21/11/17

تبصرہ دکن میں اردو از امتیاز احمد علیمی



دکن میں اردو

اردو کے جن محققین نے اپنی تحقیقی کاوش کی بنیاد پر ادبی دنیا میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ان میں نصیرالدین ہاشمی کا نام بے حد اہم ہے۔یہ حیدر آباد کے ممتاز دانشور اور نامور محقق ہونے کے ساتھ ماہر دکنیات بھی تھے۔انھوں نے ادبی دنیا میں اپنی تحقیقات،تالیفات اور تصنیفات کے ذریعہ ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔دکنی ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناکر ساری زندگی اس پر عمل پیرا رہے اور دکنیات کے تمام تر سرمایے پر محققانہ نظر ڈال کر کتابی شکل میں اسے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا تاکہ آنے والی نسلیں اس بیش قیمتی سرمایے سے استفادہ کر سکیں۔نصیرالدین ہاشمی کی علمی، ادبی، تنقیدی،تاریخی،لسانی،مذہبی اور تحقیقی خدمات بہت ساری ہیں جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں،یہاں ان کی صرف ایک کتاب ’دکن میں اردو‘ کا تعارف مقصود ہے جو ہاشمی صاحب کی پہلی تالیف ہے۔دکن کی ادبی تاریخ کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس کتاب کی جس قدر مقبولیت ہے وہ کسی اور کتاب کو حاصل نہیں ہے۔ اردو کی ادبی تاریخ اس کتاب کے بغیر نا مکمل تصور کی جائے گی۔اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ جہاں اس کے مختلف ایڈیشنوں کی اشاعت سے کیا جا سکتا ہے وہیں ادب کے زبان زد خاص و عام سے بھی لگایا جا سکتا ہے نیز اس کتاب کا عنوان ایسا ہے جو دوسرے صوبوں کے محققین کے لیے مشعل راہ ہونے کے ساتھ اپنے صوبے میں اردو کی نشوو نما کس طرح ہوئی یا ہو رہی ہے اس پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ایک بنیاد بھی ہے اور نمونہ بھی۔

اس کتاب میں کل سات ادوار قائم کیے گئے ہیں۔پہلا دور( 740ھ سے 900ھ)بہمنی عہد کا ہے جس میں اس عہد کی اردو کی نشوو نما کا تفصیل سے احاطہ کرتے ہوئے ان تمام شاعروں اور نثر نگاروں کی خدمات کاجنھوں نے اس زبان کی نشوو نما میں اہم کردار ادا کیا، سب کاتفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جب کہ دوسرا دور (900ھ تا 1100ھ) قطب شاہی دور ہے۔بہمنی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کے بعدجو پانچ سلطنتیں قائم ہوئیں ان میں گولکنڈہ، بیجاپور، احمد نگر، برار،اور بیدر قابل ذکر ہیں۔ یہ سلطنتیں قطب شاہی، عادل شاہی،نظام شاہی،عماد شاہی اور برید شاہی کے نام سے موسوم تھیں۔ مصنف نے الگ الگ فصل قائم کر کے مذکورہ سلطنتوں کے ذریعے جس طرح اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت ہوئی اور جن حکمرانوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں عملی طور پر حصہ لیا ان سب کا مفصل اور مدلل انداز میں احاطہ کیا ہے،نیز اس عہد میں جس طرح کی شعری ونثری اصناف وجود میں آئیں ان سب کا بھر پور اظہار کیا گیا ہے۔مذکورہ سلطنتوں نے علم و ہنر کی ترویج اور تہذیب و تمدن کو رواج دینے میں جس طرح کی کاوشیں کی ہیں وہ نا قابل فراموش ہیں۔ان سلطنتوں نے اردو کی سر پرستی کی اور اس کو ترقی دے کر بار آور بنا دیا، یہی نہیں بلکہ اس کو اپنی سرکاری اور دفتری زبان قرار دے کر اس میں مزید روح پھونک دی۔کتاب میں ان سلطنتوں کے ذریعے اردو ادب کی بیش بہا خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

تیسرا دور(1101ھ تا  1136ھ) مغلیہ عہد کا ہے جس میں مغلیہ اردو کی نشوو نما پر تفصیلی مباحث ہیں جن میں ولی کی دہلی آمد کے بعد جو اردو پروان چڑھی اور جس زبان میں شاعری کی جانے لگی ان سب کے اسباب و علل کا محققانہ جائزہ لیا گیا ہے۔اس کے علاوہ نظم و نثر میں تبدیلی زبان سے جس طرح کی شفافیت آگئی تھی مثالوں کے ذریعے اس کو واضح کیا گیا ہے۔

چوتھا دور(1136ھ تا1220ھ)کا ہے جو سلطنت آصفیہ کے عہد حکومت کا زمانہ ہے،اس حکومت کی زبان اگرچہ فارسی تھی اور سارے دفتری امور فارسی میں ہی انجام دیے جاتے تھے لیکن فارسی کے ساتھ ساتھ اردو بھی قدم سے قدم ملا کر چل رہی تھی اور اس عہد کے شعرا و ادبا اپنی تخلیقات فارسی کے ساتھ اردو میں بھی پیش کرتے رہے اور رفتہ رفتہ اردو زبان میں انگریزی اور فرانسیسی کتابوں کے تراجم کی بھی ابتدا ہوئی۔اردو کے پہلے علمی رسالے اور اردو یونیور سٹی کے قیام کا سہرا بھی سلطنت آصفیہ کے سر جاتا ہے۔ اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں اس سلطنت نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔اردو زبان و ادب کی آبیاری میں اس سلطنت نے جو کردار نبھایا، مصنف نے مختلف تاریخی حوالوں سے اس عہد میں اردو زبان و ادب کی صورتِ حال کابھر پور احاطہ کیا ہے۔

پانچواں اور چھٹا دور بھی سلطنت آصفیہ سے ہی متعلق ہے۔اس عہد میں نظم و نثر میں لسانی اور موضوعاتی سطح پر تغیر و تبدل کا ذکر کرتے ہوئے اردو کے سرکاری زبان بننے تک کی تمام روداد رقم کی گئی ہے۔اس کے علاوہ مختلف انجمنوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کے ذریعے اردو زبان و ادب کا بہت زیادہ فروغ ہوا۔

ساتواں دورجس میں اردو کے عروج و زوال کی داستان رقم کی گئی ہے، 1336ھ تا 1374ھ پر مشتمل ہے۔ اس میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں جامعہ عثمانیہ،کلیہ جامعہ عثمانیہ اور شعبہ تالیف و ترجمہ کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے اس عہد کے شعرا اور نثر نگاروں کے ساتھ خواتین کے کارناموں کابھی مفصل احاطہ کیا گیا ہے۔ نیز اردو زبان و ادب کے فروغ میں اردو اخبارات و رسائل اورر مختلف انجمنیں مثلاً انجمن ترقی اردو،ادارہ ادبیات اردو،حیدر آباد اکیڈمی،اردو مجلس،انجمن ارباب اردو اور انجمن ترقی پسند مصنّفین وغیرہ نے جو خدمات انجام دی ہیں ان سب کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔

مذکورہ سات ادوار کے بعد ’آندھرا میں اردو‘ کے تحت آندھرا پردیش میں اردو زبان و ادب کی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے تقسیم ہند کے نتیجے میں اردو کی جو صورتِ حال ہوئی اس کو تاریخی تناظر میں پیش کرتے ہوئے لسانی سطح پر مختلف صوبوں کی تقسیم کا ذکر کیا گیا ہے اور مرد و خواتین شاعر اور نثر نگاروں کی تخلیقات پر مدلل گفتگو کی گئی ہے۔


مذکورہ تما م مباحث کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے جس میں دکنی ادب کا بھر پور احاطہ کیا گیا ہے۔قومی کونسل نے اسے کم قیمت میں شائع کر کے ادب کے طلبا کے لیے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔

کتاب کا نام:   دکن میں اردو
مصنف: نصیر الدین ہاشمی
صفحات: 945،
 قیمت: 325 روپے،
 سنہ اشاعت: 2016
پبلشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان
مبصر:     امتیاز احمد علیمی،ریسرچ فیلو،شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی


اگر آپ اس کتاب کو خریدنا چاہتے ہیں تو رابطہ کریں:
شعبۂ فروخت: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،ویسٹ بلاک8، وِنگ 7،آر کے پورم، نئی دہلی۔110066
ای میل: sales@ncpul.in, ncpulsaleunit@gmail.com
فون: 26109746-011
فیکس: 26108159-011

بچوں سے متعلق قومی اردو کونسل کی دیگر کتابوں کو آن لائن پڑھنے کے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں:
http://urducouncil.nic.in/E_Library/urdu_DigitalFlip.html

کونسل کی دیگر ادبی کتابوں کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں۔
http://urducouncil.nic.in/E_Library/urduBooks.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...