1/2/24

مخمور سعیدی:عرفان رشید ڈار

 

مخمور سعیدی (پ:…، و:…) نے جب شاعری شروع کی تھی اس وقت ترقی پسند تحریک کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور تھوڑے عرصے بعد جدیدیت نے اپنا سر نکالنا شروع کیا۔لیکن مخمور نے جس ماحول میں اپنا شعری سفر شروع کیا تھا وہ کلاسکیت سے پر تھا اور استاد بسمل سعیدی بھی کلاسکیت کے پروردہ تھے مگر جب مخمور سعیدی کی شاعری کا ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں ترقی پسند، کلاسکیت اور جدیدیت کا حسین سنگم دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے اس کا اعتراف خود بھی کیا ہے:

’’مجھے اس اعتراف میں کوئی تامل نہیں کہ میرے ذہن وذوق کی ابتدائی تربیت کلاسکیت اور نوکلاسکیت کے زیرِ اثر ہوئی ہے۔ مجھے یہ بھی اعلان کرناچاہیے کہ ادب کے سکہ بند ترقی پسند نظریہ سے مجھے اختلاف ہے لیکن ترقی پسند شاعروں نے جو اچھی شاعری کی ہے۔ میںا سے اپنے حافظے سے نہیں جھٹک سکتا۔1

مذکورہ بالا اقتباس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ مخمور سعیدی اپنے آپ کو آزاد رکھنا چاہتے تھے۔وہ کسی تحریک یا رجحان سے وابستہ نہیں تھے۔ انھیں اس بات کا علم ہوگیا تھا کہ ادب کو سکہ بند تحریکات ورجحانات تک محدود نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ جس طرح سے ترقی پسند تحریک کے ساتھ پروپیگنڈا کا ایک لیبل چسپاںکیا گیا تھا، کیوں کہ انھوں نے ادب کے لیے ایک منشور بنایا تھا اور اسی منشور کے تحت ادیبوں اور شاعروں کو تخلیقات پیش کرنا پڑتی تھیں۔ وہ ان سب کے مخالف تھے اور اس بات پرزور دیتے تھے کہ ادیب اور شاعر کو آزاد ذہن سے سوچنا چاہیے تب جاکر وہ ادب اور معاشرے کا حق ادا کر سکتا ہے۔ساتھ ساتھ اس بات پر بھی اتفاق کرتے ہیں کہ جنیوئن شاعر وادیب کسی تحریک یا رجحان کو مدنظر رکھ کر اپنے قلم کی آزادی کا گلا نہیں گھونٹتے ہیں بلکہ وہ ایک آزاد پرندے کی طرح ہوتا ہے، جدھر سے چاہے وہاں سے اپنا مواد اکٹھا کر کے تخلیق کرسکتا ہے۔انھوںنے ایک انٹرویومیں اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ!

’’ادیب کو جو لکھنا ہے وہ لکھے گا شاعر کو جو کہنا ہے وہ کہے گا چاہے آپ اسے ترقی پسندی کے خانے میں رکھ دیں۔ جدیدیت سے منسوب کردیں یامابعد جدیدیت کا قراردے دیں۔ جو جینوئن شاعر وادیب ہے وہ یہ سوچ کر قطعی نہیں لکھے گا کہ میں مابعد جدیدیت دور میں ہوں تو مجھے یہ کہنا چاہیے جدید دور میں تھا۔‘‘2

اس اقتباس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مخمور نے اپنی شاعری کو ان تحریکات ورجحانات سے کوسوں دور رکھا ہے۔  انھوں نے نہ صرف کلاسکیت،نوکلاسکیت، ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا دور دیکھا ہے بلکہ ہر تحریک ورجحان سے اپنا دامن بچائے رکھا اور یہ ان کی ایک اچھی خوبی تھی۔

مخمور سعیدی ایک عام انسان تھے،ان کے مسائل، پریشانیاں، الجھنیں ایک عام انسان جیسی تھیں اور جس نے عام انسان کے جذبات واحساسات، دکھ درد، حالات، خوابوں، تمناؤں کو شعر کا جامہ پہنا کر اپنی شاعری کے البم کو تیار کیا ہے۔ وہ ایک عام انسان کی طرح سوچتے تھے، محسوس کرتے تھے، خوشی کے موقع پر ہنستے تھے اور غم کے موقع پر مایوس اور دکھی بھی ہوتے تھے۔ انھیں اپنے ماضی سے لگاؤ بھی تھا اور فطرت سے محبت بھی، جس سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ اپنی شاعری کے تعلق سے وہ کہتے ہیں :

 ’’میری شاعری، میری ذہنی سوانح عمری ہے۔ زندگی کے مختلف ادوار میں جن حالات وواقعات نے میرے دل ودماغ پر جو اثرات مرتب کیے ہیں میری شاعری انھیں کا اظہار ہے... میں نے پوری عمر کم اندیشی یا کج اندیشی کے ساتھ بسر کی ہے۔ عرفِ عام میں جسے ہوشیاری کہتے ہیں، اس پر مجھے کبھی دسترس حاصل نہیں ہوسکی۔ عملی زندگی میں اکثر میں نے خسارے کے سودے کیے ہیں اس پر کبھی پچھتایا نہیں۔‘‘3

اس اقتباس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ جن حالات وواقعات نے مخمور سعیدی کی زندگی کو متاثر کیا۔انھوں نے اسی کو شعر کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر گھریلوحالات اور سماجی بکھراؤ نے انھیں شعر کہنے پر مجبور کیا۔ ان کی شاعری میں سوزوگداز، دردمندی، آرزو مندی، حسن وعشق جیسے رنگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ایک رنگ جو غالب رہا ہے وہ بے بسی، محرومی، لاچاری، نارسائی،بے دلی اور بیزاری کا رنگ جو کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ۔

مخمور سعیدی کے یہاں محرومی، لاچاری، نارسائی جیسے موضوعات دیکھنے کواکثر ملتے ہیں، اس کے پیچھے ان کی زندگی کی وہ تلخ حقیقتیں ہیں جو انھیں وقتاً فوقتاً زندگی سے ملی تھیں۔ انھیں پہلے چھوٹی عمرہی میں ذریعہ معاش کے لیے اپنے مادر وطن کو خیرآباد کہنا پڑا۔ دلی میں مقیم ہونے کے بعد انھیںاصل زندگی کا تجربہ ہوا اور ساتھ ساتھ بہت سارے غموں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس لیے اپنی شاعری کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’زندگی کے مختلف ادوار میں جن حالات وواقعات سے میں گزراہوں اور ان حالات وواقعات نے میرے دل ودماغ پر جو اثرات مرتب کیے ہیں میری شاعری انھیں کا اظہار ہے۔‘‘4

اس اقتباس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ مخمور کی شاعری ان کے ذاتی حالات ومشاہدات پر منحصر ہے۔ انھوں نے زندگی میں جو محسوس کیا یا جوان پر گزری ہے،اسی کو لفظوں کا جامہ پہنا کر شعر کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ قاری بھی جب ان کی شاعری کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتا ہے تو اسے ان کی شاعری میں اپنے غم معلوم ہوتے ہیں۔یعنی آپ بیتی،جگ بیتی بن جاتی ہے۔

مخمورسعیدی کوروایت سے بے حد محبت اور لگاؤ تھا۔ پرانے لفظوں سے انھیں ایسا شغف تھا کہ باربار ان کی شاعری میں ایسے موضوعات جھلکتے ہیں جوروایت کی یاد دلاتے ہیں۔اور قاری بھی سوچنے پرمجبور ہوجاتا ہے کہ واقعی ہماری روایت کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔مخمور سعیدی نئے سے نئے موضوع کوبھی کلاسیکی رکھ رکھاؤ کے ساتھ برتنے پرقدرت رکھتے تھے۔ان کی شاعری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کاشعر قاری کو اپنے ساتھ نہیں لے جاتاہے بلکہ غوروفکر کی تلقین کرتاہے۔تب جاکرقاری کواصل مفہوم تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔مخمور روایت کے بارے میں ’واحدمتکلم‘کے پیش لفظ میں یوں لکھتے ہیں:

’’میں سمجھتا ہوں کہ شاعری کے لیے اپنی شعری روایت سے مکمل انقطاع ممکن نہیں ہے۔شعری اور ادبی روایت صدیوں کے تہذیبی تسلسل کاحصہ ہواکرتی ہے۔ سفرکے کسی موڑپر یہ تسلسل ٹوٹ سکتاہے۔لیکن اس کے آثار باقی رہتے ہیںاور پھرایک نئے فکری عمل کاسرچشمہ بنتے ہیں... شاعری کی تخلیقی انفرادیت ہی اس کی پہچان ہواکرتی ہے لیکن اس انفرادیت کی تشکیل میں اس کی وہ فنی بصیرت بھی کارفرمارہتی ہے جو اسے اپنے پیش روؤں سے ملتی ہے۔‘‘5

مخمور سعیدی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ روایت سے کٹ کر انسان کاوجود ختم ہوجاتاہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ روایت کی پاس داری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ روایت سے ایک رشتہ قائم رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن روایت کی فرسودگی سے ان کاکوئی تعلق نہیں رہا۔جدیدیت کوبھی تسلیم کرتے ہیں لیکن بے مقصد جدیدیت کی کرتب بازی سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ذات کے کرب کوبھی موضوع بنایاہے لیکن سچائی یہ ہے کہ انھیں ماضی سے کٹ جانے کابے حدغم تھااوروہ ماضی،حال اور مستقبل پر گہری نظر رکھتے تھے۔ جہاں وہ انتہا کی بات کرتے ہیں وہیں دوسری طرف فرد کاسماج سے رشتہ کٹ جانے پرافسوس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس بات پردکھی ہوتے ہیں کہ آئندہ نسل کی میراث ختم ہوتی جارہی ہے۔ جدیدیت کے شعراسے جوچیزیںانھیں الگ کردیتی ہیں اصل میں وہ یہی چیزیں ہیں۔ان کے ہم عصر شعرامیں بشر نواز، مخمور کی انفرادیت کااعتراف اس طرح کرتے ہیں:

’’مخمور ان معدودے چند عصری شعرا میں شامل ہیں جن کی غزل میں کلاسکیت کاوقاربھی ہے اور اپنے دور کی دھڑکنیں بھی۔ ان کی غزل ہم عصر شعراکی غزلوں سے یوں مختلف ہے کہ اس میں روایت کے چراغ روشن ہیں اورروایتی غزل سے یوں الگ ہے کہ اس میں لفظ اپنے مسلمہ اور رسمی تلازموں سے آزاد ہوکرایک خود مکتفی اور خود مختار مظہر کامرتبہ پاتاہے اور مقررہ معنی دینے کے بجائے وہ معنی دیتاہے جن کے لیے شاعر نے اسے برتا ہو۔ لفظوں پریہ حاکمانہ قدرت مخمور کواپنے معاصرین سے مختلف بھی بناتی ہے اور انھیںآج کے مقبول وسائل اظہار کی دست نگری سے بچابھی لے جاتی ہے۔‘‘6

مخمورسعیدی زبان وبیان اورلفظوں کوبرتنے کے اعتبار سے بھی جدیدیت کے شعرامیں نمایاں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے جدیدیت کوقبول کرلیاتھالیکن اس کی فیشن پرستی کوکبھی اپنی شاعری کاحصہ نہیں ہونے دیا۔مخمور کی شاعری نادر علامات،استعارات وتشبیہات سے پاک نظر آتی ہے۔خاص طورپرنئی غزل میں جو نئے تجربے کیے گئے ہیں،ان کی شاعری اس سے کوسوں دور ہے۔انھوں نے اپنی غزل کواینٹی غزل بنانے کے رجحان سے بھی دور رکھاہے جوایک زمانے میںفیشن بن گیاتھا۔ مخمور کے یہاں نہ تو ابہام واشکال ہے اور نہ خواہ مخواہ کی لفظی صنعت گری ہے بلکہ صاف اورسادہ لفظوں میں اپنے احساسات وجذبات اور مشاہدات کوقاری کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں رفعت سروش لکھتے ہیں:

’’جدیدشاعروں میں مخمور کانام شامل ہوگیا۔ان کی اس مسلک کی نظمیںشائع ہونے لگیںلیکن وہ اپنے کلاسیکی لہجے اور مانوس الفاظ وتراکیب سے دامن نہیں بچاسکے بلکہ ان محاسن کوانھوں نے شعوری طورپرباقی رکھا۔مہمل گوئی کا شکار نہیں ہوئے اور فیشن زدہ تنہائی اورمصنوعی انتشارکواپنی شاعری کاطرہ امتیاز نہیں بنایا۔‘‘7

غرض مخمورسعیدی نے مناسب تشبیہات واستعارات اور علامت سے اپنی شاعری کوایک نیارنگ عطا کیا ہے۔ جس طرح جدید شاعروں نے مبہم اور غیرموزوں لفظوں کااستعمال کیاہے ان سب سے مخمور کی شاعری پاک ہے۔ انھوں نے اپنے اسلوب اور ڈکشن کونہایت سلیس انداز میں برتنے کی کوشش کی۔ان کی شاعری صرف دل پر ہی اثرانداز نہیں ہوتی بلکہ غوروفکر کی دعوت بھی دیتی ہے۔ انھوں نے بیک وقت دونوں اصناف غزل اور نظم کوساتھ ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔حالاں کہ دونوںاصناف کوآگے بڑھانابہت مشکل فن ہے لیکن انھوں نے اپنی ایک الگ راہ اختیار کرکے غزل اور نظم کووسعت دی۔مخمور کوعلم عروض پر بھی قدرت حاصل تھی۔ انھوں نے اپنے اشعارمیںچھوٹی اور بڑی دونوں بحروں سے کام لیا ہے۔غرض یہی ہے کہ مخمورسعیدی کی شاعری کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عصرحاضر کے جدید شعرامیںمخمورسعیدی اپنی انفرادی پہچان رکھتے ہیں جس طرح سے وہ موضوعات پردسترس رکھتے تھے۔ اسی طرح اسلوب وتکنیک کے اعتبار سے بھی کامیاب نظر آتے ہیں۔انھوں نے اپنی شاعری میں جدید موضوعات کو کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ پیش کیاہے۔ان کے یہاں عصرحاضر کے بے شمار مسائل ملتے ہیں۔خصوصاً ماضی کی یاد،قدروں کی پامالی، حب الوطنی، بزرگوں کااحترام،مٹتی ہوئی تہذیب کا نوحہ تنہائی کاکرب اور دنیاکی بے ثباتی کے علاوہ بعض سیاسی موضوعات بھی نظرآتے ہیں۔ اسلوب وتکنیک کے تجربے بھی انھوں نے کیے ہیں۔ فردکے مسائل کے علاوہ عصر حاضرکے مسائل کی عکاسی کے لیے انھوں نے انوکھی تشبیہات واستعارات کے علاوہ عمدہ علامتوں کاستعمال بھی کیاہے۔اپنے کلام کوحسن بخشنے کے لیے انھوں نے بعض اہم صنعتیں بھی استعمال کی ہیں۔غرض مخمورسعیدی نے کلاسیکی وجدید دونوں مسائل کو بہترین اسلوب کے ذریعے پیش کرکے عصر حاضر کے شعرامیں اپنی الگ شناخت قائم کی ہے۔

حواشی

  1. شین کاف نظام ’بھیڑمیں اکیلا‘ اردو دنیا، دہلی جلد 12، شمارہ 4، اپریل 2010، ص 22
  2. راشد انور راشد ’مخمور سعیدی سے گفتگو‘ مشمولہ بھیڑ میں اکیلا، ص 276
  3. پی پی سریواستو رِند’دیوارودرکے درمیاں‘ مشمولہ ’مخمور سعیدی ایک ہمہ جہت فنکار‘ص126-27
  4. سرورالہدیٰ ’نشاطِ کرب کا شاعر مخمور سعیدی‘ مشمولہ ’بھیڑ میں اکیلا‘ ص249
  5. شین کاف نظام ’بھیڑمیںاکیلا‘ مشمولہ ’بھیڑمیںاکیلا‘ص49
  6. بشرنواز ’مخمورسعیدی کی غزل‘ مشمولہ ’بھیڑمیںاکیلا‘ص110
  7. رفعت سروش’جلوس وقت کے پیچھے رواںوہ اِک لمحہ‘مشمولہ بھیڑمیںاکیلا‘ص88

 

Irfan Rasheed

R/O: Kochak Mohalla Hajin

Distt.: Bandipora- 193501 (J&K)

Mob.: 9622701103

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

بشیر النسا بشیر حیدر آباد دکن کی بیدار ذہن شاعرہ، مضمون نگار: آمنہ تحسین

اردو دنیا، مارچ2024   سراپا درد ہوں‘ ایک ہستی محرومِ درماں ہوں   میری فطرت کا ہر ذرہ ہے محوِ خود فراموشی   بظاہر آئینہ ہوں اور بباطن ...