شاید
یہ 79 یا 80 کی بات ہے عرفان بھائی سے پہلی
بار ایک سمینار میں ملاقات ہوئی تھی۔ میرے دوست انتظام بھائی نے تعارف کرانے سے پہلے
دھیرے سے بتایا تھا کہ یہ بہت اہم اوربڑے شاعر ہیں مگر پہلی نظر میں وہ مجھے بڑے اوراہم
کیا سرے سے شاعر ہی نہیں معلوم ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ میں تازہ تازہ بارہ بنکی سے لکھنؤ
وارد ہواتھااورخمار بارہ بنکوی اورشمسی مینائی کوتو چھوڑیے میں نے نگا راورعزیز بارہ
بنکوی کو بھی کبھی شیروانی کے بغیر نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے بڑے شاعر کا تصور شیروانی
کے بغیر میرے لیے مشکل ہورہاتھا۔ کیونکہ عرفان بھائی ٹائی اور نفیس سوٹ میں ملبوس تھے۔
ان
دنوں میں اردو میں ایم اے کررہاتھا اوربارہ بنکی سے لکھنؤ روز انہ آتاجاتا تھا۔ کبھی
کبھی انتظام بھائی کا ساتھ ہو جاتا تھا۔ ان کے والی صاحب اورعابد سہیل صاحب سے تقریباً
دوستانہ مراسم تھے۔ امین آباد میں چند رسائل اورکبھی کبھار کچھ کتابیں خریدی جاتیں
اوروالی آسی صاحب کے یہاں کچھ شاعروں اورادیبوں سے ملاقاتیں بھی ہو جاتیں جن میں شام
کواکثر عرفان بھائی بھی آجاتے۔ والی صاحب
کے یہاں شعروادب اورشخصیات پر بے تکلف گفتگو چلتی رہتی تھی وہ اس زمانے میں پروین شاکر،
ظفر اقبال، ناصر کاظمی اورشکیب جلالی کے اچھے اچھے شعر خو ب سناتے تھے۔ بعد میں انھوںنے
ان شعرا کے مجموعے شائع بھی کیے۔ شعروادب پرگفتگو کے بیچ بیچ میں مقامی اوربیرونی شخصیتوں
پرکھل کر تبصرے روا بلکہ رواں رہتے جو تھوڑی دیر میں ذاتیات کی سرحدوں میں داخل ہوجاتے
موضوعِ گفتگو زیادہ تر مشاعروں کے شاعر اورشاعرات ہوتے تھے مگر کبھی کبھی اس دائرے
میں ادیب اوردانشور حضرات بھی آجاتے تھے۔ گفتگو کی سطح کچھ بھی رہتی ہو مگر مزہ بہت
آتاتھا۔ انھیں دنوں منوررانا نئے نئے والی آسی کے شاگرد ہوئے تھے۔ برابر آنے والوں
میں رئیس انصاری، انور ندیم، حفیظ نعمانی، مسعود الحسن عثمانی، انجم ملیح آبادی اورحسن
واصف عثمانی خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ زیادہ تر مشاعروں کے معروف شعرا بھی کسی مشاعرے
میں جاتے ہوئے یا لوٹتے ہوئے والی صاحب کے یہاں بیٹھے ہوئے مل جاتے تھے۔ اسی دور میں
انورندیم صاحب نے مشاعروں پر مبنی اپنے تاثرات مضامین کی شکل میں قلم بند کرنے شروع
کردیے تھے۔ جملوں کی کاٹ اوران کی دھار دار نثر بہت دلچسپ ہوتی تھی بعد میں یہ مضامین
’جلتے توے کی مسکراہٹ‘کے نام سے کتابی صورت میں شائع بھی ہوئے۔
عرفان
بھائی دفتر سے واپسی پر زیادہ تر والی صاحب کی دکان پر رک جاتے تھے۔ میں نے دھیرے دھیرے
ایک خاص تبدیلی سی محسوس کی بظاہر گفتگو پہلے کی طرح جاری رہتی مگر عرفان بھائی کے
آنے پر کچھ لوگ محتاط سے ہوجاتے تھے۔ بہت فرمائش کرنے پر عرفان بھائی بھی شعرسنادیتے
تھے۔ اب انتظام بھائی کے ساتھ کبھی کبھی میں ان کے دفتر بھی جانے لگا تھا یہاں وہ بہت
محبت سے ملتے تھے اورفرمائش پراپنے شعر بھی آسانی سے سنادیتے تھے اب میں امین آباد
سے بہت نزدیک گوئن روڈ واقع اپنے ماموں کے مکان میں رہنے لگاتھا جہاں سے عرفان بھائی
کا گھر اوروالی صاحب کی دکان کا فاصلہ بہت تھوڑا ساتھا۔
میں
ایم اے فائنل میں تھا۔ اسی سال اردو کے نو وارد طلبا میں شافع قدوائی، رفعت عزمی، ندیم
اشرف اورمحسن خان بھی آگئے۔ جلد ہی ہم سب کی دوستی ہوگئی۔ اب ہم اکثر عرفان بھائی
کے گھر آنے لگے۔ تھوڑے دنوں بعد شافع قدوائی نے قومی آواز جوائن کر لیا اورمجھے بھی
عرفان بھائی نے اپنے دفتر میں لگالیا۔ دفتر کے بعد میں زیادہ تر عرفان بھائی کے ساتھ
ہی امین آباد تک آتا تھا دھیرے دھیرے عرفان بھائی دفتر سے سیدھے گھر آنے لگے اب
والی صاحب کے یہاں رکنے کا سلسلہ خاصا کم ہوگیاتھا۔
گھر
پرچائے وائے پینے کے بعد میں بھی عموماً ان کی طرف نکل آتاتھا وہ اکثر امین آباد
کا ایک چکر لگانے کی فرمائش کرتے راستے میں وہ کبھی کبھی میر کا کوئی شعر سناتے اورپھر
اس کے مختلف پہلوؤں پرروشنی ڈالتے رہتے۔ انھیں چکروں کے طفیل غالب کی غزل، محسن کا
کوروی کی نعت گوئی پر عرفان بھائی کی گفتگو آج بھی میرے حافظے میں کم وبیش محفوظ ہے۔
واپسی پر وہ زیادہ تر عزائم کے دفتر کی طرف مڑجاتے۔ جمیل مہدی صاحب سے ان کی کچھ عجیب
سی دوستی تھی۔ عرفان بھائی کمرے میں داخل ہوتے جمیل صاحب سر اٹھاکر دیکھتے ذرا سا مسکراتے
پھر اپنا کام کرنے لگتے۔ عرفان بھائی ٹیلی پرنٹر سے کاغذ پھاڑتے اورمحمد مسعود سے باتیں
کرتے ہوئے ایک خبر ترجمہ کرتے اورکاغذ وہیں رکھ کر اٹھ کھڑے ہوتے جمیل صاحب سر اٹھاکر
انھیں جاتے ہوئے دیکھتے اورپھر لکھنے میں مشغول ہو جاتے۔ ملاقات کایہ عجیب سا سلسلہ
برابر جاری رہتا میں حیران کہ یہ کون سا رشتہ ہے۔ کاہے کی دوستی ہے ایک دن صبر جواب
دے گیا اورمیں نے پوچھ ہی لیا بھائی، جمیل صاحب آپ کے دوست ہیں مگر آپ لوگوں میں
گفتگو تو ہوتی ہی نہیں ہے عرفان بھائی مسکراکر بولے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی
اورمیں پہلے سے بھی زیادہ حیران ہوگیا۔
کچھ
دنوں بعد انڈیا قلفی ہاؤس کی بالائی منزل پر پابندی کے ساتھ بیٹھک ہونے لگی۔ یہاں
ایک میزتقریباً مخصوص ہوگئی تھی۔ اس نشست میں عرفان بھائی کے ساتھ عمر انصاری، انجم
ملیح آبادی، عرفان لکھنوی، شمس فرخ آبادی، افسر بسوانی صاحبان اوریاددہلوی صاحبہ
تقریباً روز ہی بیٹھنے لگے۔ شعروشاعری کے علاوہ اِدھر اُدھر کی گفتگو رہتی جس میں ادب،
تاریخ ملکی اورادبی سیاست اورماضی کی یادیں، سب کچھ شامل رہتا۔ میں یہاں تقریباً سامع
کے فرائض انجام دیتارہتا۔ اب امین آباد جانے کا راستہ الٹا ہوگیاتھا۔ یعنی عرفان بھائی
اورمیں والی صاحب کی دکان پردوچار منٹ رکتے ہوئے عزائم کے دفتر جاتے چند منٹ جمیل صاحب
کودیکھنے کے بعد نشست گاہ کی طرف روانہ ہو جاتے۔ یہ نشست ساڑھے آٹھ کے آس پاس برخواست
ہوتی۔ میں امین آبادہی میں رک جاتا اور عرفان بھائی شمس صاحب کے ساتھ گھرچلے جاتے۔اس
کے بعد شافع قومی آواز سے آجاتے اوردس پانچ منٹ کے فرق سے ندیم اشرف اورمحسن بھی
اورہم لوگ دیر رات تک کسی بے نام ہوٹل میں نامور ادیبوں اورشاعروں کی تخلیقات میں الجھے
رہتے۔ مگر ان دنوں ہم لوگ پڑھتے بہت تھے۔
عرفان
بھائی کے گھر کا دھیرے دھیرے میں بھی ایک حصہ بن گیا جو آج تک قائم ہے۔ وہ جب پاکستان
جانے لگے تو مجھے گویا گھر کی ذمے داری دے گئے تھے کہ جس چیز کی ضرورت ہوگی وہ سب آپ
کو دیکھنا ہے ان کی واپسی تک میں اُن کے یہاں ہی رہا، واپسی پر وہ میرے لیے بھی تحفتاً
سلیم احمد کا مجموعہ اکائی اورکئی رسائل اورشرٹیں لائے تھے۔
عرفان
بھائی مزاج کے اعتبار سے بہت زود رنج واقع ہوئے تھے۔ والی آسی صاحب اپنے مجموعہ شہد
کے فلیپ پران کی آرا شامل کرنا چاہتے تھے مسلسل اصرار پرعرفان بھائی نے تحریر لکھ
دی جو پہلے چھپ بھی گئی مکر ان کے کچھ شاگردوں اوردوستوں نے انھیں بتایا کہ عرفان بھائی
بڑے شاعر ضرور ہیں مگر وہ کوئی نامور ناقد تو ہیں نہیں اس لیے فلیپ پران کی رائے کے
بجائے کسی بڑے ناقد کی رائے ہونی چاہیے۔بہرحال
مجموعے کا ٹائٹل پیج بدل دیا گیا۔ عرفان بھائی ایک دن والی صاحب کے مکتبہ میرے
ساتھ گئے اور باہر سے ہی دریافت کیا کہ والی صاحب اگر آپ کو میری آرا فلیپ پر نہیں
دینی تھی تو اس کے لیے اتنا اصرار کرکے آپ نے لکھوا یا ہی کیوں تھا۔ والی بھائی کہتے
رہے عرفان بھائی بیٹھ جائیں مگر عرفان بھائی نے کہا پہلے آپ جواب دے دیجیے میں مطمئن
ہو جاؤں گا توبیٹھ جاؤں گا۔ ظاہر ہے والی بھائی کے پاس جواب نہیں تھا اس دن کے بعد
عرفان بھائی والی آسی صاحب کے مکتبہ پر کبھی نہیں گئے۔
اسی
دوران سید محمد اشرف آئی اے ایس میں منتخب ہوکر ٹریننگ کے سلسلے میں لکھنؤ آگئے
تھے۔ وہ عرفان بھائی کے عزیز ہوتے تھے۔ ان کے آنے سے پہلے ہی ان کا افسانہ ’ ڈار سے
بچھڑے‘ گفتگو میں شائع ہوکر لکھنؤ آچکا تھا اورعرفان بھائی کی نشاندہی پر ہم لوگ
پڑھ چکے تھے۔ ویسے بھی اس افسانے کا ادبی حلقوں میں خاصا چرچاتھا۔ اشرف صاحب کی شکل
میں ہم لوگوں کے ہاتھ ایک ابھرتا ہوا کیا پوری طرح سے ابھرا ہوا افسانہ نگار لگ گیاتھا۔
ان کے ساتھ متعدد نشستیں برپا کی گئیں۔ ان کے افسانوں پر جو داد وصول ہوئی تھی اس میں
ہم لوگ بھی اپنے حصے کی خوشیاں تلاش کرلیتے تھے۔ اشرف صاحب عرفان بھائی کی شاعری کے
پرستار کیا تقریباً عاشق تھے اورانھیں عرفان بھائی کا بہت سا کلام حفظ تھا۔ ان کے افسانے ’منظر‘ میں ایک کردار عرفان بھائی کا بھی ہے جسے
بہت خلوص سے پیش کیاگیاہے۔
اکثر
شام کواور خصوصاً اتوار کو عرفان بھائی کے گھر پرمحفل سی رہتی تھی، جس میں سید محمداشرف
صاحب، شافع، ندیم اشرف اورکبھی کبھی محسن خاں
بھی شریک رہتے تھے۔ ان محفلوں میں عرفان بھائی کا رویہ سرپرستوں والا ہوتا تھا۔ وہ
گفتگو میں شریک بھی رہتے تھے اورنہیں بھی۔ ہاں ہم لوگوں سے فرمائش کرکے شعر بھی سنتے
تھے اس زمانے میں شافع بھی شعر کہتے تھے۔ دوسروں کے عیب وہنر گنوانے کاکام تب تک اس
عزیز نے شروع نہیں کیاتھا۔ہاں ندیم اشرف نے شعر گوئی کے ساتھ چھوٹی موٹی حرکتیں بھی
شروع کردی تھیں۔ یہاں صرف ایک مثال پراکتفا کرلیتا ہوں۔
عرفان
بھائی اپنے گھر کے نیچے والے کمرے میں غزل سنا رہے تھے ابھی وہ مطلع ہی پرتھے۔
سرحدیں
اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا
سوچیے
آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا
ندیم
کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے!’جی پرندہ اچھا‘
عرفان
بھائی کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ بولے میں پہیلیاں نہیں بجھا رہاہوں۔ کمرے میں ایک سناٹا۔
مگر چند لمحوں کے بعد وہ خود ہنس دیے اوراس دن ہم لوگ بقول شاعر بس ڈوبتے ڈوبتے بچ
گئے۔
عرفان
بھائی ہی کی سفارش پرہم لوگوں نے پہلا ٹی، وی پروگرام پیش کیاتھا۔
ہم
لوگوں کے علاوہ عرفان بھائی کے گھر پرآنے والوں میں آس زیدی، تصورحسین زیدی، شہنشاہ
مرزا، وقار ناصری، محمد مسعود اورانجم ملیح آبادی خاص طورپر شامل تھے۔ انجم صاحب سے
ان کے گھریلو مراسم تھے۔ جب کبھی شہر یار صاحب آجاتے تھے تو عرفان بھائی کے گھر پر
بڑی رونق رہتی تھی اوروہ بھی خوب شعر سناتے تھے۔
عرفان
بھائی تحت میں شعر بہت عمدہ پڑھتے تھے ان کے پڑھنے کا انداز بہت پرتاثیر اوردلکش ہوتا
تھا اورشعر کی پوری معنویت روشن ہو جاتی تھی۔ اب تک بہت سی غزلوں کے ساتھ ان کے پڑھنے
کا مخصوص انداز کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ تخلیقی عمل ایک پراسرار تجربہ
ہے وہ ایک نشست میں کئی کئی شعر آسانی سے کہہ لیتے تھے۔ کبھی کبھی ایک رات میں پوری
غزل مکمل ہوجاتی تھی۔ ان کی پہلی سامع زیادہ تر بی یعنی ان کی اہلیہ ہوتی تھیں جو خود
بھی بہت صاحب ذوق خاتون ہیں۔وہ شعروں میں ردوبدل بہت کم کرتے تھے میں نے انھیں مصرعہ
نوٹ کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے پورا شعر ہی ان پرنازل ہوتا تھا۔ اس کی بنیادی
وجہ یہ رہی ہوگی کہ جب تک ایک خاص کیفیت ان پرطاری نہیں ہوجاتی تھی وہ شعر نہیں کہتے
تھے۔
دفتر
میں جب زیب غوری اورابو الحسنات صاحب یا شہر یار صاحب آجاتے تھے تو کچھ گھنٹوں کے
لیے ان کا کمرہ ڈرائنگ روم میں تبدیل ہو جاتاتھا میں بھی خاموشی سے آکے بیٹھ جاتا۔
شعروشاعری اورادب پرخوب خوب باتیں ہوتیں۔ ابوالحسنات صاحب بولتے کم تھے مگر عرفان بھائی
کو چاہتے بہت تھے۔ ویسے بھی زیب کی خوش گفتاری کے سامنے کسی اورکو بولنے کا موقع مشکل
ہی سے ملتا تھا۔ زیب غوری زندگی سے بھرپور بہت نفیس اور وضعدار انسان تھے وہ جب بھی
لکھنؤ آتے نیر بھائی اورعرفان بھائی سے ضرور ملتے تھے۔
نیر
مسعود صاحب کے گھر پر ہم لوگ چھوٹی چھوٹی مخصوص نشستیں منعقد کیا کرتے تھے جن میں نیر
بھائی کی ہدایت کے مطابق شرکا کی تعداد آٹھ نو سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ سید محمد اشرف
صاحب لکھنؤ آنے کے بعد نیر بھائی کے یہاں جانے لگے ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ نیر صاحب پڑھ
ہی چکے تھے دوسرے افسانوں سے بھی وہ متاثر ہوئے تھے اور ان کی زبان وکہانی کی بنت کی
خوب تعریف کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس دور میں اشرف بھائی جیسی زبان لکھ رہے ہیں
وہ دوسروں کے یہاں دیکھنے کواب نہیں ملتی۔
ان
میں میرے اورعرفان بھائی کے علاوہ شہنشاہ مرزا، وقار ناصری، انیس اشفاق، شافع قدوائی
اورکبھی کبھی تصور حسین زیدی، عثمان غنی، محسن خاں اور انیس انصاری صاحب بھی شریک ہوتے
تھے۔ شروع شروع میں عرفان بھائی گفتگو میں شریک بھی ہوتے تھے۔ شعر بھی سناتے تھے مگر
کھل کر بے تکلفی سے گفتگو نہیں کرتے تھے۔ یہ عام طورپر ان کا مزاج بھی تھا مگر دھیرے
دھیرے نیر صاحب ان کے بہت اچھے اوربے تکلف دوست بن گئے۔ نیر بھائی بھی کبھی کبھی عرفان
بھائی کے گھر آجاتے تھے۔ دونوں ادب کے علاوہ ملبوسات، فلم ڈرامے تاریخ پتہ نہیں کن
کن موضوعات پرڈھیروں گفتگو کرتے رہتے۔ اس دوستی کے پیچھے مزاج اوراقدار کی ہم آہنگی
اورادب سے گہری وابستگی بنیادی وجہ رہی ہوگی۔اسی دوران شمس الرحمن فاروقی صاحب بھی
پی ایم جی ہوکر لکھنؤ آگئے۔ اب دو کے بجائے تین دوست لکھنؤ میں یکجا ہوگئے تھے۔
یہ دور ادبی اورذہنی آسودگی کے لحاظ سے عرفان بھائی کی زندگی کا سب سے بہتر ین دور
کہا جاسکتا ہے۔ شب خون اور سوغات کے صفحات پر ان کی غزلیں اورنثری تحریریں اسی دور
کی یادگار ہیں۔ ریڈیو پرتفہیم شعر کے سلسلے کی ان تینوں حضرات کی گفتگو معرکے کی چیز
تھی۔شعر کی تفہیم کے موضوع پر اس سطح کی علمی گفتگو بڑے بڑے سمیناروں میں بھی شاید
ہی کبھی سننے کو ملتی ہو۔ بعد میں اس گفتگو کا بڑا حصہ تحریری شکل میں بھی شب خون میں
شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا۔
وہ
اپنی شاعری کی طرح عام گفتگو میں بھی لفظوں کوبہت سلیقے اوراحتیاط کے ساتھ استعمال
کرتے تھے۔ اپنے چند مخصوص دوستوں کے علاوہ وہ احباب سے بھی زیادہ بے تکلفی کا مظاہرہ
نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پن کے احساس کے ساتھ ایک خاص طرح کا حجاب بھی درمیان میں پڑا
رہنے دیتے تھے۔ اس لیے دور سے دیکھنے والوں کو وہ تھوڑے خشک مزاج سے نظرآتے تھے مگر
در حقیقت وہ بہت نرم مزاج،شفیق اوروضعدار انسان تھے۔ ہاں جذبات کے بے محابا اظہار سے
انھیں وحشت ہوتی تھی۔ مگران کا چہرہ آئینہ مثال تھا اس میں ہرطرح کے جذبات فوراً اپنا
عکس دکھادیتے تھے ناگواری اورخوشی ان سے چھپائے نہیں چھپتی تھی۔
عرفان
بھائی لکھنؤ سے بہت پیار کرتے تھے ان کا شعر ہے ؎
چار
طرف رمیدہ خوپائے ہوا صدائے ہو
میرے
بغیر لکھنؤ دشت غزال کے بغیر
اوریہ
واقعہ ہے کہ جب ان کا ٹرانسفر دوردرشن دہلی میں بحیثیت انگریزی نیوز ایڈیٹر کے ہوگیا
تووہ بہت افسردہ ہوگئے تھے جبکہ اس پوسٹ پر رہتے ہوئے مرکزی وزرا اوراعلیٰ افسران سے
مراسم کے امکانات خاصے روشن تھے کیونکہ تب تک ڈش چلن میں نہیں آیاتھا اوردور درشن
کی خبریں پورے ہندوستان میں بہت اہمیت رکھتی تھیں۔ مگر عرفان بھائی کسی اورہی مٹی کے
بنے ہوئے تھے۔طمع کا ایک ذرہ بھی اس مٹی میں شامل نہیں تھا۔
ان
کے جانے کے کچھ دنوں بعد میرا ایک انٹرویو کے سلسلہ میں دہلی جانا ہوا۔ ظاہر ہے کہ
میں سیدھا عرفان بھائی کے گھر گیا۔ انھیں آر کے پورم میں ایک کشادہ سا سرکاری مکان
مل گیاتھا مگر مجھے بہت حیرانی ہوئی جب میں نے دیگھا کہ کئی کمرے بند ہیں اور ایک کمرے
میں عرفان بھائی بستر لگائے تقریباً مسافرت کی سی زندگی بسر کررہے ہیں۔ انھیں دیکھ
کر اندازہ ہوتاتھا جیسے وہ بیوی بچوں سے کہہ کر آئے ہوں کہ بھائی تم لوگ بیٹھو میں
ابھی گیا اورابھی آیا۔ انھوںنے دہلی جاتے ہی لکھنؤ واپسی کی کوشش شروع کردی تھی۔
اسی زمانے کا ان کا شعر ہے ؎
ابھی
کھلا بھی نہ تھا رخت شوق دلی میں
کہ
پھر ہمیں کششِ لکھنؤ بلانے لگی
اورواقعی
تھوڑے ہی دنوں بعد واپس لکھنؤ آگئے اور پھر وہی ہم وہی امین آباد۔
کچھ
برسوں بعد ایک بار پھر ان کا تبادلہ کانپور ہوگیا۔ میں ملازمت کے سلسلے میں پہلے ہی
کانپور آگیا تھا۔ خوشی ہوئی کہ اب خوب ملاقاتیں رہیںگی مگر صرف تین ملاقاتیں ہی ہوسکیں
کیونکہ جب میں کالج سے فرصت پاکر ان کے دفتر پہونچتا تو پتہ چلتا کہ وہ لکھنؤ روانہ
ہوچکے ہیں تھوڑے دنوں بعد وہ پھر لکھنؤ پہنچ گئے۔ لکھنؤ میں ملاقات ہوتی تو وہ کچھ
اس طرح خوش نظرآئے جیسے کوئی دشوار اورلمبے سفر سے گھر واپس آکر خوش ہوتا ہے۔
دفتر
میں ان کا رویہ کچھ اس طرح کا تھا کہ لوگ ان کے سامنے مؤدب اور محتاط سے رہتے تھے۔
ہر چند وہ کسی کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آتے تھے مگر وہ اپنے اسٹاف کے ساتھ صرف اتنی
ہی گفتگو کرتے تھے جتنی ضروری ہوتی اس لیے اپنے پن کے احساس کے ساتھ ایک خاص طرح کی
دوری بھی قائم رہتی تھی۔
عرفان
بھائی دفتر سے گھر تقریباً روز ہی فون کرکے بی سے (اپنی اہلیہ) باتیں ضرور کرتے تھے۔
فون پران کی آواز سرگوشی سے بلند شاید ہی کبھی ہوئی ہو یہاں تک کہ میز کی دوسری طرف
بیٹھنے کے باوجود مچھے کچھ ادھورے لفظ یا بے ربط جملوں کے علاوہ پوری گفتگو کبھی نہیں
سنائی دی۔ وہ ویسے بھی فون پر بلند آواز میں گفتگو کرنا تو دور سننا بھی پسند نہیں
کرتے تھے۔ ایک دن دفتر ہی کے ایک صاحب فون پر بآواز بلند کسی سے ہم کلام تھے۔ عرفان
بھائی ادھر سے گزرتے ہوئے رک گئے جب گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوا تو بولے ’’ آپ ذراسی
اورکوشش کرلیتے تو فون کے بغیر بھی گفتگو ہوسکتی تھی‘‘۔ وہ عام طورپرنمبر ڈائل کرنے
کے لیے انگلی کے بجائے قلم کا استعمال کرتے تھے۔
ایک
دن عرفان بھائی اورہم لوگ نیر بھائی کے یہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران ذکر میر
اورمصحفی کی شاعری میں محبوب کے سراپا کا بیان نکل آیا۔ نیر بھائی کا اورعرفان بھائی
کا بھی حافظہ بہت عمدہ تھا کئی کئی شعر میراورمصحفی کے سنائے گئے اوران کا تجزیہ بھی
ہوتا رہا گفتگو کے آخر میں نیر بھائی نے کہا عرفان صاحب آج کل کے شاعروں کو پڑھتے
ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ان بیچاروں نے شاید عورت کو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں ہے اچھی
عشقیہ شاعری تو دور کی بات ہے۔ عرفان بھائی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ نیر صاحب دیکھیے
یہ فقیر کچھ کوشش کرتا ہے۔
اس
کے مہینے ڈیڑھ مہینے بعد شب خون اورسوغات میں عرفان بھائی کی بالکل نئی طرح کی شاعری
سامنے آنے لگی۔ جو ان کے دوسرے مجموعوں سے بہت مختلف تھی یہاں عشق کے مختلف ابعاد
پرمشتمل بہت پراثر اور خوبصورت شاعری سامنے آرہی تھی اوران کے پرستار خوب خوب داد
دے رہے تھے۔ سوغات کے مدیر محمود ایاز کا خیال تھا کہ عرفان صاحب کسی سے عشق میں مبتلا
ہوگئے ہیں یہ شاعری اسی کا ثمرہ ہے۔وہ خطوط میں نیر بھائی کوتاکید کرتے رہتے تھے کہ
انھیں چھیڑا نہ جائے۔ عشق کی بدولت بہت اہم شاعری وجود میں آرہی ہے یہ بڑی شاعری ہے
اس لیے ان سے اس سلسلے میں کوئی گفتگو نہ کی جائے یہ شاعری ’عشق نامہ‘ کی صورت میں
ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے عہد میں اس طرح کی شاعری کسی اورشاعر کے یہاں آپ کو نہیں ملے
گی۔ چند شعر دیکھیے ؎
بتانِ
شہر سے یہ دل تو زندہ ہو نہیں سکتا
بہت
ہوگا تو میری خواہشیں بیدار کردیں گے
——
دیکھتے
ہیں تو لہو جیسے رگیں توڑتا ہے
ہم
تو مر جائیںگے سینے سے لگاکر اس کو
——
چمک
گیا تھا کبھی بندِ پیرہن اُس کا
بدن
سے لپٹی ہوئی بے حجابی رہ گئی ہے
——
کر
گیا روشن ہمیں پھر سے کوئی بدر منیر
ہم
تو سمجھتے تھے کہ سورج کو گہن لگنے لگا
——
تمام
تاب و تبِ عاشقی بہانہ ترا
بدن
کسی کا بھی ہو وصل جاودانہ ترا
——
ترے
سوا کوئی کیسے دکھائی دے مجھ کو
کہ
میری آنکھوں پہ ہے دستِ غائبانہ ترا
——
عجب
گداز پرندے بدن میں اڑتے ہوئے
اسے
گلے سے لگائے زمانہ ہوتا ہوا
——
تم
کیا شررِ عشق لیے پھرتے ہو صاحب
اس
سے تو زیادہ پر پروانہ اٹھالے
——
تیرے
تن کے بہت رنگ ہیں جان من اورنہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں
لامسہ،
شامہ، ذائقہ، سامعہ، باصرہ سب مرے رازدانوں میں ہیں
اگر
عرفان بھائی صرف ’عشق نامہ‘ جیسا مجموعہ اُردودنیا کو دے جاتے تب بھی میرا خیال ہے
کہ ادب میں ان کانام اتنی ہی عزت اوراحترام سے لیا جاتا جیسے لیا جارہاہے۔ اس طرح کی
شاعری صرف اورصرف عرفان بھائی سے منسوب ہے اس کی کوئی دوسری مثال ہمارے سامنے نہیں
ہے۔
عرفان
بھائی دوستوں کے جملوں اورلطیفوں پر بھی مسکرادیتے تھے دل کھول کر ہنستے۔ میں نے انھیں
بہت کم موقعوں پر دیکھا اس وقت مجھے ایک واقعہ یادآرہاہے۔ ہم لوگ ایک اتوار نیر صاحب
کے یہاں گئے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران حسب دستور چائے آگئی عرفان بھائی نے چائے کی
تعریف کرتے ہوئے کہا کہ صاحب چائے تو عمدہ ہے ہی کراکری بہت نفیس ہے۔ نیر صاحب مسکرادیے۔
دیر تک زہر کے اقسام اوردرندوں کی فطرت جیسے موضوعات پرگفتگو ہوتی رہی۔ ظاہر ہے کہ
میں سامع کے فرائض انجام دے کر عرفان بھائی کے ساتھ واپس آگیا۔ تقریباً ہفتہ بھر بعد
نیر صاحب نے عرفان بھائی کے یہاں آنے کا ارادہ ظاہر کیا اورمجھ سے کہا پوچھ لیجیے
گا کوئی مصروفیت تو نہیں ہے۔ عرفان بھائی بہت خوش ہوئے کہنے لگے بتادیجیے گا درویش
دن بھر انتظار کرے گا۔ صبح نیر صاحب طے شدہ وقت پرآگئے ان کے ہاتھ میں ایک تھیلا بھی
تھا خیر دیر تک گفتگو جاری رہی جاتے وقت نیر صاحب نے تھیلے سے اخبار میں لپٹی ہوئی
ایک بھاری سی چیز نکال کر میز پر رکھ دی اوربولے یہ میں آپ کے لیے لیتا آیاتھا۔ عرفان
بھائی نے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کیا چیز ہے۔ نیر صاحب بولے آپ نے اس دن کراکری کی
تعریف کی تھی۔ اتفاق سے اسی کا دوسرا سیٹ مل گیا توآپ کے لیے لیتا آیا۔ عرفان بھائی
کچھ کہنا چاہتے تھے پھر چپ ہوگئے۔ نیر صاحب کے جاتے ہی تصور حسین زیدی صاحب آگئے۔ان
کی نظر پیکٹ پر پڑی۔ عرفان بھائی نے مختصراً اس کی آمد کی روداد بیان کردی اوربولے
نیر صاحب اتنے شریف آدمی ہیں کہ اب ان کی کسی چیز کی تعریف کرنے سے پہلے سوچنا پڑے
گا۔زیدی صاحب برجستہ بولے۔ بھائی نیر صاحب کی شرافت اپنی جگہ مگر ٹی سیٹ سے یہ نتیجہ
نکالنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا کہ آپ ان کی جس چیز کی تعریف کردیںگے وہ اسے تحفتاً آپ
کو پیش ہی کردیںگے۔ عرفان بھائی دل کھول کر دیر تک ہنستے رہے پھر بولے نہیں بھائی وہ
واقعی بہت شریف آدمی ہیں۔
ہم
لوگوں نے عرفان بھائی کے دہلی تبادلے کے موقع پر ’’ایک شام عرفان صدیقی کے نام‘‘ عنوان
سے ایک پروگرام کا انعقاد بھی کیاتھا جس میں انھوںنے ایک شرط بھی رکھ دی تھی کہ میں
کوئی مشورہ نہیں دوںگا۔ بس شریک ہو جاؤںگا۔ پروگرام بھی ٹھیک ٹھاک ہوابعد میں انھوں
نے ہم سب کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ مگر اب احساس ہوتا ہے کہ وہ پروگرام ان کے شایان
شان نہیں ہوسکاتھا۔ میں سوچتا ہوں کہ تقریباً پچیس سال ادھر لکھنؤ میں ادب اور قدروں
کی صحت بہت اچھی تھی ہم جیسے نوواردان ادب کی دعوت پر بھی تمام نامور ادباء اورشعراء
پروگراموں میں برابر شریک ہوتے تھے اوربھرپور حوصلہ افزائی کرتے تھے مگر اب پتہ نہیں
فاصلے حائل ہوگئے ہیں یالوگ سچ مچ بہت مصروف ہوگئے ہیں۔ بہر حال اپنا لکھنؤ دھیرے
دھیرے گزشتہ لکھنؤ یا گم شدہ لکھنؤ بنتا جارہاہے، خیر کم وبیش یہی صورت حال دوسرے
شہروں کی بھی ہے۔
عرفان
بھائی اپنے تازہ شعر نیربھائی کوسناکر بہت مطمئن ہو جاتے تھے نیر بھائی کی سخن فہمی
کے وہ بہت قائل تھے مگر دلچسپ صورت یہ ہوتی کہ نیر بھائی ان کے اشعار کی خوبیوں پر
مجھے مخاطب کرکے بتاتے رہتے کہ دیکھیے اس شعر میں کیا اورکس طرح کہا گیا ہے۔ شاید ایک
دو مثالوں سے میری بات واضح ہوسکے۔ عرفان بھائی حضرت علیؓ پراپنی منقبت نیر صاحب کو
سنا رہے تھے۔ جب انھوںنے یہ شعر پڑھا
؎
اک
پافگار رہ گزری اور راہ میں
انبوہِ
گرگ، مجمعِ اژدر علی علی
تو
نیر بھائی نے مجھے مخاطب کیا کہ دیکھیے گرگ اوراژدر کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ خون کی بو
پر دوڑتے ہیں عرفان صاحب نے کس سلیقے سے شعر کہا ہے۔ آپ لوگوں کویہ نزاکتیں نظر میں
رکھنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
اوراس
شعر پر ؎
نصرت
کہ ہوچکے ہیں سزاوارِ ذوالفقار
میری
زمیں کے مرحب وعنتر علی علی
نیر
بھائی مجھے مرحب اورعنتر کی بہادری اورناموری کے بارے میں بتاتے رہے اورکس جنگ میں
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کا سامنا ہوا اورکس طرح وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچے یہاں
وہ عرفان بھائی سے مخاطب ہونے کے بجائے شعری محاسن پر مجھ سے مخاطب ہوتے تھے کہ دیکھیے
اچھا شعر کن بنیادوں پراچھا ہوتا ہے
؎
روشن
ترے چراغ یمین و یسار میں
دونوں
حوالے میرے منور علی علی
نیر
بھائی یمین ویسار کے ساتھ چراغ کی معنویت پرمجھے سمجھانے کے لیے روشنی ڈالتے رہتے اورعرفان
بھائی کا چہرہ دمکتا رہتا۔
یا
دوسری منقبت کایہ شعر ؎
آئینے
خوش ہیں کہ اڑجائے گی سب گرد ملال
شہر
میں رقصِ ہوا ہوگا علی آنے کو ہیں
یہاں
آئینے کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے مجھے ہی مخاطب کرتے ؎
اور
افق تک ہر طرف روشن چراغوں کی فصیل
داغِ
دل کا سلسلہ ہوگا علی آنے کو ہیں
داغ
دل کو چراغوں کی فصیل کہنے پر بھی وہ داد عرفان بھائی کو دینے کے بجائے مجھے سمجھاتے
کہ کس سلیقے سے شعر کہا گیا ہے۔
عشق
نامے کے شعروں کی داد بھی وہ اسی طرح دیتے تھے اصل مخاطب عرفان بھائی ہوتے تھے مگر
شعروں کی خوبیاں مجھے بتائی جاتی تھیں۔ صرف ایک شعر پربات ختم کرتا ہوں ؎
بتانِ
شہر سے یہ دل تو زندہ ہو نہیں سکتا
بہت
ہوگا تو میری خواہشیں بیدار کردیں گے
مضمون
کے نئے پن کی داد بھی میرے حوالے سے ہی عرفان بھائی تک پہنچی تھی۔ یہ نیربھائی کا عرفان
بھائی کے ساتھ خاص انداز تھا۔
عرفان
بھائی کے تصورحسین زیدی صاحب کے ساتھ بھی دوستانہ مراسم تھے دونوں میں قدر مشترک میرکی
شاعری تھی دونوں حضرات میر کی شاعری پرگھنٹوں گفتگو کرتے رہتے تھے۔ مجھے کچھ شعروں
پرہونے والی گفتگو کے کچھ حصے اب تک یاد ہیں۔ مثلاً پیکر تراشی کے حوالے سے میرکے درج
ذیل شعر پر بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی
؎
نشوونما
ہے اپنی جوں گرد باد انوکھی
بالیدہ
خاک رہ سے ہے یہ شجر ہمارا
دونوں
حضرات اس بات پر متفق تھے کہ پیکر تراشی کا ایسا عمدہ شعر جدید شاعروں کے یہاں بھی
آسانی سے نہیں مل سکتا۔ خاکِ رہ کوشجر بنانا اور اس میں بالیدگی کا تصورپیدا کرنا
میرکااعجاز ہے۔وغیرہ
دوسرا
شعر میرے حافظے میں یہ ہے ؎
کیا
جانے چشم تر کہ پرے جی کو کیا ہوا
کس
کو خبر ہے میرسمندر کے پار کی
چشم
تر کے پرے یعنی اُدھر اورسمندر کے پار کی خبر کا نہ معلوم ہونا اور چشم تر اورسمندر
کے مناسبات پردیر تک گفتگو ہوتی رہی اوراس طرح کے بہت سے شعر ہیں جو میرے حافظے میں
موجود ہیں یہاں صرف نمونے کے لیے دوشعر ہی پیش کیے گئے ہیں۔
جہاں
شمس الرحمن فاروقی کی تفہیم میر سے عرفان بھائی پوری طرح متفق کبھی نہیں ہوسکے۔ ان
کا خیال تھا کہ فاروقی صاحب نے غالب کی شاعری کو پرکھنے کے لیے جوپیمانے وضع کیے تھے
ان کااطلاق میرپر نہیں ہوسکتا۔کیونکہ اس پیمانے کے اطلاق سے میر کی کیفیت والے شعروں
کا خون ہوجاتا ہے۔ اُن کے خیال میں میر کے بہت سے شعر سن کر یا پڑھ کر اچھا قاری صرف
خاموش ہوسکتا ہے اوراُس کیفیت کا لطف لیتا ہے۔ تشریح سے یہ لطف غارت ہوجاتا ہے۔
شمس
الرحمن فاروقی کی کتاب ’شعر شور انگیز‘کا جب میں نے لکھنؤ میں رسم اجرا کیا تو عرفان
صدیقی نے فاروقی سے یہ سوال پوچھاتھا اس کے جواب میں فاروقی صاحب کوئی معقول دلیل نہیں
پیش کرپائے۔ انھوں نے اتنا ضرور کہاتھا کہ میں کیفیت کی تعریف ضرورلکھوںگا پتہ نہیں
آپ لوگ کیفیت سے کیا مراد لیتے ہیں؟ مگر اپنے آخری وقت تک میری معلومات کی حد تک
کیفیت کی تعریف کہیں تحریر نہیں کی ہے۔
لکھنؤ
سے 86 میں کانپور آنے کے بعد عرفان بھائی سے میرا رابطہ برابر قائم رہا۔ ان کی بیماری
کے دنوں میں بھی ان سے دو تین ملاقاتیں رہیں۔ اسی دوران وہ کانپور کی ایک مخصوص ادبی
نشست میں بھی شہر یار صاحب کے ساتھ شریک ہوئے تھے مگر میں کسی مجبوری کی وجہ سے اس
پروگرام میں نہیں جاسکاتھا۔ جس کا مجھے اب تک افسوس ہے اسی کے تھوڑے دنوں بعد میں شاہد
اختر اور ظفرغازی کے ساتھ عرفان بھائی کے گھر گیا۔ ملاقات پر وہ بہت خوش اورزندگی سے
بھرپورنظرآئے اوربتایا کہ آپریشن کامیاب رہا۔ اب اوڈین سنیما ہال کے پاس کسی اچھے
ہومیو پیتھ کا علاج چل رہاہے جس سے وہ پوری طرح مطمئن ہیں۔ انھیں دیکھ کر مجھے بھی
خاصا اطمینان ہوا۔
دوسری
مرتبہ شافع قدوائی اورڈاکٹر عارف ایوبی کے ساتھ ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا اور دیر
تک کانپور کے احباب اورعلی گڑھ کا ذکر رہا۔ وہ شاید خود بھی اپنی بیماری کو بھول گئے
تھے ہم لوگوں کوبھی اس کا ذکر ضروری نہیں معلوم ہوا مگر تیسری بار شاید اختر اورظفر
کے ساتھ میں نیر صاحب کی مزاج پرسی کے لیے لکھنؤ گیا تو انھوں نے بتایا کہ عرفان صاحب
کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ہم لوگ عرفان بھائی کے گھر گئے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب اور
جمیلہ بھابھی بھی عیادت کے لیے ان کے گھر آئے ہوئے تھے مگر وہ دواکے اثر سے نیند اورغفلت
کی ملی جلی کیفیت میں تھے ملاقات نہیںہوسکی بی بہت گھبرائی ہوئی تھیں ہم لوگ انھیں
کھوکھلی سی تسلی دے کر مایوس واپس آگئے۔ کچھ دنوں بعد ایک دوپہر ضیا فاروقی نے لکھنؤ
سے فون پراطلاع دی کہ عرفان بھائی کاانتقال ہوگیا ہے وہ وہیں ہیں اورمٹی اٹھنے والی
ہے اوراتنا وقت نہیں ہے کہ میں کانپور سے آکر ان کے آخری سفر میں شریک ہوسکوں۔ اس
وقت میرا ہی ایک شعر میری کیفیت کی ترجمانی کررہاتھا ؎
بس
ایک خبر سنی تھی کہ محسوس یوں ہوا
کچھ
تھا جو میرے سینے کے اندر نہیں رہا
انھیںشروع
سے ہی لکھنؤ کی سرزمین بہت پرکشش لگتی تھی اور آخر آخر وہ اسی زمین کا پیوند ہوگئے۔
شاعری
میں وہ کسی گروپ کی نمائندگی نہیں کرتے تھے۔ان کے کلام میں جدید شعرا کی سکہ بند لفظیات
دور دور تک نظرنہیں آتیں۔ یہاں نہ صحرا ہے نہ سایا ہے نہ بے چہرگی ہے۔ نہ ان کے یہاں
ترقی پسندوں والی انسان دوستی۔ ان کی شاعری کا بنیادی موضوع ظالم اورمظلوم کا رشتہ
ہے جسے انھوںنے پوری تخلیقی توانائی اورفنکاری کے ساتھ برتا ہے۔ شایدیہی موضوع انھیں
کربلا کے استعاروں کی طرف لے گیا۔ وہ ماضی کی طرف لالچ بھری نظروں سے مڑمڑ کر دیکھنے
کے قائل نہیں تھے بلکہ ماضی کی شعری اورتہذیبی روایات ان کی شاعری کی پشت پرہمیشہ موجود
رہیں۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے بغیر بڑی شاعری ممکن ہی نہیں ہے مگر اردو والوں کی بھی
تواپنی روایت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ دیر سے جاگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب سورج سرپرآگیا
ہے۔ اب اردو والوں کو جاگنا ہی ہوگا۔
علم
کے ساتھ ان کا معاملہ بہت ذاتی اورداخلی نوعیت کا تھا انگریزی کے ساتھ فارسی اورسنسکرت
ادبیات سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ کالی داس کی دو تخلیقات رت سنگھارم اورمالویکا اگنی
مترم کا انھوں نے بہت عمدہ منظوم ترجمہ پیش کیا۔ رابطہ عامہ پرانگریزی کی ایک مشہور
کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا۔ وہ تقسیم کے پس منظر میں ایک ناول بھی لکھنے کا ارادہ
رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہجرت کے موضوع پرتوخاصا کچھ لکھا گیا ہے مگر وہ جو یہاں
رہ گئے اورراتوں رات جن کی دنیا بدل گئی اورپشتوں کے روابط اورمشترکہ تہذیب ایک ہی
پل میں بے معنی ہوگئی۔ ان کا المیہ بھی ہجرت کرنے والوں سے کم نہیں ہے۔ یہ ایک بڑے
ناول کا موضوع ہوسکتا ہے مگر اپنی مصروفیات یا شاعری سے گہر ے سروکار کی وجہ سے وہ
یہ ناول لکھ نہیں سکے ورنہ شاید اردو کوایک اوراہم ناول مل جاتا۔
عرفان
بھائی 15اپریل 2004کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ وہ ہندوستان سے زیادہ پاکستان کے ادبی
حلقوں میں مقبول تھے اوروہاں کے ایک پبلشر کے اصرار پر ان کا ایک نامکمل کلیات ’دریا‘
کے نام سے ان کے رہتے شائع ہوا جس سے وہ بہت مطمئن نہیں تھے۔
عرفان
بھائی کے جانے کے بعد سید محمد اشرف صاحب نے ارادہ کیا کہ ہندوستان میں ان کا ایک کلیات
شائع ہونا چاہیے۔ انھوں نے بی(عرفان بھائی کی اہلیہ) سے کچھ ایسی غزلیں بھی حاصل کرلیں
جو کسی مجموعے یا رسالے میں شائع نہیں ہوئی تھیں۔ ان کے حکم پر جو بھی کلام مجھے دستیاب
ہوا سب ملاکر ممکن حد تک ان کا سارا کلام یکجا ہوگیا۔ پروف ریڈنگ قاری قاسم حبیبی اورمیں
نے مکمل کرلی۔
اشرف
صاحب نے ’شہر ملال‘ کے نام سے جوان کی شاعری کے لیے ہر لحاظ سے نہایت موزوں ہے۔ بہت
خوبصورت کلیات 2016 میں شائع کردیا کلیات کی خوبصورتی عرفان بھائی سے سید محمد اشرف
صاحب کی محبت اورعقیدت کا اعلانیہ ہے۔
Shoeb Nizam
105/591 Hafiz Hleem
Compound
Bhannana
Purwa, Chaman Ganj,
Kanpur- 208001 (UP)
Mob.: 8960416841
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں