16/2/24

عالمی کتاب میلے میں قومی اردو کونسل اور این بی ٹی کے اشتراک سے ‘ہندوستان کے کثیر لسانی منظرنامے میں اردو تہذیب کی عکاسی’ پرمذاکرہ

نئی دہلی:دہلی کے پرگتی میدان میں جاری عالمی کتاب میلے میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور این بی ٹی(نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا) کے اشتراک سے ۱۵؍فروری کومیلہ گاہ کے تھیم پویلین میں ’ہندوستان کے کثیر لسانی منظرنامے میں اردو تہذیب کی عکاسی‘ کے عنوان سے ایک مجلسِ مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا،جس میں پروفیسر خواجہ اکرام الدین اور پروفیسر کوثر مظہری نے بہ طورمہمان و مذاکرہ کار شرکت کی،جبکہ اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر شفیع ایوب نے کی۔

 مذاکرے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے کہا کہ اردو تہذیب کا مطلب ہے ہندوستانی تہذیب، یعنی کثرت میں وحدت کا نمونہ ۔انھوں نے کہا کہ یہ زبان خالص ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی زبان ہے، اردو کے پہلے شاعر امیر خسرونے جس زبان میں شاعری کی ہے، وہی ہندوستان کا اصل رنگ ہے جو اردو زبان کے رگ و پے میں شامل ہے، خسرو کے بعد دکن اور میر و غالب اور بعد تک کی شاعری میں یہ رنگ بہت نمایاں ہے۔خواجہ اکرام نے کہا کہ ہندوستان جس کثیر لسانی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے، اس کا سب سے بہترین نمونہ اردو ہے۔انھوں نے اردو پر دوسری زبانوں کے اثرات اور ہندوستانی زبانوں پر اردو کے اثرات کو شعری مثالوں سے بیان کیا۔انھوں نے کہا کہ ہندوستان کو سمجھنے کے لیے ہندوستانی زبانوں کو پڑھنا پڑے گا اور ان زبانوں میں  اردو کی سب سے زیادہ اہمیت ہے،کیوں کہ ہندوستان کے تمام تہذیبی مظاہر کی نمائندگی یہ زبان بخوبی کرتی ہے۔

پروفیسر کوثر مظہری  نے کہا کہ اردو زبان کی تشکیل میں تمام قومی زبانوں اور تہذیبوں کی آمیزش رہی ہے، اس زبان میں ہر ہندوستانی زبان کے علاوہ عربی ، انگریزی ، پرتگیزی ، ترکی اور دیگر کئی زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے اردو نثر کی کلاسیکی کتاب’آب حیات ‘کے ایک اقتباس کا خصوصی حوالہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو کی کلاسیکی شاعری بھی لسانی تنوع کی نمائندگی کرتی ہے، بلکہ نثر سے زیادہ شاعری میں ہندوستانی تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔ پروفیسر مظہری نے کہا کہ اردو تہذیب سلیقہ و شائستگی سکھاتی ہے اور یہ بھی اس کی ایک خاص شناخت ہے، ہندوستانی فلموں کو خوب صورتی و مقبولیت عطا کرنے میں بھی اس کا اہم رول رہا ہے۔ آج گرچہ زبان کے استعمال اور اسے برتنے میں گراوٹ آئی ہے، مگر پھر بھی عموما یہی سمجھا جاتا ہے کہ اگر تہذیب اور سلیقہ مندی سیکھنی ہے تو اردو سیکھنی چاہیے۔ 

ہندی اور اردو کے روابط و اثرات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئےانھوں نے کہا کہ یہ دونوں زبانیں سب سے زیادہ ایک دوسرے سے قریب ہیں اور دونوں نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا ہے۔انھوں نے زبانوں میں مشکل پسندی اور ضرورت سے زیادہ شدھی کرن کو نقصان دہ بتایا اور کہا کہ ہمیں اپنی تخلیقات میں ایسی زبان استعمال کرنی چاہیے ،جو آسانی سے سمجھی جاسکے،تاکہ ہم اپنا پیغام وسیع پیمانے پر لوگوں تک پہنچا سکیں۔  اس موقعے پر کونسل کے عملے کے علاوہ بڑی تعداد میں شائقینِ زبان و ادب موجود رہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں