18/10/23

عربی ادب میں سفرنامہ نگاری کی روایت: ثمامہ فیصل

 

عربوں میں زمانۂ قدیم سے سفر کا عام رجحان پایا جاتا تھا، ظہور اسلام سے قبل اہل عرب سفر کیا کرتے تھے لیکن اپنے سفرناموں کو انھوں نے تحریری شکل میں مرتب نہیں کیا۔ قرآن کریم میں بھی عربوں کے موسم سرما اور موسم گرما میں مختلف علاقوں کی طرف ہونے والے سفر کا ذکر کیا گیا ہے۔  عرب قوم دراصل ایک بدو اور خانہ بدوش قوم تھی اور اکثر ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہونا اس کی ضروریات زندگی میں شامل تھا۔ البتہ سبھی عرب باشندے اس انداز کی زندگی نہیں گزارتے تھے بلکہ ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو شہروں میں مستقل طور پر آباد تھے اور مختلف اغراض ومقاصد کے لیے وقتا فوقتا سفر پر نکلا کرتے تھے۔

عربی زبان میں سفرنامہ لکھنے کی روایت باقاعدہ طور پر تیسری صدی ہجری میں شروع ہوئی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا عرب مصنف جس نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی وہ ابن خردازبہ تھا۔ اس کا پورا نام ابو القاسم عبید اللہ بن احمد تھا۔ خردازبہ دراصل اس کے دادا کا نام تھا جو اصلا ایک مجوسی تھا اور اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ابن خردازبہ کا تعلق عراق سے تھا۔ اس کی پیدائش 205ھ (877) میں اور وفات 280ھ (893) میں ہوئی تھی۔ اس کی کتاب المسالک والممالک جو اس نے 262ھ میں لکھی تھی اس موضوع پر لکھی جانے والی عربی کی اولین تصانیف میں شمار کی جاتی ہے۔

اسی دور یعنی تیسری صدی ہجری کا ایک اور عرب سیاح سلام الترجمان بھی کافی مشہور ہے۔اس کا تعلق بھی عراق سے تھا اور عباسی خلیفہ الواثق باللہ نے اسے چین کے سفر پر روانہ کیا تھا تاکہ وہاں جاکر وہ قرآن میں یاجوج ماجوج کے قصے میں مذکور ذوالقرنین کے ہاتھوں تعمیر کردہ دیوار کا پتہ لگائے اوراپنے اس سفر کے حالات کو قلم بند کرے۔

تیسری صدی ہی کا ایک اور عرب سیاح بہت مشہور ہوا جو سلیمان التاجر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تجارت اس کا پیشہ تھا اور وہ چین اور ہندوستان کا تجارتی سفر کیا کرتا تھااسی لیے اس کے نام کے ساتھ التاجر لگا ہوا ہے۔ اس نے اپنا جو سفرنامہ لکھا وہ عربی زبان میں ہندوستان کا پہلا سفرنامہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

عباسی دور اسلامی تاریخ کے عروج کا دور تھا۔ اسے اسلامی تاریخ کا سنہری دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس دور میں عربوں نے ہر میدان میں ترقی کی اور مختلف علوم وفنون میں بے شمار قیمتی کتابیں تصنیف کیں۔ چنانچہ سفرناموں کے باب میں بھی انھوں نے خوب طبع آزمائی کی۔

چوتھی صدی ہجری میں بہت سی کتابیں اس موضوع پر لکھی گئیں۔ لیکن اس صدی کی اس فن پر لکھی گئی زیادہ تر تصانیف پر جغرافیائی اور تحقیقی رنگ غالب تھا۔ چنانچہ وہ سفرنامے کم اور علم جغرافیہ کی کتابیں زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔  اس دور کے مشہور اہل قلم جنھوں نے اس موضوع پر لکھا ان میں ابن فضلان کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ ابن فضلان نے عباسی خلیفہ ا لمقتدر باللہ کے دور حکومت میں بلغاریہ وغیرہ کا سفر کیا اور اپنا سفرنامہ تصنیف کیا۔ اس دور کے دیگر مصنّفین میں ابن حَوقَل، المَقدِسی، الاِصطَخبَری، ابو زید البلخی اور المسعودی وغیرہ قابل ذکر ہیں جنھوں نے دراصل علم جغرافیہ پر بیش قیمت کتابیں لکھیں لیکن کہیں نہ کہیں ان کا تعلق سفرناموں کے ادب سے بھی تھا۔

اب سفرنامہ لکھنے میں عرب قوم کو اچھا خاصا تجربہ اور خاطر خواہ مہارت حاصل ہو چکی تھی۔ اس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد کچھ ایسے عرب سیاح سامنے آئے جن کی مثال سفرناموں کے ادب کی پوری تاریخ میں ملنا مشکل ہے، جنھیں اس میدان کا اگر شہسوار کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ پانچویں صدی ہجری میں البیرونی نے اپنا ہندوستان کا سفرنامہ لکھا، چھٹی صدی ہجری میں ابن جبیر نے اور آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ اور ابن خلدون نے اپنے سفرنامے لکھے۔ ان میں بطور خاص سفرنامہ ابن بطوطہ اور سفرنامہ ابن جبیر کو عالمی سطح پر بے انتہا شہرت حاصل ہوئی۔ یہ دونوں سفرنامے دنیا کے چند بہت ہی عمدہ سفرناموں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ سطور ذیل میں ان چاروں سفرناموں کا مختصر جائزہ پیش ہے۔

سفرنامہ ابن بطوطہ

ابن بطوطہ کا پور انام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ تھا۔ اس کی پیدائش مراکش کے شہر طنجہ میں 703ھ (1304) میں ہوئی تھی اور وفات 779ھ (1379) میں ہوئی۔ ویسے تو اس کو کئی علوم وفنون جیسے تاریخ، جغرافیہ، علم شریعت اور فقہ وغیرہ میں کمال حاصل تھا، لیکن سفرناموں کے میدان میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ عرب وعجم اور مشرق ومغرب کے تمام بڑے مؤرخین اور محققین نے ابن بطوطہ کے سفرنامے کو ایک بے مثال سفرنامہ قرار دیا ہے۔ ابن بطوطہ نے اپنی زندگی کے کم وبیش تیس سال سیر وسیاحت میں گزارے۔ اس نے اکیس سال کی عمر میں 725ھ (1325)  میں اپنے وطن طنجہ کو الوداع کہا اور تقریبا ایک لاکھ بیس ہزار کلو میٹر کا سفر کیا اور ’تحفۃ النظار ‘ کے نام سے اپنا سفرنامہ تصنیف کیا جو سفرنامہ ابن بطوطہ کے نام سے مشہور ہوا۔

سفرنامہ ابن بطوطہ کو چار مختلف مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا مرحلہ وہ ہے جسے اس نے سفرِ حج کے ارادہ سے شروع کیا۔ وہ سفر حج کی ادائگی کے لیے اپنے وطن طنجہ سے روانہ ہوا اور الجزائر، تونس اور مصر سے گزرتے ہوئے بحر احمر کے راستے حجاز پہنچااور فریضۂ حج ادا کیا۔ پھر اپنے اس سفر کو جاری رکھتے ہوئے عراق اور بلاد فارس کا رخ کیا جہاں اس نے تبریز، نجف، بصرہ، اصفہان، شیراز اور خلافت عباسیہ کے دارالسلطنت بغداد کی زیارت کی۔ بغداد اور عراق کے مختلف مقامات پر ہلاکو خان نے جو تباہی مچائی تھی اس کا ذکر بھی ابن بطوطہ نے اپنے اس سفر نامے میں کیا ہے۔

اپنے سفر کے دوسرے مرحلے میں اس نے مشرقی افریقہ کا رخ کیا اور صومالیہ اور کینیا کے مختلف شہروں بطور خاص مقدیشو اور مومباسا کا سفر کیا اوروہاں کے حالات وواقعات ذکر کیے۔

تیسرے مرحلے میں اس نے ترکی، وسط ایشیا، قسطنطنیہ، بخارا، سمرقند اور افغانستان وغیرہ کا رخ کیا۔ اسی سفر کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ملک ہندوستان کا رخ کیااور یہاں سلطان محمد بن تغلق کے دور حکومت میں دہلی کے قاضی کا عہدہ سنبھالا۔ شمالی ہند میں ایک طویل مدت گزار کر سلطان کی اجازت سے چین کے لیے رخت سفر باندھا اور اس کے لیے پہلے جنوبی ہند کا رخ کیا۔ کیرلا سے ہوتے ہوئے مالدیپ پہنچااور وہاں کچھ وقت گزارا۔ پھر سری لنکا، چٹاگانگ، سوماترا اور ویتنام ہوتے ہوئے چین کی سرحد میں داخل ہوا اور وہاں کچھ وقت گزار کر واپس اپنے وطن کا رخ کیا۔ اس سفرنامے کا چوتھا اور آخری حصہ اندلس، مالی اور ٹمبکٹو وغیرہ کے سفر پر مشتمل ہے۔

ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں بطور خاص ان مساجد، مزارات اور مقبروں کا ذکر کیا ہے جہاں اہل علم ومعرفت اور صوفیا حضرات گوشہ نشین ہوا کرتے تھے اور لوگ وہاں جاتے تھے تاکہ ان سے ملاقات کی سعادت اور استفادے کا شرف حاصل ہو سکے۔ ابن بطوطہ نے امرا وسلاطین کے حالات، ان کے عادات واطواراور ان کے طرز حیات کا بھی اپنے سفرنامے میں جگہ جگہ ذکر کیا ہے۔ مختلف قوموں کے رہن سہن، بودوباش اور خوردونوش کے طریقوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بہت سے عجیب وغریب واقعات اور قصے بھی بیان کیے ہیںجن میں سے کچھ کے حقیقت سے دور ہونے کا مؤرخین نے دعوی کیا ہے۔ بہرحال یہ سفرنامہ عرب قوم کی تاریخ بلکہ پورے عالم کی تاریخ میں آج تک لکھے گئے سب سے عمدہ سفرناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت ہمیشہ کی طرح آج بھی باقی ہے۔ بہت سی فلمیں اور ٹی وی سیریلز بھی اس سفرنامے پر تیار کیے گئے ہیں اور بہت مقبول بھی ہوئے ہیں۔ اس سفرنامے کا دنیا کی تقریبا سبھی مشہور زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔

سفر نامہ ابن جبیر

ابن جبیر کا پورا نام ابوالحسن محمد بن احمد ابن جبیر تھا۔ اس کی پیدائش 540ھ میں اندلس کے شہر َبلَنسِیہ میں ہوئی تھی۔ غَرناطہ کے امیر ابو عثمان سعید بن عبد المومن کے دربار میں اس نے کچھ دن اپنی خدمات پیش کیں۔ اسی دوران اس نے حج کرنے کا ارادہ کیا اور سفر کی تیاری شروع کردی۔ 578ھ (1183) میں اس نے اس سفر کے لیے رخت سفر باندھا اور شہر غرناطہ سے روانہ ہوا۔ بحر قلزم کے راستے مصر کی بندرگاہ اسکندریہ پہنچا۔ پھر وہاں سے خشکی کے راستے حجاز تک کا سفر طے کیا اور فریضۂ حج ادا کیا۔ پھر عراق اور بلاد شام کا رخ کیا اور صقلیہ ہوتے ہوئے واپس اپنے وطن اندلس کا رخ کیا۔

اس نے اپنا سفرنامہ دراصل امیر غرناطہ کی خدمت میں اپنے حالاتِ سفر کی روداد پیش کرنے کے لیے لکھا تھا۔ اس نے جس دور میں بلاد شام کا سفر کیا یہ وہی دور تھا جب اس خطے میں صلیبی جنگ جاری تھی چنانچہ اس نے اپنے اس سفرنامے میں شام کے مسلمانوں کے حالات کے ساتھ ساتھ صلیبی فوجوں اور عیسائی قوم کے حالات بھی ذکر کیے ہیں۔ دیگر سفرناموں کے مقابلے میں اس سفرنامے پر ادبی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ خاص طور سے سفرنامہ ابن بطوطہ کے مقابلے میں سفرنامہ میں ہمیں بہت زیادہ تفصیل اور غیر ضروری معلومات نہیں ملتی۔ اسی طرح جس قسم کی مبالغہ آرائی ہمیں سفرنامہ ابن بطوطہ میں نظر آتی ہے اس سے بھی یہ سفرنامہ کافی حد تک محفوظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفر نامہ ابن جبیر اگر چہ سفر نامہ ابن بطوطہ جتنا دلچسپ نہیں ہے اور اس قدر مشہور بھی نہیں ہے لیکن اس کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد اور زیادہ ادبی اہمیت کا حامل ہے۔

البیرونی کا سفرنامۂ ہند

ابو ریحان البیرونی کی پیدائش 362ھ (973) میں خوارزم کے علاقے میں ہوئی اور وفات 440ھ (1048) میں ہوئی۔ وہ کئی علوم وفنون میں ماہر تھا جن میں خاص طور پر فلسفہ، علم فلک، تاریخ اور علم نبات قابل ذکر ہیں۔ اس کو مختلف زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ وہ عربی، فارسی، خوارزمی، یونانی، سریانی اور سنسکرت زبانوں کی بہت اچھی معلومات رکھتا تھا۔ اس کی تصانیف کی تعداد 180 سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہیں۔ لیکن اس کی سب سے مشہور تصنیف ’تحقیقُ ما  لِلہند‘ ہے جو کتاب الہند کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ اور اسی کتاب میں اس نے اپنے سفر ہند کا ذکر کیا ہے جس پر گفتگو کرنا یہاں مقصود ہے۔

البیرونی سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ ہندوستان آیا تھا اور ایک طویل مدت اس نے یہاں گزاری تھی۔ اس نے یہاں کی قدیم زبان سنسکرت سیکھی اور یہاں کے مذاہب اور تہذیب وثقافت کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کی اور اپنے اس علمی سفر کو نہایت عالمانہ اور فلسفیانہ انداز میں اس کتاب کی شکل میں تصنیف کیا۔

سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 مرتبہ حملہ کیا تھا اور 13 مرتبہ البیرونی اس کے ہمراہ ہندوستان آیا تھا۔ البیرونی نے ہندوستانی تہذیب وثقافت، ہندو قوم کے طرز حیات، رسم ورواج، عادات واطوار، عقائد وعبادات وغیرہ کا تفصیل سے اپنی اس کتاب میں جائزہ لیا ہے۔ اسی طرح ہندؤوں کے طبقاتی نظام پر بھی گفتگو کی ہے۔ ہندو مذہب، اسلام، نصرانیت اور فلسفۂ یونان کے عقائد وتعلیمات کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ البیرونی نے اپنے سفرنامے میں سنسکرت زبان اور اس کے رسم الخط کا بھی ذکر کیا ہے۔ البیرونی کے اس سفرنامے میں فلسفۂ ادیان کے مباحث اس قدر غالب ہیں کہ اسے اگر اسی صنف کی ایک کتاب کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ لیکن عرب ناقدین نے اس کا ذکر سفرناموں کے ذیل میں ہی کیا ہے۔

سفرنامہ ابن خلدون

ابن خلدون کا اصل نام عبد الرحمن تھا۔ اس کی پیدائش تونس میں 732ھ (1332) میں ہوئی اور وفات 808ھ (1406) میں ہوئی تھی۔ اس کا سفرنامہ بھی اس سلسلے کی ایک اہم کڑی مانی جاتی ہے۔ حالانکہ اس کی مایہ ناز تصنیف مقدمہ ابن خلدون ہی اس کا سب سے اہم کارنامہ مانا جاتا ہے۔ مقدمہ ابن خلدون دراصل تاریخ پر لکھی اس کی ایک ضخیم کتاب کا مقدمہ ہے جو بذات خود کسی کتاب سے کم نہیں ہے۔ تاریخ کے علاوہ فلسفہ، علم سیاست، علم طب، علم نجوم وغیرہ پر بھی ابن خلدون کو عبور حاصل تھا۔

سفرناموں کے موضوع پر ابن خلدون کی جس کتاب کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے وہ دراصل اس کی خود نوشت سوانح حیات کا ایک حصہ ہے۔ اس کے ابتدائی سفر در اصل سیاسی اغراض ومقاصد کے لیے ہوئے تھے، چنانچہ اس نے پہلے اپنے وطن تونس سے نکل کر الجزائر، مراکش اور اندلس کا سفر اسی مقصد سے کیا۔ پھر فریضۂ حج کی ادائگی کا ارادہ کیا اور بحر قلزم کے راستے مصر کا رخ کیا اور اسکندریہ ہوتے ہوئے قاہرہ پہنچاجو اس دور میں بغداد اور قرطبہ جیسے عظیم الشان شہروں کے ہم پلہ تھا۔ جامعہ ازہر جیسا عظیم علمی مرکز اس شہر میں فاطمیوں کے ہاتھوں چوتھی صدی ہجری میں ہی قائم ہو چکا تھا جہاں دنیائے اسلام کے کونے کونے سے لوگ حصول علم کے لیے آیا کرتے تھے۔ ابن خلدون جب قاہرہ پہنچاتو وہاں سے واپسی کی طرف اس کی طبیعت مائل نہیں ہوئی، چنانچہ ایک طویل عرصہ اس نے اس شہر کی علمی فضا میں گزارا، اور جب پھر سے بیت اللہ میں حاضری کی خواہش جاگ اٹھی تو حجاز کا سفر اختیار کیا اور ادائگیٔ حج کے بعد پھر سے واپس قاہرہ آگیا۔ پھر فلسطین اور بلاد شام کا سفر کیا۔

ابن خلدون کے سفرنامے پر خود نوشت سوانح حیات کا طرز بیان غالب نظر آتاہے۔ اپنے ذاتی تجربات کو وہ کافی اہتمام کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔ بہرحال ابن خلدون جیسے عظیم اسکالر کی تصنیف خواہ وہ کسی بھی فن یا کسی بھی موضوع پر ہو اس کو ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہونا لازمی تھا، چنانچہ اس سفرنامے کو بھی عربی سفرناموں کے باب میں ایک اہم مرجع تصور کیا جاتا ہے۔ 

مراجع  و مصادر

  1. ادب الرحلات، حسین محمد فہیم، کویت 1978
  2. ادب الرحلۃ عند العرب، حسنی محمود حسین، دارالاندلس، بیروت، 1983
  3. ادب الرحلۃ فی التراث العربی، فؤاد قندیل، مکتبۃ الدار العربیہ للکتاب، القاہرہ، 2002
  4. الرحالۃ المسلمون فی العصور الوسطی، زکی محمد حسن، القاہرہ، 2013
  5. الرحالون العرب وحضارۃ الغرب، نازک سابایارد، 1992
  6. الرحلات، شوقی ضیف، دار المعارف، القاہرہ
  7. الرحلۃ فی الادب العربی، ناصر عبد الرازق الموافی، القاہرہ، 1995
  8. الرحلۃ والرحالون المسلمون، احمد رمضان احمد، دار البیان العربی، جدہ، سعودی عرب

 

Dr Sumama Faisal

Assistant Professor, Dept of Arabic,

MANUU Lucknow Campus, 504/122, 

Tagore Marg, Lucknow- 226020, UP

Email: sumamaid@gmail.com,

Mob.: 8574976671

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...