13/2/24

خاندیش میں اردو تحقیق و تنقید:ڈاکٹر ایس ایم شکیل

اردو تحقیق وتنقید کا نقطۂ آغاز شعرائے اردو کے تذکرے ہیں۔ تذکرہ جو کہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی یاد کرنا یا ذکر کرنا ہوتے ہیں۔ اردو تنقید کی نشوونما میں ان تذکروں کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔ ہماری ناقدانہ بصیرت ان ہی تذکروں کی فضا میں پروان چڑھی اور ان ہی تذکروں سے ذوقِ ادب کے عام ہونے میں مدد ملی۔ محقق بھی اپنے تحقیقی سفر کے آغاز میں ان ہی تذکروں کا سہارا لیتا ہے۔ اردو میں باقاعدہ تنقید کا آغاز حالی کے ’مقدمہ شعروشاعری‘ سے ہوتاہے۔ جب حالی نے اپنا دیوان ترتیب دیا تو اس پر انہوں نے ایک مقدمہ لکھا جو 1893 میں مقدمہ شعروشاعری کے نام سے علاحدہ شائع ہوا، جس میں شاعری کے اصولوں سے بحث کی گئی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کی مختلف اصناف کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی کوتاہیوں کی صرف نشاندہی نہیں کی بلکہ اس کی اصلاح کی تجویزیں بھی پیش کی ہے۔حالی نے اس مقدمہ کے ذریعہ اردو شاعری کو ایک نئی سوچ، نیا طرز اور اسلوب عطا کیا۔ اس کتاب کی مقبولیت نے حالی کو جدید اردو تنقید کا بانی قرار دیا۔ حالی کے بعد اردو تنقید اپنا کامیاب سفر طے کرتی رہی۔ اردو کے اہم ناقدین اور محققین میں محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی، وحید الدین سلیم، امداد اما م اثر، مولوی عبدالحق، مسعود حسن رضوی، عبدالرحمن بجنوری، نیاز فتح پوری، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، مجنوں گورکھپوری، کلیم الدین احمد، احتشام حسین، حافظ محمود شیرانی، نصیر ہاشمی، سید وقار عظیم، قاضی عبدالودود، رشید حسن خاں، محی الدین قادری زور، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان ہی ناقدین و محققین ادب کی راہ پر چلتے ہوئے مہاراشٹر کے قدیم و تاریخی صوبہ علاقۂ خاندیش کے محققین و ناقدین نے اس میدان میں قدم رکھااور اس علاقے میں اردو تحقیق و تنقید کے لیے راہ ہموار کی۔

خاندیش میں شعرا، علما صوفی حضرات تو خوب ہوئے۔ شاعری پر سیر حاصل کام بھی ہوا۔ مگر غور سے دیکھا جائے تو تحقیق و تنقید میں جس قدر کام ہونا چاہیے تھا ویسا نہیں ہوپایا۔ شاید اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس میدان میں کافی نشیب و فراز ہے۔ محققین اور ناقدین کو بہت عرق ریزی اور محنت سے کام لینا ہوتا ہے۔ تب جاکر وہ فنکار کی ذہنی سطح اور ان کے شعور سے آگاہ ہوتے ہیں۔ دورِ حاضر کے قلمکاروں کا رجحان سہل پسندی کی طرف کچھ زیادہ ہی ہے۔  وہ اکثر ایسا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں انھیںکسی قسم کی دشواری اور مشکل پسندی کا شکار نہ ہونا پڑے۔ باوجود اس کے اس علاقے میں اردو تحقیق وتنقید کے حوالے سے جتنا بھی کام ہوا ہے وہ اطمینان بخش ہی نہیں بلکہ ادب میں اضافی حیثیت رکھتا ہے۔ ان ہی کاموں کی وجہ سے ہم یہاں کے ابتدائی دور اور اردو شعروادب کو سمجھ پائے ہیں۔ گذشتہ صدی کے آخر میں اس علاقے میں نثر نگاروں کی تعداد میں اضافہ اردو زبان کی ترقی اور بقا کا ضامن بن گیا ہے۔ خاندیش میں جن قلمکاروں نے اردو تحقیق و تنقید کو ایک نئی سمت و رفتار عطا کی۔ ان میں ناظرانصاری جلگانوی، فخردھولیوی، اکبر رحمانی جلگانوی، قاضی مشتاق احمد، ذاکر عثمانی راویری، ڈاکٹر سلیم انصاری دھولیوی، ڈاکٹر شبیر اقبال دھولیوی، ڈاکٹر ایم اقبال شیخ جلگائوں، ڈاکٹر اقبال شاہ جلگائوں، ڈاکٹر رشید صہبائی دھولیوی، ایم رفیق بیاولی، مقیم اثر بیاولی، معین الدین عثمانی جلگانوی، ڈاکٹر محسن جلگانوی، عبدالعزیز انصاری دھولیوی، ڈاکٹر ساجد علی قادری شیر پور، ڈاکٹر ایس ایم شکیل وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔

خاندیش میں بیسویں صدی کی ابتدا کے بعد ہمیں جو نقاد نظر آتے ہیں ان میں ناظر انصاری جلگانوی کا نام نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ غلام محمد ناظر انصاری جلگائوں کے نصیر آباد میں 9نومبر 1909 کو پیدا ہوئے۔ 1930 کے آس پاس جلگائوں میونسپل میں آپ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ آپ نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میںبھی اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ 1967 میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مالیگائوں میں سکونت اختیار کرلی۔ جہاں یکم اپریل 1973 کو مالکِ حقیقی سے جاملے۔

ناظر انصاری نے شاعری خصوصاً نظموں کے ساتھ اردو تنقید میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔ آپ کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’آہنگِ ادب‘ کے نام سے جون 1967 میں علوی پریس بھوپال سے شائع ہوا۔ یہ مجموعہ ان مضامین کا انتخاب ہے جو نگار لکھنؤ، فاران،العلم، جامِ نو، نیرنگِ خیال، دورِ حیات، ہماری زبان، معیارِ ادب، رہنمائے تعلیم، پیامِ مشرق وغیرہ ہندوپاک کے معیاری رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ خلیل الرحمٰن اعظمی اور تبصرہ عبدالقوی دسنوی نے لکھا ہے۔ آہنگِ ادب میں مختلف عنوانات پر کل دس تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ جو اس طرح ہے۔ (1) سراج اونگ آبادی(2) یادگارِ انیس (3) جدید ادب کا امام حالی (4) کلام اقبال میں طنزوظرافت (5)مجازلکھنوی (6)کلامِ جگر میں عصری رجحانات (7) علامہ محوی صدیقی لکھنوی (8) آنجہانی تلوک چند محروم (9) ادب منزل بہ منزل (10) اخترالایمان اور یادیں۔ ان مضامین میں قدیم و جدید شعرا کی شاعری پر ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے، جس پر خلیل الرحمن اعظمی اپنی رائے یوں دیتے ہیں :

’’ناظر صاحب چونکہ خود بھی ایک معلم ہیں اور انھوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ تعلیم و تدریس میں  صرف کیا ہے اس لیے اپنے موضوع کی طرف ان کا رویہ عام طور پر توضیح و تشریح،تعبیروترجمانی اور افہام و تفہیم کارہا ہے وہ ایک ذہین تجربہ کار استاد کی طرح زیر بحث شاعر کے بارے میں محض رائے دینے یا محاکمہ کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ بلکہ وہ اس سے متعلق بعض بنیادی اور اہم معلومات فراہم کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں تاکہ شاعر مذکور کے کلام کی خصوصیات کے لیے ایک مناسب پس منظر تیار ہوسکے اور آگے چل کر جو کچھ کہاجائے اس کے سلسلے میں کسی طرح کے ابہام یا پیچیدگی کو راہ نہ ملے۔‘‘      (آہنگِ ادب ص19)

ناظر انصاری نے آہنگِ ادب میں شامل تمام شعرا کے کلام پر تبصرہ بھی کیا ہے اور اپنی ناقدانہ رائے بھی پیش کی ہے۔ آپ کی زبان نہایت سلیس اور سادہ ہے جس کا اعتراف عبدالقوی دسنوی (صدر شعبۂ اردو سیفیہ کالج، بھوپال) یوں کرتے ہیں:

’’ناظرانصاری صاحب کی تحریر میں سادگی اور صفائی ہے وہ اپنی بات قاری کے ذہن و دماغ میں آسانی سے اتار دیتے ہیں۔ طریقۂ استدلال بھی سلجھا ہوا ہے۔ ‘‘  (ایضاً 22)     

آہنگِ ادب کے علاوہ آپ کے مضامین کے دو مجموعے ’نگارِ ادب‘، ’بساطِ ادب‘ اور ’مجاز لکھنوی حیات اورفکر وفن‘کا ذکر ناظر انصاری کے ایک انٹرویو میں ملتا ہے۔ مگر یہ تصانیف شایدمنظرِ عام پر نہ آسکیں۔ 1971 میں ناظر انصاری نے اپنی مطبوعہ اور غیرمطبوعہ تصانیف کی جو فہرست تیار کی تھی اس میں ان دو کتابوں کا ذکر نہیں ہے۔ ہاں !اس فہرست میں تحقیقی و تنقیدی مضامین کی دو کتابوں کے نام ’نیرنگِ ادب،نقشِ ادب‘ تحریر کیے گئے ہیں۔ شاید ہوسکتا ہے کہ ان کتابوں کے نام بعد میں بدل دیے گئے ہو۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناظر انصاری اپنے مجموعے کے عنوان کو لے کر کافی محتاط تھے۔ وہ مناسب نام کی تلاش میں تھے۔ کیونکہ کبھی انہوں نے اپنی کتاب کا نام مقالاتِ ناظررکھا تو کبھی مصباحِ ادب یا پھر نگارِ ادب یا بساطِ ادب۔لیکن بعد میں اس غیر مطبوعہ کتاب کا نام نیرنگِ ادب ہی تجویز کیا۔

بقول اکبر رحمانی جلگانوی :

’’تنقیدی مضامین پر مشتمل اس کتاب میں کل 15 مضامین شامل تھے۔ان میں دو مضامین کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی کہ انھیں لکھنا باقی ہے۔فہرست مضامین اس طرح ہیں: غالب نقطہ داں، قاضی عبدالغفار اور ان کا فن، حسرت موہانی کی شاعری(لکھنا باقی )، فانی کا تغزل، اقبال ایک عظیم شاعر اور مفکر، شاعر وفنکار۔ اقبال میری نظر میں، فیض احمد فیض، جگر مغنیِ حیات، شہنشاہِ تغزل، وامق جونپوری ، مخدوم محی الدین، شاذ تمکنت کا فن (تراشیدہ کی روشنی میں)، اردو غزل میں زلف وگیسو کا تصور، علی سردار جعفری کی شاعری (لکھنا باقی)۔ ‘‘      

(خاندیش کی ادبی تاریخ، ص 152

نیرنگِ ادب کا پیش لفظ ماہنامہ شاعر ممبئی کے مدیر اعجاز صدیقی نے لکھا اور اظہارِ عقیدت کے عنوان سے ڈاکٹر قمر رئیس نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ساتھ ہی ڈاکٹر ظفرالاسلا م نے دیباچہ ’کہو دودھ کا دودھ‘ کے عنوان سے، تقریظ سید سلیمان ندوی نے اور خواجہ محمد شفیع دہلوی نے تاثرات تحریر کیے ہیں۔

ممتاز ناقد ڈاکٹر قمر رئیس نے نیرنگِ ادب(غیر مطبوعہ) میں ناظر انصاری کی تنقید نگاری پر اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے:

’’ضبط و توازن کا احساس اور افراط و تفریط سے گریز ناظر صاحب کی تنقید کا سب سے نمایاں وصف ہے۔ جانب داری تنگ نظری اور کٹّرپن کہیں بھی ان کی تنقید میں بار نہیں پاتا۔ اس طرح ان کے نظریۂ ادب میں بھی صالح اور صحت مند قدروں کا احترام نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ تخلیقی اظہار اور  شعروادب کے جمالیاتی پہلوئوں کے ساتھ ساتھ افکار و خیالات کی گہرائی اور بلندی پربھی نظر رکھتے ہیں... الغرض ایک معقول اور متوازن اندازِ نظر ان کی اکثر تنقیدوں کو ایک معروضی اور علمی وقار بخش دیتا ہے۔ ‘‘    (ایضاً ص156)

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناظر انصاری نے اپنی تنقیدی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خاندیش میں اردو تنقید کی بنیاد کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ناظر انصاری کے بعد علاقۂ خاندیش میں اردو تنقید و تحقیق میں منفرد مقام حاصل کرنے والوں میں ڈاکٹر افتخار احمد فخر دھولیوی کانام محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ منشی عبدالجبار کے علمی و ادبی گھرانے میں 10مئی 1924 کو افتخار احمد نے آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اسماعیل یوسف کالج ممبئی سے بی اے اور سینٹ زیویئرکالج ممبئی ہی سے ایم اے اردو کی تعلیم حاصل کی۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1953 میں آپ ایم جے کالج جلگائوں میں اردو فارسی کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ لگ بھگ1973 میں آپ نے’سیماب اور دبستانِ سیماب ‘پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ جس پر آپ کو پونہ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی۔ غالباً آپ علاقۂ خاندیش کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ (سندی تحقیق میں تفصیلی ذکر کیا گیا ہے )نثر کے ساتھ ہی فخر تخلص رکھتے ہوئے آپ نے شاعری میں بھی طبع آزمائی کی۔ آپ کے تحقیقی و تنقیدی مضامین ملک کے معیاری اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ افتخار احمد فخر نے کئی تحقیقی سمیناروں میں علاقۂ خاندیش کی کامیاب نمائندگی کی ہے۔ فخر کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کامجموعہ ’ادب و نظر‘ 1980 میں منظر عام پر آچکا ہے۔ جسے مہاراشٹر اردو اکادمی نے 1981 میں دوسرے انعام سے نوازاتھا۔ اس کتاب میں مختلف موضوعات پر لگ بھگ 9تحقیقی و تنقیدی مقالے شامل کیے گئے ہیں۔ جو مضامین شامل کتاب ہیں وہ اس طرح ہیں:

غالب کی دقت پسندی اور فارسیت، جگر مرادآبادی فن شخصیت اور شاعری، غالب کے کلام میں رشک و حسد کا عنصر، ریاض خیرآبادی اور ان کی شاعری، غالب کے کلام میں شوخی اور طنز وظرافت، ابوالبیان حضرت حنیف کریمی، خصوصیاتِ کلامِ غالب، نکہت و نور کا شاعر سلام سندیلوی، اردو غزل کے جدید رجحانات۔ اس کتاب میںڈاکٹر شیخ فرید (برہان پور)، ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی (برہان پور)اور ڈاکٹرمحمد فاروقی(احمدآباد گجرات)کی آرا شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد فاروقی (سابق صدر شعبۂ فارسی اردو و اسلامی کلچر گجرات کالج،احمدآباد)ادب و نظر کے مضامین پر اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں:

’’ڈاکٹر فخر اردو کے جانے پہچانے شاعر ہیں۔زیر نظر مقالے ان کی نثری صلاحیتیوں کی غمازی کرتے ہیں ان میں فخر کی تنقیدی بصیرت اور تحقیقی ژرف نگاہی کا فراواں ثبوت ملتا ہے۔ فخر شاعرکی شخصیت اور کردار کے تناظر میں کلام کا بڑی چابک دستی سے تجزیہ کرتے ہیں۔‘‘    

(فلیپ کور، ادب و نظر)

آپ کی دیگر غیر مطبوعہ تصانیف میں تنقیدی مضامین کا مجموعہ معیارِادب اور تلامذۂ سیماب کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اردو ادب کی یہ شمع 26 اپریل بروز بدھ 2000  کو صرصرِ اجل سے خاموش ہوگئی۔

اس علاقے میں اردو تنقید کو ایک نئی راہ عطاکرنے والوں میں ذاکر عثمانی راویری کا نام نہایت معتبر ہی نہیں بلکہ مقبول بھی ہے جنھوں نے اپنی تنقیدی بصیرت سے اردو دنیا میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔ شیخ اسماعیل یکم دسمبر 1929  کو شیخ عثمان کے گھر راویر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ضلع پریشد اسکول میں مدرس کے فرائض انجام دینے لگے۔ آپ کا شمار خاندیش کے استاد شعرا میں ہوتا تھا۔ شاعری میں ذاکر عثمانی کے نام سے مشہور ومعروف ہوئے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ نے نثر نگاری خصوصاً تنقید میں اپنی پہچان بنائی۔ ذاکر عثمانی کو علم عروض پر بے پناہ ملکہ حاصل رہا۔ آپ کا شمار ہندوستان ہی نہیں بلکہ برصغیر کے ماہرین عروض میں ہوتا ہے۔ ہندوستان کے مشہور نقاد اور ماہر عروض شمس الرحمن فاروقی ذاکر عثمانی کے تعلق سے لکھتے ہیں:

’’جناب ذاکر عثمانی کی حیثیت علم عروض میں مجتہد کی ہے۔ اور مجتہد کا سب سے بڑا کام یہی ہوتا ہے کہ گذشتہ کی روشنی میں اپنی عقل کا استعمال کریں اور حال کے معاملات پر اپنا حکم جاری کرے۔ جناب ذاکرعثمانی نے یہ کام بڑی خوبی سے کیا ہے۔‘‘ 

(عروضِ خلیل مکتفی، فلیپ کور)

ذاکر عثمانی نے علم عروض کی بدولت بڑے بڑے شعرا کے کلام پر بیباک تنقیدی رائے پیش کی ہے۔ علم عروض اور تنقید پر آپ کے سیکڑوں مضامین ہندوستان کے معیاری رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ آپ کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے بڑے بڑے اور مقبول نقاد بھی آپ کی تنقیدی صلاحیتوں کا لوہا مانتے تھے۔ ماہنامہ شاعر ممبئی نومبر 2004 کے شمارے میں جس کا اعتراف ملتا ہے:

’’ذاکرعثمانی کا مضمون ’تحقیق بحرووزن اور فن تقطیع‘ دیکھ کر عقل دنگ رہ گئی۔ معتبر و مستند ناقدوں نے مترنم فن پاروں کو سہل پسندی کے تحت مروجہ منتشر بحور میں ڈبوکر ناموزوں قرار دیا تھا۔موصوف نے بروزن ثابت کردیا کہ فن پارے واقعی ذوق و وزن میں ہیں لیکن مختلف  ناقدوں کے مختلف بحرووزن اور ذاکر عثمانی کے قائم کردہ نایاب بحرو وزن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہ اتنا کہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں حیرت زدہ ہوجاتی ہیں۔

موصوف کا شمار برصغیر کے ماہرین عروض میں تو ہے ہی لیکن یہاںوہ خداداد نمایاںحیثیت وصلاحیت کے مالک نظر آتے ہیں۔ کہ صحیح بحر ووزن کا تعین ’جوئے شیر لانے کے مترادف ہے‘ اس قول کے مصداق زنگ آلودہ تنقید کو صاف و شفاف آئینۂ تحقیق دکھاکرآپ نے مفادِعامہ کے ساتھ ساتھ ثقہ عروضوں کے لیے بھی کام آنے والی تحقیق کی ہے۔ ‘‘

ذاکر عثمانی کی تنقید اور فن عروض پر ’نکات العروض، میری تنقید  اور اصلاحیں،عروضِ خلیل مکتفی‘کے علاوہ ضربِ احساس(مجموعۂ غزلیات)اردومعلم(اردو تعلیم پر) کلیدِ قواعد،پھول پھول لہو(سلام کا مجموعہ)جیسی اہم تصانیف منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ جن کی اردو دنیا میں خوب پذیرائی ہوئی۔

ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے کہا تھا:

’’تنقید وہی لکھ سکتا ہے جس کا تجربہ وسیع، مطالعہ گہرا اور نظر دوربین ہو۔ ذوقِ صحیح کے ساتھ ساتھ دریائے ادبیات کا شناور بھی ہو،ایک مدت  کے مطالعہ اور غوروفکر کے بعد اپنی رائے بیان کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور دوسروں کو دلنشین کرسکتا ہو۔تنقید پر کتابیں پڑھنے سے تنقید نہیں آتی  بلکہ اعلیٰ  درجہ کا کلام اور اعلیٰ پائے کی تنقیدیں پڑھنے سے اس کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔‘‘

مندرجہ بالا تمام خصوصیات ذاکر عثمانی میں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ اپنے پیچھے علمِ عروض، تنقید اور شاعری کا اثاثہ چھوڑ کر ذاکر عثمانی نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔

خاندیش میں اردو تحقیق و تنقید کی آبیار ی کرنے والوں میں اکبر رحمانی جلگانوی کا نام نہایت اہمیت کا حامل ہے، جن کے ذکر کے بغیر اس علاقے کی ادبی تحقیقی و تنقیدی تاریخ نامکمل مانی جائے گی۔ اکبر خان کی پیدائش 17 اکتوبر1942 جلگائوںمیں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اینگلو اردوہائی اسکول جلگائوں سے ایس ایس سی پاس کیا۔ پھرپونہ یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی بعدازاں ممبئی سے بی ایڈ کیا اور درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ ابتدا میں پاچورہ، پھر مادرِ علمی اینگلو اردو ہائی اسکول جلگائوں میں تدریسی خدمت انجام دینے لگے۔ اکبر خان بے پناہ صلاحیتوں کے مالک رہے جہاں آپ ایک مشفق استاد کی شکل میں سامنے آتے ہیں تو وہیں ایک بیباک صحافی، قابل مترجم، محقق، مؤرخ ناقد اور شاندار مقرر کے ساتھ ساتھ ماہرِ تعلیم بھی دکھائی دیتے ہیں۔ بچپن ہی سے آپ میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ بدرجۂ اتم موجود رہا۔ ایسے توآپ کی مختلف موضوعات پرکئی کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ مگر بحیثیت مؤرخ محقق اور نقاد جن تصانیف کا ذکر اہمیت رکھتا ہے ان میں تاریخ خاندیش کے بکھرے اوراق، خاندیش کی ادبی تاریخ، تحقیقات و تاثرات اور اورنگ زیب کی داستانِ معاشقہ کیا حقیقت کیا فسانہ،قابل ذکر ہیں۔ ان تمام تصانیف میں آپ کی محققانہ اور ناقدانہ صلاحیتیں نمایاں اور صاف جھلکتی ہیں۔ خاندیش کے بکھرے اوراق میں آپ نے خاندیش کی تاریخ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ساتھ ہی اس علاقے کی تعلیم اور یہاں کے مدارس پر بھی تفصیلی معلومات فراہم کی ہے۔ اس کتاب پر شیخ الحدیث مالیگائوں محمد حنیف ملّی یوں رقم طراز ہیں:

’’پروفیسر اکبر رحمانی نے اپنی بساط سے زیادہ اس تاریخی کتاب میں ژرف نگاہی جگر کاوی اور غیر معمولی مغز ماری سے کام لے کر نہ صرف اس موضوع پربلکہ اس سے شغف رکھنے والوں پربھی ناقابل فراموش  احسان و کرم کیا ہے۔ موصوف نے ذوق تحقیق و جستجو سے خاندیش کے بکھرے حقائق،منتشر اوراق اور پراگندہ صفحات کو بڑے سلیقے سے یکجا کرکے سیکڑوں سال کی تاریخ پیش کرکے دیدہ و دل دونوں کو غذا بہم پہنچائی ہے اور بڑی خوبی و کمال اور ہوش مندی سے جو حقائق پیش کیے ہیں وہ بجائے خود ان کا بڑا تاریخ ساز کارنامہ ہے۔ ‘‘  

 )تاریخ خاندیش کے بکھرے اوراق،ص 12)

پروفیسر اکبر رحمانی کی دوسری اہم تصنیف ’خاندیش کی ادبی تاریخ‘ میں آپ نے اس علاقے میں اردو شاعری، یہاں کے مشاعرے،مرثیہ نگاری،ڈرامہ نگاری و افسانہ و ناول نگاری کے ابتدائی پس منظر پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب کو ہم موصوف کا اہم اور دستاویزی کارنامہ تسلیم کرسکتے ہیں۔ جس کے ذریعے ہم خاندیش کی ادبی تاریخ اور یہاں کے ادب کو سمجھنے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔  لمعہ حیدرآبادی اور علامہ اقبال جیسے مشکل اور نایاب موضوع پر آپ نے پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ بھی تحریرکیا،مگر کچھ وجوہات کی بنا پر پونہ یونیورسٹی نے ڈگری تفویض نہیں کی۔ اس تحقیقی مقالے کے ذریعے آپ نے لمعہ حیدرآبادی، ٹیگوراور علامہ اقبال کے تعلقات کو دنیائے ادب کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی موضوع پر آپ کی ’تحقیقات و تاثرات‘ کے نام سے تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ جس کے پہلے حصے میں تنقید و تاثرات کے تحت ’’مثنوی سحرالبیان کا تنقیدی مطالعہ،منشی پریم چند اور احتشام حسین کی افسانہ نگاری،ادب،زندگی اور مقصد کے تحت بڑے ہی پر مغز تنقیدی مقالات تحریر کیے ہیں۔ دوسرا حصہ شخصیات کا ہے جس میں احتشام حسین،پریم چند، مولوی عبدالحق کے شخصی خاکے پیش کیے گئے ہیں۔اس کتاب کا تیسراحصہ تحقیق کے لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے،جو اقبالیات پر مشتمل ہے،اس حصے میں اقبال، ٹیگور اور لمعہ حیدرآبادی سے متعلق، اقبال اور لمعہ حیدرآبادی کے مراسم، لمعہ حیدرآبادی کے نام اقبال کے خطوط ایک جائزہ، اقبال اور لمعہ حیدرآبادی کے شخصی تعلقات کا جائزہ (مکاتیبِ اقبال کی روشنی میں) وغیرہ تحقیقی مقالات کے ذریعے اقبال اور لمعہ حیدرآبادی کے تعلقات کو دنیائے ادب کے سامنے لانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ یہ تحقیق اقبالیات کے باب میں اضافی حیثیت کی حامل ہے۔  لمعہ حیدرآبادی کے ساتھ علامہ اقبال کے تعلقات کا از سرِ نو پتہ لگانے کا سہرہ پروفیسر اکبر رحمانی کے سر جاتا ہے۔ پاکستان سے شائع ہونے والا نیاز فتح پوری کا معروف ادبی رسالہ ’نگار‘ادبی دنیا میں بے حد مقبول اور قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ اگست 1989 کا خصوصی شمارہ پروفیسر اکبر رحمانی پر فرمان فتح پوری کی نگرانی میں شائع کیا گیا۔ نگار کاخصوصی شمارہ خاندیش کے کسی ادیب کے نام سے شائع ہونا اس علاقے کے لیے قابل مسرت ہی نہیں بلکہ باعثِ فخر بھی ہے۔ 80 صفحات کے اس شمارے میں 76 صفحات اکبر رحمانی کے مقالے پر مبنی ہے۔ نگارکے مدیر فرمان فتح پوری اکبر رحمانی کی تعلیمی و تحقیقی خدمات پر اپنے خیالات کا اظہاریوں کرتے ہیں:

’’جناب اکبر رحمانی ہندوستان کے نہایت سنجیدہ اور خاموش طبع قلمکار ہیں۔ جو کچھ لکھتے ہیں پورے سوچ بیچار اور کمالِ محنت سے لکھتے ہیں۔ ان کے فکرونظر کی جولا نگاہ علم و ادب دونوں ہیں۔ چنانچہ وہ تحقیق و تنقید کے ساتھ تعلیم و تدریس کے مسائل پربھی مسلسل لکھتے رہتے ہیں اور مجھ جیسوں کو اپنی فکر انگیز تحریروں سے چونکاتے رہتے ہیں... کچھ روز پہلے ادب سے متعلق ان کی ایک اہم کتاب بعنوان ’تحقیقات و تاثرات ‘منظر عام پر آئی ہے۔ یوںتو اس کتاب کے سارے  مضامین معیاری ہیں لیکن اقبالیات کے عنوان سے اس میں جو کچھ ہے وہ حقیقتاً ایک گراں قدر اضافہ ہے۔اقبال اور ٹیگور و ڈاکٹر لمعہ کے تعلقات اور ان کے مابین خطوط قضیہ ہمارے پاس بہت دنوں سے شک و شبہات کا شکار تھا اور مغالطے پیداکر رہا تھا۔ اکبر رحمانی نے اس موضوع پر سچے محقق ہونے کا ثبوت دیاہے۔ چنانچہ ان کے تحقیقی بیانات کے بعد اب لمعہ اور اقبال کے خطوط کو جعلی کہنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ رحمانی صاحب کا یہ کام کئی اعتبار سے قابلِ تحسین اور اقبالیات کے سلسلے میں نمایاں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘   (نگار، اگست 1989، ص 4)

پروفیسر اکبر رحمانی کی ادبی تحقیقی و تعلیمی خدمات پر خاندیش ہمیشہ فخر کرے گا۔آپ کی خدمات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ 17ستمبر 2003 کو خاندیش کے ادبی افق کا یہ درخشاں ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔

سرزمین خاندیش کے ارنڈول سے تعلق رکھنے والے قاضی مشتاق احمد کا نام ادبی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ یہ وہ شخصیت ہیں جن کی اردو خدمات پر اہل خاندیش ہمیشہ ناز کرتے ہیں۔ قاضی مشتاق احمد کا شمار ملک کے معروف افسانہ،ناول و ڈرامہ نگار اور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ آپ کی پیدائش ارنڈول میں ہوئی۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ مہاراشٹر سول سروسیز میں اڈیشنل کلکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے بعد ازاںمحکمۂ سماجی و بہبود مہاراشٹر کے اڈیشنل ڈائریکٹر کے عہدے سے 1998 میں سبکدوش ہوئے۔افسانہ، ناول اور ڈرامہ نگاری کے علاوہ آپ نے صحافت،ترجمہ نگاری،ادبِ اطفال،سفر نامے،رپورتاژ،سوانح،خاکے کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید میں بھی اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔اردو کی مختلف اصناف اور مختلف عنوانات پر آپ کی لگ بھگ چالیس سے زائد تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ آپ خاندیش کی پہلی شخصیت ہیں جن کی اردو خدمات پر عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے قاضی مشتاق احمد فن اور شخصیت عنوان کے تحت محمد عبدالقدیر کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ہے۔ قاضی مشتاق احمد کی کل 5کتب تحقیقی و تنقیدی مضامین پر شائع ہوچکی ہیںجو اس طرح ہیں’اردو شاعری میر سے پروین شاکر تک‘، ’اردو نثر ایک مطالعہ‘، ’اردو شاعری آج،کل اور ہمیشہ‘، ’خاندیش تاریخی،تہذیبی ادبی مطالعہ‘، ’پونہ ہے جس کانام‘۔ قاضی مشتاق احمد ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں آپ کی اردو خدمات کااعتراف ماہنامہ اسباق پونہ، گلہائے خنداںرام پور، گونج نظام آباد، انتساب سرونج اور سہ ماہی رنگ دھنبادوغیرہ نے قاضی مشتاق احمد فن اور شخصیت پر معیاری نمبر شائع کیا ہے۔ گذشتہ نصف صدی میں آپ کے کئی تحقیقی و تنقیدی مضامین ملک کے مختلف ومعیاری اخبارات ورسائل میں شائع ہورہے ہیں۔  عمر کی اس دہلیزپر بھی آپ کے قلم کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا آپ کا قلم آج بھی جوان ہے،جو صفحۂ قرطاس پر سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ فی الحال آپ پونہ میں مستقل قیام پذیر ہے۔

شاعری کے ساتھ ساتھ اردو تحقیق میں ایک الگ مقام بنانے والوں میں ڈاکٹر رشید صہبائی کا نام قابل احترام ہے۔1924 میں سید علی کی ولادت مصطفی آباد (چوپڑا)میں ہوئی۔ حکمت و طب اپنانے کے بعد آپ نے دھولیہ مونسپل کمیٹی میں شعبۂ حفظانِ صحت میں ملازمت اختیار کرلی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ نے نثر میں بھی اپنے قلم کو جنبش دی ایک وقت میں آغاحشر کاشمیری پر لکھاگیا آپ کا تحقیقی و تنقیدی مقالہ کافی مقبول ہوا۔ شعری مجموعہ’رقصِ صہبا‘ کے علاوہ اپنے استاد حضرت غریب دھولیوی کے نام سے ایک کتاب ’یادگارِ غریب‘ تحریر کی، جس میں خاندیش کی ادبی و شعری تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس علاقے کے اولین مشاعروں پر بھی قلم اٹھایا گیا ہے۔ تحقیقی نقطۂ نظر سے یہ کتاب نہایت اہمیت رکھتی ہے۔

بغرضِ ملازمت دیگر ریاستوں میں زندگی گزار کر اپنی سرزمین کا نام روشن کرنے والوں میں ڈاکٹر محسن جلگانوی کا نام عزت کاحامل ہے۔ غلام غوث خان کی ولادت مولانا عبدالواحد نقشبندی کے یہاں 15 اکتوبر 1939 کو مصطفی آباد (چوپڑا) میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے عثمانیہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سکندرآباد میں محکمۂ ریل میں ملازمت اختیار کرلی۔ شاعری میں سلطان نقشبندی کو اپنا رہنما بنایا۔ آپ نے شاعری کے ساتھ ساتھ بحیثیت صحافی،نقاد اور محقق دکن میں اپنی پہچان بنائی۔ حیدرآباد سے شائع ہونے والے ’روزنامہ اعتماد‘ کے آپ نائب مدیر اور اسی اخبار کے ادبی صفحہ’ اوراقِ ادب‘ کے مدیر بھی رہے۔ محسن جلگانوی نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے’ اردو شاعری میں جدید حسّیت ‘عنوان کے تحت تحقیقی مقالہ قلمبند کیا۔ جس پر آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی۔ آپ نے ’اردو ہائیکو میں پیکر تراشی‘ عنوان کے تحت ایم فل کے لیے بھی مقالہ تحریر کیا تھا۔ شاعری کے علاوہ نثر میں خصوصاً تحقیق و تنقید کے موضوع پر آپ کی 6کتابیں سامنے آچکی ہیں۔ جن میں سکندرآباد کی ادبی دستاویز،تجرباتی مطالعہ اور مصاحبے، اردو ہائیکو میں پیکر تراشی، جدید شاعری کی نمائندہ آوازیں، عصری حسیت تفہیم و تجزیہ اور روشن دان‘ قابل ذکر ہیں۔ بحیثیت محقق ونقاد اور صحافی آپ نے خاندیش ہی نہیںبلکہ دکن میں بھی اپنی تحریروں کالوہامنوایا۔ مختلف عنوانات پر لکھی گئی آپ کی نثری تصانیف اردو ادب میں اضافی اہمیت کی حامل ہے۔ خصوصاً آپ کی تصنیف روشن دان کا ذکر یہاں ضرورکرنا چاہوں گا۔اس کتاب میں لگ بھگ 30 ایسے شعرا پر تبصرے اور تجزے شامل ہیں جو روزنامہ اعتماد کے ادبی صفحے اوراقِ ادب میںشائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب میں آپ کی بیباک تنقید قارئین کو ادب کی ایک الگ شخصیت سے روشناس کراتی ہے۔ بحیثیت نقاد آپ کی رائے بے حداہمیت کی حامل ہے۔ایک جگہ دورِ حاضر کے قلمکاروں پر لکھتے ہیں:

’’دنیائے ادب میں دو طرح کے اہل قلم ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کے وہ لوگ جوخواہ مخواہ ہی شب و روز اپنے قلم گھسیٹتے ہیں۔وہ کیوں لکھتے ہیں؟،کیالکھتے ہیں؟اس کاادراک ہی نہیں۔ مطمحِ نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی بہانے سے اپنے وجود کااحساس دلانے کے لیے اور اپنے نام کو ادب سے وابستہ لوگوںکی نظرمیں رکھا جائے۔ ‘‘

محسن جلگانوی شخصیت اور شاعری‘ عنوان پر عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآبادنے شاہجہاں بیگم کو 2017 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔ ادب کا یہ خاموش،ملنسار اور سچا خدمت گار فی الحال حیدرآباد میں رہ کر خاندیش کا نام روشن کر رہا ہے۔

اپنے والد محترم کی تحقیقی روایت کوبرقرار رکھنے والوں میں ڈاکٹر افتخار احمد فخر کے فرزندِجلیل ڈاکٹر شبیر اقبال کانام تحقیق و تنقید کے حوالے سے قابل ذکر ہے۔ ڈاکٹر شبیر اقبال دھولیہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کو تعلیم و ادبی ماحول ورثے میں ملا۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے ایم اے اردو کی سند حاصل کی بعد ازاں1989 میں ’مہر لال سونی ضیا  فتح آبادی‘ عنوان پر پی ایچ ڈی کے لیے ممبئی یونیورسٹی میں مقالہ پیش کیا۔جس پر آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی۔ اس سے قبل 1980 میں آپ نے ’منتشر خاکے‘ نام سے ایک اہم تحقیقی کتاب پیش کی،جس میں علاقۂ دھولیہ کی علمی،ادبی، تاریخی اور شعری تاریخ پر قلم اٹھایا گیا۔ اس کتاب میں کل 24شعرا کا تذکرہ شامل ہے۔جس میں ان شعرا کی سوانح ِحیات اور کلام پر اہم معلومات فراہم کی گئی ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر شبیر اقبال نے ’شہر دھولیہ کی علمی، ادبی و شعری حیثیت ‘ عنوان سے ایک مقدمہ بھی لکھا ہے جوبڑا ہی اہم اور تحقیقی معلومات فراہم کرتا ہے۔ اس کتاب کے علاوہ ڈاکٹر شبیر اقبال کے متعدد تحقیقی مضامین ملک کے معیاری رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ جن کی خوب پذیرائی ہوتی رہی ہے۔ فی الحال آپ دھولیہ میں اردو ادب کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔

درس و تدریس سے وابستہ رہ کر اردو تحقیق و تنقید پر کام کرنانہایت اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے ہی محققین میں ڈاکٹر سلیم انصاری کا ذکر بے حد ضروری ہے۔ محمد سلیم انصاری نے محمد عثمان انصاری کے یہاں 4 اپریل 1955 کو پہلی سانس لی۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بی اے،ایم اے(ہندی،اردو)اور بی ایڈ کی سند حاصل کی اور درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ آپ نے ’مغربی خاندیش کے اردو شعرا اور ان کی شعری خدمات ‘ عنوان پر ڈاکٹر نظام الدین گوریکرکی نگرانی میں ممبئی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند 1989 میں حاصل کی۔ ڈاکٹر سلیم انصاری ایس ایس وی پی ایس آرٹ اینڈ کامرس کالج دھولیہ کے صدر شعبۂ اردو بھی رہے ساتھ ہی کویتری بینا بائی چودھری نارتھ مہاراشٹر یونیورسٹی جلگائوں کی فارسی، اسلامک اسٹڈیزاور اردو بورڈ آف اسٹڈیز کے چیئرمین اور ریسرچ گائیڈ بھی رہے۔ آپ کی نگرانی میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کے لیے کئی تحقیقی مقالے تحریر کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم انصاری کی اردو خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مہاراشٹر حکومت نے آپ کو مہاراشٹر اردو ساہیتہ اکیڈمی کاممبر بھی نامزد کیا تھا۔ مختلف اخبارات و رسائل میں آپ کے متعدد تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ اچھا لکھتے ہیں اور صاف وسلیس زبان میں اپنی بات کہنے کا ہنرخوب جانتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم انصاری کی مختلف موضوعات پر تین تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں’ ارمغانِ ماجد، تفرداتِ نعیم، صریر خامہ ‘اول الذکر دونوں کتابیں آپ نے ترتیب دی ہے اورصریر خامہ آپ کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جو ادب میں اہم مقام رکھتی ہے۔ اس کتاب میں مختلف عنوانات پر28 مضامین شامل ہیں۔ان مضامین میں علاقۂ خاندیش کے شعرا کے ساتھ اردو ادب کے دیگر شعرا و قلمکاروں کی شاعری اور اردو خدمات پر گفتگو کی گئی ہے۔ سبکدوش ہونے کے بعد بھی آپ کا قلم پوری روانی کے ساتھ اردو کی خدمت میں لگاہوا ہے۔

معین الدین عثمانی کا شمار خاندیش ہی نہیں بلکہ مہاراشٹر کے قابل ذکر افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔آپ درس و تدریس کے باعزت پیشے سے سبکدوش ہوئے۔ استادِ محترم معین الدین عثمانی نے کچھ عرصہ جامنیر کے اردو اسکول میں بھی تدریسی خدمات انجام دی۔ آپ کے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہوکر مقبولیت کی سند حاصل کر چکے ہیں۔ افسانہ نگاری کے علاوہ آپ نے بحیثیت ناقد اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔ آپ کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’ادبی معاصرین کا مطالعہ‘ منظر عام پر آچکاہے۔ جس میں شامل 38 مضامین میں سے بیشتر مضامین آپ کی ناقدانہ بصیرت کی گواہی دے رہے ہیں۔  اس مجموعے کو چھ حصوں میں منقسم کیاگیا ہے۔ پہلا چار تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے،دوسرے حصے میں چار مختصر تاثراتی مضامین شامل ہے۔ تیسراحصہ شخصیات پر مبنی ہے۔ چوتھے حصے میں چار کتابوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ پانچویں حصے میں وہ دس تبصرے شامل ہیں جومعین الدین عثمانی نے مختلف کتابوں پر کیے ہیں۔ کتاب کے چھٹے حصے میں آپ کے حیدرآباد سفر کی روداد بیان کی گئی ہے۔ ان تمام مضامین کے مطالعے سے معین الدین عثمانی کی جو شخصیت ہمارے سامنے ابھر کر آتی ہے وہ ایک افسانہ نگار، مبصر ومحقق کی ہی نہیں بلکہ ایک بہترین اور بے باک ناقد کی بھی ہے۔ مشہور ناول و افسانہ نگار نور الحسنین معین الدین عثمانی کی تنقید نگاری پر اپنی رائے یوں دیتے ہیں :

’’معین الدین عثمانی نے اپنے افسانوی سفر میں بھی کسی خاص رجحان سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں کیا۔اسی طرح تنقیدی عمل میں بھی وہ کسی مخصوص آئیڈیالوجی کے شکار نہیں ہے۔ جو بات جیسی جس طرح محسوس کرتے ہیں اس کا اظہار دوٹوک کردیتے ہیں۔ناتعلقات سنوارنے کی آرزو اور نہ کشیدہ ہونے کا ڈر۔یعنی حق بہ حقدار رسید۔‘‘

محمد حسن محمد اسحاق کے فرزند عبدالعزیز انصاری کا دھولیہ کے ادبی حلقوں میں نام نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اردو ادب سے بے پناہ محبت کرنے والے اس فرزندِ دھولیہ کی دو تحقیقی کتابیں ’سوزِ دل(اول)، اور سوزِ دل (دوم)شائع ہوچکی ہیں۔ عبدالعزیز انصاری نے دھولیہ کے مرحوم شعرا کے حالاتِ زندگی اور ان کے نمونۂ کلام کو نہایت عرق ریزی،محنت اور تلاش و جستجو کے بعد جمع کرکے سوزِ دل کی شکل میں جمع کیا۔سوزِ دل (اول)میں 1888 سے 2001  تک کے مرحوم شعرا کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ سوزِ دل (دوم)بھی اسی نوعیت کی کتاب ہے جس میں مرحومین کے علاوہ نئی نسل کے شعرا کا ذکر شامل ہیں۔ عبدالعزیز انصاری کی دونوں کتابیں مغربی خاندیش کی شعری خدمات کے نقطۂ نظر سے ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت ہی نہیں رکھتی بلکہ تحقیقی نقطۂ نظر سے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ جو اس علاقے کے ادب میں اضافی حیثیت رکھتی ہے۔

اردو ادب کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا کوئی ڈاکٹر ساجد علی قادری سے سیکھے۔ آپ نے 15نومبر 1970 کو شہادہ میں آنکھیں کھولیں۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر ایم اقبال کی نگرانی میں ’اردو کا مذہبی سرمایہ ‘ ایک مطالعہ عنوان پر جلگائوں یونیورسٹی سے 2009  میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور ایس پی ڈی ایم کالج شیرپور میں لکچرار کے فرائض انجام دینے لگے۔ فی الحال آپ شعبۂ اردو کے صدر اور جلگائوںیونیورسٹی کی فارسی، اسلامک اسٹڈیزاور اردوبورڈ آف اسٹڈیز کے چیئرمین اور اردو ریسرچ گائیڈ بھی ہیں۔آپ کے کئی تحقیقی و تنقیدی مضامین ملک کے معیاری اخبار ورسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر ساجد کی ادارت میں خاندیش کا پہلا یوجی سی سے منظورشدہ ادبی رسالہ ’سہ ماہی عالمی ریسرچ جرنل تزئینِ ادب‘ شائع ہورہا ہے۔ اس رسالے میں ہندوستان ہی نہیں بلکہ مختلف ممالک کے نامور قلمکاروں کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل رہتے ہیں۔ تزئینِ ادب کے کئی نمبر بھی منظرِ عام پر آچکے ہیں جن میں ’علامہ فضل حق خیرآبادی نمبر، ابن صفی نمبر،تحقیق و تنقید نمبر، غزل نمبر، ڈرامہ نمبر، غالب نمبر‘کافی مقبول ہوچکے ہیں۔ آپ کی دو ضخیم تصانیف ’آئینۂ شعری ادب‘، ’فرہنگِ قلی قطب شاہ‘ اور ’رسالہ نقوش کاادبی سفر‘ منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے کئی تحقیقی و تنقیدی سمیناروں میں شرکت بھی کی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

راقم الحروف کا تعلق بھی علاقۂ خاندیش کے جامنیر شہر سے ہے۔ یکم جنوری 1973 کو ادبی شہر برہان پور میں وارد ہوا۔والد محترم شیخ محمود صاحب کا تعلق متوسط گھرانے سے رہا۔ ابتدائی تعلیم جامنیر اور ہائی اسکول کی تعلیم بھساول سے حاصل کرنے کے بعد اپنے نانا حاجی وہاب الدین قاضی اور ماموں حمیدالدین قاضی کے یہاں برہان پور آگیا۔ جہاں کے سیواسدن کالج سے بی اے اور ایم اے میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسی کالج میں بحیثیت لکچرار تدریسی خدمات دینے لگا۔ اس دوران راقم کو استادِ محترم ڈاکٹر محمد شفیع صاحب (صدر شعبۂ اردو فارسی سیواسدن کالج)کی رہنمائی اور سرپرستی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر شفیع صاحب کاشمار مدھیہ پردیش ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے معروف محققین،شعرا وادبا میں ہوتا رہا ہے۔ آپ کی لگ بھگ 12تصانیف مختلف عنوانات پر شائع ہوچکی ہیں۔ آپ کی نگرانی میں 15ریسرچ اسکالر نے پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی نگرانی میں ہی احقر نے’خاندیش میں اردو شاعری کی روایت‘ عنوان کے تحت تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ جس پر دیوی اہلیہ یونیورسٹی،اندور نے 2008 میں پی ایچ ڈی کی سند تفویض کی۔ یہاں بتاتا چلوں کہ راقم کوجامنیر تحصیل کا اردو میں پہلا پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ڈاکٹر محمد شفیع صاحب کے انتقال 2009 کے بعد راقم کو شعبۂ اردو فارسی کی ذمے داری سونپی گئی۔ بعد ازاں دیوی اہلیہ یونیورسٹی اندور کے اردو عربی اور فارسی بورڈ آف اسٹڈیز کا چیئرمین اور یونیورسٹی کی کئی اہم کمیٹیوں میں ممبر بھی نامزد کیا گیا۔ 2014 میں ناچیز کو دیوی اہلیہ یونیورسٹی نے اردو کے لیے پی ایچ ڈی کا گائیڈ بھی بنایا۔ مختلف عنوانات کے تحت میری نگرانی میں 10ریسرچ اسکالرس نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور 6پر کام جاری ہے۔

راقم الحروف کے تحقیقی و تنقیدی مضامین ملک کے مختلف اخبار و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں جن کی تعداد لگ بھگ 60 سے زائد ہیں۔اس کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی مضامین کے دو مجموعے ’گنجِ سربستہ‘، ’شگفتہ تحریریں‘ اور ’خرمن(جامنیر کا ادبی منظر نامہ)‘ تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ لگ بھگ50 سے زائد تحقیقی سمیناروں میں بحیثیت مقالہ نگار، صدراجلاس اور ریسورس پرسن شرکت بھی ہوچکی ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے بورڈ آف اسٹڈیز اور دیگر کمیٹیوں میں بحیثیت ممبر خدمات انجام دے رہا ہوں۔ مختلف شہروں کی ادبی سوسائٹیوں اور تنظیموں نے ہی نہیں بلکہ مدھیہ پردیش اردو اکادمی بھوپال نے بھی احقر کی تحقیقی و تنقیدی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے گراں قدر ’شعری بھوپالی‘ریاستی ایوارڈ سے نوازا ہے۔

احقر کی ’خاندیش میں اردو شاعری کی روایت، ڈاکٹر محمد شفیع ایک مطالعہ، کلامِ جمال انور،اور ہندی میں ہمارے رحیم ‘زیر طبع تصانیف ہیں۔

مندرجہ بالا محققین اور ناقدین کے علاوہ اس علاقے میں کئی تحقیقی تصانیف اور مضامین کے مجموعے منظر عام پرآچکے ہیں،جن میں قاضی عبدالرحیم دھولیوی کی تاریخِ خاندیش، ایم رفیق بیاولی کا ’تذکرۂ شعرائے خاندیش‘، فاروق اعظمی کی ’میری سوانح‘،پرنسپل عبدالرؤف شیخ کی ’اجالے اپنی یادوں کے‘ مشتاق کریمی جلگانوی کا’بتائے نہ بنے‘،ایس ایم انور بیاولی کی ’خاندیش کے اردو لوک گیت‘، شیخ یاسین کی ’اردو اور مراٹھی کے باہمی رشتے‘، ڈاکٹر شفیق ناظم جلگانوی کی ’تین صدابہار راتیں‘، مشرقی خاندیش کے مرحوم فنکاروں کی حیات و خدمات پر منحصر ڈاکٹر عبدالکریم سالار کی ’اردو کے بے لوث سپاہی‘ ادھومہاجن بسمل کا ’لفظوں کاحصار‘ شعرائے خاندیش کا انتخاب ’پلک پلک تیشہ‘، ’سخن در سخن‘، ’سخنورانِ شہر جلگائوں‘، شکیل انصاری کا ’تذکرۂ اولیائے خاندیش‘ وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ساتھ ہی یہاں کے محققین و ناقدین کے تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی معیاری اخبارات و رسائل میں شائع ہوکر دادوتحسین حاصل کرچکے ہیں۔ ایسے ہی فنکاروں میں ڈاکٹر ایم اقبال، ڈاکٹر اقبال شاہ، ڈاکٹر غیاث عثمانی، ڈاکٹرزیدی، ڈاکٹر ساجد علی قادری، ڈاکٹر آفاق انجم، جاوید انصاری، علی انجم رضوی، حاجی انصار احمد وغیرہ شمار کیے جاتے ہیں۔

خاندیش کے مختلف مقامات پر خصوصاً جلگائوں، بھساول، بیاول، چوپڑا، دھولیہ، جامنیروغیرہ میں مہاراشٹر اردو اکیڈمی اور قومی کونسل برائے فروغِ اردوزبان کے تعاون سے مختلف موضوعات پر ریاستی و قومی سطح پر تحقیقی سمیناروں کا کامیاب انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے۔ ان سمیناروں میں مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر علاقوں کے ادبا و محققین شرکت کرتے ہیں۔

اس طرح پوری ذمے داری سے کہاجا سکتا ہے کہ علاقۂ خاندیش میں اردو تحقیق و تنقید کے حوالے سے معیاری کام ہوا ہے۔ جتنا بھی کام ہوا وہ ادب میں اضافی حیثیت رکھتا ہے۔اتنا ہی نہیں اس علاقے کے ناقدین و محققین نے دنیائے ادب میں اپنی اور اپنے علاقے کی نہ مٹنے والی پہچان بھی ضرور بنائی ہے۔

 

Dr. S.M. Shakil

HOD. Urdu-Persian, Research Guide

Seva Sadan College, Shanwara.

Burhanpur 450331 (M.P)

Mobile No. 9425086923

drsmshakil1973@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو کے چند اہم غیر مسلم ادیب، مضمون نگار: ارشاد سیانوی

  فکر و تحقیق، اکتوبر - دسمبر 2024 تلخیص ہندوستان ابتدا سے ہی گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں پر بہت سی زبانوں، بولیوں نے ہمیشہ ا...