30/10/17

حیدرآباد کی چند اہم خواتین ناول نگار از جاوید شاہ آبادی


حیدرآباد کی چند اہم خواتین ناول نگار

شہرحیدرآباد اپنی بیش بہا خصوصیات کی بنا پر اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا ہے۔ ابتدا ہی سے یہ شہر اپنی منفرد زبان، تہذیب اور ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ بالخصوص اس شہر سے اردو زبان و ادب کی ہمیشہ ہی سرپرستی ہوتی رہی ہے۔ یہاں کی سرزمین اردو ادب کے لیے بہت زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ اردو ادب کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر سلطان محمد قلی قطب شاہ کا تعلق اسی سرزمین سے ہے۔ حیدر آباد کے حکمرانوں کو اردو ادب سے کافی شغف تھا، وہ خود صاحب طرز شاعر و ادیب تھے اور ادیبوں کی سرپرستی ان کا شیوہ تھا۔ یہاں کی خاک سے بے شمار شعرا وادبا نے جنم لیا، جنھوں نے ہر دور میں ادب کی آبیاری کی اور اپنی علم دوستی اور دانشوارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے دنیا میں اپنے وطن کا نام روشن کیا۔ عہد آصفیہ سے قبل ہندستان کے لوگ قدیم روایا ت کے پابند تھے۔ خاص کر حیدرآباد کا ماحول عورتوں کے لیے سخت گیر تھا ۔اکثر گھرانوں کی خواتین گھر کی چہار دیواری سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس رویے اور قدامت پسند ماحول میں تبدیلی آنے لگی۔ انیسویں صدی میں حیدرآباد میں تحریک نسواں کا آغاز ہوا، جس کا اثرمعاشرتی اور تمدنی زندگی پر راست یا بلاواسطہ طورپر ضرور پڑا۔ اس تحریک کی وجہ سے خواتین کو ایک حوصلہ اورہمت ملی، جس کی بدولت انھوں نے نہ صرف خود تعلیم حاصل کی بلکہ سماج میں روشن خیالی اور حصول علم کے رجحان کی تربیت کی۔ تحریک نسواں نے بہت سی خواتین نثر نگاروں کو پیدا کیا، جن میں جیلانی بانو، عفت موہانی، آمنہ ابوالحسن، رفیعہ منظورالامین ، قمر جمالی وغیرہ نے اپنی کاوشوں سے اردو نثر کو بہت آگے لے جانے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی۔ ان نثر نگار خواتین نے اپنے فن پاروں کو کسی مخصوص موضوع تک محدود نہیں رکھا بلکہ تقریباً تمام موضوعات پر قلم اٹھایا۔ انھوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے اردو ادب میں اپنی شناخت برقرار رکھی ہے۔ شاعری، افسانہ نگاری، تنقید، تدریس، غرض ہر میدان میں خواتین دکن کی صلاحیتوں کے نقوش نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ حیدر آباد کی خواتین ناول نگاروں نے بیسویں صدی کے نصف آخر میں ناول لکھنے شروع کیے اور تب سے آج تک یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ کئی خواتین ناول نگار آج بین الاقوامی شہرت کی مالک ہیں۔ انہوں نے فن اور موضوع دونوں اعتبار سے اسے وسعت بخشی ہے۔ ان ناول نگار خواتین نے اپنے ناولوں میں عورتوں کے بنیادی مسائل کو جگہ دی ہے اور ناول کے ذریعہ عورتوں کی تعلیم و تربیت، سماجی و اخلاقی اور معاشرتی خامیوں کو دور کرنے کی بھی سعی کی ہے۔ ان کے نزدیک عورتوں کا ناخواندہ ہونا ہی تمام خامیوں اور برائیوں کی جڑ ہے۔ عورت اگر تعلیم یافتہ ہوگی توکامیاب زندگی گزار سکے گی۔ اس کے علاوہ انھوں نے سماج کے فرسودہ رسم و رواج کی طرف بھی لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی ہے۔    
  
جیلانی بانو
جیلانی بانو اردو کی مشہور و معروف فکشن نگار ہیں، انھوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سماج کے مختلف مسائل خصوصاً سرزمینِ حیدرآباد کی معاشرتی وسیاسی فضا، تہذیبی وثقافتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیلانی بانو کی ولادت اتر پردیش کے مردم خیز شہر ضلع بدایوں میں 14 جولائی 1936 کو ہوئی۔ جیلانی بانو نے جس عہد میں ہوش سنبھالا وہ جاگیر دارانہ ماحول ومعاشرے کی ٹوٹتی بکھرتی روایتوں اور قدروں، سیاسی وسماجی تغیرات اور تحریک آزادی کا دور تھا۔ اس دور کے حالات ومسائل نے ان کے حساس ذہن کو متاثر کیا۔ اور جب انھوں نے قلم اٹھایا تو اپنی تمام فن کارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ انسانی زندگی کے نشیب وفراز اور دیگر سیاسی، سماجی مسائل کو کہانیوں کے پیرائے میں ڈھال دیا۔ ان کی تخلیقات میں حقیقت پسندی اور سیاسی وسماجی شعور کی پختگی کا بھر پور اظہار ملتا ہے۔ جیلانی بانو نے نثر کی تمام اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ انھوں نے اپنا تخلیقی سفر ملک کی آزادی کے بعد شروع کیا۔ ان کی پہلی کہانی کا نام ”موم کی مریم “ ہے جو کہ ادب لطیف لاہور کے سالنامے میں شائع ہوئی تھی۔اس کے بعد ان کا قلم بلا کسی جھجھک کے چل پڑا۔ انھوں نے افسانہ وناول نگاری کے ساتھ ساتھ کتابوں پر تبصرے بھی کیے ہیں۔ روزنامہ سیاست میں کالم ”شیشہ وتیشہ“بھی لکھا ہے۔ مختلف اخبارات ورسائل میں ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں ۔

جیلانی بانو کے دو مشہور ناول ”ایوان غزل “ اور ”بارش سنگ“ ہیں۔ ان کا پہلا ناول ”ایوان غزل “ ہے، جو 1976ء میں شائع ہوا۔ اس ناول کا نام پہلے ”عہد ستم “ تھا لیکن اس وقت ایمر جنسی کی وجہ سے کتابوں پر سنسر شپ عائد تھی اور یہ نام چوں کہ قابل اعتراض تھا لہذا اس کا نام بدلنا پڑا۔ یہ ناول آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد تک کے چند برسوں کی حیدرآبادی ثقافت و تہذیب کی حقیقی عکاسی کرتا ہے ۔اس ناول میں ریاست حیدرآباد کے زوال پزیر جاگیر دارانہ معاشرے میں پیدا شدہ حالات ومسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ”ایوان غزل “ دراصل ایک تہذیبی اور سماجی ناول ہے، جس میں ریاست حیدرآباد کے زوال کی داستان پیش کی گئی ہے ۔جیلانی بانو نے ”ایوان غزل“ لکھ کر اردو ناولوں کی فہرست میں ایک اچھے ناول کا اضافہ کیا۔ آج اس ناول کا شماراردو کے پسندیدہ ناولوں میں کیا جاتا ہے۔

جیلانی بانو کا دوسراناول ”بارشِ سنگ“1984 میں کراچی پاکستان سے اور 1985 میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوا۔ بارش سنگ کا سب سے پہلے مراٹھی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور حیدرآباد سے شائع ہونے والے رسالے ”پنج دھارا “میں اسے قسط وار شائع کیا گیا۔ بارش سنگ کا انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا اور A Hail of Stones”کے نام سے دہلی سے شائع کیا گیا ہے ۔”پتھروں کی بارش“ کے نام سے اس کا ترجمہ ہندی میں 1987 میں دہلی سے شائع کیا گیا۔ ”بارشِ سنگ“ تلنگانہ کے کسان تحریک کے پس منظر میں تصنیف کیا گیا ہے، جس میں آزادی سے قبل اور آزادی کے چند برسوں بعد تک حیدرآباد کے رہنے والے دیہی علاقوں کے غریب کسانوں ،مزدوروں اور عورتوں کے حالات ومسائل کی حقیقی عکاسی کی گئی ہے۔ جاگیردارانہ نظام کا ظلم وستم، معاشی استحصال، سماجی غیربرابری اور طبقاتی کشمکش اس ناول میں پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔

رفیعہ منظورالامین

رفیعہ منظورالامین حیدرآ باد کی ایک مشہور ومعروف فکشن رائٹر ہیں۔ ان کی ولادت حیدرآباد کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں ہوئی۔ ابتدا میں ان کی تعلیم کاچی گوڑہ، حیدرآباد کے ایک اسکول میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے کاچی گوڑہ سے ہی میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اپنا تعلیمی سفر جاری رکھتے ہوئے انھوں نے  B.Sc.ویمینزکالج، کوٹی، حیدرآباد سے کیا۔ رفیعہ منظورالامین کو بچپن ہی سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔ انھوں نے پہلی کہانی آٹھ سال کی عمر میں لکھی تھی جو دہلی سے شائع ہونے والے رسالے ”پیامِ تعلیم “ میں شائع ہوئی تھی۔ کالج میں بھی وہ ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ کالج میگزین ”کاسماس“ کی ادارت کے فرائض بھی انہوں نے انجام دیے۔ ان کا پہلا ناول ”سارے جہاں کا درد“ پہلی بار1974 میں اور اس کے دس سال بعد دوبارہ 1984 میں نظامی پریس، لکھنؤ سے شائع ہوا۔ یہ ناول 343 صفحات پر مشتمل ہے۔ ”عالم پناہ“ مصنفہ کا دوسرا ناول ہے۔ اس ناول کے تین اڈیشن شائع ہوئے ہیں۔ ناول کو ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی ہے۔ ”عالم پناہ“ کا ہندی زبان کے علاوہ کنڑ میں بھی ترجمہ ہوا۔ ہندی میں ناول کا ترجمہ منظورالامین نے کیا ہے۔ موصوفہ کا تیسرا ناول ”یہ راستے“ 1995 میں انجمن ترقی اردو، آندھرا پردیش، اردو ہال ، حمایت نگر، حیدرآباد سے چھپ کر منظر عام پر آیا ہے۔

 واجدہ تبسم

واجدہ تبسم اردو فکشن کا ایک اہم نام ہے۔ بر صغیر کی یہ نامورشخیصت امراوتی میں 16 مارچ 1935 کو پیدا ہوئی۔ ادبیات اردو میں جامعہ عثمانیہ سے ماسٹرزڈگری حاصل کی۔ بعد میں کچھ ایسے حالات بنے کہ انھیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ 1947 میں حیدرآباد دکن میں مستقل قیام کرنا پڑا۔ حیدرآباد کا دکنی لہجہ جو کہ دیگر صوبوں کی اردو سے قدر مختلف ہے، ان کی کہانیوں اور افسانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ دکنی زبان کے محاورے، ضرب الامثال کو انہوں نے بڑی چابک دستی سے استعمال کیا ہے ۔ سرزمین دکن کی قدیم داستانوں، بود و باش اور رسوم کو انھوں نے اپنی تخلیقات میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ” کیسے کاٹوں رین اندھیری“ اور ”نتھ کی عزت“ ان کے دو مشہور ناول ہیں، جن میں موصوفہ نے حیدرآباد دکن کی خاص مسلم تہذیب کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔ واجدہ تبسم کے ناولوں کا ایک مرکزی موضوع طوائف رہا ہے۔ حیدرآبادی معاشرت میں طوائف کا کردار اس کی زندگی کے نشیب و فراز، اس کی خوشیاں، اس کے غم، اس کی خواہشیں اور گھریلو زندگی پر اس کے اثرات کا تجزیہ بڑی خوبی کے ساتھ واجدہ تبسم نے اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔ ”نتھ کی عزت“ اگرچہ ایک مختصر ناول ہے لیکن اس میں ”حیا“ نامی طوائف کے جذبات واحساسات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ واجدہ تبسم نے انتہائی مہارت اور چابک دستی سے اس کا کردار تشکیل کیا ہے ۔ ”کیسے کاٹوں رین اندھیری“ بھی حیدرآبادی ماحول پر لکھا گیا ایک دلچسپ اور عبرت آموز المیہ ناول ہے۔ اس ناول میں مصنفہ نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ کس طرح طوائفوں کے پیچھے ہنستے کھیلتے بسے بسائے گھر برباد ہوجاتے ہیں ۔ حیدرآباد کی سماجی زندگی میں طوائف کے ناسور نے جو تباہیاں مچا رکھی تھیں، ان کا بیان ہی دراصل ”کیسے کاٹوں رین اندھیری“ کا موضوع ہے۔ اس وجہ سے یہ ناول ایک اصلاحی کتاب ہے، جسے ناول کے پیرائے میں لکھ کر مصنفہ نے ایک قابل قدر خدمت  انجام دی ہے۔

 صغرا ہمایوں مرزا
اردو دنیا میں صغرا ہمایوں مرزا ایک ادیبہ، شاعرہ، مدیرہ اور سماجی خدمت گزار کی حیثیت سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ بیگم صغرا ہما یوں کی ولادت 1884 میں حیدرآباد میں ہو ئی اور 1959 میں حیدرآباد ہی میں انتقال ہوا ۔ ان کی شادی 1901 میںہمایوں مرزا صاحب سے ہوئی۔ شادی کے بعد دونوں نے حیدرآباد ہی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔حیدرآباد میں رہ کر انہوں نے بہت سے فلاحی کام انجام دیے ۔ لڑکیوں کی فلاح وبہبود کے خیال سے انہوں نے ایک مدرسہ صفدریہ قائم کیا ، جس کے لیے موصوفہ نے اپنی جائداد کا ایک حصہ وقف کر دیا۔ اس مدرسے میں آج بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف پیشہ ورانہ کور سز سکھائے جاتے ہیں۔ صغرا ہمایوں مرزا نے نہ صرف فلاحی کام انجام دیے بلکہ اپنے قلم کے ذریعے سماج کی اصلاح کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ مصنفہ کا شمار اردو کی اولین خواتین ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے تقریباًچودہ ناول لکھے ہیں ،جن میں ” تحریر النساء“ ، ”موہنی“، ”مشیر نسواں“، ’زہرہ“ اور ”سر گزشت ہاجرہ“ بہت مقبول ہوئے۔ بیگم صغرا ہمایوں مرزا کی تحریروں میں عموماً بیانیہ تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ اپنے عہد میں ان کی تخلیقات کافی مقبول ہوئیں ۔ عوام اور خواص دونوں طبقوں میں مصنفہ کی تخلیقات بڑے شوق اور دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی تھیں۔ ان کے فن پاروں میں اس عہد کے گہرے نقوش نظر آتے ہیں، جس کی بدولت اس عہد کی روایات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔

فاطمہ تاج
فاطمہ تاج حیدر آباد دکن کی ادب خیز سر زمین سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ حیدرآباد کی ان باشعور خواتین میں سے ایک ہیں، جنھوں نے ہر صنف پر طبع آزمائی کی ہے۔ جیسے غزل، نظم، افسانہ، ناول، انشائیہ، خاکہ وغیرہ۔ فاطمہ تاج کی ولادت حیدرآباد میں 25 / اکتوبر 1948ء کو ہوئی۔ ان کے آباو اجداد مدینہ منورہ سے ہندوستان آکر آباد ہوئے۔ فاطمہ تاج کے دو ناول ”جب شام ہو گئی“ اور ”نقشِ آب“ اور ایک ناولٹ ”وہ“ منظر عام پر آچکے ہیں۔ فاطمہ تاج اپنی پرکشش تحریر سے اپنے احساسات، جذبات، تجربات و مشاہدات سب کچھ صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتی ہیں۔ فنی نقطئہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو انہوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ فاطمہ تاج اچھی ناول نگار ہیں۔ ان میں بات کہنے کا سلیقہ موجود ہے۔ انہوں نے تقریباً تمام موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ ان کا یہ وصف ان کے شعور اور فن کا آئینہ دار ہے۔ فاطمہ تاج ہر لحاظ سے قابل قدر اور لائق ستائش ہیں۔

آمنہ ابوالحسن
حیدر آباد کی فکشن نگار خواتین میں آمنہ ابوالحسن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ سید آمنہ ابوالحسن جو آمنہ ابوالحسن کے نام سے ادبی دنیا میں پہچانی جاتی ہیں، حیدر آباد کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں 10 مئی 1941 کو پیدا ہوئیں۔ آپ کے نانا اپنے وقت کے جید عالم تصور کیے جاتے تھے۔ آمنہ ابوالحسن کے والد کا نام ابوالحسن سید علی تھا۔ آمنہ ابوالحسن کے بچپن میں ہی ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ اپنے والد کے زیر سایہ انہوں نے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ ان کے والد ابوالحسن سید علی مرحوم نامور قانون داں اور سیاست داں ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنما بھی تھے۔ مصنفہ کی شادی دورانِ تعلیم ہی جناب مصطفی علی اکبر صاحب سے ہوئی جو آل انڈیا ریڈیو میں نیوز ریڈر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ آمنہ ابوالحسن 9 اپریل 2005 کو سرائے فانی سے عالم لافانی کو منتقل ہو گئیں۔ آمنہ ابوالحسن کو بچپن ہی سے کہانی لکھنے کا شوق تھا۔ ان کی پہلی کہانی ”ننھی کلی“ کے عنوان سے بچوں کے لیے شائع ہونے والے رسالے میں چھپی تھی، اس وقت موصوفہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ کہانی شائع ہونے کے بعد ان کے قلم میں خود اعتمادی آگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تخلیقات یکے بعد دیگرے منظرِ عام پر آنے لگیں۔ انہوں نے متعدد ناول لکھے جنھیں اردو ادب میں بہترین ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ”سیاہ سرخ سفید“،”تم کون ہو“،”واپسی“،”مہک“، ”یادش بخیر“وغیرہ۔

آمنہ ابوالحسن کا سب سے پہلا ناول”سیاہ سرخ سفید“ 1968 میں نیشنل بک ڈپو، مچھلی کمان حیدر آباد سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ یہ ناول 224 صفحات پر مشتمل ایک رومانی ناول ہے۔ ان کا دوسرا ناول ” تم کون ہو“ 1974 میں نیشنل پرنٹنگ پریس، چار کمان، حیدر آباد سے شائع ہوایہ ناول 164 صفحات پر مشتمل ایک معاشرتی ناول ہے۔ان کا ایک اور ناول ” واپسی“1981 میں موڈرن پبلشنگ ہاوس ،گول مارکٹ سے شائع ہوا۔ ”یادش بخیر“1994 میں موڈرن پبلشنگ ہاوس ، دریا گنج، نئی دہلی سے شائع ہوا۔ ناول ” یادش بخیر “ میں قدیم تہذیب اور جدید دونوں رجحانات پائے جاتے ہیں ۔ مصنفہ نے ناول میں کہیں کہیں خود کلامی سے کام لیا ہے اور اس کے وسیلے سے کرداروں کے افکار و تصورات کی ترجمانی کی ہے۔

قمر جمالی
قمر جمالی کا اصلی نام قمر سلطانہ اور قلمی نام قمرجمالی ہے۔ موصوفہ کی پیدائش ڈسٹرکٹ نلگنڈہ کے ایک گاں ایٹور میں 1950 کو ہوئی۔ وہ دکن کی ایک مقبول و معروف فکشن نگارتصور کی جاتی ہے۔قمر جمالی کے ادبی سفر کا با قاعدہ آغاز ”اے چاند چھپ نہ جانا“ سے ہوا جو ایک عشقیہ موضوع پر مبنی کہانی ہے جو ایک ہفتہ وار اخبار ”رسالہ روداد حیات“ دہلی میں 1966 میں چھپا تھا۔ قمر جمالی بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔لیکن قمر جمالی ان تخلیق کاروں میں گردانی جا سکتی ہیںجنہوں نے ناول اور افسانہ دونوں کے تئیںحق ادا کیا ہے۔قمر جمالی نے ”آتش دان“ لکھ کر اپنی تخلیقیت اورفنی بصیرت کا مسلّم ثبوت ادبی دنیا کو فرا ہم کیا ہے۔ ’آتش دان‘نہایت ہی سہل اور آسان زبان میں لکھا گیا ہے جس میں وقت کے فلسفے کو ایک لطیف انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اشاروں کنایوں میں زندگی کے فلسفے کو سمجھایا گیاہے۔موصوفہ کا یہ پہلا ناول ہے۔اب تک انہوں نے صرف افسانوی ادب تخلیق کیا ہے۔اصولی طور پر اس ناول میں افسانوی رنگ زیادہ ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہے۔انہوں نے اس میں ایک نئے موضوع کو جگہ دی ہے۔ گاں کے کسانوں کی مظلومیت ،انانیت اور سیاست کی غنڈہ گردی ،دولت اور قبیلے کے بل بوتے پر ڈکٹیٹر شپ کی چکی میں پسے ہوئے عام انسان کو موضوع بنا یا گیاہے۔ناول نگار نے ایک چھوٹے سے دیہات کے ذریعہ ہندوستان کی سماجی ، سیاسی اور معاشی زندگی کو پیش کیا ہے۔ اس ناول میں جہاں ایک طرف سیاسی لیڈر کی انا پرستی اور ظلم کو واضح کیا گیا ہے وہیں انسان کی دم توڑتی قدیم سماجی زندگی کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ قمر جمالی کا ناول” آتش دان“ فنی نقطۂ نظر سے کامیاب ناول ہے۔ قمر جمالی نے اس وقت مارکسی نظریہ کو احیائے نو بخشا جب ہمارا اردو ادب نئے نظریات کے دھندلکوں میں کہیں گم ہوگیا تھا اور حقیقت نگاری کے بجائے غیر منکشف چیزوں پر زور دیا جاتا تھا۔ مجموعی طور پر قمرجمالی ایک ایسی نسائی آواز ہے جو اپنی تحریروں کی وساطت سے اردو دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔ ان کا ذوقِ جمال ان کے ناول ”آتش دان“ میں نکھر کر سامنے آیا ہے۔ ”آتش دان“ میں سلگتی جلتی بے چین و بے قرار دیہاتی زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔

جاوید شاہ آبادی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں