محی الدین قادری زور(25
دسمبر 1905- ستمبر 1962) ایک ایسے ادیب ہیں جنھوں نے مختلف اصناف ادب پر طبع آزمائی
کی ہے۔انھوں
نے
تحقیق جیسے خشک موضوع پر اہم ادبی سرمایہ پیش کیا ہے، ان کا تعلق حیدرآباد سے تھا،
یہیں ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت ہوئی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کے
بعد 1928میں لندن یونیورسٹی سے پی، ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ قادری زور نے دوران تعلیم
تصنیف و تالیف کا کام شر وع کر دیاتھا۔ قادری زور پوری زندگی اردو کی بقا، اس کی ترقی
اور فروغ کے لیے کام کرتے رہے۔ قادری زور نے دکن کی علمی و ادبی خدمات پر خوب لکھا۔
انھوں نے قدیم دکنی ادب کے شہ پاروں کی بازیافت کی، کئی اہم اور قدیم مخطوطات مرتب
کرکے بہترین مخطوطہ شناس ہونے کا ثبوت فراہم کیاہے۔ ان کی زندگی کا سب سے اہم کارنامہ
’ادارۂ ادبیات اردو‘ کی تشکیل ہے۔ قادری زور کی تصانیف کی تعداد لگ بھگ پچاس اور مضامین
کی تعداد تقریباً دو سو ہے۔ انھوں نے تنقید و تحقیق اور انشا و افسانے، صوتیات و لسانیات
اور تذکرہ نگاری و تاریخ نویسی پر خوب لکھا ہے۔ تحقیق ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔
ڈاکٹر رام بابو سکسینہ قادری زور کی علمی و ادبی اور تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے
ان کے نام ایک پیام میں تحریر کرتے ہیں:
’’ ڈاکٹر صاحب
اردو کے ایک بہت بڑےمحقق ہیں اور تحقیقات و تنقید میں ان کا مقام نہایت اعلیٰ و ارفع
ہے۔ اردو ادب کے لیے ان کے کارنامے مثالی ہیں اور دکن میں اردو کا پرچم لہرارہے ہیں۔
ابتدائی دکنی اردو ادب میں ان کی تحقیقات بڑی عظمت کی حامل ہیں۔ انھوں نے ایسے جواہر
پارے تلاش کیے ہیں جنھوں نے اردو کو مالا مال کیا ہے اور ان کے عالمانہ مقدمات اور
تنقیدیں گراں بہا ہیں... ڈاکٹر زور صاحب بہ حیثیت ایک استاد، ایک محقق اور ایک نقاد
کے بڑا مقام رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی ایک ایسی زندگی ہے جو ادب و تحقیق کے لیے وقف ہو
چکی ہے۔ ‘‘
(ڈاکٹر زور کی زندگی، سیرت، علمی، تحقیقی اور ادبی خدمات کا جائزہ، ص30)
محی الدین قادری کی
کتاب ’اردو شہ پارے‘ کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب کے شروع میں چار ابواب پر
مشتمل ایک طویل مقدمہ لکھا ہے اور اس مقدمے سے متعلق تمہید لکھ کر چند باتوں کی وضاحت
اس طرح کی ہے:
’’اس میں
جو شہ پارے پیش کیے گئے ہیں ان کی تخلیق کس زمانے میں، کن ہاتھوں سے، کس ماحول میں
اورکس طریقہ پر عمل میں آئی، اس سلسلے میں بعض ایسے مصنّفین کا بھی ذکر کر دینا پڑا
جن کا کلام موجود نہیں ہے یا جن کے انتخابات اس میں درج نہیں۔ بعض جگہ معلومات کی کمی
کی بنا پر نہایت اختصار سے کام لینا پڑا ہے اور بہت ممکن ہے کہ اگر زیادہ کد و کاوش
اور تحقیق و تفتیش کی جاتی تو کئی جگہوں پر ا ضافہ کرنا پڑتا۔ لیکن اس کتاب کی بساط
کے مد نظر اس کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ تاہم شاعروں اور کتابوں کے متعلق جو کچھ حالات
لکھے گئے ہیں۔ وہ (سوائے چند معمولی اور غیر معروف چیزوں کو چھوڑ کر) راقم کی ذاتی
تحقیق و تفتیش اور اصل ماخذوں کے مطالعہ کا نتیجہ ہیں۔‘‘
اردو شہ پارے، جلد اول، تمہید
اردو کے لسانی او ر
صوتی پہلوئوں پر کام کے دور ان انہیں لندن، آکسفورڈ، کیمبرج، پیرس کے کتب خانوں سے
استفادے کا موقع ملا۔ اس دوران قدیم اردو ادب کی کتابیں ان کی نظر سے گزریں۔ یہیں سے
ادبی ذخیروں کے بہترین حصوں کے انتخاب کا خیال پیدا ہوا۔ اس انتخاب کے دوران انھوں
نے بہت محنت و مشقت کی، جس کی طرف خود اشارہ کیا ہے:
’’جب ایک ایک قلمی نسخہ کو شروع سے آخر تک کئی کئی دفعہ پڑھنے کی ضرورت ہو نے لگی اور قدامت زبان کی پیچیدگیوں اور کتابت کی غلطیوں نے پریشان کردیا تو بار بار طبیعت چاہتی تھی کہ خیال ترک کردوں لیکن کام کی اہمیت اور ادبی ذوق نے گوارا نہ کیا کہ اس ضرور ی علمی خدمت سے ہاتھ دھو بیٹھوں۔‘‘ (اردو شہ پارے، جلد اول، ص1)
اردو شہ پارے کے مقدمہ
کے پہلے باب میں اردو ادب کی ابتدا ئی کوششوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے باب میں
بیجاپور میں اردو ادب پر اور تیسرے باب میں گولکنڈا میں اردو ادب پر روشنی ڈالی گئی
جب کہ چوتھا باب مغلوں کی حکومت میں اردو کے شعرا و ادبا سے متعلق ہے۔ مضامین اور مصنفین
کے لحاظ سے شہ پاروں کی فہرست کے بعد دکن کے مشہور و معروف شاعروں اور نثر نگاروں کا
انتخاب کلام ہے۔ کتاب کے آخر میں مقدمے کے آٹھ ضمیمے ہیں پہلے ضمیمے میں قدیم اردو
مصنفین اور ان کے کارناموں کی تاریخ وار فہرست ہے۔ دوسراضمیمہ پہلے باب کی علیہیات
سے متعلق ہے۔ تیسرے ضمیمے میں بیجاپوری مصنّفین اور ان کے کارناموں کی تفصیلی فہرست
ہے۔ چوتھا ضمیمہ دوسرے باب کی علیہیات کے لیے ہے۔ گولکنڈا کے مصنّفین اور ان کے کارناموں
کی بالتفصیل فہرست پانچویں ضمیمے میں پیش کی گئی ہے اور چھٹے ضمیمے میں تیسرے باب کی
علیہیات ہے۔ ساتواںضمیمہ چوتھے باب یعنی مغلوں کی حکومت کے مصنّفین اور ان کے کارناموں
کے لیے وقف ہے جب کہ آٹھواں ضمیمہ بھی اسی باب سے متعلق ہے، اس میں بیاض کے مرثیہ
گو شاعروں کی فہرست اور ان کے مرثیوں کی تعداد ہے۔ ان کے بعد اردو ادب سے متعلقہ سنین
میں صرف اس دور کی تاریخیں پیش کی گئی ہیں۔ جن کا اردو شہ پاروں کی اس جلد سے تعلق
ہے۔ انھوں نے کتاب کے آخر میں اشاریے سے قبل ایک فرہنگ بھی شامل کی ہے، جس میں مشکل،
نامعلوم اور مشتبہ الفاظ کے معنی بیان کیے گئے اور ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ کتاب
قادری زور کی محنتوں کا ثمرہ ہے۔قادری زور کے یہاں عجلت پائی جاتی ہے۔ اسی عجلت کی
وجہ سے قادری زور کی مرتب کردہ کتاب اردو شہ پارے جلد اول میںکئی خامیاں بھی در آئی
ہیں، جن کی طرف مولوی عبدالحق نے ایک تنقیدی مضمون میں اشارہ کیا ہے۔یہ کتاب قادری
زور کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ اس کتاب میں اردو نظم و نثر کے متعلق جدید ترین تحقیقات
پیش کی گئی ہیں۔اردو شہ پارے دراصل ادبی تاریخ کی کتاب ہے۔
’فیض سخن‘
میں حیدرآباد کے ایک شاعر میر شمس الدین محمد فیض کے کلام کا انتخاب ہے۔ فیض شعر و
شاعری کے علاوہ تصنیف و تالیف بھی کرتے تھے اور ا نھیں ادبی دنیا میں بحیثیت مصنف و
مؤلف زیادہ شہرت ملی۔ میر شمس الدین محمد فیض کے کلام کا انتخاب محی الدین قادری زور
نے بڑی محنت سے کیا ہے۔ فیض سخن میں انھوں نے سب سے پہلے دیباچہ عمومی دکن کی اردو
شاعری کے حوالے سے لکھا، قادری زور نے دکن کی اردو شعر و شاعری کی تاریخ کے سات عہد
اور ادوار قرار دیے ہیں اور ہر ایک پر روشنی بھی ڈالی ہے۔ عمومی دیباچے کے بعد انھوں
نے فیض اور ان کی شاعری پر بالتفصیل روشنی ڈالی ہے۔
قادر ی زور نے خالق
باری کے طرز پر فیض کی تصنیف رسالہ فیض جاری کے علاوہ خزانتہ الامثال، شمس التصریف،
شمس النحو، رسالہ در بیان ناسخ و منسوخ، طریق الفیض، شرح مأۃعامل، شرح کلمتہ الحق
اور متن میر شمس الدین اور شرح میر شمس الدین وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد حروف
تہجی کے اعتبار سے تمام غزلوں کو بالترتیب جمع کیا ہے پھر ان کی رباعیوں اور دیگر اصناف
پر مشتمل اشعار کو یکجا کرنے کے بعد ان کے نعتیہ قصائد کے انتخاب اور رسالہ فیض جاری
کے انتخاب کو پیش کیاہے۔
قادری زور نے ’روح
غالب‘ میں غالب کی حیات سے متعلق ہر پہلو اور ان کی تصانیف کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
غالب کی تمام کتابوں پر تحقیقی اور تنقیدی گفتگو کی ہے۔ یہ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل
ہے۔ کتاب کے شروع میں مولوی سید مہدی حسین بلگرامی کا پیش لفظ ہے، جس میں قادری زور
کی کتاب روح غالب کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سید مہدی حسین بلگرامی لکھتے ہیں:
’’مجھ کو یقین ہے کہ اردو ادب کے قدر دان اس کا گرم جوشی سے خیرمقدم کریں گے۔ اس میں انھوں نے غالب کے متعلق جو کتابیںپیشترشائع ہوئی ہیں اور ان کے دیوان کی جو شرحیں لکھی گئی ہیں، ان کا مختصر طور پر ذکر کیا ہے اور اسی طرح مختصر الفاظ میں ان کی سوانح عمری بھی درج کی ہے۔ نیز ان کی مختلف تصانیف پر سرسری نظر ڈالی ہے۔ اس کے بعد اصل کتاب میں غالب کے مشہور رقعات کا انتخاب درج کیا ہے‘‘ (روح غالب، ص5)
روح غالب کے دیباچے
میں قادری زور نے روح غالب کی وجہ تسمیہ بھی بیان کی ہے۔ روح غالب کا پہلا حصہ غالب
کے متعلق ادب ہے۔ دوسرا حصّہ حیات غالب پر مشتمل ہے۔تیسرا حصہ غالب کے ادبی کارناموں
میں ان کی فارسی اور اردو نثر و نظم کو بہت تفصیل سے لکھا اور غالب کے ادبی کارناموں
پر انتہائی بصیرت افروز اور محققانہ تبصرہ کیا ہے۔ اس ضمن میں غالب کی تصانیف پنچ آہنگ،
مہرنیم روز، دستنبو، قاطع برہان، درفش کاویانی پر محققانہ تبصرے کے ساتھ بھرپور معلومات
پیش کی گئی ہیں۔ اس کتاب کا چوتھا حصہ غالب کے اعزہ و احباب کے بارے میں ہے۔ جب کہ
پانچواںخطوط غالب کے دلچسپ ادبی حصے پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں غالب کے 225 اہم خطوط
کے اقتباسات شامل ہیں۔
ڈاکٹر زورنے دکن کے
نواب عزیز یارجنگ بہادر عزیزکے کلام کا انتخاب ’متاع سخن‘ کے نام سے کیا ہے۔ عزیز کوئی
پیشہ ور شاعر نہیں تھے۔ان کے اندر فطری مناسبت اور بزرگوں کی صحبت کی وجہ سے شعر و
شاعر ی کا ذوق پیدا ہو گیا تھا۔ عزیز کا تعلق حیدرآباد سے تھا مگر وہ اپنی شاعری میں
دہلی کی زبان کا سختی سے التزام کرتے تھے۔ متاع سخن کے مقدمے میں قادری زور نے دکن
کی اردو شاعری پر مفصل گفتگو کی ہے، زور نے دکن کی اردو شاعری کو تاریخ کے اعتبار سے
کئی ادوار میں تقسیم کیا ہے، مقدمہ کے بعد عزیز کی ایک تصویر ہے، اس کے بعد عزیز اور
ان کی شاعری پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے، انتخاب میں اشعار کو باعتبار ردیف پیش کیا
ہے۔ غزلوں کے بعد دس رباعیاں بھی شامل کتاب ہیں۔ متاع سخن پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہد
احمد دہلوی رقمطراز ہیں:
’’یہ جناب
عزیز کا انتخاب کلام ہے مگر نہایت پاکیزہ جذبات سے لبریز اور شاعری کا پورا نمونہ۔
ان کا شاعرانہ ذوق دیکھ کر یہ سمجھ میں آیا کہ حضرت ذوق مرحوم کے دل میں دکن نے کیوں
چٹکی لی تھی اور انیس مرحوم کس لیے حیدرآباد تشریف لے گئے تھے۔ اگر میرے سامنے جناب
عزیز کی صرف شاعری ہوتی اور ان کے احوال سے بے خبر ہوتا تو میں بلا مبالغہ یہ سمجھتا
کہ مومن خاں مرحوم کا کوئی شاگرد ان کی بعض خصوصیات سے علیحدہ ہو کر مرزا داغ کی زبان
بول رہا ہے۔ زبان میں ان کی لغزش نہیں۔ بیان میں ان کا زور، بندش ان کی چست، غرض کہ
شاعری کے لیے جس کیفیت کی ضرورت ہے وہ ان کے کلام میں پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر محی الدین قادری
صاحب زور کا احسان مانناچاہیے کہ انھوں نے دکن کے تین قابل قدر شعرا کے کلام سے ہمیں
روشناس کرایا‘‘
(ماہنامہ ساقی دہلی، ج 15، شمارہ 3فروری 1937)
سدانند جوگی بہاری
لال رمز شعراے حیدرآبادمیں ایک اہم مقام رکھتے ہیں،رمز نے میرشمس الدین محمد فیض کی
شاگردی اختیار کی۔ قادری زور نے رمز سخن (منتخب کلام) میں دکن کی اردو شاعری پر مفصل
اور مدلل گفتگو کے بعد رمز کے حالات اور ان کی شاعری پر روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے اسی
حصے میں قادری زور نے کلیات رمز پر تفصیل سے گفتگو کی ہے، جس میں سات ہزار سے بھی زیادہ
اشعار ہیں۔ اس کلیات میں رمز کی غزلیات اردو، رباعیات اردو، خمسہ جات اردو، قطعات اردو،
قصائد اردو، تاریخیں، تہنیت و تعزیت ادبیات و مصرعہ جات وغیرہ، رباعیات فارسی، قطعات
فارسی، قصائد فارسی، خمسہ ہائے فارسی اور کلام ہندی بھاشا کے اشعار شامل ہیں۔ فیض کی
صحبتوں کی وجہ سے رمز کے اندر شعر و شاعری کا ذوق پیدا ہوا۔ رمز کی شاعری کے بارے میں
قادری زور لکھتے ہیں:
’’رمز کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں شعر و سخن کا فطری ذوق تھا۔ اور یہ ذوق نتیجہ تھا حضرت فیض اور ان کے تلامذہ کی صحبت اور میل جول کا، اگرچہ وہ ابتدائً دنیاوی کار و بار اور ملازمت اور فن طب کے شوق میں شعر و شاعری سے کنارہ کش ہو چکے تھے۔ لیکن چالیس سال بعد جب پھر اس کی طرف راغب ہوئے تو ان میں از سر نو شاعرانہ قوتیں عود کر آئیں۔‘‘ (رمز سخن، ص27)
مرتب رمز سخن قادری
زور نے حروف تہجی کے اعتبار سے ردیف ت سے ردیف ے تک کی غزلیںپیش کی ہیں پھر تیس رباعیات
کے بعد دو قصیدے مدح حضور پرنور اور مدح مہاراجہ سرکشن پرشاد ہیں۔ رمز سخن کے آخر
میں چار نظمیں بھی ہیں۔
محقق و مخطوطہ شناس
محی الدین قادری زور ان کی تمام ترکد و کاوش اور تلاش و جستجو کا مرکز و محور دکن تھا۔
مخطوطہ شناسی سے انھیں خاص شغف تھا۔ فن مخطوطہ شناسی تحقیقی نگاہ کا متقاضی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر زور نے تذکرہ اردو مخطوطات کی پانچ جلدیں مرتب کیں۔ انھوں نے صرف مخطوطات کی
فہرست سازی نہیں کی بلکہ ہر مخطوطے کی توـضیحات پر
خصوصی توجہ دی۔بلکہ مصنّفین کے بارے میں بھی ضروری معلومات فراہم کیں۔ انھوں نے توضیحات
و تشریحات کے ذریعے مخطوطے کے تعلق سے دستیاب تما م مواد اور متن کو ان فہرستوں میں
شامل کر دیا ہے۔ انھوں نے اردو،عربی، فارسی اور ہندی کے 1150مخطوطات کی وضاحت پیش کی
ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹرقادری زور لکھتے ہیں:
’’ادارے کے جملہ 1150 مخطوطات کے بارے میں تفصیلات (پانچ جلدوں میں) منظرعام پر آرہی ہیں۔ ابھی تقریباً چار ہزار مخطوطات ایسے ہیں، جن کی ایسی ہی توضیحی فہرست مرتب اور شائع کرنی ہے اور اس تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔‘‘ (تذکرہ مخطوطات،ج،5، ص5)
ان مخطوطات پر مزید
روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ضیاء الدین انصاری اپنے ایک مضمون ’زور صاحب کی تصانیف کا تعارف
‘میں لکھتے ہیں:
’’پانچوں
جلدوں میں مجموعی طور پر 1150 مخطوطات کی وضاحتی فہرست ہے۔ لیکن ان میں چند جلدیں ایسی
بھی ہیں جن میں ایک سے زائد کتابیں شامل ہیں۔ لہٰذا 1150 جلدوں میں مجموعی طور پر
1246 مخطوطات ہوجاتے ہیں۔ ان میں 760 اردو کے، 421 فارسی کے، 52 عربی کے اور 13ہندی
کے مخطوطات ہیں۔ ان تمام مخطوطات کو موضوع کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ
معلوم کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے کہ ادارۂ ادبیات اردو میں کس موضوع پر کتنے اور کون
کون سے مخطوطات ہیں، آخر میں مصنفین، ان کے مصنفات، رسائل اور اماکن وغیرہ کا اشاریہ
بھی شامل کردیا گیا ہے اور ان تمام اندراجات کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا
ہے۔‘‘
(محی الدین قادری زور، ص187)
ڈاکٹر قادری زور ایک
باشعور مخطوطہ شناس اور محققانہ ذہن کے مالک تھے۔ مخطوطوں کی فہرست سازی انھوں نے انگریزی
کیٹلاگنگ سے سیکھی۔ مخطوطات کی فہرست سازی اور مخطوطہ شناسی کے دوران ضعیف متن اور
مشکوک حوالوں کی مدد نہیں لی جاتی ہے، کیونکہ مخطوطہ شناسی کی ہلکی سی لغزش سے مستقبل
کا محقق بے شمار قلا بازیاں کھا سکتا ہے۔ انھوں نے اس کام میں قیاس آ رائی نہیں کی۔
وہ پوری محنت اور لگن سے کام کرتے ہیں۔کوئی بھی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑتے۔انھوں نے ان
مخطوطات کی وضاحتی فہرست کے لیے بہت محنت کی اور طرح طرح کی صعوبتیں اٹھائیں۔ خود ہی
لکھتے ہیں:
’’اس تذکرۂ مخطوطات کی ترتیب کے سلسلے میں مؤلف کو جو زحمتیں اٹھانی پڑی ہیں اور جو وقت صرف ہوا ہے اس کا اندازہ وہی اصحاب کر سکتے ہیں جنھیں قلمی نسخوں سے کام لینے کا تجربہ ہوا ہو۔ اکثر مخطوطوں کے مصنفوں کے نام،سنہ یا زمانۂ تصنیف اور زمانۂ کتابت وغیرہ کی تحقیق میں بیسیوں قلمی و مطبوعہ کتب کی ورق گردانی کرنی پڑی اور بڑا وقت صرف ہوا۔‘‘ (تذکرہ مخطوطات، ج1، ص13)
اردو مخطوطات کی فہرست
سازی محی الدین قادری زور کے علاوہ کئی لوگوں نے کی ہے جن میں عبدالقادری سروری، محمد
ابرار حسین اور نصیرالدین ہاشمی کے نام بہت ہی اہم ہیں۔ ان لوگوں نے مخطوطات کی توضیحات
اور تحقیقی وضاحتوں کا مواد اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے، جس سے محقق کماحقہ استفادہ
نہیں کرسکتا ہے جبکہ قادری زور کا تذکرۂ مخطوطات کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔
اس سلسلے میں وہ رقم طراز ہیں:
’’اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ دوسری جلدوں کی طرح اس پانچویں جلد میں بھی مخطوطوں کی خصوصیات پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ مصنفوں اور شاعروں کے حالات کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔ ان کے بارے میں صرف حوالوں اور ماخذوں کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ تاکہ تحقیق کرنے والے اصحاب کتابوں تک پہنچ جائیں۔ ان جلدوں کی ترتیب کا بڑا مقصد یہی ہے کہ ادارے میں جو مخطوطے محفوظ ہیں ان کی نسبت اہل ذوق اصحاب اور تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں کو علم ہوجائے کہ ادارے میں کیا کیا کتابیں موجود ہیں۔‘‘ (تذکرہ مخطوطات، ج، 5، ص605)
انھوں نے ادارہ ادبیات
اردو کے بینر تلے کئی اہم شاعروں اور نثرنگاروں کے انتخابات شائع کیے ہیں۔ داغ، حالی،
محمد حسین آزاد اور نذیر احمد کے ہم عصر ڈاکٹر احمد حسین مائل کے کلام کے انتخاب کو
بادۂ سخن کے نام سے شائع کیا۔ کلیات قلی قطب شاہ اور معانی سخن میں قطب شاہ کا کلام
ہے۔ کلیات قلی قطب شاہ میں محمد قلی قطب شاہ کی زندگی کے حالات اور اس عہد کے سیاسی
و سماجی حالات پر مشتمل ایک طویل اور تحقیقی مقدمہ شامل ہے۔ کلیات کے آخر میں قطب
شاہ کے کلام کو سمجھنے کے لیے قدیم، نامانوس اور مشکل الفاظ کی فہرست پیش کی ہے اور
معانی سخن میں ابتدا میں دکن کی اردو شاعری کی تاریخ بیان کرنے کے بعد ایک تحقیقی مقدمہ
پیش کیا ہے۔ خطوط کے مجموعوں مکاتیب شاد عظیم آبادی اور شاد اقبال کو ترتیب دیا۔ تذکروں
میں مرقع سخن (دوجلدیں )اور گلزار ابراہیم کی ترتیب و تدوین بہت ہی اہم ہیں۔ مرقع سخن
جلد اول میں ہندوستان کے پچیس اور جلددوم میں آصفیہ دور کے پچاس ممتاز شعرا کا باتصویر
تذکرہ ہے۔ قادری زور نے گلزار ابراہیم کی ترتیب میں یہ التزام بالخصوص رکھا کہ گلشن
ہند میں جن شعرا کا حال تھا اس کو اردو میںعلی لطف ہی کے الفاظ میں لکھا ہے۔ تذکرہ
گلشن ہند میں گلزار ابراہیم سے 68شاعروں کا حال منتخب کر کے اردو میں لکھا ہے۔ گلزار
ابراہیم میں68شاعروں کے حالات اردو میں اور 252 شاعروں کے حالات فارسی عبارت میں ہیں۔
قادری زور نے علی لطف کی گلشن ہند اور علی ابراہیم کی گلزار ابراہیم میں بیانوں کے
اختلافات کی نوعیت پر اپنے مقدمہ میں بہت مفصل اور جامع بحث کی ہے۔ انھوں نے اس کتاب
کو مزید مفید بنانے کے لیے کتاب کے آخر میں ایک اشاریہ بھی شامل کیا ہے۔
مراجع و مصادر
- محی الدین قادری زور، مرتبہ خلیق انجم، انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی، 1989
- زور: ہندوستانی ادب کے معمار، پروفیسر سیدہ جعفر،ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی،1984
- مطالعہ زور، ڈاکٹر اکبر حیدری، الماس بک ڈپو، حسین گنج، لکھنؤ، 1966
- اردو شہ پارے، جلد اول،محی الدین قادری زور،مکتبہ ابراہیمیہ، حیدرآباد دکن،1929
- تنقید ات عبد الحق، مرتبہ تراب علی خاں، ایم۔عطاء اینڈ مسلم پروپرائٹر، موہن لال روڈ، لاہور، بار چہارم 1945
- فیض سخن،مرتبہ محی الدین قادری زور،مکتبہ ابراہیمیہ،حیدرآباد،1937
- روح غالب،مرتبہ محی الدین قادری زور،افضل برقی پریس،حیدرآباد،دکن،1950
- متاع سخن،مرتبہ محی الدین قادری زور،مکتبہ ابراہیمیہ،حیدرآباد،1935
- ماہنامہ ساقی دہلی،ج15،شمارہ3فروری1937
- رمز سخن، مرتبہ محی الدین قادری زور، اداراہ ادبیات اردو، حیدرآباد،1951
- تذکرہ مخطوطات، ج۔۱،مرتبہ محی الدین قادری زور،ادارہ ادبیات اردو، حیدرآباد، 1943
- تذکرہ مخطوطات،ج5، مرتبہ محی الدین قادری زور، ادارہ ادبیات اردو، حیدرآباد، 1959
- شاداقبال،مرتبہ محی الدین قادری زور،ادارۂ ادبیات اردو،حیدرآباد،1942
- کلیات قلی قطب شاہ،مرتبہ محی الدین قادری زور،مکتبہ،ابراہیمیہ،حیدرآباد،1940
- کیف سخن،مرتبہ محی الدین قادری زور،مکتبہ ابراہیمیہ حیدرآباد،1935
- معانی سخن،مرتبہ محی الدین قادری زور،نیشنل پرنٹنگ پریس،حیدرآباد1958
Dr. Mohd
Akmal
Asst Prof.
Dept of Urdu
Khwaja
Moinuddin Chishti
Language
University
Lucknow-
226013 (UP)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں