19/10/23

منفرد لب و لہجے کا شاعر: شجاع خاور:صدام حسین

 

یوں تو میر اور غالب کی دلّی میں ایسے ہزاروں شعرا پیدا ہوئے جنھوں نے اردو شاعری کی دنیا میں شہرت حاصل کی۔ مگر ایسے شعرا کی فہرست زیادہ طویل نہیں ہے جو شعرا کی اس بے تحاشا بھیڑ میں اپنی منفرد شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے ہوں۔ جیسے جیسے سماجی و معاشرتی حالات کی تبدیلیوں نے شاعری کے مزاج پر اپنی چھاپ چھوڑی ویسے ویسے شعرا کا مزاج بھی تبدیل ہوا۔ خاص طور پر 1935 یعنی ترقی پسند تحریک کے وجود کے بعد اردو شاعری کا پورا منظرنامہ ہی تبدیل ہو گیا۔ آگے چل کر حلقۂ اربابِ ذوق اور جدیدیت نے اردو شاعری کے مزاج کو قدرے متاثر کیا۔ اس گہما گہمی کے دور میں ہر شاعر نے اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق شاعری میں نئے نئے رنگ بھرنے اور اپنی منفرد شناخت قائم کر نے کی بھر پور کوشش کی، اس کوشش میں کچھ شعرا کامیاب ہوئے تو کچھ وقت کے ساتھ ساتھ گم نامی کا شکار ہوگئے۔ شجاع خاور کا شمار ان باکمال شعرا میں ہو تا ہے جو مکمل طور پر اپنی منفرد شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔

شجاع خاور بیسویں صدی کے نصف آخر کی دہلی کا وہ اہم شاعر ہے جس نے دور حاضر کے اردو ادب کے نامور ناقدین سے داد و تحسین حاصل کی ہے۔ وہ 24دسمبر 1948 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔دہلی کے گلی کوچوں میں پلے بڑھے اور وہیں اپنی تعلیم مکمل کی۔ 1973 میں UPSCکا اعلیٰ امتحان پاس کرکے IPSکے عہدے پر فائز ہوئے۔ 20 سال تک اسی عہدے پر اپنی خدمات انجام دے کر استعفیٰ دے دیا۔ اسی دوران ان پر فالج جیسی جان لیوا بیماری کا شدید حملہ ہوا۔سولہ برس کی طویل مدت تک آپ اس بیماری سے دو چار رہے۔ آخر کار 20 جنوری 2012کو دل کا دورہ پڑنے پرانھوں نے اس دارِ فانی کو الوداع کہہ دیا۔

شجاع خاور نے اپنی شاعری کے ذریعے جن سربر آوردہ ناقدین کی توجہ اپنی جانب مرکوز کی ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، ظ۔انصاری، پروفیسر محمد حسن، آل احمد سرور، خلیق انجم، مظفر حنفی اور شمیم حنفی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ دہلی کے اس باکمال شاعر کو ناقدین نے کہیں قلندر تو کہیں دہلی کے البیلے شاعر کے نام سے یاد کیا۔ یقیناجس ڈھنگ سے شجاع خاور نے اپنے جذبات و احساسات کو شاعری کی لڑی میں پرویا وہ ایک بے باک اور قلندرانہ طبیعت کا مالک ہی انجام دے سکتا ہے۔ شجاع خاور نے اردو شاعری میں صرف زبان و بیان کی سطح پر ہی انفرادیت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ موضوعات کی سطح پر بھی اپنا منفرد انداز اختیار کر کے قارئین کے سامنے چونکا دینے والے تجربات پیش کیے۔شجاع خاور کو الفاظ کے استعمال پر بے پناہ قدرت حاصل تھی،وہ جابہ جا اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور لفظوں کے آڑے ترچھے استعمال سے اپنے کلام میں ایک اجنبیت سی پیدا کردیتے ہیں۔ پروفیسر محمد حسن اپنے مضمون ’ شجاع خاو اور مصرع ثانی‘ میں ان کے اس انداز کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔

’’ایک جملے میں کہنا ہو تو شجاع خاورکی شاعری کو مانوس اجنبیتوں کی شاعری کہا جاسکتا ہے۔ہر لفظ مانوس جانا پہچانا ہے۔مگر شجاع خاور کو کچھ ایسا گر یاد ہے کہ یہی مانوس جانے پہچانے لفظ انوکھے بانکے ترچھے اجنبی سے ہو جاتے ہیں اور ان میں طرفگی اور تازگی پیدا ہو جاتی ہے ان مانوس اجنبیتوں کے سہارے شاعر نے ست رنگی دنیا سجائی ہیـ۔ـ‘‘   ( رسالہ ادب ساز: جنوری تا مارچ 2015، ص99)

یقینا شجاع خاور کو ایسا گر یاد ہے جس کے استعمال سے وہ سامنے کی باتوں کو کچھ اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ ان میں مانوسیت ہوتے ہوئے بھی اجنبیت کا احساس ہونے لگتا ہے اوربسا اوقات یہی اجنبیت قاری کے لیے لطف اندوزی کا سبب بھی بنتی ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

یا تو جو نافہم ہیں وہ بولتے ہیں ان دنوں

یا جنھیں خاموش رہنے کی سزا معلوم ہے

 

یہ واقعی بڑے ہی تعجب کی بات ہے

دنیا اسی جگہ ہے قیامت کے باوجود

شجاع خاور نے اپنے اشعار میں جھوٹے اور بناوٹی دلا سوں کی بخیہ صاف گوئی اور اچھوتے پن سے ادھیڑی ہے یقینا یہ کام وہی شاعر انجام دے سکتا ہے جس کو زبان و بیان پر قدرت کے ساتھ لوگوں کے اذہان سے بھی بلا کی واقفیت ہو۔ مزید یہ کہ بے ساختگی، بے باکی اور صاف گوئی شجاع کے کلام میں جا بجا نظر آتی ہے۔وہ جو کہناچاہتے ہیں بے خوف و خطر او ر بے تکلف انداز میں بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ شعر ملاحظہ فرمائیں         ؎

دل کی باتیں دوسروں سے مت کہو لٹ جاؤ گے

آج کل اظہار کے دھندھے میں ہے گھاٹا بہت

 کل یہ منصوبہ بنایا ہم نے پی لینے کے بعد

آسمانوں کو زمینوں پر اتارا جائے گا

 مرے حالات کو بس یوں سمجھ لو

پرندے پر شجر رکھا ہوا ہے

لٹ جاؤگے‘، ’دھندھے‘ اور ’ گھاٹے‘ جیسے الفاظ کا اتنی خوبصورتی سے استعمال وہ بھی بلا کسی تکلف،غیر سنجیدگی، تصنع اور بناوٹ کے اورمزید یہ کہ آسمانوں کو زمینوں پر اتارنے کا منصوبہ اور وہ بھی پی لینے کے بعد اور پرندے پر شجر رکھ دینے کا ہنر شجاع خاور ہی جانتے ہیں۔آسمانوں کو زمینوں پر اتارلانے کا عمل اتنا آسان نہیں ہے جتنا شاعر نے اس شعر میں کر دکھایا ہے یعنی یہ وہ مشکل کام ہے جسے انسان عالمِ خودی میںانجام نہیں دے سکتا لیکن عالمِ بے خودی میں جا کر اسے سر کرنے کا حوصلہ ضرور رکھتا ہے۔در اصل یہاں سے شاعر داستانوی دنیا کی جانب سامانِ سفر باندھتا ہوا نظر آتا ہے یہ وہ رویہ ہے جسے روایت کی پاس داری یا اپنی روایت کی طرف پلٹنے کے عمل سے تعبیر کیا جاتاہے۔ ان اشعار میں کچھ ایسا انوکھا پن ہے کہ شاعری سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والا شخص بھی ان اشعار کو بار بار پڑھنے اور سر دھننے پر مجبور ہوتا ہے۔

عام انسانوں میں رہ کر عام انسانوںکی زبان میں شاعری کرنا تو آسان ہو سکتا ہے البتہ عام لوگوں کی زبان میں شاعری کرنا اور اس میں ادبی حسن کو برقرار رکھنا قدرے مشکل کام ہے۔ شجاع خاور نے اس مشکل کام کو آسان بنا کر پیش کیا اور کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ شعرا کی بھیڑ میں ان کو ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر کی حیثیت سے شناخت بھی حاصل ہوئی          ؎

یہ تو سبھی کہتے ہیں کوئی فکر نہ کرنا

یہ کو ئی بتا تا نہیں ہم کو کہ کریں کیا؟

 اب پھرتے ہو بے یارو مددگار میاں جی

ہاں اور بنو صاحبِ کردار میاں جی

 شجاع خاور کی شاعرانہ انفرادیت میں جو چیز مزید اضافے کا سبب بنی ہے وہ ان کا طنزیہ مزاج ہے۔ چونکہ شجاع خاور زمینی سطح پر کام کرنے والے شخص ہیں، انھوں نے اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات کو بہت قریب سے دیکھا، جانچا اور پرکھا ہے اور مختلف طرح کے تجربوں سے دو چار بھی ہوئے ہیں۔ انہی تجربوں نے شجاع کے مزاج میں ایک طنز والی کیفیت بھی پیدا کر دی ہے، لیکن شجاع کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس طنزیہ کیفیت سے شاعری میں نئے نئے رنگ تو بھر دیے مگر اس کیفیت کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ان کے پاس اپنی بات کہنے کا جو انداز ہے اس میں انھوں نے میانہ روی سے کام لیا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد کے حالات کو طنز کا نشانہ تو بنا تے ہیں لیکن کچھ اس انداز کے ساتھ کہ طنز کا تیر سیدھا دل میں گھاؤ نہ کر کے ایک کسک اور گداز کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ یہ کیفیت قاری کے لیے لطف اندوزی کا سامان بھی مہیا کر تی ہے اور قاری کو اپنا مجموعی جائزہ لینے پر بھی مجبور کر تی ہے۔ چند اشعار پر غور کیجیے            ؎

ایمان بھی ہے ختم نبوت پہ ہمارا

محسوس بھی کرتے ہیں پیمبر کی ضرورت

 تم لوگ اب بھی نیک ہو حیرت کی بات ہے

تم کو کسی گناہ کا موقع نہیں ملا

شجاع خاور اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سچا،کھرا ا ور ایماندار شخص محض اوروں کی ہی ذات کو اپنے طنز کا نشانہ نہیں بناتا بلکہ وہ وقفے وقفے سے خود کی ذات پر بھی طنزیہ نظر دوڑاتا رہتا ہے۔ یہ دو شعر ملاحظہ کیجیے        ؎               

شجاع تیری گنہ گاری کے پیچھے

ہمیں حج کا ارادہ لگ رہا ہے

 لوگوں نے ہم کو شہر کا قاضی بنا دیا

اس حادثے نے ہم کو نمازی بنا دیا

پروفیسر گوپی چند نارنگ نے شجاع خاور کی زبان،منفرد لب ولہجے اوران کے طنزیہ اسلوب پر کچھ اس طرح اظہارِ خیال کیا ہے:

’’ شجاع کا شعری سفرمیرے سامنے کا ہے۔ انھوں نے اپنی آواز کو پانے کے لیے مسلسل سعی و جستجو سے کام لیا ہے۔ یہ چونکہ Doxa   یعنی فرسودہ رسمیات کے خلاف ہے اور Subversion  کی زبان ہے، اس لیے طنز اور تعریض اس کے خاص حربے ہیں جن سے لہجے میں ایک سفاکی سی در آئی ہے اور تیکھا پن پیدا ہو گیا ہے۔ شجاع کو سطحی رومانیت، بے تہہ جذباتیت اور خودترحمی سے جو روایتی شاعری کا Stock-in-Trade  ہے یک گونہ چڑہے۔ ان کے یہاں شاعری زندگی کے کارنیوال پر ایک خاص بے تعلقی اور بے نیازی سے نظر کرتی اور ان دیکھے پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتی ہوئی چلتی ہے۔اس میں ایک قلندرانہ وضع ہے لیکن نظیر اکبر آبادی کی سیر بینی اور تہذیبی دیدبازی نہیں۔اسی طر ح کا کاٹ دار اور تیکھا لہجہ یگانہ کی یاد تو دلاتا ہے لیکن شجاع کے یہاں تلخی نام کو نہیں۔تیور البتہ ہیں اور دہلی کی مڑک بھی۔‘‘

(رسالہ ادب ساز، جنوری تا مارچ 2015، ص90)

شجاع خاور کا زمینی تجربہ بے حد وسیع ہے وہ داخلی حقائق کے ساتھ ساتھ خارجی حقائق پر بھی مضبوطی کے ساتھ اپنی پکڑ بناکر رکھتے ہیںاور ان کو وقتاً فوقتاً اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ مثلاً:

شور کرتے ہیں یہ مؤذن جب

سننے دیتے نہیں اذان تلک

 ذات کا گھر چھوٹا ہے بہت

خاور اور کوئی گھر دیکھ

تیکھے تیور یا مزاج کا طنطنہ یہ وہ خصوصیات ہیں جو عام طور پر ہر کسی کے اندر موجود ہوتی ہیں۔خواہ وہ اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں یا درمیانی اور نچلے طبقے سے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں یا کم پڑھے لکھے، اونچے عہدوں پر فائز ہوں یا پھر محنت و مزدوری کرنے والے لوگ،ہر طبقے کا فرد زندگی میں مزاج کی برہمی اور حالات سے بے زاری کی کیفیتوں سے گزرتا ہے، لیکن جہاں تک ان کیفیات سے متعلق اظہار کا تعلق ہے تو اس کی نوعیت قدرے مختلف ہوتی ہے۔ جیسے جیسے انسان کی حیثیت اور مرتبے میں تبدیلی آتی ہے ویسے ویسے اس کے محسوسات کا پیمانہ بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ شجاع خاور ایک اعلیٰ شاعر، اعلیٰ انسان اور ایک اعلیٰ عہدے پر فائز شخص تھے، ان کے مزاج پر بھی اس کیفیت کے اثرات نمایاں ہیں لیکن نہ تو اس میں کہیں چڑچڑاپن نظر آتا ہے اور نہ ہی خواہ مخواہ کسی کو اپنے تیکھے تیور اور طنطنے کا بے جا نشانہ بنانے کی کوشش دکھائی دیتی ہے۔ شجاع نے جس انداز سے اپنی اس فطری خصوصیت کو شاعری میں برتا اور اس سے کام لیا ہے اس میں ایک قلندرانہ شان پیدا ہو گئی ہے جو غلط کو صاف لفظوں میں منھ پر غلط کہنے کی طاقت رکھتی ہے اور کچھ اس نرالے انداز کے ساتھ کہ سننے اور پڑھنے والے کی طبیعت پر گراں بھی نہیں گزرتی اور قاری پر سلیقے سے مسرت بخش رعب اور دبدبے کی چھاپ بھی چھوڑ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں           ؎

پڑے رہیں تو قلندر اٹھیں تو فتنہ ہیں

ہمیں جگایا تو نیندیں حرام کر دیں گے

اردو شاعری کے اوراق عشق و محبت کے موضوعات سے بھرے پڑے ہیں۔ جس شاعر کا جیسا تجربہ رہا اس نے ویسے ہی اس موضوع کو شعری جامہ پہنا کر پیش کر دیا۔ شجاع نے یہاں بھی اپنی الگ راہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔ شعر دیکھیے        ؎

پہلے ہوا جو کرتے تھے ہم وہ نہیں رہے

دیکھو شبِ فراق ہے اور رو نہیں رہے

 علاج تیرے تغافل نے کر دیا دل کا

بہت دنوں سے دماغ آسماں پہ تھا دل کا

جس طرح کلاسیکی شاعری میں عشقیہ واردات کی دوہری ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے اسی طرح شجاع خاور کے یہاں بھی عشقیہ واردات کی ترجمانی میں دورنگ نظر آتے ہیں لیکن یہاں حقیقی و مجازی کا کوئی جھگڑا نہیں ہے بلکہ اس دورنگی ترجمانی میں ایک رنگ وہ ہے جو نئے دور کی عشقیہ واردات کا ترجمان ہے اور دوسرا وہ جس پر کلاسیکی عشق کی ہلکی ہلکی پرچھائیاں پڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔دراصل یہ وہ طریقئہ کار ہے جو شاعر کی آزادیِ فکر اور گہرے مطالعے کا نتیجہ ہوتا ہے اور قاری کے لیے ایک ایسی دلچسپ اور کھلی فضا قائم کرتا ہے جس میں کسی طرح کی گھٹن اور ربوریت کا احساس تک نہیں ہوتا۔اس دورنگی ترجمانی میں ایک خاص توازن برقرار رکھا گیا ہے یعنی کچھ دیر کے لیے قاری کا ذہن روایتی عشق کے لوازمات سے بھی روشناس ہوتا ہے اور دورِ حاضرکے انا گزیدہ عاشق کی عشقیہ واردات سے بھی۔ اس حوالے سے چند شعر اور ملاحظہ کیجیے         ؎

یاں تیرے تغافل سے پریشان ہیں ہم بھی

یہ طنز کے تیور تو دکھانے کے لیے ہیں

 تم سامنے ہو پھر بھی چلے آتے ہیں لب پر

وہ گیت جو تنہائی میں گانے کے لیے ہیں

 دو شعر دیکھیے جو دورِ حاضر کے ایک انا گزیدہ عاشق کی عشقیہ واردات کے ترجمان ہیں         ؎

حالت اسے دل کی نہ دکھائی نہ بیاں کی

خیر اس نے نہ کی بات تو ہم نے بھی کہاں کی

 اس کو نہ خیال آئے تو ہم منہ سے کہیں کیا

وہ بھی تو ملے ہم سے ہمیں اس سے ملیں کیا

درد کی کیفیت کا اظہار دیکھیے کس انوکھے پن سے کیا گیا ہے        ؎

اس کے آنے پہ بھی نہیں آئی

درد میں کچھ کمی نہیں آئی

 درد میرے بعد بالکل جوں کا توں باقی رہا

جیسے مجنوں مرگیا لیکن جنوں باقی رہا

شجاع کی عشقیہ شاعری میں یوں تو محبوب بھی ہے اورحسن بھی،بے وفائی بھی ہے اور تغافل بھی، شبِ فراق بھی ہے اور  وصال بھی، چاکِ گریباں بھی ہے اور جیبِ جنوں بھی، دل کے داغ بھی ہیں اور مرہم بھی۔غرض یہاں ہر وہ سامان موجود ہے جو ہماری عشقیہ شاعری میں روز ِاول سے چلا آ رہا ہے۔اگر غور کیا جائے تو ان موضوعات کے پیشِ نظر یہاں روایت کی پاسداری بھی نظر آتی ہے لیکن اندازِبیان بالکل منفرد اور چونکا دینے والاہے۔ یعنی یہاں نہ تو اگلوں کی طرح محبوب کی بے وفائی پر ماتم منانے کی کوشش ہے نہ شبِ فراق میں گھٹ گھٹ کر مرجانے کا اردہ اور نہ ہی اپنے دل کے زخموں کو دوسروں کے سامنے نمائش کرنے کی بے جا کوشش۔ یہاں ایک اطمینان کی صورت ہے جو عشق کے ہر پہلو کے بیان میںشدتِ جذبات سے بالکل پاک نظر آتی ہے۔ شجاع خاور کی عشقیہ شاعری کے تمام تر ضمنی موضوعات سے قطع نظرہجرو وصال کی جو کیفیت ہے وہ بالکل مختلف اور چونکا دینے والی ہے۔ مثال ملاحظہ فرمائیں          ؎

برپا ترے وصال کا طوفان ہو چکا

دل میں جو باغ تھا وہ بیابان ہو چکا

 آرزو کا شور برپا ہجر کی راتوں میں تھا

وصل کی شب کو ہوا جاتا ہے سناٹا بہت

 تشنگی کا ایک اک پہلو ابھارا جائے گا

وصل کی شب کو بھی فرقت میں گزارا جائے گا

یہاں وصال طوفان برپا کر رہا ہے، شبِ ہجر میں آرزوئوں کا شور برپا ہے،وصل کی شب میں سناٹا ہے اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شب ِوصل کو بھی فرقت میں گزار دینے کا ارادہ ہے۔یعنی یہ کیفیت روایتی عشق کے بالکل برعکس ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے گویاشاعرکو وصال سے زیادہ فرقت عزیز ہے۔ان اشعار میں ایک طرح کی توڑ پھوڑ تو نظر آتی ہے لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود روایتی قسم کا کوئی شور اور واویلا نظر نہیں آتا۔ان تمام اشعار کے مطالعے سے ایک بات تو صاف ہے کہ شاعر کا مقصد محض لذتِ وصل حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ وہ کسی اور ہی لذت کا طلب گار ہے جس کی جستجو اسے وصال کی سرحد پر آکر ٹھہرنے نہیں دیتی۔ ان اشعار میں شاعر کا ہجرو فراق سے اس درجہ لگائو اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہجروفراق کے لمحات میں شخصیت سازی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں یعنی ہجروفراق کی صعوبتیں انسان کے اندر ہلچل اور بے چینی کے عناصر پیدا کرتی ہیں۔ انسان مسلسل حرکت و عمل میں رہتا ہے اور مسلسل حرکت وعمل میں رہنا ہی اس کی شخصیت سازی کے لیے کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ ہجرووصال کی دنیا شجاع خاورکے یہاں بے حد طویل ہے جس میں وصل کی بآسانی فراہمی بھی موجود ہے۔ وصل کے حوالے سے عشقیہ لوازمات کی بدلتی صورتِ حال کی ایسی ترجمانی کی گئی ہے جس میں عشق محض لذتِ جسمانی تک پہنچنے کا ایک آسان ذریعہ نظر آتا ہے۔ اور اصل عشق پر جمود کی کیفیت طاری ہوتی دکھائی دیتی ہے۔اس ترجمانی میں عاشق و معشوق کے درمیان اعلی تہذیبی و سماجی اقدار کی دیوار بھی مسمار ہوتی دکھائی پڑتی ہے۔ بہر حال یہ اور اس طرح کے تمام اشعار اپنے آپ میں ایک طویل بحث اور توجہ کے طالب ہیں۔ حاصل ِکلام یہ ہے کہ شجاع خاور اپنے دور کے ایک باکمال شاعر تھے۔ انھوں نے شاعری کی بنی بنائی ڈگر سے انحراف کاایسا راستہ اختیار کیاجس میں اپنے عصری ماحول کی حقیقی داخلی وخارجی ترجمانی کے ساتھ ساتھ،تہذیبی و مذہبی اقدار کی پاسداری اورسماج سے ختم ہوتی اعلی قدروں کو ازسرنو تشکیل دینے کی عمدہ اور کامیاب کوشش بھی شامل ہے۔شجاع خاور نے اردو شاعری و اردو زبان کے لیے جو خدمات انجام دیں وہ قابلِ داد اور ناقابل ِ فراموش ہیں۔ شجاع نے گرے پڑے، مستعمل اور غیر مستعمل لفظوں کو جس نرالے اور اچھوتے اندازسے اپنی شاعری میں برت کر جو نیا اور منفرد لہجہ خلق کیا ہے وہ شجاع خاورکو ایک صاحبِ طرز اور صاحب اسلوب شاعر ہونے کی سند عطاکرتا ہے۔

 

 

Saddam Hussain

Research Scholar, Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202001 (UP)

Mob.: 9520208720

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...