حق بات تو یہی ہے کہ مضطر نے آج ت
اک شعر بھی خلافِ حقائق
نہیں کہا
راجستھان میں بیسویں
صدی کی چھٹی دہائی میں شعری افق پر اُبھرنے والے جدید شعرامیں خوشتر مکرانوی، مخمور
سعیدی، عابد ادیب، خلیل تنویر، عقیل شاداب، ظفر غوری، غوث شریف عارف، عشرت دھولپوری،
ممتاز شکیب اور ان کے بعد کے شعرا میں شاہد عزیز، ڈاکٹر سخاوت شمیم، احتشام اختر، شاہد
میر، مضطر صدیقی، نذیر فتح پوری، شین کاف نظام، اظہار مسرت یزدانی،انعام شرر، ارشد
عبدالحمید، لطیف فہمی اور کامران نجمی (مرحوم) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ ان شعرا کے بعد
کی نسل میں فاروق انجینئر، ش م حنیف، سرفراز شاکر، افضل جو دھ پوری،ذاکر ادیب،شکور
انور،معین الدین شاہین، نثار راہی اور ڈاکٹر محمد حسین وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ان شعرا
میں سے بیشتر کا کلام برصغیر ہندو پاک کے مقتدر رسائل و جرائد اور شعری انتخابات میں
برابر شائع ہوتا رہا، مگر بعض شعرا ایسے بھی ہیں جنھوں نے رسائل میں اپنے کلام کی اشاعت
پر توجہ نہیں دی، چنانچہ راجستھان سے باہر کے قارئین کے مطالعے میں ان کی تخلیقاتِ
شعری بار نہ پاسکیں۔ مضطر صدیقی کا شمار بھی آخر الذکر شعرا میں ہوتا ہے۔
مضطر صدیقی نے
1962 میں اپنی تعلیم (Draftman in civil engineer) مکمل کرنے کے بعد ماہرِ عروض
استاد شاعر جناب شیدا کوثری جے پوری سے عروض کی تعلیم حاصل کی اور 1965میں فارغ الاصلاح
قرار دیے جانے کے بعد باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ ان کے پسندیدہ شعرا میں غالب، اقبال،
حالی، ساحر لدھیانوی، سردار جعفری اور کیفی اعظمی وغیرہ شامل ہیں۔
مضطر صدیقی نے غزل
کے ساتھ ہی ساتھ نظم، ماہیا، ترائیلے، مثلث، ہائیکو، گیت اور دوہا وغیرہ اصناف میں
بھی طبع آزمائی کی ہے۔ اب تک ان کے تین شعری مجموعے ’ارتعاش‘ (1988) اور’اضطراب‘(1995)
اور ایک ’کلیات‘ (باعتبار حروفِ تہجی ستمبر 2007) شائع ہوچکے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک مجموعۂ
کلام’سائباں‘ کے نام سے زیر اشاعت ہے۔جس پر قمر رئیس کا مقدمہ شامل ہے۔(مرقومہ 16 اکتوبر
2002 )
مضطر صدیقی کے شعری
و ادبی نظریے کی تفہیم کے سلسلے میں خود ان کے نثری و شعری معروضات قاری کی رہنمائی
کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے درجنوں اشعار اور بعض بیانات میں صراحت کے ساتھ اپنے شعری
منہاج وترجیحات کی نشاندہی کی ہے۔ ذیل میں ایک نثری اقتباس پیش ہے:
’’عوام کے جذبات اور احساسات کی صحیح ترجمانی کرکے انھیں موزوں الفاظ
کی شکل دے کر عوام تک پہنچانا ہی میرا نصب العین رہاہے۔ عین حقیقت ہے کہ پروازِ فکر،
جولانیِ طبع اور اظہارِ خیال کے لیے عروض کی پابندی سدِّ راہ نہیں بن سکتی۔ اصولی قید
و بند شہباز طبیعت کو اوجِ معانی پر پرواز کرنے سے ہرگز نہیں روک سکتی۔ میں نے بعض
مقامات پر الفاظ کی موزونیت، خیال و فکر کی مرکزیت، مضمون اور خصوصاً نظریاتی نصب العین
کو قواعد و ضوابط پر ترجیح دی ہے، میں اسے عذرِ گناہ کی بجائے اپنی کم فہمی ہی تصور
کرتا ہوں۔‘‘ (ارتعاش1988)
مضطر کی غزل کے حسب
ِ ذیل اشعار بھی اس ضمن میں مشرح و معاون معلوم ہوتے ہیں ؎
احساس کی زمین تخیل
کا آسماں
جذبات کا عمیق سمندر
غزل میں ہے
فکر کی قندیل کو مضطر
ذرا
روزِ روشن کی طرح روشن
کرو
سرد ہوتے ہی نہیں میری
نگاہوں کے چراغ
میں نے دیکھے ہیں سلگتے
ہوئے محشر کتنے
ہم زمانے میں بہر طور
رہے سینہ سپر
سر کو جھکنے نہ دیا
فتنہ و شر کے آگے
زخم چاہیں کسی کے ہوں
مضطر
خون روتا ہے پیرہن
میرا
دنیا کے حادثات سے
جو بے خبر رہی
لفظوں کی بازگشت تھی
وہ شاعری نہ تھی
جذبات سے تہی ہو گر
دائرہ نظر کا
ہر آئینہ ہے پتھر
ہر گیت مرثیہ ہے
لفظ بن کر خود حقائق
بیش و کم آجائیں گے
حادثے جتنے بھی ہیں
زیر قلم آجائیں گے
دنیا میں میرے بعد
کوئی غم نہیں رہے
ہر غم کو اپنے ساتھ
لیے جارہا ہوں میں
منقولہ اقتباس و اشعار
سے مضطر صدیقی کے تصورِ شعر و ادب پر کسی قدرروشنی پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ان کے احساسات
و افکار کے اہم جہات و ابعاد کا بھی بڑی حد تک اندازہ ہوجاتاہے، مضطر صدیقی درحقیقت
ادب و شعر کا اجتماعی، افادی اور تعمیری نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ ان کے احساس و فکر پر
اخلاقی و اصلاحی رنگ ہویدا ہے، وہ تخلیق کار کے ’دیدۂ بینائے قوم‘ کے منصب سے آگاہ
ہیں، چنانچہ اپنے مشاہدات اور افکار کے اظہار میں انھوں نے عصری حسیت کے ساتھ ہی ساتھ
حقیقت نگاری و حق بیانی کا بھی ثبوت فراہم کیا ہے۔انھیں حرف کی حرمت اور قلم کی قوت
کا اندازہ ہے۔ لہٰذا اپنے شعری افکارو معروضات میں فکر افزائی اور حیات افروزی کو خصوصی
اہمیت دیتے ہیں ؎
یہ بے حسی کا دور ہے
اے صاحبِ قلم
تو چاہے تو یہ معرکہ
سر ہو تو جائے گا
آلودگی سے پاک نئی
نسل کے لیے
پُرنور منظروں کی چمک
چھوڑ جاؤں گا
دانشوروں کے ذہن تو
مفلوج ہوگئے
آخر مجھی کو اچھا
برا سوچنا پڑا
روح میںہوتا اگر دردِ
صدائے مظلوم
تیرا ہر نغمۂ غم نغمۂ
سرمد ہوتا
مضطر صدیقی نے سردار
جعفری، ساحر لدھیانوی اور کیفی اعظمی سے اپنی پسندیدگی کا اعتراف کیا ہے، مگرمیرے خیال
سے بات پسند تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں اثر پذیری کا پہلو بھی نکلتاہے۔ مضطر
کی ابتدائی شاعری پر سردار جعفری کے اثرات واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کی نظم،
غزل اور قطعات کے مطالعے سے قاری اس حقیقت کا اندازہ کرسکتا ہے۔شعری اسلوب کی سطح پر
مضطر صدیقی کے یہاں جذباتیت اور بلند آہنگی اوائل کارمیں دراصل شروع(ارتعاش میں) میں
نمایاں تھے مگر بعد کو بتدریج کم ہوتے جاتے ہیں۔ ذیل میں پیش کردہ اشعار سے مضطر صدیقی
کی جذباتی ترقی پسندانہ روش اور بلند آہنگی کا اندازہ کیا جاسکتاہے ؎
مسلسل حادثوں میں جو
پلے ہیں
بلندی پر انھیں کے
حوصلے ہیں
توڑ کر بیساختہ اپنے
قفس کی تیلیاں
ایک دن صیاد کو بھی
آزمانا چاہیے
سرمایہ دار طبقے کو
محنت سے ہے گریز
محنت کشوں کے واسطے
آرام بند ہے
مضطر صدیقی نے اپنے
زمانے و ماحول کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور قومی و بین الاقوامی مسائل پر غور و فکر
کرتے ہوئے اپنے تفکرات اور محسوسات کو قدرے نرم گفتاری اور خود کلامی کے پیرائے میں
بیان کرنے کی سعیِ مشکور کی ہے۔ موضوعات کی تفصیلات سے صرفِ نظر یہاںصرف چند اشعار
بطورِ مثال پیش کیے جاتے ہیں۔ ان کے حوالے سے قاری کو مضطر کی شاعر کی فنی و فکری جہات
کا مناسب اندازہ بھی ہوسکے گا اور عہد ِجدید کی اچھی اور سچی ترقی پسند شعری روایت
کے عمدہ نمونے بھی سامنے آسکیںگے ؎
تبدیل اس کو کرنا ہے
آبِ حیات میں
جو زہر کائنات میں
پھیلا ہے ہر طرف
اپنے شہکار کو منظورِ
نظر ہونے تک
ہاتھ کٹ جائیں گے تشہیرِ
ہنر ہونے تک
ہر آشیانہ رہے جس
کی شاخ پر محفوظ
تمام عمر رہے گا وہی
شجر محفوظ
رہ گزر میں روشنی ہوجائے
گی
اپنا اپنا حوصلہ روشن
کرو
کیا ہے عہد نئی نسل
کے پرندوں نے
رکھیں گے برق پہ بنیاد
آشیانے کی
غبار آلودہ ہے ہر
ایک چہرہ
گلوں میں رنگ و بو
باقی نہیں ہے
اپنے اشکوں میں کچھ
نور تحلیل کر
ظلمتوں کو اُجالوں
میں تبدیل کر
ظلمتیں انسان کو مایوس
کردیتی ہیں جب
از سرِ نو زندگی کا
واسطہ دیتی ہے دھوپ
حسن کی روداد ہو یا
قصۂ دار و رسن
گفتگو کے واسطے کوئی
بہانا چاہیے
دیکھ کے مجھ کو دریچے
بند کرلیتے ہیں جو
ان پہ مضطر بند میرے
گھر کا دروازہ نہیں
تاریکیوں میں ڈوب گئی
گردشِ حیات
سورج کے ارد گرد زمیں
گھومتی رہی
جو سوچتا ہوں تو ہر
ایک چیز ہے میری
جو دیکھتا ہوں تو گلشن
نہ آشیانہ ہے
انھوں نے اپنے احساسا ت و تجربات
کے اظہار کے دوران زیادہ تر براہِ راست طرزِ اظہار اختیار کیا ہے، لیکن ان کی شاعری
(غزل) کا ایک حصہ ’جدید غزل‘ کی بنیادی جہات و خصوصیات کا بھی ترجمان ہے۔ مضطر نے دراصل
فطری طور پر جدید اور صنعتی تہذیب اور معاشرے کے معمولات ومظاہر پر اپنے محسوسات و
تاثرات کا مؤثر اظہار کیا ہے، وہ جدید لفظیات اور عام فہم نئے استعارات و علامات کا
تخلیقی استعمال کرتے ہیں۔مشینی سماج و ثقافت میں زندگی گزارنے والے ایک حساس فنکار
کی حیثیت سے مضطر صدیقی نے کسی قدر اپنے ذاتی اور وجودی کرب و احساس کا بیان بھی کیا
ہے۔ مگر ان کا ذاتی کرب ’داخلیت زدہ‘ نہیں بلکہ ایک صحت مند، حساس اور حق آگاہ تخلیق
کار کا شعری معروضہ ہے جس میں آج کا باذوق اور حساس قاری اپنی ذہنی رغبت و قربت محسوس
کرتا ہے۔ اپنے تجربات کے اظہار میں مضطر صدیقی نے طنز آمیز تخاطب، خود کلامی اور گاہے
بہ گاہے استفہامیہ لب و لہجہ بھی اختیارکیا ہے۔ درج ذیل اشعار اس سلسلے میں قابلِ مطالعہ
معلوم ہوتے ہیں ؎
کچھ حد سے بڑھ گیا
ہے یہ بے چہرگی کا کرب
اب آئینوں کو اور
جِلا دینا چاہیے
مضطر ہر ایک فاصلہ
اپنی جگہ رہا
ہم قربتوں میں اور
اضافہ نہ کرسکے
چہروں نے دے رکھا تھا
فریبِ نظر مجھے
ورنہ مری نگاہ میں
بے چہرگی نہ تھی
ترکِ تعلقات کا باعث
تھا اور کچھ
یوںتو مرے خلوص میں
کوئی کمی نہ تھی
سورج کی تیز دھوپ نے
مضطر جلا دیا
ملتا نہیںہے سایۂ
دیوار و در مجھے
مجھ کو معلوم ہے خوابوں
کی حقیقت کیا ہے
خواب ہوتے ہیں حقیقت
سے زیادہ بیتاب
دشت کا دشت ہے آبادی
کی آبادی ہے
دوسرا گھر نہیں کوئی
مِرے گھر کے آگے
باہر نکل کے گھر سے
کوئی دیکھتا کسے
جز میرے شہر میں کوئی
بے خانماں نہ تھا
جاؤں تو کہاں جاؤں
سرابوںسے نکل کر
صحرا مِرے پیچھے ہے
تو دریا مِرے آگے
آج کے ماحولِ حیات
میںسماجی سطح پر بڑھتی ہوئی خودپروری، بے گانہ وشی،بے مروتی اور دوسری مکروہاتِ حیات
کا مضطر صدیقی کو شدید احساس ہے، انسانی اقدار اور اخلاقی رسم و روایات کا انفساخ بھی
ان کے یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ نظمیہ شاعری کی طرح مضطر کی غزل میں بھی عصرِ جدید
کے کرب ناک مناظر کا اندوہ ناک بیان دیکھنے کو ملتاہے ؎
کیا عجب بات ہے باہر
ہے بڑی خاموشی
اندر اندر کوئی کہرام
مچا ہو جیسے
روداد رو رہے ہو تم
اپنے ہی جسم کی
اس آگ میں جلے ہیں
ہزاروں کے گھر میاں
زندگی اصل میں وہ راہ
گزر ہے جس میں
حادثے ختم نہ ہوں ختم
سفر ہونے تک
لوٹ کر جب کبھی ہم
اپنے ہی گھر آتے ہیں
حادثے ساتھ مکانات
میں در آتے ہیں
سرد ہوتے ہی نہیں میری
نگاہوں کے چراغ
میں نے دیکھے ہیں سلگتے
ہوئے محشر کتنے
ان کے شعری افکار میں
زندگی بیزاری،ہزیمت اور شکست کا تصور نہیں اُبھرتا، انھیں زندگی کی اخلاقی، ایمان پرور
اور امید افزا اقدار پر کامل یقین ہے، چنانچہ وہ ایک خوشگو ار اور روشن انسانی مستقبل
کا خواب دیکھتے اور دِکھلاتے ہیں۔ انھیں باطل قوتوں کے مقابلے میں حق و انصاف کی فتح
و نصرت کا بھروسہ ہے۔ مضطر صدیقی کی شاعری ہر خاص و عام قاری کو جہد و عمل کا پیام
دیتے ہوئے امید و ایقان کی حیات بخش دولت سے بہرہ مند کرتی ہے ؎
ناامیدی کے اندھیرے
بڑھ گئے تو کیا ہوا
اپنی آنکھوں میں امیدوں
کی چمک باقی رہے
میری خوش فہمی کا عالم
حد سے کم ہوتا نہیں
یہ وہ سرمایہ ہے جو
رہنِ الم ہوتا نہیں
مسلسل حادثوں میں جو
پلے ہیں
بلندی پر ان ہی کے
حوصلے ہیں
فکرِ حادثاتِ شب یوں
نہ کر دلِ مضطر
ظلمتوں میں پوشیدہ
بیکراں اُجالے ہیں
سیکڑوں ظلمت کدوںکو
توڑ کر آئے گا پھر
اک نیا سورج جو مضطر
شب کے پیراہن میںہے
مضطر صدیقی کی شاعری
واقعتا سنجیدہ مطالعہ کی متقاضی ہے۔ غزل میں نظمیہ موضوعات و مسائل کا شعری اظہار ہر
کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، مگر مضطر صدیقی نے اپنی فنکارانہ مشاقی درّاکی سے یہ
مرحلہ کامیابی سے طے کیا ہے ؎
یہ سچ ہے ہوتی ہے ہر
شے فنا، مگر مضطر
جہاں میں رہتے ہیں
افکارِ معتبر محفوظ
Mohd Shahid Pathan
Govt Girls College, Gangapol
Jaipur- 302002 (Rajasthan)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں