9/2/24

وحشت کی شاعری میں تصوف:نصرت جہاں

 

بیسویں صدی میں کلکتے کی شعری فضا میں جو نام آفتاب بن کر ابھرا وہ وحشت کلکتوی کا ہے۔ جنھیں علامہ، طوطی بنگالہ اور غالب دوراں جیسے القاب سے نوازا گیا۔ سرکار برطانیہ نے ان کی خدمات کے صلے میں انھیں خان بہادر کا خطاب دیا۔ وحشت نے فارسی اور اردو دونوں میں شاعری کی لیکن جس طرح غالب کے فارسی میں شعر کہنے کے باوجود ان کی اردو شاعری نے انھیں شہرت کے بام عروج پر پہنچایا ویسے ہی وحشت کی اردو شاعری ان کی شہرت کا سبب بنی۔

علامہ وحشت بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں انھوں نے نظمیں بھی کہیں جوان کے دوسرے مجموعے ترانۂ وحشت میں شامل ہیں۔ وحشت کی شاعری خالص روایتی شاعری ہے جس کا ذکر انھوں نے اپنے مکاتیب میں کیا ہے، لکھتے ہیں:

’’حقیقت یہ ہے کہ میںپرانی لکیر کا فقیر ہوں۔ میں ہمیشہ امیر لکھنوی کا یہ شعر دہراتا ہوں جو میرے حسب حال ہے       ؎

گزشتہ خاک نشینوں کی یاد گار ہوں میں

 مٹا ہوا سا نشان سرِ مزار ہوں میں‘‘

 میں نے وحشت کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے وحشت کی شاعری میں صوفیانہ عناصر سے بحث کی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اردو شاعری نے ہندوستان کی مقامی بولیوں اور ریختہ سے جنم لیا، لیکن حقیقت میں دیکھاجائے تو اس کی صورت محض ایک ہیولیٰ کی تھی، ہاتھ، پاؤں، خطوط اورخد وخال اس کو فارسی ہی کی بدولت نصیب ہوئے۔ فارسی میں جو اصناف سخن رواج پا چکی تھیں انھیں کو اردو نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ خاص طور سے مثنوی، مرثیہ اور غزل یہ سب فارسی ہی کی اردو کودین ہیں۔ البتہ اس میں بھی غزل، کو زیادہ مقبولیت ملی اور یہ مقبولیت کسی خاص طبقے سے متعلق نہیں رہی، جتنا خواص اس سے متاثر رہے اتنا ہی عوام بھی اس سے متاثر رہے۔ غزل کی رعایت سے اردو میں تصوف کے عناصر بھی شامل ہو گئے۔ کچھ تو صوفی تھے جنھوں نے غزلیں کہیں اور کچھ غزل گو یوں نے تصوف کے عناصر کو اپنی غزل میں در آنے دیا اس طرح تصوف شاعری میںسکہ رائج الوقت ہو گیا۔ مثنوی کو بے فرصتی نے مطالعہ سے باہر کر دیا۔ قصیدوں کو بادشاہت کے خاتمے نے بازارِ ادب سے باہر کر دیا۔ ایک غزل ہی ایسی صنف رہی جس کو ٹکسال کی حیثیت حاصل رہی اور غزل میں متصوفانہ مضامین اس طرح آنے لگے کہ غیر صوفی شاعر بھی اپنے کلام کو مقبول بنانے کے لیے متصوفانہ مضامین باندھتے رہے۔ غالب نے تو یہاں تک کہہ دیا     ؎

’’ شاعری کے لیے کچھ تصوف کچھ نجوم لگا رکھا ہے۔‘‘ یا پھر یہ کہ

یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

 یہ باتیں کسی ایک شاعر یا کسی ایک دور یا کسی ایک علاقے تک محدود نہیں حیدر آباد ہو یا دلی عظیم آباد ہو یا کلکتہ بیشتر شاعروں کے یہاں غزل میں تصوف کے مضامین نظم ہوئے ہیں۔ دلی سے اگر غالب کے کلام کو کھنگالا جائے تو اس میں ایسے ایسے تصوف کے مضامین نظم کیے ہوئے ملیں گے کہ اگر غالب نے اپنے خطوط یا بعض اشعار میں وضاحتیں نہ کی ہوتیں تو لوگ انھیں دور ویش با کمال اور صوفیِ بے مثال تصور کرتے         ؎

ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحر

کیا کیا دھرا ہے قطرہ و موج و ہوا میں

یا           ؎

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہیں

 حیران ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

اور پھر غالب ہی کے معاصر وحشت کلکتوی کہتے ہیں         ؎

منظور تھا مشاہدۂ شاہد جمال

دیکھا اسی کو اپنی جہاں تک نظر گئی

 وحشت کلکتے میں رہ کر غزل کو ایسے مضامین سے آراستہ کرتے ہیں کہ ان میں تصوف کی ایسی جھلک ملتی ہے جس سے لوگوں کو ان کی شخصیت کے بارے میں غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وحشت دیندار تھے مگر یہ کہنے میں بھی تامل نہیں کہ دنیا دار بھی ہیں۔ البتہ ہندوستان کے مزاج سے چاہے آدمی کسی بھی مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتا ہو مگر بیرونی حملوں، غربت اور مفلسی یہاں کے ادیبوں اورشاعروں کے ساتھ دھوپ چھاؤں کا کھیل کھیلتی رہی۔

خدا پرستی‘، ’خدا سپردگی‘ یہاں کے خمیر میں ایسے رچ بس گئی کہ آدمی اپنی توقعات میں ’شب درمیاں اور خدا مہربان‘ کی تصویر نظر آتا ہے۔ متوکل ایسے کہ اپنی موت کو دیکھتے ہوئے بھی ’تاتبر بالا شود‘ کی مالا جپتے تھے۔ وحشت کا حال بھی ان کی تعلیم، ان کی تربیت، ان کی گھریلو زندگی اور شاعرانہ ماحول کی وجہ سے ویسا ہی تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ آزادانہ روش کے قائل تھے پھر بھی غزل کے جادو سے خود کو آزاد نہ کرسکے اور روایت کی پاسداری کرتے رہے۔ صبر، توکل، عشق، ناپائیداری حیات ایسے مضامین ان کے یہاں بھی کثرت سے نظم ہوئے ہیں۔ وحشت نے زندگی کا بڑا حصہ کلکتے میں گزارا اور اس کے بعد ڈھاکہ چلے گئے۔ یہ دونوں جگہیں ہندوستان کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں زیادہ گنجان تھیں۔ آدمی اور آدمی کے درمیان فاصلہ کم تھا یہاں تک کہ ایک نظر میں دنیا کی گہما گہمی کا سامان آنکھوں کے سامنے آجاتا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس جم غفیر میں نظر پھیل جاتی لیکن وحشت کے یہاں نظر ارد گرد کے ماحول سے سمٹ کر اپنی طرف اور اپنے سے سفر کر کے اندر کی طرف پھر جاتی ہے۔ انھیں باہر کا ماحول زیادہ متاثر نہیں کرتا اس کے مقابلے میں اندر کی تصویریں انھیں زیادہ متحرک کر دیتی ہیں۔

البتہ ایک بات جو وحشت میں اور ہندوستان میں رہنے والے دوسرے شاعروں میں مشترک تھی وہ یہ کہ انھیں بھی روز کنواں کھودنا اور روز پانی پینے والے حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن خود داری نے انھیں کسی کا احسان نہیں لینے دیا اور توکل نے انھیں دربار رام پور کی دعوت ٹھکرانے کی ہمت دی۔

 وحشت ایک ایسا مزاج رکھتے تھے جس میں حیدر علی آتش کے متصوفانہ عناصر کی بھی جھلک ملتی ہے۔ ایک بار جب آتش کے ایک شاگرد ان کے پاس اپنا بندھا ہوا سامان لے کر آئے اور آتش نے پوچھا کہ سفر کا ارادہ کیوں ہے تو شاگرد نے جواب دیا کہ لکھنؤ میں روزگار کی تنگی ہے اسی لیے کانپور کا ارادہ ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش نے کہا:

’’ مجھے نہیں معلوم تھا کہ لکھنؤ میں ایک خدا ہے اور کانپور میں دوسرا‘‘

 یہ سن کر شاگرد نے اپنا اسباب کھولا اور ہجرت کا ارادہ ترک کر دیا۔ تصوف بنیادی طور پر توکل سے متعلق ہے اور اس میں نفع و نقصان، سود و زیاں یا برتر و کم تر اس کی کوئی تمیز نہیں ہوتی یہ خود سپردگی ہے۔ اس خدائے لم یزل کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور جو ملے اس پر قناعت کرنا صوفی کا مسلک ہوتا ہے۔ وحشت کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے  ؎

اسی میں عافیت ہے زندگی کو یوں بسر کرنا

نہ فکر نفع میں رہنا نہ پروائے ضرر کرنا

تصوف میں جو چیز بھی اللہ کی طرف سے ملے اس میں کسی طرح کا کوئی شک، کوئی اعتراض، کوئی غم و غصہ، کوئی کمی بیشی، اس طرح کے کسی خیال کو دل میں لانا ہی سالک کی راہ کا روڑا بن سکتا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ وہ ایک منبع سے الگ ہو گئے ہیں اس منبع کو فلسفی first Cause کہتے ہیں اور پھر اس کے بعد جستجو یہ رہتی ہے کہ انسان کی ذات یعنی صوفی اسی منبع سے جا کر مل سکیں۔ اسے کہتے ہیں کہ صوفی کا سفر’ہمہ ازوز سے شروع ہو کر ہمہ اوست‘ پر ختم ہوتا ہے  اور یہ درمیانی سلسلہ تلاش و جستجو کا رہتا ہے۔ صوفی متلاشی رہتا ہے اس منزل کا جس سے وہ کسی طرح الگ کر دیا گیا تھا۔ اس جستجو میں کئی منزلیں آتی ہیں پہلی منزل تو یہ ہے کہ آدمی باہر کی طرف سے نگاہ کو موڑ کے اپنے اندر کی طرف دیکھتا رہے۔ اس میں ایک منزل ملمع کی بھی ہے کہ صوفی ایسی حرکتیں کرے کہ اس کے ساتھ رہنے والے اس سے متنفرہوں اور اس طرح وہ اپنے محبوب سے اور قریب تر ہوجائے یعنی کوئی دنیاوی شے اسے اپنے جال میں گرفتار نہ کر پائے۔

 وحشت کے ان اشعار کی روشنی میں آپ ان کے اس سفر کی نشاندہی کر سکتے ہیں اور ان کے صبر، قناعت، توکل اور جستجو کی داد دے سکتے ہیں           ؎

گلستانِ ازل سے کس کا سودا سر میں لائے تھے

کہ بازارِ جہاں میں جستجو تھی عمر بھر ہم کو

سالک: جو خدا کا قرب بھی چاہے اور عقل معاش بھی رکھتا ہو       ؎

تیری تلاش رکھے گی مضطر ہر ایک کو

یہ جستجو پھرائے گی دردر ہر ایک کو

گو میں ہوں تجھ سے دور، تیری آرزو تو ہے

تیرا پتا ملے نہ ملے جستجو تو ہے

 تصوف کی حقیقت یہ ہے کہ انسان خود کو ہیچ سمجھ کر خدائے لم یزل کے سامنے اپنے آپ کو بغیر کسی شرط، توقع یا معاوضے کے پیش کرے اس میں شرط یا تقاضے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔شک، توقع، تقاضا، مطالبہ، لین دین، یہ عقل سے متعلق کوائف ہیں اور حق تو یہ ہے کہ عقل ایک حد تک رہنما تو ہو سکتی ہے مگر منزل نہیں ہوسکتی۔

وحشت کہتے ہیں           ؎

اندیشۂ سود و زیاں زنجیر پائے شوق ہے

کچھ جذبۂ دل کی بھی سن، اے عقل خود داری نہ کر

سالک اس ذات کا مشاہدہی کرنا چاہتا ہے جس کی طرف اس کو مراجعت کرنا ہے مگر اس راہ میں ایسی ایسی تصویریں اس کے قلب و نظر کو اسیر کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ دنیائے حیرت کا مسافر ہو کر رہ جاتا ہے۔ تصوف میں سوال ہے ’اور کیا ہے‘ لیکن’کیوں ‘ کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ سالک و ذات کا وجود ہر چیز میں دیکھ کر حیراں ہو کر رہ جاتا ہے۔ وحشت کہتے ہیں           ؎

حسن سو رنگ میں تحسین طلب

دیدۂ حیراں سے کیا کیا دیکھیے

 تصوف کی ایک منزل ’فنا فی اللہ‘ یعنی اپنے وجود کو اس وجود میں مدغم کرنا جس سے وہ ایک منزل پر الگ ہوا تھا۔ وحشت کے یہاں اس طرح کے کئی مضامین ملیں گے جن میں فنا کی تعلیم دی گئی ہے۔

فنا کا یہ سلسلہ ایسے ہے جیسے ہم لوہے کے ٹکڑے کو آگ میں ڈالتے ہیں، آگ کی خصوصیات اس میں آجاتی ہیں جیسے وہ گرم ہوجاتا ہے، وہ سرخ ہوجاتا ہے۔ اس میں جلانے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر یہ فنا ہونا یعنی لوہے کا آگ بن جانا عارضی ہے۔ تصوف میں تو مستقل فنا کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وحشت کہتے ہیں ؎

ہے تیرے وصل کو درکار فنا کی تعلیم

قطرہ دریا سے گریزاں ہے گہر کیا ہوگا

……

کشتۂ خنجر تسلیم ہیں ہم، ہم سے پوچھ

کچھ تو دیکھا ہے فنا کو جو بقا کہتے ہیں

 جیسا کہ اس سے پہلے میں نے عرض کیا کہ لوہا آگ میں مل کر اس کی بعض خصوصیات کو اختیار کر لیتا ہے یا جیسے ہم کہتے ہیں          ؎

’’آب درناؤ

 یا ناؤ در آب‘‘

 ایک مثال تو یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ رنگ ریز جب ململ کے دوپٹے کو رنگتا ہے تو اس کے بعد اس کو سکھانے کے لیے دو آدمی اس کا ایک ایک ’پلّو‘ یا سرا ہاتھ میں لے کر ہوا میں لہراتے ہیں خود اس کو لے کر چلتے ہیں وہ کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ململ کے باریک سوراخوں میں سے ہوا گزرتی رہتی ہے اور خود ململ ہوا میں رہتی ہے۔ بندے اور معبود کے وصل کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔علامہ وحشت کہتے ہیں    ؎

 کبھی شمس وقمر بن کر کبھی شکل کو اکب میں

 نمائش ہوتی رہتی ہے فروغ روئے روشن کی

 ہر ذی شعور اور صاحب عقل پر لازم ہے کہ وہ اپنی حیات میں ہر روز چند ایسی گھڑیاں وقف کر سکے جن میں وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے رب سے سرگوشی کر سکے اور اس خدائے برتر کی ذات کو خود میں جذب کر سکے ایسا انسان خدا کی یاد میں اتنا محو ہوجاتا ہے کہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب سے ہم کلام ہے۔

 اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب وہ اپنے اندر احتساب اور نو دریافت کا جذبہ ارتقا ہوتے ہوئے دیکھ سکتا ہے یہی وہ جذبہ ہے جو اس کے اندر خالق کی تخلیقیت پر غور وفکر کا مزاج پیدا کرتا ہے اور وہ کائنات کی ہر تخلیق میں خالق کی وجودیت اور اس کا مظہر تلاش کر نے کی سعی میں مشغول ہوتا ہے۔ وحشت کے یہ اشعار دیکھیے         ؎ 

ذرّے ذرّے پر جمال یارضو افگن ہوا

گوشے گوشے میں چراغ آرزو روشن ہوا

……

دیکھا ہے چشم شوق نے تجھ کو غلط غلط

تو جلوہ گر جہاں تھا، وہاں کس کو ہوش تھا

……

مقصد سے بے نیاز رہا ذوقِ جستجو

میں بے خبر ہوا جو ہوئی کچھ خبر مجھے

……

مقام بندگی کے عیش اگر مطلوب تھے تجھ کو

تجسس ترک کرتا وقف تسلیم و رضا ہوتا

……

فقر کے پردے میں پنہاں ہے غنا میرے لیے

مسند شاہی ہے میرا بوریا میرے لیے

الغرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ وحشت صوفی شاعر تھے یا اس حد تک شاعر تصوف تھے کہ تصوف کے مختلف رموز سے وہ آگاہ تھے اور پیرانِ طریقت کی طرح اس کو دوسروں تک پہنچانا چاہتے تھے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اردو شاعری خصوصاً غزل میں بیشتر باتیں علائم تصوف کے ہی پردے میں بیان کی گئی ہیں۔ میر درد ہوں، میر سودا ہوں کہ غالب، آتش ہوں کہ ناسخ، شاد ہوں کہ وحشت ان سبھی شعرا کے یہاں غزلوں میں تصوف کے عناصر کہیں شعوری طور پر اور کہیں غیر شعوری طور پر در آئے ہیں۔

 

Dr. Nusrat Jahan

75, Phears Lane

Kolkata- 700073 (WB)

Mob.: 9433108905

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں