5/3/24

نظیر اکبرآبادی کی غزل گوئی:ڈاکٹرظفراللہ انصاری

ولی محمد نظیر اکبر آبادی )پیدائش 1735، وفات 1830) اردو کے مشہور شاعروں میں ہیں۔ ان کی شہرت عوامی شاعر کی حیثیت سے ہوئی۔ انھوں نے عوامی زندگی سے متعلق موضوعات پر اچھی خاصی تعداد میں نظمیں کہی ہیں اور یہی نظمیں انھیں عوامی شاعر بننے میں معاون ہوئیں۔ پروفیسر احتشام حسین اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

نظیر کا کلام پڑھتے وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود عوام میں سے تھے، انھیں میں سے اٹھے اور انھیں کے دکھ درد، ہنسی خوشی، افکار و تاثرات میں شریک رہے۔ ان کا فن تکمیل کے لحاظ سے ناقص ہے، ان کی شاعری تراش خراش کے لحاظ سے بہت نا مکمل ہے، ان کے اسلوب میں بے حد ناہمواری ہے۔ ان کے تفکر میں گہرائی کا نام نہیں، ان کے احساسات و تجربات میں ایک دہقان کی بھونڈی سادگی اور بھدی بے ساختگی ہے۔ لیکن پھر بھی نظیر اپنی دنیا کے تنہا مسافر تھے جس نے رابنسن کروسو کی طرح سب کچھ خود ہی کیا اور شاعری کے صحیح مصرف کی طرف اشارہ بھی کر دیا۔ انھوں نے احساسات اور جذبات کے لحاظ سے تقریبا ہر طبقے کے لوگوں کے تجربات اور تاثرات پیش کیے لیکن ان کی ہمدردیاں عوام ہی کے ساتھ تھیں۔

(تنقیدی جائزے، احتشام حسین، ادارہ  اشاعت اردو حیدرآباد، سنہ اشاعت ندارد، ص 169-70)

محولہ اقتباس سے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ نظیر اکبر آبادی نے اگرچہ اپنی شاعری میں دیگر طبقات کے احساسات و جذبات اور خیالات و تاثرات کو  بھی  جگہ دی ہے لیکن ان کا بنیادی سروکار طبقہ عوام سے تھا اس لیے انھوں نے اپنی شاعری میں اسی کو ترجیحی حیثیت دی اور اس طبقے کو اپنی نظموں کے محور میں رکھا۔ احتشام صاحب نے ان کی شاعری کی جن کمزوریوں کا ذکر کیا ہے وہ اس لیے نہیں تھیں کہ وہ شاعری کے رموز سے ناواقف تھے یا انھیںزبان نہیں آتی تھی بلکہ بقول فرحت اللہ بیگ: علمی قابلیت یہ تھی کہ آٹھ زبانیں عربی، فارسی، اردو، پنجابی، باشا، مارواڑی، پوربی، ہندی جانتے تھے اور ایسے جانتے تھے کہ ان میں شعر کہتے تھے۔

(دیوان نظیر اکبر آبادی، مرتبہ فرحت اللہ بیگ دہلوی، انجمن ترقی اردو ہند، 1942، ص7)

شاعری سے متعلق نظیر کے لسانی رویے سے آشنائی کے بعد یہاں اس بات کا بھی اظہار ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ نظیر نے عوامی زندگی کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا ہے لیکن ان کا خاندانی پس منظر اس امر کی شہادت پیش کرتا ہے کہ ان کا تعلق بھی اشرافیہ طبقے سے تھا۔ پروفیسر لطف الرحمن اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

نظیر کے والد کا نام محمد فاروق تھا۔ وہ عظیم آباد (پٹنہ) کے ایک نواب سے وابستہ تھے۔ نواب کے مشاہیر میں ان کا نام موجود ہے۔ ان کی شادی سلطان خان کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔ سلطان خان آگرہ کے قلعہ دار تھے۔ نظیر والدین کے اکلوتے چشم و چراغ تھے۔ 1735 سن کذا: سنہ پیدائش ہے۔ دہلی میں قتل عام کو زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔ احمد شاہ ابدالی نے بھی دہلی کو متعدد بار تاراج کیا تھا۔ نظیر کے خاندان نے اس پس منظر میں ہجرت کا فیصلہ کیا۔ نظیر کی عمر 22-23کی ہوگی۔ وہ نانی اور والد کے ساتھ دہلی سے آگرہ منتقل ہو گئے۔ نوری دروازہ کے پاس مکان لیا۔سکونت اختیار کی۔ ان کی شادی تہور النسا بیگم سے ہوئی۔ وہ رحمن خان کی صاحبزادی تھی۔ رحمن خان دہلی میں فوجی سالار تھے۔ حاصل گفتگو یہ ہے کہ نظیر اشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔

(نظیر اکبر آبادی: ایک منفرد شاعر، مرتبہ پروفیسر صدیق الرحمن قدوئی، غالب انسٹیٹیوٹ، نئی دہلی، 2010، ص 122)

یہ بڑی بات ہے کہ اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود انھوں نے عوامی شاعری کی اور اپنی شاعری میں اشرافیہ رنگ پیدا ہونے نہیں دیا اور عوامی مزاج و منہاج سے اپنی نظموں کو مزین کیا۔ آزاد اور حالی سے پہلے نظم نگاری کی داغ بیل نظیر کے ہاتھوں پڑتی ہے اس لیے انھیںنظم نگاری کا پیش رو تسلیم کیا گیا۔

نظیر نے کثیر تعداد میں نظمیں کہیں اور ان کی نظموں نے ایسی شہرت پائی کی ان کی غزل گوئی پردۂ خفا میں چلی گئی اور اس کو ثانوی درجے کی چیز سمجھ لیا گیا۔ کلیم الدین احمد نے جہاں ان کی نظموں کی تعریف کی ہے اور انھیں بہ نگاہ تحسین دیکھا ہے وہیں ان کی غزل گوئی کو بھی در خور اعتنا تصور کیا ہے۔ وہ نظیر کے تعلق سے لکھتے ہیں:

اردو شاعری کے آسمان پر نظیر اکبر ابادی کی ہستی تنہا ستارے کی طرح درخشاں ہے۔ نظیر کا وجود ہی اردو شاعری کی بے نظیر تنقید ہے۔ جب غزل گوئی عالم گیر تھی، جب غزل گوئی اور شاعری مترادف الفاظ تھے، ایسے زمانہ میں نظیر نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی اور آزادی فکر کا بیش قیمت نمونہ پیش کیا۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ نظیر نے غزلیں نہیں لکھیں لیکن انھوں نے غزل کو حاصل شاعری نہیں سمجھا۔ میر، سودا اور غالب کی طرح نظیر کو بھی غیر شعوری طور پر غزل اور شعر مفرد کی تنگ دامنی کا احساس ہوا لیکن انھوں نے چند قطعے لکھ کر اپنی تشفی نہ کر لی اور اپنی شاعری کا زیادہ حصہ وقف غزل نہ کرتے رہے۔ غزل کے ساتھ ساتھ مثلث، مخمس اور خصوصا مسدس سے بھی کام لیا اور ان صنعتوں میں اپنے خیالات اور شخصی تجربات کا مربوط و مسلسل بیان کیا۔ 

(اردو شاعری پر ایک نظر، کلیم الدین احمد، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ، 2016، ص315)

محولہ بالا اقتباس میں اردو کے سخت گیر نقاد کلیم الدین احمد نے نظیر سے متعلق جو خیالات پیش کیے ہیں اس کے پس پشت ان کا جو نظریہ کار فرما ہے وہ جگ ظاہر ہے وہ غزل کو اس بنا پر خارج کرتے ہیں کہ اس میں ریزہ خیالی ہوا کرتی ہے وہ مربوط خیالات کی متحمل نہیں ہوتی، سوائے مسلسل غزل کے۔ چونکہ نظیر نے اپنے عہد کی عام روش یعنی غزل کی روایت سے آگے بڑھ کر اپنی آزادیِ خیال کا ثبوت بہم پہنچایا اور غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی تشفی بخش تعداد میں کہیں یہی وجہ ہے کہ وہ نظیر سے متعلق یہ ریمارک دیتے ہیں کہ: اردو شاعری کے آسمان پر نظیر اکبر آبادی کی ہستی تنہا ستارے کی طرح ہے۔‘‘ جہاں تک نظیر کی غزل گوئی کا سوال ہے وہ بھی روایتی نہیں ہے۔ کلیم الدین احمد ان کی غزل گوئی کی تعریف کرتے ہوئے کچھ یوں رقم طراز ہیں:

’’میں نے کہا نظیر نے غزلیں بھی لکھیں اور غزل میں بھی انھوں نے نئی راہیں نکالیں۔ غزل کی خصوصیت یہ سمجھی جاتی ہے کہ اس میں ہر شعر ایک دوسرے سے بے نیاز ہوتا ہے۔ نظیر نے بہت ساری مسلسل غزلیں لکھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نظیر اکھڑی اکھڑی باتیں کرنے سے گھبراتے ہیں۔ انھیں مربوط و مسلسل کلام میں لطف خاص ملتا ہے... نظیر نے غزل میں نئی راہیں نکالیں، اس میں نئی وسعتیں پیدا کیں، اس میں نظم کی خوبیاں داخل کیں۔

(اردو شاعری پر ایک نظر، کلیم الدین احمد، ص 315)

پیش کردہ اقتباس میں کلیم الدین احمد نے نظیر کی غزل گوئی کو اس لیے سراہا ہے کہ ان کی غزلوں میں ربط و تسلسل پایا جاتا ہے اور وہ غزل کو اس لیے نیم وحشی صنف سخن مانتے تھے کہ اس میں ربط و تسلسل نہیں ہوتا۔ ہر مذہب اور متمدن قوم کی طرح غزل کو بھی اپنے آپ میں شائستگی اور ترتیب و تنظیم پیدا کرنی چاہیے۔

نظیر کا تعلق اگرچہ اشرافیہ طبقے سے تھا لیکن وہ طبعا اور فطرتا قلندر صفت انسان تھے اور ان کی شاعری ان کی شخصیت کا آئینہ ہے۔

جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ نظیر قلندر صفت انسان تھے اور وہ شہرت و ناموری کے پیچھے کبھی نہیں بھاگے اور انھوں نے نہ خود اپنا کلام جمع کیا اور نہ کسی سے جمع کروایا۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان کا کلام کس طرح محفوظ رہ پایا؟ اس سلسلے میں مرزا فرحت اللہ بیگ لکھتے ہیں:

اب یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ نظیر کا کلام کتنا تھا، کیوں کہ انھوں نے نہ خود اپنا کلام جمع کیا اور نہ جمع کرانے کی کوشش کی۔ حال یہ تھا کہ کوئی فقیر آیا صدا لکھوا کر لے گیا۔ کوئی بچہ آیا اپنے مطلب کا شعر لکھوا کر لے گیا۔ بھلا ایسے آدمی کا شعر کیا جمع ہو سکتا ہے۔ اس وقت جو ان کا کلیات طبع ہوا وہ بلاس رائے کے لڑکوں کی وجہ سے طبع ہوا ہے۔ یہ لڑکے نظیر سے پڑھتے بھی تھے اور استاد کا کلام جمع بھی کرتے جاتے تھے۔ اس طرح انھوں نے ایک ایسا کلیات جمع کر لیا جس میں تقریبا سات ہزار شعر ہیں۔ یہ کلیات مطبع الہی، کنبوہ دروازہ، میرٹھ میں طبع ہوا۔ بعد میں فحش اشعار اور قابل اعتراض بندوں کو نکال کر منشی نول کشور نے لکھنؤ میں اس کو چھپوایا۔ 1900 میں پروفیسر شہباز نے بڑی محنت سے ایک دوسرا کلیات مرتب کر کے نول کشور، لکھنؤ میں چھپوایا تھا مگر وہ اب ذرا مشکل سے دستیاب ہوتا ہے۔ اس کلیات کے علاوہ نظیر کے تین مکمل دیوان تھے دو اردو میں اور تیسرا فارسی میں۔ اردو دیوانوں کی تو اکثر غزلیں باطن نے اپنے تذکرے میں دی ہیں مگر فارسی کے دیوان کا اب پتہ نہیں چلتا پھر بھی پروفیسر شہباز نے فارسی اشعار کے بہت سے نمونے دیے ہیں۔

(دیوان نظیر اکبر آبادی، مرتبہ فرحت اللہ بیگ،  ص 8)

بہرحال میرے زیر نظر ہندوستانی اکادمی، الہ آباد کی شائع کردہ کتاب گلزار نظیر مرتبہ سلیم جعفر (1951) اور اتر پردیش اردو اکادمی کی مطبوعہ کتاب روح نظیر مولفہ مخمور اکبر آبادی ہیں۔ اول الذکر کتاب میں نظیر کی زیادہ غزلیں شامل نہیں ہیں لیکن ثانی الذکرکتاب میں  کیفیت و کمیت کے لحاظ سے تشفی بخش غزلیں موجود ہیں۔ مخمور اکبر آبادی کی مرتبہ کتاب میں نظیر کی موضوعی غزلیں بھی شامل ہیں۔ موضوعی غزلوں کی مثال نظیر کے علاوہ قدیم و جدید شعرا کے یہاں نہیں ملتی۔ نظیر نے موضوعی غزل کا ایک انوکھا تجربہ کیا ہے جس سے ان کی ابداعی اور اختراعی قوت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ کلیم الدین احمد کو غزل کی جس ریزہ خیالی کی شکایت تھی اس کو رفع اس طرح کی غزلیں کر دیتی ہیں۔ یہاں ان کی ایک موضوعی غزل پیش کی جا رہی ہے جن میں وحدت تاثر کی فضا قائم ہے۔

جوانی

بنا ہے اپنے عالم میں وہ کچھ عالم جوانی کا

کہ عمر خضر سے بہتر ہے ایک ایک دم جوانی کا

نہیں بوڑھوں کی داڑھی میں  میاں یہ رنگ وسمے کا

کیا ہے ان کے ایک ایک بال نے ماتم جوانی کا

یہ بوڑھے گو کہ اپنے منہ سے شیخی میں نہیں کہتے

بھرا ہے آہ پر ان سب کے دل میں غم جوانی کا

یہ پیران جہاں اس واسطے روتے ہیں اب ہر دم

کہ کیا کیا ان کا ہنگامہ ہوا برہم جوانی کا

کسی کی پیٹھ کبڑی کو بھلا خاطر میں کیا لاوے

اکڑ میں نوجوانی کے جو مارے دم جوانی کا

شراب و گل بدن ساقی مزے عیش و طرب ہر دم

بہار زندگی کہئے تو ہے موسم جوانی کا

نظیر اب ہم اڑاتے ہیں مزے کیا کیا اہا ہا ہا

بنایا ہے عجب اللہ نے عالم جوانی کا

مخمور اکبر آبادی نے اس طرح کی ان کی پچیس غزلیں اپنی مرتبہ کتاب میں درج کی ہیں۔

نظیر کو سراپا نگاری کا ہنر آتا ہے۔ اس کی مثالیں تو ان کی نظمیہ شاعری میں بہ کثرت ملتی ہیں، لیکن غزل میں شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہیں۔ نظیر کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں انھوں نے محبوب کا ایک قلمی خاکہ کھینچا ہے       ؎

یہ حسن ہے آہ یا قیامت کہ اک بھبھوکا بھبک رہا ہے

فلک پہ سورج بھی تھرتھرا کر منہ اس کا حیرت سے تک رہا ہے

کھجوری چوٹی ادا میں موٹی جفا میں لمبی وفا میں چھوٹی

ہے ایسی کھوٹی کہ دل ہر اک کا ہر ایک لٹ میں لٹک رہا ہے

وہ نیچی کافر سیاہ پٹی کہ دل کے زخموں پہ باندھے پٹی

پڑھی ہے جس نے کہ اس کی پٹی وہ پٹی سے سر پٹک رہا ہے

وہ ماتھا ایسا کہ چاند نکھرے پھر اس کے اوپر وہ بال بکھرے

دل اس کے دیکھے سے کیوں نہ بکھرے کہ مثل سورج چمک رہا ہے

وہ چین خود رو کٹیلے ابرو وہ چشم جادو نگاہیں آہو

وہ پلکیں کج خو کہ جن کا ہر مو جگر کے اندر کھٹک رہا ہے

غضب وہ چنچل کی شوخ بینی پھر اس پہ نتھنوں کی نکتہ چینی

پھر اس پہ نتھ کی وہ ہم نشینی پھر اس پہ موتی پھڑک رہا ہے

لب و دہاں بھی وہ نرم و نازک مسی و پاں بھی وہ قہر و آفت

سخن بھی کرنے کی وہ لطافت کہ گویا موتی ٹپک رہا ہے

وہ کان خوبی میں چھک رہے ہیں جواہروں میں جھمک رہے ہیں

ادھر کو جھمکے جھمک رہے ہیں ادھر کا بالا چمک رہا ہے

صراحی گردن وہ آبگینہ پھر آگے سینہ بھی جوں نگینہ

بھرا ہے جس میں تمام کینہ کہ جوں نگینہ دمک رہا ہے

نظیر خوبی میں اس پری کی کہوں کہاں تک ثنا بنا کر

صفت سراپا میں جس کے لکھے دل اب اسی سے اٹک رہا ہے

نظیر حسن حقیقی اور حسن مجازی دونوں کے شیدائی ہیں اس لیے ان کے یہاں دونوں کا بیان ملتا ہے۔ نظیر نے ایک حسین کی تصویر کشی کس انداز میں کی ہے ملاحظہ ہو          ؎

کل نظر آیا چمن میں اک عجب رشک چمن

گل رخ و گلگوں قبا و گلغدار و گل بدن

مہر طلعت زہرہ پیکر مشتری رو مہ جبیں

سیم بر سیماب طبع و سیم ساق و سیم تن

تیر قد نشتر نگہ مژگاں سناں ابرو کماں

برق ناز و رزم ساز و نیزہ باز و  تیغ زن

زلف و کاکل خال و خط چاروں کے یہ چاروں غلام

مشک تبت مشک چیں مشک خطا مشک ختن

نازنیں ناز آفریں نازک بدن نازک مزاج

غنچہ لب رنگیں ادا شکر دہاں شیریں سخن

بے مروت بے وفا بے درد بے پروا خرام

جنگجو قتال وضع و سرفراز و سر فگن

دوش و بر دنداں و لب چاروں سے یہ چاروں خجل

نسترن برگ سمن در عدن لعل یمن

مبتلا ایسے ہی خوش وصفوں کے ہوتے ہیں نظیر

بے قرار و دل فگار و خستہ حال و بے وطن

اس رنگ سے ان کی بہ کثرت غزلیں رنگین بنی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے بعض اشعار میں جنسی طلب کا بھی اظہار ملتا ہے۔ بعض لوگ اسے ابتذال یا سوقیانہ خیالات سے تعبیر کریں گے، لیکن یہ بدیہی حقیقت ہے کہ جنسی خواہشات انسان کی جبلت میں شامل ہے۔

 نظیر کے یہاں عشق کے دونوں رنگ پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بے ثباتی عالم کے مضامین بھی ان کی غزلوں میں پائے جاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

دنیا ہے اک نگار فریبدہ جلوہ گر

الفت میں اس کے کچھ نہیں جز کلفت و ضرر

یہ جواہر خانہ دنیا جو ہے با آب و تاب

اہل صورت کا ہے دریا اہل معنی کا سراب

ثروت و مال و منال حشمت و جاہ و جلال

کوئی اسے کچھ کہو ہم تو سمجھتے ہیں خواب

المختصر یہ کہ نظیر جہاں نظم کے کامیاب شاعر ہیں وہیں غزل کے بھی، لیکن ان کی غزلوں پر ناقدین نے کم توجہ دی ہے جس کے باعث ادب میں ان کی غزلوں کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہ ہو سکا جس کی وہ مستحق تھیں۔ ان کی غزلوں کے مضامین میں تنوع ہے اور ان کی فکر میں وسعت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے صنف غزل میں نئے نئے تجربے کئے جو نظیر سے پہلے نہیں ملتے۔ نظیر نے غزل میں جو راہیں سجھائی تھیں  ان کا تتبع بعد کے شعرا نے کیا ہوتا تو غزل کی صورت کچھ اور ہوتی۔

 

Dr. Zafrullah Ansari

Assistant Professor, Dept of Urdu

Allahabad University

Prayagraj- 211002 (UP(

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں