12/2/24

کلیم الدین احمد ناقدوں کے نرغے میں (آمد: 15؍ستمبر1908، رخصت:21؍دسمبر1983): سید احمد قادری

 

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کلیم الدین احمد ایوان اردومیں اپنے تنقیدی نظریات اور جرأت مندانہ افکار واظہار کے ساتھ اس طرح داخل ہوئے کہ پورے ایوان اردوادب میں زلزلہ ساآگیاتھا۔ یوں تو اردو ادب میں ایسی کئی کتابیں سامنے آئی ہیں جو متنازعہ اور ہنگامہ خیز رہی ہیں۔ لیکن کلیم الدین احمد کی ابتدائی دو کتابوں ’اردو شاعری پرایک نظر‘ (1940)اور ’اردو تنقید پرایک نظر‘ (1944) کے منظرعام پرآنے کے بعد ان کتابوں پرجواعتراض اوراحتجاج کاطوفان اٹھا، ایسا منظرنامہ اس سے قبل دیکھاگیا اورنہ ہی بعدمیں دیکھا گیا۔ ’گل نغمہ ‘ کے پیش لفظ میں ’غزل نیم وحشی صنف سخن ہے ‘ اور ’اردو تنقید پرایک نظر‘کی تمہید کاپہلا ہی جملہ۔۔۔۔۔۔۔  ’اردو میں تنقیدکاوجود محض فرضی ہے۔ یہ اقلیدس کاخیالی نقطہ ہے یا معشوق کی موہوم کمر … صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے کہاں ہے؟ کس طرف کو ہے ؟‘  جیسے متنازعہ ارشادات نے اردوادب میں بھونچال لادیاتھااور کلیم  الدین احمدنے اردو شعرو ادب کی پوری بساط الٹ کر رکھ دی تھی۔ یہ کتابیں ایسی ہی تھیں، جوبقول خو دکلیم الدین احمد :

’’...اورکچھ (کتابیں ) ایسی ہوتی ہیں کہ جو ہنگامی یاتاریخی عناصر کے ساتھ ایسی ادبی اورفنی خوبیاں رکھتی ہیں جولازوال ہیں، جوہرزمانہ میں رہتی ہیں ...‘‘

(اردوتنقید پر ایک نظر، پیش لفظ، ص 8)

ان دونوں کتابوں کی اشاعت کے بعد ناقدین اردوادب نے اپنی اپنی بساط بھرکلیم الدین احمد کے خلاف محاذ کھول دیے۔ ہرطرف کلیم الدین احمد کو زیرکرنے کے لیے نئی نئی اصطلاحیں ایجاد کی گئیں۔

’’کلیم الدین صاحب اردوادب کے ایوان میں مغربی چور دروازے سے داخل ہوئے۔‘‘ (حیات کلیم، ص 316) یا’منشی نقاد ‘ (احسن فاروقی ) جیسے رکیک جملوں سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ محمدعظیم جیسے نامورناقداپنے مضمون بہ عنوان ’کلیم الدین احمد اوراردوتنقید‘(مطبوعہ1955) کی ابتدا ہی ایسے جملوں سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’جیسے کوئی مست ہاتھی کسی شیشہ گرکی دکان میں گھس آئے اورسب کچھ توڑ پھوڑ کررکھ دے۔کلیم الدین احمدبھی کچھ اسی طرح ایوان ادب میں داخل ہوئے۔ انھوںنے اردوغزل کی آبروریزی کی،اسے نیم وحشی صنف سخن ٹھہرایا۔ نظم کی بدنظمی کونمایاں کیااور قصیدے، مثنوی اور مرثیے کوخون کے آنسو رلوائے۔ گویاکلیم کافیصلہ کسی نقاد کی آواز نہ تھی،صوراسرافیل تھا۔ جس کے اعلان سے کائنات ادب کاسارا نظام درہم برہم نظرآنے لگا۔‘‘(حیات کلیم، ص250)

ان سخت جملوں کے اظہار کے بعد محمد عظیم کو خود انھیں اپنی کم مائیگی کااحساس ہوتاہے اور وہ سپرڈالتے ہوئے یہ اعتراف کرنے پرمجبور ہوتے ہیں کہ :

’’کلیم الدین احمد اردوادب کاپہلانقادہے،جس میں متانت کے ساتھ صاف گوئی اوربے باکی ملتی ہے اوریہ مسرت کی بات ہے، کہ اس کی آواز صدا بصحرا ثابت نہیں ہوئی۔ نئے پرانے ادبا کسی نہ کسی حدتک ضرور اس سے اثر قبول کیاہے۔ ناممکن ہے اردو غزل کاذکر ہواورکلیم کانام نہ آئے۔ ‘‘ (ایضاً ص، 264)

اپنے دور کے جید ناقد اسلوب احمد انصاری بھی کلیم الدین احمد کی تنقید پر تنقیص کرنے میں پیچھے نہیں رہے اور ان کی تنقید کو تعصب، انتشار کا نمونہ قرار دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنی عملی تنقید میں توازن کا خیال نہیں رکھتے اور قدم قدم پر بہکتے ہیں۔

ان دنوں کلیم الدین احمد کی تنقید پر عامیانہ اور جارحانہ تبصرہ کرنا اور مضامین لکھنا تو جیسے ایک فیشن سا بن گیا تھا یا پھر خود کو عالم ثابت کرنے کی ہوڑ سی لگی تھی، خاص طور پر اردو اساتذہ کلیم الدین احمد کے خلاف کافی سرگرم نظر آئے۔

کلیم الدین احمدکی تنقیدپر جارحانہ اور غیر منصفانہ تبصروں کاسلسلہ چلتا رہا، لیکن کلیم الدین احمدنے پلٹ کرجواب دینے اور بلاوجہ معرکہ آرائی سے ہمیشہ گریز کیا۔  صرف ایک بار مولوی عبدالحق کے ’اردو شاعری پر ایک نظر ‘ پر تبصرہ کاجواب انھوںنے رسالہ ’اردو ‘ میں دیاتھا۔ اس کے بعدایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ کلیم الدین احمد نے اردو غزل کے سلسلے میں ہنگامہ خیز جملہ کہا تھا کہ ’غزل نیم وحشی صنف سخن ہے ‘۔ اس کی وضاحت انھوں نے کئی جگہ کی ہے۔ ان کے خیال میں ’’غزل میں ربط اور تکمیل کی کمی ہے۔ یہ ہی ربط اتفاق اور تکمیل کی کمی کی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ غزل نیم وحشی صنف سخن ہے ۔‘‘

 اسی طرح اردو تنقید کے ضمن میں بھی کلیم الدین احمد کا متنازعہ جملہ:

 ’’اردو میں تنقیدکاوجود محض فرضی ہے۔ یہ اقلیدس کاخیالی نقطہ ہے یا معشوق کی مدہوم کمر …صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے کہاں ہے؟ کس طرف کو ہے ؟‘‘

ان چند جملوں کے بعد اردو ادب کی دنیا میں جو طوفان اٹھا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے خود کلیم الدین احمد نے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ :

 ’’ تنقید کو ئی کھیل نہیں جسے ہر شخص کھیل سکے، یہ ایک فن،ایک صناعی ہے۔ صرف ایک فن ہی نہیں، یہ ایک مشکل ترین فن ہے، ہر فن کی طرح اس کے بھی اصول  وضوابط اور اغراض و مقاصد ہیں، ادب و زندگی میں اس کی مخصوص و قیمتی جگہ بھی ہے،اس لیے ہر شخص ایک نقاد کے فرائض انجام نہیں دے سکتا...  نقاد کو فن تنقید کے ہر پہلو سے واقفیت ہوتی ہے،شاعر کی طرح وہ بھی ایک لطیف قوت حاسہ کا مالک ہوتا ہے۔

اس کی نظر وسع ہوتی ہے ۔۔۔نقاد میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ شاعر کے دماغ میں سما کر،اس کے تجربے کے ہر عنصر کو سمجھ سکتا ہے اور خود سمجھ کر دوسروں کو سمجھا سکتا ہے۔وہ اس تجربے کی قدر و قیمت کا اندازہ کرتا ہے اور اس سلسلے میں اپنے ذاتی خیالات،جذبات و رجحانات کو وقتی طور پر فراموش کر دیتا ہے۔ اردو نقادعموماًان اوصاف کے حامل نہیں ہوتے،ہ رشخص اپنی پسند ونفرت کا اظہار کرتا ہے اور ’بزعم خود‘ ایک خود جلیل القدر نقاد بن جاتا ہے۔‘‘

(اردو تنقید پر ایک نظر، ص 8,9)

اسی طرح کی وضاحت انھوں نے 1978 میں اپنی ایک نئی کتاب ’ میری تنقید ایک بازدید ‘ میں بھی اپنی تنقید کے سلسلے میں بھی کی تھی۔

 اور اس میں لکھا تھا  :

’’کلیم الدین احمد کی تنقید پر جارحانہ تبصرہ کیا گیا اور یہ ناقدین کسی قیمت پر بھی کلیم الدین احمد کی وضاحت پر سنجیدگی سے توجہ دینے کو تیار نہیں رہے اور ادھر کلیم الدین احمد اپنے مؤقف پر ہمیشہ قائم رہے۔ معصوم عزیز کاظمی کے ایک سوال پر کہ کچھ لوگ ان کی تنقید کو منفی تنقید کے نام سے منسوب کیوں کرتے ہیں۔؟ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ کلیم صاحب نے دانستہ طور پر اردو ادب کے تاریک پہلو ؤں کو اپنی تنقید ی تحریروں میں اجاگر کیا ہے۔ اس سوال پر کلیم الدین احمد کسی خفگی کی بجائے بڑے ہی پر سکون انداز میں گویا ہوئے کہ:

’’جہاں تنقید کا تصور خام ہو وہاں صحیح تنقید کو قبول کرنے کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ اردو ادب کی عمر کم ہے اور اردو تنقید کی عمر اس سے بھی مختصر، اس لیے کچھ حضرات تنقید کی صحیح روایت اور منصب سے نا آشنا ہیں۔ میری تنقید کو ایسے ہی حضرات منفی تنقید کا نام دے بیٹھے ہیں۔ ‘‘

(اہل کمال زندہ ہیں : معصوم عزیز کاظمی، ص 35)

اسی طرح اردو غزل کے سلسلے میں بھی کلیم الدین احمد نے بڑی شائستگی سے وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

’’شاعری اور زندگی میں ناگزیر تعلق ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ مرتب نہیں ہوتا کہ شاعر کس سیاسی، معاشرتی، قومی، مذہبی تحریک میں گامزن عمل ہو، البتہ شاعر کو زندگی سے منھ نہ موڑنا چاہیے،اگر اس نے زندگی سے رو گردانی کی تو اس کی شاعری کی دنیا محدود ہو کے رہ جائے گی۔‘‘

(اردو شاعری پر ایک نظر، ص 151)

کلیم الدین احمد کی تنقیدسے انحراف کرنے والوں میں بہار کے بھی ناقدین پیچھے نہیں رہے۔ تاج پیامی نے توکلیم الدین احمد کی تنقید کی مخالفت میں پوری ایک کتاب ہی ’صاعقہ طور‘ لکھ دی تھی،جس کا چرچہ بھی خوب رہا۔ پروفیسرعبدالمغنی جوابتدائی دنوں میں کلیم الدین احمد کے مداحوں میں تھے اورانھوںنے اپنے پہلے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’نقطہ نظر‘ (مطبوعہ 1965 )میں’ کلیم الدین احمد کی ناقدانہ حیثیت ‘ کے عنوان سے ایک مکمل مضمون ‘لکھ کر کلیم الدین احمد کی ہمنوائی کرتے ہوئے لکھاتھا :

’’بہ حیثیت مجموعی کلیم الدین احمد اچھے نقادہی نہیں بہت بڑے نقاد ہیں۔انھوںنے ہمارے ادب میں کچھ معرکتہ الارا مسائل اٹھائے ہیں اور شاعری اور تنقید پروثوق کے ساتھ بنیادی خیالات کااظہار کیاہے...‘‘

اس کے ساتھ ہی پروفیسر عبدالمغنی نے کلیم الدین احمد کی مخالفت میں لکھے گئے بعض جارحانہ تنقیدی جملوں کابھی مدلل جواب دینے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ پھر اچانک یہ ہواکہ گیاسے شائع ہونے والے مقبول ادبی رسالہ ’آہنگ ‘  1977 کے شمارہ نمبر 86 میں کلام حیدری نے کلیم الدین احمد کاایک بے حد ہنگامہ خیز مضمون ’علامہ اقبال اورعالمی ادب ‘ شائع کردیا۔ جس میں کلیم الدین احمد نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عالمی ادب میں علامہ اقبال کا کوئی مقام نہیں ہے۔ بس پھر کیاتھاعلامہ اقبال کی عالمی حیثیت کوچیلنج کرنے والی کلیم الدین احمد کی تنقیدکووہ کیسے برداشت کرتے، وہ کافی چراغ پا اوربرہمی کے عالم میں جواباً عرض ہے کے تحت ان کاایک طویل مضمون ’ اقبال اور عالمی ادب ‘ ماہنامہ ’آہنگ ‘ 1977 کے شمارہ نمبر 87 میں ہی شائع ہوا۔پروفیسر کلیم الدین احمد اور پروفیسر عبدالمغنی کے مضامین کی حمایت اور مخالفت میں ’آہنگ‘ کے صفحات پر مضامین اور خطوط تواتر سے شائع  ہونے لگے۔ 1977 ہی کے ’آہنگ ‘ کے شمارہ نمبر 88, 89 ,90 وغیرہ میں’کلیم الدین احمد کے مضمون پر ایک نظر ‘ کے عنوان سے کئی مضامین کی بھی اشاعت ہوئی۔یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوئے اپریل 1979  تک پہنچتا ہے اور اس ماہ کے ماہنامہ ’سہیل‘ میں ’عالمی ادب میں اقبال کا مقام ‘ کے عنوان سے کئی زبانوں پر دسترس رکھنے والے معروف ناقد نظام صدیقی کا شائع ہوتا ہے۔ جس میں انھوں نے کلیم الدین احمد کی حمایت کرتے ہوئے  اپنے مضمون کے آخر میں لکھا تھا۔’ ایسے حیات آگاہ اور مسائل سنج عظیم المرتبت اقبال بھی بالمیکی، تلسی داس، دانتے، گوئٹے، ہومر، ورجل، رومی، عرفی، حافظ، سعدی، کالی داس، شیکسپیئر، غالب، پترارک، ملٹن، ڈن، ایلیٹ، بے ٹس اور ٹیگور کے مانند آفاقی شاعر ہیں اور ان کا دائرہ فکر پورا آفاق ہے۔ وہ تو نسل، زبان، رنگ و قوم سے بالا تر ہیں۔ ان کا کلام مشرق و مغرب کے اعلیٰ ترین اقدار کا امین اور انسان اور انسانیت کے ایک خوش آئند مستقبل کی بشارت کے باعث جاوداں اور ازل و ابد پر محیط ہے ۔‘‘

کلیم الدین احمد کے شائع ہونے والے ہنگامہ خیز مضمون کے تعلق سے پروفیسرعبدالمغنی اپنے جواب سے مطمئن ہوگئے،لیکن کلیم الدین احمد خاموش نہیںبیٹھے۔ 1979 میں انھوںنے ’اقبال ایک مطالعہ ‘ کے عنوان سے تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل پوری ایک کتاب ہی لکھ ڈالی۔جس کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ کلیم الدین احمد، علامہ اقبال کی شاعری کی آفاقیت کے معترف ضرور ہیں،لیکن وہ عالمی ادب کے معیار پر علامہ اقبال کی شاعری کو کوئی مقام دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔کلیم الدین احمد کے مطابق علامہ اقبال اپنی شاعری میں بعض اوقات پروپیگنڈا اور پیغامبری کے موجب بنے ہیں۔ کلیم الدین احمد کی اس کتاب کے منظر عام پرآتے ہی اقبال کے چاہنے والوں کے درمیان ایک بار پھر بھونچال لادیا۔ اس ضمن میں معصوم عزیز کاظمی کلیم الدین احمد پر ایک مضمون میں بڑی دلچسپ بات لکھی ہے کہ:

’’ اقبال ایک مطالعہ کی ایک جلد میں نے ڈاکٹر خلیق انجم کی رہائش گاہ پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری، شعبۂ اردو، کراچی یونیورسٹی کو پیش کی تھی۔ ڈاکٹر فرمان  فتح پوری کتاب حاصل کر کلیم صاحب اور قاضی عبدالودود کی عظمت پر رطب اللسان ہو گئے، لیکن رسالہ ’نگار‘ میں جب انھوں نے تبصرہ شائع کیا تو ان کی تحریر میں ان کی مجبوری کا اظہار صاف جھلک رہا تھا۔ اقبال کی شاعری کو عالمی ادب میں کوئی مقام نہیں دیے جانے پرہرطرف کلیم الدین احمد کی موافقت، مخالفت اور مباحث کا سلسلہ طول پکڑتا چلا گیا، یہاں تک کہ بات علامہ اقبال کی دفاع سے ہوتے ہوئے کلیم الدین احمد کی ذات تک پہنچ گئی۔ پروفیسر عبدالمغنی اس بار بھی خاموش نہیں رہے اور کلیم الدین احمد کی اس متنازعہ کتاب کے جواب میں انھوں نے کلام اقبال کے حوالے سے علامہ اقبال کی شاعری کی حمایت میں نیزکلیم الدین احمد کے تمام اعتراضات کے جواب میں اپنی ضخیم کتاب ’اقبال اور عالمی ا دب ‘ (1983)میں اپنی مفکرانہ اور ناقدانہ انداز سے دیتے ہوئے علامہ اقبال کو عالمی ادب میں ایک خاص مقام بھی دینے کی کامیاب کوشش کی۔ اس کے بعد ہر طرف خاموشی طاری ہوگئی۔ ماہنامہ ’آہنگ ‘ میں کلیم الدین احمد کے مضمون ’علامہ اقبال اورعالمی ادب ‘سے قبل مشہور شاعر اور نقاد ظہیر صدیقی کا ایک مضمون گیاسے سرورعثمانی کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالہ ’مفاہیم ‘ میں ’البرٹ کی ہیٹ احمد کے سر‘ کے عنوان سے شائع ہواتھا۔ اس مضمون میں ظہیر صدیقی نے کلیم الدین احمد پرعام طورپر اعتراض کیے جانے والے نظریات کہ کلیم الدین احمد مشرقی ادب کاجائزہ مغربی عینک لگاکر کرتے ہیں کودرست قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ کلیم الدین احمد نے حسب عادت اس مضمون کابھی کوئی جواب نہیں دیا۔

کلیم الدین احمد پرمسلسل تنقیدی حملے ہوتے رہے اورکلیم الدین احمد ان سب کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تصنیفی مشغولیات میںغرق رہے ان کابہت ساراقیمتی ادبی اثاثہ پٹنہ میںسیلاب کی نذر ہوگیا، جس کاانھیں بہت افسوس تھا۔

اسی دوران ایک ایسا واقعہ رونماہوا،جوسانحے میں بدل گیا۔ ماہر نفسیات اور معروف ادیب پروفیسر سید محمدمحسن نے اپناایک طویل مقالہ گیاسے شائع ہونے والے ادبی رسالہ ’سہیل ‘ کے ’کلیم الدین احمد (1983) میں شائع کرایا۔ یہ بات واضح کردوں کہ ماہنامہ ’ سہیل‘ کایہ پوراشمارہ پروفیسر کلیم الدین احمد کی مخالفت میں پروفیسر سید محمد محسن کے لکھے گئے مقالہ پرمشتمل تھا۔ جس کے بارے میں معصوم عزیز کاظمی کاخیال ہے کہ’ یہ مضمون کلیم الدین احمد کی کردار کشی اورلغویات کی بدتر ین مثال تھا۔ اس مضمون کے پیچھے پروفیسر محمدمحسن کی ذاتی پرخاش کی کارفرمائی تھی اس لیے وہ سنگ باری پراتر آئے تھے۔‘ معصوم عزیز کاظمی اپنے ان جملوں کے بعدیہ بھی انکشاف کرتے ہیں کہ ’ کلیم الدین احمد رسالہ ’سہیل ‘ کے کلیم الدین احمد نمبر کی تاب نہ لاسکے۔ اس کی اشاعت کے دوسرے دن وہ جاں بحق ہوگئے اور You too Bru-tusبھی نہ کہہ سکے۔

افسوسناک پہلویہ ہے کہ اتنے عظیم اورباوقار نقاد کلیم الدین احمد پراب تک پورے ہندوپاک میںکسی رسالہ کاخاص نمبرنہیں شائع ہوا۔ ریاست بہار کے نیم سرکاری ادارہ نے بھی اس سلسلے میںکسی طرح کی پیش رفت نہیں کی۔ کلیم الدین احمد کی زندگی میںگیاسے شائع ہونے والے ادبی رسالہ ’سریر‘ کے شمارہ نمبر14 (1979) کے فہرست مضامین ’بزم سریر‘ کے نیچے کلیم الدین احمد نمبر شائع کیے جانے کااعلان موجودہے۔لیکن کلیم الدین احمد پرمضامین کی عدم دستیابی کے باعث یہ نمبر بھی شائع نہیں ہو سکا۔کلیم الدین احمد کے انتقال کے بعد بہاراردو اکاڈمی کارسالہ ’زبان وادب ‘ کے مارچ 1984 کے شمارہ کے اداریہ بہ عنوان ’اردوادب  کے دوستون ‘ میں سکریٹری/ مدیراکادمی محمدیونس نے کلیم الدین احمد اور قاضی عبدالودود کے سانحہ ارتحال پر صدمے کااظہار کرتے ہوئے ان دونوں شخصیات پر ان کے شایان شان تقریبات منعقد کرنے اور ’زبان وادب‘ کے خصوصی نمبرشائع کرنے کا اعلان کیاتھا، لیکن  افسوس کہ وہ خاص نمبر بھی شائع نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ تلاش کیا جائے توبے اختیار شمس الرحمن فاروقی کی کہی ایک بات یاد آتی ہے کہ ’’کلیم الدین احمد صاحب پرلکھنا بڑے جوکھم کاکام ہے۔‘ ‘

Dr Syed Ahmad Quadri

7  New Karimganj

Gaya - 823001 (Bihar)

Mob .:  8969648799

Email : squadri806@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں