ابن کنول
کی پہچان اردو ادب میں ایک نمایاں افسانہ نگار کی ہے۔اس کے علاوہ معاصر ادب میں اُن
کے تجزیاتی مضامین تحقیقی کاوشات اور مرتبین کی حیثیت سے بھی ابن کنول کو اردودنیا
جانتی اور مانتی ہے۔ دوران ِ کووڈ ابن کنول کے کئی ایپی سوڈ یو ٹیوب اور فیس بُک پر
ویڈیو کے روپ میں منظر عام پر آ ئیں جن میں وہ اردو ادبا پر خاکے پڑھتے ہوئے نظر آئے
ہیں۔ ادبی شخصیات پر لکھیں یہ خاکے کتابی شکل میں’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی‘ کے روپ میں منظر
عام پر آ ئی ۔ جس میں کل 25 خاکے شامل ہیں۔ان میں سے ایک خاکہ ادارتی خاکہ ہے جو’
منٹو سرکل ‘کے نام سے اس میں موجود ہے۔اس کے علاوہ سبھی خاکے اشخاص پر مبنی ہیں۔ابن
کنول نے اس مجموعے میں ان سبھی اشخاص کے خاکے قلم بند کیے ہیں جن سے ان کی دلی وابستگی
تھے ۔ ان خاکو ںکے لیے وہ اس کے دیباچے میںفرماتے ہیں :
’’اس نظر بندی میں مجھے میرے اپنے یاد آئے ،جن سے میرا خون کا رشتہ
نہیں لیکن دل کا رشتہ تھا اور دل کا رشتہ کبھی ختم نہیں ہوتا ۔میں نے انھیں قلم کے
ذریعہ یاد کرنے کا فیصلہ کیا۔12اپریل کو ’’داستان کی جمالیات ‘‘کا پیش لفظ لکھ کر کتاب
مکمل کی اور 14 اپریل سے خاکے لکھنا شروع کر دیے۔سب سے پہلے اپنے پرائمری اسکول کے
استاد کو یاد کیا،پھر اسکول کے ہم جماعت کی یاد آئی ۔پھر علی گڑھ اور دہلی کے اساتذہ
اور دوستوں کو یاد کیا ۔‘‘
(کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی،ابن کنول،ص 9)
اس
مجموعے میں قاضی عبدالستار،پروفیسر قمر رئیس ،تنویر علوی،گوپی چند نارنگ ،حیات اللہ
انصاری،عصمت چغتائی،محمد عتیق صدیقی ، قرۃ العین حیدر جیسی قدآور شخصیات پر قلم اُٹھانے
کے ساتھ ساتھ اپنے ہم عصروں کو بھی اپنی فکرو نظر کا حصہ بنایاجن میں علی احمدفاطمی،فاروق
بخشی ،پیغام آفاقی،پروفیسر ارتضیٰ کریم،خواجہ محمد اکرام الدین ،پروفیسر اے رحمٰن
،محمد زماں آزردہ کی شخصیات شامل ہیں۔ابن کنول نے نئی نسل کے لکھنے والوں کو بھی اپنے
اس مجموعے میں قلم بند کیا ہے - محمد کاظم اور نعیم انیس کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے
ان کی علمی و ادبی فعالیت کا اعتراف کیا ہے ۔
ابن کنول نے اول تو اپنے اساتذہ کے خاکے بڑی
ہی عقید ت مندی سے تحریر کیے ہیں۔ان کی تصویر کو اس طرح ابھاراہے کہ وہ ایک خوبصورت
شکل اختیار کرلیتی ہے۔خاکوں کا عنوان اشخاص کے نام سے ہی ہوتا ہے ۔ان کے پرائمری اسکول
کے استاد کا نام منشی چھٹّن تھا ۔اسی نام سے ان کا خاکہ تحریر کرتے ہیں ۔اس میں خاکہ
نگار نے اپنے بچپن کی بہت سی یادوں کو قلم بند کیا ہے ساتھ ہی اپنے استاد کی شخصیت
کو ایک خوبصورت رنگ دے کر ابھارا ہے ۔راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ خاکہ ابن کنول کے
دل کے بہت قریب ہوگا،جس میں ان کے بچپن کی بہت سی یادیں موجود ہیں ۔اپنے استاد کا حلیہ
کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں
:
’’چوڑی موری کا پاجامہ اس کے اوپر بوشرٹ پہنتے
تھے۔ سردیوں میں اس کے اُپر کوٹ پہن لیتے تھے اور گلے میں مفلر ڈال لیا کرتے تھے ۔پاس
ہی کسی گاؤں کے رہنے والے روز سائکل سے آیا کرتے تھے ۔درازقد سانولا رنگ ،گھنے بال،
پرانی فلموں کے ہیروجیسے لگتے تھے ،دوسرے استاد سے مختلف تھے ۔‘‘ (ایضاً،ص14)
اس اقتباس میں اپنے استاد کا حلیہ اور ان کے
رنگ و روپ پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے پہناوے کا ذکر کیا ہے ۔وہ اپنے استاد سے بے حد
متاثر تھے اس لیے ان کی چھوٹی سے چھوٹی باتوں کا ذکر بھی اس میں کرتے ہیں ۔اس خاکے
کی ابتدا خاکہ نگار علی گڑھ اور دہلی سے اپنے گاؤں کی دوری بتاتے ہوئے کرتے ہیں۔اس
میں ایک خوبصورت تمہید موجود ہے جس کے بعد اپنے استاد کا ذکر کرتے ہوئے ان سے قاری
کو متعارف کرواتے ہیں۔خاکہ کے آخر میں خاکہ نگار کا عقیدت مندانہ رویہ دکھائی دیتاہے۔
ملاحظہ ہو :
’’دہلی آئے ہوئے بھی چار دہائیوں سے زیادہ وقت گزر گیا لیکن چھٹن جی
کا چہرہ اور ان کی باتیں اب بھی یاد ہیں ۔سنا ہے وہ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں ۔میرے ذہن
میں وہ ا بھی بوڑھے نہیں ہوئے ہیں ۔ان کی وہی صورت اور وہی مشفقانہ باتیں مجھے یاد
دلاتی رہتی ہیں۔ انسان بچھڑ جاتا ہے لیکن اس کا کردار اسے زندہ رکھتا ہے ۔‘‘ (ایضاً،ص16)
یہ ایک شاگرد کا اپنے استاد سے بے پناہ محبت
کا ثبوت پیش کرتا ہے ۔خاکے اکثر شخصیات کے لکھے جاتے ہیںادارتی خاکے بہت کم لکھے گئے
۔ابن کنول نے ادارے پر بھی خاکہ لکھا یہ خاکہ ان کی ابتدائی درسگاہ کا ہے ۔یہ علی گڑھ
کی وہ درسگاہ ہے جہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا آغاز ہوتا ہے ۔ ابن کنول نے اس میںاپنے
طالب علمی کے زمانے کو قلم بند کرنے کی پوری کوشش کی ہے جو ان کو ناصر محمود سے ’’ابن
کنول ‘‘بناتا ہے ۔اس لیے اپنے دوست اساتذہ سب کا ذکر ہے ۔اس میں کئی ایسے واقعات کا
ذکر بھی ہے جو طالب علمی کے زمانے میں پیش آتے ہیں جن کے صرف یاد کرنے سے ہی فضا خوشگوار
ہو جاتی ہے ۔ابن کنول ایسے ہی چند واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’علی گڑھ میں بعض اساتذہ اور سینئرطلباء کی شخصی صفات کی بنیاد پر
اُن کے نئے اصنافی نام بھی رکھنے یا خطابات سے نوازنے کا بہت رواج ہے۔مثلاًمنٹو سرکل
میں وصی اباّ،تقی پوتڑا ،افضال تھیلاجی ، یونیورسٹی میں جب حسرت موہانی پان کا بٹوا
لے کر آئے تو طلبا ء نے انھیں خالہ جان کہنا شروع کر دیا بعد میں مولانا کے نام سے
مشہور ہوئے ۔دیگر نامور شخصیات میں مسعودٹامی، مختار گھوڑا ،بصیر گٹّا،نفیس بکرا ،
اقبال،برولا،کمال انڈا،وسیم بھنڈی وغیرہ شامل ہیں ۔ ‘‘
(ایضاً،ص20)
اس اقتباس سے اس وقت کے علی گڑھ کے رواج کی
معلومات ہوتی ہے ۔ساتھ ہی اپنے طالب علمی کے زمانے میں کس طرح کا وقت ابن کنول نے گزارا
اس پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔یہ اپنے طالب علمی کے زمانے کی وہ یادیں ہیں جوخاکہ نگار
کو بھی جاننے اور علی گڑھ کو سمجھنے میں مدد کرتی ہیں ۔
’’داستان گو قاضی عبد الستار ‘‘کے نام سے اپنے
استاد قاضی عبد الستار کا بھی خاکہ قلم بند کیا ہے جس میں ان کا سراپااس قدر پیش کیا
ہے جیسے کسی بادشاہ کی آمد ہو ۔ملاحظہ ہو :
’’نقیبوں کی رعب دار آوازیں بلند ہوئیں ۔سب سے دولت مند اسلوب کے سب
سے جلیل الشان شہنشاہ کے طلوع کا اعلان کیا۔میانہ قد ،چھریرہ بدن ،کشادہ پیشانی ،دراز
زلفیں ،کتابی چہرہ ،گندمی رنگ ،بادامی رنگ کی شیروانی چوڑی دار پاجامہ ،پشاوری سینڈل
،شاہانہ انداز کے ساتھ جیسے ایک ایک قدم سلطنت پر پڑ رہا ہو ۔‘‘ (ایضاً،ص24)
اس سے ایک بادشاہ کی آمد محسوس ہوتی ہے جب
کہ یہ صرف اپنے استاد کو قاری سے متعارف کروانے کی ابتدا تھی ۔ یہ خاکہ نگار کا موضوع
شخصیت پر اپنے ذاتی مشاہدات کا ہی ثبوت ہے جو اس اقتباس میں محسوس ہوتا ہے ۔قاضی عبدالستار
کے علاوہ’’ قمر رئیس ،تنویر احمد علوی ،گوپی چند نارنگ ، عنوان چشتی ‘‘جیسے اساتذہ
کو خاکہ نگار نے اپنا موضوع قلم بنایا ۔
ان اساتذہ کے خاکوں میں سب سے طویل خاکہ’ قمر
رئیس‘ کا ہے جو 19 صفحات پر مشتمل ہے۔یہ ایک طرح کا سوانحی نوعیت کا خاکہ ہے جس میں
خاکہ نگار نے اپنے استاد سے متعلق بیشتر واقعات کا ذکر کیا ہے ۔ایک شاگرد کی اپنے استاد
سے محبت جا بجا اس میں نظر آتی ہے ۔اس خاکے کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں خاکہ نگار
نے اپنے استاد کی اس عام شخصیت سے بھی قاری کو روبرو کروایا ہے جو ایک بڑے انسان میں
چھپی ہوئی ہے۔
قمر رئیس کی پر کشش اور فعال شخصیت ،ان کے
عادات واطوار اور ان کی ادبی شخصیت کا ذکر بھی اس خاکے میں ملتا ہے ۔ابن کنول رقم طراز
ہیں :
’’اردو میں قمرصاحب واحد نقاد تھے جو پریم
چند تنقید کے لیے پہچانے جاتے تھے ۔پریم چند سے انھیں عقیدت سی ہو گئی تھی ۔انھوں نے
علی گڑھ میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نگرانی میں پریم چند کے ناولوں پر تحقیقی مقالہ
لکھا تھا ۔جو اسی زمانے میں علی گڑھ سے شائع بھی ہوا ۔آج تک اردو میں اس کتاب کی بڑی
اہمیت ہے ۔علی گڑھ میں قمر صاحب اساتذہ اور طلباء میں بہت مقبول رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ قمر صاحب علی گڑھ میگزین کے مدیر بھی رہے
1959 میں دہلی یو نیورسٹی کا شعبہ اردواپنی انفرادی شکل میں قائم ہوا اورپروفیسر خواجہ
احمد فاروقی صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے تو انھوں نے گوپی چند نارنگ اور قمر رئیس کا شعبہ
میں تدریسی خدمات کے لیے انتخاب کیا۔ 1997 میں اسی شعبہ سے سبکدوش ہوئے ۔‘‘
(ایضاً،ص47)
اس اقتباس
سے موضوع خاکہ کی ادبی شخصیت پر روشنی پڑتی ہے ۔ ان کی ادبی خدمات اور ادبی زندگی سے
قاری روبرو ہوتے ہیں ۔اس میں خوبیاں اور خامیاں دونوں کا ذکر ملتا ہے ۔مجموعی طور پر
دیکھا جائے تو ابن کنول نے اپنے استاد کی پوری زندگی ان چند صفحات میں قیدکرنے کی کوشش
کی ہے اور وہ اس کوشش میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں ۔
اپنے دوسرے اساتذہ میں گوپی چند نارنگ کا خاکہ
اہم ہے یہ خاکہ بھی قمر رئیس کے خاکے کی طرح طویل و تفصیلات لیے ہوئے ہے۔خاکہ نگار
کے دہلی آنے کے بعد گوپی چند نارنگ سے بھی تعلقات بڑھتے گئے اور یہی وجہ ہے کہ اپنے
دلی تاثرات کو ابن کنول نے قلمی رنگ دیا۔نارنگ صاحب کی شخصیت سے متعارف کروانے سے پہلے
جو تمہید باندھی اس میں قلم کے جوہر کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔ابن کنول فرماتے ہیں
:
’’جب اسکول سے نکل کر علی گڑھ کے شعبہ ٔ اردو میں آئے تو اردو اور
اردو والوں کی سیاست کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی ۔اور1978 میں دہلی آکر تو اردو کا
پارلیمینٹ ہی دیکھ لیا۔یہاں تو باقاعدہ آزادانہ حکومتیں قائم تھیں ۔کہیں پانی پت کا
میدان تھا کہیں پلاسی کی جنگ تھی ۔کہیں بکسر کی لڑائی۔ہمارے لیے بڑی مشکل تھی ۔ایماں
مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر ‘‘۔ (ایضاً،ص72)
اس اقتباس سے ادبی دنیا کی سیاست کا اندازہ
لگایا جا سکتا ہے ۔جو ایک سچائی ہے اور اسی سچائی کو ایک قلمی روپ دے کر خاکہ نگار
نے بہت سی باتیں کہہ دیں ۔جب کوئی خاکہ نگار اپنے دلی تاثرات کو قلمی روپ دیتا ہے تو
اس شخصیت کے بیان کے ساتھ ساتھ اپنا بیان بھی کرتا ہے جس سے ا س کی خود کی شخصیت پر
بھی روشنی پڑتی ہے ۔گوپی چند نارنگ کے خاکے میں خاکہ نگار کی شخصیت پر روشنی پڑتی ہے
کہ قمر رئیس کے خیمہ کا ہونے کے باوجود بھی گوپی چند نارنگ سے تعلقات کا ذکر اس میں
ملتا ہے ۔ لکھتے ہیں :
’’ابا نے کہا تھا تینوں کا احترام کرنا ،حالات کہہ رہے تھے کسی ایک
کا ہوجا ۔ہم ٹھہرے اصل کُل پر چلنے والے آدمی ۔یعنی کُل سے صلح رکھو۔نظریہ اپنا رکھونہ
کا ہو سے بیر رکھو ،نہ کاہو سے دشمنی ۔ اساتذہ کے اختلافات میں اکثر طلباء کا نقصان
ہوجاتا ہے ۔ہم نے ابّا کا کہنا مانا اور تینوں کا احترام کیا اور تھے بھی لائق احترام
۔‘‘ (ایضاً)
اس مجموعے میں عصمت چغتائی کا خاکہ ایک مختصر
اندازلیے ہوئے ہے ۔جس میں عصمت چغتائی سے چند ملاقاتوں کا ذکر کیا گیا ۔اسی فہرست میں
عینی آپا کا خاکہ بھی آتا ہے ۔
ابن کنول نے اس مجموعے میں اپنے کئی دوست اور
احباب کے خاکے بھی لکھیں ہیں جن میں فاروق بخشی ، علی احمد فاطمی ،پیغام آفاقی،ارتضیٰ
کریم کے خاکے اہم ہیں ۔ پروفیسر علی احمد فاطمی کا خاکہ غضنفر نے بھی لکھاہے۔مگر ابن
کنول نے جس دیدہ ریزی اور شعور کی کارفرمائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے علی احمد فاطمی
کے ادبی سفر میں اُن کے نظریات ،ان کی فہم، ترقی پسند تحریک اور نظریے سے علی احمد
فاطمی کی وابستگی اور ان کے تنقیدی رجحان کے اوصاف کے باہم اُن کی زندگی کا مقصد و
منصب ،وژن اور مشن وغیرہ کو ابن کنول نے اپنے خاکہ میں اس طرح سے بیان کیا ہے کہ پروفیسر
علی احمد فاطمی کے سوانحی حالات ،تعلیم و تربیت ،ادبی محرکات اور مکافات ِ عمل کا ایک
خوشنما نقشہ تصور میں اُبھر آتا ہے ۔جس کے تمام نقوش واضح اور پُر لطف نظر آتے ہیں
۔اس کے ساتھ اگر شخصیت میںکہیں ابن کنول کو جھول نظر آتا ہے تو وہ خاکے میں اس کو
ظاہر کرنے سے بھی گُریز نہیں کرتے مگر یہ جھول اس قدر سبک سری لہجہ اور نرم رو فضا
کے باہم ان کے قلم سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو قاری کو اور نہ ہی شخصیت کو گراں گزرتا
ہے۔گویا بات کہیں بھی ہو سچائی کتنی ہی کڑوی ہو بہ حسن وخوبی اگر بیان کرنا آتی ہے
تو وہ خاکہ نگار کا امتیازی وصف ہے کیونکہ خاکہ مبالغہ سے دور حقیقت کے قریب اور جمالیات
سے پُر ہونا لازمی ہے۔یہ تینوں اوصاف ابن کنول کے اس خاکے میں موجود ہیںاور اُن کے
ہر خاکے میں اس طرح کی ادبی فضا ملتی ہے جو خاکہ نگاری کے لیے اہم اور ضروری ہے۔
ان کے علاوہ کچھ نئے دور
کی ادبی شخصیات بھی اس مجموعے میں نظر آتی ہیں جن میں خواجہ محمد اکرام الدین،محمد
کاظم ،عظیم صدیقی ،نعیم انیس ،محمد شریف قابل تعریف ہیں۔
’’نصف صوفی :خواجہ محمد اکرام الدین ‘‘ کے
عنوان سے خواجہ محمد اکرام الدین کا خاکہ تحریر میں لاتے ہیں جس میں کہیں کہیں مزاح
کے رنگ بھی نظر آتے ہیں جو اس کی خوبصورتی اور بڑھا دیتے ہیں۔اس میں خواجہ اکرام الدین
کے خواجہ ہونے کا ذکر لطیفانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔فرماتے ہیں :
’’ہمارے ایک عزیز ہیں کہ جن کا نام خواجہ اکرام الدین ہے۔دین داری اور
دنیاداری دونوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ یوں تو عمر میں ہم سے کافی چھوٹے ہیں ۔لیکن
نام ایسا رکھ لیا کہ بلا وجہ احترام کرنا پڑتا ہے ۔والدین نے محمد اکرام الدین نام
رکھا آپ نے دور اندیشی دکھائی اور اس میں ہوش سنبھالتے ہی خواجہ کا اضافہ کر لیا
۔اب ہر چھوٹے بڑے کو خواجہ صاحب کہنا پڑتا ہے ۔اور جو ان سے نہیں ملا ہے وہ بزرگان
دین کی طرح احترام کرتا ہے ۔‘‘ (ایضاً،ص216)
ابن کنول بخوبی جانتے ہیں کہاں کس
طرح سے کیسے قاری سے مخاطب کروانا ہے۔اسی لیے اپنے عزیز کا بیان اس خوبصورتی اور لطف
اندوز طریقے سے کرتے ہیںکہ ایک خوشنما ماحول پیدا ہو جاتا ہے اور قاری آخر تک خاکہ
نگار کے ساتھ رہتا ہے ۔اس خاکہ میں موضوع خاکہ کا بیان تہہ در تہہ اس سلیقہ مندی سے
کرتے ہیں کہ خواجہ کی بااخلاق شخصیت ، اپنے سے بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے محبت ان
کو اپنے دوسرے ہم عصروں میں منفرد کرتی نظر آتی ہے۔
ابن کنول نے اکرام الدین کے خواجہ بننے سے
پہلے ، اس کے بعداور ادبی دنیا میں آنے تک کا سفر بڑی ہی ہنرمندی سے پیش کیاہے ۔کہیں
بھی بھرتی کی تحریروں سے شخصیت کو خواہ مخواہ ابھارنے کی کوشش نہیں کی۔اس کے برعکس
چھوٹے چھوٹے واقعات اور بظاہر معمولی نظر آنے والی عام باتوں کے حوالے سے جو کردار
ابھارا ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے۔
ابن کنول نے سبھی موضوع شخصیات کے ساتھ انصاف
کیا ہے جہاں ان کی خوبیوں کو بتایا ہے وہیں ان کی خامیوں پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔لیکن
کہیں کہیں واقعات طویل ہو جاتے ہیں اور خاکہ نگار موضوع سے ہٹ جاتاہے ۔جس سے ایک افسانوی
رنگ پیدا ہو جاتا ہے ۔باوجود اس کے خاکہ نگار نے اپنے قلم کے جوہر بتاتے ہوئے بہت ہی
خوبصورتی کے ساتھ خاکے پیش کیے ہیں ۔جن میں خاکے کی تمام تر خوبیاں موجود ہیں۔بلا شبہ
اپنے دور کے ،اپنی زندگی کے اپنے ادبی میدان کے شہسواروں پر ابن کنول نے اپنے قلم و
ذہن کا حق ادا کرتے ہوئے اگر خاکہ نگاری میں ایک اہم اضافہ کیا ہے تو یہ قابل ستائش
ہے ۔
Dr. Afreen Shabbar
Guest faculty
Department of Urdu
Mohanlal Sukadia University
Udaipur-313001(Rajasthan)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں