انسان کو حیوان ناطق کہا گیا ہے۔یعنی اسے قوت گویائی بخشی گئی۔وہ اپنے جذبات اورخیالات کا اظہار کرنے کے لیے زبان کو بطور آلہ (Tool ) استعمال کرنے کا ہنر جانتا ہے۔یہ زبان انسانی تہذیب کے دور اول میں صرف اشاروں اور آوازوں کا باربط و با معنی مجموعہ تھی۔رفتہ رفتہ اشاروں کے بغیر آوازالفاظ میں ڈھلی اوراسے معنی کا ملبوس عطا ہوا۔ پھر ان بامعنی الفاظ سے جملے بنے اور زبان کا ہیولیٰ تیار ہوا۔اس طرح آواز (صوت) کی نمو سے جملے (تکمیل خیال )کی وسعت تک ز بان کے ادراکِ معنی کادائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ زبان کے ماہرین نے زبان کے اس موضوع کو علم کا درجہ دیا اور تحلیل و تجزیے اور اصول و ضوابط کے سہارے علم زبان کی مختلف شاخیں وجود میں آئیں۔ان میں لسانیات (Linguistic)اور قواعد (Grammer) دو اہم شاخیں ہیں۔
لسانیات کی ایک شاخ علم الصوت (صوتیات۔ (Phonology بھی ہے۔اس کے ذریعے منہ سے نکلنے والی آوازوں
کے مخارج اور دہن کے مستعمل اجزائے نطق پر
غور کیا جاتا ہے۔یہاں آواز کی معنویت پر توجہ نہیں دی جاتی۔قواعد کی ابتدا تفہیم لفظ
سے ہوتی ہے۔اس میں آواز کے با معنی ٹکڑوں پر غور کیا جاتا ہے۔یہ مطالعہ صرف الفاظ
کی حد تک محدود ہوتا ہے۔ اسےعلم الصرف(صرفیات۔ (Morphologyکہتے ہیں۔ قواعد کی دوسری شاخ علم النحو (نحویات) syntacticہے۔اس
میں بامعنی الفاظ،ان کے جوڑ سے بنے فقرے اور جملے کی ساخت نیز ان کے معنویاتی نظام
کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
قواعد میں زبان کو تشکیل دینے والی آواز وں
کے جوڑسے بنے با معنی الفاظ کی جملوی نشست کے اصول و ضوابط طے کیے جاتے ہیں۔
نحویات کیا ہے؟
کسی بھی تحریری یا تکلیمی زبان کی قواعد کا
خاص مقصداس کے لسانی ا ظہارکی مکمل اکائی یعنی جملے کی معنوی وضاحت ہوتا ہے۔اس وضاحت
کے لیے جملے کی بامعنی اکائیاں(الفاظ) جنھیں قواعد میں اجزائے کلام کہا جاتا ہے، ان
کا صرف استعمال ہی نہیں ان کے باہمی انسلاکات کا جاننا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اجزائے کلام
کی بحث صرف کہلاتی ہے اور اس کے علم کو صرفیات
کہا جاتاہے۔ ان اجزائے کلام کی جملے میں محل اوقاف کے مطابق صحیح بامعنی خطی Linear ترتیبی نشست،دیگر صرفی اجزا سے ان کی ہم رشتگی
یا انسلاک اور ان کے تعاون سے تشکیل پانے والے با معنی جملے کی ہیئت ؍ ساخت کا
تجزیہ نحو کا موضوع ہوتا ہے۔ نحو کے اس علم کو نحویات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
جملے میں الفاظ کا باہم تعلق سمجھنے کے لیے
ان کاباہمی ربط، تنظیم اور ترکیب کا جاننا ضروری ہوتا ہے۔
(الف) باہمی ربط :
باہمی ربط سے مراد جملے میں جنس (تذکیر و تانیث)تعداد (واحد،جمع)صیغۂ شخصی (متکلم،حاضر،غائب)اورزمانہ (ماضی، حال، مستقبل ) کے اظہار کے لیے فعل اور فاعل میں مطابقت کاپایا جانا ہے۔مثلاً’’چھو ٹا لڑکا ضد کر رہا ہے‘‘۔ ’چھوٹا‘اس لفظ کا ربط ’لڑکے‘کی جنس اور تعداد سے ہے نیز ’رو رہا ہے‘ یہ فقرہ لڑکے کی جنس، تعداد،صیغۂ شخصی اور زمانے کا مظہر ہے۔ چھوٹی لڑکی ضد کر رہی ہے۔چھوٹے لڑکے ضد کر رہے ہیں۔ لڑکا ضد کرے گا۔لڑکے نے ضد کی۔ ان مثالوں میں فاعل (لڑکا) اور فعل (ضدکرنا)کے صرفیوں میں جنس، تعداد اور زمانے کے مطابق فعلی توافق پایا جاتا ہے۔ یعنی ’لڑکا(ضد)کر رہا ہے ‘میں فاعل کا صرفیہ’۔َا‘ ہے تو فعل کا صرفیہ بھی’۔َا‘ ہی ہوگا۔اگر فاعل کا صرفیہ’۔ِی‘ ہے تو فعل کا صرفیہ بھی ’۔ِی ‘ہی ہوگا۔اسے ہی فعلی توافق کہا جاتا ہے۔(جیسے لڑکا= کر رہا، لڑکی = کررہی)یہ توافق،ربط کلام کی بامعنی اکائی کی لسانی ساخت سے لے کر جملے کے تمام تر ساختی تعملات کے منسلکات اور ان کی جزئیات میں پایا جاتا ہے۔نحویات ان روابط کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔نثر میں اجزائے کلام کا مربوط رشتہ تلاش کرتے وقت لے ،آہنگ اور سر تال پر توجہ نہیں دی جاتی لیکن شاعری میں الفاظ کے مرکباتی روابط میں ان باریکیوں کا بالخصوص خیال رکھا جاتا ہے وگرنہ شعر، عروضی قواعد سے ہٹ جاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شعری نحویات میں عروضی نکات پر بھی غور کیا جاتا ہے۔ ذیل میں اردو اشعار میں استعمال ہوئے چند نحوی مرکبات کا شعری(عروضی) ضابطوں کے تابع ہونا واضح کیا گیا ہے ؎
ع: سردیِ ّ حنا پہنچے ہے عاشق کے جگر تک (سردی ئِ حنا)
ع: کروں گر عرضِ سنگینیِّ کہسار اپنی بے تابی (سنگینی ئِ کہسار)
ع : سرخیِّ رنگِ رخ سے چمک اور بڑھ گئی (سرخی ئِ رنگ)
یہاں تینوں مصارع کے مرکبات کا تجزیہ قوسین
میں کردیاگیا ہے۔ان تینوں الفاظ کے مضاف؍موصوف (سردی،سنگینی
اور سرخی)کے آخری حروف یا ے مجہول ہیں۔ نثر میں ان کی اضافی ترکیب بالترتیب سردیِ
حنا، سنگینیِ کہساراور سرخیِ رنگ زیرِ اضافت کے ساتھ درست سمجھی جاتی ہے لیکن اشعار
میں ان مرکبات کاغیر مشدد استعمال کر دیا جائے تو شعر بحر سے خارج ہوجائے گا کیونکہ
یہ تینوں مضاف (سردیِّ، سرخیِّ اور سنگینیِّ) بلا تشدید، اوزان ِعر وض کا حق ادا نہیں
کر سکتے۔اس لیے شعری نحویات میں مذکورہ مرکبات کومندرجۂ بالا مثالوںکے مطابق مشدد
کرنا لازمی و لابدی ہوتا ہے۔ غالب نے اس ضمن میں تفتہ کو لکھے اپنے خط میں کہا تھا :
’’ یاد رکھو! یاے تحتانی
تین طرح پر ہے :
جزوِ کلمہ :(مصرع)ہماے بر سرِمرغاں ازآںشرف
دارد
(مصرع)اے
سرِ نامہ نام تو عقل گرہ کشای را
دوسری تحتانی
مضاف ہے۔صرف اضافت کا کسرہ ہے۔ہمزہ وہاں بھی مخل ہے، جیسے آسیاے چرخ یا آشناے قدیم
تیسری دو
طرح پر ہے : یاے مصدری اور وہ معروف ہوگی،جیسے ’آشنائی ‘یہاں ہمزہ ضروربلکہ ہمزہ نہ
لکھنا عقل کا قصور
یاے توحید ی: جیسے : ’آشنائے‘ یعنی ایک آشنا
یا کوئی آشنا۔ یہاںجب تک ہمزہ نہ لکھوگے،دانا نہ کہاؤگے۔"
(غالب[مرتبہ : خلیق انجم ] ’غالب کے خطوط‘ غالب انسٹی ٹیو ٹ،نئی دہلی 1993،جلد اول :ص247)
غالب نے یاے تحتانی کو ان تین طرح سے لکھنے
کی سفارش کی ہے وہاں اپنے اشعار میں یاے معروف سے بنی اضافت کو مشدد بھی کیا ہے۔اوپر
کے اشعار میں یاے مشدد کی مثالیں دی جا چکی ہیں۔ظاہر ہے کہ اس نوع کے مرکبات،جن کا
تعلق نحوسے ہے عروضی ضوابط کی پابندی کی وجہ سے شعری نحویات کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔
صفت۔ موصوف، مضاف۔ مضاف الیہ و غیرہ جتنے بھی مرکبات کے دائرے میں آتے ہیں (جیسے اضافتِ
مطلق،اضافتِ تملیکی،اضافتِ نسبی،اضافتِ ظرفی، اضافتِ مصدری،اضافتِ سببی، اضافتِ بیانی،اضافتِ
مقلوب،اضافتِ تخصیصی وغیرہ )ان دو یا تین الفاظ کی باہمی مربوط نسبت کا رشتہ نحویاتی
نظام کی سب سے چھوٹی اکائی سے جڑ جاتا ہے۔یاد
رہے کہ دو تین سے زیادہ اضافی تراکیب بیک مقام تواتر کے ساتھ نثر و نظم میں مستحسن
سمجھی نہیں جاتیں۔ نحویات میں ان تراکیب کی باہمی نسبت پر بھی غور کیا جاتا ہے۔اس کے
علاوہ جملے میں اجزائے کلام کے مابین پائی جانے والی نسبتوں اور ان کے قواعدی روابط
کا تجزیہ بھی نحو میںکیا جاتا ہے۔ گویا دو بامعنی الفاظ کے معنوی ربط سے لے کرلسانی
اظہار کے طویل بامعنی ساختی تعملات کے مابین پائے جانے والے ربط پر نحویات غور کرتا
ہے۔
(ب) تنظیم:
جملے میں الفاظ
کی با معنی خطی ترتیب کو تنظیم کہا جاتا ہے۔’’ چھوٹا لڑکا ضد کرتا ہے ‘‘۔یہ مکمل جملہ
الفاظ کی صحیح محلی؍مقامی نشستوں کا خیال
رکھنے کی وجہ سے بامعنی بنا ہے۔ اگر ان کی نشستی تنظیم بگڑجاتی تو یہ جملہ الفاظ کا
مجموعہ تو ہوتا لیکن اس کے کوئی معنی نہ ہوتے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ جملے یا شعر میں
معنویت صرف مجرد الفاظ کے مجموعے کی بدولت پیدا نہیں ہوتی ان الفاظ کی بہترین تنظیم
بھی اس کی متقاضی ہو تی ہے۔یوں بھی کہا جاتا ہے کہ معنی الفاظ کے بطن سے پیدا ہوتے
ہیں،ان میں انفصال،انفشار یا بد نشستگی پیدا ہو جائے تو معنی خبط ہو جاتے ہیں اور ترسیل
خیال میں رکاوٹ آجاتی ہے۔ اس لیے جملے یا شعر میں لفظی تنظیم بہت ضروری ہوتی ہے۔ نحو یات میں جملے کی اس طرح کی خطی تنظیمی نشست
کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
(ج)ترکیب:
اضافی مرکبات سے ہٹ کر ترکیب میں باہمی ربط کا سلسلہ
دراز ہوتا ہے۔یہاں صرف درمیانی ربط ہی ملحوظ نہیں رہتا بلکہ ساختی تعملات کے آگے اور
پیچھے کے ربط پر بھی غور کیا جاتا ہے۔ان کے معنی اور مفہوم کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔سب
سے اعلیٰ و ارفع امر یہ ہے کہ نحویات میں ا لفاظ کی بامعنی ترکیب یعنی الفاظ کی نشست
و برخاست کا برمحل تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس ترکیب کا چھوٹا سانچامبتدا اور خبر سے بنتا
ہے،جیسے زید آیا۔اس جملے میں زید مبتدا ہے اور آ یا خبر ہے۔ان دونوں الفاظ کو جوڑ
کر معنی تک پہنچا جاتا ہے اور انھیں توڑ کر ان کے لسانی انسلاکات کا جائزہ لیا جاتا
ہے۔جملے میں معنی کی توسیع کے امکانات طویل ساختی تعملات پر منحصر ہوتے ہیں۔کبھی کبھی
الفاظ کئی فقروں سے منسلک ہو کر جملہ بنتے ہیں۔ یہ مفرد جملہ بھی ہو سکتے ہیں یا مرکب
یا پھر مخلوط بھی ہو سکتے ہیں۔ان میں فقروں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی نحویاتی مطالعہ
اتنا وسیع ہوگا اور ان کی معنویاتی توسیع میں اضافہ ہوگا۔الفاظ کے انسلاکات کا انحصارترکیبی
ضابطوں اور قواعدی اصولوں پر ہوتا ہے۔ان کی بنیاد پر جملے کی کئی قسم کی ترکیبیں بنتی
ہیں، جیسے: اسمی ترکیب،توصیفی ترکیب، اضافی ترکیب،فعلی ترکیب،متعلق فعلی ترکیب وغیرہ۔ جملوں میں ان کے استعمال سے ان کی قسم پہچانی
جا سکتی ہے، جیسے زید لڑکا ہے۔(اسمی ترکیب) وہ کرسی پر بیٹھا ہے۔ (فعلی ترکیب)زید کالا
ہے۔(توصیفی ترکیب) زید کی کتاب (اضافی ترکیب
)تیزدوڑتا گھوڑا (متعلق فعلی ترکیب ) زید اورگھوڑا( عطفی ترکیب) ان تمام تراکیب میںمتعلقہ
اجزائے کلام کی مختلف فروعات استعمال ہو سکتی ہیں۔نحویات میں تراکیب کی ان باریکیوں
پر بحث کی جاتی ہے۔
نحوی ترکیب کے مطالعے کے دوران جملے کے اجزائے
متصلہ (Immediate
Constituents) پر
غور کیا جاتا ہے۔یعنی ایک جملے میں کتنے جزو ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ان اجزائے متصلہ
سے ترکیب بنتی ہے اور ایک بامعنی جملہ وجود میں آتا ہے۔مثلاً’’ وہ کتاب جو کل گم ہو
گئی تھی،دیوانِ غالب تھی۔‘‘اس جملے میں دو اجزائے متصلہ ہیں: ’’ وہ کتاب جو کل گم ہو
گئی تھی ‘‘اور ’’دیوانِ غالب تھی۔‘‘اس کے علاوہ،’’ وہ کتاب ‘‘ بھی ’’جو کل گم ہوگئی
تھی ‘‘کا جزو متصل ہے۔اب اس جملے کی جتنی بھی ترکیبی توسیع کی جائے گی،اجزائے متصلہ
میں اضافہ ہوتا جائے گا اور نئی نئی تراکیب کے استعمال سے ان کی اقسام وجود میں آئیں گی۔
نحویات اور معنیات
نحویاتSyntactic اور معنیات Semantacs میں چولی دامن کا رشتہ دکھائی دیتا ہے۔شعر یا
جملے کی تفہیم اسی رشتے پر منحصر ہوتی ہے۔نوم چامسکی نے اپنی کتاب Syntactic Structures کے آٹھویں اور نویں باب میں ان دونوں
کے رشتے کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ’کیا معنی کے تصور
کے بغیر قواعدGrammer
تیار
کیا جا سکتا ہے ؟وہ کہتے ہیں۔
’’میں گرامیٹیکل ڈھانچے
کے نظریہ کو جزوی طور پر سیمنٹک اصطلاحات میں تیار کرنے کی کسی تفصیلی کوشش یا گرامر
کی تعمیر یا تشخیص میں معنوی معلومات کے استعمال کے لیے کسی خاص اور سخت تجویز سے واقف
نہیں ہوں۔‘‘ (ص 93)
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گرامر جس سے زبان کے اصول و ضوابط بنائے جاتے ہیں،معنیاتی نظام کے بغیر ممکن ہی نہیں۔نحوی تجزیے میںجملے کے تمام لسانی ساختی تعملات کی قوت معنوی کو آنکتے وقت بے معنی حروف ( ربط،عطف،تخصیص،فجائیہ وغیرہ)کو ان کے اجزائے متصلہ کے سہارے معنی فراہم کیے جاتے ہیں لیکن بعض اوقات ناقص لسانی مرکبات کے سہارے بنے فقرے جوعرف عام میں محاورہ کہلاتے ہیں، سماجی روز مرہ اور سماجی لسانیات کے زیر اثر اپنے ان معنی کے متحمل نہیں ہوتے جو نحویاتی تجزیے سے برآمد ہوسکتے ہیں، جیسے: ’’جان میں جان آنا‘‘، ’’گل کھلانا‘‘۔ ان دونوں محاوروں کے نحوی اور روایتی معنی میں فرق ہے۔ ایسے ناقص مرکبات سے بنے فقروں میں ضرب المثل کا بھی شمار ہوتا ہے کہ اس میں فقرے کے ساختی تعملات کے نحوی معنی کچھ اور ہوتے ہیں اور روایتی معنی علاحدہ۔اس سے نو آموزافرادترسیل معنی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض وقت شعر اور جملے کچھ اس طرح بھی لکھے جاتے ہیں جو ذو معنی ہوتے ہیںاور مبہم معنی بہم پہنچاتے ہیں۔ شاعری میں یہ بطور صنعتِ ایہام کافی مشہور ہے، لیکن نثر میں اس کی وجہ سے نحوی تجزیہ دشوار ہو جاتا ہے۔ایسی حالت میںلسانی اظہار کی جملوی ترکیب اور اس کے ساختی تعملات کے اجزائے متصل پر ایک طرف غور کیا جانا لازمی ہے تو دوسری جانب اس کے معنیاتی پہلو پر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ چامسکی نے اپنی کتاب میں صنائع لفظی والے ا یہام پر نہیں بلکہ فقرے اور جملے میں در آئی ذو معنوی نحوی تراکیب پر بحث کی ہے جن سے تفہیم میں ابہا م پیدا ہو جاتا ہے۔مثلاً’’میں روزی سے زیادہ برفی پسند کرتا ہوں۔‘‘اس جملے کے دو معنی برآمد ہوتے ہیں۔ایک یہ کہ روزی کے مقابلے میں مجھے برفی زیادہ پسند ہے اور دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ میں اور روزی دونوں برفی پسند کرتے ہیں مگر اس کی پسند سے بھی زیادہ مجھے برفی پسند ہے۔دراصل ابہا م پیدا ہونے کا سارا فتور جملے کی فہمائش پر انحصار کرتا ہے وگرنہ جملے کی نحوی ساخت اپنی جگہ درست ہوتی ہے۔البتہ ولیم امپسن کے نزدیک اظہار کے طریق کار کی وجہ سے ابہا م پیدا ہوتا ہے۔ غالب کے یہاں ذو معنی الفاظ کے علاوہ مکمل مصارع میں بھی ابہام کی مثالیں مل جاتی ہیں، مثلاً ایک شعر کی تفہیم کچھ اس طرح ہو سکتی ہے محبوب نے بیمار کو دیکھا تو بیمار کے چہرے پر رونق آ گئی دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں بیمار نے جیسے ہی محبوب کو دیکھا،اس کے چہرے پر رونق آگئی۔ظاہر ہے کہ پہلے مفہوم میں محبوب فاعل ( دیکھنے والا)اور بیمار مفعول ( جسے دیکھا گیا)ہے اور دوسرے مفہوم میں بیمار فاعل (دیکھنے والا)اور محبوب (ان) مفعول ( جسے دیکھا گیا)ہے۔نثر میں اظہار کا یہ طریق کار نحویات میں مبہم ساخت Constructional )تعمیراتی ابہام Ambiguity) کہلاتا ہے۔
نحویات میں تنظیم،ترتیب اور ترکیب کے بعدنشان
گر Markers پر بھی
غور کیا جاتا ہے۔عرف عام میں یہ حروف کہلاتے ہیں۔بالعموم وہ اپنے کوئی انفرادی معنی
نہیں رکھتے مگر جملے میں اجزائے کلام کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔مثلاً’’زید
اور اکرم ‘‘ِآدمی اور عورت‘‘۔ ان دونوں فقروں میں ’’اور ‘‘عطفی نشان گر ہے۔ اس کے
علاوہ ’’ کا،کی کے‘‘اضافی نشان گر، ’’پر، لیکن، مگر‘‘استدراکی نشان گروغیرہ۔یہ نشان
گر اپنے ذاتی معنی نہیں رکھتے مگر اجزائے کلام سے جڑ کر فقرے کو بامعنی بننے میں معاونت
ضرورکرتے ہیں،گویا الفاظ کے منظم سلاسل میں معنی کی رو دوڑانے کا کام نشان گر بخوبی
کرتے ہیں۔
علم النحو الفاظ کے سلسلوںسے تشکیل پانے والے
فقرے اور جملے کے تجزیے پر منتج ہوتا ہے۔ا س تجزیے میں الفاظ کی تمام اقسام،ان کے انسلاک
کی وجہ سے معنوی توسیع، ان کا خطی دروبست Linear orderاور ان کی تفہیم و ترسیل کی سرگرمیوں کا مطالعہ
کیا جاتا ہے۔ یہاں الفاظ سے مراد اجزائے کلام سے ہے جو اسم،فعل اور حروف کا مجموعہ
ہوتے ہیں۔ان کے صحیح دروبست اور مناسب ربط سے فقرہ ؍ جملہ تشکیل
پاتا ہے جو کسی مُظہرِ خیال کا لفظی پیکر ہوتا ہے۔نحویات میںلفظ سے جملہ بننے تک الفاظ
کی کارگذاری کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ان میں انسلاکِ معنی کو تلاش کیا جاتا ہے۔قواعدِ
زبان کے اعتبار سے ان کے جزئیاتی عناصر کے اثرات سے الفاظ میں ہونے والی معنوی تبدیلیوں
کا تجزیہ بھی نحویات کا موضوع ہوتا ہے۔ الفاظ کے جزئیاتی عناصر سے الفاظ پر ہونے والی
تبدیلیاںذیل کی طرح ہوتی ہیں
:
الفاظ /
اجزائے
کلام
جزئیاتی عناصر
ہونے والی تبدیلیاں
1
اسم
2
ضمیر
جنس (مذکر،مونث)تعداد (واحد جمع)
وہ لڑکا ہے (مذکر،واحد)وہ لڑکی ہے (مونث، واحد)
وہ لڑکے ؍ لڑکیاں
ہیں (مذکر، مونث،جمع)
3 صفت
وہ اچھا لڑکا ہے،وہ اچھی لڑکی ہے،وہ اچھے لڑکے
ہیں،وہ اچھی لڑکیاں ہیں۔
4 فعل
زمانہ،حالت،شخص
(متکلم،حاضر،غائب)
ان تینوںعناصر کی وجہ سے فعل کی مبدّلہ صورتوں کا تجزیہ گردان کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
امدادی افعال ؍
مرکب افعال،طور
شیر،بکری کو کھا رہا تھا،بکری کھائی جا رہی
تھی۔
5 متعلقِ فعل
فعل کی کیفیتوں کو واضح کرتے ہیں۔جیسے تیز رفتار،دھیمی رفتار
6 متعلقِ فعل
ربط،عطف،تخصیص،فجائیہ وغیرہ
بالعموم اجزائے کلام پر ان کا کوئی اثر نہیں
پڑتا۔
الفاظ سے جملہ بننے تک کے عمل میں مارفیم ؍الفاظ کے
درمیان باہمی روابط کا جو سلسلہ پایا جاتا ہے اس کا تجزیہ مختلف انداز میں کیا جاتا
ہے۔مثلاًجب جملے میں فاعل کا ربط فعل کے ساتھ ہوتا ہے تب فاعل کے جنس،تعداد اور شخص
کے مطابق فعل کی جنس، تعداد اور شخص میں تبدیلی واقع ہوتی ہے،جیسے لڑکا گاتا ہے۔لڑکی
گاتی ہے۔لڑکے گاتے ہیں۔ لڑکیاں گاتی ہیں۔تعظیم و تکریم والے جملے میں البتہ فعل جمع
کے صیغے میں استعمال ہوتا ہے،جیسے بھائی آئے ہیں۔یہاں بھائی فاعل اور واحد ہے لیکن
ان کے آنے کے عمل کو جمع کے صیغے میں لایا گیا۔ بعض اوقات اسمائے جمع فاعل ہوں تو
ان کا فعل واحد ہی رکھا جاتا ہے،جیسے فوج آرہی ہے۔ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
فاعل ایک سے زیادہ ہم جنس اسما ہوں تو ان کا
فعل جمع کے صیغے میں درج ہوگا، جیسے لڑکا اور
اس کا کتا ایک ساتھ کھیل رہے ہیں۔کسی جنگل میں ہرن اور خرگوش رہتے تھے۔لیکن ایک ہی
جنس کے دویا دو سے زیادہ اسمائے کیفیت یا اسمائے ظرف واحد کے صیغے میں آئے توفعل بالعموم
صیغۂ واحد ہی میں ہوگا،جیسے زید کی باتیں سن اکرم کو خوشی اور حیرت ہوئی۔کنویں سے
گھڑا اورلوٹا نکلا۔
اگر متضاد جنس و تعداد کے ایک سے زیادہ اسما
فاعل ہوں تو فعل کی تعداد و جنس، آخر کے فاعل کے مطابق ہوگا،جیسے غصے میں منہ،آنکھ
اور رخسار سرخ نظر آتے ہیں۔ اگرضمیر شخصی کے فاعل متکلم اور حاضر ہوں تو فعل متکلم
کے مطابق ہوگا،جیسے ہم اور تم ساتھ چلیں گے۔اور اگر فاعل حاضر اور غائب ہوں تو فعل
حاضر کے مطابق رہے گا،جیسے تم اور وہ کل آنا۔
تو اور وہ گیا تھا۔
اگر مضارع کے ساتھ فاعل ومفعول دونوںآتے ہیں
تو مفعول کی جنس،تعداد اور شخص کے مطابق فعل کی جنس بدل جاتی ہے،جیسے لڑکے نے کتاب
پڑھی۔لڑکی نے تصویریں بنائیں۔لیکن دو یا زائد مفعول اگرالگ الگ ہوں تو ان کا فعل اسی
جنس کے صیغۂ واحد میں آئے گا،جیسے میں نے ایک گائے اورایک بیل خریدا۔میں نے ایک بیل
اور ایک گائے خریدی۔وغیرہ۔
یہ ساری مثالیں جملے میں جزو متصل کے نحوی عمل
کی مظہر ہیں۔یہی اجزائے متصلہ سے الفاظ سے فقرے اور فقروں سے بامعنی جملے تشکیل پاتے
ہیں۔شاعری میں بعض جگہ اجزائے متصلہ کے درمیان میںشعری ضرورت کے تحت ا نفصال پیدا کیا
جاتا ہے نحوی ترتیب کے مطابق اگرچہ یہ غیر قواعدی عمل ہے لیکن شاعری میں اسے اباحت
کے دائرے میں رکھا جاتا ہے۔مثلاً: نثری جملہ :نقش، کس کی شوخیِ تحریر کا فریادی ہے ؟
ع: نقش، فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا (سوالیہ مصرع)
یہاں جملے کا نثری تصریفی عمل کچھ اس طرح ہوگا:نقش
( اسم مجرد،فاعل)کس (ضمیرِاستفہام )کی( حرف ربط،اضافی واحد)شوخی (صفت)۔ِ(کسریٰ اضافت)
تحریر (اسم مجرد مفعو ل،و احد) کا(حرف ربط،اضافی،مذکر،واحد) فریادی (صفتِ ذاتی،واحد)ہے(
فعل ناقص)اس جملے میں نحوی ترکیب کے مطابق
’نقش‘ مبتدا ہے اور باقی الفاظ استفہامیہ خبر
ہیں۔اس استفہامیہ فقرے کے لفظی ارتباط سے جو معنی نکل کر آتے ہیں وہ قاری کے لیے محولہ
مصرع کے با وصف سریع الفہم ہیں،کیونکہ مصرع میں شعری ضرورت کے مطابق اجزائے کلام کے
قواعدی نظام کو بد لنے کی وجہ سے قاری کی قوت مدرکہ متأثر ہو جاتی ہے اور اس کے سمجھنے
کی رفتار کسی حد تک سست ہو جاتی ہے۔
ساخت کے اعتبار سے جملہ دو جزو سے بنتا ہے۔(1)
مبتدا اور (2) خبر۔خبر کی لفظی وسعت کی بنیاد پر جملہ مفرد،مرکب اور مخلوط جملے میں
تبدیل ہوجاتا ہے۔جملے میں فعل کی عملی شکل بھی مختلف ہو کر جملے کی ہیئت متبدل کر دیتی
ہے اسے طور کہا جاتا ہے۔طوری اعتبار سے جملے طور معروف،طور مجہول اور طور معدولہ کہلاتے
ہیں۔رہا لہجے کے اعتبار سے جملے کی اقسام،تو اس کی گیارہ اقسام تسلیم کی گئی ہیں۔(1)
ایجابی یا اقراری (2) توثیقی (3) انکاری یا منفی (4) استعجابی یا فجائیہ(5) استفہامی
(6) تعارفی یا تمہیدی(7) دشنام آمیز (8) خوشامدانہ (9) استبعادی (10) استہزائیہ اور
(11) امریہ۔لہجے کے اس طور طریقے سے جملے کی نحوی ساخت معنیاتی نظام کو متأثر کرتی
ہے۔شاعری میں تو ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں کہ نحوی ساخت تو جوں کا توں رہتی ہے مگر
لہجے سے مفہوم بدل جاتا ہے۔مثلاً ؎
کون ہوتا ہے حریفِ مے مرد افگن ِ عشق؟
ہے مکرر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد
غالب خود اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے پہلے مصرع
کو دو مختلف لہجوں میں پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔حالی یاد گار غالب میں رقم طراز ہیں :
’’اس میں ایک نہایت لطیف
معنی پیدا ہوتے ہیں۔اور وہ یہ کہ پہلا مصرع ہی ساقی کے صلا کے الفاظ ہیں۔اور اس مصرع
کووہ مکرر پڑھ رہا ہے۔ایک دفعہ بلانے کے لہجے میں پڑھتا ہے،’’ کون ہوتا ہے حریف مے
مردِ افگن عشق یعنی کوئی ہے جو مے مرد افگن عشق کا حریف ہو؟پھر جب اس آواز پر کوئی
نہیں آتا تو اسی مصرع کو مایوسی کے لہجے میں
مکرر پڑھتا ہے کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق،یعنی کوئی نہیں ہوتا۔اس میں لہجہ اور
طرز ادا کو بہت دخل ہے کسی کو بلانے کا لہجہ اورہے،اور مایوسی سے چپکے چپکے کہنے کا
اورانداز ہے۔جب اس طرح مصرع مذکور کی تکرار کروگے،فوراًیہ معنی ذہن نشین ہو جائیں گے۔‘‘ ( حالی : یادگار غالب ص 126-27)
غالب کا ایک اور شعر اسی نوع کا ہے۔اسے بھی
اگر تبدیلیِ لہجے کے ساتھ پڑھا جائے تو معنی میں فرق واقع ہوتا ہے ؎
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
شاداں بلگرامی
نے مصرع اولیٰ کو استفہام انکاری کے طور پر پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔جیسے ’ تو اور پاسخ
مکتوب؟ اس طرح کے لہجے میں ایک طرح کا طنز چھپا ہوتا ہے،کہ تو ایسا کر ہی نہیں سکتا
یعنی یہ بات مستبعد ہے۔اس شعر کا بیانیہ انداز تو یہ ہے کہ ’’میں جانتا ہوں کہ تو خط
کا جواب نہیں دے گا لیکن شوق تحریر مجھے خط لکھنے پر مجبور کرکرتا ہے۔شاداں بلگرامی
کے مشورے کے مطابق شعر کی قرأت کی جائے تو مصرع میں طنز و استبعاد کا پہلو نکل آتا
ہے۔پس ثابت ہوا کہ لہجہ نحوی ساخت کے جملے کے معنوی پہلو پر اثر انداز ہوتا ہے۔
نحویات میں رموزاوقاف اور اعراب پر بھی غورکیا
جاتا ہے۔عبارت؍ شعر میں
پائے جانے والے ابہام کو دور کرکے متن کے معنی تک صحیح و سریع رسائی حاصل کرنے میں
رموز اوقاف نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ولیم ایمپسن نے اپنی کتاب میں ابہام کی سات
قسمیں بیان کرتے ہوئے اوقاف کی علامتوں کے غیر قطعی استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والے
ابہام کی وضاحت کی ہے۔نثر میں ان کے استعمال سے متن کا مفہوم بآسانی سمجھا جا سکتا
ہے اورابہامی کیفیت ختم ہو سکتی ہے لیکن شاعری میں رموز اوقاف کی قطعی گنجائش نہیں
ہوتی صرف فہم و ادراک کی قوت ہی معنی تک پہنچانے میں معاونت کر تی ہے۔ایسی حالت میںاوقاف
کے عدم استعمال سے ابہام کے پیدا ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ اوقاف کے استعمال کی اسی
اہمیت کے پیش نظر قواعد کے ماہرین نے متن کی تفہیم کے لیے اوقاف کے استعمال پر زور
دیا ہے۔ان کے استعمال سے الفاظ اور جملوں کے درمیان کے انسلاک اور انقطاع کے ذریعے
معنی تک پہنچنے میں سہولت ہوتی ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے غالب کے مصرع ’لاف تمکیں فریب سادہ دلی‘ کو
اعراب و اوقاف کے ساتھ، آٹھ طریقوں سے پڑھا
ہے،جیسے:
1 ع: لافِ تمکیں،فریب،سادہ دلی
2 ع: لافِ تمکیں،فریب،سادہ دلی
3 ع: لافِ تمکیں،فریب ِ سادہ دلی
4 ع: لاف، تمکیں فریب سادہ دلی
5 ع: لاف،تمکیں فریب سادہ دلی
6 ع: لافِ تمکیں فریب سادہ دلی
7 ع: لاف تمکیں،فریب سادہ دلی
8 ع: لاف تمکیں فریب،سادہ دلی
اس ایک مصرع میں اوقاف کے مقام بدلنے کی وجہ
سے معنی میں خاصا فرق آگیا ہے لیکن اس سے بھی پیشتر لہجے کی تبدیلی معنی پر اثر انداز
ہوتی دکھائی دیتی ہے۔اوقاف کے استعمال کے بعد فاروقی کے بتائے ہوئے معنی طباطبائی،سہا
مجددی اورحسرت کے یہاں بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔طباطبائی اس مصرع کی وضاحت اس طرح
کرتے ہیں :
’’اے لافِ سادہ دلی تیرا
وصف تو یہ مشہور ہے کہ تو تمکیں فریب ہے۔‘‘
سہا کہتے
ہیں : ’’ہمارے ضبط و خود داری کے دعوے،سادہ دلی کے فریب پر مبنی تھے۔‘‘
حسرت اس مصرع کی تشریح یوں کرتے ہیں:’’ہم بربنائے
سادہ دلی ابھی تک یہی سمجھے جاتے ہیں کہ عشق میں دعوائے صبر و تمکین کا نباہناممکن
ہے۔‘‘
یہاں طباطبائی کی تشریح فاروقی کی قرأت نمبر
6 سے لگا کھاتی ہے۔ان کی قرأت نمبر7 کی تشریح سہا کی شرح میں نظر آتی ہے اورحسرت
کی تشریح فاروقی کی قرأت نمبر 7 اور8کی ۔
۔ وضاحت کرتی ہے۔اس وضاحت سے منکشف
ہوتا ہے کہ اوقاف و اعراب کا استعمال شعر یا متن کے ابہام سے بچنے میں معاونت کرتا
ہے اورجملے کی نحوی ساخت کی معنیاتی تفہیم میں آسانی پیدا کرتا ہے۔
شاعری میں اعراب کے استعمال کی غلطی سے بھی
معنوی اسقام پیدا ہو سکتے ہیں۔ گیان چند جین نے اپنی کتاب ’رموزِ غالب‘میں اوقاف و
اعراب ہی پر سیر حاصل بحث کی ہے۔مثلاً نسخۂ
عرشی کے درج ذیل مصارع میں انھیں بعض جگہ زیر اضافت کی غلطیاں نظر آئیں،جیسے ع:
ع:
’مرگِ شیریں ہوگئی تھی کوہ کن کی فکر میں ‘اس مصرع میں جین صاحب ’مرگ شیریں‘کو
بلا اضافت پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ع:
’’مجھ میں اور مجنوں میں وحشت، سازِ دعواہے اسد ‘‘اس مصرع میں وہ وقف اور اضافت
دونوں کے استعمال کو مباح نہیں سمجھتے۔
؎
’’زلفِ سیہ،افعی
نظر بد قلمی ہے ہر چند خطِ سبز زمرد رقمی
ہے
دیوانِ عرشی کے اس شعرمیں اوقاف و کسرۂ اضافت
کے متعلق عرشی اور گیان چند جین کے یہاں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔دونوں کی قرأت کے
اختلاف کی وجہ سے شعرکی معنوی حیثیت بھی مجروح ہوئی ہے۔عرشی افعی نظر اور بدقلمی (ٹیڑھی
میڑھی تحریر) زلفِ سیہ کے دو اوصاف مانتے ہیں جبکہ جین صاحب لفظ’نظر‘کو کسرۂ اضافت
کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں۔ دوسرے مصرع میںدونوں
’سبز اور زمرد کے درمیان واو عطف یعنی ’سبز و زمر د‘کو موزوں گردانتے ہیں۔ دراں حالیکہ
واو عطف کے بغیر شعر کے معنی بالکل صاف ہیں۔
معشوق کی کالی زلفیں ( کان ا ور رخسار کے قریب
والی بالوں کی لٹ)سانپ اور ٹیڑھی میڑھی تحریر کی طرح ہیں۔
اگرچہ اس کے رخسار پر خطِ سبز،زمرد کی طرح ر
قم ہوگیا ہے یعنی اُگ آیا ہے مگر اس زمرد کا اثر ان زلفوں کے سانپ پر مطلق نہیں ہوا۔
مانا کہ زمرد دیکھتے ہی سانپ اندھا ہو جاتا ہے لیکن یہ خط ِ سبز تو معشوق کی زلفوں
کا کچھ بگاڑ نہیںپا رہا ہے۔
غالب کے
ایک اور شعر میں اس کی وضاحت مل جائے گی
؎
سبزۂ خط سے ترا کاکل ِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد
بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نحویات میں اوقاف
و اعراب کی ان باریکیوں پر بھی غور کیا جاتا ہے۔اگر اوپر کی مثال والے’ ز لفِ سیہ‘
والے شعر کے دوسرے مصرع میں ’سبز و زمرد رقمی‘ کی ترکیب کو واو عطف کے ساتھ پڑھا جائے
تو رقمی کی صفت معدوم ہو جائے گی۔اس لیے یہاں واو عطف کے بغیر بلکہ کاما کے ساتھ اسے
پڑھنا ہی درست ٹھہرے گا۔ بعض جگہ اضافی تراکیب میں کسرۂ اضافت ایک سے زیادہ ہوںاور
درمیان میں اوقاف بھی موجود ہوں تو مضاف و مضاف الیہ کی نحوی ساخت کو درست کرنے کاکام
نحویات کے اصولوں کے تحت کیا جاتا ہے۔جیسے
؎
ع:
صدرہ آ ہنگِ زمیں،بوسِ قدم ہے ہم کو (غالب)
اس مصرع کو نحوی اعتبار سے دو طرح سے پڑھا جاسکتا
ہے۔(1) آہنگِ زمیں بوس، یعنی کاما کے بغیر [قدم چومنے کا ارادہ ]اور(2) بوسِ قدم[یعنی
قدم چومنا]نسخۂ عرشی کے ایک اور شعر میں اوقاف واعراب کے استعمال سے پیدا ہونے والے
ابہام کا نحوی تجزیہ کیا گیا ہے۔
کھینچوں ہوں آئنے پر خندۂ دل سے مسطر
نامہ،عنوانِ بیان ِ دل آزردہ نہیں
شعر کے مصرع ثانی کی قرأت گیان چند جین نے
یوں کی ہے، ع: نامہ عنوان،بیانِ دلِ آزردہ
نہیں۔ان کے مطابق ’ نامہ عنوان‘ کی ترکیب میںاضافتِ مقلوب ہے،یعنی عنوانِ نامہ۔جین
کے مطابق،’’میرے نامے کا عنوان دل آزردہ کا بیان نہیں بلکہ دل شگفتہ کا بیان ہے
‘‘اس ترکیب کے اعتبار سے بیانِ دل ِ آزار کی مراجعت ’نامہ عنوان‘کی طرف ہوتی ہے۔ اس
کے علی الرغم عرشی کے مطابق ’بیان دل آ زردہ کا مرجع ’’ نامہ‘‘ قرار پاتا ہے۔
اس طرح نحویات میں اجزائے کلام کی تصریفی درجہ
بندی، اجزائے متصلہ یا الفاظ کے عمل سے لے کر فقرے کی تشکیل، جملے میں تکمیل خیال کی
معنیاتی قوت اورجملے کی ہیئت، مواد کی تنظیم اوراس کے Syntactic Structures کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
Dr. Syed Yahya Nasheet
24, Kashana KALGAON
Dist. Yavatmal 445203 (MS)
Mob.:…
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں