5/2/24

کلیم الدین احمد کی خودنوشت نگاری: محمد شمشیر علی


 کلیم الدین احمد کے انتہا پسندانہ، استہزائیہ، مضحکہ خیز اور طنزآمیز جملوں میں شخصیت کشی کے عناصر غالب رہتے ہیں۔ ان کا مطالعہ نہایت وسیع اور نظر گہری ہے۔ ان کی تنقید ادب کو ازسرنو سمجھنے اور مسلمات پر غور وفکر کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

کلیم الدین احمدنے جب تنقید نگاری شروع کی تو اس وقت اردو تنقید کے کلاسیکی ناقدین (مولانا محمد حسین آزاد، سرسید احمدخاں، خواجہ الطاف حسین حالی،امدادامام اثر اور علامہ شبلی نعمانی) کادور گزرچکا تھااور ترقی پسند ادیبوں اور نقادوں کادور تھا۔تنقید اب تک ادب کے لیے کئی اصول و ضوابط طے کرچکی تھی، مفروضات و مسلمات قائم کیے جاچکے تھے، معیاری اور غیر معیاری اور تعین قدر کے مسائل بھی لگ بھگ طے کیے جا چکے تھے۔اسی اثنا میں جہان تنقید میں ایک گھن گرج والی، مضبوط اور منفرد آواز گونجتی ہے۔ اس آواز کا لب و لہجہ سخت، منفرد، مغرب زدہ، نہایت جدت آمیزاور معنی خیز تھا۔اس آواز میں انتہاپسندی کے علاوہ معروضیت اور بے لاگ انداز بھی تھا۔

کلیم الدین احمدنے جہاں قدیم و جدید تنقیدی سرمایے پر نظرڈالی ہے وہیں انھوں نے نقادوں اور ادیبوں پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ محمد حسین آزاد، خواجہ الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، مولوی عبدالحق، آل احمدسرور،سید احتشام حسین،اختر حسین رائے پوری، مجنوں گورکھپوری اور رشید احمد صدیقی جیسے ادیب و نقاد کو بھی اپنے تنقیدی نظریات سے پرکھا اور اپنے خیالات کا بے لاگ اظہار کیا ہے۔

میرے مضمون کا موضوع کلیم الدین احمد کی خودنوشت ’اپنی تلاش میں‘ ہے۔ یہ آپ بیتی تین جلدوں میں ہے۔ تینوں جلدوں کی اشاعت مختلف وقتوں میں ہوئی۔ پہلی جلد ’کلچرل اکیڈمی،گیا،بہار‘ سے 1975 میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔ دوسری وتیسری جلدیں بالترتیب 1987 میں ’بہاراردو اکیڈمی،پٹنہ‘ اور 1982 میں ’دائرۂ ادب،پٹنہ‘ سے شائع ہوئیں۔

اس خودنوشت کا آغاز ہی فلسفیانہ اور تنقیدی مباحث کے انداز میں ہوتا ہے۔کلیم الدین احمدچونکہ بڑے نقاد ہیں اس لیے ان کی نقادی کا رنگ ان کی خودنوشت کی ابتدا سے ہی جھلکنے لگتا ہے۔انھیں صرف اپنی پیدائش کا دن اور تاریخ لکھنی تھی سو وہ لکھ دیتے ہیں کہ ’’ میری پیدائش کا دن منگل، 15ستمبر 1908 اور وقت ساڑھے چھ بجے شام ہے۔‘‘  اس اقتباس سے تاریخ پیدائش اور وقت واضح ہوجاتے ہیں،مگر کلیم الدین احمد اس پر بس نہیں کرتے، بلکہ اس کے بعد وجود ہستی، اس کا فلسفہ اور حکمت، خالق ومخلوق اور تخلیق جہاں وغیرہ کی بحث کرنے لگتے ہیں۔جس کی وجہ سے قاری کی دلچسپی کم ہونے لگتی ہے اور روداد حیات جو کہ ’آپ بیتی‘ کا خاص موضوع ہوتا ہے اس سے بھی کم واقفیت ہوپاتی ہے۔مثلاً فلسفیانہ مباحث پرمبنی یہ عبارت ملاحظہ کیجیے:

’’تضاد تو حقیقت ہے، سوال یہ ہے کہ ’اپنی حقیقت‘ تک کیسے پہنچاجائے۔اسے کیسے آئینہ دکھایا جائے۔ آئینہ تو اپنی آنکھوں کا ہے،اس آئینہ پر وثوق کیسے ہو۔دوسری آنکھوں کے آئینے میں دیکھاجائے تویہاں بھی دشواری ہے ان آئینوں میں بھی عکس بدل اور بگڑجاتا ہے اور نامۂ اعمال تومل نہیں سکتا جس میں شاید صحیح حلیہ ہو۔ بحرخیالات کاپانی گہرا سہی لیکن اسی کی تہ کو ٹٹولناضروری ہے۔آئیے دیکھیں کیا کیا چیزیں نکلتی ہیں۔‘‘ (اپنی تلاش میں،کلچرل اکیڈمی، گیا، بہار  1975،ص3)

کلیم الدین احمدکو زمانۂ اسکول سے ہی اردو اور فارسی شعروسخن اور شعر فہمی کا شوق تھا۔اتفاق سے گھر کا بھی ماحول علمی وادبی تھا، والد عظیم الدین احمد لاہور کالج بعدہٗ پٹنہ کالج میں عربی وفارسی کے پروفیسر تھے، اس لیے عربی وفارسی تو انھوں نے اپنے والد سے ہی سیکھ لی تھی اور کم و بیش قریب کے مکتب و مدرسہ سے بھی۔اس لیے سخن فہمی میں اچھی استعدادبہم پہنچالی تھی۔ شعروسخن کے حسن وقبح اور پسندوناپسند کی تمیز انھیں لڑکپن ہی سے ہونے لگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اخبار، رسالے یا مجموعے میں انھیں کوئی غزل یا نظم اچھی لگتی تو وہ اسے لکھ لیا کرتے تھے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ وہ نظمیں اور غزلیں جن کا انتخاب کیا کرتے تھے صرف اردو کی نہیں ہوتیں، بلکہ فارسی کی بھی ہواکرتی تھیں۔ نظم اور غزل کے انتخاب کے لیے انھوں نے دو الگ الگ کاپیاں بنارکھیں تھیں،جس کاپی میں غزلیں لکھا کرتے تھے اس کا نام ’کشکول‘ تھا۔ جس میں تقریباً 230 غزلیں قدیم وجدید ہردوطرح کے شعرا کی تھیںاور جس کاپی میں نظمیں لکھا کرتے تھے اس کا نام ’سبدگلچیں‘ رکھا تھا، جو 125منتخب نظموں کا مجموعہ تھی۔ اس کا ذکر انھوں نے اس خودنوشت کے آٹھویں حصے میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’میری عادت تھی کہ کسی اخبار، رسالے یا مجموعے میں کوئی غزل دیکھتا یا کوئی نظم دیکھتا اور مجھے اچھی لگتی تو اسے کسی کاغذ کے ٹکڑے پر نقل کرلیتا۔ اس طرح میرے پاس بہت سی دھجیاں اور پرزے جمع ہوگئے تھے۔ میں اسکول میں شاید سکنڈکلاس میں تھا تو میں نے سوچا ان غزلوں اور نظموں کو باضابطہ جمع کیا جائے۔ چنانچہ میں نے کچھ فل اسکیپ کاغذ لے کر دوکاپیاں بنائیں، ایک کاپی میں غزلیں لکھیں اور دوسری میں نظمیں۔ پہلی کاپی کا عنوان’کشکول‘ رکھا اور دوسری کا ’سبدگلچیں‘ اس کے بعد مجھے جو غزلیں یا نظمیں پسند آتیں انھیں دوکاپیوں میں لکھ لیتا۔‘‘  (ایضاً، ص200)

اسی حصے میں انھوں نے اپنے لڑکپن کی پسند کے اردو وفارسی کے چند متفرق اشعار اور چند مکمل غزلیں بھی درج کی ہیں۔ ان کے فارسی و اردو کے چند منتخب اشعار بطور نمونہ پیش ہیں، تاکہ دوسرے درجے میں پڑھنے والے کلیم الدین احمد کی شعر فہمی اور حسن انتخاب کا اندازہ لگایاجاسکے   ؎

بخوبی جانچ کرلے جنس کی بازار ہستی میں

فریب ان جو فروشوں سے نہ کھا گندم نمائی کا

مشکل نہیں کہ گرمیِ محفل نہ بن سکوں

لیکن میں اپنے رنگ طبیعت کو کیا کروں

نہیں ڈرتے زمانہ جتناچاہے امتحاں کرلے

کھرے ہوتے ہیں جووہ آگ میں گرکر نکھرتے ہیں

فارسی اشعار بھی ملاحظہ کیجیے          ؎

ہمت بلند دار کہ نزد خدا وخلق

باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو

ہرگزنمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق

ثبت است برجریدۂ عالم دوام ما

بعداز وفات تربت ما درزمیں مجوے

 درسینہ ہائے مردم عارف مزار ماست

کلیم الدین احمد میں ایام طفلی ہی سے تنقیدی شعور بیدار تھا، وہ اشعار کے حسن و قبح کے پارکھ تھے۔ الفاظ کی خوبصورتی، معنی کی جاذبیت، ترکیب اور بندشوں کی جمالیات وغیرہ سے وہ اوائل عمر میں ہی واقف ہوگئے تھے۔  وہ خود لکھتے ہیں:

’’اب جومیں سوچتاہوں تو اس وقت رجحان علمیت اور ادبیت کی طرف تھا، فارسی و عربی الفاظ، فارسی ترکیبیں، شان و شوکت، بلند آہنگی کی طرف طبیعت زیادہ مائل تھی،اسی لیے عزیز، عابد، رعب، سیماب، جوش، طپش کی غزلیں دام انتخاب میں آگئی تھیں اس زمانے میں شاعری میں جو دلچسپی ہوتی ہے وہ زیادہ تر لفظی ہوتی ہے...  البتہ یہ بھی ضروری ہے یہ دلچسپی صرف لفظی نہ رہ جائے اور یہ دلچسپی لفظی نہ تھی۔ حسرت، فانی، اصغر کی غزلیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مجھے ’کچھ اور‘ کی بھی تلاش تھی۔ یہ میں نہیں کہتا کہ اس وقت میرا کوئی واضح تنقیدی شعور یا نقطۂ نظر جس کا نتیجہ ’اردو شاعری پر یک نظر‘ ہے۔ لیکن کچھ شعور، دھندلا سا سہی تھا، لیکن کچھ تمیز مبہم سی سہی تھی۔‘‘(ایضاً، ص219)

اس آپ بیتی سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کلیم الدین احمد اردو زبان و ادب کے رموز ونکات سے تو واقف تھے ہی وہ عربی، فارسی اور انگریزی کے دانا بھی تھے۔ انگریزی تو ان کا خاص موضوع تھاجس کی تعلیم انھوں نے بھارت سے لے کر انگلینڈ تک سے حاصل کی تھی، اور پٹنہ یونیورسٹی میں وہ انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر بھی تھے۔

اس خود نوشت میں کلیم الدین احمد نے اپنے بچپن کے حالات، گھر کے ماحول، تعلیم، اسکول و کالج کے چند واقعات، مخصوص اعزہ واحباب، رشتے داروں کے ساتھ ساتھ لڑکپن میں مشغلۂ لہو و لعب کو بھی قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ بہت سارے مواقع پر انھوں نے اپنے والد کی لاہور کالج میں پروفیسر شپ اور ان کی استعداد شاعری کو بھی بیان کیا ہے۔ کلیم الدین احمد نے علامہ اقبال سے اپنے والد کی ملاقات او ر ’درد کی تاثیر‘ پر ایک نظم لکھنے کی درخواست کا ذکر اس انداز میں کیا ہے، گویا کلیم الدین احمد کے والد گرامی شعر گوئی پر فی البدیہہ قدرت رکھتے تھے۔ لکھتے ہیں:

’’ ابا جان لاہور میں تھے اور چھٹیوں میں گھر آتے تھے تو اکثر اقبال کا تذکرہ کیا کرتے تھے اور ان کے اشعار سنایا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ ایک روز میں نے اقبال سے کہا کہ ’تصویر درد‘ تو کھینچی، اب ’درد کی تاثیر‘ پر کچھ لکھیے۔ اقبال نے کہا: اب تم ہی لکھو۔ یہی وجہ تھی کہ تصویر درد کو سامنے رکھ کر انھوں نے ’تاثیردرد‘ لکھی۔ اقبال کا شعر ہے       ؎

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

یہ تصویر درد ہوئی، اب درد کی تاثیر دیکھیے      ؎

زباں تو سر سے پہلے کٹ چکی ناخن سلامت ہیں

دلوں میں نیل ڈالیں یا الہی چٹکیاں میری

ایک اور شعر          ؎

فغان بے صدا میں بھی عجب تاثیر ہوتی ہے

نکل کر آنکھ سے دل کی گریباں گیر ہوتی ہے

(ایضاً، ص112)

اس خود نوشت میں کلیم الدین احمد نے اپنے دادیہال اور نانیہال کا بھی اجمالی طور پر ذکر کیا ہے۔ ان کا دادیہالی خانوادہ خانقاہی تھا اور نانیہالی خانوادہ اہل حدیث۔اس کا اعتراف انھوں نے اسی خودنوشت میں خود کیا ہے۔ کلیم الدین احمد کی تربیت و پرورش نانیہال میں ہوئی تھی، اس لیے ان کے عقائد و مذہب پر بھی  نانیہالی مسلک و عقائد کا اثر نمایاں ہے۔

کلیم الدین احمد کو مفروضات و مسلمات سے سخت بیر تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ مذہب ہویا ادب یا زندگی کے دوسرے مسائل سب میں اپنی راہ آپ نکالنی چاہیے۔ اپنی دانشمندی اور شعور سے کام لینا چاہیے اور کسی کے بنائے ہوئے راستے یا کھینچی ہوئی لکیر کی اتباع نہیں کرنی چاہیے، بلکہ خود اپنی عقل و فراست جو فیصلہ کرے اسی سے صحیح اور غلط کی تمیز کرنی چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم کسی شاعر، نیشنل ہیرو، مذہبی پیشوا کو خدا بنا لیتے ہیں، اس کی ذات کو سارے عیوب سے پاک سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ سب بت پرستی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

’’ صرف اپنی عقل پر بھروسہ کرو، مشہور بزرگ ہستیوں کے قول سے مرعوب نہ ہو۔ ہر چیز کی خود جانچ کرو، کسی فیصلے میں دوسرے کی رائے کا سہارا مت ڈھونڈو۔ اچھے برے کی تمیز آپ کرو۔ جب قرآن و حدیث کو خود سمجھنا واجب ٹھہرا تو پھر شعر و ادب، تاریخ و فلسفہ، اخلاق و سائنس کیا مال ہیں۔ عقل کی آنکھیں کھولو، سنو، پڑھواور جو عقل بتائے وہی سمجھو۔‘‘  (ایضاً، ص 121-133)

اپنی تلاش میں ‘کی پہلی جلدنوحصوں اور چار ضمیموں پر مشتمل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پانچویں حصے کو مصنف نے اپنے مذہب و مسلک کے پرچار کے لیے مختص کردیا ہے۔ اس پورے حصے کو پڑھنے سے کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ’خود نوشت‘ ہے۔ بلکہ اس پورے حصے پر مذہبی و مسلکی عقائد کے پیچیدہ اور مختلف فیہ مسائل پر مبنی کتابچے کا گمان گزرنے لگتا ہے۔

کلیم الدین احمد کے متعلق یہ بہت مشہور ہے کہ انھوں نے ا ردو ادب کو مغربی عینک سے دیکھا ہے اور اردو تنقید و شاعری کو بھی مغربی نظریات کے تحت جانچا اور پرکھا ہے۔ اسی وجہ سے انھیں مغربی ادب کے مقابلے مشرقی ادب بالخصوص اردو ادب کا سرمایہ ادنیٰ اور معمولی نظر آتا ہے۔ اپنی مغرب زدگی کا انھوں نے اعتراف بھی کیا ہے کہ میری طبیعت بچپنے سے ہی مغربی طرز ادب کی طرف مائل تھی اور غزل کے مقابلے نظم کو زیادہ پسند کرتی تھی۔ لکھتے ہیں:

’’ غزل سے متعلق میرا نظریہ لوگوں کو معلوم ہے۔ اور کبھی کبھار لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ یہ مغرب زدگی کا نتیجہ ہے کہ میں غزل کو پس پشت ڈال کر نظم کی مدح سرائی کرنے لگا۔ لیکن اس کو کیا کہیے کہ جس وقت میں نے ’کشکول‘ میں غزلیں بھریں اسی وقت ’سبدگلچیں‘ میں نظمیں بھی رکھیں اور یہ نظمیں روایتی قسم کی نہیں، قصیدہ، مثنوی، مرثیے نہیں بلکہ مغربی طرز کی نظمیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی وقت سے غیر شعوری طور پر غزل کی خامیوں کا احساس ہوچلا تھا۔‘‘ (ایضاً، ص 221)

حاصل کلام یہ کہ کلیم الدین احمد اپنی انتہا پسندی اور مغرب زدگی کے باوجود اب تک کے اردو کے سرفہرست اور نامور ناقدوں میںشمار کیے جاتے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ اور تنقیدی بصیرت کا رنگ ان کی خود نوشت ’اپنی تلاش میں‘  بھی جھلکتا ہے۔ اس کتاب کے بیشتر حصے اور ضمیمے ان کے تنقیدی شعور اور بالغ نظری کی گواہی دیتے ہیں۔ غزل کی تشریح، اشعار فہمی کے مباحث اور ادب کے حسن و قبح کے معیار کے بیانات متعدد صفحات کو محیط ہیں۔اس لیے بعض اوقات ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ خود نوشت نہیں بلکہ مذہبی تنقیدی مباحث پر مبنی کتاب یا رسالہ ہے۔مذہبی اس لیے کہ انھوں نے اس میں وہابی طرزِ فکر کی تحریک، اس کے اغراض و مقاصد اور بانیِ تحریکِ وہابیت در ہند سید احمد شہید کی سوانح کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔

اپنی تلاش میں‘ کی جلد سوم بقیہ دونوں جلدوں سے بہ اعتبار فن خودنوشت زیادہ بہتر ہے۔ اس میں مذہب اور تنقید کی باتیں کہیں نظر نہ آئیں۔ چنانچہ تیسری جلد میں خودنوشت نگار کلیم الدین احمد کے قیام پٹنہ، پٹنہ یونیورسٹی میں مشغلۂ درس وتدریس، دوست و احباب، حالات و واقعات، تحریک آزادی، ہندو مسلم فسادات اور اس کی ہولناکیوں کا ذکر ہے۔خودنوشت جو کہ اپنے موضوع کی روداد حیات ہوتی ہے، یعنی خودنوشت کا موضوع خود’خودنوشت نگار‘ کی زندگی ہوتی ہے اور اس کے ہر واقعے کا کلی یا جزوی تعلق موضوع سے ہی ہوتاہے، سو اس اعتبار سے تیسر ی جلد اپنے فن پر پورا اترتی ہے۔ اس میں مفکرانہ، فلسفیانہ، تنقیدی، مذہبی اور رازہائے حیات پر نہایت دلچسپ اور علمی بحثیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔

حوالہ جات

  1.      اردو تنقید پر ایک نظر: کلیم الدین احمد،بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ، بہار1983
  2.       اردو میں خودنوشت سوانح: فن و تجزیہ، وہاج الدین علوی، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، دہلی1989
  3.       اس آباد خرابے میں: اخترالایمان، اردو اکادمی، دہلی 
  4.       کلیم الدین احمد: شخصیت اور تنقید نگار: زیبا محمود، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی2012

 

Md.Shamsher Ali (Urdu Translator)

Block Office Baisa, Post- Rauta,

Distt- Purnea- 854315 (Bihar)

کلیم الدین احمد کے انتہا پسندانہ، استہزائیہ، مضحکہ خیز اور طنزآمیز جملوں میں شخصیت کشی کے عناصر غالب رہتے ہیں۔ ان کا مطالعہ نہایت وسیع اور نظر گہری ہے۔ ان کی تنقید ادب کو ازسرنو سمجھنے اور مسلمات پر غور وفکر کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

کلیم الدین احمدنے جب تنقید نگاری شروع کی تو اس وقت اردو تنقید کے کلاسیکی ناقدین (مولانا محمد حسین آزاد، سرسید احمدخاں، خواجہ الطاف حسین حالی،امدادامام اثر اور علامہ شبلی نعمانی) کادور گزرچکا تھااور ترقی پسند ادیبوں اور نقادوں کادور تھا۔تنقید اب تک ادب کے لیے کئی اصول و ضوابط طے کرچکی تھی، مفروضات و مسلمات قائم کیے جاچکے تھے، معیاری اور غیر معیاری اور تعین قدر کے مسائل بھی لگ بھگ طے کیے جا چکے تھے۔اسی اثنا میں جہان تنقید میں ایک گھن گرج والی، مضبوط اور منفرد آواز گونجتی ہے۔ اس آواز کا لب و لہجہ سخت، منفرد، مغرب زدہ، نہایت جدت آمیزاور معنی خیز تھا۔اس آواز میں انتہاپسندی کے علاوہ معروضیت اور بے لاگ انداز بھی تھا۔

کلیم الدین احمدنے جہاں قدیم و جدید تنقیدی سرمایے پر نظرڈالی ہے وہیں انھوں نے نقادوں اور ادیبوں پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ محمد حسین آزاد، خواجہ الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، مولوی عبدالحق، آل احمدسرور،سید احتشام حسین،اختر حسین رائے پوری، مجنوں گورکھپوری اور رشید احمد صدیقی جیسے ادیب و نقاد کو بھی اپنے تنقیدی نظریات سے پرکھا اور اپنے خیالات کا بے لاگ اظہار کیا ہے۔

میرے مضمون کا موضوع کلیم الدین احمد کی خودنوشت ’اپنی تلاش میں‘ ہے۔ یہ آپ بیتی تین جلدوں میں ہے۔ تینوں جلدوں کی اشاعت مختلف وقتوں میں ہوئی۔ پہلی جلد ’کلچرل اکیڈمی،گیا،بہار‘ سے 1975 میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔ دوسری وتیسری جلدیں بالترتیب 1987 میں ’بہاراردو اکیڈمی،پٹنہ‘ اور 1982 میں ’دائرۂ ادب،پٹنہ‘ سے شائع ہوئیں۔

اس خودنوشت کا آغاز ہی فلسفیانہ اور تنقیدی مباحث کے انداز میں ہوتا ہے۔کلیم الدین احمدچونکہ بڑے نقاد ہیں اس لیے ان کی نقادی کا رنگ ان کی خودنوشت کی ابتدا سے ہی جھلکنے لگتا ہے۔انھیں صرف اپنی پیدائش کا دن اور تاریخ لکھنی تھی سو وہ لکھ دیتے ہیں کہ ’’ میری پیدائش کا دن منگل، 15ستمبر 1908 اور وقت ساڑھے چھ بجے شام ہے۔‘‘  اس اقتباس سے تاریخ پیدائش اور وقت واضح ہوجاتے ہیں،مگر کلیم الدین احمد اس پر بس نہیں کرتے، بلکہ اس کے بعد وجود ہستی، اس کا فلسفہ اور حکمت، خالق ومخلوق اور تخلیق جہاں وغیرہ کی بحث کرنے لگتے ہیں۔جس کی وجہ سے قاری کی دلچسپی کم ہونے لگتی ہے اور روداد حیات جو کہ ’آپ بیتی‘ کا خاص موضوع ہوتا ہے اس سے بھی کم واقفیت ہوپاتی ہے۔مثلاً فلسفیانہ مباحث پرمبنی یہ عبارت ملاحظہ کیجیے:

’’تضاد تو حقیقت ہے، سوال یہ ہے کہ ’اپنی حقیقت‘ تک کیسے پہنچاجائے۔اسے کیسے آئینہ دکھایا جائے۔ آئینہ تو اپنی آنکھوں کا ہے،اس آئینہ پر وثوق کیسے ہو۔دوسری آنکھوں کے آئینے میں دیکھاجائے تویہاں بھی دشواری ہے ان آئینوں میں بھی عکس بدل اور بگڑجاتا ہے اور نامۂ اعمال تومل نہیں سکتا جس میں شاید صحیح حلیہ ہو۔ بحرخیالات کاپانی گہرا سہی لیکن اسی کی تہ کو ٹٹولناضروری ہے۔آئیے دیکھیں کیا کیا چیزیں نکلتی ہیں۔‘‘ (اپنی تلاش میں،کلچرل اکیڈمی، گیا، بہار  1975،ص3)

کلیم الدین احمدکو زمانۂ اسکول سے ہی اردو اور فارسی شعروسخن اور شعر فہمی کا شوق تھا۔اتفاق سے گھر کا بھی ماحول علمی وادبی تھا، والد عظیم الدین احمد لاہور کالج بعدہٗ پٹنہ کالج میں عربی وفارسی کے پروفیسر تھے، اس لیے عربی وفارسی تو انھوں نے اپنے والد سے ہی سیکھ لی تھی اور کم و بیش قریب کے مکتب و مدرسہ سے بھی۔اس لیے سخن فہمی میں اچھی استعدادبہم پہنچالی تھی۔ شعروسخن کے حسن وقبح اور پسندوناپسند کی تمیز انھیں لڑکپن ہی سے ہونے لگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اخبار، رسالے یا مجموعے میں انھیں کوئی غزل یا نظم اچھی لگتی تو وہ اسے لکھ لیا کرتے تھے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ وہ نظمیں اور غزلیں جن کا انتخاب کیا کرتے تھے صرف اردو کی نہیں ہوتیں، بلکہ فارسی کی بھی ہواکرتی تھیں۔ نظم اور غزل کے انتخاب کے لیے انھوں نے دو الگ الگ کاپیاں بنارکھیں تھیں،جس کاپی میں غزلیں لکھا کرتے تھے اس کا نام ’کشکول‘ تھا۔ جس میں تقریباً 230 غزلیں قدیم وجدید ہردوطرح کے شعرا کی تھیںاور جس کاپی میں نظمیں لکھا کرتے تھے اس کا نام ’سبدگلچیں‘ رکھا تھا، جو 125منتخب نظموں کا مجموعہ تھی۔ اس کا ذکر انھوں نے اس خودنوشت کے آٹھویں حصے میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’میری عادت تھی کہ کسی اخبار، رسالے یا مجموعے میں کوئی غزل دیکھتا یا کوئی نظم دیکھتا اور مجھے اچھی لگتی تو اسے کسی کاغذ کے ٹکڑے پر نقل کرلیتا۔ اس طرح میرے پاس بہت سی دھجیاں اور پرزے جمع ہوگئے تھے۔ میں اسکول میں شاید سکنڈکلاس میں تھا تو میں نے سوچا ان غزلوں اور نظموں کو باضابطہ جمع کیا جائے۔ چنانچہ میں نے کچھ فل اسکیپ کاغذ لے کر دوکاپیاں بنائیں، ایک کاپی میں غزلیں لکھیں اور دوسری میں نظمیں۔ پہلی کاپی کا عنوان’کشکول‘ رکھا اور دوسری کا ’سبدگلچیں‘ اس کے بعد مجھے جو غزلیں یا نظمیں پسند آتیں انھیں دوکاپیوں میں لکھ لیتا۔‘‘  (ایضاً، ص200)

اسی حصے میں انھوں نے اپنے لڑکپن کی پسند کے اردو وفارسی کے چند متفرق اشعار اور چند مکمل غزلیں بھی درج کی ہیں۔ ان کے فارسی و اردو کے چند منتخب اشعار بطور نمونہ پیش ہیں، تاکہ دوسرے درجے میں پڑھنے والے کلیم الدین احمد کی شعر فہمی اور حسن انتخاب کا اندازہ لگایاجاسکے   ؎

بخوبی جانچ کرلے جنس کی بازار ہستی میں

فریب ان جو فروشوں سے نہ کھا گندم نمائی کا

مشکل نہیں کہ گرمیِ محفل نہ بن سکوں

لیکن میں اپنے رنگ طبیعت کو کیا کروں

نہیں ڈرتے زمانہ جتناچاہے امتحاں کرلے

کھرے ہوتے ہیں جووہ آگ میں گرکر نکھرتے ہیں

فارسی اشعار بھی ملاحظہ کیجیے          ؎

ہمت بلند دار کہ نزد خدا وخلق

باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو

ہرگزنمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق

ثبت است برجریدۂ عالم دوام ما

بعداز وفات تربت ما درزمیں مجوے

 درسینہ ہائے مردم عارف مزار ماست

کلیم الدین احمد میں ایام طفلی ہی سے تنقیدی شعور بیدار تھا، وہ اشعار کے حسن و قبح کے پارکھ تھے۔ الفاظ کی خوبصورتی، معنی کی جاذبیت، ترکیب اور بندشوں کی جمالیات وغیرہ سے وہ اوائل عمر میں ہی واقف ہوگئے تھے۔  وہ خود لکھتے ہیں:

’’اب جومیں سوچتاہوں تو اس وقت رجحان علمیت اور ادبیت کی طرف تھا، فارسی و عربی الفاظ، فارسی ترکیبیں، شان و شوکت، بلند آہنگی کی طرف طبیعت زیادہ مائل تھی،اسی لیے عزیز، عابد، رعب، سیماب، جوش، طپش کی غزلیں دام انتخاب میں آگئی تھیں اس زمانے میں شاعری میں جو دلچسپی ہوتی ہے وہ زیادہ تر لفظی ہوتی ہے...  البتہ یہ بھی ضروری ہے یہ دلچسپی صرف لفظی نہ رہ جائے اور یہ دلچسپی لفظی نہ تھی۔ حسرت، فانی، اصغر کی غزلیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مجھے ’کچھ اور‘ کی بھی تلاش تھی۔ یہ میں نہیں کہتا کہ اس وقت میرا کوئی واضح تنقیدی شعور یا نقطۂ نظر جس کا نتیجہ ’اردو شاعری پر یک نظر‘ ہے۔ لیکن کچھ شعور، دھندلا سا سہی تھا، لیکن کچھ تمیز مبہم سی سہی تھی۔‘‘(ایضاً، ص219)

اس آپ بیتی سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کلیم الدین احمد اردو زبان و ادب کے رموز ونکات سے تو واقف تھے ہی وہ عربی، فارسی اور انگریزی کے دانا بھی تھے۔ انگریزی تو ان کا خاص موضوع تھاجس کی تعلیم انھوں نے بھارت سے لے کر انگلینڈ تک سے حاصل کی تھی، اور پٹنہ یونیورسٹی میں وہ انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر بھی تھے۔

اس خود نوشت میں کلیم الدین احمد نے اپنے بچپن کے حالات، گھر کے ماحول، تعلیم، اسکول و کالج کے چند واقعات، مخصوص اعزہ واحباب، رشتے داروں کے ساتھ ساتھ لڑکپن میں مشغلۂ لہو و لعب کو بھی قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ بہت سارے مواقع پر انھوں نے اپنے والد کی لاہور کالج میں پروفیسر شپ اور ان کی استعداد شاعری کو بھی بیان کیا ہے۔ کلیم الدین احمد نے علامہ اقبال سے اپنے والد کی ملاقات او ر ’درد کی تاثیر‘ پر ایک نظم لکھنے کی درخواست کا ذکر اس انداز میں کیا ہے، گویا کلیم الدین احمد کے والد گرامی شعر گوئی پر فی البدیہہ قدرت رکھتے تھے۔ لکھتے ہیں:

’’ ابا جان لاہور میں تھے اور چھٹیوں میں گھر آتے تھے تو اکثر اقبال کا تذکرہ کیا کرتے تھے اور ان کے اشعار سنایا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ ایک روز میں نے اقبال سے کہا کہ ’تصویر درد‘ تو کھینچی، اب ’درد کی تاثیر‘ پر کچھ لکھیے۔ اقبال نے کہا: اب تم ہی لکھو۔ یہی وجہ تھی کہ تصویر درد کو سامنے رکھ کر انھوں نے ’تاثیردرد‘ لکھی۔ اقبال کا شعر ہے       ؎

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

یہ تصویر درد ہوئی، اب درد کی تاثیر دیکھیے      ؎

زباں تو سر سے پہلے کٹ چکی ناخن سلامت ہیں

دلوں میں نیل ڈالیں یا الہی چٹکیاں میری

ایک اور شعر          ؎

فغان بے صدا میں بھی عجب تاثیر ہوتی ہے

نکل کر آنکھ سے دل کی گریباں گیر ہوتی ہے

(ایضاً، ص112)

اس خود نوشت میں کلیم الدین احمد نے اپنے دادیہال اور نانیہال کا بھی اجمالی طور پر ذکر کیا ہے۔ ان کا دادیہالی خانوادہ خانقاہی تھا اور نانیہالی خانوادہ اہل حدیث۔اس کا اعتراف انھوں نے اسی خودنوشت میں خود کیا ہے۔ کلیم الدین احمد کی تربیت و پرورش نانیہال میں ہوئی تھی، اس لیے ان کے عقائد و مذہب پر بھی  نانیہالی مسلک و عقائد کا اثر نمایاں ہے۔

کلیم الدین احمد کو مفروضات و مسلمات سے سخت بیر تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ مذہب ہویا ادب یا زندگی کے دوسرے مسائل سب میں اپنی راہ آپ نکالنی چاہیے۔ اپنی دانشمندی اور شعور سے کام لینا چاہیے اور کسی کے بنائے ہوئے راستے یا کھینچی ہوئی لکیر کی اتباع نہیں کرنی چاہیے، بلکہ خود اپنی عقل و فراست جو فیصلہ کرے اسی سے صحیح اور غلط کی تمیز کرنی چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم کسی شاعر، نیشنل ہیرو، مذہبی پیشوا کو خدا بنا لیتے ہیں، اس کی ذات کو سارے عیوب سے پاک سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ سب بت پرستی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

’’ صرف اپنی عقل پر بھروسہ کرو، مشہور بزرگ ہستیوں کے قول سے مرعوب نہ ہو۔ ہر چیز کی خود جانچ کرو، کسی فیصلے میں دوسرے کی رائے کا سہارا مت ڈھونڈو۔ اچھے برے کی تمیز آپ کرو۔ جب قرآن و حدیث کو خود سمجھنا واجب ٹھہرا تو پھر شعر و ادب، تاریخ و فلسفہ، اخلاق و سائنس کیا مال ہیں۔ عقل کی آنکھیں کھولو، سنو، پڑھواور جو عقل بتائے وہی سمجھو۔‘‘  (ایضاً، ص 121-133)

اپنی تلاش میں ‘کی پہلی جلدنوحصوں اور چار ضمیموں پر مشتمل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پانچویں حصے کو مصنف نے اپنے مذہب و مسلک کے پرچار کے لیے مختص کردیا ہے۔ اس پورے حصے کو پڑھنے سے کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ’خود نوشت‘ ہے۔ بلکہ اس پورے حصے پر مذہبی و مسلکی عقائد کے پیچیدہ اور مختلف فیہ مسائل پر مبنی کتابچے کا گمان گزرنے لگتا ہے۔

کلیم الدین احمد کے متعلق یہ بہت مشہور ہے کہ انھوں نے ا ردو ادب کو مغربی عینک سے دیکھا ہے اور اردو تنقید و شاعری کو بھی مغربی نظریات کے تحت جانچا اور پرکھا ہے۔ اسی وجہ سے انھیں مغربی ادب کے مقابلے مشرقی ادب بالخصوص اردو ادب کا سرمایہ ادنیٰ اور معمولی نظر آتا ہے۔ اپنی مغرب زدگی کا انھوں نے اعتراف بھی کیا ہے کہ میری طبیعت بچپنے سے ہی مغربی طرز ادب کی طرف مائل تھی اور غزل کے مقابلے نظم کو زیادہ پسند کرتی تھی۔ لکھتے ہیں:

’’ غزل سے متعلق میرا نظریہ لوگوں کو معلوم ہے۔ اور کبھی کبھار لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ یہ مغرب زدگی کا نتیجہ ہے کہ میں غزل کو پس پشت ڈال کر نظم کی مدح سرائی کرنے لگا۔ لیکن اس کو کیا کہیے کہ جس وقت میں نے ’کشکول‘ میں غزلیں بھریں اسی وقت ’سبدگلچیں‘ میں نظمیں بھی رکھیں اور یہ نظمیں روایتی قسم کی نہیں، قصیدہ، مثنوی، مرثیے نہیں بلکہ مغربی طرز کی نظمیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی وقت سے غیر شعوری طور پر غزل کی خامیوں کا احساس ہوچلا تھا۔‘‘ (ایضاً، ص 221)

حاصل کلام یہ کہ کلیم الدین احمد اپنی انتہا پسندی اور مغرب زدگی کے باوجود اب تک کے اردو کے سرفہرست اور نامور ناقدوں میںشمار کیے جاتے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ اور تنقیدی بصیرت کا رنگ ان کی خود نوشت ’اپنی تلاش میں‘  بھی جھلکتا ہے۔ اس کتاب کے بیشتر حصے اور ضمیمے ان کے تنقیدی شعور اور بالغ نظری کی گواہی دیتے ہیں۔ غزل کی تشریح، اشعار فہمی کے مباحث اور ادب کے حسن و قبح کے معیار کے بیانات متعدد صفحات کو محیط ہیں۔اس لیے بعض اوقات ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ خود نوشت نہیں بلکہ مذہبی تنقیدی مباحث پر مبنی کتاب یا رسالہ ہے۔مذہبی اس لیے کہ انھوں نے اس میں وہابی طرزِ فکر کی تحریک، اس کے اغراض و مقاصد اور بانیِ تحریکِ وہابیت در ہند سید احمد شہید کی سوانح کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔

اپنی تلاش میں‘ کی جلد سوم بقیہ دونوں جلدوں سے بہ اعتبار فن خودنوشت زیادہ بہتر ہے۔ اس میں مذہب اور تنقید کی باتیں کہیں نظر نہ آئیں۔ چنانچہ تیسری جلد میں خودنوشت نگار کلیم الدین احمد کے قیام پٹنہ، پٹنہ یونیورسٹی میں مشغلۂ درس وتدریس، دوست و احباب، حالات و واقعات، تحریک آزادی، ہندو مسلم فسادات اور اس کی ہولناکیوں کا ذکر ہے۔خودنوشت جو کہ اپنے موضوع کی روداد حیات ہوتی ہے، یعنی خودنوشت کا موضوع خود’خودنوشت نگار‘ کی زندگی ہوتی ہے اور اس کے ہر واقعے کا کلی یا جزوی تعلق موضوع سے ہی ہوتاہے، سو اس اعتبار سے تیسر ی جلد اپنے فن پر پورا اترتی ہے۔ اس میں مفکرانہ، فلسفیانہ، تنقیدی، مذہبی اور رازہائے حیات پر نہایت دلچسپ اور علمی بحثیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔

حوالہ جات

.1     اردو تنقید پر ایک نظر: کلیم الدین احمد،بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ، بہار1983

2      اردو میں خودنوشت سوانح: فن و تجزیہ، وہاج الدین علوی، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، دہلی1989

3      اس آباد خرابے میں: اخترالایمان، اردو اکادمی، دہلی 

4      کلیم الدین احمد: شخصیت اور تنقید نگار: زیبا محمود، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی2012

 

Md.Shamsher Ali (Urdu Translator)

Block Office Baisa, Post- Rauta,

Distt- Purnea- 854315 (Bihar)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں