11/10/23

آسمان ادب کا روشن ستارہ: گیان چند جین

 

اردو دنیا کی ایسی زبان ہے،جس کی سادگی، شیرینی اور لطافت نے نہ صرف عالمی ادب پر اپنے ناقابل فنا نقوش چھوڑے،بلکہ اس ہر دل عزیز زبان نے ہر ملک،ہر خطے، ہر مذہب اور ہر برادری کے لوگوں کو اپنی جانب ملتفت ہونے پر مجبور کیا ہے۔ اردو کی آبیاری کے لیے ادبی شخصیات نے بغیر امتیاز مذہب و ملت مقدور بھر قربانیاں دے کر اسے اس مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا،جہاں پہنچنے کے بعد کوئی بھی زبان اپنے اوپر ناز کر سکتی ہے۔ اردو کے تعلق سے یہ بات آئینے کی طرح صاف ہو جاتی ہے کہ اس کا جنم ہندوستان میں ہوا۔ برصغیر کی یہ پیاری زبان شہنشاہوں، بادشاہوں، نوابوں، مہاراجاؤں، راجاؤں، زمینداروں اور اہل ثروت کے محلوں، قلعوں، گڑھوں، فوجوں، لشکروں اورخدمت گاروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی پروان چڑھی۔ اردو نہ تو مسلمانوں کی زبان ہے، نہ ہندوؤں کی، نہ سکھوں کی بولی ہے اور نہ عیسائیوں کی۔ مذاہب کی قید سے آزادیہ ہراس شخص کی زبان ہے، جس نے اس کی حلاوت کودل کی گہرائیوں سے محسوس کیا، اسے اپنایا، اپنے سینے سے لگایا اور اسے پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے ہر طرح کا تعاون دیا۔اردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے لوگوں کی فہرست میں ایک نام پروفیسر گیان چند جین کا ہے۔ پروفیسر گیان چند جین کا شمار اردو کی ان نامور ادبی شخصیات میں ہوتا ہے،جنھوں نے اپنی پوری زندگی زبان و ادب کے لیے وقف کر دی۔گیان چند جین پروفیسر ہونے کے علاوہ ہر دل عزیز شاعر، معروف ادیب، نقاد، ممتاز محقق، ماہر علم عروض اورصاحب لسانیات کے طور پر اپنی نمایاں شناخت رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنی گراں قدر تصانیف اور تحقیقی مقالات سے اردو زبان کو تونگری اور ثروت مند ی بخشی۔

پروفیسر گیان چند جین کا تعلق اترپردیش کے ضلع بجنور سے ہے۔ اپنی ادبی شناخت کے لیے مشہور ضلع نے جہاں ہندی ادب کو سمپادکاچاریہ پنڈت رودر دت شرما اور ’بہاری ست سئی‘ کے تقابلی تجزیہ نگار کی شکل میں اپنی خاص پہچان رکھنے والے پنڈت پدم سنگھ شرما دیے،  تو اردو ادب کو عبدالرحمن بجنوری اور پروفیسر گیان چند جین جیسے ادیب بھی دیے۔پنڈت رودردت شرما کا جنم شہر دھام پور میں اور پنڈت پدم نگھ شرما کی پیدائش چاندپور کے قریبی گاؤں نائک نگلہ میں ہوئی، جبکہ عبدالرحمن بجنوری اور پروفیسر گیان چند جین کی جائے پیدائش قصبہ سیوہارہ ہے۔ عبدالرحمن بجنوری اور گیان چند جین کی شہرت نہ صرف ہندو پاک میں رہی،بلکہ یہ ان تمام ممالک میں بھی جانے پہچانے گئے،جہاں اردو سمجھنے، بولنے، لکھنے اور پڑھنے والے افراد موجود ہیں۔

گیان چند جین کی تاریخ پیدائش 19 ستمبر 1923 ہے۔  ان کے والد کا نام شاہو بحال چند جین اور والدہ کا نام پاروتی ہے۔ والدہ کا تعلق سناتن خاندان سے تھا۔ گیان چند جین اپنے بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ انھیں چھ برس کی عمر میں(1929)اِبتدائی تعلیم کے لیے قصبے کے گورنمنٹ لوور اسکول میں داخل کرایا گیا، جہاں سے مئی 1933میں درجہ چار پاس کیا۔ اس کے بعد قریب آٹھ مہینے تک ایک پرائیویٹ اسکول میں انگریزی سیکھی۔ 1934 میں قصبے کے ہی مسلم قدرت اسکول میں پانچویں جماعت میں داخلہ لیااور 1937میں درجہ آٹھ پاس کیا۔ مڈل کلاس کے بعدپارکر ہائی اسکول مرادآباد میں نویں کلاس میں داخل ہوئے اور1939 میں اردو اور ریاضی میں امتیازی نمبروں کے ساتھ فرسٹ ڈویژن سے ہائی اسکول پاس کیا۔ آگے کی تعلیم کے لیے شہر کے دوسرے کالج میں داخلہ لیا اور 1941 میں سیکنڈ ڈویژن سے اِنٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ اِنٹرمیڈیٹ کے بعد گیان چند جین اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے الہ آباد یونیورسٹی چلے گئے اور 1943 میں سیکنڈ ڈویژن سے بی اے میں کامیابی حاصل کی۔ 1945 میں اردو مضمون سے فرسٹ ڈویژن میں ایم اے پاس کیا۔ اسی کے ساتھ داستانوں میں ان کی دلچسپی بڑھی اور انھوں نے الہ آباد سے ہی ڈی فل میں کامیابی حاصل کی۔ ڈی فل مقالے کا موضوع ’شمالی ہند میں اردو کے نثری قصے اِبتدا سے 1870تک‘ تھا، جو انھوں نے پروفیسر ضامن علی کی نگرانی میں مکمل کیا۔اس وقت ڈی فل آج کی پی ایچ ڈی کے مساوی تھا۔

 یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گیان چند جین تین سال تک روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہے،لیکن کامیابی نہیں ملی۔ آخرکارانھوں نے1950میںروزنامہ پانیئر (Pioneer) لکھنؤ میں بغیر کسی تنخواہ کے سب ایڈیٹر کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ گیان چند جین ادارت کے کام سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کی نگاہ کہیں اور تھی۔وہ درس و تدریس کے کام کو انجام دینا چاہتے تھے۔ بالآخر گیان چند جین کی مراد بر آئی اور وہ1950میں حمیدیہ ڈگری کالج بھوپال میں اردو کے لکچرر مقرر ہو گئے۔ وہ 1952 میں حمیدیہ ڈگری کالج کے شعبۂ اردو کے صدر ہو گئے۔ 1953 میں سہارنپور کی ارملا کے ساتھ ان کی شادی ہو ئی۔ ارملا کا تعلق سناتن خاندان سے تھا۔انھوں نے تحریری کام جاری رکھتے ہوئے آگرہ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا اور پھر 1956 میں آگرہ یونیورسٹی میں ڈی لٹ میں داخلہ لیا۔ 1960 میں آگرہ یونیورسٹی کے ذریعے انھیں ’اردو مثنوی شمالی ہند میں‘ کے موضوع پر ڈی لٹ کی ڈگری تفویض کی گئی۔ انھوںنے ساگر یونیورسٹی سے لسانیات میں بھی درس لیا اور 1962میں کرناٹک یونیورسٹی بھارواڑ میں شامل ہوکر ایڈوانس لسانیات کا سرٹیفکٹ حاصل کیا۔ اس کے بعد 1965میں جمو یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تقرری ہوئی اور1976 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اکتوبر 1976 میں ہی الہ آباد آگئے اور الہ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر کام کرنے لگے۔ 1979میں ان کی تقرری حیدرآباد یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر ہو گئی۔وہ 1987تک اسی یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ریٹائر ہونے کے باوجود انھیںمزید دو برس سے زائد مدت تک ملازم رکھا گیا۔1989 کے وسط میں سبک دوش ہوئے۔  1982میں کتاب ’ذکروفکر‘ کے لیے اردو زبان کے ساہتیہ اکادمی انعام اور2002میں بھارت سرکار کے ذریعے ان کی ادبی خدمات کے لیے پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ زندگی کے آخری پڑاؤ میں ان کی صحت ٹھیک نہیں رہی۔ یادداشت کمزور ہونے کے ساتھ انھیں پارکن سن مرض ہو گیا۔ بیماری سے نبرد آزما گیان چند جین کا 11 اگست 2007کو امریکہ کے کیلی فورنیا میںاِنتقال ہو گیا۔

پروفیسرگیان چند جین کے دادا فارسی کے شاعر تھے۔ ان کے بڑے بھائی پرکاش مونس کا شماربھی اردو کے مشہور ادبا میں ہوتا تھا۔ان کی کتاب’اردو ادب پر ہندی ادب کا اثر‘ ادبی دنیا میں کافی مشہورہوئی۔ اردو ادب کی اسی کڑی میں گیان چند جین کا ادبی سفر شاعری سے شروع ہوا۔ 1937 کے آخر میں اپنا تخلص غافل رکھا اور پہلی غزل کہی۔شاعری کے شوق نے انھیں مزید غزلیں کہنے پر مجبور کیا۔ان کی کئی غزلیں کافی سراہی گئیں۔چند اشعار دیکھیں           ؎

کوئی نہ اس کا مال خریدے کوئی نہ اس کی جانب دیکھے

 اب بنجارہ گھوم رہا ہے قریہ قریہ تنہا تنہا

 وہ محتسب ہو کہ شہنا کہ مفتی و قاضی

ہمارا کوئی نہیں ہے ہر ایک تیرا ہے

 ابر پارہ ہوں کوئی دم میں چلا جاؤں گا

نقش بر آب ہوں لہروںمیں سما جاؤں گا

فکر کی دنیا میں کولمبس بنا پھرتا ہوں میں

علم کی پہنائی کا کتنا  بڑا  فیضان ہے

جب بھی ریگستانوں میں جانے کا ہوتا اتفاق

 گھٹنے گھٹنے ذات کی پرتوں میں دھنس جاتا ہوں میں

گیان چند جین نے نثری مضمون فانی بدایونی کی شاعری پر لکھا،جو پارکر کالج کی سالانہ میگزین1936-37میں شائع ہوا۔یہاں سے ان کے لکھنے لکھانے کا سلسلہ آخری وقت تک جاری رہا۔ تحقیق کا فن کافی مشکل ہے۔ابھی اردو میں تحقیق اوراس کے اصول و مسائل کے بارے میں بہت زیادہ نہیں لکھا گیا۔اس کے باوجود گیان چند جین نے اس طرف توجہ دی اور اپنے کمال کا نمونہ پیش کرتے ہوئے ادبا کا دھیان اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ ان کی مایہ ناز تصنیف’تحقیق کا فن‘ سے ان کی تنقیدوتحقیق کی مہارت کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کو تحقیق کے موضوع،خاکہ،مواد کی فراہمی، زبان و بیان، مواد کی پرکھ، حزم و احتیاط،اور مقالے کی تسوید جیسے اہم موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ وہ مواد کی فراہمی کے تعلق سے لکھتے ہیں:

’’کتابیں ہوں کہ مخطوطات،اردو میں انھیں تلاش کر کے فراہم کرنا ہی سب سے بڑی ریسرچ ہے۔ علم کے ہر پیاسے کو کنواں کھودنا ہی پڑا ہے یا پرانے کنوؤں میں بانس ڈالنے ہوتے ہیں۔ظاہر ہے بڑی بڑی لائبریریوں ہی میں جاکر تلاش کی جا سکتی ہے۔ لیکن بعض اوقات چھوٹی لائبریریاں بھی کچھ پرانی کتابیں اور مخطوطات اپنے دامن میں چھپائے ہوتی ہیں۔دِلی، لکھنؤ، حیدرآباد اور بمبئی میں پرانی کتابوں کے تاجروں کے ذخیرے میں تلاش کیجیے۔ ہو سکتا ہے ان کے پاس آپ کی موجودہ ضرورت کی کتاب نہ ملے،لیکن کوئی دوسری نادر کتاب مل جائے گی۔‘‘

(تحقیق کا فن،گیان چند جین،اتر پردیش اردو اکادمی، 1990ص نمبر 156-57)

گیان چند جین نے جس صنف کو اختیار کیا،اس میں اپنی الگ پہچان بنائی اور اسے اس مقام تک لے جانے کی ہر ممکن کوشش کی جس کی وہ مستحق تھی۔اردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے گیان چند جین نے اردو کی تاریخ پر تفصیل سے گفتگو کی اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کا بھرپور جائزہ لیا۔ انھوں نے اردو کے ادبی سفر کا جس ایمانداری کے ساتھ تذکرہ کیا، اس سے گزشتہ صدیوں میں پروان چڑھی ادب کی تاریخ نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہے۔ انھوں نے اردو تحقیق پر جو کام کیا ہے،وہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ان کا تحقیقی مطالعہ بہت وسیع ہے۔ گیان چند جین کی کتابوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تحقیقی بصیرت نہایت تیزاور علمی شعور کافی پختہ تھا۔ ان کے علمی اور تحقیقی کام کے علاوہ اردو کی ادبی تاریخیں کو بھی’انجمنِ ترقی اردو پاکستان نے نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ شائع کیا۔ گیان چند جین کی کتابوں کو پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہونا بڑے فخر کی بات اور ایک بڑا کارنامہ ہے۔ وہ مرزاغالب کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہو جاتا ہے کہ انھوں نے غالب پر کام کرتے ہوئے کئی کتابیں لکھیں۔

گیان چند جین نے ادبی اصناف، عام لسانیات، شخصیات و تاثرات، اردو کی نثریات، اردو کی نثری داستانیں، اردو مثنوی شمالی ہند میں، تحریریں، کچے بول، غالب شناس مالک رام، حقائق، کھوج، پرکھ اور پہچان، لسانی مطالعے، مقدمے اور تبصرے،اوپیندر ناتھ اشک، ابتدائی کلام اقبال، تفسیر غالب، قاضی عبدالودود، رموز غالب، تغیر غالب، تجزیے، ذکروفکر،تحقیق کا فن، لسانی رشتے، اردو کا اپنا عروض، اردو کی ادبی تاریخیں، اردو میں داستانوی ادب کا سرمایہ، تاریخ ادب اردو اورایک بھاشا دو لکھاوٹ دو ادب سمیت درجنوں کتابیں تحریر کی ہیں۔ پروفیسر گیان چند جین کی کتابیں ہندوستان کے علاوہ پاکستان اور کئی دیگر ممالک کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں کئی اسکالروں نے ان کے او پر پی ایچ ڈی بھی کی ہے۔

’جب چند تخلیقیں وجود میں آجاتی ہیں تو انھیں دیکھ پرکھ کر اقداری پیمانے اور راہ نما اصول وضع کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد جب فن کار مزید تخلیقات کرتے ہیں تو نقادوں کے وضع کردہ پیمانوں کو مد نظر رکھ کر اپنی تخلیق میں مزید ترقی و بہتری کا عمل کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ نقادوں کے مقرر کردہ معیاروں کی سو فیصدی پابندی کرے،وہ ان سے آگے بڑھ کر نئے تجربے کرتا ہے، نئے پیمانے دیتا ہے۔ اس پورے عمل میں تخلیق کار بھی نقاد بن جاتا ہے، لیکن اس کی تنقید اور نقاد کی تنقید میں یہ فرق ہے کہ تخلیق کار کی تنقید اس کے ذہن میں نہفتہ رہتی ہے، جب کہ نقاد کے پیمانے منظر عام پر آتے ہیں اور اس طرح بعد کے تخلیق کار اور قاری دونوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔‘ 

(تحقیق کا فن، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان بہ اشتراک اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ 2008ص32)

گیان چند جین کا نام ان ادبا وشعرا میں شامل ہے جنھوں نے ادب کو اپنا میدان بنایا اور لگاتار لکھنے پڑھنے کے کام کو جاری رکھا۔ بغیر کسی تھکاوٹ کے لگاتار کام کرنے والے جین صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ مختلف موضوعات پر بڑی تیزی کے ساتھ لکھ لیاکرتے تھے۔ ان کے اس وصف سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں لکھنے پڑھنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔ان کا زیادہ تر وقت اردو کی خدمت اور اس کی نشو ونما میں لگا۔ معاشرے کے ہر ذمے دار شخص کی طرح جین صاحب کو بھی گھریلو ذمے داریوں  اور ہنگامہ آرائیوں کاسامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود وہ ادبی خدمات سے برگشتہ نہیں ہوئے اوربڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنے کام کو انجام دینے میں منہمک رہے۔ مختلف موضوعات پر اعلیٰ درجے کا کام ان کی وسیع النظری کا بین ثبوت ہے۔انھوں نے شاعری کے علاوہ لسانیات، داستان، مقالہ، غالب کے کلام کی شرح، عروض اورتحقیق وغیرہ پرجو قابل قدر کام کیا،وہ ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

انھوں نے تحقیق کی دنیا میں جو مقام حاصل کیا وہ ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ لگتا ہے قدرت نے اس خاص کام کے لیے ان کا انتخاب کیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ داستان پر کام کرنے والے کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ان کی کتاب’اردو کی نثری داستانیں‘ کو نظر انداز کرسکے،جس نے دیگرتحقیق کاروں کے لیے مزیدراہیں استوار کیں۔

قریب 40برس تک اردو میںدرس و تدریس کا کام انجام دینے،اردو کی بدولت عالمی شہرت حاصل کرنے، اردو میں تنقید و نثری داستانوں کوعروج پر لے جاتے ہوئے خود بھی شہرت کا سفرطے کرنے والے پروفیسر گیان چند جین نے ’ایک بھاشا،دو لکھاوٹ، دو ادب‘ نام کی کتاب لکھی جو کافی متنازعہ رہی اور اس کے خلاف کئی کتابیاں بھی لکھی گئیں۔

 

M. A. Kanwal Jafri

127/7, Jama Masjid

NEENDRU, Tehsil Dhampur

District: Bijnor- 246761 (UP)

Cell: 991767622,   96757676722

E-mail : jafrikanwal785@gmail.com      

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...