14/2/24

منٹو کے افسانوں کی سماجی و تہذیبی معنویت:ڈاکٹر قمرالحسن

 


اردو کے افسانوی و غیرافسانوی ادب کی تاریخ میں سعادت حسن منٹو کی فن کارانہ شخصیت نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔ ان کے موضوعات اور رجحانات میں کافی تنوع ہے۔ اردو افسانہ نگاروں نے اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے بہت سے رجحانات اور میلانات کو حالات کے مطابق قبول کیا۔ انھوں نے زمانے کی ہوا کے ساتھ بعض رجحانات کی پرورش وپرداخت بھی کی۔ مگر منٹو کے بے باک مزاج نے کسی خاص رجحان کی تقلیدگوارا نہیں کی۔ بلکہ اپنی آزاد طبیعت کی وجہ سے انفرادی شناخت قائم کی۔ انھوں نے اسی کے باعث غیر معمولی مقبولیت بھی حاصل کی۔

سعادت حسن منٹو نے اپنے ادبی سفر کا آغاز روزنامہ ’مساوات ‘ کی کالم نگاری سے کیا تھا۔ وہ عہد ترجمہ نگاری کے عروج کا دورتھا۔ تو منٹو نے بھی ترجمہ نگاری کے عمل سے خوب استفادہ کیا۔ انھوں نے فرانسیسی اور روسی ادیبوں کی  افسانوی تخلیقات کا ترجمہ کیا۔وہ روسی افسانوں کے بڑی پابندی سے تراجم کرتے،جومعروف رسالہ ’ہمایوں‘ میں شائع بھی ہوتے رہے۔ بعد میں ’روسی افسانے ‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ یہ افسانوی مجموعہ منٹوکی ترجمہ کاری کے فن پر مہارت کا بین ثبوت ہے۔

یہ بدیہی حقیقت ہے کہ انسان جس ماحول کا پروردہ ہوتا ہے۔اس کی شخصیت پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ منٹو زمانۂ طالب علمی سے غیر ملکی ادیبوں کی تخلیقی اور غیرتخلیقی نگارشات کا مطالعہ کررہے تھے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ باری علیگ کی تحریک پر ترجمہ کاری کی طرف مائل ہوئے۔ بعدازاں انھوں نے طبع زاد افسانے قلم بند کیے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدائی تخلیقات میں مغربی افسانوں کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا اولین افسانوی مجموعہ ’آتش پارے‘ مغربی ادیبوں کے افسانوں کے تاثرات کی چغلی کھاتا ہے۔انھوں نے آزادی سے قبل کی افسانوی نگارشات میں، مغربی افسانوں سے موضوعی اعتبار سے خاطر خواہ استفادہ کیا۔ تاہم ان کے منفرد اسلوب نے قارئین کے دل ودماغ پر خاص تاثر قائم کردیا تھا۔ ان کے ابتدائی افسانوں میں روسی ادیب میکسم گورکی کی کہانیوں کے دبے کچلے مفلوک الحال انسانوں کی طرح، خود ان کے قرب وجوار کی سماجی زندگی کے غریب نادار اور مجبور انسان بھی نظر آتے ہیں۔یہ انسان اپنے عہد کے تہذیب وتمدن اور اس کی بنیادی ضرورتوں کو بروئے کار لانے والے وسائل سے بھی محروم ہیں۔ منٹو اس سیاق میں نظریاتی طور پر گورکی کے انتہائی قریب نظرآتے ہیں۔ کیونکہ ان کی ابتدائی نگارشات میں اشتراکیت سے لگاؤ کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے مضامین کسان مزدور، سرمایہ دار اور زمین دار... وغیرہ اشتراکیت سے ان کی فکری وابستگی کامظہر ہیں۔

سعادت حسن منٹو اپنے عہد کے حالات وواقعات سے خوب آگاہ تھے۔ ان کی حساس طبیعت پر ان کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ انھوں نے نوع بشر کے احساسات اور جذبات کے ساتھ ان کی اخلاقی اور غیر اخلاقی زندگی کے پہلوؤںپر خاص توجہ دی ہے۔انھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو افسانوں میں منتقل کردیا۔ انھوں نے اپنے دور کے ہندوستان کی ابتر صورت حال کوکھلی آنکھوں سے دیکھا تھا۔یہی وجہ ہے انھوں نے افسانوی نگارشات میں ابتدا ہی سے سیاسی موضوعات و مسائل کو برتا ہے۔ وہ زمانے کے حقیقی حالات و واقعات کو پیش کرنے میں تذبذب کا شکار نہیں ہوئے۔ بلکہ پریم چند کی حقیقت پسندی کی روایت کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے اپنے عہد کے سیاسی حالات وکوائف کو افسانوں کے پلاٹ کا حصہ بنادیا۔ منٹو کے سیاسی میلان ورجحان کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کا پہلا افسانہ ’تماشا‘ اسی موضوع کا عکاس ہے۔ منٹو نے یہ افسانہ جلیا نوالا باغ کے سانحے سے متاثر ہوکر قلم بند کیا تھا۔ جوان کے اولین افسانوی مجموعہ ’آتش پارے‘ میں شامل ہے۔ اس مجموعے کے بیشتر افسانے سیاسی حالات وکوائف کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کیونکہ ہندوستان کے اس عہد کی سیاسی فضا انگریزوں سے ٹکراؤ کی تھی۔و ہ سیاسی تحریکوں سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے تقسیم ہند سے قبل بھی بے باکانہ انداز میں لکھا مگر بعد ازاں بڑی شدت سے سیاسی رجحان کے زیر اثر اپنے خیالات کو افسانوں کے قالب میں ڈھالا۔ انھوں نے اپنے عہد کی ناگفتہ بہ صورت حال اورا نسان کی ذلت ورسوائی کو اپنے احساسات اور جذبات کا حصہ بناکر اپنی نگارشات میں محفوظ کردیا۔ ان کے ابتدائی افسانے اسی سیاسی صورت ِحال کی غمازی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے افسانے  خونی تھوک، تماشا، نیا قانون، عزت کے لیے، کھول دو، ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ قابل غور ہیں۔

سعادت حسن منٹو نے کمال فن کاری سے سیاست کے روکھے سوکھے واقعات کو بھی بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی کہانیوں کی یہ سچائی اس عہد کی سیاست کا آئینہ بن گئی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوی کرداروں کے ذریعے ظلم وجبر، منافرت، بے چینی اور سیاسی گھٹن کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ ان کی تخلیقات میں غم وغصے کی زیریں لہریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ’آتش پارے‘ مجموعے کا پہلا افسانہ ’خونی تھوک‘ فرنگی سامراجی نظام سے شدید نفرت کی عکاسی کرتا ہے، جس میں ایک مفلوک الحال قلی مزدور کے کردار کے ذریعے اس بات پر توجہ مبذول کی ہے کہ وہ مزدور عملی کارکردگی،فرض شناسی سے پہلو تہی نہیںکرتا۔ تاہم وہ اس نظام کی خرابیوں کے باعث انتہائی مفلسی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اس طبقے کے عوام کی زندگی کی حیثیت حکمراں جماعت کے نزدیک کیڑے مکوڑو ں کے مترادف ہے۔ وہ اپنے غیظ وغضب کی شدت کے کیتھارسس کے لیے محنت کش طبقے پر ظلم وستم کو روا رکھتے ہیں۔ مظلوم طبقہ تمام پریشانیوں کو بڑی خاموشی سے برداشت ہی نہیں کرتا بلکہ اس کا عادی بھی ہوجاتا ہے۔لیکن کبھی غریبوں کا اپنی ذلت ورسوائی کا پیمانہ چھلک پڑتا ہے۔تو ان کی اس جرأت کا انجام،ان کو موت سے ہمکنار کردیتا ہے۔ حکمراں طبقہ نہ صرف غریبوں کی تذلیل کرتاہے بلکہ مذاق بھی اڑاتا ہے۔منٹو کے اس افسانے میں  ایک رئیس، انتہائی تشویشناک حال میںدم توڑتے ہوئے قلی کو دھکیل کر چند روپیوں سے اس کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ ہاں مگر یہ قلی خودداری کے باعث زخمی حالت میں بھی اپنے ضمیر کی طاقت کو مجتمع کرکے اس رئیس پر خونی تھوک پھینک کر اپنی جان خالقِ حقیقی کے حوالے کردیتا ہے۔ مگر عدل وانصاف سے عاری نظام مسافر رئیس کودو مہینے عدالت میں پیشی کے بعد معمولی رقم کے جرمانے کے بعد بری کردیتا ہے۔افسانہ نگار نے منصفینِ عدالت پر کیا خوب طنز کیا ہے :

’’مسافر کا مقدمہ دو مہینے تک متواتر عدالت میں چلتا رہا۔ آخر فیصلہ سنادیا گیا۔ فاضل جج نے ملزم کو معمولی جرمانہ کرنے کے بعد بری کردیا، فیصلے میں یہ لکھاتھا کہ قلی کی موت اچانک تلی پھٹ جانے سے واقع ہوئی ہے۔ فیصلہ سناتے وقت خالد اور مسعود بھی موجود تھے ملزم ان کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ اور کمر ے سے باہر چلا گیا۔قانون کا قفل صرف طلائی چابی سے کھل سکتا ہے۔‘‘

(آتش پارے خونی تھوک، اشاعت اولیں، ص32)

سعادت حسن منٹو کے بعض افسانوں کے مرکزی کردار سیاسی نظام کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ’نیاقانون‘ افسانے کا منگو کو چوان ریاستی مظالم، سیاسی چیرہ دستیوں، اس کے جبر اور تنگ نظری کا پروردہ ہے۔ وہ کافی عرصے تک انگریزی سامراج کے ظلم وجبر کا شکار رہا ہے۔ مگر وہ جیسے ہی موقع پاتا ہے انجام سے عاری اس نظام کے جابرانہ سلوک کے خلاف انتہائی اقدام سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس کے اندر سلگتی ہوئی نفرت کی چنگاری  شعلے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ وہ مظلوم انسانوں کا نمائندہ بن کر،موقع پاتے ہی ایک انگریز شخص کی جی بھر کر پٹائی کردیتا ہے اور اسے زد وکوب کر کے اپنے نفرت آمیز جذبات کی تسکین کرلیتا ہے۔

سعادت حسن منٹو کے حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ ان کے یہاں جنسی رجحان حاوی ہے۔ان کے چند افسانے اس کی چغلی ضرور کھاتے ہیں۔مگر بیشتر افسانوں میں سماجی رجحان کے ساتھ سیاسی رجحان بھی حاوی رہتا ہے، جس کو عام قارئین نظر انداز کرجاتے ہیں۔برصغیر میں تقسیم ہند کے بعد جو فسادات ہوئے اس میں لاکھوں انسانوں کی موت ہوئی۔ جو اس عہد کی سیاست کی ناکامی تھی۔ فسادات کے تعلق سے بہت سے افسانہ نگاروں نے افسانے لکھے ہیں۔ مگر منٹو ان سب میں منفرد اور ممتاز افسانہ نگار ہیں، جن کے متعدد افسانے جیسے ’شریفن‘  ٹوبہ ٹیک سنگھ، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، رام کھلاون، سہائے، موذیل اور خدا کی قسم... وغیرہ موضوع اور فن کے اعتبار سے نہایت ہی عمدہ افسانے ہیں۔

فسادات کے حوالے سے سیاسی رجحان کی نمائندگی کرنے والے افسانوں میں انسان کا بہر وپی رنگ سامنے آتا ہے۔وہ کہیں شوہر، کہیں باپ، کبھی محافظ اور کبھی مذہب کا لبادہ پہن کر، مختلف روپ میں ڈھل جاتا ہے۔ منٹو نے  ایسے انسانی حیوانوں کی بہیمیت کواپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔ ان افسانوں میں انسان کی اخلاقی قدروں کی پامالی دکھائی گئی ہے۔

منٹو نے ’شریفن‘ افسانے میں انسان کی اخلاقی اور ذہنی پستی کی تصویر پیش کی ہے۔ اس کہانی میں فسادات کے تعلق سے بڑی تشویشناک صورت حال ملتی ہے یہ افسانہ اپنے واقعے کے اعتبار سے سیاسی ماحول کا ترجمان ہے۔ اس افسانے کا کردار قاسم زخمی حالت میں اپنے گھر پہنچتا ہے تووہ گھر کے اندر اپنی بیوی اور کم سن بیٹی کی برہنہ لاش کو دیکھتا ہے۔ اس کے اندر فطری طور پر انتقام کا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے۔وہ غیظ و غضب کی حالت میں گھر سے گنڈا سالے کر نکلتا ہے اور چار آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ بملا نام کی ایک لڑکی کی آبروریزی کرکے اس کو بھی قتل کردیتا ہے۔مگر قاسم کو بملا کی برہنہ لاش دیکھ کر خود اپنی بیٹی شریفن کی یاد آجاتی ہے۔ تو وہ احساس ندامت کے فطری جذبہ سے مغلوب ہوکر بملا کی لاش پر کمبل ڈال دیتا ہے۔ منٹو کے اس افسانے میں انسانی ظلم وجبر کے وحشیانہ پن کے باوجود انسانیت کے فطری جذبے کی ہلکی سی رمق بھی ہے۔ا س کیفیت کو منٹو کے الفاظ میں دیکھیے:

’’جب قاسم نے آنکھیں کھولیں، تو اس کے دونوں ہاتھ لڑکی کی گردن میں دھنسے ہوئے تھے۔ ایک جھٹکے کے ساتھ انھیں علاحدہ کرکے وہ اٹھا، پسینے میں غرق اس نے ایک نظر اس لڑکی کی طرف دیکھا، تاکہ اس کی اورتشفی ہوسکے۔ ایک گز کے فاصلے پر اس جوان لڑکی کی لاش پڑی تھی،ننگی... دونوں ہاتھوں سے اس نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ بدن پر گرم گرم پسینہ برف ہوگیا اور اس کی رگوں میں کھولتا ہوا لاوا پتھر کی طرح منجمد ہوگیا۔‘‘(نمرود کی خدائی ص113-14)

منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ فسادات کے بعد سیاسی پس منظر میں لکھا گیابہترین افسانہ ہے جو فسادات کے ظلم وجبر سے قطعی الگ اچھوتے موضوع پر لکھاگیا ہے۔ جس میں ہندوستان کی تقسیم کے چند سالوں کے بعد قیدیوں بٹوارے اور ان کی منتقلی کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں اخلاقی طور پر دماغی معذور یعنی پاگلوں کے تبادلے کا معاملہ بھی ایک سیاسی نوعیت اختیار کرگیا۔اس میں دونوں طرف کی حکومتوں کو تبادلے کی تاریخ مقرر کرنی پڑی۔ لاہور کے پاگل خانے کے ایک پاگل بشن سنگھ عرف ٹوبہ ٹیک سنگھ کو بٹوارے کی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے۔ تو وہ اپنی آبائی زمین کو چھوڑ کر دوسری جگہ جانے سے انکار کردیتا ہے۔ وہ دونوں مملکتوں کے مابین زمین کے اس قطعے پر جان کی بازی ہار جاتا ہے جس کا کوئی نام نہ تھا۔ منٹو نے اس افسانے کے خیال کو ضروری تفصیلات کے ساتھ ایک المیے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اس افسانے کا اہم کردار بشن سنگھ جوقطعی بے ضرر انسان تھا۔ وہ ہندوستان اور پاکستان کے بٹوارے کی تاب نہ لاکر جان دے دیتا ہے۔ آخری پیراگراف پر توجہ دیجیے:

’’ آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لیے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی۔ اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔ سورج نکلنے سے پہلے ساکت وصامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ ادھر ادھر کئی افسردوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا، اوندھے منھ لیٹا تھا۔ ادھر خار دار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔ ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔‘‘ (اردو کے تیرہ افسانے۔اطہر پرویزص10)

سعادت حسن منٹو کے  چندافسانوں میں جنسی رجحان کی بازگشت ضرور ہے۔ مگر ان کا مقصد جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنا نہیں ہے۔ بلکہ معاشرے میں موجود برائی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو واضح کرنا ہے۔ ان کے یہاں آزادی سے پہلے اور بعد کے افسانوں میں جنسی رجحان میں اعتدال ہے۔جنونی کیفیت کی شدت نہیں پائی جاتی ہے۔ جنس ایک ابدی حقیقت ہے۔یہ نوع بشر کا محبوب موضوع بھی ہے۔ اس کا تعلق حیات انسانی کے ساتھ بیشتر ذی روح کے فطری رجحان سے بھی ہے۔ اس کو حیات انسانی سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کو سماجی بندشوں کے ذریعے روکا نہیں جاسکتا۔ درحقیقت حیات انسانی جنسی جذبے سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتی۔ منٹو نے انسان کی جنسی جبلت کو بغیر حدود وقیود کے اس کے اصلی روپ میں پیش کردیا۔ مگر اس کے اظہار میں لذتیت اور سستی جنس نگاری سے گریز کیاہے۔ وہ معاشرے میں پائی جانے والی جنسی برائیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ انھوں نے سماج میں جو برائی دیکھی اور محسوس کی ہے، اس کو اپنے افسانے کے موضوع میں کمال فن سے ڈھال دیا ہے۔ وہ تو ایک سماجی ماہر نفسیات کی طرح معاشرے میں نمو پانے والی برائیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس تعلق سے ان کے چند افسانے، کلمہ، بلاؤز، پھاہا، دھواں اور ہتک وغیرہ قابل توجہ ہیں۔

کھول دو ‘ منٹو کا اہم مگر متنازع فیہ افسانہ ہے۔ جب اس افسانے کو ’’نقوش‘‘ میں شائع کیا گیاتو اس کی چھ ماہ کے لیے اشاعت بند کردی گئی تھی۔ اس میں منٹو نے کیمپ کے رضا کاروں کے ذریعے ایک نوجوان خاتون کی کئی دن تک کرتے رہنے کے گھناونے واقعے کو بیان کیاہے۔

اردو کے افسانوی ادب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں جنسی رجحان کا فروغ سماج میں ٹھکرائی گئی عورتوں اور طوائفوں سے ہوا ہے۔ ہمارے افسانہ نگاروں نے اس موضوع پر بہت لکھا۔ مگر منٹو نے اپنے کمال فن سے اس موضوع میں بھی جدت طرازی اور حقیقت پسندی کو پیش نگاہ رکھا۔ ہاں طرفہ یہ ضرور ہے کہ انھوں نے ایک یا دو افسانوں پر اکتفا نہ کیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ  معاشرے کی استحصال زدہ عورتوں کے بہت سے حالات کو ایک ہی افسانے میں قلم بند نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی وجہ سے انھوں نے اس موضوع پر ہتک،کالی شلوار، ممی، جانکی،خوشیا، شانتی وغیرہ بے مثل افسانے اردو ادب کو دیے۔

منٹو نے اپنے کمال فن سے درجن بھر سے زائد افسانوں میں طوائف کی گناہ آلودزندگی کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ ان کی بدکردار زندگی کے باوجود،ان سے ہمدردی ہونے لگتی ہے۔ کیونکہ منٹو نے ان کے ساتھ مردوں کے غیر انسانی رویے کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ایسے بدقماش لوگوں سے ان طوائفوں کو آئے دن سابقہ پڑتا ہے۔

منٹو نے جنسی رجحان سے متعلق بیشتر افسانوں میں مرکزی کردار طوائف کے طبقے سے لیے ہیں۔ان کے افسانوں سے طوائف اور جنس کی ہولناک صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے معاشرے کے گھناؤنے تلخ حقائق کی نقاب کشائی کی ہے۔ دراصل منٹو کا یہ جنسی رجحان سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی تھا۔

منٹو نے معاصر حالات وواقعات کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے۔یوں بھی ان کی حساس طبیعت اور شعور انتہائی توانا تھا۔ انھوں نے عصری زندگی کے حقیقی حالات ومعاملات کو اپنے افسانوی فن کی بنیاد بنایا۔ ان کے افسانوں کے غائر مطالعے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے برصغیر کے سیاسی سماجی اور تہذیبی کوائف سے گہری واقفیت تھی۔ وہ دنیائے ادب کا مطالعہ کرنے کے باعث اس بات کا گہرا شعور رکھتے تھے کہ کوئی بھی شاعر یا ادیب اپنے سماج سے روگردانی کرکے بڑا ادب تخلیق نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ اپنے ہی سماج کا پروردہ ہوتا ہے وہ اپنے سماج کے حالات وواقعات کے نشیب وفراز اور اس کی تبدیلیوں کا بہتر ترجمان ہوتا ہے۔ منٹو نے ہندوستان کے بٹوارے سے قبل اور بعد کی سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی اور انسانی قدروں کی شکست وریخت کی اپنی نگارشات میں خاطر خواہ عکاسی کی ہے۔ انھوں نے ہندوستان کے ہندو مسلم معاشرے کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ انھوں نے معاشرتی حالات وکوائف کو بغیر کسی تعصب کے افسانوی فن میں ڈھال کر صفحۂ قرطاس کے حوالے کردیا۔ ان کے افسانوں میں بعض ہندو کردار مسلم کرداروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ان کرداروں میں بابو گوپی ناتھ،ایشر سنگھ،ترلوچن، سریتا، سوگندھی،رام کھلاون اور جانکی وغیرہ اردو افسانوں میں زندہ جاوید ہیں۔ منٹو انسانیت میں یقین رکھتے تھے۔ ان کی تخلیقات مذہبی تنگ نظری سے مبرا ہیںانھوں نے افسانوں کے موضوعات اور نفس مضمون میں انسان دوستی اور عظمت ووقار کو مقدم رکھا ہے۔ ان کا یہ خاص امتیاز ہے جوان کوافسانے کی تاریخ  میں سرفراز ی اور جاودانی عطا کرتا ہے۔

منٹو نے سماجی ومعاشرتی رجحان کے تحت جو افسانوی تخلیقات پیش کی ہیں،  اس میں سماجی زندگی کے مسائل کا زبردست اظہار ملتا ہے جو بیسویں صدی کے درمیانی دور میں تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول اور شہری سماج کا عکس ہے۔ اس دور میں بھی امیر اور ظالم طبقہ اپنے سے کمزور طبقے کا استحصال کرتا تھا۔منٹوخود بھی کمزور طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔وہ ان کے مسائل ومعاملات سے خاطر خواہ واقف تھے۔وہ ہر طرف معاشی بدحالی، ذہنی ونفسیاتی کشمکش، جہالت اور ظلم وجبر دیکھ رہے تھے۔ جس کے باعث بہت سے افراد معاشی وسماجی مجبوریوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے غلط کاریوں میں مبتلا ہورہے تھے۔ منٹو نے اپنے سماج کے ایسے لوگوں کے حالات کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے ان کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کی ہے۔انھوں نے ان کی بدعنوانی اور بدکرداری کو قریب سے دیکھا اور ان کرداروں کے تحت الشعور میں اتر گئے،تو انھوں نے بابو گوپی ناتھ، ممد بھائی،میرا نام رادھا ہے، سرکنڈو ں کے پیچھے وغیرہ کہانیاں قلم بند کیں۔

سعادت حسن منٹو نے اپنی افسانوی تخلیقات میں سماج میں پھیلی برائیوں اور خامیوں کو بغیر مبالغہ آرائی کے پیش کیا ہے انھوں نے حقیقت پسندانہ انداز میں معاشرے کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے جس میں وہ اپنے کرتوت اور مکروہ چہروں کو واضح طور پر دیکھ سکے۔ البتہ انھوں نے واعظ اور مصلح بننے کی قطعی کوشش نہیں کی۔ وہ سماج کی حقیقی تصویر کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ وہ معاشرے کی ابتر صورتِ حال اور اس کے مسائل کے حل کی تلاش نہیں کرتے۔بس وہ سماج کے افراد کی ترجمانی کرتے ہیں اور لوگوں کو جھنجھوڑ تے اور بیدار کرتے ہیں۔ ان کا مقصد سنسنی پھیلانا نہیں ہے بلکہ وہ معاشرے کے بدعنوان افراد کی مکاریوں اور کینہ پروری کو طشت ازبام کرتے ہیں۔

سعادت حسن منٹو یوں تو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ مگر ان کی زندگی کا زیادہ وقت بمبئی دہلی اور لاہور میں گزرا۔ ان کے افسانوں اور خاکوں کے زیادہ تر کردار بمبئی شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے مذکورہ شہرکی معاشرتی زندگی کو بڑے قریب سے دیکھا،تو انھوںنے وہاں کی سماجی زندگی کے حالات اور واقعات کو بڑی فن کاری سے اپنے افسانوں اور خاکوں میں پیش کردیا۔ ان کے یہاں سماجی شعور گہرا ہے وہ خاص طور سے انسان دوستی اور درد مندی سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں تاریخی اور سماجی شعور کی خوب عکاسی کی گئی ہے۔ انھوں نے افسانوں میں مجبور عورتوں کی خوبی وخامی ہی نہیں دکھائی ہے بلکہ مردوں کی شرافت ور ذالت کی بھی خوب تصویر کشی کی ہے۔

منٹو کا معروف افسانہ ’بابو گوپی ناتھ‘ سماج کی اسی کیفیت کا عکاس ہے جس میں مردوں کے دجل وفریب کے ساتھ خلوص ومحبت اور رواداری دکھائی دیتی ہے۔ افسانے کی ہیروئن ’زینت‘ جو بابو گوپی ناتھ کی داشتہ ہے وہ اخلاق باختہ ضرور ہے مگر وہ فطری طور پر سادہ لوح، ملنسار اور ناتجربہ کار بھولی بھالی لڑکی ہے۔ ہاں بابو گوپی ناتھ مجرب شخص ہے جس کی لاہور کی تقریباً تمام طوائفوں سے شناسائی رہی ہے۔ اس کو مزاروں اور کوٹھوں پر صرف مکروفریب ہی دکھائی دیا۔ وہ اس مکروفریب کا اس قدر عادی ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی باقی حیات کو مزاروں پر گزارنے کاخواہشمند ہے۔ کیونکہ وہ کنگالی کی حالت میں کوٹھوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا۔بابو گوپی ناتھ کو اس حالت پرپہنچانے والے اس کے مطلبی دوست عبدالرحیم سینڈو، غلام علی، سردار بیگم اور غفار سائیں پیش پیش ہیں جو اس کی دولت کوحیلوں بہانوں سے لوٹتے رہے۔ بابو گوپی ناتھ کو ان کی فریب کاریوں اور اپنی بربادی کا خوب احساس تھا۔ تاہم اس نے چشم پوشی کو اپنا شعار بنائے رکھا۔وہ جان بوجھ کر قطعی انجان بنارہا۔ وہ خود فریبی کاشکار ہوتا رہا۔ مگر اس نے دوسروں کی دل آزاری اور دھوکہ دینا گوارا نہ کیا۔ بابو گوپی ناتھ اپنی داشتہ ’زینت‘ کو اس کی خوبیوں کے باعث چھوڑ کر جانے کے لیے تیار نہیں وہ اس کی معصوم حرکتوں اور بھولے پن سے گہری محبت وعقیدت رکھتا ہے۔چاہتا ہے کہ میر ی دولت ختم ہونے سے پہلے زینت اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے۔  وہ اس کو طوائفوں جیسی چالاکی اور عیاری کے گر سکھانے کے لیے لاہور کی مشہور طوائف سردار بیگم کو بھی بلواتا ہے۔ اس نے ’زینت ‘ کوایکٹریس بنانے کی خاطر بمبئی کے بہت سے جعلی ڈائریکٹروں کی دعوتیں بھی کیں۔مگر وہ اپنی نادانی اور بیوقوفی کے باعث محمد شفیق طوسی، محمد یاسین، عبدالرحیم سینڈو اور سردار بیگم جیسے عیار ومکار انسانوں کا کھلونا بنتی رہی۔ حتیٰ کہ وہ اپنی عزت وناموس کے احساس بھی عاری ہوگئی۔ مگر بابو گوپی ناتھ اس کو اس گندے ماحول سے نکالنے کی تدبیریں کرتا ہے۔ جب کہ اس کے دیگر مصاحبین زینت کو اسی گند ے ماحول میں زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ زینت کی شادی جب حیدرآباد کے دولت مند زمیندار سے طے ہوجاتی ہے تو بابو گوپی ناتھ بے حد خوش ہوتا ہے۔ وہ اس کی شادی کے تمام اخراجات اور انتظامات ایک باپ کی مانند خود کرتا ہے۔ حتی کہ مہمانوں کی ضیافت کے بعد ان کے ہاتھ خود بابو گوپی ناتھ دھلواتا ہے۔

اس افسانے میں منٹو نے اپنے سماج کو اس طرف توجہ دلانے کی مستحسن سعی کی ہے کہ گناہ آلود معاشرے میں بھی روشنی اور نیکی کی جوت جلائی جاسکتی ہے۔ بابو گوپی ناتھ جیسا انسان غلیظ معاشرے میں بھی خیر اور نیکی کی علامت بن کر سامنے آسکتا ہے۔

منٹو نے سماجی رجحان کے تحت جتنے بھی افسانے لکھے ہیں ان میں معاشرے کے ہی اچھے برے کردار ظالم ومظلوم، امیر غریب، آجرواجیر وغیرہ اپنے جملہ خصائص کے ساتھ موجود ہیں۔منٹو نے اپنے معاصر دور کی سماجی زندگی کو اس کے حقائق کے ساتھ پیش کرنے کی خوب سعی کی ہے۔منٹو کے افسانوں میں جو سماجی، سیاسی اور جنسی رجحان کی نمائندگی ملتی ہے،  ان میں حقیقت نگاری سے کام لیا گیا ہے۔ بلا شبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ منٹو کے یہاںیہ تینوں یا ان کے علاوہ دیگر رجحانات میں حقیقت نگاری کے اثرات حاوی ہیں۔

 

Dr. Qamar-ul-Hasan

Dept of Urdu, Satyawati College

Delhi University

Ashok Vihar, New Delhi

Delhi- 110052

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں