20/10/23

مابعد جدیدیت اور اردو افسانے کی نئی تخلیقی فضا:پیر زادہ محمد زاہد

اردو افسانہ اپنے آغاز سے ہی زمانے کی تغیر پذیر صورت حال کو منعکس کرنے کی پوری قوت رکھتا ہے۔یہی  وجہ ہے کہ یہ صنف ابتدا سے لے کر مابعد جدید دور تک مختلف ادبی رویوں کے زیر اثر پروان چڑھی۔اس صنف نے ہر دور میں تغیر پذیرمعاشی و معاشرتی صورت حال کا ساتھ دیا۔ چونکہ ہرزمانے کا ادب اپنے تخلیقی اظہار کے لیے بعض امتیازی نشانات کا تعین ضرور کرتا ہے  اس لیے افسانہ بھی اپنے تخلیقی اظہار میں مختلف رویوں اور رجحانات سے وابستہ ہوکر مختلف اور متنوع تصورات کو نشان زد کرتا ہے۔

 جس طرح جدیدیت ترقی پسندی کے بعد کا زمانہ ہے اور اس سے انحراف بھی،نیز اسی طرح مابعد جدیدیت جدیدیت کے بعد کا زمانہ ہے اور اس سے انحراف بھی۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ مابعد جدیدیت کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

ـًًٌٌٔ’’مابعد جدیدیت نظریہ نہیں، نظریوں کا رد ہے۔ دوسرے لفظوں میں آزاد تخلیقیت جس پر نئی پیڑھی زور دیتی ہے اس کا دوسرا نام مابعد جدیدیت ہے۔اس اعتبار سے مابعد جدیدیت کی راہ ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں سے الگ ہے کہ مابعد جدیدیت کسی سکہ بند نظریے کو نہیں مانتی لیکن آزادانہ آئیڈیولوجی کے تخلیقی تفاعل کی منکر بھی نہیں۔ترقی پسندی اور جدیدیت کے بعد کے (یعنی مابعد جدید ) ادب کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے کہ اس میں سماجی سروکار اکہرا اور سطحی نہیں کیونکہ وہ کسی پارٹی مینی فیسٹو کا محتاج نہیں بلکہ فنکار کی تخلیقی بصیرت کا پروردہ ہے۔ـ‘‘

(نارنگ، گوپی چند، جدیدیت کے بعد، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2005،ص91)

مابعد جدید دور میں آنے والے تنقیدی نظریات دراصل ادب کو پرکھنے اور جانچنے کے مختلف اور متنوع tools  ہیں جو حسن و قبح سے زیادہ فن پارے کی کثیر الجہتی اور وسیع المعانی کی ترجیحی صورتوں پر دال ہے،اور جب فن پارے کے پرکھنے اور جانچنے کے رویے اور تصورات تغیر و تبدل سے گزر جاتے ہیں تو تخلیق ادب کے طریقے بھی از خود بدلنے لگتے ہیں۔اسی طرح 1980 کے بعد بھی تخلیق ادب کے طریقوں نے کروٹ لی جسے ہم مابعد جدید ادب کے نام سے جانتے ہیں۔ اگرچہ مابعد جدید دور سے قبل بھی مابعد جدید تصور ادب کی مثالیں ملتی ہیں لیکن تب اس کی صورتیں انفرادی سطح پر دیکھی جاسکتی ہیں اور اب اس نے ایک جماعت کی صورت اختیار کر لی ہے۔مابعد جدیدیت اپنے سابقہ رویوں کی فارمولائی تعریفوں کے انکار کا ایک نیا رجحان ہے۔اس رویے نے ترقی پسندی کے شدت پسندانہ اور رومانی تصور پر کاری ضرب لگادی اور دوسری طرف جدیدیت کی داخلیت کے محدود نظریے کو بھی رد کیا۔ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ رجحا ن کلی طور پر ماقبل رویوں کے ردعمل میں سامنے آیا بلکہ اس نے پہلے سے قائم شدہ نظریوں کی ادعائیت اور جبریت کا توڑ کرکے نئے طرفوں کو منکشف کرنے کا کھلا اور آزادانہ رویہ پیش کیا۔مابعد جدیدیت نے کلیت پسندانہ رویے سے اختلاف کرتے ہوئے تخلیقیت کے آزادانہ رویے کا پرچار کیا اور ہر طرح کی ضابطہ بندی اور فارمولہ سازی کی جبریت کا انہدام کرتے ہوئے کھلی اور آزاد فضا میں سانس لینے کا تصور رائج کیا۔ مابعد جدیدیت سے قبل اردو افسانے کے منظرنامے پر روایتی، ترقی پسندی اور جدیدیت کے قائم کردہ تصورات رائج تھے اور افسانہ انہی تصورات کی حدبندیوں کا اظہار تھا۔ابتدا میں حب الوطنی،مشرقی تہذیبی روایات اور اخلاقی اقدار کے علاوہ رومان پرور فضاؤں، حسن ومحبت کے جذبات، تخیل کی آزادانہ روایت اور زبان کی شعریت کا سہارا لیا لیکن اس نے جلد ہی حقیقت پسندانہ رویہ اپنا کر سماجی قربت حاصل کی اور یوں افسانے کی وہ صورت ماند پڑگئی جو محض رنگین بیانی اور شاعرانہ انداز بیان سے عبارت تھی۔رفتہ رفتہ سماج کے نچلے اور متوسط طبقے کے مسائل کو مرکزیت مل گئی۔ترقی پسندوں کی انقلابی آواز نے ہم عصر ادبی،سماجی،سیاسی اور ثقافتی مسائل کی جیتی جاگتی تصویرپیش کرکے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب وثقافت کے بہترین عناصر کو افسانوی ادب کا حصہ بنایا۔ اس لیے انھوں نے جو کچھ لکھا اس کی ترسیل میں در آنے والی تمام رکاوٹوں کا خیال کرتے ہوئے بیانیہ کا راست اور وضاحتی طریقہ کار اپنایا۔تحریک سے وابستہ فنکاروں نے اجتماعیت کی انقلابی آواز بننے میں فرد کی ذات کو سرے سے نظر انداز ہی کردیا۔افسانہ میں خطابت،نعرہ بازی اور اشتہاریت سازی نے جگہ پائی اور افسانہ ادبی اظہا رکے بجائے پروپیگنڈہ کی صورت اختیار کرگیا۔انتہا پسندی کی اس صورت نے نئے فنکاروں کو جنم دیا جنھوں نے اپنے سابقہ رویے کی تخلیقی شناخت سے انحراف کرتے ہوئے نہ صرف موضوعی سطح پر تبدیلیوں کو افسانے کا لازمی جزو تصور کیا بلکہ اسالیب بیان میں بھی حیرت انگیز تبدیلیاں لاکر بیانیہ کے نئے اجزائے ترکیبی متعین کیے۔ تنہائی، بے گانگی، اجنبیت، کرب و اضطراب، اخلاقی قدروں کا زوال، نئی قدروں کی تعمیر اور ذات کی تلاش جیسے موضوعات کو جگہ دے کر فرد کے داخلی مسائل کے بیان کی طرف مراجعت کی۔علامت، تمثیل، تجرید اور ابہام کی ناقابل فہم صورتیں افسانے کی ذات کا حصہ بن گئیں۔جس کی وجہ سے افسانے کے ترسیل میں رکاوٹوں نے جگہ پائی اور افسانہ قاری سے دور ہوتا چلا گیا۔چنانچہ گوپی چند نارنگ اس ضمن میں لکھتے ہیں :

’’موجودہ حالات میں اس بات پر ضرور غور کرلینا چاہیے کہ اگر نئی کہانی، کہانی نہیں ہے تو پھر یہ کیا ہے؟ بعض حضرات تو اس کا کوئی دوسرا ’اچھا سا‘نام ڈھونڈتے پھرتے ہیں کیونکہ ایسی ناپختہ تحریروں کو نہ کہانی کہا جاسکتا ہے نہ انشائیہ، اگر چہ ایسے افسانوں میں جو کوشش ملتی ہے، وہ انشا پردازی ہی کی ذیل میں آتی ہے۔دراصل تقلید کے جوش میں یاروں نے بستیاں بہت دور بسالی ہیں اور کہانی کے بنیادی تقاضوں ہی کو فراموش کردیا ہے یا پیرایۂ اظہار یا وسیلۂ بیان ہی کو مقصد بالذات سمجھ لیا ہے۔‘‘

نارنگ، گوپی چند،فکشن شعریات تشکیل و تنقید، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2009،ص277)

جدید افسانہ جس فکری و فنی اجتہاد کا اظہار کرتا ہے اس میں سیاسی، سماجی اور عصری حالات کے ساتھ ساتھ فلسفہ وجودیت کے نمایاں اثرات کا نتیجہ شامل ہے اور فنی و تکنیکی سطح پر علامت، تمثیلیت، تجریدیت اور ماورائیت کے بڑھتے رجحان کا حصہ ہے۔لیکن 1970 کے بعد ہی فیشن زدہ علامت نگاری اور ناقابل فہم تجریدیت سے بیزاری اور انحراف کا دور شروع ہوا اور اب فنکاروں کو یہ احساس ہونے لگا کہ بات کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔ اس ضمن میں شوکت حیات رقم طراز ہیں :

’’انامیت اور انام افسانے کے توسط سے در اصل کہانی میں اس کے بنیادی صنفی اوصاف کی باز آفرینی خصوصاً ’کہانی پن ‘ کی مراجعت پر اصرار کرکے ایک اجتہادی کارنامہ انجام دیا گیا۔افسانے کو معروضیت، بیانیہ اور سماجی سروکار کے وصف سے لیس کرتے ہوئے اسے اس کے بنیادی خدوخال واپس کیے گئے۔‘‘

(شوکت حیات، ’مابعد جدید افسانہ‘ مشمولہ، ادب کا بدلتا منظرنامہ، اردو مابعد جدید پر مکالمہ، مرتبہ،گوپی چند نارنگ، اردو اکادمی، دہلی 2011، ص314)

اس طرح مابعد جدید افسانے کی شروعات ہوئی اور یوں کہانی پن، ترسیل کی اہمیت،بیانیہ کی واپسی،معنوی اور تاثراتی ارتکاز جیسے صنفی نشانات روشن تر ہونا شروع ہوگئے۔

شوکت آگے حیات لکھتے ہیں:

’’ایسا نہیں کہ 70 کے بعد والوں نے جدید افسانے سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس نسل کے بڑے بھائیوں سے پروپیگنڈہ، نعرے بازی اور اشتہاریت سے گریز کا سبق مبتدی کی طرح سیکھا۔ مخصوص عہد کے تناظر میں ’سچویشن سیریز‘ کی اہمیت سمجھی اور برأت کا اظہار کرتے ہوئے آگے بڑھ کر ’سچویشن سیریز‘ کے افسانے لکھ کر زندگی کے بدلے ہوئے سنگین منظر ناموں کو گرفت میں لیتے ہوئے سماجی سروکاروں اور مسائل اور سیاسی بصیرتوں سے اپنے فن کو آمیز کیا۔ان کی بغاوت کو افسانوی نوٹس کا حصہ بناتے ہوئے اسے روایت کا درجہ دیا۔ دیگر امور مثلاً منفی داخلیت، کہانی پن کے انہدام اور مربوط بیانیہ کی غارت گری کے خلاف انھوں نے ضرور بغاوت کی اور انھیں مابعد جدید افسانے کی روایت کا حصہ بنایا۔ یعنی 70 کے بعد جینوئین افسانہ نگاروں نے بیک وقت انحراف اور تسلسل دونوں رویوں سے کام لیا۔‘‘  (ایضاً، ص 317)

گویا مابعد جدید افسانے کا رویہ انحراف سے زیادہ انجذاب کا ہے۔ یہ ادبی روایات کا پاسدار ہے لیکن اس سلسلے میں یہ کسی رویے یا کسی تحریک کے قائم کردہ اصولوں اور طے شدہ نظریات پر اپنی بنیاد قائم نہیں کرتا ہے بلکہ تخلیقیت کے آزادانہ رویے کی حمایت کرتا ہے۔ مابعد جدید افسانہ نگاروں نے تخلیقیت کا ایسا معتدل رویہ اپنا یا جس میں ترقی پسندی اور جدید افسانوں کے مثبت عناصر کے تشکیلی پہلووں کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

مابعد جدید افسانہ زندگی کی ہر نوع کی حقیقتوں سے مکالمہ کرتا ہے۔ سائنس، تیکنالوجی، تغیر پذیر معاشرتی حالات،زندگی کی جدوجہد، رنگا رنگی اور تحرک کو مابعد جدید افسانہ نئے لب و لہجے میں پیش کرتا ہے۔ بیانیہ کی تشکیل میں اینٹی پلاٹ،اینٹی کردار، اینٹی کہانی، ابہام یا داخلیت محض کے منہدم اسٹریکچر کی نئی تعمیر کی اور  افسانے کے اجزائے ترکیبی لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے پلاٹ، کردار، کہانی پن اور آفاقیت کے بجائے سماجی مسائل پر زور دیا۔ اس نے جدیدیت کی فیشن زدہ علامت نگاری، تجریدیت کے بڑھتے رجحان اور بیانیہ کے مبہم انداز کو بھی رد کیا اور ایسی تخلیقی روش اختیار کی جو ترقی پسندی اور جدیدیت سے الگ ہوتے ہوئے بھی ان میں شامل مثبت عناصر کا اعلان نامہ بھی ہے۔یہ رویہ اپنے اندر موضوع اور اسلوب کی سطح پر تنوع کو پسند کرتا ہے۔

ما بعد جدید افسانوں میں روایتی اصولوں کے تحت داخلیت و خارجیت کے زاویوں سے انسانی زندگی کو سمجھنے اور اسے پیش کرنے کا  نظریہ نہیں ملتا بلکہ ان دونوں کے باہمی امتزاج سے ایک ایسے نظریے کی تشکیل کی جس میں حقیقت اور فینٹسی دونوں شامل ہوتے ہوئے زندگی کا حقیقی اور واضح رخ سامنے آتا ہے۔ اس ضمن میں فنی اصول و ضوابط کا خیال کرتے ہوئے مبہم انداز بیان سے انحراف اور ترسیل کا وضاحتی اور راست طریقہ ٔ اظہار نظر آتا ہے۔اس دور نے اپنے موضوعات کے لیے پیچیدہ قسم کے موضوعات کے بجائے عصری مسائل کو زیادہ اہمیت دی۔ لیکن مابعد جدید افسانہ نگاروں نے سماج کو ترقی پسندزاویۂ نظر سے نہیں دیکھا بلکہ سماجی مسائل کو تمام تر حقائق کے ساتھ پیش کرتے ہوئے خطابت، اشتہاریت، اور نعرہ بازی سے بھی گریز کیا۔ انسان کی داخلی زندگی کو پیش کرنے کا وہ رویہ اپنایا کہ وہ انفرادی ہوتے ہوئے بھی اجتماعی صورت حال کا ترجمان بن گیا۔ ترقی پسندی اور جدیدیت کے اصولوں کا خیر مقدم کرنے کے بجائے  عصری حقیقت کی طرف رخ موڑ دیا۔اس طرح انھوں نے زمانے کی نبض ٹٹول کر اس میں شامل مختلف النوع سیاسی،سماجی اور اقتصادی حالات کی تصویر کھینچ کر افسانے کو زندگی سے فرار کے بجائے واپس زندگی کی جانب قدم کا وسیلۂ اظہار بنایا۔

مابعد جدید افسانہ نے اپنے موضوع کی تشکیلات میں محدود ہونے کے بجائے آزاد تخلیقیت کا رویہ اختیار کیا اور ترقی پسندی کی عصری حقیقتوں اور جدید افسانے کی آفاقی حقیقتوں کے اظہار محض تک خود کو مرتکز نہیں کیا بلکہ دونوں نظریوں کی آمیزش سے زندگی کے نئے معنوی ابعاد تلاش کرنے کی سعی کی۔سماج اور فرد کو الگ الگ زاویوں سے پیش نہیں کیا بلکہ انھیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ٹھہرایا۔ اس لیے مابعد جدید افسانہ سماج سے ہوتے ہوئے فرد کی ذات تک جا پہنچتا ہے اور فرد کے اظہار میں سماجی معنویت کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی اور اس کی سچائی کو اپنے نظریے کی اصل تصور کرتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مابعد جدید افسانے میں محض حقیقت کی تصویر کشی پر اکتفا نہیں ملتا بلکہ حقیقت میں داخل ہوکرمعنوی ابعاد دریافت کرنے کی سعی ملتی ہے۔ فنکار تمام مسائل کو سماجی،سیاسی اور تہذیبی پس منظر میں دیکھتا ہے اور تہذیب کے ان دھاروں کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے جنھیں عمومی طور پر ہماری نظریں نہیں دیکھ پاتیں۔اس لیے مابعد جدید دور کے افسانہ نگاروں نے کسی تحریک یا رجحان کی فارمولہ سازی کے بغیر اپنی الگ اور آزادانہ فکری روش اختیار کرکے ہر طرح کے مسائل کو اہمیت دی جو اجتماعیت سے لے کر انفرادیت اور کائنات سے لے کر ذات تک کے مسائل کو ترجیحی صورتوں میں افسانوی موضوعات کا حصہ بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماج میں موجود ہر نئے اور اچھوتے موضوع کو قابل بیان سمجھا جانے لگا۔بے روزگاری، سیاسی، سماجی،  معاشی اور اقتصادی بحران، دہشت گردی، فرقہ وارانہ فسادات، نسلی اور جنسی امتیازات، مذہبی تعصبات، سائنس اور ٹیکنالوجی سے پیداشدہ تباہ کاریاں نیز مشرقی تہذیب سے بیزاری اور مغربی تہذیب کا بڑھتا ہوا اثر وغیرہ جیسے موضوعات پر کثیر افسانے لکھے گئے۔

مابعد جدید افسانہ نگاروں نے موضوعاتی سطح پر اردو افسانے کو آزاد فضا میں سانس لینے کی راہ دکھائی اور ان کا واضح رجحان تہذیبی اور ثقافتی زندگی کی ترجمانی رہا اور بیشتر فنکاروں نے اس کی خوبصورت مثالیں بھی پیش کیں۔ سید  محمد اشرف ہوں یا شمس الرحمن فاروقی،نیر مسعود ہوں یا سلام بن رزاق ہر ایک نے ایسے متعدد افسانے تحریر کیے جو زندگی کے ایسے نقوش پیش کررہے ہیں جو ہماری تہذیبی اور ثقافتی میراث کا حصہ ہیں۔

جدیدیت سے وابستہ فنکاروں نے جو بیانیہ قائم کیا تھا وہ بے حد پیچیدہ، مبہم اور علامتی تھا جس کی وجہ قاری تک کہانی کی ترسیل کافی حد تک مشکل ہوگئی تھی،اس دور کے فنکاروں نے یہ رویہ اپناکر یہ بتایا کہ وہ جو کچھ لکھ رہا ہے اپنے لیے لکھ رہا ہے،اسے قاری سے کیا غرض۔وہ کسی بھی قسم کی شراکت داری برداشت نہیں کرسکتا۔ مابعد جدید فنکاروں نے کہانی پن کی مسخ شدہ صورت پھر سے بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی اور کہانی کو اس طرح راست بیانیہ سے ملبوس کیا کہ یہ دور بیانیہ کی واپسی کا دور کہا جانے لگا۔مابعد جدید فنکاروں نے جس بیانیہ کو تخلیقی عمل کا حصہ بنایا وہ از سر نو قاری سے اپنا رشتہ قائم کرتا ہے۔یہ بیانیہ ترسیل میں رکاوٹیں پیدا نہیں کرتا بلکہ قاری کی شراکت داری کو لازمی تصور کرتا ہے اور قاری کی اس شمولیت نے افسانے میںدر آنے والی غیر ضروری علامتوں اور تمثیلوں کو کہانی کا حصہ بننے نہیں دیا۔موضوعاتی تنوع اور راست بیانیہ کے ساتھ ساتھ تکنیک کی سطح پر بھی نئی نئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس حوالے سے سید محمد اشرف یوں رقم طراز ہیں :

’’1980 کی دہائی جدید تیکنالوجی کو بر صغیر میں عروج پاتا دیکھتی ہے۔ یہ تیکنالوجی خلائی سرگرمیوں سے لیکر میڈیا تک پھیلی ہوئی ہے عام انسانوں کی زندگی سے ٹیلی ویژن قریب ہوا اور افسانہ نگاری نے اپنی کہانی میں ویڈیو تکنیک کی نیرنگیاں دکھائیں۔ فوٹو گرافی تکنیک، فلیش بیک کے نئے انداز، بات کو ادھورا چھوڑکر ایک نئے سین کے ساتھ دوسری بات شروع کرنا، چہرے کے تاثرات کو بعینہ کاغذ پر اتار دینا، خارجی زندگی کے مظاہر کی مدد سے داخلی زندگی کے معاملات کی ترجمانی کرنا وغیرہ وغیرہ…… اور اب چیزیں کیسی نظر آتی ہیں یا ہم انھیں کس روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں، اس پر بیانیہ کی تکنیک کی بنیاد رکھی گئی ‘‘

(محمد اشرف، سید، ’اردو میں مابعد جدید افسانے کے تشکیلی عناصر کی شناخت...کچھ اشارے‘ مشمولہ، ادب کا بدلتا منظرنامہ، اردو مابعد جدید پر مکالمہ،مرتبہ،گوپی چند نارنگ،اردو اکادمی،  دہلی 2011، ص308)

مابعد جدید دور سے قبل لکھے گئے افسانوں میں زیادہ تر ڈائلاگس پر فوکس ملتا ہے جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دوران ہمارے سماج میں ریڈیو کا تصور عام تھا اس لیے افسانے میں آوازوں کے ذریعے متاثر کرنے والے ڈائلاگس پر زیادہ زور دیا جاتا تھا لیکن بعد میں ویڈیوز اور ٹیلی ویژن کے تصور نے فنکاروں کو ایسی کہانیاں لکھنے پرمجبور کیا جس سے یہ اندازہ ہوسکے کہ ہم چیزوں کو سننے سے زیادہ اسے اصلی روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔مابعد جدید دور میں ایسی کئی کہانیاں لکھی گئیں جس میں اس طرح کی تکنیک (فلمی تکنیک ) کا استعمال کیا گیا۔ محسن خان کے افسانہ ’ زہرا‘ کو دیکھیے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی فلم چل رہی ہو۔ یہ اقتباس دیکھیے:

’’واپسی کے سفر میں جمیل نے کہا۔’’کھڑکی کی طرف بیٹھ جاؤ۔‘‘

’’ادھر ہوا آتی ہے۔‘‘اس نے کہا۔حالانکہ اس وقت بڑا حبس تھا۔اس کے انکار سے جمیل کے چہرے پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں ہوا وہ اک اطمینان کے ساتھ کھڑکی کے پاس بیٹھ گئے۔

’’یہ سیب پکڑو َ۔‘‘ انھوں نے پالی تھین اس کی طرف بڑھائی اور سٹکنی دبا کر شیشے کا فریم اوپر چڑھایا پھر گریبان کے بٹن کھول کر کالر پشت کی طرف اچھال دیا۔منھہ زور ہوا تو جیسے شیشے کے اس طرف پرتو لے کھڑی تھی بھرامار کے اندر آگئی۔

’’بھائی جان جس راستے سے گئے تھے اسی راستے سے واپس آئے۔وہی‘

 خوب اونچی سی عمارت... وہی بڑی سی پارک... گندی تصویروں والا سینما ہال... آہستہ آہستہ چلتا ہوا خوب بڑا سا پنکھا‘اور...وہی سب چیزیں جو جاتے وقت دیکھی تھیں...‘‘

(محسن خان، ’زہرا‘، مشمولہ، خواب کہانی،نیو پبلک پریس دہلی 1993، ص28)

الغرض اس افسانے کی قرأت کے دوران یہ احساس ہوتا ہے کہ پوری کہانی ایک فلم کی طرح چل رہی ہے اور قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ کہانی پڑھ نہیں رہا بلکہ دیکھ رہا ہے۔ اس طرح کی تکنیک کا استعمال مابعد جدید دور کے افسانہ نگاروں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔ ساجد رشید،سلام بن رزاق،انور خان وغیرہ ایسے افسانہ نگار ہیں جن کی کئی کہانیوں میں فلمی تکنیک کاخوبصورت استعمال ملتا ہے اور یہی مابعد جدید افسانے کا طرۂ امتیاز بھی ہے کہ کہانی میں مختلف طریقوں سے قاری کی involvement کو برقرار رکھا جائے۔

مابعد جدید افسانے کے متن میں کرداروں کی تشکیل میں بھی نئی کوشش ملتی ہے۔جہاں جدیدیوں نے کرداروں کی مسخ شدہ تصویر قائم کی تھی وہیں مابعد جدید فنکاروں نے کرداروں کو ان کے چہرے واپس کیے اور انھیں فطری اور اتفاقی طور پربغیر کسی منصوبے کے تحت از خود نقل و حرکت کرنے کا موقع فراہم کیا۔انھوں نے کرداروں کی تخلیق میں اس بات کا خیال رکھا کہ وہ بطور ماہر نفسیات سامنے نہ آئیں بلکہ انھیں اپنے فطری عمل میں پیش کرکے ان کے نفسیاتی عمل سے گزرنے کی راہ اختیار کی۔

مابعد جدید افسانہ نگاروں نے غیر ضروری تفصیلات و جزئیات سے گریز کرتے ہوئے قاری کی شمولیت کو کہانی کا لازمی جزو تصور کیا، جو بات قاری کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے اسے نظر انداز کرکے متن کے تفاعل، منظرکشی اور جزئیات نگاری کے اس اشاراتی اسلوب کو دریافت کیا جو فنکار کے ساتھ ساتھ قاری کو بھی اس منظر کی تصویر بنانے کے تخلیقی عمل میں شامل کرسکے۔طارق چھتاری مابعد جدید کہانی کے اس امتیاز کا اعتراف کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:

ــ’’جدید افسانے کے متن میں معنی ڈھونڈنا قاری کی مجبوری تھی مگر مابعد جدید افسانے کی تشکیل کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ قاری اور مصنف مل کر متن میں معنی پیدا کرتے ہیں۔ اس کے لیے مصنف متن کی تشکیل میں شعوری یا لا شعوری طور پر یہ التزام رکھتا ہے کہ قاری پڑھتے وقت متن کےConstruction کو توڑ سکے اور مصنف کے اور اپنے تجربے کے امتزاج سے نئے متن کی تشکیل کرسکے، یا  Creative Reading کے عمل سے گزرتے ہوئے متن میں کوئی معنی پیدا کرسکے۔ ایسا کرتے وقت قاری اس تخلیق میں برابر کا حصہ دار بن جاتا ہے۔ ‘‘

طارق چھتاری، ’مابعد جدید افسانہ،اردو کے تناظر میں‘ مشمولہ، ادب کا بدلتا منظرنامہ، اردو مابعد جدید پر مکالمہ، مرتبہ: گوپی چند نارنگ، اردو اکادمی، دہلی 2011، ص327)

ژاک دریدا اس بات پر مصر تھا کہ حقیقت کی تلاش تو کی جاسکتی ہے جو کوئی مشکل عمل نہیں لیکن جوچیز سامنے موجود نہ ہو اسے غیاب سے جوڑ کر پر اسرار معنی پیدا کیے جاسکتے ہیں۔مابعد جدید افسانے میں اسی غیاب کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ غیاب ہی وہ شے ہے جس کی تلاش متن میں موجود مضمر معانی کو ظاہر کرتا ہے۔اس لیے جو موجود ہے یہاں اس بات کی اہمیت کم ہوکر غیر موجودہ شے کی پیش منظریت قاری کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔قاری اس غیر موجودگی(پس منظریت) کا توڑ کرکے پوری طرح تخلیقی عمل میں شریک ہوجاتا ہے۔مابعد جدید دور میں ایسی کئی کہانیاں سامنے آئیں جن سے غیاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مابعد جدید افسانہ کئی معنوں میں ماقبل رویوں سے مختلف ہے اور تہہ داربھی۔اس کا ارتکاز تجربوں سے زیادہ فن کے بنیادی تصورات پر ہے۔تجربات کا عمل اسے کہانی کے بنیادی اسٹریکچر سے منسلک رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد جدیدیت سے وابستہ فنکاروں نے بیانیہ کے اس نئی نہج کو قائم کرتے ہوئے فنکاروں کی ایک بڑی جماعت کو جنم دیا جنھوں نے کثیر تعداد میں افسانے لکھ کر افسانوی روایت میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔مابعد جدید اردو افسانے کو پروان چڑھانے میں جن افسانہ نگاروں نے اہم رول ادا کیا ان میں مشرف عالم ذوقی، سلام بن رزاق، مرزا حامد بیگ، بیگ احساس، طارق چھتاری، معین الدین جینا بڑے، حسین الحق، انور خان، ذکیہ مشہدی، شفق،شموئل احمد،قمر احسن،پیغام آفاقی،شوکت حیات،محمد منشا یاد، سید محمد اشرف وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

 

Peerzada Mohd Zahid

Research Scholar, Dept of Urdu

Kashmir University, Hazaratbal

Srinagar - 190006 (J&K(

Mob.: 9906682005

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...