20/10/17

حفیظ جالندھری بہ حیثیت افسانہ نگار از محمود فیصل


حفیظ جالندھری بہ حیثیت افسانہ نگار
بیسویں صدی میں اردو ادب کے اہم معماروں میں حفیظ جالندھری کا نام سر فہرست ہے۔ ان کے افکار عالیہ نے اردو نظم و نثر کوجو سرمایہ فراہم کیا ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ حفیظ جالندھری آسمانِ اردو ادب پر ایک شاعر کی حیثیت سے جلوہ گرہیں۔ انھوں نے خوبصورت گیت، عمدہ ترانے، بہترین غزلیں اورشاہنامۂ اسلام جیسی شاہکارتخلیق پیش کی ہے۔ ان کی صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے 1934 میں حکومت برطانیہ نے انھیں ’خان صاحب‘ کے خطاب سے نوازا۔ 1936 میں نواب ٹونک نے ’ملک الشعرا‘ کا خطاب عطا کیا۔ 1937میں مہاراجہ سر کشن پرساد صدر اعظم دولت آصفیہ نے ’حسان الملک بہادر‘ کا خطاب دیا۔ 1945 میں حکومت برطانیہ نے جنگ عظیم میں وفاداری کے صلے میں ’خان بہادر‘ کے خطاب سے سرفرازکیا۔ 1956میں حفیظ جالندھری کو ملّی جذبات وخدمات کے اعتراف میں ’ہلال امتیاز‘ کا تمغہ عطا کیا گیا اور6جولائی 1968 میں پاکستانی قومی ترانے کے خالق کے طورپر ایک خصوصی اعزاز ’نقرئی قلمدان‘ پیش کیا گیا۔
حفیظ جالندھری نے مختلف اصناف ادب میں طبع آزمائی کی اور اہل نقد و نظر سے داد وتحسین وصول کی۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی ادیب ایک سے زائد اصناف کو اپنے تخلیقی دائرے میں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے تواس کے لیے ان اصناف کے ہر جزکاحق ادا کرنا تقریباً ناممکن سا ہوتا ہے، کیوں کہ کسی ادیب کا ایک صنف پر عبور حاصل کرنا تو آسان عمل ہے، مگر ہر صنف کا ماہر ہونا تقریباً محال ہے۔ جیسے میر اور غالب کی عظمت کا ہرکوئی قائل ہے۔ دونوں کی غزلیں اردو ادب کا بہترین سرمایہ ہیں۔ لیکن میر کی مثنوی میرحسن کی مثنوی کا مقابلہ نہ کرسکی اور غالب کا قصیدہ ذوق یا سودا کے قصیدوں کامقام حاصل نہ کرسکا۔
حفیظ جالندھری جتنے اچھے شاعر اتنے ہی عمدہ  نثر نگار بھی تھے۔ ان کے مجموعۂ کلام کے تعارف یا دیباچے کی تحریریں اورعمدہ زبان اس کامنھ بولتا ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کے یہاں باقاعدہ نثر لکھنے کا رجحان موجود ہے۔ ان کی نثری خدمات میں ’نثرانے‘ (مضامین کا مجموعہ)، ’چیونٹی نامہ‘ (اس میں مختلف طرح کے مضامین شامل ہیں، جس میں اکثر مضامین چیونٹی سے متعلق ہیں)، ’بدر شہزادہ-جواہر شہزادی‘، ’بدرالدین حسن کی خوابی دلہن‘، ’عمرو عیار(حصہ اول)‘، ’انتخاب دیوان حالی‘ اور’حفیظ تاشقند میں‘(سفرنامہ) شامل ہیں۔
حفیظ جالندھری کی حیثیت شاعری میں ایک مسلم الثبوت استاد کی ہے۔ بطور افسانہ نگار ان کی شناخت کسی دور میں نہیں رہی۔ مگر حفیظ جالندھری نے افسانہ لکھتے وقت افسانوں کے تمام فنی لوازم کوپیش نظر رکھا ہے۔ مجموعی طور پر وہ ایسے افسانہ نگاروں کی صف میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ جنھوں نے معاشرتی مسائل کو موضوع بنا کر انسانوں کے اضطراب اور بے چینی کو سمجھنے اور اس کی مکمل ترجمانی کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ کردار کے جذبوں اور اس کے داخلی پہلوؤں سے بھی غافل نہیں رہے، بلکہ افسانہ لکھتے لکھتے حفیظ جالندھری جدید افسانہ نگاری کی حدود کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔
حفیظ جالندھری کی افسانہ نگاری کی شروعات بھی ضرورت کے پیش نظر ہوئی تھی۔ 1924 میں انھیں معروف ادبی رسائل ’نونہال‘، ’ادب اطفال‘ اور ’ہزارداستان‘ کی ادارت کی پیش کش کی گئی،’ہزار داستان‘ میں طبع زاد افسانوں کے بالمقابل انگریزی ادب سے ماخوذ افسانوں کی اشاعت کا اہتمام کیا جاتا تھا، رسالے میں مدیر کا افسانہ شامل ہونا اس کی لیاقت وصلا حیت کی دلیل ہوتی تھی۔ حفیظ جالندھری بطور مدیر ان افسانوں کی نوک پلک تو سنوارتے تھے، لیکن اس وقت تک حفیظ جالندھری نے کوئی افسانہ نہیں لکھا تھا، ان کے ادبی حریفوں کو طعن و تشنیع کا ایک موقع ہاتھ آگیا، تب حفیظ جالندھری کو انگریزی زبان سے عدم واقفیت کا شدت سے احساس ہوا۔ اس مشکل کا حل تلاش کرنے اور حریفوں کولاجواب کرنے کے لیے حفیظ جالندھری نے طبع زاد افسانہ لکھنے کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا افسانہ رسالہ ’ہزار داستان‘ مارچ 1924 میں ’احساس آوارگی‘ کے نام سے شائع ہوا، لاہور کے ادبی حلقوں میں اس افسانے کی بہت پذیرائی ہوئی، اس حوصلہ افزائی سے حفیظ جالندھری کی ہمت بندھی اور انھوں نے اس کے علاوہ کئی افسانے تحریر کیے۔ حریفوں کا یہ احسان ہے کہ ان کے طعن و تشنیع نے حفیظ جالندھری کو افسانہ نگار بنادیا اوراس کی وجہ سے اردو دنیا دو افسانوی مجموعے ’ہفت پیکر‘ اور ’معیاری افسانے‘ سے مالا مال ہوگئی۔
حفیظ کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’ہفت پیکر‘ کے نام سے1929 میں منظر عام پر آیا۔ کتاب کا انتساب معروف افسانہ نگار’ سجاد حیدر یلدرم‘ کے نام ہے۔ سیدامتیا زعلی تاج نے ’ ہفت پیکر‘ کا بہت طویل مقدمہ تحریر کیا ہے۔سیدامتیاز علی تاج نے مقدمے میں لکھا ہے کہ حفیظ جالندھری ایک اچھے افسانہ نگار ہیں لیکن ان کی شاعری کی شہرت و عظمت نے ان کے افسانوں کے حقیقی معیا رو مرتبے کو سامنے آنے نہیں دیا۔ اس سلسلے میں سیدامتیاز علی تاج رقمطراز ہیں:
اردو ادب میں حفیظ صاحب کو جو شہرت اور ناموری حاصل ہوئی ہے وہ تمام تر ان کی شاعری کی ممنون احسان ہے اور اس میں ان کے مختصر افسانوں کو ذرا بھی دخل نہیں۔ جو لوگ انھیں بحیثیت شاعر کے جانتے ہیں ان میں سے اکثر کو علم نہ ہوگا کہ وہ مختصر افسانہ لکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان سے کہا بھی جائے کہ حفیظ کے افسانے ان کی شاعری سے کم قابل قدر نہیں توفی الحال کوئی اس پر غور کرنے کو آمادہ نہ ہوگا۔ لوگ حفیظ کی شاعری سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ اب انھیں کسی دوسری حیثیت میں دیکھ کر داد دینے کی مطلق گنجائش نہیں رہی۔“1
ہفت پیکر‘ کے مقدمے میں ہی سیدامتیاز علی تاج نے حفیظ جالندھری کی افسانہ نگاری پر بھی بحث کی ہے اور افسانوں کے اقتباسات پیش کرکے ان کی فنی حیثیت پر رائے بھی قائم کی ہے۔ حفیظ کے افسانوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :
حفیظ خصوصیت سے ایسے تاثر کو محسوس کرتا ہے جو مختصر افسانہ کے لیے مناسب و موزوں ہوتے ہیں اورپھر یہ بھول کر کہ مخلوط و منتشر زندگی کے کن واقعات یا خیالات نے ان تاثرات کا احساس دلایا تھا وہ اپنے مختصر افسانے کے لیے از سر نو ایسے واقعات تعمیر کرتا ہے جو نہایت واضح طور پر بغیر کسی قسم کی الجھن پیدا کرنے کے نہایت باقاعدگی اور خوبصورتی سے مطلوبہ اثر پڑھنے والے پر وارد کر دیتے ہیں۔“ 2
حفیظ جالندھری کے اس افسانوی مجموعے کی فنی و فکری حیثیت ضمنی ہی سہی، لیکن ایک بات توواضح ہے کہ حفیظ جالندھری نے ان افسانوں کے ذریعے جہاں معاشرتی مسائل کو سلیقے سے اجاگر کیا ہے وہاں دوسری جانب ان کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کے کئی افق روشن ہوئے ہیں۔ یہ افسانے بنیادی طور پر ہمارے معاشرے کے معاشی، جنسی، معاشرتی اور نفسیاتی حقائق کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان افسانوں کی زبان صاف، سادہ اور دلنشیں ہے۔ ہفت پیکر کو اردو افسانے میں ہمیشہ اس لیے اہمیت حاصل رہے گی کہ وہ حفیظ جالندھری کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس افسانوی مجموعے میں سہاگ کی رات، ہوشیار دیوانہ، خودکشی، احساس آوارگی، ملمع، حیات تازہ اور افسانہ در افسانہ شامل ہیں۔
افسانہ ’سہاگ کی رات‘ میں حفیظ جالندھری نے کسی نئے موضوع کا انتخاب نہیں کیا ہے، لیکن فن کے اعتبار سے وہ مکمل افسانہ کہلانے کا مستحق ہے۔ حفیظ جالندھری نے مخصوص حالات کے پیش نظر انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے وسوسوں اور اندیشوں کو خواب کی شکل میں بیان کیا ہے، واقعات کو بالکل سیدھے سادے انداز میں پیش کیا ہے۔اس افسانے میں ٹرین کے سفر کی روداد بیان کی گئی۔ حفیظ کے زمانے میں ٹرین سے سفر کرنا ایک دشوار ترین مرحلہ تھااور شادی بیاہ کے موقع پر تو لوٹ مار کے واردات ہوتے ہی رہتے تھے۔ خواب کا تعلق یہ ہے کہ آدمی جوسوچتا ہے یا جو وسوسے اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں، نیند میں بھی اس کو اسی طرح کے خیالات یا اس سے ملتی جلتی چیزیں نظر آتی ہیں۔اس افسانے میں ایک دلہن کی رخصتی کے منظر کو پیش کرنے کے بعدراستے میں پیش آنے والے واقعات کی تفصیل ہے،کہ کس طرح ڈاکوٹرین میں گھس کر دلہن کا سامان اور زیور زبردستی لوٹ لیتے ہیں اور اس کا شوہر اس کی حفاظت میں ڈاکوؤں سے دست و گریباں رہتا ہے، مگر اس درمیان ایک ڈاکو اس کی بیوی کو ٹرین سے نیچے پھینک دیتا ہے، اپنی دلہن کی حفاظت کی خاطر دولہا بھی ٹرین سے کود کر اس کی تلاش میں مصروف ہو جاتا ہے، دلہن بے ہوشی کی حالت میں اس کو ملتی ہے۔ موسم بھی بادو باراں کا ہو رہا ہے۔ بارش بھی اولے کے ساتھ شروع ہو جاتی ہے۔اسی بارش میں وہ اس کو کندھے پر لادے بڑی مشقت کے بعد ایک محفوظ مقام پرپہنچتا ہے،بہت جتن کرنے کے بعدجب دلہن کو ہوش آتا ہے تودولہا اس کی مزاج پرسی میں لگ جاتا ہے، ابھی اطمینان کا سانس بھی نہیں لے پاتا ہے کہ اتنے میں آسمانی بجلی اس کی بیوی کی زندگی کو ختم کردیتی ہے۔ جب دولہے کو ہوش آتا ہے تو الٹے لوگ اس سے سوال کرتے ہیں کہ کہاں سے بھگا کے لایا ہے،اوپر والے نے تجھے تیری غلطی کی سزا دے دی۔ مگر جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی مر چکی ہے توخود بھی ٹرین کے آگے کود کر جان دے دیتا ہے۔
انسانی فطرت کی منظر کشی حفیظ نے بہت ہی عمدہ انداز میں کی ہے۔ کہ شادی کے بعد آدمی شب زفاف کے لیے کیا کیا خواب سجاتا ہے۔مگر ایک خواب کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ’سہاگ کی رات‘ ایسی بھی  ہو سکتی ہے۔ البتہ اس افسانے میں ایک بات اور ہے کہ کس طرح شادی کے بعد آدمی (شوہر) کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ہرحال میں اس کے دکھ سکھ کا خیال رکھتاہے۔
اس افسانے کا اختتام حفیظ نے مثبت انداز میں کیا ہے کہ قاری کو اندازہ ہوجائے کہ یہ تو ایک خواب تھا جو ہمارے تجسس کو ہوا کے ہمرکاب کیے ہوئے تھا۔ افسانے کا اختتام اس طرح ہوتا ہے۔
میں نے یکایک بیدار ہو کر آنکھیں کھول دیں۔ والد میرا شانہ ہلا ہلا کر مجھے جگا رہے تھے۔
اٹھو اٹھو۔ اپنے شہر کا اسٹیشن آگیا۔
اتنے میں گاڑی پلیٹ فارم پر رکی میرے رشتے دار اور دوست دولہا دلہن کے خیر مقدم کے لیے کھڑے تھے۔ باجہ سے مبارکباد کی سریں نکل رہی تھیں۔ ہر طرف صبح صادق کا نور پھیلا ہوا تھا۔
میں نے تشویش سے کمرے میں ادھر ادھر دیکھا۔ والدہ دلہن کو برقع اوڑھا رہی تھیں۔ دولہن کے زیوروں کی چھنکار اور ہنسی قہقہوں کے درمیان میں اٹھ بیٹھا۔
واقعی میں نے خوفناک خواب دیکھا تھا۔‘‘ 3
ہوشیار دیوانہ‘ معاشرے اور انسانی فطرت اور اس کے باہمی رویوں کا ترجمان ہے۔ افسانے میں شوہر کا کردار بےوفا بیوی سے انتقام لینے کی کہانی بیان کرتا ہے۔ شوہر انتقام میں اتنا اندھا ہوجاتا ہے کی اپنی حاملہ بیوی کو قتل کردیتا ہے، اس کی بیوی کے ساتھ اس کا بچہ بھی اس انتقام کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، لیکن قتل کے بعد احساس جرم اس کو بے چین کیے رہتا ہے اور کسی بھی پل چین نہیں لینے دیتا ہے،اس کی بیوی اور زمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتاردیے جانے والے بچے کی یادیں اس کو مسلسل عذاب میں مبتلا رکھتی ہیں۔ افسانے کے آغاز کا اقتباس ملاحظہ ہو:
میں نے گناہ کیا، یہ صدا ئے خاموش میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ یہ ایک احساس ہے جو مدت سے میری زندگی پر محیط ہے۔ اتنی مدت سے جس کو میرے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ 4
اس افسانے میں حفیظ جالندھری نے آدمی کو ضمیر کی عدالت میں مجرم گردانا ہے اور ’میں نے گناہ کیا‘ یہ صر ف ایک جملہ نہیں ہے بلکہ ایک سزا ہے جو ضمیر کی عدالت کے ذریعے دی گئی ہے۔ سزا کی نوعیت یہ ہے کہ مجرم مسلسل ایک عذاب میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے اس کو سکون کا سانس نصیب نہیں ہوتا ہے۔
افسانہ ’خودکشی‘ میں ایک اہم سماجی المیے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ مڈل کلا س خاندانوں کی پریشانیاں، خونی وجذباتی رشتوں کی رسہ کشی، سوتیلے پن اور اس کے رویوں کے مکروفریب کی کہانی ہے جس میں ہر کوئی اپنا ہے مگر اپنوں کی خوشی سے خوش نہیں ہے۔ اپنوں کی ترقی کو اپنی تذلیل سمجھتا ہے۔ ان کی خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے۔ ان کے سکھ سے اتنا دکھی ہے جتنا کہ اپنے دکھ سے بھی نہیں ہے۔
افسانہ ’احساس آوارگی‘ موجودہ معاشرتی مسائل کا بہترین ترجمان ہے۔ حفیظ نے اس مسئلے کو موضوع بنایا ہے جس سے نوجوان نسل برباد ہو رہی ہے۔ جب والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر اپنی ساری پونجی یہ سوچ کر قربان کرتے ہیں کہ ہمارے بیٹے کا آنے والا کل شاندار ہو گا اور اس کے ساتھ ہمیں بھی سکون ملے گا، لیکن جب نئی نسل یا اولاد اس کا فائدہ نہیں اٹھا پاتی ہے اور اس موقع کو ضائع کردیتی ہے، تو آنے والا کل جب ذمے داریوں کے ساتھ ان کے مقابل آکھڑا ہوتا ہے تووہ اس سے بھاگنے لگتے ہیں اور فرار حاصل کرنے کے چکر میں اپنے بوڑھے والدین اور بیوی بچوں سے بھی لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ یہ تاثر ایک خاص طرح کی صورت حال میں افسانہ نگار کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ حفیظ نے افسانے کی شروعات ایک اچھے ماحول میں کی ہے اور مطلوبہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب بھی رہے ہیں یعنی وہ کردار کو احساس آوارگی دلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور یہ افسانہ آج کے ماحول و کردار کی بھی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔ حفیظ جالندھری کا یہ افسانہ جدید افسانہ نگاری کی حدود کے بہت قریب ہے۔
افسانہ ’ملمع‘ میں ایک بہت ہی عام موضوع کو زینت بخشی گئی ہے۔ ’ملمع‘ کے معنیٰ ہیں، روشن کیا ہوا، چمکیلا، ظاہری ٹیپ ٹاپ، دکھاوا، اس افسانے کے موضوع کے لحاظ سے حفیظ جالندھری نے اس کانام بھی رکھا ہے کیونکہ اس میں ملمع سازی کی کاریگری ہی نظر آتی ہے۔ کما ل کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی اس سے باخبر بھی ہے مگر پھر بھی جان بوجھ کر اس کاشکار بنتا رہتا ہے۔ حفیظ جالندھری نے ایک جذباتی اور کریہہ واقعہ کو خوبصورت کرداروں کے ذریعے اسلوب کے سہارے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ حفیظ نے ایک اندھے دیوتا کی پرکشش فریب کاریوں کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے کہ ما فی الضمیر بھی ادا ہوگیا اور دل کو ٹھیس بھی نہیں لگی۔ اس افسانے میں فن بدرجۂ اتم موجود ہے اور بہت ہی عمدہ اور کامیاب طریقے سے انسانی جذبات و احساسات کی عکاسی کی گئی ہے۔ جذبات کو پیکر عطا کرنا ہی حفیظ جالندھری کا کارنامہ ہے۔
افسانہ ’حیات تازہ‘ میں حفیظ جالندھری موضوع کی مناسبت سے سجاد حیدر یلدرم سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اس افسانے میں حفیظ جالندھری نے سماج کی بالکل صحیح تصویر پیش کی ہے، جس میں سماج کی عیاریاں و مکاریاں اور فریب کاریاں ظاہر ہوتی ہیں۔ گھر کے سرغنہ کے انتقال کے بعدرشتے داروں اور پڑوسیوں کے معاملات کرنے کے اندازکس طرح بدل جاتے ہیں، اس افسانے میں اس کی مکمل تصویر موجود ہے۔ ہر آدمی صرف تعزیت کو ہی اولین فرض سمجھتا ہے اور اس کے بعد اپنی ذمے داری سے آزاد ہوجاتاہے۔ افسانے کے ہیرو کو دنیا کی ظاہری رسمیں صرف دکھاوا نظر آتی ہیں۔ اس کو سماج اور اس کی رسموں سے نفرت ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ والدین اور بیوی کے انتقال کے بعد وہ اپنے کمرے میں اکیلے قید رہتا ہے، اس تنہائی سے وہ وحشت زدہ ہوجاتاہے کہ کیا والدین کے ساتھ سارے رشتے دفن ہوگئے، مجھ سے کسی کا کوئی رشتہ نہیں رہا۔ آخر اس سے کوئی ملنے کیوں نہیں آتا ہے۔ کوئی اس کی پرواہ کیوں نہیں کرتا ہے، اسی وجہ سے دنیا اور دنیا والوں سے اس کو نفرت ہو جاتی ہے۔
افسانہ در افسانہ‘ میں حفیظ جالندھری پریم چند سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اس افسانے میں حفیظ نے دیہات کی منظر کشی کی ہے اور عورت کی اس تصویر میں رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ اپنے خون کے آخری قطرے کو نچھاور کر نے کے بعد بھی مکمل نہ کر سکی۔ حفیظ نے سماج کے سب سے حساس موضوع ’آنرکلنگ‘ پر قلم اٹھایا ہے،جس کو ہمیشہ سماج نے مکروہ اور گھناؤنا سمجھا ہے لیکن اس کے باوجود اس بوجھ کو ڈھویا ہے اور آج بھی ڈھو رہی ہے۔ حفیظ نے سماج میں رائج اس جھوٹے اور کھوکھلے رسم و رواج پرطنزکیا ہے کہ کس طرح سماج میں بدنامی کے ڈریا جھوٹی عزت کی خاطر لوگ جنونی اور پاگل پن کے شکار ہو جاتے ہیں اوردرندگی پر آمادہ ہوکراپنوں کے خون کی ہی ہولی کھیلتے ہیں،جب اپنوں کو انھیں ہاتھوں سے قتل کرتے ہیں جن سے ان کی پرورش کی ہے اور انھیں اپنی آنکھوں سے تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہوئے دیکھتے ہیں تب ان کی جھوٹی عزت نفس کو سکون ملتا ہے۔ تحیر اورتجسس پورے افسانے میں شروع سے آخر تک موجود ہے۔ حفیظ پورے افسانے میں قاری کو باندھ کر رکھتے ہیں اوراضطراب اور کشمکش آخر تک برقرار رہتا ہے۔ افسانے کا انجام مثبت ہے جو کہ حفیظ جالندھری کاخاص انداز ہے جو آخر میں قاری کے اعصاب کے تناوکو یک لخت کم کردیتا ہے۔
ہفت پیکر کے افسانوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اردو افسانے کے ابتدائی دور میں حفیظ جالندھری کے افسانوں میں جدید افسانے کی بیشتر خصوصیات جلوہ گر ہیں، وحدت تاثر اور اختصار ان افسانوں کو مختصر افسانے کی صف میں شامل کرتا ہے۔ حفیظ بے جا طوالت سے گریز کرتے ہیں اور کسی جگہ بھی فنی جھول کا شکار نہیں ہوتے۔جس دور میں یہ افسانے لکھے گئے وہ سیاسی اعتبار سے ایک ہنگامہ خیز دور تھا۔ بیسویں صدی کے ابتدائی تین عشروں میں سیاسی اعتبار سے بے شمار واقعات رونما ہوئے۔ جنگ عظیم اول اور جلیانوالہ باغ کا سانحہ اس دور کے اضطراب اور بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن حفیظ نے اپنے کسی افسانے میں ان حالات کو موضوع نہیں بنایا ہے۔
تکنیکی اعتبار سے حفیظ ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں۔ پلاٹ کے سلسلے میں بھی وہ جملہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور قاری کے ذہن کو ادھر ادھر بھٹکنے نہیں دیتے ہیں۔ پلاٹ قاری کو ایک ہی سمت میں محو سفر رکھتا ہے۔ البتہ اس میں ارتقا اور وسعت بھی موجود ہے۔
جدید افسانے میں واقعہ کردار کے رد عمل سے پیدا ہوتا ہے اور کردار یا کرداروں کی داخلی کشمکش نقطہ عروج تک پہنچ کر منطقی انجام سے آشنا ہوتی ہے۔ حفیظ نے اپنے افسانوں میں کردار کی داخلی کشمکش کو نہایت کامیابی کے ساتھ نقطۂ عروج تک پہنچایا ہے۔
حفیظ کے یہاں کردارنگاری کی عمدہ تصویر نظر آتی ہے۔ یہ کردار اپنے زندہ ہونے کامکمل ثبوت دیتے ہیں اور فطری تقاضوں اور محسوسات کے حوالے سے زندہ و جاوید اور فعال نظر آتے ہیں، البتہ کچھ افسانوں میں ان کے کردار غیر معمولی انداز میں متحرک نظر آتے ہیں۔ حفیظ کے مکالمے فطری اور کرداروں کی نفسیات کے عین مطابق ہیں اسی وجہ سے یہ مکمل طور پرفطری اور حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔
حفیظ جالندھری کو زبان پر عبور حاصل تھا، انھوں نے کہیں کہیں اتنے اچھے جملے استعمال کیے ہیں کہ جملوں کو دیکھ کر بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ واہ! الفاظ میں کیا جادو بھر دیا ہے؟ جیسے:
 ’ا س کا سفر عظیم الشان اوراس کی ہمت کے لحاظ سے پرشکوہ تھا‘
 ’چڑیاں درختوں کو لوریاں دے رہی تھیں‘
 ’چاند کی سفید روشنی میں اس کا سفید چہرہ نور کی قندیل تھا‘
 ’اس کی نیندیں دلآویز اور لطیف خوابوں سے پھر آباد ہو گئیں‘
 ’آفتاب مشرق کے پہاڑوں سے ابھرتا اور وادی میں مسرت اور شادمانی بکھیرتا ہواچلا جاتا۔ چاند نکلتا اور ان کی جھونپڑی کے ارد گرد راحت ہی راحت پھیلا دیتا‘
 ’چاند کے چہرے سے بادلوں کا نقاب سرک گیا تھا‘
’میں اپنے حسین بوجھ کو اٹھائے ریل کی پٹری پر چلا جا رہاتھا‘
 ’آہ یہ خیال خوفناک تھا۔ دنیا پھر میرے لیے مرجھا رہی تھی‘
 ’میں ہمہ تن چشم بن کر اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا‘ وغیرہ وغیرہ بہت سے جملے ہیں جو اپنے الفاظ کے انتخاب کے اعتبارسے بہت خوبصورت، حسین اور دلکش ہیں۔
معیاری افسانے‘ حفیظ جالندھری کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے جو 1933میں منظر عام پر آیا۔ یہ حفیظ جالندھری کے طبع زاد افسانے نہیں ہیں، بلکہ مختلف افسانہ نگاروں کے افسانوں کو حذف و اضافہ اور ترمیم کے بعد شائع کیا گیا ہے، اس لیے حفیظ جالندھری نے اپنے نام کے اوپر ’منتخبہ، مہذبہ و مبدلہ‘ تحریر کیا ہے۔اس کا دیباچہ حفیظ جالندھری نے خود مرتب کیا ہے، دیباچے میں حفیظ جالندھری نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ دور جدیدمیں اخبارات و رسائل میں افسانوں کی اشاعت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا، تاہم طبع زاد افسانے لکھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی لہٰذا رسالہ ’ہزار داستان‘ (1924) اور ’مخزن‘ (1927) کی ادارت میں موصول ہونے والے اہم اور معیاری افسانوں کواپنے الفاظ کا جامہ پہنادیا اور انھیں معیاری افسانوں کے نام سے شائع کر دیا۔ اس کے بارے میں حفیظ جالندھری خود ہی لکھتے ہیں :
’’۔۔۔۔۔۔۔۔ معیاری افسانے‘‘ مجموعہ ہے ان سب افسانوں میں سے انتخاب کا جو میری فرمائش پر احباب نے مہیا کیے تھے ان میں سے ایک دو کا ترجمہ مشہور افسانہ نگاروں نے کیا تھا چند ایسے ہیں جن کا ترجمہ میں نے ازسرتا پا اصلاح سے مزین کیا۔ باقی وہ ہیں جن کو میں نے فضا اور ماحول بدل کرنئے سانچوں میں ڈھال دیا۔ مجھے یقین ہے اس مجموعے کو پسند کیا جائے گا۔“5
معیاری افسانے‘ میں کل اٹھارہ افسانے عورت یا شیر، مرد کی خواہش، جواہرات، اندھی دنیا، داستان چنگیز خان اور اس کے پوتے کی، شہزادی کا معمہ، پتھر کا دل، زندگی کا سانس، جاں نثار دوست، شکستہ پر،شکست کی فتح، شرط، وہ بدمعاش مرن، محتاج کا دل، لخت جگر، انوکھا انتقام، بربطی مغنی اور ’مسافر کی کہانی‘ شامل ہیں۔ حفیظ جالندھری نے اس کتاب کے دیباچے میں اس بات کی وضاحت تو کی ہے کہ یہ ان کے اپنے طبع زاد افسانے نہیں ہیں۔لیکن اس کے باوجود کسی بھی افسانہ نگار کا نام درج نہیں کیا ہے۔
ان افسانوں کے بارے میں حفیظ نے خود ہی اعتراف کیا ہے کہ ان افسانوں کے صرف نوک پلک سنوارے گئے ہیں اصل میں یہ کسی اور کے تراجم اور تخلیق ہیں۔ لہٰذا اس کو حفیظ کے افسانوں میں شامل کرنا مناسب نہیں، ہے،اسی لیے ان کے تجزیے اور فنی پہلوؤں پر بھی بات کرنا مناسب نہیں، کیوں کہ یہ اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ اس میں حفیظ کی کاوش کس حد تک ہے۔ اردو افسانے کی تاریخ میں شاید یہ پہلا اتفاق ہے۔
حواشی
1۔ سیدامتیاز علی تاج مقدمہ’ ہفت پیکر‘ حفیظ جالندھری، مجلس اردو، لاہور 1929، ص9
2۔ سیدامتیاز علی تاج، مقدمہ’ ہفت پیکر، حفیظ جالندھری، مجلس اردو، لاہور 1929، ص14-15
3۔ حفیظ جالندھری، ’سہاگ کی رات‘، ’ہفت پیکر‘، مجلس اردو، لاہور 1929، ص45
4۔ حفیظ جالندھری، ’ہوشیار دیوانہ‘، ’ہفت پیکر‘، مجلس اردو،  لاہور 1929، ص46
5۔ حفیظ جالندھری دیباچہ’ شاہنامہ اسلام، جلد چہارم، مجلس اردو، لاہور 1973 ص18

محمود فیصل
جے این یو، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں