میلان کنڈیرا یکم اپریل
1929 کو برنو، چیکوسلواکیہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد لڈوک کنڈیرا چیک موسیقار تھے؛
انھوں نے ایک چیک موسیقی کار لیوجینک سے موسیقی سیکھی تھی اور اْن ہی سے پیانو بجانا
بھی سیکھا تھا۔ لیوجینک 1948 سے 1961 تک برنو موسیقی اکادمی کے سرپرست تھے۔ کنڈیرا
کو بھی چھوٹی عمر ہی سے موسیقی سکھائی گئی تھی۔ انھوں نے اپنے والد سے پیانو بجانا
بھی سیکھ لیا تھا۔ بعد میں انھیں باقاعدہ موسیقی کی تعلیم دلوائی گئی۔ کنڈیرا پر موسیقی
کا اتنا اثر رہا کہ جان کولک کے بہ قول وہ اثر اُن کی تحریروں پر بھی نمایاں طورپر دیکھا گیا۔ انھوں نے 1948 میں برنو میں سیکنڈری
اسکول مکمل کیا۔ اس کے بعد انھوں نے آرٹس فیکلٹی، چارلس یونیورسٹی سے ادب اور جمالیات
میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ فلم اکادمی منتقل ہوئے جہاں انھوں نے فلم ہدایت کاری
اور اسکرپٹ رائٹنگ کی کلاسز لیں۔ جان کولک کے مطابق اس کے بعد کچھ ایسا ہوا کہ کنڈیرا
کو چند سیاسی وجوہات کی بنیاد پر پڑھائی کے سلسلے کو منقطع کرنا پڑا۔ بہر صورت گریجویشن
کے بعد بہ حیثیت لیکچرر ان کا تقرر فلم اکادمی کے عالمی ادب میں ہوا۔ کنڈیرا چیکوسلواکیہ
کے ان نوجوانوں میں سے تھے جوعالم گیر جنگ سے پہلے چیکوسلواکیہ سے پوری طرح آشنا نہیں
تھے۔ ان کی فکری نشوونما دراصل دوسری عالم گیر جنگ کے تجربے اور جرمنی کے قبضے سے متاثر
ہوکر ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر جرمنی مطلق العنانیت کی فکر گرچہ دھندلے
حقائق کے ساتھ ہی سہی، رچ بس گئی۔ اسی فکر نے انھیں مارکس واد اور کمیونسٹ پارٹی میں
شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔ اس طرح کنڈیرا نے نوعمری ہی میں یعنی 1948 میں چیکوسلواکیہ
کی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت ان کی عمر محض 19 سال تھی۔ کمیونسٹ
پارٹی کے ساتھ کنڈیرا کا تعلق عجیب و غریب اور پیچیدہ تھا۔ کیونکہ 1948 میں کمیونسٹ
پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے دو سال بعد ہی یعنی 1950 میں ان کے دوست جان تریفلکا
سمیت ’پارٹی مخالف سرگرمیوں‘ کی وجہ سے پارٹی سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ پارٹی سے اس
طرح کی بے دخلی سے اگر چہ وہ بہت حد تک متاثر ہوگئے؛ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ یہی بے دخلی ان کے پہلے سوانحی ناول ’دی جوک‘ 1967 کی تحریک بنی۔ اسی
بے دخلی کو کنڈیرا کے دوست تریفلا نے بھی ناول ’ہپینس رینڈ آن دیم‘ 1962 کا موضوع
بنایا۔ کنڈیرا کا ناول کمیونسٹ پارٹی کی مطلق العنانیت پر ایک طنز ہے۔ اس ضمن میں وہ
اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کسی مخصوص نظریے کی محکومیت اور مطلق العنانیت میں ناول
نہیں لکھا جاسکتا ہے لیکن اْن کے نزدیک دنیا میں ناول ہی کی سب سے زیادہ ضرورت بھی
ہے۔ مذکورہ بالا ناول کے علاوہ ان کے کئی ناول منصہ شہود پر آئے:۔ لائف از ایلس وئیر
1969، دی فئیر ویل والٹز 1972، خندہ اور فراموشی کی کتاب 1979، وجود کی ناقابل برداشت
لطافت 1984، بقائے دوام 1988، سلونیس 1995، پہچان 1998، اگنورلینس 2000، دی فیسٹیویل
آف سگنی فی کینس 2014 وغیرہ جیسے ناول شائع ہوئے۔
1956 میں کنڈیرا نے دوبارہ
پارٹی میں شمولیت اختیار کی؛ لیکن 1970 میں دوسری بار انھیں نکال دیا گیا۔ کنڈیرا اپنی
ہی ذات کے حصار میں بند رہتے تھے۔ یعنی وہ اپنی ذاتی زندگی کو کسی راز سے کم تصور نہیں
کرتے تھے۔ وہ اپنی ذاتی زندگی میں کسی کی دخل اندازی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ یہی رویہ
ان کے یہاں ادب کی تخلیقیت کا بھی تھا کہ وہ خارجی عناصر کی دخل اندازی سے گریز کرتے
تھے۔ اس بنیاد پر انھیں چیک ساختیات کے نظریے کا حامی قرار دیا گیا؛ جن کے نقطہ نظر
سے ہر ادبی متن کی تشکیل انفرادی معیارات پر ہونی چاہیے۔ وہ نہیں چاہیے تھے کہ ان کی
ذاتی زندگی سے ہر کس و ناکس واقف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے تعارف کو دو جملوں پر مشتمل
پسند کرتے تھے کہ ’’میلان کنڈیرا 1929 میں چیکوسلواکیہ میں پیدا ہوئے اور 1975 سے فرانس
میں رہ رہے ہیں۔‘‘ اس تناظر سے فلپ روتھ کو یے گئے ایک انٹرویو میں یوں اظہار خیال
کرتے ہیں:
’’مجھے یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا گیا۔ میں محنت کشوں کے درمیان رہا
ہوں۔ اس وقت میں ایک جاز بینڈ کے ساتھ ٹرمپٹ بجاتا تھا۔ میں اکثر پیانو بجاتا تھا۔
اس کے بعد میں نے شاعری کے ساتھ ساتھ مصوری کی۔ لیکن سب لایعنی تھا۔’’اس طرح انھوں
نے 1950 اور 1960 کے درمیان لکھی گئی ہر تحریر کو ’ناپختہ‘ اور ’ناکامیاب‘ تصور کرتے
ہوئے رد کردیا۔ اس تعلق سے خالد جاوید کا خیال ہے کہ بعد میں اْن میں زیادہ پختگی آئی
اور ان کا ذہن اب اْن تمام بندشوں یا تعصبات سے آزاد ہو چکا تھا؛ جو ان کے ابتدائی
دنوں میں کسی نہ کسی طور پر موجود تھے۔ اس تعصب اور بندش کی ایک وجہ ان کی کمیونسٹ
پارٹی میں شرکت بتائی جاتی ہے۔ اصل میں ہوا یوں کہ وہ 1967 میں جب کمیونسٹ نظام سے
مایوس ہو گئے تو اْنھوں نے ایک کانفرنس میں ادیبوں کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے علاحدہ
چیک شناخت کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا؛ جو صرف اس صورت میں ممکن تھا جب چیک ادب اور
ثقافت کو مکمل آزادی کے ساتھ ترقی کی اجازت دی جا سکتی تھی۔ جب ان کی شاعری کا مطالعہ
کیا جاتا ہے تو خوب اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں ’سماجی حقیقت پسندی‘ کو موضوع
بنایا گیا ہے۔ انھوں نے سیاسی پروپیگنڈے کو ایک تھیم کے طور پر مسترد کرنے کا رجحان
پیدا کیا اور اْس کے برعکس انسانی تجربے اور انسانی قدروں کی اہمیت پر زور دیا۔ ان
کی شاعری میں مارکسی نظریے کا عکس اگر چہ واضح ہے لیکن مارکسی فکر کے کٹرپن سے بہر
صورت آزاد ضرور ہے جوکہ اس وقت کی شاعری کا ایک جزولاینفک تھا۔ لیکن حقیقت یہ بھی
ہے کہ ان کے نزدیک محض پرولتاری طبقہ، طبقاتی جدوجہد اور سماجی حقیقت نگاری ہی سب کچھ
نہیں ہے؛ بلکہ اْنھوں نے اپنی شاعری بالخصوص نظموں میں انسانی قدروں کو بھی موضوع بنایا
ہے۔ ’مین: اے وائڈ گارڈن 1953، دی لاسٹ مئی 1955،
مونولاگ 1957 کے عنوان سے ان کے شعری مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔ بعد میں انھوں
نے اسی نوعیت کے ڈرامے بھی تحریر کرنے شروع کیے۔ یہ ڈرامے اسٹیج بھی کیے گئے اور خاصے
مقبول بھی ہوئے۔ اس ضمن میں ان کے کئی ڈرامے جیسے دی آنرس آف دی کیز 1962، ٹو ائیرس
ٹو ویڈنگس 1968، دی بلنڈر 1969 شائع ہوئے۔ بہر کیف کنڈیرا نے بہ حیثیت ادیب اپنی زندگی
کے 30 سالوں کو رد کر دیا۔ یہ کنڈیرا جیسے ادیب کے لیے کوئی آسان بات نہیں تھی۔ کیوں
کہ اس وقت تک گمنام ہی سہی لیکن ایک چک دانشور کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ اس ضمن
میں وہ کہانیوں کے مجموعے ’مضحکہ خیز محبتیں‘ ہی کو اپنی پہلی تصنیف گردانتے ہیں۔ کہانیوں
کا یہ مجموعہ 1958 سے 1968 کے درمیان لکھی گئی کہانیوں پر مشتمل ہے۔ وہ اس بات کا اعتراف
کرتے تھے کہ بہ حیثیت ایک ادیب اْن کی نئی ادبی زندگی کا آغاز اسی تصنیف سے ہوا ہے۔
اس مجموعے کے علاوہ ’دی اپولوجائزر‘ کے عنوان سے 2015 میں ایک اور افسانوی مجموعہ شائع
ہو چکا ہے۔
کنڈیرا کش مکشِ زندگی
میں عجیب طرح سے اسیر ہوگئے تھے۔ جیسا کہ پہلے ہی اس بات کا ذکر ہوچکا ہے کہ اْنھیں
نہ صرف کمیونسٹ پارٹی سے بلکہ تدریسی عہدے سے بھی برخاست ہونا پڑا۔ درحقیقت وہ پارٹی
میں کچھ تبدیلیوں کے خواہاں تھے؛ جس کے لیے اْنھوں نے اپنے دوست پال کو ہوت کے ساتھ
کوششیں کیں۔ اس طرح کے بدلاو کو انھوں نے ’پراگ اسپرنگ‘ کے تحت انجام دینے کی کوشش
کی۔ واضح رہے کہ ’پراگ اسپرنگ‘ ایک تحریک تھی جس کے سائے میں کمیونسٹ نظریے میں کنڈیرا
جیسے ادیب چند فکری تبدیلیوں کے لیے کوشاں تھے۔ لیکن روس کے حملے کی وجہ سے یہ تحریک
زوال کا شکار ہوگئی۔ تحریک کے زوال کے ساتھ ہی کنڈیرا کے حوصلے نہ صرف پست ہوئے بلکہ
انفرادی سطح پر بھی انھیں تحریک کی زوال پذیری کا خمیازا بھگتنا پڑا جس کا نتیجہ یہ
ہوا کہ انھیں پراگ فلم اکیڈمی سے اس کے تدریسی عہدے سے بھی برخاست کر دیا گیا۔ اتنا
ہی نہیں بلکہ ان کی کتابوں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ کتب فروشوں اور کتب خانوں
سے ان کی کتابوں کی تمام کاپیاں واپس لے لی گئیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد اْنھیں اس
بات کا فائدہ تو ہوا کہ اس کے بعد انھوں نے بہ حیثیت مصنف مکمل آزادی کے ساتھ لکھنا
شروع کیا؛ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب کوئی سنسر اْن کی کتابیں نہیں پڑھے گا۔ اس طرح
1975 میں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ فرانس ہجرت کر گئے جہاں انھوں نے رینس یونیورسٹی میں
پڑھایا۔ ہجرت کے بعد انھوں نے ’خندہ اور فراموشی کی کتاب‘ کے عنوان سے ناول لکھا؛ جس
میں انھوں نے چیکوسلواکیہ میں رہتے ہوئے اپنے تلخ تجربات کو موضوع بنایا۔ لیکن اس ناول
کے پیش نظر کنڈیرا کو چیکوسلواکیہ کی شہریت کو گنوانا پڑا۔ فرانس میں رہ کر ہی انھوں
نے اپنا شاہکار ناول ’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘ شائع کیا۔ اس ناول کو بین الاقوامی
سطح پر کافی سراہا گیا اور اسے کنڈیرا کا شہرہ آفاق ناول تسلیم کیا گیا۔ جملہ معترضہ
کے طور پر یہاں یہ ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ کنڈیرا کی شہرت کا ڈنکا تو ’خندہ
اور فراموشی کی کتاب‘ کے بعد ہی سے بجنے لگا تھا۔ اس کے بعد اْن کا شمار نہ صرف دنیا
کے بڑے ادیبوں میں ہونے لگا بلکہ یورپ کی ہر بڑی زبان میں اْن کی تحریروں کے ترجمے
ہونے لگے تھے۔
انسانی رشتوں پر کنڈیرا
کی تنقید کمیونسٹ نظام پر تنقید کے ساتھ راست طور پرجڑی ہوئی ہے، جس نے انھیں اس وقت
کافی غیر معمولی شہرت دلوادی۔ کنڈیرا کے ناول اس لیے مقبول ہیں کیونکہ وہ مخصوص تناظر
کے ساتھ کرداروں کو ایک طرح کی آفاقیت عطا کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ بہر صورت کنڈیرا
چیک زبان میں لکھتے تھے لیکن جیسے ہی وہ فرانس منتقل ہوئے تو انھوں نے 1993 کے بعد
فرانسیسی زبان میں لکھنا شروع کیا۔ لیکن ا س سے پہلے ان کی کتابوں کے جو ترجمے انگریزی
اور فرانسیسی زبان میں ہوئے؛ کنڈیرا ان سے مطمئن نہیں تھا۔ اس ضمن میں خالد جاوید کا
یہ خیال ہے کہ ’’کنڈیرا کا پریشان ہونا جائز تھا کیونکہ وہ اس قسم کا ناول نگار نہیں
ہے جن کے یہاں کہانی یا واقعے کی ہی اہمیت ہوتی ہے۔ کنڈیرا جس قسم کا بیانیہ لکھتا
ہے یا کہنا چاہیے کہ بیانیے میں توڑ پھوڑ کرتا ہے، لفظ کو جس سیاق و سباق میں استعمال
کرتا ہے، ان سب کا ترجمہ کرنا بے حد عرق ریزی کا کام ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ کنڈیرا نے 1985 اور 1987 کے درمیان اپنی پہلی تحریروں کے فرانسیسی
اور انگریزی تراجم کی نظر ثانی پر کام کیا۔ کیوں کہ اْنھوں نے اپنی کتابوں کے ترجمے
ناقص اور اصل متن سے بھی دور پائے۔ ان کی کئی کتابیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہوئیں؛
جن کی اصل زبان چیک یا فرانسیسی ہے۔ یہاں بھی وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اردو میں جو
کتابیں ترجمہ ہوئیں ان کا بیانیہ کس طرز کا ہے۔؟ خالد جاوید کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے
بہر صورت کنڈیرا کے حق میں ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہی پڑتی ہے کہ کنڈیرا کے یہاں بیانیہ
کا عمل پیچیدہ ہے۔ بیانیہ کا عمل ہی کیوں بلکہ ان کے یہاں تو ناول کا تصور بھی عامیانہ
نہیں ہے۔ کنڈیرا نے اپنی کتاب ’ناول کا فن‘ میں ناول کے فن پر اظہار خیال کیا ہے۔ کنڈیرا
کے تصورِ ناول پر ناصر عباس نیر کا کہنا ہے کہ’’ کنڈیرا جس ناول کی بات کرتا ہے، وہ
کوئی سادہ، دل چسپ کہانی پر مبنی ناول نہیں بلکہ اسے وہ کہیں ’پولی فونی‘ اور کہیں
’پولی ہسٹوریکل‘ کہتا ہے۔ ایسا ناول جس میں کئی متضاد چیزیں یک جا ہوتی ہیں، جس میں
نہ تو انسانی وجود کی کوئی ایک حالت منکشف کی جاتی ہے، نہ زندگی کا محض ایک پہلو۔ نیز
اس میں اصناف کی حدیں پگھلا دی جاتی ہیں: شاعری، تاریخ، آپ بیتی، فلسفہ، مضمون سب
ناول کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس ادیب کے یہاں ناول کا تصور بھی
پیچیدہ ہے؛ اس کے بیانیے میں بہ قول خالد جاوید ’’ توڑ پھوڑ ایک فطری عمل ہے۔ ‘‘کنڈیرا
نے اپنی کتابوں کے ترجمے حیرت انگیز پائے؛ جیسے: مترجم نے اسلوب کی نقل کرتے ہوئے پورا
ناول ہی گویا نئے سرے سے لکھ ڈالا، کئی فکری عبارتیں مترجم نے اپنی تن آسانی کے لیے
حذف کردیں، موسیقی پر مشتمل ابواب بھی نکال باہر کر دیے گئے وغیرہ وغیرہ۔ چلیے ان تراجم
کے حق میں اتنا تو اچھا ہوا کہ کنڈیرا نے ان پر نہ صرف نظر ثانی کی بلکہ نئے تراجم
ان کی نگرانی میں ہونے لگے۔ اب سوال اردو تراجم کا ہے۔ کیا اردو کے تراجم سے کنڈیرا
مطمئن تھے؟ یا ہوسکتے تھے۔؟ بہر کیف کنڈیرا کئی بار ادب کے نوبل انعام کے لیے نامزد
ہو چکے۔ 2019 میں ان کی چیکوسلواکیہ کی شہریت بحال کر دی گئی اور 2020 میں انھیں ان
کے آبائی ملک کے ممتاز فرانز کافکا انعام سے نوازا گیا۔ بھلے ہی کنڈیرا جیسے ادیب
کو نوبل انعام نہیں ملا؛ لیکن یہ بھی ایک آفاقی حقیقت ہے کہ کوئی بھی ادیب محض کسی
بڑے انعام کی بدولت زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ اگر اُسے کوئی چیز زندہ رکھ سکتی ہے تو
وہ اس کی ’داخلی آزادی‘ اور ’سچائی‘ ہے۔ کنڈیرا نے ادبی دنیا کو ایسی بصیرتوں سے روشناس
کرایا جن کی اہمیت عالم گیر ہے اور سچائی سے بڑی کوئی عالم گیر بصیرت نہیں ہوسکتی ہے۔
اگرچہ کنڈیرا کی ابتدائی
شاعری کمیونسٹ نظریے کی حامی نظرآتی ہے۔ لیکن وہ اس بات پر مصر تھے کہ وہ سیاست کا
ڈنڈھورچی نہیں بلکہ محض ایک مصنف ہے۔ فلسفیانہ موضوعات کے علاوہ ’وجود کی ناقابل برداشت
لطافت‘ کی اشاعت کے بعد سیاسی موضوعات ان کے ناولوں سے گویا غائب ہی ہوگئے۔ کنڈیرا
کی افسانہ نگاری کا اسلوب جو فلسفیانہ ارتکاز سے جڑا ہوا تھا؛ رابرٹ موسل کے ناولوں
اور نطشے کے فلسفے سے بہت متاثر تھا۔ مزید اس پر لارنس سٹرن، ہنری فیلڈنگ، ڈینس ڈیڈروٹ،
رابرٹ موسل، ویٹولڈ گومبروِکز، ہرمن بروچ، فرانز کافکا اور مارٹن ہائیڈیگر کے واضح
اثرات ملتے ہیں۔
کنڈیرا کو اس کی مجموعی
علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ 1985 میں
انھیں یروشلم پرائز ملا۔ اسی طرح 1987 میں یورپی ادب کا آسٹرین اسٹیٹ پرائز جیتا۔
2000 میں انھیں بین الاقوامی ہرڈر پرائز سے نوازا گیا۔ 2007 میں انھیں چیک اسٹیٹ لٹریچر
پرائز سے نوازا گیا۔ 2010 میں کنڈیرا کو ان کے آبائی شہر برنو کا اعزازی شہری بنا
دیا گیا۔ 2011 میں انھوں نے Ovid
پرائز حاصل کیا۔ 2020 میں انھیں فرانز کافکا انعام سے نوازا گیا؛
جو کہ ایک چیک ادبی ایوارڈ ہے۔ کنڈیرا فرانز کافکا سے بہت حد تک متاثر تھا۔ شاید اسی
لیے کارلیوس فیونتیس نے انھیں ’کافکا کا اکلوتا وارث‘ کہا تھا۔ اپریل 2023 میں ’اے
کڈنیپڈ ویسٹ‘ کے عنوان سے میلان کنڈیرا کی
آخری کتاب شائع ہوئی؛ جس میں ولادیمیر پوتن
کی طاقت کو بے اثر کرنے میں وسطی یورپ کے کردار کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اپنی حیرت انگیز
تحریروں سے عالمی شہرت حاصل کرنے والے ادیب میلان کنڈیرا 12 جولائی 2023 کو فوت ہوئے۔
Dr. Owais Ahmad Bhat
Asst. Professor, Deptt. of Urdu
Kashmir University
Phone: 9149958892
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں