16/10/17

حجاب امتیاز علی از اسماء ارم


بیسویں صدی کے اوائل میں اردو فکشن میں رومانیت ایک رجحان کے طو رپر ابھری جسے سرسید کے عقلیت پسند تحریک کی ضدماناجاتا ہے اس رومانی دورمیں کئی آفاق گیرادبی شخصیتیں منظرِعام پر آئیں۔جن میں ایک نمایا ں نام حجاب امتیاز کا ہے۔

مدراس کے ضلع آرکاٹ (وانم باڑی) میں 1907ءمیں پیدا ہوئیں ۔ والد محمد اسماعیل مدراس کے معزز و معروف شخصیتوں میں سے تھے۔ او روالدہ عباسی بیگم ایک ادیبہ تھیں۔ ابتدائی تعلیم گھر پر والد کی زیر نگرانی ہوئی اورحیدر آباد کے ایک مشن اسکول میں ا نگریزی کی تعلیم حاصل کی ۔والدہ چوں کہ اردوکی پر وردہ تھیں۔ اس لئے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔1930ءمیں اردوکے مشہور ڈرامہ نگارامتیاز علی تاج سے بلہاری میں  شادی ہوئی جس کے بعد لاہور کو اپنا گھر بنایا ۔جہاں پر خانگی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تہذیب نسواں کی ادارت کی ذمہ داری بھی نبھانے لگیں ۔

حجاب نے کافی کم عمری میں لکھنا شروع کیا ۔ساڑھے گیارہ سال کی تھیں جب ا نہوں نے اپنا پہلا افسانہ”میری ناتمام محبت“ تحریر کیا۔جو بعد میں نیر نگِ خیال میں شائع ہوا۔ نابالغ ذہن کے تراش شدہ اسی بت کی ساخت میں کئی جگہ بت تراش کی نوعمری او رجذ بات کی ولولہ انگریز ناہموار یاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن زبان وبیان ،فکر و فن ایک عمدہ افسانہ نگار کی آمد کا پتہ دیتے ہیں۔

ان کا دوسرا افسانہ ” ظالم محبت “تھا جو 1940ءمیں شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے کئی افسانے اورناول لکھے۔ جیسے”صنوبر کے سائے“٬ ”نغمات محبت“ ٬ ”لاش‘‘وغیرہ جو اُن دنوں تہذیب نسواں، عالم گیر ، اور نیر نگِ خیال وغیرہ میں شائع ہوئے۔

حجاب نے زیادہ ترافسانے ہی لکھے ہیں ۔مگر اپنے کینو یس اورکردار وں کے دائرہ عمل کے اعتبار سے یہ افسانے ناول ناولٹ کے ذیل میں آتے ہیں ۔ہلکے پھلکے ان رومانی سماجی ناولوں کی بنیاد ان کے عہد کا معاشرہ او ر اس کے مسائل ہیں۔ جس میں محبت عام اخلاقی اصول و اقدار اور سماجی قوانین سے ٹکراتی ہے او ر اسی ٹکرا و میں محبت کی شکست ہو تی ہے ۔سجاد حیدر یلدرم کے زیر اثر انہو ں نے ایسی تخیلی دنیا آباد کی جو مشرق وسطیٰ او ریو رو پین طرز ِمعاشرت کا حسین امتزاج نظر آتی ہے جس میں امرا اور رؤسا ، جو اہرات اور موتیوں میں کھیلتے ہیں اور جن کی خدمت کے لئے بے شمار گل رخ کنینر یں ادھر اُدھر بھا گتی پھر تی ہیں ۔ پوری فضا داستانی رنگ لئے ہوئے ہے جس میں سب کچھ اتفاقی ہے یہا ں تک کہ مسرت اور غم بھی جو ”یاد “بن کر مسرت کا ہی منبع لگتا ہے۔

ان کی کردار نگار ی بھی تخیلی سطح پر کی گئی ہے شاعرانہ اندازمیں پیش کر دہ ان کے کردار اکثرتیسری نسل سے ہیں جن کا واسطہ ماضی کی دونسلوں سے ہے ۔ ان کے اعمال مشرقی معاشرہ کا حصّہ ہیں مگر مغربی تعلیم کے زیرِ اثریہ فرد پچھلی نسلوں سے خود کو علاحدہ کر نے کی جدوجہد کر تے نظر آتے ہیں۔

جہاں تک قصہ کی تکنیک کا سوال ہے ان کی اکثر کہانیاں ”روحی “ بیان کر تی ہے جو کبھی کہانی کااہم کرداربن کرتوکبھی ثانوی کردار کی حیثیت سے دوسروں کی کہا نی پیش کرتی ہے مثلاً ’ ’ میری ناتمام محبت“ کے آغاز میں قبرستان کی پُر اسرار فضا میں” روحی“ اپنی ناکام محبت کو یاد کرکے اس کا افسانہ سنا تی ہے۔

زبان واسلوب کا انتخاب بھی حجاب نے موضوع کی مناسبت سے کیا ہے۔ حسن وعشق چوں کہ ان کا موضوع تھا اس لئے ان کی زبان نہایت لطیف وشیریں اور اسلوب شاعرانہ ہے۔ جہاں تک مکالموں کا تعلق ہے وہ نہایت ہی دلچسپ اور بر محل ہو تے ہیں۔جوکہانی کے ارتقامیں معاون ثابت ہو تے ہیں اور ساتھ ہی کردار وں کے مزاج او رکیفیات کی ترجمانی کر تے ہیں۔

تجزیۂ نفسی کی دلدادہ حجاب نے رومانی ناولوں کے علاوہ کئی نفسیا تی مضامین اور ناول بھی لکھے جو رسالہ ساقی ”میں شائع ہو ا کر تے تھے۔”اندھیرا خوب “ان کا مشہور نفسیاتی ناول ماناجاتا ہے اس کے علاوہ تہذیب نسواں میں” لیل ونہار “ کےعنوان سے انہوں نے روزنامچے بھی لکھے جوان کی ذاتی زندگی کی ترجمانی کرتے تھے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیے:

”شام کو گھر پر رہی اور آسمان کو تکتی رہی، رات کو کھانے کے بعد سا ڑھے نو بجے ”ت“ اور مَیں گورنمنٹ کالج کے ڈرامہ میں چلے گئے ۔ یاسمین نے پہلی دفعہ اسٹیج دیکھا اورخوش ہوئی“....
اپنی ذاتی زندگی میں بے نیاز رہنے والی حجاب کسی اور دنیا کی مخلوق لگتی تھیں۔ ان کے جینے کا انداز اور طرزِ گفتگو وہی تھا جواُن کے افسانوں میں نظرآتا تھا ۔وہ اپنے افسانوں کا خود بھی ایک پیکر تھیں ۔ان کی مختصر دنیا میں صرف تین افراد تھے وہ ،ان کی بیٹی یاسمین،اوران کے رفیق حیات اورساتھ ہی کئی درجن بلیاں ،طوطےوغیرہ بھی ان کے عجائب خانہ کا حصّہ تھے۔


حجاب کو ہو ابازی کابھی شوق تھا۔ وہ ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون ہوا بازتھیں۔ انہوں نے1936ءمیں نارون لاہور فلائنگ کلب سے پائلٹ کا لائیسنس حاصل کیا تھا۔اپنے آخری ایام میں وہ ادبی دنیا سے علاحد گی اختیارکر کے اپنی فیملی کے ساتھ ایک پُرسکون زندگی بسر کر نے لگیں۔ 1999ءکووہ اس دنیا ئے فانی سے کوچ کرگئی اورلاہور میں مدفون ہوئیں۔

اُردو ادب میں انہیں ایک منفرد مقام حاصل ہے ان کی کئی تخلیقات کو شاہکار مانا جاتا ہے مگر جن مطبوعات کوغیر معمولی شہرت نصیب ہوئیں ان میں” لاش“، ”صنوبر کے سائے“، ” میری ناتمام محبت “، ”ظالم محبت “، ” الیاس کی موت “، ” موت کا راگ“، ”آپ بیتی۔تصویر بتاں“ وغیرہ شامل ہیں۔

اسما ء ارم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں