4/3/24

شارب ردولوی کی علمی و عوامی خدمات: موسی رضا

سید مسیب عباس (شارب ردولوی) کا تعلق قاضیان سلطان پور کے خاندان سے تھاجو ہجرت کر کے ردولی آگیا تھا۔ ان کے والد حسن عباس اور دادا غلام حسنین کا شمار بڑے حکیموں میںہوتا تھا۔ خاندانی جاہ وحشمت اور ماں کی شفقت سے محرومی نے شارب ردولوی کی شخصیت میں متانت و نفاست کے ساتھ ساتھ خود داری اور خود اعتمادی بھی پیدا کر دی تھی۔ اسی خود اعتمادی نے انھیں آزادی کے ساتھ فیصلے لینے کی طاقت بخشی۔ چاہے وہ ان کی تعلیم کا مسئلہ رہا ہو یا پھر شادی کا۔ ان تمام امور میں شارب ردولوی کے والد نے ان کی پوری حمایت کی۔ 

پروفیسر شارب ردولوی نے حصول تعلیم کی غرض سے ہاتھرس، سلطانپور، الہ آباداور کانپور کا سفر کیااور آخر کار لکھنؤ کی فضا انھیں راس آگئی اور وہ سلیم پور ہاؤس میں رہ کر اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کرنے لگے۔ یہاں کی فضا نے ان کے ادبی ذوق کو مہمیز کیااورلکھنؤ یونیورسٹی کے استادا ور ممتاز نقاد پروفیسر احتشام حسین کی سرپرستی  نے انھیں قرطاس و قلم کی دنیا میںجولانیوں کا ہنر سکھایا۔ شارب ردولوی گیارہ سال کی عمر میں شاعری کی راہوں سے ادب کی دنیا میں داخل ہوئے اورنظمیں، غزلیں، قصیدے وغیرہ میں اپنے خیالات کو باندھنے لگے۔ پروفیسر شارب ردولوی نے شاعری ضرور کی مگر اس کو شائع نہیں کرایاچند ایک کلام شاذ و نادر شائع ہوگئے مثلاً ایک سالانہ مقاصدہ میں پڑھا جانے والا کلام ’مدحیات‘  کے نام سے ہر سال شائع ہوتا تھا جس میں شارب ردولوی کے چند قصائد موجود ہیں۔ جب میں ان سے وابستہ ہوا  اور ان کی خدمت میں روزانہ حاضر ہونے لگا تو ایک دن مجھے ایک ڈائری دیتے ہوئے کہا یہ میرا کلام ہے اس کو کمپیوٹر میں محفوظ کر لیں۔ اس ڈائری میں سب سے قدیم نظم 12، اکتوبر 1946کی درج تھی۔ چند نظموں کے علاوہ قصائدو غزلیں وغیرہ بھی خوش خط تحریر میں نظروں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں۔ پروفیسرشارب ردولوی کو شاعری پسند بھی تھی اوروہ شعر کی تفہیم و تعبیر میں بھی ماہر تھے مگر جلد ہی شاعری کے گیسو سنوارنے کے بجائے انھوں نے تنقیدکی گتھیوں کو سلجھانا زیادہ مناسب سمجھا اور پروفیسر احتشام حسین کی ہدایت و نگرانی نے ان کی طبیعت میں تنقیدی رجحان و صلاحیت کو مستحکم کرنا شروع کر دیا۔

شارب ردولوی نے اپنی خودنوشت میں احتشام حسین کا جو خاکہ لکھا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر احتشام حسین کی شخصیت کا اثر ان کی زندگی پر بڑا گہرا تھا۔ اپنی طالب علمی کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے ذکر کیا ہے کہ کسی سبب شہر کے تمام ہوٹلوں نے اسٹرائک کر دی تھی اور جس نوری ہوٹل میں وہ کھانا کھاتے تھے وہ بھی بند تھا۔ شارب ردولوی اسی دن پروفیسر احتشام حسین سے ملاقات کرنے گھر گئے۔ معلوم کرنے پر انھوں نے بتایا کہ وہ نوری ہوٹل آئے تھے مگر ہوٹل اسٹرائک کے سبب بند تھا اس لیے ادھر چلے آئے۔ احتشام حسین کچھ دیر بات کرنے کے بعد اوپر تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد سینی کے ساتھ واپس آئے جس میں نفیس اشیائے خوردنی سجی ہوئی تھیں۔ شارب ردولوی نے بہت انکار کیا مگر استاد کے حکم کے آگے ان کی چل نہ سکی۔ اس واقعے کا ذکر کرنے کے بعد وہ جذباتی انداز میں لکھتے ہیں :

’’...اس دن ان کی محبت اور خیال کرنے کا میرے اوپر بہت اثر ہوا میں ان کے یہاں یہ سوچ کر نہیں گیا تھا کہ کھانا کھاؤں گا بس یوں ہی بے خیالی میں چلا گیا اور ہوٹل بند ہونے کا ذکر بھی کر دیا۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ ایسے لوگ مشکل سے ہوتے ہیں۔ احتشام حسین صاحب صرف ایک اچھے ناقد اور مقرر ہی نہیں تھے بلکہ ایک بہت اچھے استاد اور سب سے بڑی بات کہ ایک بہت اچھے انسان تھے۔

(نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم، شارب ردولوی، ص، 172)

یہی قربت تھی کہ جب شارب ردولوی اپنی پہلی کتاب ’مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر‘ منظر عام پر لائے تو اس پر ان کے استاد نے مقدمہ لکھااور صرف مقدمہ ہی نہیں لکھا بلکہ شارب ردولوی کے روشن مستقبل کی نشاندہی بھی کر دی۔ وہ لکھتے ہیں:

’’عزیزی شارب ردولوی کی یہ پہلی ادبی کوشش ہے اور مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے شروع ہی میں سنجیدہ اور فکر انگیز موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ جب انھیں اپنے خیال و بیان پر قدرت حاصل ہوجائے گی اس وقت مجھے امید ہی نہیں یقین بھی ہے کہ وہ نقد ادب کے دوسرے پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ ایسے تنقیدی موضوعات پر لکھنے کے لیے مطالعہ، ذوق، لگن اور سنجیدگی کی ضرورت ہے اور شارب میں یہ باتیں موجود ہیں... اگرزمانے نے انھیں موقع دیا تو یقیناََ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں گے۔ ‘‘

(مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر، ص 8، شارب ردولوی، نسیم بک ڈپو1959)

استاد کے قلم کی تحریر سچ ثابت ہوئی اور شارب ردولوی نے اپنی زندگی میں تنقید کی دنیا میں ایک نمایاں شناخت قائم کی۔ ان کی کتاب ’جدیداردو تنقید اصول و نظریات‘ کو آج بھی تنقیدکے بنیادی اصول و ضوابط کو سمجھنے کے لیے اہم کتاب تسلیم کیا جاتا ہے۔ مقبولیت کے پیش نظر اب تک اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ مذکورہ دو کتابوں کے علاوہ اپنی زندگی میں انھوں نے گل صد رنگ، جگر فن و شخصیت،مطالعہ ولی،افکار سودا، تنقیدی مطالعے، اردو مرثیہ، آزادی کے بعد دہلی میں اردو تنقید، انتخاب غزلیات سودا، معاصر اردو تنقید مسائل ومیلانات، تنقیدی مباحث، مرثیہ اور مرثیہ نگار، اسرارلحق مجاز،تنقیدی عمل، ترقی پسند شعری فکر اور اردو شعرا،دشت جنوں اور نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم جیسی کتابیں تصنیف و ترتیب دیں۔ ان تخلیقات کے علاوہ تقریباً 50 سے زائد ایسی تحریریں کمپیوٹر میں محفوظ ہیں جو انھوں نے مختلف کتابوں کے لیے بطور پیش لفظ یا بشکل مضمون لکھی تھیں۔اس کے علاوہ فکشن پر ایک کتاب اور خطوط کا مجموعہ زیر ترتیب تھا (جس کی اشاعت جلد ہوگی)۔ رحلت سے قبل بھی وہ لکھنے پڑھنے میں مصروف تھے اور کئی کتابیں میز پرآراستہ ان کی توجہ کی منتظر تھیں (جن کا انتظار اب کبھی ختم نہیں ہوگا)۔

پروفیسر شارب ردولوی نے بھرپور زندگی گزاری جس میں تجربات کی بہتات تھی۔ ان سے چند منٹ کی گفتگو میں ایسا محسوس ہوتا جیسے تجربوں کی آندھی میں تاریخ کے اوراق الٹ پلٹ رہے ہیں اور اس سے ظاہر ہونے والا ہر واقعہ سبق آموز ہے اور ہر بات محفوظ کرلینے لائق۔ ان واقعات میں زندگی کے شیریں لمحات بھی تھے اور تلخ سانحات بھی۔ مگرنہ تو وہ شیریں لمحات میں گم ہوئے اور نہ ہی تلخ سانحات سے مضطرب۔ میرے خیال سے سب سے بڑا غم شارب سر کے لیے اکلوتی بیٹی شعاع فاطمہ کا انتقال تھایہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اکثرانسان سب بڑے صدمے کو یاد کرنے سے بچتا ہے۔ اس کا اندازہ شارب ردولوی کے اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے جوانھوں نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے۔

’’شعاع مجھے کس قدر عزیز تھی یہ میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔میں ہروقت اس کا چہرہ دیکھتارہتا تھا۔ وہ بھی بچپن سے مجھ سے ا س قدر Attach تھی کہ جب گود میں تھی اور ہم دونوں کے درمیان سوتی تھی تو ہمیشہ میری طرف کروٹ لے کر لیٹتی۔ کبھی شمیم اپنی طرف کروٹ کردیتیں تو فوراََ میری طرف کروٹ لے لیتی اورشمیم ہنسنے لگتیں اس کا  اس طرح اچانک چلاجانا ہم لوگوں کی زندگی کا ایساسانحہ تھا جس نے ذہنوں کو ماؤف کر دیا۔ وہ ہم لوگوں کی زندگی کا محور بن گئی تھی۔

(ایضاً، صفحہ 353)

پروفیسر شارب ردولوی کے ساتھ میں نے 8 سال گزارے مگر ان آٹھ سالوں میں شعاع فاطمہ کا ذکرمشکل سے ہی کبھی انھوں نے کیا ہو۔یہ ان کا ضبط تھا وہ دن بھر شعاع فاطمہ گرلس انٹر کالج میں بیٹھ کر بھی شعاع کی یادوں کو زبان پر نہیں آنے دیتے۔یہ کالج انھوں نے اپنی بیٹی کے نام پرہی شروع کیا تھا۔ چونکہ شعاع فاطمہ اپنی پڑھائی مکمل نہیں کر سکی تھی اور جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے سرہانے ایم اے کا فارم بھرا ہوا رکھا تھا۔ اس لیے پروفیسرشارب ردولوی اور ان کی اہلیہ پروفیسر شمیم نکہت نے ایک ایسے کالج کے قیام کا بیڑا اٹھایا جہاں ضرورت مند بچیوں کو تعلیم یافتہ بنایاجا سکے۔ اسی فکر کے ساتھ شعاع فاطمہ چیرٹیبل ٹرسٹ کے زیر انتظام 1996 میں اپنی رہائش گاہ (علی گنج)پر دو ٹیچرز، ایک آیا اور کیئر ٹیکر کو رکھ کرشعاع فاطمہ پبلک اسکول کھول دیا۔ سنہ 2000 میں جب دونوںحضرات(پروفیسر شارب ردولوی، پروفیسر شمیم نکہت) ریٹائر ہوئے اور لکھنؤ میںمستقل رہنے کا ارادہ کیاتو سب سے پہلے اسکول کے لیے فیض اللہ گنج میں ایک زمین خریدی اور اپنے دہلی کے فلیٹ کو ’اونے پونے‘ فروخت کر کے اسکول کے لیے ایک چھوٹی سی بلڈنگ بنوائی۔ یہ چھوٹی سی بلڈنگ رفتہ رفتہ ایک بڑے کیمپس میں تبدیل ہو گئی اور اس وقت یہ اسکول ترقی کر کے شعاع فاطمہ گرلس انٹر کالج بن گیا ہے جہاںایک ہزارسے زائد طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس میں تقریباً 18 سے 20 فیصد بچے مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

کالج کے علاوہ پروفیسر شارب ردولوی نے فکشن نگاروں کی حوصلہ افزائی اور نوجوان نسل میں افسانہ نویسی کا رجحان پیدا کرنے کی غرض سے شمیم نکہت فکشن ایوارڈ اور افسانہ کمپٹیشن کی شروعات کی تھی۔  اس کا پہلا جلسہ 2017 میں ہوا تھا اگر چہ اس کی شروعات 2015 میں ہونا طے تھی۔ مگر پروفیسر شمیم نکہت کی علالت اور پھر انتقال کے سبب یہ ایوارڈ اور فنکشن دو سال کے لیے ٹل گیا۔

شمیم نکہت فکشن ایوارڈ و توسیعی خطبہ اور شارب ردولوی تنقید ایوارڈ و توسیعی خطبے کے لیے دونوںحضرات نے دہلی یونیورسٹی اور لکھنؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلرز کو تجویز بھی بھیجی تھی کہ ان کی طرف سے دو دو لاکھ روپئے یونیورسٹی میں جمع کرادئے جائیں گے جس کے انٹرسٹ سے اس کا انتظام کر دیا جائے۔ مگر دہلی یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ نے اس تجویز کو منظور نہیں کیا اور لکھنؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے پانچ لاکھ روپئے کا  Endowment    طلب کر لیاجو ان دونوں ادب دوستوں کے لیے زیادہ رقم تھی۔ لیکن شارب ردولوی نے اس امر کی تکمیل کے لیے دوسرا راستہ نکالا اور ایک رقم اس مقصد کے لیے ٹرسٹ میں جمع کرکے فکشن ایوارڈ کا ایک Corpus بنادیا جس کی آمدنی سے یہ ایوارڈفنکشن اور لکچر ہونے لگا اور ان شاء اللہ اسی طرح آگے بھی ہوتارہے گا۔

معاملہ چاہے افسانہ نگاری مقابلے کا ہو یا پھر فکشن ایوارڈ تقسیم کا دونوں ہی میں شارب سر بہت شفافیت سے کام لیتے رہے۔ ایوارڈ کے لیے ہندوستان کی بڑی یونیورسٹیز اور مایہ ناز ادیبوں پر مشتمل 12 ممبران کی ایک مجلس مشاورت ہوتی ہے ہر ممبر سے دوفکشن نگاروں کے نام طلب کیے جاتے ہیں۔ پھر جیوری ممبران رائے مشورے کے بعد مجوزہ ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس موقع پر ایک شمیم نکہت یادگاری خطبے کا بھی اہتمام کیاجاتا ہے۔ پہلا یادگاری خطبہ مشہور دانشور، فکشن ناقد شمس الرحمن فاروقی نے ’فکشن کی سچائیاں‘ کے موضوع پر دیا تھا۔ دوسرا خطبہ اردو کے مشہور ناقد پروفیسر عتیق اللہ نے ’فکشن کی تنقید اور کئی چاند تھے سر آسماں‘ کے موضوع پر دیا۔تیسرے خطبے کے لیے  پروفیسرابوالکلام قاسمی کو اردو افسانہ مبادیات ومراحل کا عنوان دیا گیا اور چوتھا خطبہ ’نقل مکانی بیانیہ کی صورت گری اور اردو فکشن‘ پر پروفیسر صغیر افراہیم نے دیا۔پانچویں خطبے کے لیے پروفیسر طارق چھتاری سے درخواست کی گئی اور انھوں نے اسے قبول کرتے ہوئے ’جدیداردو افسانے کی فکری بنیاد‘ پر یہ خطبہ تحریر کیا۔پروفیسر ابن کنول نے ہمعصر اردو فکشن پر چھٹا خطبہ پیش کیا  اور2023 میں ’جدید خواتین فکشن نگاروں میں، نسائی حسیت کی نوعیت ‘پر ساتواں خطبہ ڈاکٹر صبیحہ انور نے پڑھا۔  یہ تمام خطبات کتابچے کی شکل میں شائع ہوکر پروگرام میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ خطبے موجودہ فکشن کی بدلتی نوعیت اور ابھرتے رجحان کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی فکشن تنقیدکی سمت و رفتار میں بھی معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ پروفیسر شارب ردولوی ان خطبات کو یکجا کر کے شائع کرانا چاہتے تھے اور اس کا ذکر پانچویں خطبے میں ’ایک بات‘ کے تحت کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں۔

شمیم نکہت توسیعی خطبات نے اردو افسانے کے مطالعے کے لیے فکشن تنقید کے مختلف ابعاد پر ایک کتاب فراہم کر دی۔ ان شاء للہ جلد ہی ہم چھٹے خطبے کے ساتھ کتابی شکل میں خطبات آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

شارب سر سے اس دن میری آخری بار گفتگو ہوئی پھر جب میں 17، اکتوبرکی رات ان سے ملنے گیا تو وہ کچھ کہنے کی حالت میں نہیں تھے۔رات بھر میں بے چین رہا اور صبح جب یونیورسٹی پہنچا تو تھوڑی دیر بعد ہی ان کے انتقال کی خبر ملی۔یہ میرے لیے ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ میں نے ان کی سرپرستی میں لکھنے پڑھنے کا ڈھنگ ہی نہیں بلکہ زندگی جینے کا سلیقہ سیکھاہے۔ایسی شخصیتیں بہت کم ہوتی ہیں جو دوسروں کے بھلے کے لیے زندگی گذارتی ہیں۔ علمی و عوامی خدمات کے لیے شارب ردولوی کو ہمیشہ یاد کیاجائے گا۔   

 Dr. Moosi Raza

Asst Prof. Khwaja Moinuddin

Chishti Language University

Lucknow- 226013 (UP)

Mob.: 9807694588

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں