13/10/23

اعظم اثر کی غزل گوئی: مقبول احمد مقبول

 


ریاستِ کرناٹک کے شاعروںمیں اعظم اثر کانام ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔وہ چھ دہائیوں سے بھی زائد مدت تک گلستانِ شعرو سخن کی آبیاری کرتے رہے۔اعظم اثر کا اصل نام ابوالمحاسن محمد اعظم ہے۔موصوف شاہ پور، ضلع گلبرگہ ( موجودہ نام کلبرگی)کے متوطن تھے۔16 ؍مارچ 1931  کو موصوف کی ولادت ہوئی۔ اعظم اثر شاہ پور کے ایک علمی اور مذہبی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ان کے دادا محمد قاسم وکیل تھے اور والد محمد اسماعیل ذبیح پیشۂ درس وتدریس سے وابستہ تھے۔  8؍اکتوبر 2020کو اعظم اثر نے اس دارِ فانی سے عالمِ بقا کی طرف کوچ کیا۔

اعظم اثر نے نثر میں کچھ نہیں لکھا۔ موصوف نہ صرف خالص شاعر تھے بلکہ نہایت زود گو شاعر تھے۔ ان کے اب تک سات شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں جن کے نام یہ ہیں: (1)زخمِ آگہی (2) متاعِ آگہی(3) رشتوں کا درد(4) موسموں کی سرحدیں(5) اجالے تبسم کے (6) فیضانِ رسولِ رحمت(7) سوچ کا سایہ۔

اعظم اثر کہنہ مشق شاعر تھے۔جیسا کہ کہاگیاانھوں نے چھ دہائیوں سے بھی زائد مدت تک گلستانِ شعروسخن کی آبیاری کی ہے۔ اعظم اثر کے ذخیرۂ کلام پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے غزل، پابند نظم، آزاد نظم، قطعہ، حمد، نعت اورمنقبت جیسی اصناف میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ان کے پاس چندثلاثیاں، ماہیے اور ہائیکو بھی ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محض تبدیلیِ ذائقہ کی خاطر ان اصناف میںطبع آزمائی کی گئی ہے۔ اعظم اثر کو غزل،نظم اور قطعہ کے ساتھ ساتھ حمد ومناجات اور نعت و منقبت نگاری پر بھی یکساں قدرت حاصل تھی۔ اتناہی نہیں بلکہ انھوں نے طنزیہ ومزاحیہ شاعری میں بھی اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا ہے۔یہاں اعظم اثر کی غزل گوئی پرگفتگو مقصود ہے۔

اعظم اثر کے کلام کا غالب حصہ غزلوں پر مشتمل ہے۔ان کے مطبوعہ مجموعوں میں لگ بھگ پانچ سو غزلیں موجود ہیں۔ اہلِ نظر سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ بظاہر آسان دکھائی دینے والی صنفِ غزل،شاعر سے بڑے ریاض اور محنت کا مطالبہ کرتی ہے۔دو مصرعوں میں ایک مکمل بات،بہترین پیغام اور جذبہ واحساس تمام تر فنی لوازمات اور زبان کے حسن کے ساتھ اس سلیقے سے پیش کرنا کہ وہ قاری اورسامع کے دل میں اتر جائے،ظاہر ہے کہ مشکل ہی نہیں بلکہ مشکل ترین امر ہے۔جب اس حوالے سے اعظم اثر کی غزل کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں مایوسی نہیں ہوتی۔ اعظم اثر کے اسلوب میں کوئی انوکھا پن یاجدت وندرت نہ سہی لیکن انھوں نے اپنے جذبات واحساسات کو فنی رچاؤ کے ساتھ بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے۔اعظم اثر کی ساٹھ سالہ طویل مشق وممارست نے ان کی غزل میں نکھار پیدا کیا ہے۔اعظم اثر کی غزل پیچیدگی اور ژولیدہ بیانی سے پاک ہے۔ان کی غزل کے کئی اشعار زبان زدِ خاص و عام ہونے کی خصوصیت کے حامل ہیں۔ اعظم اثر کو زبان وبیان اور فن پر اچھی دسترس حاصل تھی۔

اعظم اثر کی غزل کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ انھوں نے زندگی اور سماج سے وابستہ تقریبا ًہر موضوع پر شعر کہے ہیں اوراچھے کہے ہیں۔ اعظم اثر نے مثبت انقلاب، تعمیر و ترقی، اعلی اقدار وکردار کی ترویج، محبت والفت کے فروغ، ہمدردی واخلاص کی اشاعت پر زور دیا ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ان کی غزل میں مایوسی ونامرادی اور شکست خوردگی نظر نہیں آتی۔اس کے برخلاف امید،عزم وہمت اورحالات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ نظر آتا ہے۔ان کی غزل کا یہ رجائی پہلو قابلِ تحسین ہے۔ مثلاً پہلے مجموعے ’زخمِ آگہی‘ سے چند شعر ملاحظہ کریں          ؎

جلا دیا مرے تنکوں کا آشیاں تم نے

پر آشیانِ تمنا جلا نہیں سکتے

(ص:23)

اثر حیات کی پر ہول آندھیوں میں بھی

چراغِ ذوقِ عمل ہے کہ جگمگاتا ہے

(ص: 24)

خوشی تو ہے خوشی، غم سے بہلنا جانتے ہیں ہم

غمِ ہستی ترے ہمراہ چلنا جانتے ہیں ہم

(ص:31)

پیمبر ہوں نہ کوئی معجزہ ہوں

محبت کے اجالے بانٹتا ہوں

مرا رہبر مرا عزمِ سفر ہے

میں اپنے آپ ہی اک قافلہ ہوں

(ص:29)

اس طرح کے اشعار ان کے یہاں بہت نظر آئیں گے۔

جیسا کہ سطورِ بالا میں کہا گیا کہ اعظم اثر کی غزل پیچیدگی اور ژولیدہ بیانی سے پاک ہے۔ وہ دور ازکار علامتیں، مبہم استعارات اور مشکل تشبیہات سے دامن بچاتے نظر آتے ہیں۔یہاں تک کہ وہ الفاظ بھی آسان اور سریع الفہم استعمال کرتے ہیں۔اظہار میں بھی کوئی الجھاؤ یا گنجلک انداز نظر نہیں آتا۔یہ تمام باتیں ان کی شاعری کو سہلِ ممتنع کے قریب کردیتی ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کے یہاں سہلِ ممتنع کے حامل کئی اشعار بلکہ غزلیں پائی جاتی ہیں۔مثال کے طور پر ایک غزل کے کچھ شعر ملاحظہ کریں          ؎

جو ضروری ہے کیا کرتے رہو

کام جو بھی ہے بھلا کرتے رہو

وقت ہی کردے نہ کوئی فیصلہ

وقت پر ہرفیصلہ کرتے رہو

جب بھی ہو سنسان راہِ زندگی

ایک ہنگامہ بپا کرتے رہو

(متاعِ آگہی، ص:61)

مندرجہ بالا اشعار میں آسان ترین الفاظ میں اہم اور نہایت مفید باتیں کہی گئی ہیں۔اعظم اثر ہرقسم کے موضوع اور خیال کو شعری جامہ پہنانے کا ہنر جانتے تھے۔ چنانچہ ان کے یہاں رنگِ تغزل کی رعنائیاں بھی نظر آتی ہیں۔ مثلاً       ؎

تیری نگاہِ ناز گلِ تر سے کم نہیں

بن جائے قہر تو کسی خنجر سے کم نہیں

اس پیکرِ جمال کی کیا ہو وضاحتیں

وہ شعلہ تن کسی پری پیکرسے کم نہیں

اس کے خرامِ ناز کے قربان جائیے

انگڑائی اس کی فتنۂ محشر سے کم نہیں

(موسموںکی سرحدیں،ص:74)

اعظم اثر کے اشعار میں تغزل کی چاشنی کے باوصف کہیں کہیں طنز کی کاٹ بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔مثال کے طور پر’ زخمِ آگہی‘   سے یہ دو شعر دیکھیں          ؎

اللہ کے بندوں سے تو کچھ پیار نہیں ہے

اور شیخ بنے بیٹھے ہیں اللہ کے پیارے

(ص:56)

بتا اے شیخ کہاں آدمی کی منزل ہے

تجھے تو عالمِ بالا دکھائی دیتاہے

(ص:54)

اعظم اثر نے جس دور میں شعر گوئی کے میدان میں قدم رکھا وہ دور ترقی پسندی کے زوال اور جدیدیت کے آغاز کا دورتھا۔ اعظم اثر کی غزل میں موجود تعمیری اورسماجی عنصر کو دیکھتے ہوئے ان کی غزل کو ترقی پسندی سے کچھ قریب کہا جا سکتاہے۔بلکہ ان کے ابتدائی دور کے کلام پرترقی پسندی کی چھاپ کچھ حد تک نمایاں بھی ہے۔ اگر چہ اعظم اثر جدید طرزِ اظہار کے شاعر نہیں ہیں تاہم ان کے پاس کچھ جدید اسلوب کے حامل اشعار بھی نظر آتے ہیں۔ جیسے    ؎

سورج کی روشنی بھی گھر میرے کیسے آئے

سورج بہت بڑا ہے دالان مختصر ہے

(متاعِ آگہی، ص:44)

اس کی سر سبزی وشادابی سے حیران ہیں لوگ

زرد موسم میں جواک پیڑ اگا ہے مجھ میں

غیر آباد مرے جسم کی یہ بستی ہے

اک کھنڈر ہے کہ اثر چیخ رہا ہے مجھ میں

(متاعِ آگہی، ص:87)

دل میں یادوں کے کئی چاند اگا کرتے ہیں

اب یہ آسیب زدہ کوئی کھنڈر لگتا ہے

(رشتوں کا درد،ص:76)

اعظم اثر بلا شبہ قادر الکلام شاعر تھے۔انھوں نے نئی نئی اور سنگلاخ زمینوں میں بھی اچھی غزلیں کہی ہیں۔مثلاً         ؎

جب سے ترا خیال مرے دل میں دفن ہے

اک دردِ لا زوال مرے دل میں دفن ہے

(رشتوں کا درد،ص:33)

حسن و عشق کی ساری دلکشی ہے شیشے میں

زندگی ہے شیشے میں بندگی ہے شیشے میں

(زخمِ آگہی، ص:61)

حصارِ ذات میں بھی راستے نکالتا ہوں

پھر اس کے بعد میں دل سے تجھے نکالتا ہوں

مرے کمالِ ہنر پر یقین کون کرے

میں زہر سے بھی کئی ذائقے نکالتا ہوں

(موسموں کی سرحدیں، ص: 50)

پگھل جاتا ہے دل کا برف سارا موسمِ گل میں

سلگتا ہے محبت کا شرارہ موسمِ گل میں

(موسموں کی سرحدیں، ص: 12)

اعظم اثر نے چھوٹی بڑی تمام مروجہ بحور میں غزلیں کہی ہیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے بعض ایسی بحورمیں بھی غزلیں کہی ہیں جو مستعمل نہیں ہیں۔ غیر مستعمل اور نامانوس بحور میں کہنا اور اچھے شعر نکالنا قادر الکلامی کی دلیل ہے۔ مثلا بحر مجتث کا ایک غیر مانوس وزن یہ ہے       ؎

مَفَاعِ لُن  فَعِلاتُن  مَفَاعِ لُن  فَعِلاتُن

یہ وزن اردو میں(اور شاید فارسی میں بھی )بہت کم بلکہ نہ کے برابراستعمال ہوا ہے۔اس وزن میں غالب کے دیوان میں ایک غزل نظر آتی ہے جس کا مطلع ہے        ؎

عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے

کہ اپنے سائے سے سر پاوں سے ہے دو قدم آگے

عروض کی بعض کتابوں میں رند لکھنوی اور آتش کے درج ذیل شعر اس وزن کے تحت نظر آتے ہیں          ؎

موافقت میں عناصر کی گر نفاق نہ ہوتا

فراقِ روح کا قالب سے اتفاق نہ ہوتا

 

جو ساتھ چلنا ہے آتش تو باندھیے کمر اپنی

سفر زیارتِ کعبہ کو ہے ضرور ہمارا

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وزن کا استعمال دو چارشعرا ہی نے کیا ہے۔ اعظم اثر نے اس زیرِ بحث وزن میں اچھی غزل کہی ہے جس کا مطلع پیش ہے        ؎

سنا ہے پہلے سے وہ خوبرو زیادہ ہے اب کے

اسی کا ذکر یہاں کُو بہ کُو زیادہ ہے اب کے

(موسموں کی سرحدیں،ص:36)

عروضیوں کے مطابق بحرِ رمل سالم (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن)عربی اور فارسی میں مستعمل رہی ہے لیکن اردو میں اس کے استعمال کی مثالیں شاذو نادر بلکہ نایاب ہیں۔ اعظم اثر کے ذخیرۂ غزلیات میں راقم الحروف کو اس بحر میں کہی گئی تین غزلیں نظر آئیں۔ ان تینوں غزلوں کے مطلعے پیش ہیں:

ہر حسیں منظر نظر کے زاویے میں روک لینا

کچھ حسیں چہروں کو دل کے آئینے میں روک لینا

(موسموں کی سرحدیں،ص:19)

یہ اندھیرے چاہتے ہیں روشنی کو میں نہ دیکھوں

بے خودی سے مطمئن رہ کر خودی کو میں نہ دیکھوں

(رشتوں کادرد،ص: 68)

کون ہے سچا مرا بھائی برادر ڈھونڈتا ہوں

خون کی سچائیوں کو گھر کے اندر ڈھونڈتا ہوں

(سوچ کا سایہ،ص:43)

ممکن ہے کہ تمام کلام کو توجہ سے دیکھنے کے بعد نامانوس اوزان میں کچھ اور غزلیں بھی مل جائیں۔ وزن بھی نامانوس اور زمین بھی مشکل،اس کے باوجود اس میں غزلیں کہنا اور اچھے شعر نکالنا قادر الکلامی کی دلیل ہی تو ہے۔مختصر یہ کہ اعظم اثر کی غزلیں فکروفن  اورزبان وبیان کے اعتبار سے متاثر کرتی ہیں۔کرناٹک میں اردوغزل کی تاریخ اعظم اثر کے نام کے بغیر نا مکمل سمجھی جائے گی۔

 

Dr. Maqbool Ahmed Maqbool

Profssor, Dept. of Urdu

Maharashtra Udayagiri College

UDGIR-413517, Dist. Latur (M.S)

Mob.: 9028598414

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...