائرہ تنگ کرنے کے لیے نفسیاتی طور پر دباو ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی بلکہ اردو طبقہ کے لیے معاشی صورتِ حال ایک بڑا مسئلہ بن کر کھڑی ہوگئی اور یہی نہیں بلکہ مردم شماری میں اردو والوں کی تعداد حتی الامکان گھٹا کر دکھائی جانے لگی،لیکن وہ پژ مردگی جو آزادی کے فوراً  بعد اردو والوں پر طاری تھی دھیرے دھیرے اس کی کثافت دور ہوتی گئی لہٰذا  اردو کی بازیابی کے لیے انفرادی و اجتماعی طور پر کوششیں شروع ہوئیں۔

اس سلسلے میں جو اصلاحی تحریکیں وجود میں آئیں وہ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے کے علاوہ اردو کی بقا و ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں جس کا عملی ثبوت ”انجمن ترقی اردو“ اور” قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان“ ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو مرکزی حکومت کے تحت اردو کی ترقی کے لیے کام کرنے والا ادارہ ہے جب کہ انجمن ترقی اردو (ہند) نے منظم ہوکر مختلف کمیٹیاں اور ادارے قائم کرکے اردو کی ترویج کے لیے راہیں ہموار کیں۔

 اس وقت ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس نے تقسیم کا الزام اردو کے سر لگایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تقسیم کا عمل اردو کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا، مگر یہ تقسیم ہند کا ایک بے بنیاد، تعصبانہ، سطحی اور یک رُخا مطالعہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ برطانوی تسلط کی ابتدا سے ہی اردو نے ان کے خلاف جس باغیانہ رویہ کو اختیار کیا، اس کی مثال دوسری زبانوں میں نہیں ملتی۔ لسانیات کے تعلق سے نہ صرف اردو پر یہ الزام بے بنیاد ہو کر رہ جاتا ہے، بلکہ اردو کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

ادب چوں کہ اپنے دور کے سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات کا آئینہ دار ہوتا ہے اور شاعری جو کہ اس کا جزو لازم ہے اور کسی بھی انقلاب کو سامنے لانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ اس نے غیر ملکی حکمرانوں سے نجات دلانے کے لیے احساس غلامی سے نجات دلائی۔ قومی و وطنی شعور کو بیدار کیا اور حصولِ آزادی کے لیے ہر طرح کے خطرات ، ظلم و تشدد کے خلاف نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیا۔ اردو نے جنگ آزادی کے دوران انقلاب زندہ باد ، ہم آزادی لے کر رہیں گے۔ جیسے پر اثر نعرے دیے، ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘  جیسا ترانہ پیش کیا۔ اپنی پرجوش نظموں اور غزلوں سے مجاہدین آزادی کا لہو گرمایا،  وہی اردو زبان آج اپنے ملک میں اجنبی ہوگئی۔جب کہ اردو ہی وہ زبان ہے جسے حب الوطنی اور تحریک آزادی کا مظہر کہا جاسکتا ہے۔ جس نے کسی نہ کسی زاویے سے اجتماعی زندگی کو متاثر کیا۔ معین الدین عقیل کے مطابق:
مسلسل سیاسی انتشارات کے نتیجے میں جب قومی تحریکیں وجود میں آئیں تو اردو نے نہ صرف تحریکوں کی جدوجہد کو بیان کیا بلکہ ان میں عملاً حصہ بھی لیا۔
(تحریکِ آزادی اردو کا حصہ، معین الدین عقیل، پاکستان کراچی 1976، ص: 111)

یہ زبان اپنی فطرت کے مطابق مخلوط سماج کا حصہ ہے۔ اس کا سیکولر کردار ہی سب سے نمایاں خصوصیت کا حامل ہے۔ وہ مشترکہ زبان جو حصولِ آزادی کے لیے چلائی گئی، تمام تحریکوں کا محور  رہی، افسوس کہ کچھ متعصب اشخاص کی وجہ سے آزادی کے فوراً بعد ہی اسے غیر ملکی زبان کے نام سے پکارا گیا اور جو وجوہات اس کے غیر ملکی ہونے کی بتائی گئیں یا جو معیار قائم کیا گیا وہ اس قدر بھونڈا اور پھسپھسا ہے کہ اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہندوستان کی موجودہ کسی بھی زبان کو ہندوستانی ہونے کا حق حاصل نہیں۔

آزادی کے معاً بعد یعنی 1947میں ہی آفیشل لینگویج ایکٹ پاس کرکے مرکز اور یوپی دونوں جگہ ہندی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ جب کہ اردو کو اس کی خدمات کے صلے میں دوسری سرکاری زبان تک بننے سے محروم رکھا گیا۔ اردو زبان سے متعلق آج بھی لوگوں میں یہ غلط فہمیاں رائج  ہیں کہ یہ صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ مسلمانوں سے وابستگی کے سبب یہ زبان ہندو اکثریت کی ناراضگی کا شکار ہوگئی۔ یعنی آزادی سے پہلے اردو تمام قوموں کی خاص طور سے مسلمانوں ،سکھوں اور ہندوؤں کی مشترکہ زبان تھی لیکن آزادی کے بعد سکھوں اور ہندوؤں نے اردو کو اپنے دائرۂ عمل سے خارج کردیا۔ لہٰذا اپنے شاندار ماضی کو کھونے کے بعد اردو صرف ”مسلمانوں کی زبان“ بن کر رہ گئی۔

ادب کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح مسلمانوں کا تہذیبی، ثقافتی، تمدنی اور مذہبی ورثہ اردو ادب میں موجود ہے، عین اسی طرح غیر مسلم بالخصوص ہندو دھرم سے متعلق کثیر مذہبی سرمایہ بھی اردو ادب میں محفوظ ہے۔ مثلاً بھگوت گیتا، پران، رامائن ، بدھ ازم، جین ازم وغیرہ سے متعلق معلومات یا تراجم! بھگوت گیتا کے تقریباً 82مطبوعہ ایڈیشن اور پرانوں کے 45 نسخے اردو زبان میں دستیاب ہیں۔اردو زبان کسی ایک مذہب، قوم کی نہیں بلکہ ہندو، مسلم،سکھ ،عیسائی سبھی قوموں کی یکساں طور پر محبوب ترین زبان رہی ہے، یہی وجہ تھی کہ ہر مذہب کے ماننے والوں نے اپنے دینی امور کی تبلیغ و ترسیل کے لیے اس زبان کا سہارا لیا ہے۔

 یہی وہ وجہ ہے کہ ہندی کے مرکزی زبان ہو جانے پر جب اسے تمام صوبوں پر مسلط کیا جانے لگا تو جنوبی ہند میں اس کا شدید ردعمل سامنے آیا جس کے نتیجے میں وہاں ہندی بولنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب کہ شمالی ہند میں جہاں اردو  دوسو برسوں سے ایک تہذیبی پس منظر میں چھائی ہوئی تھی اس کے ساتھ بے گانوں سا سلوک کیا گیا۔

 ہندوستان میں اردو کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ اردو ذریعۂ تعلیم کا محدود ہونا ہے۔ کیوں کہ کسی بھی زبان کی بقاو تحفظ اور ترقی کا انحصار ”تعلیم یعنی (Education) پر ہوتا ہے۔ اور یہ تعلیم مادری زبان میں ہی ممکن ہے ۔ تعلیم محض چند علوم و فنون کو سیکھ کر معلومات کا ذخیرہ جمع کرلینے کا نام نہیں بلکہ یہ بچے کی صحیح ذہنی نشوو نما اور اس کی صلاحیتوں کے بالفعل اظہار و تکمیل کا نام ہے۔ اس مقصد کے بغیر تعلیم ادھوری ہے۔ اس صورتِ حال سے نپٹنے کا واحد ذریعہ مادری زبان میں تدریس ہے۔

ہندوستان کے دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہیے۔ (دستور کی دفعہ A530 اور حکومت کی پالیسی کے مطابق)  سہ لسانی فارمولے کو پانچویں کلاس اور اس سے اگلی کلاس پر لاگو کرنا چاہیے۔ تاکہ مادری زبان کو ابتدا ہی سے لازمی زبان کے طور پر پڑھایا جائے۔ شمالی ہند کی کئی ریاستوں میں پہلی کلاس سے ہندی کو اول زبان کا درجہ دے کر پڑھایا جاتا ہے۔ یہ سہ لسانی فارمولے کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ اس طریق کار سے ہندی کو ان غیرہندی والوں پر تھوپا گیا ہے۔ جن کی مادری زبان اردو ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سیکولر تعلیم میں اردو کو جگہ دینے سے مسلسل احتراز اور انکار کیا جاتاجارہا ہے۔ اور افسوس اس امر پر بھی ہے کہ یہ سب خود کو سیکولر کہنے والی سیاسی جماعتیں کرتی رہی ہیں۔

وہ طلبا جن کی مادری زبان اردو یا دوسری کوئی اقلیتی زبان ہے اس کی بقا کی کیا گنجائش ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اردو کو دستور میں دیے گئے تحفظ کے باوجود قومی دھارے اور سیکولر تعلیمی نصاب سے منظم طور پر خارج کردیا گیا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اردو کی بقا و تحفظ کے لیے ایک ایسا فارمولہ تجویز کیا جائے جس سے اردو کو اسکول کی تعلیم میں لازمی طور پر شامل کیا جاسکے۔ ہندوستان کا دستور یقین دلاتا ہے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے۔

اردو کی مزید ترقی اور فروغ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی لسانی دستاویزات جو کہ عام لوگوں سے متعلق ہیں جیسے سرکاری نوٹس ، ووٹرلسٹ، راشن کارڈ وغیرہ دونوں زبانوں میں ہونا چاہئے۔ نیز عدالتوں میں ہر قسم کی دستاویزات اردو زبان میں بھی داخل کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ تمام سرکاری و غیر سرکاری کاموں کے لئے در خواستیں ہندی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی قبول کی جانی چاہئیں۔ تمام سرکاری اعلانات، اطلاعات، نوٹسز اور گزٹ کی اشاعت ہندی کے علاوہ اردو میں بھی ہونی چاہئے۔ ابتدائی اور مڈل سطح پر اردو کی تعلیم کا معقول انتظام ہونا چاہئے ۔ یہی نہیں بلکہ اردو داں طبقہ کے لئے اسی تناسب سے روزگار اور سرکاری سروسز میں جگہ کی فراہمی بھی ضروری امر ہے۔ اردو کو سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر جن تلخ حقیقتوں سے سامنا ہے وہ تو ہے ہی دستور میں دیے گئے حقوق کو ہر سطح پر نیک نیتی سے نافذ کرنے اور عملی جامہ پہنانے کی بھی ضرورت ہے۔

رضوانہ

1 تبصرہ: