منطقی لحاظ سے اس مفروضے
کو ردّ کر نے میں کوئی کلام نہیں کہ مرد صاحبِ فہم ہے اور عورت ناقص العقل۔ دونوں میں
ہر طرح سے مساوی خوبیاں اور خامیاں موجود ہیں۔ عورت کو جس معاشرے میں مساوی حقوق نہیں
ملے، اس معاشرے میں مذہب او رمعاشرت کے حوالے دیے گئے۔ ظاہرہے یہ حوالے یا واسطے مردحضرات
ہی نے دیے۔ مرد اساس معاشرے میں سماجی رسوم اور صحائف میں عورتوں کے تعلق سے بیان کی
روشنی میں مردعالموں کی یک رخی تصویر وتعبیر نے اسے کم فہم، کم زور، کم حیثیت، کم علم
اورکم ظرف ثابت کرنے میں مسلسل کوشش کی۔ یہ کوششیں صدیوں تک کامیاب رہیں، نتیجتاً عورت
گھر کے حصار میں قید ایک مظلوم کی طرح زندگی کے فرائض انجام دیتی رہی۔اس کی مظلوم والی
تصویر ہی ادیبوں کو بھی پسند آئی۔وہ نذیر احمد ہوں کہ رشیدۃ النسا بیگم،راشد الخیری
ہوں کہ پریم چند، کسی کی تخلیقات میں عورت
مرد کے ہم پلہ نظر نہیں آئی۔یہ سلسلہ عبّاسی بیگم ’گرفتار قفس‘ (1915)، نذر سجاد حیدر’خونِ
ارمان‘ (1915)، آصف جہاں ’شش و پنج‘
(1915)، انجم ارا ’ریل کا سفر‘ (1915) یا پھر
امت الوحی کا افسانہ’شا ہد وفا‘ (1927) تک تقریباً ایک ہی نہج پر جاری و ساری رہا۔
البتہ حجاب امتیاز علی اپنی والدہ عبّاسی بیگم یا مذکورہ دیگر خواتین افسانہ نگاروں
کے مقابلے مختلف و ممتاز نظر آتی ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ ان کے افسانوں میں رومانیت
کا غلبہ اور دیگر علوم کے معاملات کو مشرقیت کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے برتنے کا رویہ
بھی ملتا ہے،ورنہ تو رومانی افسانہ نویس خواتین میں زبیدہ سلطان، سعیدہ عبدل،سعیدہ
بزمی، نجمہ انوار الحق نے بھی متعدد رومانی افسانے لکھے۔ اسی طریقے سے فلمی اداکاراؤں
میں خورشید، کنیز فاطمہ عرف نر گس، منورما اور روشنی آرا عرف حسنہ بانو نے بھی رومانی
افسانے لکھے۔ یہاں تک افسانوں میں عورت کی شبیہ چھوئی موئی سی تھی۔
رشید جہاں پہلی افسانہ
نگار ہیں جن کا تیور باغیانہ تھا۔ ان کا تیکھا انداز افسانہ ’سودا‘ میں اپنی معراج
پر نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں اب شکیلہ اختر کا ذکر خال خال ہی ہوتا ہے لیکن چالیس کے
دہے میں انھوں نے افسانہ نگاری کو مختلف رنگ و ڈھنگ اور انداز و آواز سے روشناس کروایا۔
درپن، آنکھ مچولی، ڈاین اور’آگ میں پھول‘ ان کے افسانے بھی ہیں اور افسانوی مجموعے
بھی۔ان کے علاوہ کچے دھاگے، سہاگ، سڑک پر، بن تتلی، آنکھ مچولی، آخری سلام ایسے افسانے
ہیں جن میں عورت کے مسائل و معاملات اورسماجی حقیقت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ خواتین
افسانہ نگاروں میں رضیہ سجاد ظہیر کو بھی فراموش کرنا ادبی بددیانتی ہوگی۔رضیہ سجاد
ظیہر سماجی نا انصافی کے خلاف بغاوت کرنے اور بغاوت کو ظاہرکرنے کے لیے افسانہ نگاری
کو ذریعہ بنانے والی خاتون تھیں۔ ان کے مشہور افسانوں میں نیچ، معجزہ، لنگڑی ممانی
اور ’نئی نویلی‘ کا شمار ہوتا ہے۔ اب تک کی خواتین افسانہ نگاروں میں رشید جہاں اپنے
باغیانہ طریق اور مستورا تی بے با کی کی بنیاد پر ہر چند کہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں
لیکن عصمت چغتائی ان معاملات میں لا ثانی تسلیم کی جاتی ہیں۔گو کہ ان کی افسانہ نگاری
کا آغاز بھی خالص بلکہ روایتی رومانیت کے زیر اثر ہی ہوا لیکن بہت جلد وہ ترقی پسند
نقطۂ نظر اور اشتراکی فکر کی نمائندگی کرنے لگیں۔عصمت چغتائی نے ہندوستانی معاشرے
کی نبض پر انگلیاں کچھ اس طرح رکھیں کہ اپنے عہد کی سب سے اہم نباض ثابت ہوئیں۔ عصمت
آپا کا صرف لہجہ ہی باغیانہ نہیں تھا، صرف تیور بیباک نہیں تھے،صرف مستورا تی لسانی
کلیشے پر گرفت نہیں تھی بلکہ ان میں وہ جرأت رندانہ بھی تھی جس کا استعمال انھوں نے
مرد اساس معاشرے میں گھروں کے اندر کی غلاظت کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ مرد کے اذہان
کی گندگی کو بھی سامنے لانے کی غرض سے کیا۔ لحاف، چھوئی موئی، جڑیں، ننھی کی نانی،
دوہاتھ، پہلی لڑکی اور ’چوتھی کا جوڑا‘ ان کے شاہکار ہیں۔
اب تک کے سر سری محا
کمے کی روشنی میں یہاں دو مختلف تخلیقی رویوں کی جانب اشارہ کرنا مناسب ہوگا۔ ایک غالب
رویہ تو یہ تھا کہ عورت کو مشرقیت، ہندوستانیت اور مذہبی تقدس کے نام پر ایسے کردار
کی صورت میں پیش کیا گیا جو ردّ سے ناواقف، قبول کی پرستار ہے،جو بیباک گویائی پر خاموشی
یا پھر دبی دبی، گھٹی گھٹی مریل آوازیں کچھ باتیں عرض کرنے کو‘ تہذیب سمجھتی ہے۔ اس
طرح کی عورتوں کو کردار بنانے والی خاتون افسانہ نگاروں میں رشیدۃ النسا بیگم، عباسی
بیگم، نذر سجاد حیدر اور حجاب امتیاز علی کو اولیت حاصل ہے۔ان افسانہ نگاروں کی تخلیقی
قوت پر شبہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ خواتین افسانہ
نگار ڈپٹی نذیر احمد اور راشدالخیری کے زیرِ اثر اصلاحی اور رومانی افسانے لکھنے پر
اکتفا کرتی رہیں۔ انھوں نے روایت سے بغاوت کی جرأت نہیں کی بہ الفاظ دیگران میں Poetics of disobidiance کا خاصا فقدان تھا۔ان
روایتی طرز کی افسانہ نگار خواتین کے مقابلے رشید جہاں اور عصمت چغتائی نے تخلیقی فرمانبرداری
کے مقابلے نافرمانی، سرکشی اور بغاوت کو اپنا شیوہ بنایا۔ اس معاملے میں عصمت چغتائی
تو آخری دم تک ثابت قدم رہیں۔ان کا یہ باغیانہ رویہ ان کی عملی زندگی میں بھی متحرک
رہا اور تخلیقات میں بھی۔ ان کی خودنوشت ہو کہ ان کی خاکہ اور افسانہ نگاری، ہر جگہ
وہ زبان و بیان (Naration) اور کردار
کی شبیہ سازی میں خوف اور کمتری کے احساس کی روایت سے بغاوت کرتی نظر آتی ہیں۔ عصمت
کی روایت بلکہ ان کے تخلیقی رویوں سے مشابہ رویہ اختیار کرنے والی افسانہ نگاروں میں
شکیلہ اختر،صغریٰ مہدی، جیلانی بانو، ہاجرہ مسرور، بشریٰ رحمن، واجدہ تبسّم اور غزال
صیغم اہمیت کی حامل افسانہ نگار ہیں۔ مذکورہ افسانہ نگاروں کے مقابلے جن خواتین افسانہ
نگاروں نے عورت یا یوں کہیں کہ گھر میں رہنے والی عورت کے علاوہ گھر کے باہر مختلف
قسم کے مسائل اور Struggle سے دوچار
ہو رہی عورتوں کو افسانوں کا مرکز بنایا ان میں ظاہر ہے کہ قرۃ العین حیدر ایک لیجنڈ
کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے طویل افسانوں یا ناولٹ کے علاوہ مختصر افسانوں میں بھی عورت
اپنے ثقافتی ربط و تعلق اور داخلی کیفیت و افکار کی بنیاد پر زیادہ تہہ دار، بردبار،
مضبوط اور رکھ رکھاؤ والے وجود کی مالکن نظر آتی ہیں سیتا ہرن، اگلے جنم موہے بیٹیا نہ کیجو، چائے کے
باغ، پت جھڑ کی آواز، کار من کی عورتیں مضبوط ارادے کی مالکن ہیں۔ وہ سہارے تلاش کرنے
یا کسی مرد کے سہارے زندگی کا سفر طے کرنے کے بجائے "Self dependent" ہیں۔ دوسری بات ان
کی زبان مستورا تی ذخیرۂ الفاظ، روز مر و ں، صرفیاتی تعمیر کی پابند ہیں۔
ظاہر ہے کہ ساٹھ سے
اسّی کے اوائل تک کی خواتین افسانہ نگاروں پر بھی جدیدیت کا اثر رہا لہٰذا انھوں نے
بھی ترقی پسندوں کے بر عکس خارج کے مقابلے داخل اور اجتماعیت کے بر عکس انفرادیت کو
قابلِ قبول سمجھا لیکن 80 کے دہے میں جدیدیت سے ایک قدم آگے بڑھ کر مابعد جدیدیت،
نسائیت اور آزادانہ تخلیقی طریق کے تحت افسانہ لکھنے کا چلن زیادہ مقبول ہوا۔ اس ضمن
میں ذکیہ مشہدی، ترنم ریاض، عذرا نقوی، نگار عظیم، تسنیم کوثر، غزال ضیغم، شائستہ فاخری،
ثمینہ سید،شہیرہ مسرور، بانوسرتاج، ثروت خا ن اورصادقہ نواب سحر کاذکرکرنالازماًہوگا۔
80 کی دہائی
میں جو نام ابھر کر آئے ان میں افسانہ نگاری کے طریقۂ کار کو لے کر ایک مشترک بات
یہ ہے کہ اس نے معاشرے اور قاری سے اپنا رشتہ استوار کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا
جا سکتا ہے کہ جدیدیت نے تجریدی، علامتی، وجودی اور خالص داخلی یا فر د کے احساس پر
مشتمل افسانے کی جو بنا رکھی تھی اس سے بڑی حد تک انحرافی رویہ اختیار کیا گیا۔ دوسری
بات یہ کہ کرداروں کی نمائندگی کے مقابلے تھیم اور بیانیے پر زیادہ توجہ دی گئی۔تیسری
بات عصری معاملات ومسائل کے سماجی، سیاسی،اقتصادی، نفسیاتی، صنعتی،صارفیتی،تہذیبی مسائل
ومعاملات سے متعلق تیز رفتار تبدیلی اورسائنسی ایجادات کے ساتھ ساتھ انسانوںکی مشینی
طرزِزندگی کوموضوع کے طورپر کثرت سے برتاگیا۔
انسانوں کے بدلتے آدرش
اور ایک نئی دنیا خلق کرنے کی دھن میں ضروریات پر Luxary اشیا حاصل کرنے کے جنون کو زندگی کے اہم مقاصد
میں شامل کر لیا گیا۔ گویہ اس عہد میں خواتین افسانہ نگاروں نے موضوعات، تکنیک، اسلوب
اور بیانیے کی سطح پر فیشن کے بجائے فطرت کے قریب جاکر افسانے خلق کیے۔ ان میں ایک
بہت اہم نام ذکیہ مشہدی کا ہے۔ گوکہ ذکیہ مشہدی 80 کی دہائی سے پہلے بھی لکھتی رہیں
اور فی الحال بھی لکھ ر ہی ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ خود کو دہرانے سے محفوظ رکھنے
کا جتن کرتی رہتی ہیں۔ انھوں نے افسانہ ’ بکسا‘
میں ایک ایسی ما ں کی شبیہ کو اکیرا ہے جو اپنی وصیت میں گھر کی مرمت کو ہی فوقیت دیتی
ہے۔ظاہر ہے کہ وہ روایتی فکر کی ماں ہے لیکن ذکیہ کی لسانی پختگی اور بیانیے پر قدرت
نے اس میں ایک نوع کی تازگی پیدا کر دی ہے۔ تقریباً یہی اوصاف ’پرائے چہرے‘، ’تاریک
راہوں کے مسافر‘ اور ’ صدائے باز گشت‘ جیسے افسانوں میں بھی موجود ہیں۔ذکیہ مشہدی کا
سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ معمول کے واقعات کو جادوئی حقیقت نگاری کے دائرے میں شامل
کر دیتی ہیں۔ ذکیہ مشہدی کے بعد جس خاتون افسانہ نگار پر نظر ٹھہرتی ہے وہ ترنم ریاض
ہیں۔’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘ سے ان کو بڑی شہرت ملی حالانکہ اس مجموعے سے پہلے ’ ننگ
زمین ‘ کے نام سے ان کا افسانہ اور اسی نام سے مجموعہ منظر عام پر آچکا تھا لیکن اس
مجموعے میں شامل افسانے فنی پختگی کے لحاظ سے نسبتاًکچّی مٹی کے بت ثابت ہوئے تھے البتہ
’ یمبر زل‘ (2004) اور’میرا رخت سفر‘ (2008) میں ان کے شعور کے ساتھ ساتھ ان کا اسلوب
اور فنی سروکار بھی پختہ نظر آئے۔ ترنم ریاض بھی اپنی تمام تر آزاد خیالی کے باوجود
اکثر گھر، خاندان اور عورت کے مختلف رشتوں پر ہی توجہ مرکوز کرتی رہیں۔ عورت کو ذات
کی حیثیت سے برتنے میں ان کی دلچسپی بڑی حد تک مایوس کن رہی ہے۔
ترنم کے مقابلے میں
ثروت خا ن نے عورت کو ازدواجی حصار سے آزاد کرکے بھی پرکھنے کی کوشش کی ہے۔وہ عورت
کی مشرقیت، اس کے عورت پن اور اس کی نفسیات کے علاوہ اس کی تہذیب کو بھی خاطر میں لانے
کی خوگر نظر آتی ہیں۔ ان کا مجموعہ’ذروں کی حرارت‘ میں شامل افسانہ’میں مرد مار بھلی‘
عورت کی پابندی و آزادی کا بہترین نمونہ ہے۔جس طرح ذکیہ مشہدی نے بہار، ترنم ریاض
نے کشمیر اور ثروت خان نے راجستھان کے سماجی اور تہذیبی تناظر میں وہاں کی عورتوں کا
جائزہ لیا ہے اسی طریقے سے نگار عظیم، ثمینہ سید اور شائستہ فاخری نے اپنی توجہ کاسمو
پولیٹین شہروں پر دی ہے لیکن ان کا سابقہ جن کلاس کی عورتوں سے زیادہ پڑا وہ متوسط
طبقے ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ ان کے یہاں بھی عورت گھر، خاندان اور
رشتے ناطے کے حصار سے آزاد نظر نہیں آتی۔البتہ یہ جب شہری زندگی کے مسائل پیش کرتی
ہیں تو ان عورتوں کے تیور قصبات کی عورتوں سے مختلف ضرور نظر آتے ہیں۔مثلاً ثمینہ
سید نے جس طریقے سے honour
killingجیسی
سماجی بلکہ Genetic بیماری
کو ’بی بی حجرے والی‘ میں برتا ہے اس سے معاشرے اور فرد کو دیکھنے کے تعلق سے ان کے Microscopic ہنر کا انداز ہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ تقریباً
ایسا ہی بے باک اور قدرے مزاحمت آمیز رویّہ تبسّم فاطمہ نے افسانہ’حجاب ‘ میں اپنایا
ہے۔اس افسانے میں honour
killing کی
بجائے بدلتی ہوئی دنیا اور تبدیل ہوتے رویوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔لیکن اس افسانے
کا راوی ہی ایک ما ں کے کردار میں ہے جو بہت سارے سوالات قائم کرنے کی جرأ ت رکھتی
ہے۔80 کی دہائی میں ایک دھیمی دھیمی آنچ پر زندگی کے معاملات و مسائل، خاص کر عورت
کے تمام تر پہلوئوں کو حدت و حرارت کے ساتھ پیش کرنے والی افسانہ نگار، نگار عظیم نے
اپنے مجموعے ’ عکس‘، ’ گہن‘ اور ’عمارت‘ میں شامل افسانوں کے ذریعے عورت کے رشتوں میں
پرو کر بھی دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے اور آزادانہ طور پر بھی پرکھا ہے۔ وہ
غزال ضیغم کی طرح Loudness یا تبسم
فاطمہ کی طرح شدید بغاوت کی قائل نہیں ہیں۔ جس طریقے سے غزال ضیغم ’نیک پروین‘ میں
شوہروں کی اقسام بتاتے ہوئے انھیں ’بل ڈاگ‘ جرمن شیفرڈ، السیشین، گرے ہانڈ، پامیرین
اور دیسی کتوں سے تشبیہ دیتی ہیں اس طریقے کے اظہار سے نگار عظیم گریز کرتی ہیں۔ جہاں
تک سوال باغیانہ رویے اور احتجاجی آہنگ کا ہے تو تبسم فاطمہ کے یہاں زیادہ بے باکی
اور تیکھے پن کے ساتھ نموپذیر ہوتے ہیں لیکن تبسم فاطمہ، غزال ضیغم کی طرح واقعات بیان
کرنے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ واقعات کو ہوتا ہوا دکھا نا ان کا ہنر ہے۔ ان کا نظریہ
اسلوب انھیں اپنے معاصرین میں ممتاز کرتا ہے۔ البتہ غزال ضیغم تاریخ سے دلچسپی اور
تہذیب سے تعلق کی بنیاد پر قرۃ العین حیدر اور زاہدہ حنا کے تخلیقی رویوں سے قریب ہو
جاتی ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’ ایک ٹکڑا دھوپ‘ میں شامل بیشتر افسانوں، بالخصوص
’بھولے بسرے لوگ‘ اور ’سوریہ و نشی چندر وَنشی‘ میں تاریخ و تہذیب کے دریچے اسی طرح
کھلتے نظر آتے ہیں جس طرح قرۃ العین اور زاہدہ حنا کے یہاں قدرے گہرائی، تہہ داری
اور فنی دبازت کے ساتھ واہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ’ زندہ آنکھیں مردہ آنکھیں‘ اور
’مدھوبن میں رادھیکا‘ کا مطالعہ سود مند ہوگا۔ان افسانوں میں احتجاج کی لویں بغاوت
کے شعلوں میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہیں لیکن جامعیت وتہہ داری کا فقدان بھی اپنی جگہ
قائم رہتا ہے۔
بے باکی، انفرادیت،
احتجاج اور بغاوتی رویوں کے ساتھ ساتھ عورت کی بردباری اور زبان کے محاوراتی بانکپن
کے لحاظ سے جس افسانہ نگار پر ہر با شعور و سنجیدہ قاری کی نظر سب سے زیادہ دیر تک
رکی رہتی ہے وہ واجدہ تبسم ہیں۔ واجدہ کو فحش نگار کہہ کر افسانے کی شعریات سے نابلد
قارئین بلکہ ناقدین نے پڑھا تو خوب، لکھا بہت کم۔ واجدہ نے جس طرح حیدرآباد کی نوّابیت
اور نوابین کے عیش پرستوں کی سفاک و بے باک انداز میں اظہار کیا ہے وہ اندازیا تو عصمت
چغتائی کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے یا پھر مرد افسانہ نگاروں میں منٹو اور شموئل احمد
کے یہاں۔ واجدہ نے نوابین و بیگمات کے روز و شب، عیش و عشرت، جنس پرستی اور جسم و روح
کی خواہشات کو حویلیوں، آرام گاہوں اور کمرے سے نکال کر چوک اور چوراہوں پر لا کھڑا
کیا۔بس یہی ان کا گناہ ہے۔ورنہ تو انھوںنے جس ہنر مندی سے خواتین کے استحصال، ان کی
نفسیات و جنسی ہیجان اور پورے ماحول کی عکاسی کی ہے اس طرح کی تقلید کرنے میں اچھے
اچھوں کے قلم کی روشنائی خشک ہو جاتی ہے۔ اترن،
شہر ممنوعہ، آیا بسنت اور نتھ سریز کے طویل افسانے / ناولٹ کو پڑھ کر ان کی
حدت کی آب تاب لانا سب کے بس کی بات نہیں۔البتہ فنی لحاظ سے مجموعہ ’کیسے کاٹوں رات
اندھیری‘ میںشامل افسانے زندگی میں جنس اورافسانے میں فن کی اہمیت کے عمدہ نمونے ہیں۔واجدہ
بعد میں کچھ زیادہ ہی جذباتی اور راست گوہوگئیں۔
اس محا کمے سے کچھ
ایسانتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ مرد اساس سماج نے انسانی اوصاف کومرد اور عورت کے خانوں
میں تقسیم کرکے صبرو تحمل،محبت و شفقت،اجابت و اطاعت،بے لوث و بے زبانی،پاک دامانی
وقربانی کو عورت سے متصل و مختص کرکے اسے اس شرط پر قابلِ تحسین تسلیم کیا کہ وہ ممتا
کی مو رت بنی رہے گی۔جو عورتیں مرد حضرات اور ان کی ہم خیال مرتبے اور رشتے میں بزرگی
حاصل کرنے والی عورتوں کے مرتب کردہ اصول و ضوابط سے انحراف کریں گی وہ نافرمان، حرافہ،دریدہ
دہن اور بد تہذیب و بد عمل کہلائیں گی۔یہی وجہ ہے کہ اردو فکشن میں عورت ایک آزاد
وجودیا انسان کی بجائے ایک تانیثی وجود یا جنس(Feminine Gender) کی حیثیت سے ہی برتی گئی۔ گویا اس کو ہمارے
فکشن میں ایک اسٹیریو ٹائپ شے کے طور پر برتنے کا رجحان غالب رہا۔ البتہ عصمت چغتائی،قرۃالعین
حیدر، ممتاز شیریں اور واجدہ تبسم نے عورت کو قدرے بے باک، مزاحمتی، نافرمان اور باغی
کی صورت میں بھی پورٹریٹ کیا۔ 1980 کے بعد
تانیثیت کی تحریک کے زیر ِاثر اس کے اطوار و کردار میں تبدیلی آئی اور اب وہ ایک آزاد
وجود کے طور پر سماج کی آدھی آبادی کی قوت بن کر ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اردو
افسانے کے تا نیثی منظر نامے پر سنجیدہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اردو افسانے
میں عورت مغربی تانیثیت یا
White Feminisms کے اثر میں آکر مرد کے خلاف نازیبا حد تک جارحانہ انداز
اختیار نہیں کرتی بلکہ اکثر وہ اپنی بات تہذیب کے دائرے میں رہ کر ہی کرتی ہے یہاں
تک کہ اس کے انکار، اس کی بغاوت، اس کی نافرمانی اور اس کا اندازِ تخاطب عورت پن کے
دائرے سے تجاوز کے قائل نہیں ہیں۔ البتہ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ خال خال
ہی سہی لیکن فیشن کے طور پر مغربی تانیثیت کی تقلید بھی کی گئی ہے۔
بہر حال 80 سے پہلے
یا بعد کی افسانہ نگار خواتین نے اردو افسانے میں عورت کی ذات کے اصرار،انکار، اقرار،
گفتار اور کردار کو بروئے کار لانے میں اہم رول ادا کیا۔ خاتون افسانہ نگاروں کے تخلیقی
تسلسل پرنظر ڈالی جائے تو رشید جہاں سے جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ عصمت چغتائی، قرۃالعین
حیدر، ممتاز شیریں، ذکیہ مشہدی، واجدہ تبسم، نگار عظیم،تبسم فاطمہ، ترنم ریاض، ثروت
خان اور غزال ضیغم تک آتے آتے نہ صرف ایک مضبوط روایت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے
بلکہ معاشرے کی آدھی آبادی کی زندگی اور طرزِ زندگی کی تاریخ بھی بن جاتا ہے۔
Afreen Raza
Research Scholar,Centre for
Advanced Study
Department or Urdu
Aligarh Muslim Univeristy
Aligarh- 202001 (UP)
Email.: afreenraza205@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں