منموہن
تلخ جدید اردو غزل کے ایک اہم شاعر ہیں۔ ان کا شمار دہلی کے نمائمدہ شاعروں میں ہوتا
ہے۔ کمارپاشی،اور منچندہ بانی جیسے متعدد شعرا
نے ان سے مشورۂ سخن لیا ہے۔ ان کی غزلوں کا رنگ میر تقی میر اور یاس یگانہ چنگیزی
کے خاص اسلوب کو آگے بڑھاتا ہے۔
منموہن
تلخ،یاس یگانہ چنگیزی کے باضابطہ شاگرد تھے۔ ان دونوں کا رشتہ کافی گہرا ہے۔ یگانہ
نے منموہن تلخ کو ہمیشہ عزیز رکھا اور ذاتی زندگی سے لے کر ادبی معاملات و مسائل کا
بھی ان سے بلا تکلف اظہار کیا۔ تلخ کے نام لکھے گئے یگانہ کے خطوط، منموہن تلخ کے کالم
اور یگانہ کے سلسلے میں کہی گئی تلخ کی نظم اور رباعی کا مطالعہ کرنے سے ان دونوں کے
گہرے تعلقات کا علم ہوتاہے۔تلخ پر تبصرہ و تنقید کرنے والے کچھ بزرگ ناقدین نے اس بات
کا ضرور ذکر کیا ہے کہ تلخ یگانہ کے شاگرد تھے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یگانہ پر
کام کرنے والے بیشتر مولفین و مصنّفین کو یہ خیال ہی نہیں آیاکہ یگانہ کے شاگردوںمیں
’منموہن تلخ ‘نام کا بھی کوئی شاعر ہے، شاگرد ہونے کی بات دور کی ہے۔ اگر کسی نے یگانہ
کے خطوط کا بغور مطالعہ کیا ہوتا تو شاید اتنی بڑی بھول نہ ہوتی۔ اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ یگانہ کے سوانحی کوائف اور ادبی رشتوں پر ابھی بہت کام کیا جانا باقی ہے۔ یگانہ
کے شاگرد ہونے اور منفرد شعری رویے کے حامل ہونے کے سبب منموہن تلخ کی شخصیت غیر معمولی
ہے۔ تلخ کو فراموش کرکے ہم یگانہ کے سوانحی کوائف اور ادبی معاملات کو بھی اچھی طرح
نہیں سمجھ سکتے۔ کیونکہ تلخ یگانہ کے ایسے شاگرد ہیں جنھوں نے ان کی ذاتی زندگی کا
ایک بڑا مسئلہ حل کیا۔تمام عمر ان سے استفادہ کیا اور اپنی صلاحیتوں پر استاد سے سند
حاصل کی۔ اس کے علاوہ جب یگانہ اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے تو بہت سی امانتوں
کے وہ تنہا وارث بھی رہے۔ لوگوں نے یگانہ کے نام پر بہت کچھ کیا،مگر تلخ نے کبھی بھی
اپنی قربت اور تعلق کو کیش کرانے کی کوشش نہیں کی۔ اسی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے ایک
مقام پر وہ لکھتے ہیں:
’’ادھر پچھلے
پانچ دس برسوں میں مرزا یگانہ پر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اس میں راقم الحروف کا کہیں
ذکر تک نہیں ہے، نہ پاکستان کی تحریروں میں نہ ہندوستان میں شائع ہونے والے مضامین
میں، اور اب تو جیسا کہ مجھے شاید کمال احمد صدیقی نے بتایاکہ ہندوستان میں بھی مرزا
یگانہ کے نام پر کوئی سوسائٹی بھی بن چکی ہے جسے سرکار کی طرف سے مالی امداد بھی دی
جا رہی ہے۔ اگر مرزا کے بارے میں مجھ سے کوئی رابطہ قائم کر لیتا تو مجھے سونے کا کوئی
سنگھاسن نہ دے دیتا۔ یہ ذہنیت اردو ادب ہی کو نقصان پہنچائے گی، مجھے نہیں۔ میں نے
تو اپنے اور مرزا کے تعلق کو کیش کرانے کی کبھی سوچی ہی نہیں۔ کس مسخرے نے مرزا یگانہ
کے نام پر کوئی سوسائٹی بنا لی ہے اور کون سی عقل کی اندھی حکومت اسے گرانٹ دے رہی
ہے۔ اردو والوں کی باتیں اردو والے ہی جانیں۔ مجھ سے زیادہ مرزا کے بارے میں کوئی کچھ
نہیں جانتا۔‘‘ 1
’
مجھ
سے زیادہ مرزا کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔‘یہ معمولی بیان نہیں۔ اس سے تلخ کے
جذباتی رشتے اور یقین کا بھی سراغ ملتا ہے۔ مگر مرزا کے احوال سے واقف یہ شخص یگانہ
تحقیق کے سلسلے میںکسی بھی تحریر یا تقریر کا حوالہ نہیں بن سکا۔سب سے پہلے یگانہ کے
متعلق تلخ کی یہ رائے ملاحظہ کیجیے،جو انھوں نے یگانہ کی وفات کے قریب چالیس سال بعد
لکھی ہے:
’’میرزا یاس
یگانہ چنگیزی۔ ایک یگانۂ روزگار شخصیت، ایک عہد ساز شاعر، ایک ایسی شخصیت جسے ان کے
جیتے جی عام طور پر غلط سمجھا گیا اور آج بھی جب کہ انھیں اس جہان فانی کو الوداع
کہے ہوئے قریب قریب نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لوگ ان کے بارے میں طرح طرح کی بے
پر کی ہانک رہے ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہر شخص اپنے آپ کو مستند کہہ رہا ہے۔
ایک ایسا بے مثال شاعر جس کے ادبی مقام و مرتبے کا ٹھیک ٹھیک تعین آج تک نہیں کیا
جا سکا اور غضب یہ ہے کہ ہر شخص یہ مان رہا ہے اردو ادب کو جتنی ضرورت ان کے لہجے کی
آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔‘‘2
اس
سے اندازہ ہوتا ہے کہ یگانہ کو کس طرح نظر انداز کیا گیا اور ان کے اسلوب کی موجودہ
زمانے میں کتنی ضرورت ہے۔ شاید اسلوب کی یہی وہ خوبی ہے جو تلخ کے یہاں نمودار ہو کر
اپنی تلخی کے باوجود نئی حسیت کا احساس دلاتی ہے۔ تلخ کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ
یگانہ اپنی خودسری کے باوجود جھگڑالو قسم کے انسان نہیں تھے۔ جیسا کہ ان پر طرح طرح
کے الزامات عاید کرکے انھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میر کی
کج ادائی یا دہلی والوں کی زبان میں میر کی کجی اردو ادب میں محاورہ بن چکی ہے۔ تنک
مزاج مرزا یگانہ بھی کم نہ تھے لیکن راہ چلتے لڑائی مول نہ لیتے تھے۔‘‘ 3
راہ
چلتے لڑائی مول نہ لینے کا مطلب واضح ہے۔ یگانہ کی شخصیت میں کوئی ایسا ٹیڑھ نہیں تھا
جس کے سبب انھیں لعن طعن کیا جائے۔ ان کی ساری کجی علمی بنیادوں پر تھی۔ یہی وجہ ہے
کہ تلخ جیسا خود سر شخص یگانہ کی سرپرستی قبول کر سکا۔ تلخ کے مربی اور اہم عروض داں’فلک
صاحب‘ تلخ کے مزاج اور یگانہ کے فکر و کلام سے واقف تھے۔ انھیں اندازہ تھا کہ یگانہ
کی سرپرستی میں تلخ کی آواز کو انفرادیت مل جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تلخ کے ذہن میں
یگانہ کو استاد بنانے کا خیال فلک صاحب کے مشورے سے آیا اور وہ اس بات سے بہت خوش
تھے۔ ایک بار انھوں نے تلخ سے کہا:
’’تلخ! اگر
مرزا یگانہ تمھیں شاگرد بنانا منظور کر لیں تو کیا بات ہے۔میں نے کہا تھا: ان کے لائق
کوئی غزل کہہ لوں پھر ایک اور خط لکھ دوں گا۔‘‘ 4
تلخ ایک مدت سے یگانہ کو استاد بنانے کا خواب
دیکھ رہے تھے، لیکن اس کے لیے کوئی مناسب وقت درکار تھا۔ یگانہ کے نام انھوں نے پہلا
خط ہفتہ وار ’اپنا دیش‘ میں مضمون لکھنے کی درخواست کے طور پر لکھا تھا، لیکن اس سے
استاد اور شاگرد کا تعلق قائم نہیں ہوا تھا۔ اسی سلسلے میں ایک مرتبہ جوش ملیح آبادی
سے ملنے کے لیے دہلی آنا ہوا۔ اتفاق سے تلخ بھی وہاں پہنچ گئے اور تلخ کو یگانہ کی شاگردی اختیار کرنے کا سنہری موقع ہاتھ لگ گیا۔
اس واقعے کو تلخ نے بہت ہی دلچسپ انداز میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انھیں اپنے واقعۂ
شاگردی کے تعلق سے سنت کبیر کا خیال آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میرزا جب
1952میںواپس ہندوستان آئے تو ان کی بیگم کو ہندوستان آنے اور یہاں آزاد شہری کی
حیثیت سے رہنے کی اجازت نہ ملی تھی۔ میرزا دہلی اسی سلسلے میں آئے تھے کہ جوش ملیح
آبادی سے کہیں کہ جواہر لال نہرو سے کہہ کر ان کی بیگم کو یہاں رہنے کی اجازت دلا
دیں۔ میرزا سے میری ملاقات جوش ملیح آبادی ہی کے دفتر میں ہوئی تھی۔بالکل اچانک اور
غیر متوقع۔میں جیسے ہی جوش صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو میرزا کو ان کے سامنے بیٹھے
ہوئے دیکھا۔ میرزا کو پہچاننے میں مجھے ذرا بھی دیر نہ لگی کیونکہ میں گنجینہ میں ان
کی چھپی ہوئی تصویر دیکھ چکا تھا۔ کوئی اور شاعر ہوتا تو میں جھک کر آداب کرکے ایک
طرف کرسی پر بیٹھ جاتا۔ لیکن میرزا کے لیے میرے دل میں اتنی عقیدت تھی کہ میں آگے
بڑھا اور جھک کر ان کے پائوں چھوئے۔ میرزا نے میری پیٹھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جوش صاحب
کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ’’منموہن تلخ صاحب ہیں۔ آپ سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ ‘‘جوش
صاحب نے کہا۔‘‘ 5
پہلی
ملاقات کے ساتھ ہی کسی کا شاگرد بن جانا بھی آسان کام نہیں، لیکن تلخ کے لیے یہ ساری
منزلیں آسان ہوتی گئیں۔ ایسامعلوم ہوتا ہے قدرت بھی اس تعلق کے لیے راستے ہموار کر
رہی تھی۔ تلخ لکھتے ہیں:
’’میں ہمت
کی کمی کا کبھی شکار رہا ہی نہیں۔ سو میں نے قدرے جھک کر کہا۔ وزارت خارجہ کے کچھ اعلیٰ
افسران کو میں بھی جانتا ہوں میں کل ہی ان سے ملنے جائوں گا۔ نیچے سے رپورٹ ٹھیک اوپر
چلی جائے تو...
’’ہاں نہرو
کے لیے بھی آسانی رہے گی‘‘ جوش صاحب نے کلے میں ایک اور پان ٹھونستے ہوئے کہا۔
’’بیٹے تم
میرا یہ کام کرا دو تو...‘‘ ’’میرے من کی مراد پوری ہو جائے گی؟‘‘ میں نے ان کی بات
کاٹتے ہوئے کہا۔
’’کیا چاہتے
ہو؟‘‘
’’شرف تلمذ!‘‘
میرا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔ میرزا نے لمحے بھر کے لیے مجھے گہری نظروں سے دیکھا۔
جوش صاحب، عرش صاحب جیسے ہمہ تن گوش بن گئے تھے... اچانک میرزا کے چہرے پر مسکراہٹ
ابھری اور بولے۔ پائوں تم میرا چھو ہی چکے ہو۔بیٹا میں تمھیں کہہ ہی چکا ہوں۔ بھیج
دیا کرو اپنی غزل لکھنؤ۔ لیکن غزل وہی بھیجنا جس کے بارے میں تمھیں بھروسہ ہو کہ میرے
لائق ہے۔ ایسے ہی ہر غزل نہیں بھیجنا۔
’’میں علم
عروض بھی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’چراغ سخن
پڑھو اور جہاں مشکل پیش آئے خط لکھ دیا کرو۔‘‘6
اسی
بزم میں فراق گورکھپوری بھی آ گئے اور تلخ کو دیکھ کرحیرت سے کہا: آپ؟ جس کا جواب
یگانہ نے یہ کہتے ہوئے دیا۔’’میرے شاگرد منموہن تلخ۔‘‘ فراق نے کہا تبھی تو عروض میں
سب کے کان کترتے ہیں۔ اسی طرح جب شام میں دلی کالج کے مشاعرے میں جانے کی بات آئی
تو تلخ نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ ’میں مدعو نہیں ہوں اور بن بلائے تو میں اوپر
نہیں جا رہا۔‘‘ فراق صاحب نے یگانہ سے کہا۔’اب یقین آ گیا کہ واقعی تمہارے شاگرد ہیں۔‘‘
یگانہ
کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد تلخ کبھی براہ راست لکھنؤ جا کر اور کبھی خط و کتابت
کے ذریعے مشورۂ سخن کرتے رہے۔ یگانہ سے ملنے کے لیے وہ لکھنؤ جانے کے بہانے تلاش
کیا کرتے تھے۔ اپنے کالم میں انھوں نے ایک دوست کی بارات کا ذکر کیا ہے، جسے لکھنؤ
ہو کر گزرنا تھا۔ تلخ محض یگانہ سے ملنے کے شوق میں اس بارات میں شامل ہو گئے۔ اس سفر
میں قریب نو دنوں تک ان کا لکھنؤ میں قیام رہا اور وہ اپنے استاد و دیگر ادبی شخصیات
سے استفادہ کرتے رہے۔
تلخ
کے کلام میں جو انفرادیت نظر آتی ہے اسے قائم کرنے میں یگانہ کا بہت اہم کردار ہے۔
یگانہ باکمال شاعر تو تھے ہی،ساتھ ہی ماہر استاد بھی تھے۔ انھوں نے شعر و سخن کے سلسلے
میں تلخ کو کئی اہم مشورے دیے۔ جن سے یگانہ کی فہم،لیاقت اور علمیت کا اندازہ ہوتا
ہے۔ ایک مشورہ نقل کرتے ہوئے تلخ لکھتے ہیں:
’’انھوںنے
مجھے خیال اور شعر کے آپسی رشتے کے بارے میں کئی اہم نکات بتائے۔ آخر میں بولے
’’تم پر میر کا اثر کافی نمایاں نظر آتا ہے۔ اگر تمھاری آواز میں میر اور یگانہ کے
رنگ کا سنگم نظر آنے لگے تو تمھاری ٹکر کی غزل کہنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ میرزا نے
میر انیس کے مرثیوں کے ان گنت اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے مجھے اسلوب اور زور بیان کے
بارے میں بہت کچھ بتایا۔ اردو زبان کے سہل ممتنع لب و لہجے کی مثال دیتے ہوئے میرزا
نے پھر انیس کا یہ شعر پڑھا تھا ؎
بد
ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
وہ
ہاتھ جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
میرزا
کے یہ الفاظ مجھے آج تک یاد ہیں۔ ’’دیکھو بیٹے، یہ آمد کا شعر ہے جس میں نیک اور
ایک کا قافیہ،قافیہ بیانی کے لیے نہیں بلکہ عام بات چیت کے اس انتہائی قدرتی انداز
میں استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اردو شاعری آج تک زندہ ہے اور رہے گی۔ مصرعۂ
ثانی سے لگتا ہے یا نہیں کہ وہ تلوار چلی اور یہ ہاتھ کٹ کے دور جا پڑا۔‘‘7
اس
مشورے میں یگانہ نے واضح طور پر تلخ کی طبیعت پر میرکا اثر محسوس کیا ہے۔ اس کے علاوہ
وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر تلخ یگانہ کے مشورے پر عمل پیرا رہے تو بہت مختلف غزل گو
ثابت ہوں گے۔ تلخ کی غزلوںمیں جس قسم کی سادگی نظر آتی ہے وہ بھی ایک شعوری عمل ہے۔
استاد یگانہ نے ہی انھیں سہل گوئی کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اس مشورے میں بھی انھوں نے
میرانیس کا ایک بند بطور مثال پیش کیاہے۔ شعر کی توضیح جس انداز میں پیش کی گئی ہے
وہ یگانہ کی استادی کا ثبوت ہے۔
تلخ
نے لکھنؤ میں یگانہ سے ملاقات کے دوران ایک غیر معمولی واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اس واقعے
کے بعد یگانہ نے تلخ کی عروض دانی کا امتحان لیا اور تلخ نے اپنی عروض دانی پر استاد
سے سند حاصل کی۔ واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تلخ اپنی دھن کے پکے، جرأت مند، اور نہایت
بے باک انسان تھے۔ یگانہ کے مشوروں کی ان کی نظر میں خاص اہمیت تھی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جب میں
1954میں لکھنؤ گیا تھا تو ایک دن میرزا کے ساتھ (تب وہ شاہ گنج والے مکان میں قیام
فرما تھے)گومتی کے کنارے بیٹھے بیٹھے جب میرزا مجھے غزل، لہجے، فکر اور شعری محاسن
کے بارے میں کافی کچھ بتا چکے تو میں نے کہا ’’ میرزا میں اپنا پہلا مجموعۂ کلام...‘‘
’’ابھی نہیں۔
اپنی آواز پہچانو۔ آواز پہچانے بغیر شعر کہا تو کیا کہا۔ابھی آواز میں وہ بات آ
لینے دو کہ میں تمہارا مجموعہ سامنے لاتے وقت فخر محسوس کروں۔‘‘
میں
میرزا کی بات سن کر کچھ دیر تک زمین پر پڑی اپنی بیاض کو دیکھتا رہا۔ پھر میں نے بیاض
اٹھائی اور گھما کر گومتی میں پھینک دی۔
’’یہ کیا؟‘‘
میرزا نے کہا۔
’’آج سے
سب کچھ بالکل نئے سرے سے کہوں گا۔‘‘
میرزا
مجھے کافی دیر تک دیکھتے رہے۔ پھر اٹھتے اٹھتے بولے۔ غالب کی وہ غزل ہے نا ! آ کہ میری جان کو قرار نہیں ہے۔ ذرا اس کی تقطیع
تو کرنا۔ میں نے تقطیع کر دی تو میرزا نے میری پیٹھ پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔’’ویسے
اب تمہیں میری ضرورت رہی بھی نہیں۔‘‘8
تلخ
کواپنی لیاقت اور فہم پر مکمل اعتماد تھا۔ وہ اپنے استاد کی تمام آرا سے اتفاق کرنے
کے قائل نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزار عزت و احترام کے باوجود تلخ نے یگانہ کی متعدد
اصلاحات اور خیالات سے عدم اتفاق ظاہر کیا ہے۔اس کی ایک مثال علامہ اقبال کے متعلق
واقعہ ہے۔ اقبال تلخ کے پسندیدہ شاعروں میں
سے ایک تھے۔ انھوں نے گہرائی سے کلام اقبال کا مطالعہ کیا تھا اور ان کے فکر و فن کو
سمجھا تھا، اقبال پر ان کی نظم بھی اس کی گواہ ہے۔ لہٰذا اقبال کی تعریف کرنے پر اپنے استاد کے غیر
معقول رویے کو وہ برداشت نہ کر سکے تھے اور ناراض ہو کر باہر نکل گئے تھے۔ واقعے کا
ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میں دہلی
واپس آنے سے پہلے اگلے دن پھر میرزا سے ملنے گیا۔ جہاں ان کے ساتھ تلخی پیدا ہو گئی۔
میری زبان سے ڈاکٹر اقبال کے لیے کچھ تعریفی جملے سن کر میرزا نے مجھے جس طرح پھٹکارا،
میں وہ برداشت نہ کر سکااور میری زبان سے نکل گیا۔ میں آپ کی پوجا کرتا ہوں۔ لیکن
میں نے اپنا ذہن کہیں گروی نہیں رکھا۔ بھاگوت گیتا کے سامنے بھی نہیں۔ اور میں اٹھ
کر چلا آیا تھا۔‘‘9
اس
تلخی کے بعد فلک صاحب کا خیال تھا کہ اب تعلق ختم سمجھو، لیکن اس کے باوجود دونوں کے
رشتے میں درار نہیں پیدا ہوئی۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ تلخ نے یگانہ کی بیوی کے ہندوستان
آنے اور یہاں کے شہری بن کر رہنے کا انتظام کر دیا تھا، جس سے یگانہ بہت خوش اور ممنون
تھے۔ تلخ نے یگانہ کی اس کوشش سے ایک دوسرا نتیجہ بھی اخذ کیا ہے۔ انھوں نے بیوی کے
سلسلے میں یگانہ پر لگائے جا رہے بیجا الزامات کی تردید کی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’اسی لیے
اب میںپاکستان کے کچھ بڑے ادبی جریدوں (خاص طور پر ’ارتقا‘،کراچی) میں میرزا کے بارے
میں یہ پڑھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ بیگم کے ساتھ میرزا کے تعلقات میں اس قدر تلخی
آ چکی تھی جو بیان سے باہر ہے۔ جوانی یا بڑھاپے میں کس میاں بیوی میں چخ چخ نہیں چلتی۔
لیکن جس بیگم کو ہندوستان میں رہنے کی اجازت دلانے کے لیے میرزا اس قدر پریشان تھے
اس کے ساتھ ایسی ناچاقی...کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘10
تلخ کے یہاں استاد کی پیروی اور مطابقت کی شعوری کوشش
بھی نظر آتی ہے۔ یہ استاد سے گہری عقیدت کا بھی ثبوت ہے۔ اس کی ایک مثال ان کے پہلے
شعری مجموعہ’چراغ فکر‘ کا عنوان ہے۔بیاض دریا برد کرنے کے باوجود یگا نہ کی وفات سے
کچھ پہلے ہی تلخ نے اپنا پہلا شعری مجموعہ تیار کر لیا تھا۔کتاب کا عنوان بھی انھیں
بتا دیا تھا اور داد حاصل کی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میں جب
لکھنؤ سے دہلی کے لیے چلنے لگا تو میں نے انھیں ایک غزل سنائی تھی اور کہا تھا۔ یہ
شعر آپ کی نذر ہے ؎
ہم
نے چراغ فکر لہو سے جلا دیا
لیکن
ملا نہیں ترا نقش قدم ابھی
میرزا
نے بہت خوش ہو کر میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور بولے۔’’لمبی عمر پائو، بہت نام پائوگے۔‘‘
میں نے کہا تھا۔ ’’میں نے اپنے پہلے مجموعے کا نام ’چراغ فکر‘ سوچا ہے۔آپ کے۔‘‘
’’چراغ سخن‘
پر رکھا ہے۔ جیتے رہو۔‘‘11
یگانہ اس فخریہ لمحے کو اپنے جیتے جی نہ دیکھ
سکے۔ یگانہ 1956میں انتقال کر گئے جب کہ یہ مجموعہ 1958میں منظر عام پر آیا۔
یگانہ
اور تلخ کے درمیان خط و کتابت کا طویل سلسلہ رہا۔یگانہ نے تلخ کو نہ صرف خطوط لکھے
بلکہ اپنے کئی مضامین بھی ارسال کیے۔ اس تعلق سے منموہن تلخ نے کئی اہم معلومات فراہم
کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس طرح
میرزا کے ساتھ میری خط و کتابت شروع ہوئی۔ یہ تمام خطوط میرزا کی وفات کے بعد ماہنامہ
’ساقی‘ کراچی میں قسط وار شائع ہوئے تھے۔ عنوان تھا ’’یگانہ کے خطوط‘‘ میرزا نے مجھے لکھنؤ سے دو ایک مضامین بھی بھیجے
تھے اس خاص ہدایت کے ساتھ کہ انھیں بہ حفاظت تمام اپنے پاس سنبھال کر رکھنا۔ ایک مضمون
کا عنوان تھا ’’قبلہ تیرا ڈانواڈول‘‘ لیکن میرا گھر تو ایک عرصہ سے سرائے تھا۔ وہاں
کوئی چیز محفوظ نہ رہ سکتی تھی۔ میری کتابیں محفوظ نہ رہیں تو اور کیا رہتا۔ میں نے
وہ مضامین اور میرزا کے کچھ اہم مضامین عرش صاحب کو دے دیے کہ وہ اپنے پاس ادبی امانت
سمجھ کر رکھ لیں۔کیا خبر تھی کہ عرش صاحب مجھ سے بھی پہلے داغ مفارقت دے جائیں گے۔
میرزا کے وہ مضامین اور خطوط کیا ہوئے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ میرزا کے کچھ دیگر اہم
خط میں نے مشفق خواجہ کے کہنے پر کراچی بھیج دیے تھے۔ پتہ نہیں انھیں ملے بھی یا نہیں۔ 12
یگانہ
کی وفات کے بعد جب شاہد احمد دہلوی کو اس بات کا علم ہوا کہ یگانہ اور تلخ کے درمیان
آخری وقت تک خط و کتابت کاسلسلہ رہا ہے تو انھوں نے تلخ سے ان خطوط کے بابت دریافت
کیا۔ تلخ نے کئی اہم خطوط کے موجود ہونے کا ذکر کیا۔ شاہد دہلوی نے انھیں شائع کرنے
کی خواہش ظاہر کی۔ تلخ نے خطوط بھیج دیے۔ اس طرح تلخ کے نام یگانہ کے یہ خطوط 1957
میں ماہنامہ ’ساقی‘ میں ’یگانہ کے خطوط‘ کے عنوان سے قسط وار شائع ہوئے۔ کچھ اور خطوط
مشفق خواجہ نے ’تخلیقی ادب‘ میںشائع کیے۔ ماہنامہ ’ساقی‘میں ’’میرزا یگانہ کے خطوط‘‘
کی تیسری قسط کے ساتھ منموہن تلخ کا ایک نوٹ بھی درج ہے۔ اس نوٹ سے یگانہ اور تلخ کے
درمیان گہرے تعلقات اور کئی اہم باتوں کا علم ہوتا ہے۔ تلخ لکھتے ہیں:
’’میرزا کے
خطوط کی تیسری قسط روانہ کر رہا ہوں۔ بیگم کے پاسپورٹ کی منظوری کے بعد میں نے بارہا
میرزا کو اکسایا کہ وہ کوئی مضمون لکھ دیں۔ کسی ادبی بحث میں الجھیں۔ یہاں کی مقامی
ادبی بحثوں اور ملاقاتوں کا حوالہ دیا۔ لیکن سب بے سود۔ میں میرزا کے مزاج سے آشنا
ہوں۔اور اپنی حدود میں رہ کر انھیں کچھ نہ کچھ کہنے پر مجبور کرتا رہا۔ کبھی رباعیات،
کبھی کوئی غزل۔ اور ان خطوط میں میری رائگاں کوشش بڑی واضح طور پر جھلکتی ہے۔ (اسی
دوران میں میرزا کے الائونس کی توسیع کا بھی جھگڑا شروع ہو گیا تھا) حیرت ہے کہ اس
قسط کے آخری خط میں سے میرزا کا عجیب احساس کمتری جھلکتا ہے۔ وہ میرزا یگانہ جس نے
یہ شعر کہا ہے ؎
میں
اپنے زعم بلندی میں مٹ گیا لیکن
کبھی
نشانۂ احساس کمتری نہ ہوا13
یہاں
تلخ نے جس آخری خط کے متعلق احساس کمتری کی بات کہی ہے،اس میں یگانہ نے اپنے چل چلائو
کا وقت ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ادبی معاشرے کے رویوںکا بھی اشارۃً ذکر ہے۔
یہی باتیں تلخ کو حیرت میں ڈال رہی ہیں۔
یگانہ نے خطوط میں تلخ کو بہت ہی پیار اور شفقت
سے مخاطب کیا ہے۔ عام طور پر وہ’ عزیزی ‘یا ’پیارے عزیز‘ کہہ کر خطاب کرتے ہیںاور سلامتی
کی دعاؤں کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔ یگانہ نے تلخ سے اپنی بہت سی پریشانیوں
اور مسائل کا ذکر کیا ہے۔ اور مسئلہ حل ہونے پر شکریہ نامہ بھی لکھا ہے۔ مثلاًان کی
اہلیہ کے ہندوستان کا شہری بننے کا قضیہ جب حل ہوا تو انھوں نے تلخ کو لکھا:
’’تم نے میرے
معاملے میں جو سعی و کوشش،دوڑ دھوپ کی وہ مسلم ہے۔ کیوںکہ تمہارے دل کو لگی تھی۔ میری
مصیبتوں سے تم واقف ہو۔ میں فقط یہ جاننا چاہتا تھا کہ اور کن بھلے آدمیوں نے تمھارا
ہاتھ بٹایاسو وہ بھی معلوم ہو گیا۔ مسٹر کرشن موہن کو خدا خوش رکھے اور مسٹر ستیندر
سنگھ کا بھی ممنون ہوں۔ میں نے اس فقرے کا لطف اٹھایا: ’’ورنہ میرا ہاتھ اس کے منھ
پر جا پڑتا۔ یہ میری زندگی کا پہلا اور آخری موقع تھا کہ میں مصلحت اندیش نکلا۔‘‘
شاباش یہی چاہیے تھا۔ Prudence is better part of valour، ہاں ہاں جن اصحاب نے تمہاری
جد و جہد کا مضحکہ اڑایاوہ زیادہ تر قابل توجہ نہیں ہیں۔ آخر انھیں معلوم ہی ہو گیا
ہوگا کہ یہ کام انجام پا گیا۔خدا کا شکر ہے۔ میرزا یگانہ۔14
یگانہ
نے تلخ کے نام ایک خط میں صنف غزل کی اہمیت اور اس پر کیے جا رہے بے جا اعتراضات کے
سلسلے میں اظہار خیال کیا ہے۔خط پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید تلخ نے غزل کے متعلق
یگانہ کی رائے جاننی چاہی تھی۔ اس خط میں یگانہ نے جوش ملیح آبادی کی غزل دشمنی پر
بھی کڑی تنقید کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اب تک تمھیں
غزل کے متعلق میری رائے معلوم نہ ہو سکی۔ بڑے تعجب کی بات ہے۔ عملی طور پر برت کر دکھایا۔
چالیس برس تک مضامین لکھتا رہا۔ اب کیا کر سکتا ہوں۔ غزل کے خلاف جوش جو کچھ کہا کرتے
ہیںکیا فی الحقیقت وہ غزل کو ایسا ہی سمجھتے ہیںیا محض لوگوں کو چڑانے کے لیے کج بحثی
کرتے ہیں۔ کیا یگانہ کو دیکھنے کے بعد بھی انھیں غزل کا مرتبہ معلوم نہیں!‘‘ 15
فلک
صاحب کا ذکرتلخ کے ایک اہم مربی و رہنما کے طور پر آ چکا ہے۔ یگانہ کو استاد بنانے
کا مشورہ بھی انھوں نے ہی دیا تھا۔ یگا نہ بھی فلک صاحب سے واقف تھے اور عروض سے ان
کی گہری دلچسپی اور واقفیت کے قائل تھے۔ ایک خط میں وہ لکھتے ہیں:
’’ہاں فلک
صاحب علم عروض کی تدوین نئے طور پر کر رہے ہیں۔ اچھی بات ہے۔ اس علم کو زیادہ Practical بنانے کی ضرورت ہے۔ میرا سلام کہو۔‘‘ 16
منموہن
تلخ اور یگانہ کے درمیان آخری وقت تک خوشگوار تعلقات رہے۔ اس کا ایک ثبوت وہ خط ہے
جو منموہن تلخ نے ظ۔انصاری کے کہنے پر لکھا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے:
’’1955-56میں جب
ظ۔انصاری نے ’شاہراہ‘ کی ادارت کے فرائض سنبھالے تو مجھ سے بولے۔’’ ارے یار تلخ! شاہراہ
کے لیے ان سے رباعیات منگوا دو۔‘‘ یہ میرزا کی وفات سے کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے۔
میں نے خط لکھ دیا اور جواب میں میرزا نے ’یگانہ آرٹ‘ کے عنوان سے چھ رباعیاں بھیجیں
جو شاہراہ میں نمایاں طور پر شائع کی گئی تھیں۔ ‘‘17
وسیم
فرحت کارنجوی کی مرتبہ کتاب ’مکتوبات یگانہ‘ میںمنموہن تلخ کے نام یگانہ کے خطوط کے
تحت پانچ رباعیات شامل ہیں۔یہ وہی رباعیات ہیں، جنھیں یگانہ نے منموہن تلخ کی درخواست
پر ارسال کیا تھا۔تلخ نے اپنے کالم میں چھ رباعیات ارسال کرنے کا ذکر کیا ہے۔ لیکن
رسالہ شاہراہ کے شمارہ نومبر اور دسمبر (1954) میں کل 10 رباعیات ’یگانہ آرٹ‘ کے عنوان
سے شائع ہوئیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید
تلخ سے ان کی صحیح تعداد کے سلسلے میں بھول ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ’مکتوبات
یگانہ‘ میں شامل پہلی رباعی، جو کہ تلخ کے ہی پتے پر ارسال کی گئی ہے، رسالہ شاہراہ
میں شامل نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یگانہ نے تلخ کو مختلف اوقات میں کئی رباعیات
خطوط کے ذریعے ارسال کی تھیں۔ مکتوبات یگانہ
میں سرنامے پر 1953، 1954اور 1955 کی تاریخ درج ہے۔بہت ممکن ہے ان میں سے محض دس رباعیات
شاہراہ میں شائع ہوئیں اور کچھ باقی رہ گئیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صرف یہی ایک رباعی
شائع نہ ہوئی ہو۔
وسیم
فرحت کارنجوی کو ان میں سے محض 5 رباعیات خطوط کی شکل میں دریافت ہوئیں۔ مشکل یہ ہے
کہ انھوں نے ان خطوط کا جو حوالہ پیش کیا ہے وہاں سرے سے تلخ کے نام کوئی خط ہی نہیں۔ وسیم فرحت نے ان خطوط کے سلسلے میں ’’نقوش، مکاتیب
نمبر‘‘ (نومبر،1957)کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن اس شمارے میں یہ خطوط موجود نہیں۔’ نقوش،
مکاتیب نمبر‘ میں یاس یگانہ چنگیزی کے کل 15 خطوط نقل کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 8 خطوط
مالک رام کے نام، 2راغب مراد آبادی کے نام، 2 دل شاہجہان پوری کے نام، ایک ایک مولوی
ضیا احمد اور رفیق احمد بدایونی کے نام اور ایک خط کا مکتوب الیہ نامعلوم ہے۔ یہ خط
مذکورہ رباعیات ہرگز نہیں۔ اس خط میں یگانہ نے کسی شخص کے ایک شعر کے متعلق مولانا
عبد السلام ندوی کے اعتراض کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
افسوس
کی بات یہ ہے کہ یگانہ کے نام لکھے گئے تلخ کے خطوط دستیاب نہیں۔ اگر یہ خطوط بھی کہیں
سے مل جائیں تو یگانہ اور تلخ کے تعلقات کو اوربہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
یگانہ
کے متعلق تلخ کی نظم کا عنوان ’آہ یگانہ‘ ہے جو کہ پہلے شعری مجموعہ ’چراغ فکر‘ میں
شامل ہے۔ یہ نظم یگانہ کے سانحۂ ارتحال پر لکھی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نظم
سے قبل مجاز کے متعلق لکھی گئی تعزیتی نظم میں تلخ نے یگانہ کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا ؎
اب
ہے یگانہ شمعِ فروزانِ لکھنؤ
کن
آخری دموں پہ ہے اب شانِ لکھنؤ
مجاز
کے متعلق تعزیتی نظم لکھتے ہوئے تلخ کو یگانہ کی بھی فکر لاحق تھی۔ جلد ہی وہ بھی چل
بسے۔ اسی لیے اس نظم کی شروعات میں ہی وہ کہتے ہیں کہ تیری موت کسی بھی پل متوقع تھی
لیکن آج اسے سن کر میرا دل بیٹھ گیا۔ ابھی مجاز کی رحلت کا غم ہرا ہی تھا کہ یگانہ
بھی چل بسے۔
ابھی
ہونٹوں سے ابھرتی تھی صداہائے مجاز
زخم
مرگ اس کا ابھی تھا دل پر خوں میں جواں
یگانہ
کی رحلت تلخ کے لیے اس لیے بھی تکلیف دہ تھی کیونکہ وہ ان کے استاد اور مونس بھی تھے۔
تلخ نے نظم کی ابتدا میں علم و ادب میں یگانہ کی انفرادیت کا ذکر کرتے ہوئے رحلت کا
ماتم کیا ہے۔ اس بند کے ایک ایک لفظ سے عقیدت، انفرادیت اور امتیاز کے معانی برآمد
ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی تراکیب، آہنگ اور لفظوں کا انتخاب بھی قابل غور ہے ؎
ہائے
وہ یاس و یگانہ وہ مفکر وہ غیور
ہائے
وہ منکر و ملحد وہ مجاہد کردار
ہائے
وہ درخور صد فخر و پرستش انساں
ہائے
وہ گوہر افکار کا بحر ذخار
راز
جو بھی تھا وہی اور وہ خود راز بھی تھا
تھا
وہی جس نے کہ جانا تھا کہا تھا سب کچھ
اس
دکھی جان نے کیا کیا نہ ستم جھیلے تھے
اے
زمانے! یہ بتا کیا وہ روا تھا سب کچھ
تلخ
نے یگانہ کو مفکر، غیور، لائق صد فخر،گوہر افکار کا بحر ذخار، راز اور راز جو ایسے
ہی نہیں کہہ دیا۔ انھوں نے یگانہ کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور ان کے ساتھ کافی وقت
بھی گزارا تھا۔ ایک مقام پر وہ خود کہتے ہیں کہ یگانہ کے جتنے ناز انھوں نے اٹھائے
وہ وہی جانتے ہیں۔ تلخ ان کی علمی و ادبی مہارت کے گواہ تھے۔ اسی لیے انھیں ہندوستان
اور یہاں کے لوگوں سے یہ شکایت ہے کہ انھوں نے یگانہ کی قدر نہ کی ؎
اے
مرے ہندوستاں اے وطن اہل نظر
تو
ہے سرچشمۂ فن، منبع ہر علم و ہنر
تو
ہے گہوارۂ تہذیب و تمدن، لیکن
جیتے
جی ایسے یگانوں کی کبھی قدر بھی کر
تلخ
نے اس نظم میں اقبال کی مشہور نظم ’شکوہ‘سے ایک مصرعے کو ’انھیں‘ کی جگہ ’اسے‘ کی تبدیلی
کے ساتھ ایک بند کا حصہ بنایا ہے۔ ’’اب اسے ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر‘‘ یہ یگانہ کے
تئیں تلخ کے کرب کا اظہار ہے۔ تلخ کو یقین ہے ایک وقت ایسا ضرور آے گا جب لوگ یگانہ
کو تلاش کریں گے، لیکن جیتے جی یگانہ کو کبھی بھی ان کا حق نہیں دیا گیا۔ یگانہ کی
زندگی اور موت دونوں ان کے شایان شان نہیں تھے۔ تلخ کا خیال ہے کہ یگانہ کی ایک بھی
ادا کسی کی زندگی میں نہیں مل سکتی۔ یہ نظم یگانہ کی موت کا ماتم بھی ہے، عقیدت کا
اظہار بھی اور ان کی انفرادیت و محرومی کا اعتراف بھی۔
یگانہ
کی وفات پر لکھی گئی رباعی میں بھی تلخ نے ایک بڑے خسارے کا ذکر کیا ہے۔’چراغ فکر‘
میں شامل یہ آخری رباعی ہے۔ تلخ کو اس بات کا خدشہ پہلے سے تھا کہ یگانہ کا وقت سفر
قریب ہے۔ لیکن انھیں اس بات کا بھی شدید احساس ہے کہ یگانہ کی وفات ایک بہت بڑا حادثہ
ہے۔ یگانہ کی خبر وفات کو انھوں نے اس خبر سے تشبیہ دی ہے کہ جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ
قطب مینار گر گیا۔تلخ نے منار کی مناسبت سے اسے مذکر استعمال کیا ہے۔ لیکن بطور عمارت
قطب مینار دہلی کی شناخت اور قدیم مغل تہذیب کی ایک بڑی علامت ہے۔تلخ کے مطابق موجودہ
ادبی دنیا میں یگانہ کامقام و مرتبہ بھی اسی منار کے مترادف تھا۔مضمون کا اسی رباعی
پر اختتام کرتے ہیں ؎
اس
عمر پہ یوں موت تری کیا ہے عجب
اے
یاس و یگانہ ترا مرنا ہے غضب
یوں
جان پڑا جیسے کوئی یہ کہہ دے
مینار
قطب گر گیا ہے کل شب
حوالے
- روزنامہ،قومی آواز، دہلی، 10ستمبر2000
- ایضاً، 9جولائی2000
- ایضاً، 3ستمبر2000
- ایضاً، 30اپریل2000
- ایضاً، 9جولائی2000
- ایضاً
- ایضاً
- ایضاً
- ایضاً
- ایضاً،
- روزنامہ،قومی آواز، دہلی،10ستمبر2000
- ایضاً، 9جولائی2000
- رسالہ،ساقی،مدیر؛ شاہد احمد دہلوی، کراچی،اگست،1955، ص، 39
- ایضاً، ص 40
- ایضاً
- ایضاً
- روزنامہ ’قومی آواز‘ دہلی، 9 جولائی، 2000
Research
Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia
Islamia
New Delhi-
110025
Mob.: 8800297878
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں