اردو کے بیشترنظریات و رجحانات
کی طرح تانیثیت بھی مغربی ادب سے مستعار ہے۔ تانیثیت کی تحریک یا اس کے رجحان کا آغاز
بھی مغرب سے ہی ہوا۔تانیثیت یعنی Feminism کی اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے فرانسیسی فلسفی
چارلس فوریئر(Charles Fourier) نے 1837میں کیا اورتانیثیت کے اس موضوع کو پہلی بار 1792 میں میری
وال اسٹون کرافٹ (Mary
Wollstonecraft) نے اپنی کتاب
A
Vindication of the Rights of Womenمیںروشن
کیا،اس کے علاوہ انھوں نے مردوزن کے ادبی و اخلاقی توازن کو برابر رکھنے کے لیے پھر
ایک کتاب مردوں کے حقوق کی حمایت میں بھی لکھی جس کا نامA Vindication
of the Rights of Menتھا۔گویا
18 ویں صدی ہی سے تانیثیت کے ساتھ لا تانیثیت(Anti-feminism) کا آغاز ہو گیا تھا۔اس طرح تانیثیت اور تذکیریت (Masculinism) دونوں طرح کے رجحانات کے بنیاد گزاروں میں میری اسٹون کرافٹ کانام
سرِ فہرست ہے۔ معروف مورخ Judith
Allen کے مطابق تذکیریت
کی اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے CharlottePerkinsGilman نے 1914 میں کیا جب انھوں نے نیو یارک میںStudies
in Masculinism کے
عنوان سے عوامی تقریر کی۔اردو کے مصنّفین نے مغربی تانیثیت کا اثر تو قبول کیا لیکن
تذکیریت اور لا تانیثیت جیسی اصطلاحات کو درکنار کردیا۔ تذکیریت دراصل مغربی ملکوں
کی ایک تحریک یا رجحان ہے جو تانیثیت کی مخالفت میں شروع ہوئی اسی لیے اس رجحان کو
Anti-feminism بھی کہتے ہیں۔اس رجحان کا مقصد اس خیال کا دفاع کرنا
ہے کہ اب خواتین مردوں پر حاوی ہیں، جنھیں مردوں کے خلاف بغاوت پر اکسایا جاتا ہے،اور
انھیںطلاق شدہ مردوں کے خلاف مزاحمت کے لیے منظم کیا جاتا ہے۔
اردو افسانوں میں تانیثیت کی تحریک
کی روحِ رواں ڈاکٹر رشید جہاں کو تسلیم کیا جاتا ہے،حالانکہ ان سے پہلے بھی اس موضوع
کوڈیل کرنے والی کئی خاتون افسانہ نگار ہیں، لیکن اس رجحان کے فروغ میںسب سے بڑا ہاتھ
کشور ناہید کا ہے،جنہوں نے فرانسیسی مصنفہ سیمون ڈی بوار((Simone De
Beauvoir کی عورتوں پر لکھی
کتابThe
Second Sex(1949) کا ترجمہ اردو
میں1983میں’عورت‘کے نام سے کیا جس نے اردو ادب میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ان نسائی مصنفین
نے عورتوں میں بیداری پیدا کی اوراپنی تحریروں سے یہ واضح کیا کہ مردانہ سماج میں عورتیں
مظلو م ہیں۔
رشید جہاں کا افسانوی
دور 1931 سے 1952 تک محیط ہے جب کہ قرۃ العین حیدر کا افسانوی مجموعہ’پت جھڑ کی آواز‘
1966میں اشاعت پذیر ہوا،اس لیے عین ممکن ہے کہ رشید جہاں کے افسانے عینی آپا کے مطالعے
میں رہے ہوں گے اور وہ بھی رشید جہاں کے افسانوں کے احتجاجی تیور سے متاثر ہوئی ہوںگی۔
حالانکہ رشید جہاں اورقرۃ العین حیدر کے افسانوں کا رنگ ایک دوسرے سے بالکل جدا ہے۔
’پت جھڑ کی آواز‘ افسانے میں تانیثیت کے عناصر ہیں کیونکہ اس افسانے
میں مردوں کی سماجی اجارہ داری کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔اس کہانی کی مرکزی کردا
رتنویر فاطمہ مردوں کی جھوٹی محبت کی شکار ہو جاتی ہے۔ اس کی پہلی محبت ایک راجپوت
میجر خوشوقت سنگھ سے ہوتی ہے اوروہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن فاطمہ مذہب کو بنیاد
بنا کر اس سے شادی سے انکار کر دیتی ہے،حالانکہ اسے خوشوقت سنگھ کی منگیتر بننے پر
اعتراض نہیں ہوتا ہے۔ خوشوقت اسے اپنی منگیتر بناکر شادی سے پہلے ہی دنیا کی سیر بھی
کراتا ہے،ہوٹلوں میں شب گزاری بھی کرتا ہے اور جب جی چاہے اسے بری طرح مارتا پیٹتا
بھی ہے۔فاطمہ اپنا دکھ یوں بیان کرتی ہے:
’’کالج کھلنے سے ایک ہفتہ قبل خوشوقت کی اور میری زبردست لڑائی ہوئی،اس
نے مجھے خوب مارا،اتنا مارا کہ میرا ساراچہرہ لہو لہان ہو گیا اور میری بانہوں اور
پنڈلیوں میں نیل پڑگئے۔‘‘(پت جھڑ کی آواز)
ایک جگہ اور تنویر
فاطمہ خوشوقت کے ظلم کا ذکر یوں کرتی ہے:
’’ میرے انکارپرخوشوقت نے مجھے جوتے اور لات سے مارکر میرا بھرکس نکال
دیا۔‘‘(پت جھڑ کی آواز)
تنویر فاطمہ کی دوسری
محبت فاروق ہے جو پہلے ہی کئی شادیاں کر چکا تھااور شادی شدہ ہونے کے باوجود فاطمہ
سے قریب ہو جاتا ہے۔دونوں ایک لمبے عرصے تک شادی کیے بغیر میاں بیوی کی طرح ایک چھت
کے تلے رہتے ہیں۔وہ شادی کا وعدہ کرتا ہے لیکن یہ وعدہ بس وعدۂ محبوب ہی ثابت ہوتا
ہے۔افسانہ نگار نے اس افسانے میں اس سچائی
پر روشنی ڈالی ہے کہ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کر بھی لے تو اس کی عزت برقرار رہتی ہے
لیکن عورتوں کو یہ اختیار نہیں۔
تنویر فاطمہ کاتیسرا
رشتہ ایک امیرشخص سید وقار حسین سے قائم ہوتا ہے،وہ بھی شادی شدہ ہے،اور اس سے قبل
کئی شادیاں کر چکا تھا۔یہ اقتباس دیکھیے:
’’ان گنت قومیتوں اور نسلوں کی عورتوں سے شادیاں رچائیں،ان کی موجودہ
بیوی اڑیسہ کے ایک مارواڑی مہاجن کی لڑکی تھی جس کو یہ کلکتے سے اڑا لائے تھے۔‘‘
افسانے کے کرداروقار
صاحب فاطمہ کو اپنی بہن مانتے ہیں اورجب ان کی بیوی انھیں چھوڑ کر چلی جاتی ہے تو اس
پر گھر سنبھالنے کے لیے اخلاقی دباؤ ڈالتے ہیں۔ لیکن ایک روزوہ ایک مولوی کو بلا کر
فاطمہ سے نکاح پڑھوا لیتے ہیں جس میں فاطمہ کی مرضی بھی شامل نہیں ہوتی ہے۔ یہ اقتباس دیکھیے کہ کس طرح قرۃ العین حید ر نے
ایک مرد کی بے شرمی اور نیت کا مذاق اڑایا ہے:
’’چند روز بعد میں اپنا سامان باندھ کر وقار صاحب کے کمروں میں منتقل
ہو گئی اور ناچ سکھانے میں ان کی اسسٹنٹ بن گئی۔اس کے مہینے بھر بعد پچھلے اتوار کو
وقار صاحب نے ایک مولوی بلواکر اپنے دو چرِکُٹوں
کی گواہی میں مجھ سے نکاح پڑھوا لیا۔‘‘
چونکہ قرۃ العین حیدر
ایک حساس خاتون افسانہ نگار ہیں اسی لیے انھوںنے عورتوں کے کرب کو بہت شدت کے ساتھ
محسوس کیا ہے، تبھی تو انھیں ’ اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘ جیسا اثر انگیز افسانہ
لکھنا پڑا۔
افسانہ’پت جھڑ کی آواز‘
میں افسانہ نگار نے مردانہ سماج کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور ان کی آزاد خیالی،ان
کی سوسائٹی،اور ان کے ذریعے عورت پر کیے جانے والے ستم پر روشنی بھی ڈالی ہے، اس سے
افسانہ نگار کا تانیثی رجحان واضح ہوتا ہے۔دو اور اقتباسات پیش ہیں جن سے افسانہ نگار
کے تانیثی رجحان کا پتہ چلتا ہے،اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پردہ،مذہبی کٹر پن
اور مردوں کی اعلیٰ سوسائٹی کی معترض ہیں:
(1) ’’ہمارے یہاں بڑاسخت پردہ
کیا جاتا تھا،خود میرا، میرے چچا زاد،پھوپھی زاد بھائیوں سے پردہ تھا۔‘‘
(2) ’’دراصل ہماری سوسائٹی
اس قابل ہی نہیں ہوتی کہ وہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ہضم کر سکے۔‘‘
قرۃ العین حیدر کے
افسانے’پت جھڑ کی آواز‘ میں مردانہ سماج کی دھجی تو اڑائی ہی گئی ہے اور تانیثیت کا
رجحان بھی منعکس کیا گیا ہے، اس کے ہمرکاب اس افسانے میں لا ثینیت (Anti-feminism) کے ہلکے نقوش بھی روشن کیے
گئے ہیں،جبکہ رشید جہاں کے افسانوں میں تانیثیت (feminism)کے رجحان کااحساس زیادہ ہوتا ہے۔ میں اپنے اس دعوے کی دلیل کے طور
پر متذکرہ افسانے سے چند اقتباسات پیش کروں گا اور یہ واضح کروں گا کہ قرۃ العین حیدر
کے افسانے’پت جھڑ کی آواز‘ میں اگر مردانہ سماج پر ضرب لگائی گئی ہے تو وہیںنسائی
سماج کی دکھتی نبض پر انگلی بھی رکھی گئی ہے۔ یعنی اس افسانے میں تانیثیت کی جھلک بھی
ہے تو لا تاثینیت کا عکس بھی ہے۔
افسانے کا راوی تنویر
فاطمہ نے عورتوں کے مختلف محاسن کے علاوہ ان کے چند معائب کی طرف اشارہ بھی کیا ہے،
اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ کس طرح عورتیں مردوں کی اعلیٰ سوسائٹی میں اپنے سماجی اسٹیٹس
کو بحال رکھنے کے لیے ہر وہ کام کرتی ہیں جو ایک مہذب عورت کو شوبھا نہیں دیتا۔اس نے
عورتوں کو حرافہ جیسے غیر مہذب لقب سے بھی مخاطب کیا ہے۔
اسی افسانے کے بعض
مقامات پر افسانے کے راوی نے ایسے ایسے جملے خواتین کے تعلق سے کہے ہیں کہ قاری وہیں
ٹھٹک کر سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا یہ افسانہ تانیثی رجحانات کا آئینہ دار
ہے یا اس نظریے کا مخالف، یعنی ایسے مقامات پر لا تانیثیت کا پہلو جھلکنے لگتا ہے۔بعض
جملوں میں عورتوں کی تضحیک و تذلیل کا مادہ بھی محسوس کیا جا سکتا ہے،جس سے افسانہ
’پت جھڑ کی آواز‘ تانیثیت اور لا تانیثیت کے درمیان جھولتا ہوا خلا میں معلق نظر آتا
ہے، قاری یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کیا یہ افسانہ عورتوں کے حق میں لکھا گیا ہے یا
ان کے خلاف،لہٰذا تانیثیت کا رجحان ایسے مقامات پر دم توڑنے لگتا ہے اور وہیں لا تانیثیت
کے ساتھ تذکیریت کے رجحان کو زندگی ملنے لگتی ہے۔
قرۃ العین حیدر خود
ایک عورت ہیں اسی لیے وہ عورتوں کے دل ودماغ میں پیدا ہونے والے خرافات سے اچھی طرح
واقف ہیں۔ وہ عورتوں کے درمیان ہونے والی چپقلش سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔انھوں نے عورتوں
کی طبیعت اور ان کے عادات و اطوار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔،خود افسانہ نگار نے راوی اور
اس افسانے کے کرداروں کے ذریعے عورتوں کی منفی فطرت وطبیعت اور ان کی عیاش مزاجی کی
ترجمانی بھی بڑے واضح الفاظ میں کی ہے۔ اسی تناظر میں چند اقتباسات پیش ہیں:
(1) جھگڑالو فطرت
’’صبح میں گلی کے دروازے میں کھڑی، سبزی والے سے گوبھی کی قیمت پرجھگڑ
رہی تھی ‘‘
(2) باہمی نسائی رنجش
* ’’ عورتیں ایک دوسرے کے
حق میں چڑیلیں ہوتی ہیں۔‘‘
* ’’عورتوں کی انٹلی جنس
سروس اتنی زبر دست ہوتی ہے کہ انٹر پول بھی اس کے آگے پانی بھرے‘‘
* ’’ مجھے لڑکیاں کبھی پسند
نہ آئیں، مجھے دنیا میںزیادہ تر لوگ پسند نہیں آئے۔‘‘
(3) آزادیِ نسواں کی مخالفت
’’شریف گھرانوں کی لڑکیاںاپنے ماں باپ کی آنکھوںمیں دھول جھونک کر
کس طرح لوگوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہیں،ہوسٹل میں اکثر ہم اس قسم کی لڑکیوں کے لیے قیاس آرائیاں کیا کرتے،
یہ بڑی عجیب اور پر اسرار ہستیاں معلوم ہوتیں۔‘‘
اعلیٰ سوسائٹی پر طنز
’’بہر حال کسی طرح یقین نہ آتا کہ یہ ہماری جیسی، ہمارے ساتھ کی چند
لڑکیاں ایسی ایسی خوفناک حرکتیں کس طرح کرتی ہیں۔‘‘
قرۃ العین حیدر نے اس افسانے پت جھڑ کی آواز میںاپنے موجودہ سماج
کی منظر کشی بڑے واضح طور سے کی ہے،وہ سماج جو تقسیمِ ملک کے المیے سے دو چار تھا،اس
میں آزادی سے فوراً قبل ہندوستان اور آزادی کے فوراً بعد کے ہند و پاک کی معاشرتی
اتھل پتھل اور بے قراری کی عکاسی کی گئی ہے۔اس میںدہلی اور لاہور کی بدلتی ہوئی فضاؤں
کی جھلک محسوس کی جا سکتی ہے،ان دو بڑے شہروں میں ہر طرح کے لوگ رہتے تھے،جن کے جینے
کے اپنے اپنے انداز تھے،لڑکیوں کی اپنی آزاد زندگی تھی جو کسی دقیانوس شخص کو عیش
پرست اور بے لگام معلوم ہو سکتی تھی، اس میں ایسے مرد بھی تھے جو مذہبی قید وبند سے
لاپروا آزاد خیالی کے ساتھ اپنی دنیا بسائے ہوئے تھے،بھلے ہی ان کی آزاد خیالی میں
مذہب سے بیزاری کا عکس بھی ہو۔ قرۃ العین حیدر نے دو ملکوں کی تہذیبوں اور ان کی بدلتی
اقدار کو بہت گہرے طور سے محسوس کیا،اوران کے رسم و رواج اور طور طریقے کو اپنے افسانے
میں بہت سلیقے سے برتا ہے۔ انھوں نے اپنا مطمحِ نظر پیش کرنے کی بھی بھر پور کوشش کی
ہے اور بہت حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئی ہیں۔
قرۃ العین حیدر نے
اس افسانے میںیہ واضح کیا ہے کہ کس طرح حالات تیزی سے بدل رہے تھے،کیسے رفتہ رفتہ مذہبی
و سماجی پابندیاں ختم ہو رہی تھیں۔علم و ہنر کے چراغ ہر طرف روشن ہو رہے تھے۔عورتیں
مردوں کے شانہ بہ شانہ علم وہنر کے میدان میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ دونوں ملکوں کے نوجوان
لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان معاشرتی و اخلاقی ہم آہنگی پید اہو رہی تھی،لوگ روشن خیال
ہورہے تھے،رفتہ رفتہ ایک نئی سوسائٹی کی تشکیل ہو رہی تھی جو اعلیٰ سوسائٹی کے نام
سے معروف ہو رہی تھی۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرۃ العین حیدر نے اپنے افسانہ ’پت
جھڑ کی آواز‘ میںعورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کی آزادی کی بھی وکالت کی ہے اور قاری
کو یہ احساس دلایا ہے کہ دونوں اللہ تعالی کی مخلوقات ہیں،اسی لیے دونوں جنسوں میں
محاسن کے علاوہ معائب بھی ہیں۔ قرۃ العین حیدر نے دونوں جنسوں کے درمیان معاشی،سماجی
اور اخلاقی برابری پیدا کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔لہٰذا مجھے یہ رائے قائم کرنے میں کوئی
جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ ’پت جھڑ کی آواز‘ تانیثیت اور لاتانیثیت کے رجحانات کے درمیان
سے گزرتا ہوااور اخلاقی برابری کی طرف سفر کرتا ہوا ایک کامیاب افسانہ ہے۔
جو لوگ مردوں اور عورتوں
کے درمیان مساوات پیدا کرنے کے لیے ادب خلق کرتے ہیں انھیں مساوات پسند یعنی equalist کہتے ہیں اورتانیثیت اور لا تانیثیت کے درمیان کی
خلیج کو پاٹنے والا نظریہequalism
کہلاتا ہے،اب آپ کے لیے یہ سوال میں چھوڑے جاتا ہوں کہ کیاقرۃ العین
حیدر equalist تھیں؟
Meraj Ahmad
Meraj
Kulti, Distt.: West Bardhaman-713343
(West Bangal)
Mob.: 8918960724
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں