اردوادب کی تاریخ میں گورکھپور کوایک مرکز کے طورپر دیکھا گیا ہے۔ 1720میں جب
سعادت خاں کواودھ کی صوبیداری ملی تو گورکھپور’اودھ سلطنت‘ کے ماتحت ہوگیا اور نومبر1801تک
اس کا حصہ رہا۔ نواب شجاع الدولہ اورآصف الدولہ کے عہد میںلکھنؤ اور فیض آباد کو
ادبی مرکزیت حاصل رہی مگر اسی دور میں گورکھپور بھی اردو کے منظرنامے پر ابھرنا شروع
ہوا اور 1857 آتے آتے اردو شعر وادب میںاسے بھی ایک ادبی مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی
تھی۔
ضلع بستی ایک عرصے تک گورکھپور کاحصہ رہاہے۔ 6 مئی 1865 کو اسے ایک الگ ضلعے کا درجہ دیا گیاتھا
اوراب یہ ضلع تین حصوں میں منقسم ہو چکا ہے۔عہد قدیم سے ہی اس ضلعے کی اپنی تہذیبی
و ثقافتی شناخت رہی ہے۔گوتم بدھ کا تعلق اسی سر زمین سے رہاہے۔یہاں کا مشہور قصبہ
'مگہر'معروف سنت اور شاعر کبیر کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں رہا
ہے، کبیرکا مقبرہ بھی یہیں پر ہے۔ 5ستمبر1997میں
خلیل آباد کو ہیڈ کوارٹر کا درجہ دے کر ’سنت کبیرنگر‘ کے نام سے ایک نیاضلع بنا دیا
گیا، جومگہر سے صرف4کلومیٹرکی دوری پرواقع ہے۔ اس سے قبل22 دسمبر 1988کو بستی سے کاٹ
کر ضلع سدھارتھ نگر بنایاگیا تھا۔
بستی کی سر زمین ابتدائی دور سے ہی اردو زبان و ادب کا گہوارہ رہی ہے، بڑے بڑے
ادباوشعرا اس کی خاک سے اٹھے اوردنیا میں نام پیداکرگئے۔اس ضلعے کی اہمیت کے حوالے
سے ڈاکٹر اختر بستوی لکھتے ہیں:
’’بستی، ہندوستان کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش کا ایک بہت بڑا
ضلع ہے۔ اس ضلعے کا رقبہ بہت وسیع اور آبادی بہت زیادہ ہے۔ یہ ضلع معاشی طور پر پس
ماندہ ہے لیکن سیاست، مذہب اور علم وادب کے میدانوں میں مختلف ادوار میں یہاں کی متعدد
شخصیتوں کی کارکردگی ناقابل فراموش رہی ہے۔ ملک کی جد وجہد آزادی کے زمانے میں اس
ضلعے کی کئی ہستیوں نے زبردست قربانیاں دے کر اور سخت ترین صعوبتیں جھیل کر مادرِ وطن
کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے میں انتہائی اہم رول ادا کیا اورآزادی کے بعد یہاں
کے کئی اشخاص ملکی سیاست کے افق پر چاند اور سورج بن کر چمکے۔‘‘
)تذکرہ علمائے بستی(جلد اول)، صفحہ: 13،ایڈیشن:جون1988)
شعر و ادب کے حوالے سے یہ ضلع اپنی شاندار روایت رکھتا ہے۔ شہرتوشہریہاں کے
قصبات بھی شعر و ادب کے فروغ میں پیچھے نہیںہیں۔ متحدہ ضلع بستی کا قصبہ ہلور اپنی ادبی سر گرمیوںکے سبب اہل ادب
کے درمیان نمایاں اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں کے شعرا وادبا کے علاوہ یہاں کی تنظیمیں اور
انجمنیں اپنے اپنے طور پر شعر و ادب کی شمع روشن کرنے میں مصروف ہیں۔اس کے علاوہ مگہر،
دریاباد، مہنداول، خلیل آباد، بیارہ، لہرسن بازار، شہرت گڑھ، سمریاواں، لہرولی، اٹوابازار،
بانسی، مجھوا میر وغیرہ میں علم و ادب کے حوالے سے کافی سرگرمی دکھائی دیتی ہے۔
ضلع بستی میں ادبی اور شعری روایت کاآغاز کم وبیش ایک صدی سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔اس علاقے کے ادبی پس منظرپر
نظر ڈالتے ہیں تو ایسی بے شمارشخصیتیں ہماری نگاہوںکے سامنے آجاتی ہیں،جنھوں نے شعر
و ادب کی خدمت میں اپنی عمر کابیشترحصہ صرف کیا اور اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے اہل
ادب کونہ صرف اپنی جانب متوجہ کیا بلکہ اپنی تخلیقات سے اردوادب میںگراں قدر اضافے
بھی کیے۔ پرانے اخبارات ورسائل اور انجمنوں کی قرار دادوں کے حوالے سے یہاں کا جو ادبی
منظرنامہ سامنے آتا ہے، اس سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ آزادی سے پہلے بڑے بڑے شاعر اس
علاقے میں گزرے ہیں۔ اس تعلق سے مولاناجعفرعلی نقوی (1288-1210 ہجری) کانام سرفہرست
ہے۔ان کاتعلق مشرقی اترپردیش ضلع سدھارتھ نگر کے مشہورگاؤں مجھوامیر سے تھا۔ موصوف
2جنوری 1804کوپیدا ہوئے۔ان کا سلسلۂ نسب 35 پشتوں پرامام محمدباقر سے جاکرمل جاتا
ہے۔ سیدجلال الدین کدرانی نام کے ایک بزرگ اصفہان سے دہلی کے راستے اجودھیا آکر مقیم
ہوگئے تھے، موصوف کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔
مولاناایک جیدعالم دین، بہترین قلم کار، عظیم مبلغ اورہمہ جہت شخصیت کے مالک
تھے۔انھیں نثرنگاری میں اچھی دسترس تھی۔ مولانا کے بیشتر ایام اصلاح معاشرہ اور ملک
وملت کی خدمت میں صرف ہوئے۔ انھیں دوسری طرف توجہ دینے کا بہت کم موقع ملا۔ تصنیف وتالیف
کی جانب بھی وہ کماحقہ دھیان نہیں دے سکے، جوکچھ انھوں نے اپناعلمی و ادبی سرمایہ چھوڑا
تھا، وہ بھی حوادث زمانہ کا شکارہوگیا۔کچھ کوتوانگریزوںنے جلادیا،جوکچھ بچا تھا وہ
بھی محفوظ نہیں رکھاجاسکا، البتہ ان کی کچھ تصانیف اب بھی محفوظ ہیں،جواس طرح ہیں:
’منظورۃ السعداء فی احوال الغزاۃ والشہداء‘ جس کا تاریخی نام
’تواریخ احمدی‘ ہے۔ یہ ایک ضخیم تصنیف ہے اورشیداحمدشہیدؒ کی تحریک سے متعلق سب سے
مستندکتاب تصور کی جاتی ہے۔ مگرافسوس اس کا کوئی نسخہ دستیاب نہیں ہے۔البتہ مخطوطے
کی شکل میں ایک کاپی پاکستان کی پنجاب یونیورسٹی میں موجود ہے اور اس کاایک عکس (فوٹوکاپی)
ندوۃ العلما (لکھنؤ) کی علامہ شبلی نعمانی لائبریری میں بھی دستیاب ہے۔ان کی ایک اہم
تصنیف اردو میں ہے جس کا نام ’وصایا‘ہے اورمحض 16صفحات پرمشتمل ہے۔ 1361ھ میں کتابچے
کی شکل میں امداد الغربا (سہارنپور) سے شائع ہوچکی ہے۔ ’رسالہ دربیان حلت وحرمت جانوران
قسم سائبہ وبحیرہ‘بھی ان کی ایک اہم تصنیف ہے۔ اردو زبان میں لکھی گئی یہ کتاب
1317ھ میں ’جواب السائلین‘ میں ضمیمے کے طورپر مطبع مجتبائی (لکھنؤ) سے شائع ہوچکی
ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خطوط کاایک مجموعہ بھی حوادث زمانہ سے محفوظ رہ گیا ہے۔
مولانا سے متعلق یہ بھی مشہورہے کہ مدرسہ ہدایت المسلمین (کرہی)انھوںنے ہی قائم
کیاتھا۔اسی بات کا تذکرہ غلام یحییٰ انجم نے
اس طرح کیا ہے کہ ’کہاجاتاہے کہ کرہی کا مدرسہ ہدایت المسلمین موصوف ہی کا قائم کردہ
ہے جو دارالعلوم دیوبند سے قدیم ہے۔‘‘
)تذکرئہ علمائے بستی جلداول،ص:24،جون1988)
آرزو بستوی کا نام بھی کافی اہم ہے۔ موصو ف ہندوستان کی پہلی جدوجہد آزادی
سے قبل یعنی1862 میںپیداہوئے۔ وہ ایک صاحب طرزادیب وشاعرتھے۔ غزل، نظم اور قطعات وغیرہ
میں انھوں نے طبع آزمائی کی مگر غزلیہ شاعری میں انہیں ایک خاص امتیاز حاصل تھا۔ آرزو
بستوی کو زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل تھا۔وہ مشاعروں اورشعری نشستوںمیں برابر شرکت
کرتے تھے اور ترنم میں کلام سنایا کرتے تھے۔ ان کا شعردیکھیں،جس سے ان کی زبان وبیان
پرقدرت اور پیرایۂ اظہار کی ندرت کااندازہ کیاجاسکتاہے ؎
بھول سکے گا کون اسے اب یادوں کی تنہائی میں
چھوڑ گیا جو نغمۂ شب کو غزلوں کی رعنائی میں
آزادی سے قبل پریم چند کاقیام بھی تقریباًڈھائی سال تک بستی میںرہا،یہاں وہ
اسکول میں سب ڈپٹی انسپکٹر (مدارس) کے طورپر تعینات ہوئے مگر بیماری کی وجہ سے زیادہ
دورہ نہ کرپانے کے سبب مدرسی قبول کرلی اورپھر 1915میں اسسٹنٹ ٹیچرہوگئے اوراسی عہدے
پررہتے ہوئے ان کا گورکھپورٹرانسفربھی ہوا۔ بستی میں پریم چند کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹرقمررئیس لکھتے ہیں:
’’۔۔۔
مہوبہ میں وہ بیمار ہوگئے۔چنانچہ 1914میں تبدیلی کی درخواست دی۔ خیال تویہ تھا کہ کوئی
اچھا مقام ملے گا۔ لیکن تبدیلی بستی میں ہوئی جہاں جولائی 1914 سے ڈھائی سال تک برابربستی
کے اسکول میں رہے۔ پہلے سب ڈپٹی انسپکٹر مدارس رہے پھر جب مسلسل دوروں کا بار برداشت
نہ ہوسکا اور صحت خراب رہی تومجبورہوکر پھرمدرسی پرلوٹے اور جولائی 1915میں گورنمنٹ
اسکول بستی کے اسسٹنٹ ٹیچرہوگئے۔ یہاں سے اگست 1918 میں نارمل اسکول گورکھپور کے اسسٹنٹ
ٹیچر مقرر ہوکر بھیجے گئے۔‘‘
(منشی پریم چند:شخصیت اور کارنامے، مرتبہ: ڈاکٹر قمر رئیس، ص:21-22، ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ،ایڈیشن1983)
پریم چند نے ایف اے کا ایگزام بھی بستی کے عرصۂ قیام کے دوران ہی پاس کیا تھا۔موصوف
کی اس وقت کی زندگی پرروشنی ڈالتے ہوئے پریم چند کی شریک حیات شیورانی دیوی اپنی کتاب
میں لکھتی ہیں:
’’بستی کے قیام کے دوران 1914میں انھوںنے پرائیویٹ ایف اے بھی
پاس کیا۔ جب وہ پرائیویٹ پڑھ رہے تھے، تو ان کے سرہانے سلائی، لالٹین،کتاب رکھی رہتی
تھی۔ کبھی کبھی میں چار پائی سے ہی انھیں آواز دے دیا کرتی تھی کہ اٹھنے کا وقت ہو
گیا ہے۔ 5 بجے تک آپ پڑھتے رہتے تھے۔ 5بجے اٹھ کر پاخانے جاتے، ہاتھ منہ د ھوتے اور
اس وقت جو کچھ ملتا،اس کا ناشتہ کر لیتے۔ یہی ان کے روز کے کام تھے۔ اس کے بعد 6 بجتے
بجتے پھر اپنے کمرے میں کہانیاں اور دوسری چیزیں لکھتے۔ 9 بجے تک وہ ادب کی سیوا میں
لگے رہتے تھے۔ بعد میں بیت الخلا جانا، نہانا،کھانا ہوتا۔ پھر کپڑے بدل کر اسکول جاتے۔
بستی میں اسکول جاتے تو یکے سے جاتے تھے۔ پھر لوٹتے تھے پیدل۔ روزانہ دو آنے مجھ سے
کرائے کے لیے لیتے تھے۔ لوٹتے ہوئے ترکاری وغیرہ خود ادھر ہی سے لیتے آتے۔ ساڑھے3
بجے گھر پہنچتے، کبھی 4 بھی بج جاتے تھے۔ گرہستی کا کام میرے کرنے پر بھی کچھ نہ کچھ
رہ ہی جاتا۔ 4 بجے آتے ہی کچھ ناشتہ کرتے۔ اس کے بعد 5تک گپ شپ کرتے۔ پھر 6 بجے سے
لے کر8 تک کچھ نہ کچھ ادب کی خدمت کرتے۔‘‘
(پریم چند گھر میں: شیورانی دیوی، ص:91، ایڈیشن:2007)
آزادی سے قبل ضلع بستی میں اردوزبان وادب کی خدمت انجام دینے والوں میں ایک
اہم نام احمد حسن خان احسن کاہے۔گورکھپور کے ادبی حلقوں میںشہرت رکھنے والے احمرگورکھپوری
ان ہی کے فرزندہیں۔ ان کے اجداد کا تعلق افغانستان کے قبیلہ یوسف زئی سے تھا،جو دہلی
آکر آباد ہوگیاتھا پھر شاہ جہاں کے عہدمیں یہ خاندان پٹنہ گیااور پھروہاں سے گورکھپور
آگیا۔
احمد حسن خاں احسن ضلع بستی میں محکمہ پولیس میں محرر تھے۔مختلف تھانوں اور
پولیس چوکیوں میں ان کا وقت گزرا۔ احسن صاحب غزل گو شاعرتھے مگر’خمسہ‘ کہنے پر بھی
انھیںخاصی مہارت تھی۔پہلے عجیب گورکھپوری سے اصلاح لیتے تھے، بعد میں قاصر گورکھپوری
کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہو گئے۔1952 میں گورکھپور میں انتقال فرمایا۔ نمونۂ کلام
درج ذیل ہے ؎
پتہ ہرگز نہ اس گل کا ملا پوچھا جو گلشن میں
کلی سے، پھولوں سے، شمشاد سے، سر و صنوبر سے
آہ سے کالا ہوا اب جل کے ہو جائے گا خاک
دل جلوں سے دون کی پھر آسماں لینے لگا
نہیں نہیں کا شبِ وصل میں شمار نہیں
پچاس ساٹھ نہیں، سو نہیں، ہزار نہیں
میں لاکھ ترکِ محبت کا قصد کرتا ہوں
غضب تو یہ ہے کہ اس دل پہ اختیار نہیں
(تاریخ ادبیات گورکھپور: ڈاکٹرسلام سندیلوی، ص:116، اشاعت
دوم:2023)
آزادی سے قبل اردوزبان وادب کی خدمت کرنے والوں میں ایک نمایاں نام قاضی عدیل
عباسی کا بھی ہے۔ وہ ایک کامیاب سیا ست داں، بہترین ادیب اور اپنے عہد کے مشہور صحافی
تھے۔ قاضی عدیل عباسی تحصیل ڈومریا گنج کے گاؤں ’بیارا‘ کے ایک معزز و علمی گھرانے
میں 13 مارچ 1898 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام قاضی محمد بسم اللہ عباسی تھا۔وہ
شاعری کرتے تھے اور عاصی تخلص کرتے تھے۔قاضی صاحب کی گوناگوں خوبیوں پرروشنی ڈالتے
ہوئے ڈاکٹرمسعودالحسن عثمانی لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ادب
وشاعری، زبان وتہذیب، سماجیات، نفسیات، معاشیات، ملکی اور عالمی تاریخ، تاریخ اسلام،
تاریخ مذاہب، تاریخ عالم اور تاریخ سیاست، یہ سب ان کے پسندیدہ موضوعات تھے، جن کو
پڑھا بھی خوب اور جن پرلکھا بھی خوب۔ وہ بنیادی طورپر صحافی تھے۔ تحریک آزادی میں
وہ صحافت ہی کے ذریعے داخل ہوئے تھے۔ صحافت انھیں عمر بھر عزیز رہی۔ مدینہ اورزمیندار
کے بعد مسلم یونیورسٹی سے فارغ ہوکر وکالت اور عملی سیاست میں داخل ہوئے اور دونوں
اخبارات سے رابطہ رہا، وہ روز اداریہ لکھ کر بھیج دیتے تھے۔ وہاں سے جو یافت ہوتی تھی
اس سے صحافتی ذوق کی تسکین اور ضروریات کی تکمیل ہوجاتی تھی۔‘‘
(تحریر’بے عدیل‘،ڈاکٹرمسعود الحسن عثمانی، ص1583، ناشر:دینی تعلیمی کونسل اترپردیش)
2مئی1954 کو خیرکالج بستی میں’انجمن ترقی اردو‘ کے زیراہتمام
ایک اردو آل انڈیاکانفرنس منعقدہوئی تھی، جس میں پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر رشید
احمد صدیقی، پروفیسرمسعودالحسن رضوی ادیب، جگر مراد آبادی، اصغر گونڈوی، جوش ملیح
آبادی، فراق گورکھپوری، وامق جونپوری، پروفیسر مجنوں گورکھپوری، نازش پرتاپ گڑھی،حیات
اللہ انصاری اورجگن ناتھ آزادجیسے چوٹی کے ادیبوں نے شرکت کی تھی، اس کانفرنس کے انعقاد
میں قاضی صاحب کارول سب سے اہم تھا۔
قاضی عدیل عباسی میدان صحافت کے شہسوار تھے۔ سید جالب دہلوی، مولانا محمد علی، ظفر علی خان جیسے
عظیم قلمکاروں نے ان کا اعتراف کیا ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زمانۂ طالب علمی
میں بھی وہ ’صدائے عام‘ (دہلی) اور ’صدائے مسلم‘ (کانپور) وغیرہ اخبارات سے منسلک رہے
اوربذریعۂ ڈاک ان کے لیے اداریے بھیجتے تھے۔ 1921 میں انھوں نے میدان صحافت میں پورے
طورپر قدم رکھ دیا اور ’مدینہ ‘ (بجنور) کی ادارتی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ 1922 میں ’زمیندار‘ (لاہور) سے جڑگئے اور بعدمیں
اس کے چیف ایڈیٹر بھی بنے۔
اعجازہلوری کاشمار بھی اس عہد کے اہم شعرا میں ہوتا تھا۔ ان کا اصل نام سیّد
اعجاز حسین تھا۔طالب علمی کے زمانے میں انھوںنے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔ غزل، قصیدہ،
نوحہ کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ مگر فطری میلان زیادہ قصیدہ اور
سلام کی جانب رہا۔ ہلور کے ایک اسکول میں ملازمت کی اور عرصے تک یہاں تدریسی امورانجام
دیتے رہے۔عروض پربھی ان کی گہری نظرتھی۔ مشاعروں اور شعری محفلوں میں ان کی شرکت رہتی
تھی۔شبیہ الحسن رضوی ان کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’ہلوری شعرا میں موصوف کی ہستی نہایت ممتاز ہے۔ طبیعت میں جدت پسندی انتہادرجہ کی ہے اور ایک خاص
طرز کے مالک بھی ہیں۔ کلام کی زمین کے لیے موصوف کے حسن انتخاب کی تعریف کرنی پڑتی
ہے پھر اس پر تجربہ و مشق کی کمائی سے سنگلاخ ترین زمینوں میں بھی اشعار پیدائی کا
معجزہ دیکھ کر دل سے داد نکلتی ہے۔ محاورہ اور زبان کا خاص طور سے خیال رکھتے ہیں اور
معنی کا سررشتہ کہیں ہاتھوں سے جانے نہیں دیتے۔ بغیرترنم کے طرزخواندگی بھی نہایت دل
نشیں اور نرالی ہے۔‘‘
)شمیم سخن،مرتبہ سیدشبیہ الحسن رضوی ہلوری، 1939،ص38)
ایک غزل کے اشعاردیکھیں ؎
سامنا دل سے ہے کس نرگسی پیمانے کا
رنگ کعبہ کا چڑھا جاتا ہے میخانے کا
خاکِ پروانہ ہوئی زینتِ دامانِ صبا
کس سے سر نامہ رقم ہو مرے افسانے کا
رنگ لائے گی نہ ساقی یہ گلابی تیری
منھ لگا جام ہے یاں اور ہی پیمانے کا
وا ہوئی جاتی ہے یاں چشمِ تمنائے نیاز
پردہ اٹھتا ہے ادھر ناز کے کاشانے کا
خُم نہیں شیشہ نہیں جام نہیں تم جو نہیں
رنگ دیکھو مرے اجڑے ہوئے میخانے کا
آتشِ غم کو ہوا دیتی ہیں آہیں اپنی
اب تو حافظ ہے خدا راز کے کاشانے کا
قاضی محمد شکیل عباسی کاتعلق بھی اسی عہد سے ہے۔ وہ23 مارچ 1903 میں ڈومریاگنج
تحصیل کے مشہورگاؤںبیارہ میں پیدا ہوئے۔ موصوف ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے
تھے۔ان کے والد قاضی محمد بسم اللہ عباسی ایک پختہ کار شاعر تھے اور عاصی تخلص کرتے
تھے۔اس کے علاوہ ان کے بڑے بھائی قاضی عدیل عباسی ایک مشہور صحافی، شاعروادیب اور سیاسی
لیڈر کی حیثیت سے ملک گیرشہرت رکھتے تھے۔ اس طرح ادبی ماحول میں آپ کی تربیت ہوئی
اور شعروادب سے گہرالگاؤ پیداہوا۔
قاضی شکیل عباسی اردو کے بہترین شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں ان کی سیرت کا عکس
نظرآتاہے۔ وہ اسلامیہ کالج گورکھپور میں فارسی کے استاد تھے۔ان کے دو شعری مجموعے
’جوئبار‘ (1948) ’طہور‘ (1976) میں منظرعام پر آئے۔ لکھنؤ میں دوران تعلیم ان کے
شعری سفرکاآغاز ہوا مگر مشق سخن الٰہ آباد میں اور باقاعدہ سخن گوئی کا سلسلہ گورکھپور
کی ادبی فضاسے شروع ہوا۔ ان کابیشترشعری سرمایہ ان کے مجروح جذبات کاترجمان معلوم ہوتا
ہے۔ انھوںنے شاعری صرف تفریح طبع کے لیے کی،کسی مشاعرے یا محفل میں پڑھنا انھیں پسندنہیں
تھا۔ ایک غزل کے اشعار بطورنمونہ دیکھیں
؎
وہ بھی مری حالت پہ بہانے لگے آنسو
اے جذبہ دل اب تو ستانے لگے آنسو
اے کاش وہ لوٹ آئے تصور کا زمانہ
دیکھی کوئی تصویر بہانے لگے آنسو
روکے سے یہ رکتے ہیں کہیں ناصحِ ناداں
میں نے بھی نہ جانا کہ کب آنے لگے آنسو
سیلاب کی زد میں ہے عمارت مرے دل کی
لو صبر کی دیوار گرانے لگے آنسو
کہتا تھا میں تجھ سے کہ نہ رو اتنا شکیل آہ
آخر تجھے بے سوز بنانے لگے آنسو
(جوئبار، 1948)
سید عترت حسین عترت کاتعلق بھی مشرقی اترپردیش کے ضلع بستی سے رہا ہے۔ وہ
1904 کو پیدا ہوئے اور شاعرانہ ماحول میں پرورش ہوئی۔ انھیں شاعری ورثے میں ملی تھی۔ان
کے والد فراق ہلوری ایک بہترین شاعر تھے۔ عترت حسین عترت کو نظم ونثردونوں پریکساں
قدرت حاصل تھی۔ مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، جن میں سلام، رباعی،قصیدے، قطعات
اور مرثیہ بطورخاص شامل ہیں۔ قصائد اور منقبت
میںآپ کو کمال حاصل تھا۔عربی، فارسی اور اردوزبان پر قدرت کے سبب آپ کے کلام میں
پختگی اورزبان کی شستگی کازمانہ معترف تھا۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو ’مصور غم‘ اور ’فصیح
الہند‘ جیسے خطابات سے نوازا گیا۔
عترت حسین عترت کے مرثیوں کا مجموعہ ’ سوزِ غم‘ شائع ہواتھا۔ مرثیہ کے اشعارملاحظہ
ہوں ؎
رخصت حرم سے ہو کے چلے سرور انام
اب کون ہے کرے جو سواری کا انتظام
اکبر ہیںباقی اور نہ عباس نیک نام
حسرت سے ہاتھ حُر نے بڑھائے سوئے لجام
کس طرح بے کسی پہ شہ دیں کے کل پڑے
آنکھوں سے ذو الجناح کے آنسو نکل پڑے
بوئے حسین جب نہ ملا کوئی آس پاس
اے ناصران سیدِ ابرار با حواس
ہوتا ہے اب سوار یہ غمگیں بہ درد یاس
آکر رباب تھام لو عباس حق شناس
اکبر کہاں ہو چڑھتے میں حیدر کا نام لو
قاسم کہاں ہو عمو کے بازو کو تھام لو
کیوں کر قلق سے دل نہ ہو خواہر کا بے قرار
ہے ہے ملیں گے مجھ سے نہ اب شاہ نام دار
دیکھوں میں بوسہ گاہ رسول فلک وقار
مقتل میں آج اس پہ چلے گی چھری کی دھار
آئے گی وقت عصر قیامت جہان میں
ڈوبے گا آہ مہر امامت جہان میں
نوحہ نگاری میںان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کے نوحے لوگوں میں بہت پسند کیے
جاتے تھے۔ ان کی کئی کتابیں منظرعام پر آئیں، جن میں ’قلزم عزا‘، نالہ عترت، معیارغم،
گلدستہ آرزو،پیام عترت، شہیدامت، گلدستہ انصار، تابوت سکینہ بہت مشہورہوئیں۔شاعری
کے ساتھ ساتھ ایک اچھے واعظ اورمرثیہ خواں کے طورپر بھی ان کی شہرت تھی۔ملک کی آزادی
کے صرف ایک سال بعد ہی 1948 میں وفات کرگئے۔
آزادی سے قبل اردو زبان کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں مولاناعبدالقدوس شبلی
سبحانی کانام بھی اہمیت رکھتا ہے۔ان کا تعلق ضلع سدھارتھ نگر کے موضع جمہنا سے تھا۔
بچوں کی تعلیم وتربیت پران کی خصوصی توجہ تھی۔ 1908کے آس پاس درجہ اول تا درجہ ششم
کے بچوں کے لیے مولانانے ’فروغ اردو‘ کے نام سے درسیات کا ایک سیٹ تیارکیا،بعد میں
یہ کتابیںمختلف مکاتب ومدارس کے نصاب میں شامل کی گئیں۔
یہ کتاب ’فروغ اردو‘دینی، اخلاقی، اصلاحی، تاریخی اور ادبی مضامین کا ایک مجموعہ
ہے، جس کے مطالعے سے بچوں کی علمی صلاحیت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق
وکردارمیں بھی نکھارآتاہے۔اس میں زبان اور قواعد پرخصوصی توجہ دی گئی ہے تاکہ بچوں
میں اس کے توسط سے اردو ادب کا ذوق بیدار ہو اور وہ اپنی معلومات میں خاطرخواہ اضافہ
کرسکیں۔ہرسبق کے شروع میں مشکل الفاظ کے معانی اورذیل میں سوالات اور مشقیں دے کر بچوں
کوسبق کوآسان تربنانے اور اسے بچوں کو ذہن نشین کرانے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ اس
کے علاوہ کتاب میںخطوط اور مضامین نگاری کے اصول بتاکر بچوں میںکاغذ وقلم کے تئیں رشتے
مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ انھیں آگے چل کر اچھافن کاربننے میں مددمل سکے۔
اردو زبان وادب کے خدمت گزاروں میں ایک اہم نام تا را شنکر ناشاد کا بھی ہے۔موصوف
ایک معزز کائستھ گھرانے میں 1906 میںپیداہوئے۔اگرچہ ناشاد کی پیدائش گونڈہ میں ہوئی
تھی مگرانھوںنے بستی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیاتھا۔ تاریخ میں ایم اے کیا اور اینگلو
سنسکرت ہائی اسکول بستی میں ٹیچرہوئے۔ بعدازاںاینگلو سنسکرت ہائی اسکول انٹر کالج میںپرنسپل
ہو گئے اور یہیں سے سبکدوش بھی ہوئے۔
ناشاد صاحب بحیثیت انسان خلیق، با وضع، صاف گو، شگفتہ مزاج اور نیک نفس تھے۔
اردو زبان وادب سے والہانہ محبت ان کے گھریلو ماحول اور کا ئستھ گھرانوں کی روایتی
اردو دوستی کی دین تھی۔ انھوں نے اسکول کے علاوہ اپنی ذاتی دلچسپی، کوشش، محنت اور
مطالعے سے اردو زبان میں خاصی دسترس حاصل کرلی تھی۔ بچپن سے طبیعت میں شاعری کاذوق
تھا، اس لیے کم سنی میں ہی شعر موزوں کرنے لگے تھے۔ان کا کلام معتبررسائل وجرائد میں
چھپتا تھا۔ نا شاد نثر میں بھی لکھتے تھے۔ ان کے افسانے اور کہانیاں اردد اور ہندی
کے مشہور اخبارات ورسائل مثلاً ’نیرنگ خیال‘، ’تیج ویکلی‘، ’دھرم یگ‘، ’ساقی‘، ’قومی
آواز‘ (لکھنؤ) وغیرہ میں تسلسل کے ساتھ شائع ہوتی تھیں۔‘‘
(شعرائے اترپردیش:عرفان عباسی،ص298)
وہ غزل، نظم اور قطعات میں طبع آزمائی کرتے تھے اور ایک اچھے افسانہ نگاروں
میں تھے۔ناشاد مرحوم نثر و نظم دونوں میں عام فہم وسادہ زبان استعمال کرتے تھے۔وہ مشاعروں
کے شاعر نہ تھے لیکن بستی میں ان کے دم سے شعر و ادب کا چر چا تھا۔ سماجی و فلاحی کاموں
میں حصہ لیتے تھے۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ شاعری میں انھوں نے کسی کی باقاعدہ شاگر
دی بھی اختیار کی تھی یا محض فطری ذوق اور عقل سلیم کی رہنمائی میں اپنی راہیںخود ہی
متعین کی تھیں۔ نمونہ کلام ؎
درد کا ذمہ ہے لیکن اس جنوں کاکیا علاج
کہہ رہا ہوں ان سے کچھ اور مدعا کچھ اور ہے
راہ پر چلنے کو چلتا ہوں ترے پیچھے مگر
دل نے چپکے سے کہا ہے راستہ کچھ اور ہے
آپ کہتے ہیں چمن میں آئے گی فصل بہار
چشم وا کہتی ہے گلشن کی فضا کچھ اور ہے
یہ تیر افیض کرم ہے یا ترا حسن نظر
درد کا رخ آج جو بڑھتا ہوا کچھ اور ہے
جان و دل ایمان جب ناشاد نے سب دے دیا
اس سے پوچھا اور کچھ، اس نے کہا کچھ اور ہے
اس کے علاوہ بے شمار ایسے نام ہیں جنھوںنے آزادی سے قبل اردوزبان وادب کے گیسوسنوارے
اور اپنی عمر کا ایک طویل حصہ شعر و ادب کی خدمت میں صرف کیا، جنھوں نے اپنی فنکارانہ
ادبی صلاحیت کا مظاہرہ کر کے اہل ادب کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اپنی تخلیقات سے اردو
ادب کو مالا مال کیاہے۔
Mohd Islam Khan
D-64, Third Floor, Thokat No-8,
Behind Taj Apt., Near Firdaus Masjid
Shaheen Bagh, Jamia Nagar,
New Delhi -110025
Mob.: 9910100445
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں