نشاط کلکتہ سے تقریباً
36 کلومیٹر کی دوری پر نواحی علاقہ کانکی نارہ ہے۔ دریائے ہگلی کے دونوں کناروں پر
متعدد جوٹ ملوں کے قائم ہونے کے بعد یہاں کی بستیاں دھڑلے سے آباد ہوئیں۔لگ
بھگ47.57 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہواکانکی نارہ بھی ان ہی بستیوں میں سے
ایک ہے۔ کانکی نارہ علم و ادب کی رو سے بھی ایک زرخیز علاقہ رہا ہے۔ اس سر زمین کو
جید عالم دین مولانا یعقوب رحمہ(وحیدعرشی کے سگے نانا)، مولوی حبیب الرحمن، مولوی
عظیم الدین(ابتدائی کانکی نارہ حمایت الغربا ہائی اسکول میں فارسی کے استاذ)،
مولوی عظیم الدین(اردو کے استاذ اور کھولا مسجد کے پیش امام)، مولانا حسین احمد
مدنی کے شاگرد مولوی محمد حنیف(وحید عرشی کے والد بزرگوار)، وحید عرشی کے
برادر کبیرپروفیسرخواجہ مجیب الحق ( دارجلنگ گورنمنٹ کالج اور مولانا آزاد کالج
کلکتہ میں فلسفہ کے پروفیسر)،بنگال کے اولین ناول نگار محمد بشیرالدین ظامی
اورعامل عالم دین مولانا عبدالحمید قاسمی رحمہ جیسی قدآور علمی و ادبی شخصیات نے
اپنے لہو سے سینچا۔
مغربی بنگال کے ضلع شمالی چوبیس پرگنہ میں اسی کانکی نارہ- نارائن
پور کی سر زمیں پر خواجہ خانوادے میں ایک ہونہار بچے نے 27؍ستمبر 1943 کو غلام ہندوستان میں جنم لیا۔ مگر ذہنی غلام نہیں رہا۔
قلم کی طاقت پر اپنے قلمی نام وحید عرشی سے اپنی منفرد شناخت بنائی جب کہ کانکی
نارہ نیابازار کو اپنا مسکن بنانے والے ان کے والدین مولوی محمد حنیف و زبیدہ
خاتون نے ان کا اصل نام خواجہ وحید الحق رکھا تھا۔ یاد رہے کہ ان کی وفات 3؍ فروری 1986 کو ہوئی۔ موت کی وجہ جرسام(پھیپھڑے میں پانی کا آ جانا)
نامی بیماری ٹھہری۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ موصوف بے ثبات زندگی کی صرف 43
بہاریں و خزائیں ہی دیکھ پائے ہوں گے۔ واضح ہو کہ دنیا کی ادبی تاریخ میں ایسے کئی
ادیب اور شاعر گزرے ہیں، جنھوں نے کم عمری میں نام کمایا لیکن جلد ہی دارِ فانی سے
حیات ِ جاودانی کی جانب کُوچ کر گئے۔ انگریزی ادب کے بعض بڑے نام مثلاً جان کیِٹس،
شیلے، ایملی برونٹے اور لارڈ بائرن ایسے فن کاروں میں شامل ہیں جنھوں نے نوجوانی
ہی میں اپنا لوہا منوا لیا تھا۔ مگر زندگی نے انھیں زیادہ مہلت نہیں دی۔ جان کیٹس
جیسا بے مثل رومانی شاعر پچیس سال کی عمر میں ٹی بی کا شکار ہوکر دنیا سے چلا گیا۔
شیلے جیسا مفکر شاعر انتیس برس میں اس وقت ڈوب کر موت کی وادی میں اتر گیا جب اٹلی
میں اس کی کشتی طوفان میں پھنس گئی تھی۔ ٹھیک اسی طرح خواجہ وحید الحق کو بھلے ہی
زندگانی نے طویل مہلت نہیںدی مگر انھوں نے اسی قلیل مدت میں اپنی علمی و ادبی
خدمات سے بہت کچھ ثابت کیا۔ مثال کے طور پر صاحب کتاب شاعر و ادیب زماں قاسمی اپنے
مضمون بہ عنوان ’وحید عرشی: بحیثیت نثر نگار‘ میں یوں رقم طراز ہیں:
’’ تاریخی مجلہ ’آکاش پتر‘ کے ذریعے انھوں (وحید عرشی) نے کانکی
نارہ اور بھاٹ پاڑہ کی پرانی تاریخ اور اس زمانے کی ادبی، سماجی اور سیاسی
سرگرمیوں سے روشناس کرایا۔ جو یقیناایک کارنامہ ہے۔‘‘
(وحید شناسی، مرتب: محمد طیب نعمانی،ص:31)
کانکی نارہ حمایت الغربا ہائی اسکول سے وحید عرشی فارغ ہوئے تھے۔
انھوں نے اسی اسکول میں تقریباََ اٹھارہ 18 سالوں تک پڑھایا بھی۔ خواجہ وحید الحق
1959 میں میٹرک کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔ 1962 میں آئی اے اور بی
اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد 1968 میں کلکتہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) میں
فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرتے ہوئے گولڈ میڈل کے حقدار بنے۔ اب تک کی تحقیق کے
مطابق کلکتہ کے اطراف کے اضلاع کا پہلا (اردو میڈیم میں) گولڈ میڈلسٹ خواجہ وحید
الحق ٹھہرائے گئے۔ واضح ہو کہ موصوف جس وقت کلکتہ یونیورسٹی سے اردو میں پوسٹ
گریجویشن کر رہے تھے۔ اس وقت کلکتہ یونیورسٹی میں صدر شعبۂ اردو محترم
پرویز شاہدی تھے۔ اس لحاظ سے وہ پرویز شاہدی کے بھی شاگرد ٹھہرے۔
وحید عرشی کل وقتی طور پر مذکورہ اسکول میں تدریسی فرائض کی ذمہ داری
نباہ ہی رہے تھے مگر اپنے بڑے بھائی پروفیسر خواجہ مجیب الحق (پروفیسر مولانا
آزاد کالج، کلکتہ) کے نقش قدم پر چلنے کی سعی میں مصروف ِ عمل ہوئے۔ لہٰذا 1975
میں گھر سے چالیس 40 کلومیٹر دور بھوانی پور ایجوکیشنل سوسائٹی (کالج)، کلکتہ میں
اردو شعبے کی بنیاد رکھنے والوں کے ساتھ ہو کر تگ و دو کرنے والوں میں شریکِ عمل
ہوئے۔نیز فروغِ اردو کے لیے شمعِ اردو جلانے کی غرض سے متذکرہ کالج میں اردو شعبے
کے قیام کے لیے ہائر سکنڈری اسکول کی اپنی کُل وقتی سرکاری ملازمت کی قربانی دے کر
بھوانی پور کالج میں جز وقتی لیکچرار کے عہدے کو گلے لگایا۔
تنگ نظر نیز وسیع نظر لوگ انھیں کسی بھی آنکھ سے دیکھیں اور کسی
زاویے سے پیش کریں مگر اردو کی محبت میں مستقل ملازمت کو چھوڑ کر عارضی کو اپنانا
نیز آدھی سے بھی کم تنخواہ پر گھرسے چار قدم کی روزی کو چھوڑ کر روزانہ چالیس
کلومیٹر دور کی مسافت کو گلے لگا لینا ایک قابل غور اور لائق ِ تحسین اقدام کو
ظاہر کرتا ہے۔ اس قدر ایثار کا جذبہ معدودے چند اشخاص میں ہی ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگ
کچھ الگ کر دکھاتے ہیں۔ مگر ان کے حصے میں جو مصائب کا پہاڑ ہوتا ہے، ماضی کی
فراوانی کے فوراً بعد حال میں جو قلت ہوتی ہے، اس کا قیاس لگانا قطعی آسان نہیں
ہے۔ حال کے متاعِ غم کے سبب جب ماضی کی خوشگوار یادیں پکارتی ہیں تو کیسا کرب جسد
ِ خاکی کے دل و جاں پر گزرتا ہے، اندازہ کریں۔ اوپر بیان کی گئی باتوں کے منظر اور
پس منظر میں اپنے تخیلات کو وحید عرشی جیسا حساس شاعر شعری لبادے میں یوں کہتا
ہے ؎
راہ ِ منزل چھوڑ دیتا ہوں ہمیشہ اس لیے
مل گئی منزل تو جہد ِ زندگی مر جائے گی
کیسے سناؤں غم کی کہانی سانسوں پر ہے بار بہت
ماضی کہتا ہے، کہہ جاؤ، حال کو ہے انکار بہت
وحید عرشی کثیر الجہات شخص تھے۔ وہ بیک وقت ایک کامیاب شاعر، افسانہ
نگار، نثر نگار اور معلم ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مصور بھی تھے۔ لکڑی پر
بنائی گئی غالب و ٹیگور کی تصویریں، لکڑی پر کندہ کرکے ریڈیو کا نقشہ، اپنے دستخط
کا ابھارا ہوا نقشہ اور پتھر کو تراش کر بنائی گئی تصویریں بین ثبوت ہیں۔وحید عرشی
کے اندر ایک ساتھ کئی فنکار سانس لے رہے تھے۔مزے کی بات اور عش عش کا مقام ہے کہ
موصوف نے اپنے اندر کے اُن سارے فن کاروں کو مساوی اختیار دے رکھا تھا۔ معلمی سے
ذرا سی فراغت ملنے پر برش اٹھا لیتے اور قرطاس ِ ابیض پر اپنے خیالات کو رنگین
نقوش کے ساتھ ابھار دیتے۔ جب چاہتے مٹی کو اظہار کا ذریعہ بنا ڈالتے۔ مزید برآں
تجسّس، جنون اور اپنی لگن کو لکڑی، مٹی اور پتھروں کی زبان بنا لیتے۔ بے کار پڑے
پلاسٹک کو اٹھا کر دیدہ زیب بٹن بنا دیتے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں تھا۔ جس طرح
جگدیش چندر بوس پودوں سے باتیں کرتے اسی طرح وحید عرشی بھی رات گئے جب کبھی نیل
گگن پر تاروں کی بارات نکلتی تو اپنی فکر، آہنگ اور آسماں خیال سے ان کے ساتھ
بھی محو گفتگو ہوجاتے، نیز احساسات کو قرطاس پر بکھیرنے کے لیے پھر برش رکھ کر
اپنا قلم اٹھا لیتے۔ خیال رہے کہ موصوف نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔
کم عمری میں وفات کے باعث ان کی شاعری کے خزینہ میں شعری افراطِ زر نہیں ہے تاہم
جتنا کچھ ہے وہ قیمتی سرمائے سے کم بھی نہیں ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کی تعداد
کم ہونے کے باوجود اپنے اندر گہری معنویت رکھتی ہیں۔ وحید عرشی کی شاعری سے
افہام و تفہیم، مضبوط ربط، شگفتگی اور سلیقگی کا بھر پور عکس عیاں ہوتاہے۔ اس کے
علاوہ ان کے اشعار میں منفرد آہنگ، اسلوب، انوکھا خیال ا ور حسن ِبیان ملتا
ہے۔ساتھ ہی ساتھ سلاست کا بھی احساس ہوتا ہے۔ دلیل کے طور پر وحید عرشی کے اشعار
سے محظوظ ہوں ؎
کس کو کہیے گا خرد اور کس کو کہیے گا جنوں
اِک خودی نا آشنا، اِک بے خودی میں مبتلا
دل کا سارا درد سمٹ آیا ہے میری پلکوں میں
کتنے تاج محل ڈوبیں گے پانی کی ان بوندوں میں
وحید عرشی کے چند اشعار اور ملاحظہ فرمائیں:
بحر غم دوراں میں اک اک چیز تمہاری پھینک دی میں نے
یاد مگر بن بیٹھی ساحل ، ڈوب سکی نہ موجوں میں
ٹوٹا ماضی کا آئینہ ، بکھری یادوں کی کرچیں
زخمی ہیں احساس کے تلوے، چلنے سے بیزار بہت
بے اختیار آج بھی آنسو نکل پڑے
کیسے تجھے بھلانے کی کوشش کرے کوئی
’یادوں کا زنداں‘ وحید عرشی کا اولین شعری مجموعہ ہے، جس کو موصوف کی
موت کے بعد دہلی کے ذاکر نگر میں مقیم معروف شاعر و ادیب کمال جعفری(آل انڈیا
ریڈیو دہلی میں پروگرام ایگزیکٹیو) نے سال 1991 میں مرتب کیا تھا۔ اس کتاب میں
غزلیں، قطعات، متفرق اشعار کے علاوہ نظمیں بھی ہیں۔مطالعے کی میز پر کتاب رکھنے کے
بعد معلوم پڑتا ہے۔ 88 اٹھاسی صفحات پر مبنی اس شعری آئینے میں ہم ایک ایسے شاعر
کی تصویر دیکھتے ہیں جس کے سینے میں ایک حساس دل تھا۔ موصوف کی شاعری میں زندگی کے
نشیب و فراز کی کہانیوں کے علاوہ روز مرہ میں واقع ہونے والے ان تمام واقعات کی
روداد ملتی ہے جو ایک فنکار کے فن کو اجاگر کرسکے۔اس مناسبت سے مزید تالیفی کاز
بھیرب گانگولی کالج، بیلگھریا، کلکتہ میں شعبۂ اردو پی جی کے کوآرڈینیٹر محمد
طیب نعمانی نے اپنی مرتب کردہ کتاب’وحید شناسی‘2011کی شکل میں کیا ہے۔
وحید عرشی کی شاعری کو کلاسیکی شاعری کے زمرے میں بھی دیکھا جا سکتا
ہے۔دراصل کلاسیکی شاعری میں درد سے مراد دل کا درد ہے جو عشق میں حاصل ہوتاہے اور
یہی عاشق کا سرمایہ مانا جاتا ہے۔ عمر بھر سوز ِ دل کی حفاظت ہی اس کا مقدر ہوتا
ہے۔ وہ اسے آب پاشی کی مانند سسکیوں اور آنسوؤں سے سینچتا رہتا ہے۔ درد کا یہ
پُراثر بیانیہ شاعری میں دور تک پھیلا ہوا ہے۔ جدید شاعری میں درد کے اوربھی بہت
سے محرکات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ وحید عرشی کی شاعری میں اس کے گہرے نقوش
ملتے ہیں۔اس پیرائے میں چند اشعار ملاحظہ کریں ؎
ترک تعلق سے اک میرا دل ہی نہیں ہے کچھ زخمی
تیر ہوئے ہی ہوں گے تیرے سینے کے بھی پار بہت
بھاگ چلوں یادوں کے زنداں سے اکثر سوچا لیکن
جب بھی قصد کیا تو دیکھا،اونچی ہے دیوار بہت
ایسے کثیرالجہات شخص کی شاعری کا اختصاص وانفراد اس کا اپنا اسلوب
ہے۔ موصوف نے شاعری میں پیشکش سے زیادہ خیال کو ترجیح دی۔ لہٰذا ! باآسانی کہا جا
سکتا ہے کہ جیسی وحید عرشی کی شخصیت منفرد تھی ویسی ہی ان کی شاعری بھی۔ ان کی
شاعری ذاتی تجربے کی بنیاد پر ہے۔ موصوف کی شاعری میں رشتوں کے انتشار کا کرب بھی
ہے اور امید کے روشن چراغ کی لوَ بھی۔ان کی غزلوں کے موضوعات میں’یاد‘ کو مرکزیت حاصل
ہے۔ ایک حساس دل لاکھ کوشش کرلے ان یادوں کے زنداں سے چنداں نہیں نکل سکتا۔’
یادیں‘ وہ اثاثہ ہیں جس سے سکون بھی ملتا ہے اور بے سکونی بھی۔ اور یہ دونوں
حالتیں حساس دلوں پر خوب گزرتی ہیں۔ الگ ڈکشن مزید ندرت خیال و الے وحید
عرشی کے زیر ِ نظر اشعار کے ساتھ اس سلسلے کو یہیں اختصار دے دیتا ہوں:
کس کے جنونِ عشق کا چرچا ابھی سے ہے
سمٹی ہوئی جو وسعت صحرا ابھی سے ہے
بہرِ تسکین، خاطرِ ناشاد
تم تصور ہی میں چلے آو
ارماں کے تابوت میں جب میں وقت کی کیلیں گاڑ چکوں گا
پھر جب بھی تم یاد آؤ گے بہہ جاؤ گے اشکوں میں
وحید عرشی اپنی تمام تر ہمہ گیریت کے ساتھ ایک اچھے نثار بھی تھے۔ ان
کے مضامین میں بھرپور روانی، برجستگی، شگفتگی اور انوکھاپن کے ساتھ غنائیت بھی ہے۔
کم عمری میں وفات پانے والے معروف و مقبول شاعر وکیل اختر پر ان کی خامہ فرسائی بہ
عنوان ’بجھے لمحوں کی یاد‘ پڑھنے سے بہت کچھ ظاہر ہوتا ہے۔ موسیقی سے بھی انھیں
خاصا شغف تھا۔ ایک جانب وحید عرشی کامرس کے طالب علموں کی خاطر کمرشیل الفاظ کی
ڈائریکٹری تیار کر رہے تھے تو دوسری جانب ’ترجمہ اور اس کا فن‘ نامی کتاب کی تصنیف
میں ہمہ تن مصروف تھے۔ گردش ِزمانہ کب کس کا ہوا ہے۔ وقت نے حیات کا دامن کسا اور
مالی تنگیوں نے شکنجہ۔ لہذا سب دھرا کا دھرا رہ گیا۔ موصوف شاعری، افسانہ نگاری
اور مضمون نگاری میں ایک فلسفی سے تھے ہی۔ وہ معاشرے میں بلا امتیاز سبھوں کے ساتھ
میل ملاپ رکھتے۔ دکھوں میں لوگوں کے ساتھ رہتے۔لہٰذا معاشرے میں وحید عرشی ایک
اچھے فنکار ہی نہیں بلکہ ایک اچھے انسان بھی تھے۔
Ali Shahid Dilkash
Coochbehar Govt
Engineering College
Vill: Harinchawarh
Po.: Ghughumari- 736167
Mob. No.: 8820239345
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں