پروفیسر احمد حسن دانش
کانام ذہن میں آتے ہی ایک طرح کی سادگی، شگفتگی، لطافت، حلاوت اور قربت و اپنائیت
کے احساس سے دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ ان کی یادوں کی خوشبو سے مشامِ جان و دل معطر ہوجاتے
ہیں۔ دانش صاحب کی ذات تواضع، انکساری، خلوص اور درد مندی کا مجسم پیکر تھی۔ انھوں
نے پوری زندگی سماج کے لیے فیض رسانی کا کام کیا۔ان کی شخصیت خوشبو اور روشنی کا استعارہ
تھی۔ ان کے علم و فکر کی روشنی اور ان کے گفتار وکردار کی خوشبو سے قرب و جوار ہی نہیں
پوارسیمانچل گلِ گلزار رہتا۔ پورنیہ اور اس کے قرب و جوار کے اضلاع میںکوئی ادبی جلسہ
ہو، ڈاکٹر احمد حسن دانش کی شرکت کے بغیر وہ ادھورا سمجھا جاتا۔ علالت و نقاہت کے باوجود
وہ اس میں شریک ہوتے۔سیمانچل جیسے دوردراز علاقے میں سکونت کے باوجود دانش صاحب نے
علم وادب کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں،شعروسخن کی دنیا آبادکی۔اردو کا چراغ
جلایا اور تشنگانِ ادب کی ذہنی و فکری آبیا ری کی۔
پروفیسر احمد حسن دانش
نے 10 جولائی 2023 بروز پیر تقریباً 78سال
کی عمرمیں آخری سانس لی۔مرحوم کا اصل نام احمد حسن تھا اور’دانش‘ تخلص کرتے تھے۔
13 ستمبر 1945 کو گاؤں مکھا تکیہ،نوگچھیا،ضلع بھاگلپور (بہار) میں مولوی طیب علی کے
یہاں پیدا ہوئے۔لیکن ملازمت کی وجہ سے پورنیہ کو انھوں نے مستقر بنالیا اور وہ یہیںہو
کے ہوکر رہ گئے۔دانش صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں ہی حاصل کی جب کہ اعلی تعلیم
کے لیے بہار یونیورسٹی مظفر پور کا رخ کیا۔اردو و فارسی میں ایم اے کے علاوہ انھوں
نے بی ایل اور بی ایڈ بھی کیاتھا،ایم اے اردو میں نمایاں پوزیشن کی وجہ سے انھیں گولڈمڈل
سے نوازا گیا۔ان کے اساتذہ میں پروفیسر شمیم احمد، پروفیسراختر قادری اور پروفیسر و ہاب اشرفی کے نام
قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر احمد حسن دانش نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز پورنیہ کالج سے کیا۔وہاں وہ صدرشعبۂ
اردو رہے، بعد ازاں ترقی کرکے پروفیسر اور بی این منڈل یونیورسٹی سے ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ
ہوکر ستمبر 2005 میں سبکدوش ہوئے۔ رٹائرمنٹ کے باوجود ان کے علمی و ادبی معاملات میں
کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان کا تحقیقی اور تخلیقی سفر تیز تر ہوگیا،ان کی نصف درجن
سے زیادہ کتابیں، اسی زمانے کی یادگار ہیں۔
پروفیسراحمد حسن دانش کامطالعہ
وسیع تھا۔ اردو کے علاوہ ہندی،میتھلی اور انگریزی
ادبیات پر بھی ان کی نظر تھی۔ وہ شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے اور تحقیق و تنقید کے
میدان میں بھی اپنی عظمت و انفرادیت کا سکہ جمایا۔اس کے باوجود ادبی دنیا میں انھیں
وہ شہرت و مقبولیت نہیں مل سکی جس کے وہ مستحق تھے۔
دانش صاحب نے ’بہار
میں اردو مثنوی کا ارتقا‘ کے موضوع پر پروفیسر شمیم احمد کی نگرانی میں1978 میں تحقیقی
مقالہ جمع کیا،جو 1989 میں کتابی صورت میں منظر عام پر آیا۔ مرحوم کی یہ کتاب جامعیت اور دستاویزی نوعیت کی
وجہ سے بہار کی جامعات کے نصاب میں شامل ہے۔ دانش صاحب کی یہ کتاب ان کی شہرت و شناخت
کا روشن ترین حوالہ ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے تحقیق کے مقتضیات کو بروئے کار لاتے ہوئے
بہار میں اردو مثنوی کے آغاز و ارتقا پرمدلل اور مفصل بحث کی ہے۔نیز انھوں نے مثنوی
کے اوزان و بحور کے ساتھ اس کی زبان و بیان کے حوالے پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے اور
جا بجا اشعار بھی نقل کیے ہیں تاکہ تعین قدر کی راہ آسان ہوسکے۔ انھوں نے اپنی تحقیق
کی معتبر یت کے لیے ابتدائی ماخذ و مصادر کے ساتھ ساتھ ثانوی مراجع سے بھی رجوع کیا
اور شعرا پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے معاصرین کا بھی تذکرہ کر دیا ہے تاکہ تحقیق کی مبادیات
کی پاسداری ہوسکے۔
شمس العلما مولانا
الطاف حسین حالی نے تمام تر شعری اصناف میں مثنوی کو سب سے زیادہ مفید اور کارآمد
بتایا ہے چونکہ اس میں شاعر کسی بھی خیال کو تسلسل کے ساتھ بیان کرنے میں کلیتاآزاد
ہوتا ہے،یہ ایک جامع اور متنوع صنف ہے،جس میں ہر طرح کے مضامین اور فکرو فلسفے کے ساتھ
ساتھ رزم و بزم اور عشق و محبت کے موضوعات کی بھرپور گنجائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو
شعرا نے مثنوی کی طرف توجہ دی اور زہرِ عشق،گلزار نسیم،قطب مشتری، پھول بن اور ہرمزنامہ
جیسی لازوال مثنویاں رقم کیں۔ ڈاکٹر احمد حسن دانش کا یہ کہنا ہے کہ بہار میں مثنوی
کی روایت کافی قدیم ہے۔ان کی تحقیق کے مطابق قاضی عبدالغفار بہار کے پہلے مثنوی نگار
ہیں جنھوں نے 1116ھ مطابق 05-1704 میں’جواہر الاسرار‘ کے نام سے ایک مثنوی لکھی، جس
میں تصوف کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ صنف مثنوی کی ترقی کے باوجود بہار میں مثنوی نگاری
کی تاریخ میں ’جواہر الاسرار‘کو سنگِ بنیاد کا درجہ حاصل ہے۔ چنانچہ اس کی تاریخی اہمیت
سے انکار نہیںکیا جاسکتا۔ بہار کے ابتدائی دور کے مثنوی نگاروں میں دوسرا نام انھوں
نے اشرف علی کا لکھا ہے جو فغاں تخلص کرتے
تھے۔ ان کے ایک ریختہ دیوان کے علاوہ ان کی دومثنویوں کا ذکر کیا ہے لیکن نام ایک ہی
مثنوی کا لکھا ہے، وہ ہجو یہ مثنوی جس کا عنوان ہے ’ہجو میرمعصوم‘ اس میں کل 1430 اشعار
ہیں۔ انھوں نے یہ ہجو یہ مثنوی کسی ضعیف شخص کی شادی کی خواہش پر لکھی تھی۔تحقیق اور
دریافت کے عمل سے گزرتے ہوئے ڈاکٹر احمد حسن دانش نے اپنی اس تحقیق میں بہار کے تیس مثنوی نگاروں کی مثنویوں کا فکری، فنی
لسانی اور موضوعاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ تذکرے اور تحقیقی کتابوں میں جن شاعروں کی سوانحی
تفصیلات نہ مل سکیں ان کو انھوں نے زیادہ کریدنے کی کوشش نہیںکی،البتہ جن شاعروں کے
سوانحی کوائف اور ان کی ذاتی زندگی کی تفصیلات کتابوں اور تذکروں میں دستیاب ہوئیں ان پر دانش صاحب نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ انھوں
نے اپنی تحقیق میں دو غیر مسلم اور ایک خاتون مثنوی نگاروں کابھی ذکر کیا ہے۔ لالہ
جگر ناتھ،مہاراجہ کلیان سنگھ بہادر عاشق اور راضیہ خاتون۔ لالہ جگر ناتھ کے حالات دستیاب
نہیں، البتہ ان کی ایک قلمی مثنوی کا ذکر ملتا ہے، چارسو اشعار پر مشتمل اس مثنوی میں
قصہ ست کنور بیا ن کیا گیاہے،یہ تقریباً دوسو سال قبل لکھی گئی ہے اس اعتبار سے اس
کی تاریخی اہمیت ہے حالانکہ اس میں زبان وبیا ن کی بہت سی غلطیاں ہیں۔ اس کتاب میں
دوسرے غیر مسلم مثنوی نگار جن کا ذکر دانش صاحب نے کیا ہے وہ ہیں، مہاراجہ کلیان سنگھ
بہادر عاشق۔ بہادر ایک زود گو اور قادرالکلام شاعر تھے۔فارسی زبان میں بہت زیادہ اشعار
کہتے تھے، اس میں کئی دیوان، قصائد اور مثنویاں ہیں لیکن اردو میں چند متفرق اشعار،
ایک سہرا اور مثنوی کے علاوہ ان کا کچھ بھی دستیاب نہیں۔ تذکرے میں اس مثنوی کا نام
’زیبا‘ بتایاگیا ہے۔ ڈاکٹر احمد حسن دانش نے’بہار میں اردو مثنوی کا ارتقا‘ میں جس
خاتون مثنوی نگار کا ذکر تفصیل سے کیا ہے وہ ہیں بی بی راضیہ خاتون جمیلہ۔ وہ ایک ذی
علم خاتون ہیں۔یہ شمس العلما مولوی محمد کبیرالدین کی دختر اور خدابخش اورینٹل لائبریری
پٹنہ کے بانی خان بہادر خدابخش کی اہلیہ ہیں۔ شعروادب کے باب میں ان کی خدمات قابل
قدر ہیں۔آ ٹھ جلدوں میں دیوان کے علاوہ ’احسن المطالب‘ اور’عقدالنرلین فی مناقب غوث
الثقلین‘ کے نام سے ان کی اردو میں دو مثنویاں ملتی ہیں۔ دانش صاحب ان کی مثنویوں پر
گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دونوں مثنویوں کی زبان یکساں ہے،طرز ادا میں بھی یکسانیت ہے۔ یہ مثنویاں دینی اور مذہبی جذبات سے مغلوب ہوکر
لکھی گئی ہیں... دو میں سے کسی میںکہانی پن نہیں ہے،آغازو عروج و انجام کا بھی التزام
نہیں رکھا گیا ہے۔‘‘
دانش صاحب نے گمنا
م شخصیتوں کے ساتھ ان قلم کاروں کی مثنویوں کا بھی اس میں احاطہ کیا ہے جن کے شعری
کارناموں سے دنیانا واقف ہے۔صفیر بلگرامی،شاد عظیم آبادی، شوق نیموی، جمیل مظہری اور
شمس عظیم آبادی وغیرہ ایسے ہی فن کار ہیں جنھوں نے اپنی جودتِ طبع سے اردو مثنوی کو
مالامال کیا۔دانش صاحب کی یہ کتاب بہار میں موضوع کے اعتبار سے نقش اول کی حیثیت رکھتی
ہے۔ چونکہ انھوں نے تحقیق کے لیے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کیا جو انتہائی جاں گسل
اور تھکا دینے والا تھا، لیکن متجسس طبیعت اور علم و تحقیق سے ذہنی ہم آہنگی کی وجہ
سے اس مرحلۂ دشوار کو انھوں نے کامیابی کے ساتھ پار کرلیا۔ اس کتاب کی بدولت بہار
کے علمی اور ادبی حلقے میں انھیں اعتبار حاصل ہوا۔مثنوی کی تحقیق سے دانش صاحب کو خاص
دلچسپی تھی، اس موضوع پر ان کی تین کتابیں ہیں۔ ’بہار میں اردو مثنوی کاارتقا‘ کے علاوہ ’مثنوی کافن اور بہار کی معروف مثنویاں‘
تیسری کتاب ’بہار میں اردو مثنوی کی تاریخ و تنقید‘لیکن تینوں کتابوں کے موضوعات اور
مشتملات کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ بعد کی دونوں کتابیں پہلی کتاب کی توسیع
ہیں۔
احمد حسن دانش کو شعروسخن
سے بھی گہری دلچسپی تھی ’پیکرسخن‘ ان کا شعری مجموعہ ہے۔ شاعری کی ابتدا میں پروفیسر
اختر قادری سے اصلاح لی، پھر انہی کی ایما پر آزادانہ طورپر شعر کہنے اور اسے شائع
کرنے کی طرف راغب ہوئے لیکن چھپنے چھپانے کے معاملے میں زیادہ تندہی نہیں دکھلائی۔
ان کے شعری محاسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معروف نقاد پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں:
’’مجھے احساس ہے کہ احمد حسن
دانش اردو شاعری کے فکری و فنی آفاق سے آگاہ ہیں، پھر ان کے اپنے مشاہدات اور تجربات
ہیں۔ ان کی شاعری ان کے اپنے شعور و وجدان کی مظہر ہوگی،اس کا مجھے یقین ہے۔‘‘
ڈاکٹر احمد حسن دانش
کی شاعری کی زنبیل میں غزلوں کے علاوہ رباعیات و قطعات بھی شامل ہیں،لیکن ان کے تخلیقی وفور کا احساس ان کی نظموں میں زیادہ ہوتا ہے۔ برلن
کی دیوار، انسانیت کی تجربہ گاہ، سوالیہ نشان اور ’اجودھا‘ ان کی ایسی نظمیں ہیں جن
میں فکر ومعانی کا تسلسل بھی ہے اور وحدت تاثر کی فضا بھی،جو قاری کو شروع سے آخر
تک باندھے رکھتی ہے اور فنی سطح پر کسی نظم کی یہ ایک بڑی خوبی تسلیم کی جاتی ہے۔ان
کی نظموں کا اختتام بھی ڈرامائی انداز میں ہوتا ہے،لیکن کمال یہ ہے کہ فن کہیں مجروح
نہیں ہوتا۔ان کی نظموں کا اسلوبیاتی اور استعاراتی نظام بہت زیادہ دقیق اور گنجلک نہیں
ہے کہ جس کی تفہیم کے لیے قاری کو زیادہ محنت کرنی پڑے۔ڈاکٹر احمد حسن دانش کی دو مختصر
نظمیں ملاحظہ کیجیے ؎
برلن کی دیوار
دیوارِ برلن
دودلوں کے درمیان کھڑی
تھی
دو دلوں کی دھڑکنوں
کو بانٹتی تھی
جذبات کو چیرتی ہوئی
انسانیت کو کاٹتی تھی
اب جو دل مل گئے ہیں
دھڑکنوں کے سلسلے ایک ہوکر
جذبات کے طوفاں امڈ پڑے ہیں
اب
وہ دیوار کہاں گئی؟
مسمار ہوگئی ہے!
ایسے ہی جذبات درکار ہیں وطن کو
ایسے ہی طوفان درکار ہیں چمن کو
جو نفرتوں کو مسمار کردے!
وطن کے دشمنوں کو سنگسار کردے!!
اور
پیرہنِ کدورت کو چاک کردے
پاک کو ہند اور ہند کو پاک کردے!!
’پیکر سخن‘ احمد حسن دانش کے داخلی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی
ہیں۔ ان کے یہاں کہیں کہیں اچھوتی تشبیہیں بھی نظر آتی ہیں اور معانی و مفاہیم کی
سطح پر جدت بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ ممکن ہے ناقدین شعرو ادب کو احمد حسن دانش کے یہاں
فنی سطح پر تازگی کی کمی محسوس ہو، لیکن کلاسیکی رنگ و آہنگ اور داخلی جذبات و احساسات
کی ترجمانی انھیں ضرور متاثر کرے گی۔ چونکہ’پیکر، سخن‘ میں معانی و مفاہیم کی وہی دنیا
آباد ہے جو غزل کی روح یا جس میں غزل کی روح ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ کریں ؎
شب غم تیرگی حد سے
گزر جاتی ہے جب ہمدم
تو میں دل میں کسی
کی یاد کی شمعیں جلاتا ہوں
تری نظر کی خلش دل
کے پار اب بھی ہے
وہ سلسلۂ غم روزگار
اب بھی ہے
وہی جو باعث جانِ حزیں
ہے
وہی مر ے رگ جاں کے
قریں ہے
دانش صاحب کے یہاں
غزل زندگی کی کہانی بھی ہے، زندگانی بھی اور واقعہ ناگہانی بھی۔ ان کے نزدیک غزل اردو
شاعری کی شان اور جان ہے۔ ان کے خیال میں آشفتگی بھی ہے اور آشفتہ سری بھی اور زندگی
کا عرفان بھی۔ ’پیکر سخن‘کی تمام غزلوں میں ان کے یہی جذبات و احساسات نظر آتے ہیں۔
ان کی آشفتگی غزل کی شگفتگی سے مل کر غزل کو ایک نئے ذائقے، نئی لہر اور نئی روح سے
آشنا کرتی ہے۔
احمد حسن دانش صاحب
کی تصنیفا ت کی کل تعداد گیا رہ ہے، دس کتابیں منزلِ اشاعت سے ہم کنار ہوچکی ہیں، ان
کی آخری کتاب ’سمانچل میں فارسی شاعری‘ ہے جو اب بھی اشاعت کی منتظر ہے۔
پیکر سخن(شعری مجموعہ
2011)، شمع پگھلتی رہی (افسانوی مجموعہ 2010)، جانچ پرکھ (ادبی مضامین 2015)، بہار میں اردو مثنوی کا ارتقا(1989)
یہ کتاب ان کی پی ایچ
ڈی کا مقالہ ہے جس پر بہار یونیورسٹی، مظفرپور نے انھیں 1978 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض
کی۔
مثنوی کا فن اور بہار
کی مثنویاں (2010) ، سُرسریتا (دیوناگری میں،اردو،ہندی غزلوں کا مجموعہ) ، پورنیہ کاساہتیک
بھوگول(ادبی جغرافیہ،قدیم پورنیہ کی منظوم ادبی تاریخ)،پگ پگ دیپ جلے(غزلوں اور نظموں
کا مجموعہ، دیوناگری رسم الخط -2021) ، سیمانچل میں اردو شاعری (تاریخ و تنقید
-2019) ، علامہ اقبال کے اردو کلام میں قرآن و حدیث کی ترجمانی (2021) ، سیمانچل میں
فارسی شاعری (غیر مطبوعہ)
پروفیسر احمد حسن دانش
کا ارتکازسیما نچل پر تھا۔ انھوں نے وہاں کے گمنام شاعروں ادیبوں کی خدمات سے ادبی
دنیا کو متعارف کروایا۔ ’سیمانچل میں اردو شاعری کی مختصر تاریخ‘ لکھ کر وہاں کے شاعروں
کو ادب کے مین اسٹریم سے جوڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے سیمانچل اور وہاں سے متعلق متعدد
ادبی شخصیتو ں کے علمی اور تخلیقی کارناموں پر اپنی نگرانی میں پی ایچ ڈی کرواکرسیمانچل
کے لوگوں پر احسان کیا ہے۔انھوں نے جن شخصیات پر تحقیق کروائی وہ درج ذیل ہیں:
مولانا عیسی فرتاب:حالات
اور شاعری (ڈاکٹر فرحت آرا) مثنوی ہرمز نامہ:ترتیب و تدوین (ڈاکٹر محمد ہاشم)، حکیم
رکن الدین دانا کی ادبی خدمات (ڈاکٹر غلمان یزدانی)، مولوی سلیمان:حیات و خدمات (ڈاکٹر
کلیم اللہ)، سرسید احمدخان کااردوادب میں مقام (ڈاکٹر ممتاز عالم)، اردوشاعری میں قدیم پورنیہ کی خدمات (ڈاکٹر عنصری
بدر)، ڈاکٹر سلام سندیلوی:حیا ت اورشاعری (ڈاکٹر شاہینہ پروین)، ڈاکٹر سلام سندیلوی
کی نثری خدمات (ڈاکٹر شبانہ پروین)، پروفیسر طارق جمیلی کی ادبی خدمات (ڈاکٹر سجاد
اختر)، پورنیہ کے فارسی شعرا و ادبا (ڈاکٹر نسیم اختر)، اکمل یزدانی کی ادبی خدمات
(ڈاکٹر شہنواز بابل)، سیمانچل میں اردو فکشن (ڈاکٹر شازیہ نسرین)
پروفیسر احمد حسن دانش کی علمی
شخصیت کو تحقیق کا موضوع بنایا گیا۔ان کے علمی کارناموں پر ڈاکٹر محمد فرقان (سہرسہ)
نے بی این منڈل یونیورسٹی مدھیپورہ میں 2021 میں ’احمد حسن دانش:حیات و ادبی خدمات‘کے
عنوان پر اپنا تحقیقی مقالہ جمع کیا جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔ ڈاکٹر
احمد حسن دانش کو ان کی کئی تصنیفات پر بہار اردو اکادمی نے اپنے گراں قدر انعامات
سے بھی نوازا۔
C-66, First Floor, Front Side
Shaheen Bagh, Jamia Nagar, Okhla
New Delhi - 110025
Mob.: 258076199053
Email.: noman.qaisar@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں