خدیجہ
مستور کی فکری اساس اور اردو ناول نگاری
اردو
ادب کی تاریخ ہمارے ملک کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی،معاشرتی تاریخ کا ایک اہم حصّہ رہی ہے ۔انیسویں صدی کے آخری
عشرے اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہماری سماجی فکر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ
اس دور میں متوسط طبقہ نے پہلی دفعہ اپنے آپ کو بحیثیت ایک طبقہ پہچانا۔اس سے پیش تر
اردو ادب کا مرکز ومحور رؤسا ہوا کرتے
تھے۔ادب میں متوسط طبقے کی دریافت سماجی فکر کی پہلی دریافت تھی۔قدیم ادب کوخیالی
و رومانی سمجھا جاتارہا ہے اور نئے ادب کو حقیقت کا ترجمان اور حقیقت پسند قرار دیا
جاتا ہے ۔یوں دیکھا جائے تو نئے او رپرانے ادب میں بنیادی فرق مضمون و احساس کا
ہے۔
پرانے
ناولوں کا دائرہ محدود اور نئے ناول کا دائرۂ احساس وسیع ہے۔اگرچہ اردو ناول کی
عمرڈیڑھ سو برس سے کم نہیں اور اس عرصے میں سیکڑوں ناول لکھے گئے لیکن ان میں گنتی
کے ہی کچھ عمدہ اور بہترین ناول ملتے ہیں ۔ زندگی چوں کہ نِت نئے انقلاب کی داستان
ہے اور زندگی کی طرح ادب میں بھی کئی موڑ آتے ہیں ۔یہ انقلابات ادب پر بھی دیر پا
اثرات مرتب کرتے ہیں۔سر سید تحریک، رومانی تحریک اور ترقی پسند تحریک ایسے اہم تاریخی
و ادبی ابواب ہیں جنھوں نے نئے اندازِ فکر کو جنم دیا۔انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں
صدی کے ابتدائی عشروں میں جتنی خواتین ناول نگار اردو ادب میں نظر آتی ہیں۔ان میں سے
بیش تر نے اصلاحی و مقصدی نقطۂ نظر سے ناول لکھے ۔ یہ اصلاحی و مقصدی نقطۂ نظر زیادہ
تر متوسط طبقے کی خواتین کے حوالے سے تھا۔
بیسویں
صدی کی ابتدائی دہائیوں میں جب سماجی و سیاسی حالات میں تبدیلی ہوئی تو ادب بھی اس
سے متاثر ہوا۔اردو ناول میں انیسویں صدی کے خاتمے تک،اخلاقی اور سماجی اصلاح پرزور
دیا گیا اور اسی کے ساتھ تہذیبی اقدار کو بہتر سے بہتر بنانے کی فکر بھی ہوئی۔
یہ
وہ دور ہے جب مسلم معاشرہ ہی نہیں بلکہ پورا ہندوستانی معاشرہ عورتوں کو کسی بھی قسم کی
آزادی دینے کے حق میں نہیں تھا اور حالات اس قدر خراب تھے کہ عورتوں کو واجبی سی
تعلیم، وہ بھی گھر پر ہی دلا دینا بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔معاشرے میں کوئی ان
مجبور عورتوں کی حالت پر غور نہ کرتا تھا،جو مرد اساس معاشرے کے ظلم کاشکار تھیں اور
طرح طرح کی صعوبتیں اٹھا کر کسی صورت اپنی زندگی کاٹ رہی تھیں،مگر بیسویں صدی میں
صورت حال میں تبدیلی آئی اورچند روشن خیال گھرانوں نے عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ
دیا ۔محمدی بیگم نے عورتوں کی ایسی گھٹن والی اور مظلوم زندگی پر چھوٹے چھوٹے ناول
لکھے۔جن میں مردوں کے ظلم کی داستان اور عورتوں کے صبرو ایثار کی بڑی اچھی تصویریں
پیش کیں۔پھر حیدرآباد کے نواب خاندان کی ایک تعلیم یافتہ خاتون صغرا ہمایوں مرزانے
”مشیرِ نسواں“یا ”زہرا“نام کا ایک ایساہی ناول لکھا۔جس میں جابجا عورتوں کی پستی
اور اس کے استحصال کو ختم کرنے کی کوشش ملتی ہے اور انھیں ان کی پستی کے اسباب بتا
کر ان میں حوصلہ پیدا کرنے کی فکر بھی پیدا کرتی ہے۔
حیدرآباد
سے الگ ہٹ کر نذر سجّاد حیدر وغیرہ نے بھی اسی طرح کے ناول لکھے۔اور عورتوں
کوسماجی زندگی میں ایک ترقی یافتہ کردار اختیار کرنے کی ترغیب دی۔یہ بیسویں صدی کی
ابتداءسے لے کر1935 تک کا زمانہ ہے جب ان خواتین نے اپنی تحریروں سے عورتوں میں ایک
نئی ذہنی بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی ۔در اصل انھی کوششوں سے سماج اور خصوصاً
اردو ادب میں تانیثی ادبی فکر کی ابتداءہوتی ہے۔جو آگے چل کر عصمت چغتائی،جمیلہ
ہاشمی،صالحہ عابد حسین،رضیہ سجاد ظہیر،قرة العین حیدر،جیلانی بانو،آمنہ ابوالحسن،
خدیجہ مستور، رضیہ فصیح احمد،بانو قدسیہ،الطاف فاطمہ، ساجدہ زیدی اور متعدد خواتین
ناول نگاروں کی شکل میں ادبی منظر نامے میں نظر آتی ہیں۔
ہندوستان
کی آزادی اپنے ساتھ تقسیم کا کرب لے کر آئی۔پاکستان کا قیام عمل میں آنے کے بعد
ہندو پاک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور قتل و غارت گری کا ایک طویل سلسلہ شروع
ہو گیا۔ اس سانحے نے انسان کے خصوصاً ادیبوں کے دلوں پر گہرے نقش چھوڑے اور انھوں
نے اس سانحے سے متعلق اپنے کرب کو اپنی تخلیقات میں شامل کرنا شروع کیا ۔صرف مرد
افسانہ نگار یا شاعر ہی نہیں بلکہ خواتین افسانہ اور ناول نگاروں نے اسے اپنی کہانیوں
میں قلم بند کرنا شروع کیا۔عورت کا دل نازک اور حساس واقع ہواہے اور وہ ایسی کرب
ناک اذیت سے مردوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ خواتین افسانہ نگار
اور ناول نگار وں کی تحریروں میں یہ واقعہ اپنی پوری جذباتیت کے ساتھ قاری کے
سامنے آتا ہے۔انھیں خواتین ناول نگاروں میں ایک اہم نام خدیجہ مستورکابھی ہے۔
خدیجہ
مستورکی ہم عصر خواتین ادیباؤں نے جس دور میں اپنا تخلیقی سفر شروع کیا وہ کئی اعتبار
سے اہمیت کا حامل ہے۔جہاں ایک طرف وہ سیاسی اور معاشرتی طور پر ہنگامہ خیز زمانہ
تھا وہیں دوسری طرف اسی دور میں کئی فکری اور ادبی نظریات نے جنم لیا۔ ترقی پسند
تحریک اس کی ایک مثال ہے جس نے ادب کو زندگی سے قریب تر لانے کی کوشش کی۔1947 کے
بعد چند سال انتہائی انتشار کے تھے۔اسی تہذیبی انتشار نے شاعروں ، ادیبوں کوبھی
ذہنی اور جذباتی طور پر متاثر کیا۔غالباً یہی وجہ ہے کہ اردو کے زیادہ تر ادیبوں
نے اس خون آلود آزادی کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ اسے ایک عظیم انسانی ٹریجڈی کے
روپ میں سامنے لانے کی کوشش کی۔فیض کی نظم’’ صبح آزادی‘‘،منٹو کے افسانے’’ ٹوبہ ٹیک
سنگھ ‘‘اور’’ کھول دو‘‘، راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ ’’لاجونتی‘‘،راما نند ساگر کا
ناول’’اور انسان مرگیا‘‘،اسی طرح کی ایک کوشش تھی۔
اسی
طرح خدیجہ مستور نے بھی اس کریہہ منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے اپنے
ناولوں میں بیان کیا۔خدیجہ مستور 11؍دسمبر 1927 بریلی میں پیدا ہوئیں۔ لیکن تقسیم ہند سے قبل
ہی ان کا خاندان لاہور منتقل ہوگیا تھا۔ انہوں نے ناول بھی لکھے اور افسانے
بھی۔پہلا ناول” آنگن “ 1962 میں اور دوسراناول ”زمین“ 1982 منظر عام پر آیا۔ انہوں
نے اپنے ماحول کی حقیقت پسندانہ اور معنی خیز عکاسی کی ہے۔”آنگن“ کا بنیادی موضوع
ہندوستانی معاشرے کی گھریلو زندگی پر سیاسی اثرات ہیں۔مصنفہ نے ایک متوسط طبقے کی
عکاسی کی ہے جو ملکی سیاست کی پرپےچ گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے تباہی کے دہانے پر آن
کھڑا ہوا ہے۔”آنگن“ کے مرد سےاست کی خاطرگھر بار سے بے نیاز ہو گئے ہیں ۔وہ سےاسی
تحریکوں میں جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں۔اس کے علاوہ خانگی جھگڑے اور رشتے ناتے میں
ان کا ذکر بھی اس ناول میں ملتا ہے۔
ناول”آنگن“
ایک ایسی علامت نظر آتا ہے جو اپنے اندر اس زمانے کی بھر پور جد وجہد کے اثرات
علامتی انداز میں سمیٹے ہوئے ہے۔چچا کا”آنگن“ صرف گھریلو زندگی کی عکاسی نہیں بلکہ
پورے ہندوستانی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے یہ اس دور کی حالت کو بیان کرتا ہے جو
دوسری جنگِ عظیم سے تعلق رکھتی تھی۔ملک کی سیاست نے گھریلو زندگی پر ایسا اثر ڈالاکہ
خاندان کے خاندان سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے اور ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد
مختلف نظریات کے پابند ہوجانے کے باعث ایک دوسرے سے دور ہو گئے۔
خدیجہ
مستور نے اپنے دوسرے ناول ”زمین“میں قیام ِ پاکستان کے وقت اور اس کے بعد جو حالات
تھے ان کو بڑی فن کاری کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔”آنگن“ قیام پاکستان کے بعد کی
ابتدائی زندگی کے حوالے سے تخلیق شدہ ناولوں میں اہم ناول ہے۔ خدیجہ مستور کا
دوسرا ناول ”زمین“ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے ناول ”آنگن “ ختم ہواتھا۔”زمین
“کو” آنگن “ کی توسیع بھی کہا جاتا ہے ۔اس ناول میں انھوں نے تاریخی شعورکا مظاہرہ
کیا ہے۔اس میں پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے اقدار کی شکست و ریخت اور معاشرتی تبدیلیوں
کا قصّہ بیان کیا گیا ہے۔جنھوں نے انسانی زندگی میں مسائل پیدا کیے جن میں سب سے
بڑا مسئلہ آدرشوں کی شکست وریخت ہے۔ اس ناول میں عالیہ کی جگہ ساجدہ نے لے لی ہے۔
ناول یہ تاثردیتا ہے کہ تاریخ کے دھارے پر بہتے ہوئے انسان کیا کیا منصوبے بناتا
ہے اور کنارے آ لگنے پر سوچ ،فکر اور خوابوں کے تمام مناظر بدل جاتے ہیں۔لیکن ”زمین“
میں تاریخ اور سیاست میں کردار اتنے ملوث نہیں جتنے کہ آنگن میں ملوث تھے۔شاید وہ
تحریک کا ابتدائی اوریہ انتہائی دور تھا اور یہ تنظیم کا مرحلہ ہے۔تاہم مصنفہ کا
خلوص اور سادگی لائق ستائش ہے۔انھوں نے پاکستان بننے کے بعد کے حالات کو جو تاریخ
اور سیاست سے اپنا وجود پاتے ہی گرفت میں لینے کی سعی کی ہے۔اس طرح ”آنگن“ اور ”زمین“
میں اگر قصے کی گہرائی میں اتر کر دیکھا جائے توہمیں اس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ خدیجہ
مستور تاریخ اور سیاست کے دیے ہوئے دکھوں کو اپنا موضوع بتاتی ہیں۔لیکن ”آنگن“ کا
وسیع کینوس ”زمین“ سے ارفع ہے۔
”آنگن“ کی
اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن”زمین“ قصہ گوئی، اسلوب اور سیاست کے حوالے سے مدغم
فنی اظہار تخلیقی سطح پر خدیجہ مستور کی حیثیت کو مسلّم کرتا ہے ۔”زمین“اگرچہ
”آنگن“ کے مقابلے میں کم اہمیت کا حامل ہے۔تاہم ”زمین“ میں اخلاقی اقدار کے زوال
کا المیہ بہتر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔تکنےکےاعتبار سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ
منظر نگاری کے شیڈز زیادہ موثر طور پر نہیں بھرے جا سکے۔ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ
بھی ہو کہ خدیجہ مستور کو موت نے مہلت ہی نہ دی۔اس بحث سے قطع نظر ”زمین“ ایک پوٹریٹ
ہے۔جس کے نقوش سیدھے سادے مگر اپنی جگہ بھر پور معنویت کے حامل ہیں۔
ناول
”آنگن “ اور ”زمین“ فسادات کے موضوع پر لکھے گئے ہیں اور ان کے کرداروں کا تعلق
متوسط طبقے سے ہے۔لیکن ان کی ذہنی سطح ،خیالات اور رویے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔آنگن
“کی عالیہ اگرچہ ”زمین“ کی ساجدہ کی طرح حساس ہے۔لیکن دونوں کے رویے ایک دوسرے سے
مختلف ہیں ۔عالیہ میں خود اعتمادی کی کمی ہے۔وہ سب سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہے۔لےکن
جرأت کی کمی اور لڑائی جھگڑے کے خوف سے وہ ایسا نہیں کر پاتی۔اسے کسی خاص شخص سے
محبت نہیں لیکن ا س کے ذہن میں ایک آئیڈیل کا تصور ہے۔ آئیڈیل کی خصوصیات اسے جمیل،کیمپ
کے ڈاکٹراور صفدر میں نظر نہیں آتی تو وہ اکیلے زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔جب
کہ”زمین“کی ساجدہ عالیہ کے بر خلاف پر اعتماد اور باہمت لڑکی ہے۔ ہجرت کے بعد اسے
مالک کے گھر میں پناہ لینی پڑتی ہے اور وہ وہاں بھی اپنی حیثیت منوالیتی ہے۔ہجرت
کے بعد وہ صلاح الدین سے بچھڑ جاتی ہے ،اپنے تحفظ کے لیے اسے ناظم سے شادی کرنی
پڑی ،لیکن عالیہ کی طرح تنہائی اس کا مقدر نہیں بنتی ۔اس کے ساتھ ناظم اور اس کے
بچے تھے۔
مجموعی
طور پر یہ ناول مہاجرین کے مختلف رویوں کا آئےنہ دار ہے جو مثبت اور منفی دونوں
طرح کے ہیں۔ناول میں عورت کی معاشرتی حیثیت کو نمایاں طور پر دکھایا گیا ہے۔خاص
طور پر ’’تاجی‘‘ کا کردار ناول کے موضوع کے لحاظ سے اہم ترین کردار
ہے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت چاہے آزاد ملک کے معاشرے کی کیوں نہ ہو ،اگر وہ
کمزور اور بے بس ہے تو لوگ اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پھر بعد میں
چھوڑ دیتے ہیں۔تاجی جس کی ماں نے اسے اس امید پر آزاد ملک پاکستان بھیج دیا تھاکہ
اپنے ملک میں وہ بالکل محفوظ رہے گی اور کوئی بھی شریف مسلمان مرد اس سے شادی کر
لے گا ۔لیکن پاکستان میں کاظم نے اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہندوستان میں کوئی غیر
مسلم نسلی تعصب کی وجہ سے کرتا۔
ناول
میں دوسری حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں جن لوگوں
نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی یا مختلف اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے ان میں سے بیش
تر افسران نے مہاجرین کے مسائل کو حل کرنے اور ملک کی ترقی کے لیے سوچنے کے بجائے
غیر قانونی طریقے سے اپنی حیثیت اورحقیقت کو بدلا۔ بعض مہاجرین ایسے تھے جنھیں ان
کی حیثیت کے مطابق جائیداد نہ مل سکی تو وہ لوگ صرف روحانی طور پر زخمی نہیں ہوئے
بلکہ وہ معاشی طور پر بھی تنگ دستی اور فاقہ کشی کا شکار ہوئے۔یہ پاکستانی معاشرے
کی بد نصیبی کی ابتداتھی۔
”زمین “حقیقت
نگاری کی روایت میں تحریر کیا ہوا ایک معاشرتی ناول ہے۔جس میں تمام کردار ایک گھر
میں رہتے ہوئے متضاد ،طبقاتی رویوں اور خواہشوں کا اظہار کرتے ہیں۔صلاح الدین
امراءاور جاگیر داروں کے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔کاظم کا تعلق بیورو کریٹس کلاس
سے ہوتا ہے تاجی اس عہد کی کمزور عورت کی داستان ہے۔ناول میں خدیجہ مستور نے ساجدہ
کی زبانی اپنے احساسات اور جذبات بےان کیے ہیں۔جس سے ان کا اشتراکی نقطۂ نظر واضح
صورت میں دکھائی دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ساجدہ جب تاجی کے کمرے میں جاتی ہے تو بے
ساختہ کہتی ہے:
”ویران
کو ٹھر ی میں کچے کچے خون کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔طاق میں رکھی ہوئی لالٹین ابھی
ٹمٹما رہی تھی ۔اس نے تاجی کا میلا سا تکیہ اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ وہ جو مدتوں
سے ایک ایک آنسوؤں کو ترس رہی تھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔تاجی،ایک دن ایسا ضرور
آئے گا جب ایسی کوٹھریوں سے کچے خون کی بو نہیں آئے گی۔“ (زمین،خدیجہ مستور،ص110)
خدیجہ
مستور کے دونوں ناولوں میں ان کی ترقی پسندیت واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔انھوں نے
سماجی زندگی کے مسائل کی اچھی اور بہترین عکاسی کی ہے۔وہ ناولوں کی بنیاد مادی
حقائق اور سماجی شعور پر قائم کرتی ہیں۔انہوں نے براہ ِراست زندگی اور اس کے مسائل
کے بارے میں غور و فکر ہی نہیں کیا ہے بلکہ ان کو افراد کے سماجی تناظر میں پیش کیا
ہے۔ڈاکٹر احسن فاروقی خدیجہ مستور کی ناول نویسی کے بارے میں اپنے مضمون” آنگن پر
ایک نظر “میں لکھتے ہیں:
” یہ اردوکی
دوسری نا ول(پہلی امراو جان ادا )ہے جس کو میں نے دوسری بار پڑھا اورباربا ر پڑھااور
پہلی بار سے زیادہ لطف اندوز ہوا ۔بات یہ ہے کہ یہ ناول ان میں سے ہے جو فن کے صحیح
مقام پر پہنچ گئی ہے اور اس لیے اس میں فن کا وہ جادو ہے جو سر چڑھ جاتاہے اور
کبھی نہیں اترتا ۔نہایت سادگی ،بے ساختگی نہایت سیدھے طریقے اور پورے فن کارانہ
خلوص کے ساتھ یہ ناول نگاری کے اس صراط مستقیم پر چلی جاتی ہے،جو بال سے زیادہ باریک
اور تلوار سے زیادہ تےز ہے۔اور جس پر چلتے چلتے ہمارے پرانے ناول نگار اخلاق اور
نظریات کے جہنم میں کٹ کر گر جانے سے نہ بچ سکے۔ واقعیت کی وہ سیدھی راہ جوا خلاق
زدگی کی بنا پررسوا کو بھی نہ مل سکی اور جدید نفسیاتی تحلیل کی فکر میں عصمت
چغتائی کے ہاتھ سے اور جدید فنی تجربے کے ما تحت قرةالعین کے ہاتھ سے نکل گئی خدیجہ
مستور کے سامنے صاف ہے وہ اس پرنہایت اطمینان سے چلتی نظر آتی ہیں۔نہایت معمولی
نقوش کو نہایت نزاکت کے ساتھ میں وہ جین آسٹن کے شانہ بہ شانہ چلتی ہوئی نظر آتی ہیں
۔“
اردو
کی ترقی پسند ناول نگار خدیجہ مستور نے اپنے منفرد انداز سے اس عہد کے دیگر ناول
نگاروں میں اپنے لیے راستہ بنایا ہے بظاہر ان کے ناول سیدھے سادے اور سپاٹ دکھائی
دےتے ہیں لیکن وہ رمزیت سے پر ہیں۔خدیجہ مستور کو اگرچہ شہرت ان کے ناول”آنگن“ کی
وجہ سے ملی ہے لیکن ”زمین“ بھی اپنے اسلوب طرز نگارش، مکالمہ نگاری اور جزیات
نگاری کے حوالے سے بھر پور ہے۔انھوں نے کہانی کی بنت اور کرداروں کو مخصوص پس منظر
میں ابھارنے کے لیے جہاں فن کے دیگر لوازم سے کام لیا ،وہاں زبان و اسلوب کا بھی
خاص خیال رکھا۔
خدیجہ
مستور کی سادگی میں پرکاری ہے۔انھوں نے دیگر ناول نگاروں کی طرح اپنے کرداروں کو پیش
کرنے کے لیے مبالغے سے کام نہیں لیا بلکہ حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہانی کے
مناظر ،مکالمے اور کرداروں کے عمل کے لیے ایسا اسلوب اختیار کیا۔جس میں قاری بھی
خدیجہ مستور کے ساتھ سفر کرتا ہے ۔خدیجہ مستور کے دونوں ناول ایک ہی سلسلے کی دو
کڑیاں ہیں۔اردو ناول نگاری کی تاریخ میں خدیجہ مستور بحیثیت ناول نگار ہمیشہ زندہ
رہیں گی۔ان کے ناول اردو ادب میں قابل قدراضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
غزالہ فاطمہ
بہت عمدہ تجزیہ
جواب دیںحذف کریں