31/1/24

راسخ عظیم آبادی شخصیت اور شاعری: امام الدین امام

راسخ عظیم آبادی اُردوکے معروف شاعرگزرے ہیں۔ ان کاتعلق عہد میروسوداسے ہے۔ان نابغۂ روزگار شعرا کے عہدمیں ہونے کے باوجود راسخ کی اہمیت مسلم ہے کیونکہ میراوردردکے عہد میں صنف شاعری کی زلفیں سنوارنا اور ان کی موجودگی میں اپنی شناخت کو قائم  رکھناہی ان کی شعری عظمت کی دلیل۔

راسخ نے شاعری میں غزل، رباعی، مرثیہ، نعت، قصیدہ وغیرہ جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تصانیف میں کلیات راسخ ہے جس میںبقول حمیدعظیم آبادی نو، دس قصیدے، چودہ مثنویاں، متعدد قطعے، رباعیاں اور متعدد غزلیں ہیں۔ (راسخ، مؤلفہ:حضرت حمیدعظیم آبادی، ص29)، پروفیسروہاب اشرفی اورلطف الرحمن نے راسخ کی مثنوی کی تعداد19 بتائی ہے۔  وہاب اشرفی نے لطف الرحمن اور ممتاز احمد کی تحقیق کی تفصیل نام اور نمبر شمار کے ساتھ تاریخ ادب اردوجلد اوّل میں نقل کردی ہے۔ راسخ کی مثنویوں میں میرکی جھلک نظرآتی اور انداز و اسلوب میں ان کا رنگ بھی غالب نظر آتا ہے۔ گیان چندجین نے اپنی کتاب میں اس بات کی طرف کئی جگہ اشارہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں  :

’’راسخ کی مثنوی جذب عشق و کشش عشق میں بھی میرکی دریائے عشق کے اجزا ہیں۔‘‘

(اردومثنوی شمالی ہند میں(جلداوّل)ڈاکٹرگیان چندجین،انجمن ترقی اردوہند، دہلی، 1987، ص 226)

راسخ کے نام اور تاریخ پیدائش کے بارے میں کئی اقوال ملتے ہیں۔شادعظیم آبادی نے ان کی تاریخ پیدائش وغیرہ کے حوالے سے اپنی تحقیقی رائے پیش کی تھی جس کی تردیدپروفیسر مختارالدین آرزو نے علی گرھ میگزین کی جلد 24بابت 1948-49،میں کی۔ انھوں نے شادکی رائے کی تردیدکرنے کے بعد کسی نئی تاریخ کاتعین نہیں کیااورنہ یہ کہاکہ فلاں تاریخ ان کے نزدیک صحیح ہے۔بلکہ مختارالدین صاحب نے صرف شاد کی رائے سے اختلاف کرنا ہی کافی سمجھا، اس حوالے سے قاضی عبدالودود ایک مضمون میں جو کہ’نوائے ادب‘ بمبئی کے جنوری 1959 کے شمارے میں شائع ہواتھااپنی رائے کا اظہار کیاتھا، ملاحظہ فرمائیں  :

’’حقیقت یہ ہے کہ شاد پہلے شخص ہیں جنھوں نے یہ سنہ ولادت(1162ھ)بتایاہے۔ان کے بعد لکھنے والوں نے ان سے بالواسطہ یابلاواسطہ نقل کیا ہے۔اس کی تغلیط کے لیے یہ کافی ہے کہ عبرتی عظیم آبادی نے جو رحلت راسخ کے وقت نوجوان تھے،’ریاض الافکار‘نسخہ خدابخش میں بتایاہے کہ راسخ کی وفات ساٹھ برس میں ہوئی۔ چونکہ تذکرہ مذکورمیں سال وفات 1236ھ ہے، مرقوم ہے، عبرتی کے حساب سے سال ولادت 1176ھ قرار پاتاہے لیکن صحیح سال وفات 1238ھ ہے،اس وقت اگر ساٹھ برس کے تھے تو پیدائش 1178ھ کے قریب ٹھہرتی ہے۔میرا خیال ہے کہ 1167ھ سے چند سال قبل متولد ہوئے۔1171ھ کے لگ بھگ۔‘‘

(راسخ عظیم آبادی (مونوگراف) لطف الرحمن، ص)

قاضی عبدالودو ایک جگہ اور لکھتے ہیں  :

’’ہماری رائے میں قدیم روایات کی عدم موجودگی میں سال ولادت کا تعین ناممکن ہے۔رہا1162 وہ کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔عبرتی نے جو بقول بعض شاد مرحوم کے اساتذہ میں تھے اپنے تذکرے میں لکھا ہے کہ راسخ نے 60 برس کی عمر پائی۔اس حساب سے سال ولادت 1180 کے لگ بھگ ٹھہرتا ہے،ہماراذاتی خیال ہے کہ 1170 زیادہ قرین قیاس ہے۔ہم اپنے دلائل اس موقع پر پیش کرنا نہیں چاہتے۔‘‘

(معیار، مرتب: قاضی عبدالودود، مئی، 1936، ص243)

حمیدعظیم آبادی نے لکھا ہے کہ راسخ مرحوم کے سال پیدائش میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن یہ بات سچ نہیں ہے کیونکہ قاضی عبدالودودکی مذکورہ عبارت میں ہی الگ الگ تاریخ پیدائش ملتی ہے اوردوسری طرف رسالہ سالنامہ ’سہیل‘ علی گڑھ 1936 (مرتبہ:رشید احمدصدیقی) کے شمارے میں ایک مضمون ’بہاراوراردوشاعری‘ کے عنوان سے لکھاگیا ہے۔اس میں بھی مضمون نگار نے شادکی پیش کی گئی تاریخ پیدائش 1162ھ اور تاریخ وفات 1238ھ کوہی درج کیاہے۔اس حوالے سے بات کرتے ہوئے قاضی عبدالودود لکھتے ہیں’’سال وفات اورشاگرد سودا اورتپاں کے متعلق مضمون نگارکی رائے صحیح ہے۔‘‘

(معیار،مرتب:قاضی عبدلودود،مئی 1936، ص243)

قاضی عبدالودونے مضمون نگار کی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ سودااورتپاںراسخ کے استاد نہیں ہیں اورراسخ کی تاریخ وفات1238ھ ہے۔تاریخ پیدائش سے قاضی صاحب نے اتفاق نہیں کیایہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام تذکرہ نویس اور محققین 1262ھ سے متفق نہیں ہیں۔

حمیدصاحب کی رائے ملاحظہ کیجیے:

’’راسخ مرحوم کے سالِ ولادت میں کوئی اختلاف نہیں۔ تمام تذکرہ نویس متفق ہیں کہ آپ کی ولادت کا سال 1162ہجری ہے۔‘‘

(راسخ عظیم آبادی،مؤلفہ:حضرت حمیدعظیم آبادی، ص28)

راسخ کی پیدائش کے بارے میں پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں  :

’’راسخ عظیم آبادی کی پیدائش پٹنہ سٹی یعنی عظیم آباد میں ہوئی۔سال پیدائش1757کے لگ بھگ ہے۔‘‘

(تاریخ ادب اُردو،وہاب اشرفی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2007،ص264)

راسخ عظیم آبادی کی تاریخ پیدائش اور وفات میں اختلاف کے حوالے سے معروف ومستندمحقق قاضی عبدالودود کے رسالہ ’معیار‘میں بھی کچھ باتیں ملتی ہیں۔یہ عبارت آرزوجلیلی کی ہے،واضح رہے کہ آرزو جلیلی قاضی عبدالودود کے معاون کی حیثیت سے ’معیار‘کے کاموں میں شامل تھے۔ملاحظہ فرمائیں  :

’’راسخ عظیم آبادی کے سنہ وفات کے متعلق مرتب نے صرف گارساں دتاسی کا قول نقل کیا ہے،جونہایت بے پرواتذکرہ نگار ہے۔دتاسی نے سال وفات 1240ھ لکھا ہے، لیکن صحیح سال وفات1238ھ ہے جو’سخن شعرا‘ مرتبہ نساخ میں درج ہے۔یاس آروی کے دیوان میں راسخ کی وفات کاقطعہ تاریخ ہے جس سے 1283ھ نکلتا ہے۔‘‘

(معیار، مرتب: قاضی عبدالودود، بانکی پور (پٹنہ) اپریل 1936، ص119-20)

اسی تاریخ وفات سے حمیدعظیم آبادی نے بھی اتفاق کیاہے۔ وہ اپنی کتاب ’راسخ عظیم آبادی‘ کے صفحہ 19پر اسی تاریخ1238ھ سے اتفاق کرتے ہیں جوکہ یاس آروی اورمولوی عبدالحئی صاحب گل رعنا کی بھی رائے ہے۔ 

راسخ کے مکمل حالات زندگی کے بارے میں بھی صحیح اور پختہ معلومات نہیں ملتیں۔ اس حوالے سے وہاب اشرفی فرماتے ہیں  :

’’راسخ کی زندگی کے تفصیلی احوال نہیں ملتے لیکن اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عربی اور فارسی زبان پر خاصی دسترس رکھتے تھے۔عروض وبلاغت پربھی قدرت تھی۔‘‘

(تاریخ ادب اُردو،ص265)

راسخ عظیم آبادی نے شاعری میں کس کی شاگردی اختیار کی اس حوالے سے کئی نام سامنے آتے ہیں جن میں سودا،شرر،تپاں، میرتقی میراور فدوی وغیرہ کانام شامل ہے۔ ان ناموں میںیہ بات ضرور صحیح ہے کہ راسخ نے شروع میں فدوی کو اپنے کلام دکھلائے اور بعدمیں میر تقی میرکی شاگردی اختیار کرلی۔ایک شعرسے فدوی کی شاگردی کا اندازہ ہوتا ہے وہ شعرملاحظہ فرمائیں            ؎

شاگرد ہوں گے حضرت فدوی کے بے شمار

راسخ ہوں ایک میں بھی ولے کس شمار میں

وہ میرتقی میرکے بھی شاگرد ہیں اور اس کا اعتراف انھوں نے متعدداشعارمیں کیاہے۔ان کا ایک بہت مشہور شعراس حوالے سے ہے     ؎

شاگرد ہیں ہم میر سے استاد کے راسخ

استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

دوشعراورملاحظہ فرمائیں جن سے میر سے تلمذکاصاف اندازہ ہوتاہے   ؎

راسخ کو ہے میر سے تلمذ

یہ فیض ہے ان کی تربیت کا

 

یارب رہیں سلامت تاحشر حضرت میر

فیض سخن نے ان کے میرا سخن بنایا

مذکورہ اشعار کی روشنی میں میرتقی میرکی شاعرانہ عظمت کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ کس طرح راسخ  اپنی قسمت پرنازاں ہیں کہ ان کااستاد میرتقی میرہے جو استادوں کا استاد ہے۔

محمدحسین آزاد نے سوداکو بھی راسخ کااستاد بتایا ہے لیکن اس بات کی تردید وہاب اشرفی اور دیگر اہل علم نے کی ہے۔آزاد لکھتے ہیں:

’’راسخ عظیم آبادی کا دیوان میں نے دیکھا ہے۔ بہت سنجیدہ کلام ہے۔پرانے مشاق تھے اور سب ادھرکے لوگ انھیں استاد مانتے تھے۔مرزاکے پاس شاگرد ہونے کوآئے۔مرزانے کہاشعرسنائیے۔انھوں نے پڑھا        ؎

ہوئے ہیں ہم ضعیف اب دیدنی رونا ہمارا ہے

پلک پر اپنی آنسو صبح پیری کا ستارا ہے

مرزانے اٹھ کر گلے لگالیا۔‘‘

(آبِ حیات، محمدحسین آزاد، اُترپردیش اُردواکادمی، 2021، ص174)

محمدحسین آزادکی مذکورہ بات کی تردیداس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جس طرح سے راسخ نے فدوی اور میرتقی میرکو اپنا استاد ماننے سے انکار نہیں کیااوراشعارمیں اس بات کا اعتراف کیا ہے اگر سوداراسخ کے استاد ہوتے توضرورراسخ اس امر کا اعتراف کرتے کیونکہ سوداسے شرف تلمذ کوچھپانے کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی۔ سودابھی میرتقی میرکے برابر ہیں بلکہ بعض معاملوں(مثلاًقصیدہ) میں میرسے آگے بھی نظرآتے ہیں۔

حمیدعظیم آبادی نے شادعظیم آبادی کے حوالے سے لکھا ہے کہ :

’’جناب شاداِن کو مرزاشرر(تلمیذ تحقیق)کابھی شاگرد لکھتے ہیں۔شیخ صاحب نے اپنے بالکل ابتدائی کلام پرمرزاشرر سے اصلاح لی تھی۔‘‘

(راسخ عظیم آبادی،مؤلفہ:حضرت حمیدعظیم آبادی، ص22)

وہاب اشرفی نے راسخ کے اساتذہ کے بارے میں لکھتے ہوئے محمدحسین آزاد، شادعظیم آبادی اور ان کی رائے کو نقل کرنے والے حمیدعظیم آبادی کی باتوں کی تردید کی ہے  :

’’راسخ عظیم آبادی کس کے شاگرد تھے۔اس باب میں خاصی بحث ملتی ہے۔ان کے استادوں میں شرر، تپاں اور سوداکابھی نام آتاہے۔لیکن ان سب کی تردیدہوچکی ہے۔ابتدا میں موصوف نے فدوی سے ضرور اصلاح لی تھی لیکن وہ اصلاًمیرتقی میر کے شاگردتھے۔‘‘

(تاریخ ادب اُردو، ص، 265)

راسخ کی شاعری میں صوفیانہ کلام بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جیساکہ دبستان دہلی کی خصوصیات میں سے تصوف ایک بڑی خصوصیت ہے۔ اس لیے اس رنگ میں رنگ جاناراسخ کے لیے کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ان کی طبیعت میں استغنااور بے نیازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ان کی ذاتی زندگی بھی خوشحال نہیں تھی میرکی طرح ان کی مثنویوں میں بھی معاشی بدحالی اور غزل میں بھی زندگی کے نشیب و فرازوغیرہ کا ذکر خوب ملتا ہے۔ کہاجاتاہے کہ انسان جب عشق مجازی میں تپ کرکندن ہوجاتا ہے تب وہ عشق حقیقی کی طرف بڑھتا ہے۔ راسخ کے وہ اشعارملاحظہ فرمائیں جن میں تصوف کی جھلک ملتی ہے   ؎

مجکو دیوانہ بنا گلیوں میں پھروانا نہ تھا

پردہ کرنا تھا تو پہلے جلوہ دکھلانا نہ تھا

 

دھواں آہوں کا پہنچے آسماں تک

محبت آتش افگن ہو یہاں تک

راسخ کاکلام کئی اعتبارسے اہمیتوں کاحامل ہے ان کی زبان صاف ستھری اور سہل ہے کہیں کہیں پرانے طرز کی اُردوکی وجہ سے ثقالت اور بھاری پن کااحساس بھی ہوتا ہے۔لیکن ان کے کلام میں ایسے اشعارکثرت سے ملتے ہیں جن میں شستہ، آسان، دلکش انداز و اسلوب اور زبان کا استعمال ہوا ہے۔جن کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاری روبہ رو باتیں کررہا ہو۔اشعارملاحظہ فرمائیں      ؎

کس مسرت سے جی دیا ہوگا

کیا ہوا ہوگا کیا ہوا ہوگا

 

کس طرح یقین آوے مجھے آنے کا تیرے

اِک بار اگر ہاں ہے تو سو بار نہیں ہے

 

جینا دشوار ہو گیا ہے

میرا تو چھری تلے گلا ہے

راسخ نے کبھی کسی شاعرکی ہجو نہیں لکھی جیساکہ اس وقت کا عام رواج تھا کہ ایک شاعر دوسرے کی جو ہلکی سی بات پر کہہ دیتا تھا، ان میں میراورسوداوغیرہ کانام سرِ فہرست ہے لیکن اس ماحول اور عہد میں رہتے ہوئے بھی راسخ نے اس سے اپنے دامن کو محفوظ رکھا۔

راسخ کے کلام میں ایسے اشعاربھی موجودہیں جن میں انسانی و معاشرتی زندگی اور ان میں پیش آنے والی انسانی جبلتوں کا ذکر ہوا ہے۔جس سے اس وقت کی اخلاقی اور معاشرتی زندگی پر بھی روشنی پڑتی ہے    ؎

کیا عہد ہے کہ سچے کو احمق کہے ہے خلق

دانا وہی ہے اب جو کہے سر بسر دروغ

راسخ کے کلام میں نصیحت آموز اور سبق دینے والے اشعاربھی ہیںجن کو اصلاحی بھی کہہ سکتے ہیں    ؎

وہ سعی کر کہ تجکو حاصل ہو دولت دیں

منعم متاعِ دنیا، کتنی ہے، کس قدر ہے

 

کورانہ، نہ طے کیجو راہِ طلب یار

ہاں دیکھیو پامال کوئی خار نہ ہووے

راسخ عظیم آبادی کے اشعارمیں صنائع بدائع کااستعمال بھی خوبصورتی کے ساتھ آب و تاب سے ہوا ہے۔ان کے یہاں ایک ہی جگہ آمداورآوردکی عمدہ مثال دیکھنے کو ملتی ہے      ؎

ترے ہاتھوں ارباب دیں خوار ہیں

ترے ہاتھوں تسبیحیں زنار ہیں

 

وہ آزاد مردِ خرد مند تھا

کہ دام محبت کا پابند تھا

راسخ کے یہاں گوشت پوست کے محبوب کی محبت کاپاکیزہ بیان اوراس کی بے اعتنائی، دلکشی،دلفریبی، شوخی اور نزاکت کے ساتھ ساتھ اس کی اداؤں اورشوخیوں کی خوش نمائی کابھی بیان خوب ہوا ہے۔ان کے یہاں میرکی طرح آنسواوررونے دھونے کابھی ذکر ملتاہے۔ مثلاً       ؎

یہ کم کم دیکھنا بھی اِک ادا ہے

حجاب آمیز شوخی، خوش نما ہے

 

نہ تارِ پیرہن زنہار بھاویں

مجھے آنسوؤں کے تار بھاویں

جگہ جگہ تعلّی کی مثالیں بھی ملتی ہیں  جن میں انھوں نے اپنے اشعارکو میرکے بعد عمدہ اشعار گردانا ہے۔ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ راسخ عظیم آبادی خود کو میر کاوارث مانتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ میرتقی میرچونکہ استاد تھے اسی لیے استاد کا رنگ شاگرد (راسخ) کے کلام پر چھا گیا ہے اور وہ خود کو میر کے بعد سب سے اہم شاعر گردانتے ہیں۔اشعار دیکھیے        ؎

ہیں میر گزشتہ کے بدل حضرت راسخ

اب ان کو سلامت رکھے اللہ تعالیٰ

 

زندہ ہے نام میر راسخ سے

کون ہے شاعروں میں ایسا آج

راسخ کو اپنے اہل وطن سے بھی شکایت ہے ان کاماننا ہے کہ ان کی قدر جس طرح ہونی چاہیے تھی اس طرح نہیں ہوئی ہے اور ان کی تربت بھی ایک چادر کوترس رہی ہے۔ ایسالگتا ہے کہ شایدشادنے انھیں کاروناروتے ہوئے پردہ پوشان وطن سے شکایت کی تھی۔ چنانچہ وہ متعدد اشعارمیں اس بات کی شکایت اہلِ وطن سے کرتے ہیں جن میں زبان حال سے ان کی بے اعتنائی کا شکوہ ہے      ؎

نظر والے نہیں ہیں درمیاں اب

کریں عرضِ ہنر جاکر کہاں اب

ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ راسخ کافکری اور فنی دائرہ محدود نہیں تھابلکہ وہ ایک وسیع کینوس کے شاعر ہیں۔وہ بیک وقت اپنے اشعارکے ذریعے کئی معرکے سر کرتے چلتے ہیں۔ ان کے سینے میں دھڑکتاہوا دل ہے،تو ساتھ ہی اس دل میں سارے جہان کا دردبھی موجود ہے۔ ان کے کلام میں زبان اور بیان کی صفائی ہے تو موسیقی سے شغف کی وجہ سے اشعارمیں نغمگی، تازگی اورروانی کا بھی بھرپورامتزاج ہے۔عروض اور بلاغت پر دسترس ہونے کی وجہ سے وہ بہترین آہنگ کی بحروں کا استعمال کرتے ہیںاوراسی کی مناسبت سے عمدہ الفاظ کا انتخاب بھی کرنے میں پیچھے نہیں رہتے۔وہ ایسے ایسے خوبصورت الفاظ کا استعمال فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زبان و بیان پر انھیں غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔

 

Imamuddin Imam

Research Scholar

Deptt. of Urdu

University of Delhi

Mob.- +91 62061 43783

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں