20/11/17

مولانا ابوالکلام آزاد اور عالمِ عرب از پروفیسر محمد اسلم اصلاحی

مولانا ابوالکلام آزاد اور عالمِ عرب


ہم میں سے شاید و باید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو اس حقیقت سے ناواقف ہو کہ ہمارے عظیم سیاسی وقومی رہنما اور ہمارے اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش 1888 میں سرزمین حجاز کے مقدس شہر مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی۔ اس سلسلے کی سب سے اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ مولانا کو سرزمین عرب سے اپنے اس پیدائشی تعلق کا احساس زندگی بھر رہا اسی لیے جب کبھی بھی انھیں کسی افتاد کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے عرب دانشوروں، مفکروں اور رہنماں سے کسب فیض میں کسی طرح کے تامل سے کام نہیں لیا۔ ان کی مادری زبان چوں کہ عربی تھی اسی لیے اوائل عمر سے ہی عربی رسائل ومجلات ان کے زیر مطالعہ رہے اور انھیں عرب ممالک کی علمی وادبی نیز اجتماعی و سیاسی نیز مذہبی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل ہوتی رہی۔ عربی کے یہ میگزین اور رسالے ابتدا میں انھیں اپنے والد اور ان کے دوستوں اور مریدوں کے توسط سے مل جاتے تھے۔ بعد کے ایام میں جب وہ خود اخبارات و رسائل کی دنیا سے وابستہ ہوگئے تو ان کے پاس ان کے اپنے اخبارات ورسائل کے تبادلے میں بعض اہم عربی مجلات اور اخبارات آنے لگے۔

جن عربی رسالوں اور میگزینوں سے وہ اول اول متاثر ہوئے ان میں مصر سے شائع ہونے والے رسائل الموید، الہلال، المنار، مصباح الشرق، اور سرزمین طرابلس، لبنان سے شائع ہونے والا جریدہ ’الجوائب‘ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ مذکورہ رسائل کے مطالعے سے جہاں انھیں اپنی عربی زبان کو بہتر سے بہتر بنانے کا موقع مل رہا تھا وہیں انھیں ان کے ذریعے عرب ممالک کے موجودہ سیاسی، علمی، ادبی اور مذہبی احوال وکوائف سے بھی آگاہی حاصل ہورہی تھی۔ اس آگاہی کا اثر ان کے افکار ونظریات پر بہت گہرا پڑا۔

یہ غالباً اسی اثر کا نتیجہ تھا کہ 1908 میں انھوں نے جب بعض عرب ممالک کی سیاحت کی تو وہاں کے علما وفضلا نیز دانشوروں سے موجودہ اسلامی دنیا کے مسائل ومشکلات کے بارے میں بڑی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا۔ ا س سیاحت کی بابت ان کے حوالے سے علامہ عبد الرزاق ملیح آبادی نے جو کچھ تحریر کیا ہے ، اس پر طائرانہ نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرب دنیا  کا دینی، ادبی او ر سیاسی حلقہ پہلے سے ہی مولانا کی شخصیت اور ان کے مقام و مرتبے سے واقف ہوچکا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ عراق ومصر و شام اور ترکی میں جہاں جہاں گئے ان کے واقف کاروں نے نہ صرف ان کا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا بلکہ بعض سیاسی امور میں ان کو کچھ ایسے مشورے بھی دیے جو آنے والے دنوں میں ان کے لیے منیارہ نور ثابت ہوئے۔ مولانا نے خوداس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے عرب ممالک میں اپنے سفر کے دوران وہاں کے علما وادبا نیز سیاسی رہنماں سے بہت کچھ سیکھا۔ مصر کے مشہوراور ہردلعزیز سیاسی رہنما مصطفی کامل کے ہمنواں سے انھوں نے ان سیاسی حربوں کی بابت جانکاری حاصل کی جن کا استعمال وہ لوگ وادیِ نیل پر براجمان برطانوی سامراج کے خلاف کررہے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاہرہ کی سیاسی سرگرمیوں کے مشاہدہ کے بعد مولانا آزاد کے دل میں برطانوی استعمار پسندوں کے خلاف نفرت کی آگ مزید بھڑک اٹھی اور انھوں نے اس بات کا عزم بالجزم کرلیا کہ آنے والے دنوں میں ان کی بیشتر تگ وتاز کا محور انگریزوں کے خلاف معرکہ آرائی ہوگی۔ ہندوستان اور مصر کے احوال ان کی نگاہ میں یکساں نوعیت کے حامل تھے۔ یہ دونوں ہی ملک برطانوی حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کے شکار تھے ۔ دونوں ہی ملکوں میں اپنے غیر ملکی آقاں کے خلاف غم و غصہ اور نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ دونوں ہی ملکوں کے باشندے غلامی اور ذلت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبورکر دیے گئے تھے۔ اس ظلم و جبر کے خلاف مصر کے سیاسی رہنما متواتر اپنی صدائے احتجاج بلند کررہے تھے اور اس بات کا پرزور مطالبہ کررہے تھے کہ ان کے ملک میں خود ان کے اپنے لوگوں کی حکومت ہونی چاہیے۔

اس طرح کے انقلابی افکار و خیالات نے مولانا آزاد کے انداز فکر اور زاویہ نظر میں زبردست تبدیلی پیدا کردی اور انھوں نے تہیہ کرلیا کہ وہ عربوں بالخصوص مصریوں کی طرح برطانوی سامراج کے خلاف لڑائی میں اپنی عظمت و شوکت نیز علم و دولت الغرض سب کچھ دا پر لگادیں گے۔ اور ہندوستان واپس آنے کے بعد انھوں نے فی الواقع کیا بھی ایسے ہی۔ اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے جب 13جولائی 1913 میں اپنے شہرہ آفاق رسالہ الہلال کا پہلا شمارہ شائع کیا تو ٹائٹل کور پر جمال الدین افغانی (1839-1897) کی تصویر اور اندرون صفحات پر شیخ محمدعبدہ (1845-1905)) اور علامہ رشید رضا (1935-1965) کی تصویر یں شائع کیں۔ مذکورہ تصویروں کی نمایاں اشاعت خود اس حقیقت کی غماز ہے کہ مولانا آزاد کو عرب بالخصوص مصری علما و فضلا نیز وہاں کے دانشوروں اور خردمندوں کے مقام و مرتبے کا بخوبی اندازہ تھا اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمانان ہند جمال الدین افغانی کے نظریہ ’اخوت اسلامی‘ کو اچھی طرح سمجھ کر مغربی استعمارپسندوں کے خلاف صف آرا ہوجائیں۔ الہلال کے بیشتر شمارے اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ مولانا اپنے مذکورہ رسالے کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف اہل یورپ کی ریشہ دوانیوں اور چیرہ دستیوں کو طشت ازبام کرنا چاہتے تھے اور اہل اسلام کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ مغرب کی سامراجی طاقتیں ان کے عقیدہ و ایمان نیز ان کے تہذیب و تمدن کی بیخ کنی پر آمادہ ہیں۔ مولانا آزاد کے بیشتر عرب مداحین ومعتقدین کا خیال ہے کہ اس طرح کے انقلابی افکار و نظریات مولانا کے ذہن و دماغ میں صرف اس وقت موجزن ہوئے جب انھوں نے مصر ی رہنماں اور دانشوروں مثلا مصطفی کامل، محمد فرید اور سعد زغلول نیز جمال الدین افغانی ، شیخ محمد عبدہ او ر علامہ رشید رضا وغیرہ کی سیاسی تحریروں اور ان کی دینی و علمی نگارشات کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا اور محسوس کیا کہ سارا عالم اسلام مغربی قمار بازوں اور دراندازوں کے خلاف لام بند ہے۔ ایسی صورت میں اگر مسلمانان ہند اپنے فریضہ دینی کے تعلق سے بیدار مغزی کا ثبوت نہیں دیں گے تو اقوام عالم کے درمیان ابدی ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہوگی اور ان کے لیے غلامی کی زنجیروں سے رہائی پانا انتہائی دشوار ہوجا ئے گا۔

مولانا کے عرب معتقدین کے اس خیال کو اگر مبنی بر صداقت تسلیم کرلیا جائے تو اس حقیقت کے اعتراف میں ہمیں کسی طرح کا تامل نہیں ہونا چاہیے کہ مولانا کی ذہنی و فکری ساخت میں عرب دانشوروں اور مفکروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مشہور عرب ادیب علامہ انور الجندی نے خاص طور سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مولانا آزاد کے دل و دماغ میں آزادی و حریت کی تڑپ، مغربی استعمارپسندوں سے نفرت و کراہیت نیز قوم و وطن سے محبت جمال الدین افغانی اورشیخ محمد عبدہ کی تحریروں سے تاثر پذیری کا نتیجہ تھی۔ مولانا کی نگاہ سے افغانی اور عبدہ کے زیر ادارت شائع ہونی والے العروة الوثقی کے بعض شمارے گزرچکے تھے اور انھیں بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ مغربی طاقتوں کے خلاف مقابلہ آرائی کا وقت آن پہنچا ہے اور اس مقابلہ آرائی کے لیے اہل اسلام کے درمیان اتحاد و اتفاق کا ہونا لازمی ہے۔ الہلال و البلاغ کے بیشتر مشمولات اسی مرکزی فکر کے آئینہ دار ہیں۔ اسی فکر و خیال کو مزید تقویت دینے نیز اس کی مزید تشہیر کی غرض سے مولانا نے 1923 میں’الجامعہ‘ کے نام سے عربی زبان میں ایک پندرہ روزہ رسالہ جاری کیا۔ اس پندرہ روزہ رسالے کی ادارت کی ذمے داری ہرچند کہ علامہ عبد الرزاق ملیح آبادی کے ہاتھوں میں تھی لیکن اس کے حقیقی روح رواں مولانا ابولکلام آزاد تھے اور یہ انھیں کے بنیادی افکار وخیالات کا ترجمان تھا۔ اس رسالے کے اجراءکے وقت ہی مولانا نے اس بات کی وضاحت کر دی تھی کہ اس کا مقصد دنیا ئے اسلام کو مغربی طاقتوں کے خلاف صف آراءکرنا ہے نیز ملت بیضاءکی بقا اور استحکام کے لیے خلافت عثمانیہ کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا ہے۔ عام مسلمانوں بالخصوص عربوں کو اہل یورپ کی ان چالوں اور سازشوں سے آگاہ کرنا ہے جنھیں وہ اسلامی دنیا کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اختیار کررہے ہیں۔

مولانا کو اپنے اس مقصد کے حصول میں اس وقت زبردست کامیابی ملی جب عربوں کے ایک بہت بڑے طبقے نے والیِ مکہ شریف حسین کے اس اقدام کی شدید مخالفت کی جس کی رو سے وہ خلافت عثمانیہ سے علیحدہ ہوکر ایک عرب سلطنت کی داغ بیل ڈالنے والا تھا۔ بہ الفاظ دیگر رسالہ’الجامعہ‘ کی آواز صدا بصحرا نہیں ثابت ہوئی۔ بیشتربرادران عرب نے اس آواز پر لبیک کہا۔ رسالے کی اس غیر معمولی مقبولیت سے گھبراکر شریف مکہ نے اپنے زیر اقتدار علاقوں میں اس کے داخلے پر پابندی لگادی۔ یہی نہیں بلکہ اپنے یہاں سے شائع ہوئے رسالہ ’القبلہ‘ میں ان مضامین و مقالات کی تردید شائع کروائی جو رسالہ الجامعہ میں اس کے خلاف لکھے گئے تھے۔ ان تردیدی تحریروں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسئلہ خلافت کے تعلق سے شریف مکہ کو نہ صرف مولانا کے افکار و خیالات پرسخت اعتراض تھا بلکہ اسے رسالہ الجامعہ کے مشمولات و مضامین کی بنا پر مولانا سے ذاتی عناد اور پر خاش ہوگئی تھی۔ غالبا اسی وجہ سے اس نے اپنی جوابی تحریروں میں مولانا کے لیے ابوالکلام کے بجائے ابوالکلاب یعنی پدر سگاں یعنی کتوں کا باپ لکھوایا۔

رسالہ الجامعہ میں شائع نگارشات و مقالات پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہم بہت جلد اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ مولانا مسئلہ خلافت کے تئیں انتہائی حساس واقع ہوئے تھے اور اس تعلق سے ان کا اپنے بعض عرب دوستوں سے بھی سخت اختلاف تھا یہی وجہ تھی کہ جب انھیں پتہ چلا کہ ان کے دوست علامہ رشید رضا مسئلہ خلافت کے باب میں عرب قوم پرستوں کے ہمنوا بن چکے ہیں تو انھوں نے متعدد خطوط ان کے نام لکھے اور ان سے اس بات کی وضاحت چاہی کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے خلافت عثمانیہ کے خلاف صف آرائی کیوں کر جائز ہے۔ مصر کے سابق وزیر اوقاف شیخ عبد المنعم النمر نے اپنے تحقیقی مقالہ ابوالکلام آزاد۔ المصلح الدینی والزعیم السیاسی فی الہند، میں ان خطوط کا تذکرہ قدرے تفصیل سے کیا ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ علامہ رشید رضا اور مولانا آزاد کے مابین خلافت عثمانیہ کے تعلق سے اختلاف رائے تھا۔ مولانا اس مسئلے کو خالص دینی نقطہ نظرسے دیکھ رہے تھے جب کہ علامہ رشید رضا اور ان کے معاصرمصری علماءعرب قوم پرستوں کے خیالات سے متاثر ہوکر عثمانی خلافت کو محض ایک سیاسی تنازعہ تصور کررہے تھے۔ اسی لیے وہ عثمانی خلافت کی بیخ کنی پر آمادہ عرب مفاد پرستوں کی ترکوں کے خلاف سرگرمیوں کی در پردہ تائید کررہے تھے۔ اس تناظر میں اگر ہم مسئلہ خلافت پر غور کریں تو یہ بات کس قدر عجیب لگتی ہے کہ ایک طرف جہاں ہندوستانی قائدین بشمول مولانا آزاد خلافت عثمانیہ کی بقا کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے وہیں دوسری طرف بیشتر عرب علماءو فقہاءمغربی طاقتوں کی ایما پر عرب علاقوں میں ترکوں کی پشت میں چھرے گھونپ رہے تھے اور دانستہ اور نادانستہ طور پر فلسطینی علاقوں میں موجود ہ اسرائیلی حکومت کی بنیادیں ہموار کررہے تھے۔

مولانا آزاد کو اس افسوس ناک صورتِ حال نے بے قرار کردیا تھا اور انھوں نے اپنی جانب سے بھرپور کوشش کی کہ برادران عرب اپنی ترک مخالف کارروائیوں سے باز آجائیں اور مغربی قمار بازوں کے ذریعے ترکوں اورعربوں کے درمیان پھیلائی گئی نسلی منافرت ومخاصمت کو بالائے طاق رکھ دیں لیکن یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ اس سلسلے میں مولانا آزاد کی ہر کوشش بے سود ثابت ہوئی اور وہ تاریخ کے مقدرات کو ٹال نہیں سکے حالانکہ اس سلسلے میں انھیں عرب علماءو مفکرین سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں وہ اس لیے کہ اسلامی تعلیمات میں نسلی اور قومی تفاخر و تناحر کی سرے سے کوئی گنجائش ہے ہی نہیں ۔ اس پس منظر میں انھیں یقین تھا کہ دینی تعلیمات سے آشنا عرب اپنے ان ہم وطن قوم پرستوں پر غلبہ حاصل کرلیں گے جو مغربی استعمار پسندوں کے شاطرانہ منصوبوں کا شکار ہوکر خلافت عثمانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تلے ہوئے تھے۔

اپنے اس یقین وایمان کے زیر اثر مولانا نے اردو میں مسئلہ خلافت اور جزیرہ عرب نامی کتا ب لکھی جس کا ترجمہ بالاقساط علامہ رشید رضا کے زیر ادارت شائع ہونے والے المنار میں شائع ہوا۔ اس کتاب کے لکھنے کی بنیادی غرض و غایت خلافت کے تعلق سے عربوں میں پائی جانے والی بدگمانیوں کا قلع قمع کرنا تھا اور ان پر یہ حقیقت واضح کرنی تھی کہ وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّٰہِ جمیعا یعنی جملہ اہل ایمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں،  پر موجودہ حالات میں عمل صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ہم خلافت عثمانیہ کی حفاظت و بقا کے لیے سرگرم ہوجائیں نیز اس پر منڈ لارہے خطرات کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں۔

بہرحال اس اہم اور نازک مسئلے پر مولانا کی جملہ کدو کاوش ناکامی کا شکار ہوگئی اور عرب قوم پرستوں کے بالمقابل ان کے قرآنی دلائل و براہین کو خود عرب علماءو فقہاءنے کوئی اہمیت نہیں دی۔ بہ الفاظ دیگر دینی رنگ میں ڈوبے ہوئے ان کے سیاسی بوباس کے حامل افکار و نظریات کو عرب دنیا میں کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اور خلافت عثمانیہ سے ان کے قلبی ، ایمانی نیز جذباتی تعلق پرکسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔

اس مایوس کن صورتِ حال کے باوجود ہمیں فی زمانہ یہ دیکھ کر یقینا بڑی خوشی ہوتی ہے کہ معاصر عرب دنیا میں مولانا کی شناخت آج بھی ان کے بعض دینی ، علمی اور ادبی کارناموں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ان کے ایسے علمی اور تحقیقی کارناموں میں ان کے اس انکشاف کو گرانقدر اہمیت حاصل ہے جس کا تعلق قرآن کریم میں مذکور ذوالقرنین کی شخصیت کی تحدید و تعیین سے ہے قرآن کے بیشتر مفسرین مولانا آزاد کے بقول مذکورہ تاریخی شخصیت کے تعلق سے غلط فہمی کا شکارہوگئے ہیں ۔ بنابریں انھوں نے ذوالقرنین کی شخصیت کو چیستا ں بنادیا ہے۔ مولانا آزاد نے اس موضوع پر تحقیق کی اور کافی غوروخوض نیز بحث وتمحیص کے بعداس  نتیجے پر پہنچے کہ ذوالقرنین نہ تو سکندر مقدونی ہیں اور نہ ہی عرب قبیلہ حمیر کے بادشاہوں میں سے کوئی بادشاہ بلکہ وہ درحقیقت قدیم بلاد فارس کے حکمراں کورش ہیں جنھیں یہودی حضرات قورش یا کیخسرو کے نام سے جانتے ہے۔ اور ان کا زمانہ سکندرمقدونی سے پہلے کا ہے۔ مولانا آزاد نے اپنے اس انکشاف کی تائید میں جو ثبوت و دلائل پیش کیے ہیں ان کو پڑھنے کے بعد شاید ہی کوئی ایسا کورمغز شخص ہو جو ان کی تحقیق کی داد دیے بغیر رہ جائے۔ عرب علماءو فضلاءاور محققین اس اعتراف حقیقت کے تعلق سے بھلا پیچھے کیوں رہتے۔ مصری عالم علامہ احمد حسن باقوری نے وَیَسالُونَکَ عَن ذِی القَرنَینِ یعنی لوگ ذوالقرنین کے بارے میں تم سے سوال کرتے ہیں “ کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی اور اس میں ذوالقرنین کے بارے میں مولانا آزاد کی تحقیق کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا اور اس سلسلے میں مولانا کے انکشاف کو حرف آخر قرار دیتے ہوئے ان کی ژرف نگاہی، دقیقہ رسی اور نکتہ سنجی کی جم کر مدح سرائی کی اور معاصر علماءنیز مفسرین کے درمیان انھیں تحقیق و تدقیق کے میدا ن میں یکتائے روزگار قرار دیا۔

مولانا آزاد کے شکوہ علم و فضل کا اعتراف عرب دنیا کے ہراس عالم دین نے کیا ہے جس کی برصغیر ہندوپاک کے تاریخی اور ثقافتی ورثے سے ذرہ برابر بھی دلچسپی رہی ہے۔ عربوں کے اندر اس دلچسپی کو پیدا کرنے میں سہ ماہی رسالہ ثقافة الہند جسے ہندوستانی وزارت خارجہ کے ایک ذیلی ادارہ انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز گزشتہ 65سال سے شائع کررہا ہے ، کی عظیم الشان خدمات کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس رسالے کی داغ بیل مولانا آزاد نے ہی ڈالی تھی اور اس کا مقصد عرب دنیا کو ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے واقف کرانا تھا۔ اس رسالہ کا اجرا خود اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ مولانا آزاد کے یہاں عربوں سے تعلقات کو ترجیحی حیثیت حاصل تھی اورانھیں بلاشبہ اپنے اس مقصد میں مذکورہ رسالے کی بدولت قابل قدر کامیابی حاصل ہوئی۔ عربوں کے اندر اس رسالے کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان شناسی کو فروغ حاصل ہوا ہے بلکہ اس کے ذریعے عرب علماءو مفکرین نے مولانا آزاد کے افکار و خیالات سے گہری شناسائی بھی حاصل کی ہے۔
پروفیسر محمد اسلم اصلاحی
نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں