13/2/24

خواب رو اور جوگندرپال کا فن

تاریخی اعتبار سے تقسیم کے نتیجے میں جو فکشن رقم کیے گئے اس کا کینوس بہت وسیع ہے۔ یہ ہندو مسلم فساد، بے گھری، ہجرت کا کرب، مسلم اکثریت جو تقسیم سے قبل پاکستان میں مقیم تھی اور وہ مسلم خاندان جو ہجرت کر کے اِدھر سے ادھر گئے ان کی یادیں ان کا ناستلجیا، ان کی اولادوں کے مسائل اور اجڑتے بستے شہر پر کہانیاں اور ناول نہایت ہنر مندی اور فنکاری سے لکھے گئے، لیکن جب فساد کے جنون اور اثر سے ذہن آزاد ہوا تو ایسے ناول بھی احاطۂ تحریر میں آئے جو سنجیدگی اور فکرمندی سے حقیقت اور زندگی کی سچائی کو پیش کرنے میں کامیاب ہوئے اور جہاں لوگ اپنے شہر، اپنے عزیز، اپنے ساتھی سنگی، اپنے گھر اور اپنی تہذیب کو ترک کرکے ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف ہجرت کرگئے اور تقریباً نفسیاتی مرض کے شکار بھی ہوئے۔ اس تقسیم کے سائے میں ان فنکاروں نے تقسیم کے پہلے اور بعد کے حالات اور مناظر بلکہ ثقافتی اور تہذیبی تاریخ کو گہرے مشاہدے کے ساتھ تحریر کے احاطے میں زندہ و جاوید کیا ہے۔ ہر زبان میں تقسیم ہند کا گہرا اثر پڑا ہے۔ جوگندر پال کا ’خواب رو‘  اگرچہ مختصر ناولٹ ہے تاہم اس طرح کی کہانیوں اور ناولوں میں ایک زندہ مثال ہے جہاں کہانی کے گھنے پن، بنت کاری، سماجی سطح پر نہایت ارضی حقیقت، کرداری سطح پر ذہنی افق کی صورت اور ان کی سائیکی کی تصاویر جھلکتی ہیں۔

اپنے عہد کے تمام اہم فنکاروں نے زندگی کے تلخ حقائق کا حسن کے ساتھ فنکارانہ اظہار کیا ہے، لہٰذا تقسیم ملک کے تلخ حقائق کو درشانے کے لیے جوگندر پال کو بھی بار بار اپنے ماضی کی طرف لوٹنا پڑا ہے (Journey Back in time) اور ’خواب رو‘ (سالِ اشاعت 1991) کی شکل میں ایک شاہکار تخلیق ہمیں ملی جہاں زندگی کی حقیقت، خواب، معدومیت، عدم وجودیت، شناخت اور عدم تشخص کے مسائل اور منظرنامے ابھر آئے ہیں جو صرف خارجی عوامل کا شاخسانہ نہیں ہیں بلکہ داخلی کیفیات کے بھی نمائندہ ہیں۔ یہ منظر نامہ صرف فساد کا نہیں ہے بلکہ مابعد تقسیم کی لہروں (Post Partition Ripples) کو بھی تحریر کی گرفت میں لینے کی کوشش ہے۔ اگرچہ تشدد، مار کاٹ، نفرت، بم دھماکے اور ضمنی واردات بھی کہانی کے در و بست میں جگہ پاتے رہے ہیں۔

اکیسویں صدی کی ابتدا سے اب تک کے دو عشروں میں صنف ناول کو ہمارے فنکاروں نے خصوصی طور پر اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس دورانیے میں زندگی کے آثار میں نمایا ں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔سماجی، سیاسی اور تہذیبی حقائق تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں۔ سیاسی بحران کے ساتھ انسانی زندگی کے رنگ و روپ اور نفسیاتی سطح پر بدلتے ہوئے رویے اور رحجانات کے لیے ناول کو صیغۂ اظہار بنانے میں عا فیت محسوس کی گئی۔ ناول کی وسعت اور کشادگی میں ایسے تمام موضوعات اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ جگہ پا سکتے ہیںجن کی جڑیں ہماری تہذیبی،سماجی، سیاسی زندگی میں پیوست ہیں۔ اس دور میں اتنے ناول لکھے گئے اور اس قدر مختلف موضوعات کو مختلف تکنیک میں پیش کیا گیا کہ ہم اسے ناول کا عہد کہہ سکتے ہیں۔ مغرب میں تو اس کا چلن پہلے سے ہی تھا اور اس کا اعتراف بھی ہوا ہے کہ بیسویں صدی سے اب تک ناول کی اشاعت میں کمی نہیں آ ئی۔ان ناولوں میں اس قدر رنگا رنگی،پھیلاؤ اور تنوع ہے کہ اسے صرف نظر کر کے گزرا نہیں جا سکتا۔ اس کے موضوعات میں تہذیبی قدروں کے زوال، ماضی کی باز یافت، اخلاقی اور مذہبی مسائل، سیاسی اتھل پتھل نیز تغیر پزیر انسانی تقدیر کی کہا نیاں رقم ہونے لگی ہیں۔ علاوہ ازیں ان ناولوں کا بغور مطالعہ کریں تو زبان و بیان میںنیا پن ہے، اسلوب میں بھی انفراد اور تازگی ہے،  تکنیک میں بھی تر میم و تبدیلی اور بو قلمونی نے جگہ بنائی ہے۔ ایسے میں جو گندر پال کے اس ناولٹ کود وسری بار پڑھنے کا موقع میسر آیا تو احساس ہوا کہ ناول کی تازگی اپنے وقت اور اپنی سر حد کو پار کرکے آج سے آملی ہے۔ انسانی دکھ، درد اور ہجرت کی یہ کہانی اپنی بنت کاری، اپنے سماجی سروکار، اپنی حقیقت اور خواب کے امتزاج اور اپنے ناستلجیا کے حوالے سے اس طرح رواں اسلوب میں تحریر ہوئی ہے کہ اس کی اہمیت میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ آج کے ناول میں جہاں جدید، مابعد جدید تصورات اور نظریے کی گونج کے ساتھ طلسمی حقیقت نگاری اور دیگر تکنیکی طرز کے اظہار کو اپنایا گیا ہے اور جن پر مارکیز، پال کیلہو، ہر من ہسیئے، مورا کامی اور دیگر جہانوں کے ناول نگار کے اثرات کاذکر ہوتا رہا ہے وہاں ’خواب رو‘ بھی اپنے موضوع، اپنے برتاؤ اور تہہ داری نیز تکنیک میں کسی طرح کم نہیں ہے۔مجھے اعتراف ہے کہ بساط بھر دلچسپی کے باوجود ناول کا میرا مطالعہ غیر محدود نہیں، تاہم پچھلی صدی کے کئی ایسے ناول نگاروں کی تخلیقات پر جہاں نگاہ جاتی ہے تو فکشن کی روایت اور پچھلی صدی کے ناولوں میں وہی دلچسپی، وہی سحر انگیزی، وہی حقیقت نگاری موجود ہے اور موضوعات کے ہر طرفے کو قاری کے لیے تمام تر ترسیلی گنجائشوں کے ساتھ کھولنے اور احسن طریقے سے پیش کرنے کی مہارت صاف جھلکتی ہے۔ وہ زمانہ مختلف تھا، فضا ایسی نہ تھی، زمانے کی رفتار میں بھی فرق تھا، لہٰذا قرۃ العین حیدر، عزیز احمد، عبداﷲ حسین، انتظار حسین، جو گندر پال، عصمت چغتائی، اقبال مجید وغیرہ نے ایسے ناول لکھے جن کے سائے میں ناول کی روایت پروان چڑھی اور آج تک سفر جاری ہے۔ اچھی کتابوں کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ اپنے وقت کی سر حد وں سے نکل کر قاری کی پسند اور مطالعے میں رہے اور ناقدین کی نگا ہ میں بھی محترم ہو، ان مصنّفین کے بیشتر ناولوں کے ہمراہ ’خواب رو‘ بھی مجھے ایسا ہی ایک ناول نظرآیا جس کی خوبیاں اس کی دیر پا مقبولیت کی ضمانت ہیں۔ ان ناولوں میں زبان و بیان کے نہایت خلا قا نہ استعمال کے ساتھ ساتھ عام انسان کی بولی ٹھولی پر خاص توجہ دی گئی ہے اور اسی کے حوالے سے ماحول اوروقت کے عکس کو تحریر کے ذریعے معقول سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔

خواب رو‘ جو گندر پال کا ایک مختصر ناول ہے، اسے ناولٹ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن بڑا فنکار اپنے وژن یا اپنی بصیرت کو اپنے کردار اور واقعات کے حوالے سے نہایت اختصارکے ساتھ بیان کر سکتا ہے۔ صفحات سیا ہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی جیسا کہ البیر کامیو نے اپنے دو مختصر ناولوں میں فرد کی مر کزیت اور موضوعات کے تنوع کو سمو دیا ہے۔ جو گندر پال کا ناول ہجرت کے مسائل سے جڑا ہے اورجو نسخہ میرے پاس ہے اس میں سنہ اِشاعت 1991 درج ہے، لہٰذا اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جو گندر پال کو بہ حیثیت ادیب اور ناول نگار اپنے ماضی کی طرف سفر کرنا پڑا ہے اور جو کچھ بھی لکھاہے، جذبے کی شدت سے لکھا ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ تصور وقت اور دنیا کے تصوّ ر کے ساتھ جو گندر پال اپنے ملک کے سنگین ترین المیے اور انسانی نفسیات کے مختلف اور متضاد پہلوؤں سے الجھتے اور اندر ہی اندر پگھلتے رہے ہیں لہٰذا انھوں نے ناول کے مر بوط(Coherent)اسٹرکچر کے لیے اس بات کو دھیان میں رکھا ہو گا کہ کہانی میں معقول اور مناسب ابتدا اور انتہا ہونا چاہیے اور درمیان میں واقعات کا تانا بانا احتیاط سے بنا جائے۔ناول کا پہلا جملہ ہے:

’’یہ لکھنؤہے‘‘

اور آخری جملہ جب دیوانے مولوی صاحب کا پوتا یہ کہہ کر گیند کے پیچھے بھاگتا ہے:

’’ لکھنؤ یہی تو ہے، بڑے ابو‘‘

تو ہم سمجھ پاتے ہیں کہ درمیانی واقعات یکے بعد دیگر ے وقوع پذیر ہو کر ناول نگار کے نقطۂ نظر یعنی ’وژ ن‘ کو اس طر ح پیش کرتے ہیںکہ ہم ان کے Vision of Reality سے قریب ہو جاتے ہیں۔ پورا ناولٹ پڑھ جایئے بیان کنندہ   First Person Observerکے طور پر پلاٹ کے باہر سے کہانی کے خوبصورت، با مقصد اور با معنی انسلاک و انضمام میں ہمیں شریک رکھتا ہے۔ یہ مشاہدہ کرنے والا بیان کنندہ کہیں بھی کرداروں کو اپنے نظریے کا ہمدرد یا نمائندہ یا موید نہیں بناتا ہے۔’خواب رو ‘ میں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ کہانی پن ہے جو رواں دواں ہے۔  اس کی ترتیب و تشکیل اور واقعات و سانحات نیز قصے کی مستحکم بنیاد اپنی جگہ ہر صفحے پرقائم رہتی ہے جو اس ناولٹ کو اعلیٰ درجے کے ناولٹ کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ ناول کی ساخت اور اس کی گہری پرتوں کو کھنگال کر دیکھیے تو کئی باتیں ازخودظاہر ہوجاتی ہیں۔ یہ پورا ناولٹ ہجرت کے ایک اہم لیکن تنہا واقعے کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے اور انجام کار وسیع حقیقی فارم کا روپ دھار لیتا ہے۔ یہ سارے کردار جنھیںہم پہلے صفحے سے آخری صفحے تک پاتے ہیں یعنی دیوانے مولوی صاحب،ان کی اچھی بیگم، ان کے دوست، ان کی اولادیں، حکم صاحب دیگر رشتے دار، چوکیدار، یہاںتک کہ سندھی باورچی اور مولوی صاحب کی ایک اولاد کی سندھی بہو ایک حیرت انگیز سماج کا ہیو لا قائم کرتے ہیں اور آخر آخر تک تکثیری انسانی جہتوں کو کہانی کی ساخت میں پیوست کر کے انسان دوستی کے مقام پر لے آتے ہیں۔ یہ سارے واقعات اور کردار مل کر مابعد تقسیم کا ایک Panormic View پیش کرتے ہیں۔ کرداروں کی نفسیات، اپنے وطن عزیز، کھوئی ہوئی اور پائی ہوئی نئی جنت کی تہیں، سب ایک دوسرے میں پیوست نظر آتی ہیں۔  وقت کے مارے ہوئے ان پرندوں کے جسموں پر نئے بال وپر آرہے ہیں اور انسانی انضمام واختلاط Assimilation) ( کی صورت پیدا ہورہی ہے اور اس طرح ناول نگار کا اپنا بسیط وژن، ذاتی تجربے، تلخ ترین حقائق اور گہرے مشاہدے کے حوالے سے ناول کی تہہ سے نہایت فنکاری کے ساتھ ابھرتا ہے۔ ناول نگار کا ایک سماجی وژن بھی ہے جو اس کے مقصد کو باوقار بناتا ہے اور ناول کا فارم ابتداتاانتہا پہاڑ سے بہتے ہوئے چشمے کی مانند بہتا چلا جاتا ہے جو اپنی منزل پر پہنچ کر دم لیتاہے۔

نقل مکانی کی اس کہانی میں نئی زمین پر آباد ہونا اور اپنی شناخت کے مسائل سے نبردآزما رہنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ نا مساعد حالات کی تاریک راہوں سے گزرتے ہوئے نئی جگہوں میں اپنے جانے پہچانے راستے، اپنے گھر بار، اپنے بازار اور اپنی کھوئی ہوئی جنت کو ازسر نو دریافت کر نا پیچیدہ مسئلہ ہے۔ بقول شاعر وہ شام کے منظرو ں میں پرندوں کے اس غول کی طرح ہیں جن کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا، انھیں تعمیر کرنا پڑتا ہے لیکن اس تعمیر سے پہلے ان کا اپنا پیچھے رہ گیا شہر ان کی ذات کے نہاں خانے میں ازلی طور پر بسا ہے۔ وہ اس قدر نا ستلجیا کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کے تصور میں بسے ہوئے ان کے اپنے شہر کی ہردلعزیزی پر اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ پاگل نہیں ہوتے بلکہ نواب مرزا کمال الدین کی طرح دیوانے مولوی صاحب کے روپ اپنے لکھنؤ کو کراچی میں من وعن بسا لیتے ہیں۔ یہ دیوانگی ان کی زندگی کا جواز بھی ہے۔ اس حیرت زا Eccentricityکی بنیا د کو جوگندر پال نے ناولٹ کے پہلے صفحے پر کس قدر اختصار مگر فنّی چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے:

’’ یہ لکھنؤ ہے۔‘‘

ملک کی تقسیم پر جب لکھنؤ کے مہاجرین کراچی چلے آئے تو ذرا سنبھلتے ہی انھوں نے یہاں بھی اَمین آباد کا چوک کھڑا کر لیا …اَمین آباد میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی اور مہاجرین اَمین آباد کے گرد وپیش پاؤں جمانے لگے۔کہتے ہیں لوگ ـآتے جاتے رہتے ہیں مگر مقامات ہمیشہ وہ مقام کیے رہتے ہیںمگر یہاں تو مہاجرین دل ہی دل میں شہر کا شہر اٹھا لائے، کوئی اپنے گھر کی اینٹیں، کو ئی جوں کا توں پورا گھر،کوئی ساری گلی، کوئی گلی سے باہر تیز تیز چلتی سڑک، جو بھی جس کا دل میں سمایااور جب کراچی پہنچ کر ان کی سانس میںسانس آئی تو انھوں نے دلوں سے اینٹ اینٹ سارا شہر برآمد کر لیا۔ خدا جانے جہاں یہ شہر واقع تھا وہ اب کیارہ گیا ہو گا۔ یہاں تو اس کی پھبن کا یہ عالم ہے کہ کوئی کراچی کے اسیر کوآئے تو اس سے بار بار پوچھا جا تا ہے، کراچی میں لکھنؤ دیکھا۔‘‘(صفحہ 7)

جو گندر پال کو افسانے اور کہانی کے بیانیے پر گہری دسترس حاصل ہے۔ ناول کے ابتدائی اقتباس سے ہی ثابت ہو جاتا ہے کہ تفصیلات میں حقیقت اور خواب کے انضمام کی کیسی گنجائشیں ہیں، بیان کی طوالت میں نہ جاتے ہوئے مشاق فن کار جوگندر پال اپنے طرز بیان میں حقیقت کی زمین پر خواب یا فنتاسیہ کا تاثر پیدا کرتے ہیں جو میرے خیال میں جادوئی حقیقت نگاری کی ہی ابتدائی شکل ہے۔ اس طرح کی تکنیک کی بنیاد پر بھی ناول نگار نے پورے ناولٹ میں جذبے اور رنگ آمیزی سے نہایت دانشورانہ انداز میں درد مندی کا ماحول قائم کیا ہے جو بحرانِ تقسیم کے ساتھ کردار کی نفسیات کو ہمارے ذہنوں میں آباد کردیتا ہے۔ اس Meandering narrative میں دیوانے مولوی صاحب یعنی نواب مرزا کمال الدین صاحب اپنے وطن عزیز لکھنؤ اپنے اندر بساکر کراچی چلے آئے ہیں۔ لکھنؤ ان کے اندر پھانس کی طرح اٹکا پڑا ہے۔ یہ تقسیم وقت کا گہرا اور سنگین ترین المیہ ہے جو زندہ لوگوں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ بھائی چارے کے ہمراہ بسی بسائی جنت کو (Divide & Rule)کی سیاست نے تہہ و بالاکر دیا لیکن کچھ لوگ اس طرح بھی زندگی گزار نے پر مجبور ہوئے جو اپنی جڑوں سے گہرے طور پر مر بوط اور نئے مقام پر اپنے وطن کو اپنے تصوّر میں لیے چلتے رہے۔

یوں دیکھا جائے تو ناول خواب کے پل پر تیار کیا گیا ہے۔ مولوی صاحب کی اصل جنت تو پیچھے رہ گئی لیکن ان کی دیوانگی میں نئے مقام پر ہی ان کے خوابوں کا شہر آبا دہو گیا۔ کراچی کو درحقیقت لکھنؤ مان کر جینا بھی طلسم ہے اور اس بنیاد پر ناول کے واقعات کو ترتیب وتشکیل دینا اور انسانی محبت اور انسانی سائکی کے ساتھ نہایت ہنر مندی سے دونوں ملکوں کی تہذیب، طرزِ رہائش اور مرتبے کو پیش کرنا جوگندر پال کا کار نامہ ہی کہلائے گا۔ اس مختصر ناولٹ میں انسانی درد مندی کی ایسی فضا قائم کی گئی ہے کہ کہیں بھی ناول نگار کا جبر یا مداخلت ناول پر گرا نبار نظر نہیں آیا بلکہ ناول اپنی رفتار سے، بغیر فریقین کی جانب داری کے، کرداروں، ان کی اولادوں، ان کے عزیزوں (دیوانے مولوی صاحب،اچھی بیگم، اولادیں نواب مرزا، اسحاق مرزا، سالے حکیم جمال الدین، ہاشم علی، چائے والا عزیزو، باورچی اور دیگر کردار) اور ان کے حالات کے حوالے سے اپنی منزل، اپنے Denouement  تک پہنچتا ہے۔ پورے ناول میں ناول نگار نے ماحول، صورت حال، مہا جروں کی ذہنی کیفیت، نئے مقام کے لوگوں کی روداد اور وہاں کے تشدد اور ہنگامے کے مناظر کو اس طرح پیش کیا ہے کہ معروضی طور پر اور Detatched ہوتے ہوئے بھی تقسیم ہند کے اہم گوشے، ہجرت کا کرب اور عام انسان کے انضمام و اختلاط اور سندھی پنجابی خاندان کے تناظر نہایت قرینے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ ایک پر امن مستقبل میں ہم آہنگی کی صورت نظر آنے لگتی ہے۔ یہ سبھی گوشے قصے کے درمیان سے دھیرے دھیرے ابھر آتے ہیں۔

خواب رو‘ میں جوگندر پال نے کہانی میں موجود رہ کر بھی Dispassionateاور معروضی رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ یہ صرف اور صرف جوگندر پال کا حصّہ نظر آتا ہے جو درد مندی اور انسانی نظریے (Humanistic View)کو ناول کی ساخت میں سمو کر ناول کا اہم جُز بنا دیا ہے۔ کراچی سے بے دخل ہوکر لکھنؤ آکر بس جانے والے خاندان کے بیان میں اپنے طرز کے مطالعے کی سمت کو طے کرنے کے بعد واقعات اور کرداروں کی تشکیل و تر تیب نہایت قابلِ فہم بیانیے کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے تاکہ گفتگو، کردار، واقعات کا عمل دخل معنی خیزی کے پل صراط سے گزرسکے۔ یہاں دیوانے مولوی صاحب کی بیگم صاحبہ ہیں جو ان کا بہت خیال رکھتی ہیں اور ان کی دیوانگی کو ان کے جینے کا اہم سبب گر دانتی ہیں۔ نواب مرزا کی بیگم چاند بی بی اور دل سے نہایت قریب نواسی آخر آخر تشدد اور نفرت کا شکار بن جاتی ہیں۔ اگر چہ مرز اکی فیکٹری میں مقامی لوگو ں کا کام کرنا اُمید افزا معلوم ہوتا ہے، لیکن چھوٹا فرزند اسحق مرزا دوری، دوئی مخالفت اور نفرت کے باوجود نئی فضاؤں میں جینے کی تمنا کرتا ہے، سندھی لڑکی سے نکاح بھی کرتا ہے، بچے بھی ہوتے ہیںاور محبت کے پل کی تعمیر بھی ہوتی ہے۔ ان کے پنجابی دوست فقیر محمد کا نئے رشتوں کی طرف مثبت رویہ اور بھائی چارہ یا انضمام واختلاط (Assimilation)انسان دوستی کی طرف مثبت اشارے ہیں۔ اس مختصر سے ناولٹ میں باورچی کا کردار بڑا دلکش اور محبت کی دھیمی آنچ میں سلگتا ہوا کردار ہے جس میں گہرائی اور گیرائی ہے اور معنی خیز اعمال وافعال کی بنیاد پر وہ دیوانے مولوی صاحب کے نازک ترین لمحے میں سہارا بن کر تکثیری بھائی چارگی اور محبت کی کلید فراہم کرتا ہے۔

کراچی اورلکھنؤ مولوی صاحب کے تصور میں ایک دوسرے سے گھلے ملے اور گتھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دونوں شہر بیک وقت ایک ہی مقام پر آباد ہیں۔ یہ خواب اور حقیقت کا ایسا افسانہ ہے جو ایک خاندان کے حوالے سے پورے منظر نامے کا بیانیہ بن گیا ہے، ایک خاندانی کل میں سمٹ کر اس طرح اس کی ساخت کو ناول میں پیش کیا گیا ہے کہ جس کے گرد کئی ضمنی کہانیاں، سیاسی اتھل پتھل، ہنگامے، تشدد،بم اندازی، رشتوں میں دراڑ اور نفرت کی فضا میںسب کچھ حل نظر آتا ہے۔ ہجرت کا موضوع، نقل مکانی کے درد اور اس کی کیفیات، نئے موسموں اور نئے مقاموں کی خبریں لوگوں پر مختلف اسرار کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں اور ناول نگار مختصرروداد کے بڑے سے کینوس پر ساری جزئیات کو یکجا کر دیتا ہے۔ ناول نگار کا ایک کمال تو یہ ہے کہ دو ملکوں کے افراد کے منفرد احساسات، جذبات، انفرادیت اور عام سی عادتوں کو بھی کرداروں کے حوالے کر دیا ہے۔ دیکھا جائے توکراچی کا جغرافیہ کہیں نہیں بدلتا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ لکھنؤ پورے کا پورا جڑ سے اکھڑ کر یہاں بسا ہے۔ پہلے جملے سے ہی ہم اس سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں اور جلد یا بدیر یہ احساس ہوتا ہے کہ کرداروں کے رویے میں، خاص طور پر دیوانے مولوی صاحب کے رویے اور بر تاؤ میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی، یہاں تک کہ اس کے ساتھ چپکے چپکے ہم کراچی میں لکھنؤ ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ چوکیدار کا یہ بلیغ جملہ ہماری رہ نمائی کرتا ہے۔

’’یہ لوگ ہو بہو دکھنے لگے جو خواب کے راستے چوک میں نکل آئے ہوئے ہوتے۔‘‘( صفحہ 7)

یا پھر:

’’لکھنؤ کے راستے ہر جانب سے کراچی میں کچھ اس طرح کھل گئے ہیں کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہی میرٹھ، ملیح آباد، اعظم گڑھ یا الہ آبا دجا پہنچے ہیں۔ چار پانچ برس پہلے دیوانے مولوی صاحب کا چچیرا بھائی ہندوستانی لکھنؤ سے ان سے ملنے آیا تو اسے حیرت سے اپنا دماغ ادھڑے ہوئے محسوس ہونے لگا تھا۔‘‘ (صفحہ 12)

یا پھر:

’’آنا جانا تو ٹورسٹ کا کام ہوتا ہے جیسے آپ کا اور سنیے، ایک مقام دو مقامات پر واقع نہیں ہوتا۔ہمارا لکھنؤ واحد لکھنؤ ہے۔ہم کسی اورلکھنؤ کو تسلیم نہیں کرتے۔آیا سمجھ میں؟‘‘ (صفحہ 13(

اور یہ ساراماجرا اس وقت بھی وقوع پذیر ہوتا ہے جب مہا جرین نے معاشی طور پر نئے مقام پر اپنی حیثیت ایک بڑی حد تک مستحکم کرلی ہو۔اسحق مرزا لکھنؤ کو دل سے نکال کر سندھی بستی میں آباد ہوتا ہے لیکن ناول نگار کی دور بین نگاہوں نے تاریخ کے جبر کو تاریخ دانوں سے بہتر انداز میں دیکھا ہے۔تقسیم پر ان کے فلسفیانہ خیالا ت اور گہرے تجربات کا اظہار ملا حظہ فر مائیں:

’’ کیا تمھارا یہی مشاہدہ نہیں ہاشم ؟ ہندوستان کے تعلق سے تو ہمارے بڑے بڑے تو اس قدرناستلجیا کا شکا ر ہیں کہ یہیں کے آموں کو ملیح آباد کا آم نہ کہہ لیں تو انھیں دو کوڑی کا بھی نہیں گردانتے ہیں۔ ایک طرف یوروپ کے ترقی یافتہ ممالک ہیں کہ وہاں بیسیوں ریل گاڑیاں ہر روز ایک ملک سے دوسرے ملک میں اس مانند داخل ہوتی رہتی ہیں جیسے ایک ہی ملک کے ایک ہی شہرسے دوسرے شہر میں، دوسری طرف ان دو بد قسمت پڑوسی ملکوں کے باشندے تصوّر میں بھی اِدھر سے اُدھر کترا جاتے ہیں کہ کہیں ویزا کے عوض دھر نہ لیے جائیں۔‘‘(صفحہ 82(

ہاشم اور اسحق مرزا کے درمیان خط کے حوالے سے جو باتیں درج ہیں، سیاسی طور پر آج بھی Relevant ہیں اور اس کی سچائی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ یہاں واقعات یا ماجرے کے مر کز سے دوری پر رہ کر بھی ناول نگار نے راوی /بیان کنندہ کے حوالے سے رونما ہونے والے سنگین حالات کی بھی ساری کیفیات اور معلومات قاری کے سامنے پیش کر دی ہیں۔ یہاں جوگندر پال کا نکتۂ نظر،ان کا فکرو فلسفہ بھی ہم تک کرد اروں کے حوالے سے پہنچتا ہے تاہم وہ فریقین میں سے کسی کو بھی مور د الزام نہیں ٹھہرا تے ہیں اور اپنی بے جا ہمدردی اور غیر منصفانہ طرزِ بیان سے کہیں بھی سوائے مختصر تبصرہ کے کہ جہاں وہ وقت اور حالات کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی طرح کی واضح شکل میں کوئی بات نہیں کہتے۔ یہاں ان کا فلسفیانہ وژن اپنے شباب پر ہے۔ یہی Destinyتھی دونوں ملکوںکی اور یہیں پر دیوانے مولو ی صاحب کردار سازی کا ایک اعلیٰ نمونہ بن کر ہمارے سامنے حاضر ہو تے ہیں۔ دیوانے مولوی صاحب کی دیوانگی کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں، اور اچھی بیگم اچھی طرح جانتی ہیں کہ ان کی یہ دیوانگی ہی ان کے زندہ ہو نے کی دلیل اور علاج ہے۔ وہ پاگل نہیں۔ اسحق مرزا کو بھی آخر اس حقیقت کا عرفان ہو جاتا ہے۔ دیکھیے انسان دوستی کو بیانیے کے عرصے میں رکھ کر حقیقی معنی کی در یافت کی طرف کس مستعد ی سے لیے چلتے ہیں اور قاری کو اعتماد میں لے کر یہ منوالیتے ہیں کہ دیوانگی کا علاج یہی دیوانہ پن ہے:

’’ اسحق مرزا اپنی اس خواہش سے بے چین ہو اٹھا کہ جو مہاجرین اپنے چھوٹے ہوئے مقامات کی دید کو تر ستے ہیں،انھیں زبردستی پاگل پن کا ٹکیہ لگا دیئے جائیں۔ ایک لمحے کی چھبیں یہی ہے تو ہے جس کے بعد سر کاری شعبوں کے صابطوں سے آزاد ہوکر وہ اپنے اولین مقامات پر ہنستے کھیلتے بسر کرنے لگتے ہیں۔پاگل لوگ اتنے نیک اتنے انجان اور کھلنڈر ے ہوتے ہیں کہ کڑی سے کڑی سرکاریں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شرمسار ہوجاتی ہیں۔‘‘(صفحہ 64(

اس طرح جوگندر پال بیشتر مقامات پر اپنے بیا نیے میں اپنی فکرو نظر کے حوالے سے معنی کی لہریں فراہم کرتے جاتے ہیںاور کہیں بھی یہ احساس نہیں ہو تا ہے کہ ناول نگار کا عمل میکا نیکی صورت حال کے تابع اپنا مطمح نظر پیش کر رہا ہے۔ یہیںسے انسان دوستی کہانی کے تانے بانے کو روشن کرتی جاتی ہے۔ایسی معنی آفرینی اور کردار سازی نیز پلاٹ کی گنجائشیں کم ناول نگار کے حصے میں آئی ہیں۔ اس طرح کی معلومات اور تہہ داری ہمیں انتظار حسین کے افسانے اور ناولوں میں دکھائی دے جاتی ہے۔

جوگندر پال نے اپنے کردار دیوانے مولوی صاحب کو خلق کرتے ہوئے یو نہی تو نہیں لکھا تھا کہ ’’جہاں بھی جاؤں گا اپنے باطن سے باہر تھوڑے ہی پہنچوں گا‘‘یا  ’’میرے سر میں دیکھو۔گھونسلوں کا ایک پورا شہر پاؤگی۔‘‘(صفحہ 65(

شک وشبہے سے دور، جینے کے لیے تصورات کی یہی طلسمی دنیا جو گندر پال کا بڑا کا رنامہ ہے، اسی طرح کے خیالات و معروضات کے سہارے پورے ناول میں ہجرت کا کرب، مہاجر اور سندھی پنجا بی کی دوئی، منافرت اور عناد کا ماحول، ہنگامی صورت حال، دھما کوں میں بار بار شہر کا لرز اٹھنا،کہانی کو ایک رواں بیانیے میں آگے بڑھاتے ہیں۔ ناول میں عام انسانوں، مہاجروں کی آرزؤں اور تمناؤں، خوابوں اور دُکھوں کی عکاسی اور ان کے جذبات کی تر جمانی تر تیب وار، تاریخ وار اور گہری شناخت کے ساتھ کی گئی ہے کہ قاری ناول نگار کی انسان دوستی، داخلی کشادگی اور بصیرت افروزی کا دھیرے دھیرے گروید ہ ہو جاتا ہے۔ مولوی صاحب اپنی ساری یادوں، تہذیب کی ساری نعمتوں سمیت بکھر کر کراچی میںآ با د ہو کر بھی لکھنؤ سے کبھی رخصت ہی نہیں ہوئے اور ہوئے تو لکھنؤ ہی پہنچے۔ آخر میں جب بم دھماکے میں ان کا خاندان خاکستر ہو جاتا ہے تب بھی انھیں یہ احساس رہتا ہے کہ لکھنؤ تو یہیںہے۔یہ خواب ایک نوع کی تمہید ہے۔ ایک طرح کا طلسم، جو حقیقت کے بر عکس اپنی ذاتی حقیقت تراش لینے کے عوض مولوی صاحب کے جینے کا بہانہ ہے اور اس کے ڈانڈے آج کی موہوم/ طلسمی حقیقت نگاری سے کہیں تو جا کر ملتی ہے اور جب اختتام میں دھما کے کے بعد ان کی بیوی اچھی بیگم اور چہیتی ثریا تک تہہ خاک ہو جاتی ہے تو ایک مقامی شخص ان کا باورچی سہارا دے کر انھیں بحال کرتا ہے۔ یہاں نئی تکنیک کے استعارے، اشارے، علامتیں بعیداز فہم نہیں بلکہ خواب اور حقیقت کی زمین پہ بیانیہ راست زبان میں ہے اور حسن اختلاط اور انضمام کے گوشے پر بھی اس خوبی اور آہستگی اور غیر مرئی انداز میں روشنی پڑتی ہے کہ جو گندر پال کا دیوانہ مولوی صاحب زندۂ جاوید کردار کی صورت ابھر تا ہے، اپنی دیوانگی میں خواب کی راہ پر چل کر جینے کا حوصلہ پاتا ہے اور اپنے نئے مقام میں’خواب رو‘کی حیثیت سے زندگی گزارتا ہے۔ خواب اور حقیقت کا یہ تادیر ایک دوسرے میں الجھاؤ کہانی میں کشش پیدا کرتا ہے اورماہر فنکارکی طرح ایسا رنگ کہانی کے درو بست میں بھرتا ہے کہ بعیداز فہم علامتوں اور تر سیل کی نا کامیوں کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا۔لہٰذا یہ ناول ہر خاص و عام قاری کے لیے بلکہ آنے والے وقت کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔ قیام پاکستان، بٹوارہ، بے گھری، ہجرت کے کرب کے پہلو بہ پہلو سیاست کی پیچیدگیاں اور انسانی درد مندی کی مثالیں بھی ناول میں لرزتی نظر آتی ہیں۔ جو گندر پال نے بغیر لڑکھڑا ئے اور ایک غیر جانب دار بیان کنندہ کی حیثیت سے اس خطر ناک خلیج کو پار کیا ہے۔ وہ Detachedانداز میںاپنی ذات کو قربان کر کے کہانی کو آبادکر لینے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ کہیں انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ’’کہانی کار کو اپنی ہنر مندی میں نمائش نہیں کرنا ہو تی بلکہ اپنی کہانی کو ویسے ہی جینا بھوگنا پڑتا ہے جیسے وہ زندگی کو جینے بھوگنے کا خوگر ہو‘‘کہانی پُرخارو ادیوں سے گزر کر فن کے عروج پر پہنچتی ہے۔ عتیق اﷲصاحب نے صحیح فر مایا ہے کہ :

’’قدم قدم پر بہک جانے کا ڈر تھامگر جس کا میا بی بلکہ فنکار انہ کا میابی کے ساتھ وہ اپنے موضوع سے عہدہ بر آہوئے ہیں، وہ انھیں کا حصہ ہے۔ان کے تجربے میں بڑی گہرائی، پختگی اور صلابت ہے۔ ناول نگار کا فن وہاں اپنے عروج پر ہوتا ہے جہاں ناول نگار اپنے نقطۂ نظر میں اس کے فن میں ایک دوسرے کی تکمیل کی صورت میں حل ہو جائیں۔ ’خواب رو‘ اسی فنی ارتکاز، دھیمے آہنگ اور لمحۂ سکوت کی ایک شکیل تریں صورت ہے۔‘‘

(جوگندر پال ’ذکر،فکر،فن‘ ترتیب:ڈاکٹر ارتضیٰ کریم،ص 457(

خواب رو‘ میں موضوعات کا تنوع تو ہے ہی، ایک ایسا توازن بھی ہے جو زبان، تکنیک، کردار اور خود پلاٹ کی دین ہے۔ جو گندر پال نے اس ناول کے بیانیہ ڈھانچے کو نہایت باخبری اور سوجھ بوجھ کے ساتھ تر تیب دیا ہے جو انسانی روح کے داخلی ارتعاشات اور اس کی طاقت کی دریافت میں ممدد و معاون ہیں اور ہجرت کے کرب و بلا کو پاٹ کر اپنی زندگی گزارنے کے اہل بھی ہوتے ہیں۔ پورے ناول میں زبان اپنے ’مقامی گھنے پن‘ کے باعث جدید ناولاتی تکنیک سے جا ملتی ہے اور یا دداشت کے مر حلے کو ہنرمندی سے طے کرتی جاتی ہے۔ یہیں پر حقیقت اور فنتاسیہ کا اہتمام اور ذیلی تہذیبی جڑوں (Sub-Altern Cultural Root) سے ناول کا رشتہ قائم ہوتا نظر آتا ہے۔

 

Mr. Zahir Anwar

10/1- Ahiri Puker, 1st. Lane

KOLKATA-700019 (W.B)

Ph: 9831260504

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں