25/4/25

اردو نثر کے فروغ میں ناصر نذیر فراق کی ادبی خدمات، مضمون نگار: صابر ریاض خاص

 اردو دنیا، فروری 2025

اردو نثر کی ابتدا دکن سے ہوئی۔ وہاں ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد یہ شمالی ہند پہنچی۔1  شمالی ہندوستان میں نثر نویسی کا آغاز فضل علی خاںفضلی کی کتاب ’ دہ مجلس‘ سے مانا جاتا ہے۔2  ابتدائی دور میں اردو نثر عربی و فارسی الفاظ کے ساتھ مسجع ومقفیٰ عبارات میںڈوبی ہوئی تھی (مثال کے طور پر ملا وجہی کی’ سب رس‘)۔ فورٹ ولیم کالج کے ذریعے اردو نثر خاص کر داستان کو فروغ ملا۔داستان نویسی کے بعد اردو نثر ناول نگاری کے منازل طے کرتے ہوئے افسانہ نگاری تک پہنچی۔ ان افسانوی اصناف کے ساتھ ساتھ اردو نثر نے غیر افسانوی ادب میں بھی اپنے ارتقائی منازل طے کیے۔ مثلاً مضمون نگاری، انشائیہ نگاری، سوانح نگاری، خاکہ نگاری، خطوط نگاری اورسفرنامہ وغیرہ کے ذریعے اردو نثر کے ذخیرے میں اضافہ ہوا۔ اردو نثر نگاری کے فروغ میں متعدد فنکاروں نے اہم رول ادا کیے۔ مثال کے طور پر ملا وجہی (سب رس)، فضل علی فضلی (کربل کتھا)، میرامن (باغ و بہار)، انشاء اللہ خاں انشاء (رانی کیتکی کی کہانی)، رجب علی بیگ سرور (فسانہ عجائب)، سرسید احمد خاں (آثارالصنا دید و خطبات احمدیہ)، نذیراحمد (مراۃ العروس و توبۃ النصوح) اور پنڈت رتن ناتھ سرشار (فسانۂ آزاد) وغیرہ نے قابل قدر تخلیقی کام سرانجام دیے۔سر سید احمد خاں کے مضامین اور مرزا غالب کے خطوط نے اردو نثر کو عربی و فارسی زبان کے دقیق الفاظ سے پاک کر دیا۔ سرسید کی اصلاح پسندی اور سہل نثر نگاری کو حالی، شبلی اور نذیر احمد نے آ گے بڑھایا۔ نذیراحمد کی اصلاحی اور سجاد حیدر یلدرم کی رومانی کاوشوں کو آگے بڑھانے والوں میں ناصر نذیر فراق دہلوی کا نام بھی ہے۔ اردو ادب کی تاریخ میں حکیم خواجہ ناصر نذیر فراق دہلوی کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے سبب ممتاز شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی تحریریں قدیم دلّی کی ٹکسالی اردو کی عکاس ہیں۔ ان کی نثر نگاری پر قلم اٹھانے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کے احوال کا مختصراً جائزہ لیا جائے۔

ناصر نذیر فراق 3ربیع الاوّل1282ھ بمطابق 16 اگست 1865 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔3  حکیم خواجہ ناصر نذیر فراق دہلوی کا اصل نام ’نذیر‘ اور تخلّص ’فراق‘  تھا۔4  اپنے خاندانی دستور کے مطابق نام سے پہلے ’ناصر‘ لکھتے اور تحریر کی پیشانی (Header) پر’ہوالناصر‘ درج کرتے تھے :

’’فراق دہلوی جس خاندان کا وسیلہ پکڑتا ہے اس کے مورث سیدالسادات خواجہ سید محمدؐ ناصر حسینی عندلیب تخلص خواجہ میر درد دہلوی کے والد بزرگوار تھے آپ نے فرمایا میرے نام کو خدا نے قبول کر لیا ہے اور مجھ سے وعدہ کیا کہ تیری آل اولاد اور تیرے آستانہ کے غلاموں کے لیے لفظ ’ناصر‘ میں برکتیں رکھ دی گئیں جو اپنے نام کے ساتھ اسے شامل کرے گا یا اپنی کتاب یا خط کی پیشانی پر ’ہوالناصر‘ لکھے گا اسے وہ برکتیں دی جائیں گی... اسی یادگار میں ہم لوگ اپنی کتاب اور رسالوں اور خطوط پر ہوالناصر لکھا کرتے ہیں۔‘‘5

ناصر نذیر فراق کا تعلق علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ ان کے والد کا نام ’سید محسن علی‘ اور ماں کا نام ’شمس النساء بیگم‘ تھا۔6 انھوں نے کتاب میخانۂ درد میں اپنا نسب نامہ قلم بند کیا ہے۔ جہاں ان کے والد ماجد کا نام سید محسن علی درج ہے۔ اردو ادب کے معروف و مقبول شاعر ’خواجہ میر درد‘ کی پوتی ’بی امانی بیگم صاحبہ‘ کی شادی ’مولوی ناصر جان صاحب محزون‘ سے ہوئی۔ ان سے بی عمدہ بیگم (فراق کی نانی) پیدا ہوئیں۔ چنانچہ ناصر نذیر فراق کا خواجہ میردرد سے خاندانی رشتہ ثابت ہوتا ہے۔7  ناصر نذیر فراق اور خواجہ میر درد کے رشتے سے متعلق شاہد احمد دہلوی (مدیر رسالہ ساقی) لکھتے ہیں:

’’حضرت فراق حضرت خواجہ میر درد کے نواسہ میں اور صحیح معنوں میں وارث الادب ہیں۔‘‘8

حکیم خواجہ ناصر نذیر فراق دہلوی کی ادبی زندگی کا آغاز نثر نگاری سے ہوا۔ انھوں نے اس کا ذکر اپنی تصنیف ’چار چاند‘ کے دیباچے میں اس طرح کیا ہے :

’’پچپن سال سے میری جاں دامِ نثر میں صید ہے۔‘‘9

ناصر نذیر فراق نے کثیر تعداد میں مضامین، ناول، افسانے اور انشائیے تخلیق کیے۔ ان کے مضامین ملک کے بیشتر رسائل میں شائع ہوتے تھے۔ فراق دہلوی رسالہ مخزن(1910) کے ابتدائی دور کے لکھنے والوں میں سے تھے۔ ان کے مضامین ’لال قلعہ کی ایک جھلک‘ کے عنوان سے رسالہ ساقی  میں قسط وار (1930-32) شائع ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ ان کے مضامین خطیب (دہلی)، بہارستان، نظام المشائخ، عصمت، نیرنگ خیال، ادبی دنیا (لاہور) اور اس دور کے دوسرے مشہور و معروف رسائل میں بھی شائع ہوتے تھے۔ ان مضامین کے علاوہ ناصر نذیر فراق کی متعدد نثری تصانیف بھی ہیں۔ میخانۂ درد، مضامین فراق، دلّی کا اجڑا ہوا لال قلعہ، لال قلعہ کی ایک جھلک، سات طلاقنوں کی کہانیاں، سنجوگ یا دکن کی پری، چار چاند، دلّی میں بیاہ کی ایک محفل اور بیگموں کی چھیڑ چھاڑ، دردِ جانستاں، اختر محل اور المور کہا یا مرقع اردو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ناصر نذیر فراق کا تعلق اس عہد سے ہے جس میں کہانی اپنے داستانوی روپ کو بدل کر ناول کی شکل اختیار کر رہی تھی۔ یہ ناول اصلاحی و رومانی طرز پر لکھے جارہے تھے۔اردو نثر نگاری ناول کے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے مختصر افسانہ کی جانب قدم اٹھا رہی تھی۔ فراق دہلوی کی تحریروں میں ناول اور افسانہ نگاری کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔ان کے فن پاروں میں داستانوی اسلوب کا رنگ نمایاں ہے۔

بیسویں صدی کا ربع اول اردو ادب میں رومانی تحریک کے شباب کا زمانہ تھا۔ اس دور میں متعدد ادیبوں نے انشائیے لکھے۔ ناصر نذیر فراق نے بھی اپنے تخیل و تصور اور زور بیان کا ثبوت دیتے ہوئے انشائیے تخلیق کیے۔ ان کے نمائندہ انشائیوں کو یکجا کر کے کتابی شکل میں ’مضامین فراق‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ انشائیہ نگاری میں ان کی شان اور خوش بیانی کی عظمت کا اندازہ درج ذیل اقتباس کے ذریعے بخوبی لگایا جا سکتا ہے :

’’کوئل کی باتوں نے مور کے زخمی دل پر مرہم کا اثر دکھایا اوراس نے اپنی بپتا اس طرح شروع کی۔ حسن آباد میں عالم افروز نام ایک نازنین تھی،  جس کی خوبصورتی اس درجہ کی تھی کہ چاند سورج اس کے ناخنوں میں پڑے چمکا کرتے تھے۔ اس کا بوٹا سا قد، اٹھتی جوانی، سر سے پاؤں تک نور ہی نور تھی۔ریشمی لباس، پھولوں کا گہنا، ویسے تو طرح طرح کے زیور پہنتی تھی، مگر جھومر کا اور خاص کر جڑاؤ جھومر کا اُسے بڑا شوق تھا۔ اور جھومر اسے لگتا بھی ایسا بھلا تھا کہ جو دیکھتا اپنا کلیجہ پکڑ کر رہ جاتا۔‘‘10

ناصر نذیر فراق کا ایک انشائیہ بہ عنوان ’دلّی میں بیاہ کی ایک محفل اور بیگموں کی چھیڑ چھاڑ‘ ہے۔ اس میں انھوں نے ’خط کی تکنیک‘ کا استعمال کرتے ہوئے دلّی کی ایک شادی کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اس میں شوخی، فلسفہ، طنز و مزاح،قدیم دلّی کے رسم و رواج، قلعۂ معلٰی کی بیگماتی زبان اور ان کی آپسی تکرار کا پیکر تراشا گیا ہے۔ فراق دہلوی نے اس فن پارے میں اپنی خوش اسلوبی اورقدیم دلّی کی ٹکسالی اردو کا مظاہرہ بڑے فنکارانہ انداز میں کیا ہے۔ اس کا ایک نمونہ درج ذیل اقتباس میں دیکھا جاسکتا ہے:

’’ایک دن حضرت بیگم اور حسن جہاں کا مجیٹہ ہو گیا۔ حضرت بیگم کے دل میں حسن جہاں بیگم کی طرف سے ناحق کا بخار تو بھرا ہی ہوا تھا۔ انھیں دیکھ کر ایک بیوی سے کہنے لگیں اے بوا رضیہ سلطان سنتی بھی ہو قلعہ کی بیگمیں بلّی کو نکٹِی کہا کرتی تھیں یہ چھوٹی ناک بھی کیا بُری معلوم ہوتی ہے …حسن جہاں کی ناک بھی چھوٹی تھی اور رنگ بھی ان کا ٹپکا پڑتا تھا سمجھ گئیں کہ پھبتی مجھ پر ہی ڈھالی گئی ہے۔ وہ بھلا کب چوکنے والی تھیں کہنے لگیں پھیکا شلجم تمباکو کے پنڈے سے تو ہر طرح اچھا ہوتا ہے اور مجھے بڑی ناک دیکھ کر گھن آتی ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سل کا بٹا کِسی نے چہرے پر دھر دیا ہے۔‘‘11

انشا پردازی علم ادب کا ایک فن ہے۔اس کے ذریعے فنکار اپنے علمی مشاہدات و تجربات کو مؤثر انداز میں تحریر کرتا ہے۔یہ فن پارے قاری کو محظوظ کرتے ہیں اور اس کے ذہن پر اپنا نقش چھوڑتے ہیں۔ ناصر نذیر فراق کی سب سے بڑی خوبی ان کی انشا پردازی ہے۔ وہ اپنے عہد کے معروف و مقبول انشاء پرداز تھے۔ فراق دہلوی کے بارے میں نیاز فتح پوری رقم طراز ہیں:

’’سید ناصر نذیر فراق دہلی کے مشہورانشاپرداز تھے۔‘‘12

فراق دہلوی کو تاریخی وحقیقی واقعات کی پیش کش پر دسترس حاصل تھی۔ان کے فن پاروں میں زبان کی چاشنی، روز مرہ کے استعمال اور ندرت اندازِ بیاں کے ذریعے حقیقی واقعات کا لطف اور بڑھ جاتا ہے۔ انھوں نے قاری کو عہد مغلیہ اور قدیم دلّی کی سماجی، سیاسی، معاشی، اخلاقی، تہذیبی و ثقافتی جھلکیاں اپنے مضامین کے ذریعے دکھائی ہیں۔ ’دلّی کا اجڑا ہوا لال قلعہ‘ اور ’لال قلعہ کی ایک جھلک‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہوں:

’’صاحب عالم (مرزا شاہ رخ) اٹھے اور اپنے دست مبارک میں وہ پنجرا لیا اور محل سرا میں تشریف لے گئے۔ آپ کی دادی شاہ عالم بادشاہ کی والدہ ماجدہ زندہ تھیں، وہ پنجرااُن کے سامنے لے جا کر رکھ دیا اور کہا دادی حضرت دیکھیے ہمارے لیے ایک شخص مصیبت پیٹ کرعنقا لایا ہے۔ بیگم نے پنجرا اٹھا کر چڑیا کو غور سے دیکھا اور مسکرا کر فرمایا نوج یہ عنقا نہیں ہے یہ تو موئی دو کوڑی کی پدڑی ہے۔‘‘13

لال قلعے کی ایک جھلک فراق دہلوی کی معروف و مقبول کتاب ہے۔ اس میں انھوں نے عہد مغلیہ اور قدیم دلّی کے واقعات بیان کیے ہیں۔ ان کی نثر نگاری کا کمال یہ ہے کہ تمام واقعات قاری کی آنکھوں کے سامنے چھا جاتے ہیں۔ شاہد احمد دہلوی کتاب ’لال قلعہ کی ایک جھلک‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’لال قلعہ کی ایک جھلک میں آپ نے (فراق) اپنے ادبی کمال کی جھلک دکھائی ہے۔‘‘14

ناصر نذیر فراق نے تاریخی حالات پر مبنی ایک ناول ’المور کہا یا مرقع اردو‘ لکھا۔ یہ ناول شرر کی تاریخی ناول نگاری کا چربہ نظر آتا ہے۔ شرر کی طرح المور کہا کے کردار، واقعات، مناظر اور سرزمین سب ایرانی ہیں۔ المور کہا سے متعلق عبدالقادررقم طراز ہیں:

’’اس مضمون کی ابتدا گو تاریخی حالات سے ہوئی ہے لیکن حضرت فراق کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ انجام میں عجیب عجیب خیالات بامحاورہ شیریں زبان اردو میں تین باب میں تقسیم ہو کر آئندہ اشاعت میں یکے بعد دیگرے ختم ہوںگے۔‘‘15

ناصر نذیر فراق کی متعدد کہانیوں میں تصوف کے رنگ بھی جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ تصوف ان کا خاندانی سرمایہ ہے۔ انھوں نے تاریخی واقعات اور عشق کی مختلف واردات کے ذریعے اپنی تحریروں میں تصوف کا رنگ بکھیرا ہے۔ اس کا ثبوت درجہ درج ذیل نمونے سے بخوبی ملتا ہے :

’’حزن بھی عشق کے ساتھ جاتا تھا مگر حضرت یعقوب نے اسے روک لیا اور اس کے نام پر بیت الاحزان نام مکان بنا کر اس میں اسے ٹھیرایا اور اسّی برس تک اپنا کلیجہ اور دل جلا جلا کر اسے کھلاتے اور آنسوؤں کا خنک پانی پلاتے رہے... عشق دربار سے نکل کر حیران کھڑا ہوا تھا اور آنکھوں سے آنسو پڑے بہہ رہے تھے جو اس کی خوش قسمتی سے زلیخا وہاں آنکلی اور اس کی آنکھیں چارہو گئیں ۔‘‘16

سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری نے ترکی، عربی و انگریزی افسانوں اور ناولوں کے تراجم پیش کر کے اردو ادب کے دامن کووسعت بخشی۔ اسی زمانے میں میر ناصر علی، قاری سرفراز حسین، راشد الخیری اور حسن نظامی وغیرہ بھی اس طرف متوجہ ہوئے۔

سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری نے ترجمہ نگاری کے لیے جو راہ ہموار کی اس پر ناصر نذیر فراق نے بھی اپنے قدم اٹھائے۔ انھوں نے لفظی ترجموں کے بجائے آزاد ترجمے کیے۔ موقع ومحل کے لحاظ سے غیر ملکی فضا اور کرداروں کے نام بھی برقرار رکھے۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ بعض طبع زاد ہیں اور کچھ عربی و فارسی ادب سے مستعار لیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ’اختر محل‘ میں بادشاہ کا رات میں بھیس بدل کر نکلنا اور رعایا کے حالات دریافت کرنا ایسے پلاٹ عربی، فارسی اور سنسکرت ادب میں بخوبی ملتے ہیں۔ اختر محل ایک سبق آموز، نصیحت خیز اور اخلاقی قصہ ہے۔اس میں فراق دہلوی نے نذیر احمد کی اخلاقی و اصلاح پسندی کی پیروی کرتے ہوئے کہانی بیان کی ہے۔  درج ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:

’’حسینہ بیگم نے سکینہ بیگم کو دیکھ کر منھ بنا لیا اور اس غریب سے یہ بھی نہ کہا کہ تو بیٹھ جا یہ آپ ہی بے حیائی سادھ کر جوتیوں کے پاس زمین پر بیٹھی…حسینہ بیگم کو اول تو جب سکینہ رانڈ اور محتاج ہوئی تھی اوسکی صورت سے نفرت ہو گئی تھی اس نے اپنے دل میں ٹھان لی تھی کہ میں حسین مرزا کی شادی کسی ایسے کھاتے پیتے ہوت والوں میں کروں گی جہاں میرا اور میرے بچے کا ارمان نکلے۔‘‘17

ناصر نذیر فراق نے سوانحی انداز میں ایک کتاب ’میخانۂ درد‘  1910 میں لکھی۔ اس میں انھوں نے خواجہ میر درد اور ان کے آبا و اجداد کے حالات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔اس کتاب میں فراق دہلوی نے اپنے والد محترم کے ساتھ ساتھ والدہ محترمہ کا بھی شجرہ قلم بند کیا ہے۔ میخانۂ درد سے متعلق حکیم سید ناصر خلیق فگار رقم طراز ہیں:

’’حضرت خواجہ میر درد دہلوی قدس سِرہ العزیز اورآپ کے حسب نسب اورآل اولاد اور آپ کے سجادہ نشینوں اور شاگردوں اورآپ کے مشائخ کے حالات اورآپ کے ظاہری و باطنی کمالات جناب فضِیلت مآب مولانا حکیم خواجہ سیّد ناصر نذیر صاحِب فراق دہلوی مدظلّہ العالی نے مرقوم فرمائے ہیں۔‘‘18

 ناصر نذیر فراق کے ناولوں اور افسانوں کا مطالعہ کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ یہ فن پارے اس دور کے ہیں جس میں ناول اور افسانے اپنے ابتدائی مراحل طے کر رہے تھے۔ ان کے نثری کارناموں کو موجودہ فنی اصولوں پر پرکھنا صحیح نہیں ہے۔ اس زمانے کے بیشتر ناول نذیراحمد کی اخلاقی و اصلاحی اور سجاد حیدریلدرم کی رومانی ناول نگاری کے زیر اثر تخلیق کیے گئے۔ ان ناولوں میں پلاٹ، قصہ نگاری، کردار نگاری، منظر نگاری، زبان کی چاشنی و جادو بیانی، محاورات اور شعریت کا پرتو وغیرہ سب کچھ موجود ہے۔ لیکن فکر و فن کی گہرائی و عُمُق سے خالی ہیں۔ ناصر نذیر فراق کے ناولوں، افسانوں اور انشائیوں میں داستانوی اسلوب، زبان و بیان کی دلکشی، شاعرانہ انداز بیان، قدیم دلّی کی ٹکسالی اردو کی رنگینی، روزمرہ و محاوروں کا برجستہ استعمال، قلعۂ معلٰی کی بیگماتی زبان کا اور اعلٰی قسم کی انشاپردازی وغیرہ سبھی بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ بقول شاہد احمد دہلوی:

’’حضرتِ فراق کی جادو بیانی۔ ان کے سلیس بامحاورہ چھوٹے چھوٹے جملے اور دل میں کُھب جانے والی اردو کا کیا کہنا۔ صاحبِ طرز ہیں، قلعہ معلی کی بیگماتی زبان لکھنے میں اپنا جواب آپ ہیں، دہلی کی ٹکسالی نتھری ستھری زبان میں انشا پردازی کرتے ہیں اور نت نئی بات پیدا کرتے ہیں۔ عروس زبان کو ساری عمر سنوارتے رہے اور اس کو نکھ سے سکھ بنا دیا۔‘‘19

ناصر نذیر فراق کے انداز بیان کی لطافت، ادبی خدمات اور ان کے کارناموں کی عظمت کو حامد حسن قادری نے درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے :

’’میر ناصر نذیر فراق جس دلّی کی خود یادگار تھے، اسی دلّی کی یادگار ان کی زبان اور ان کی کتابیں ہیں۔ انھوں نے کوئی علم و فن کی کتاب نہیں لکھی۔ ان کا قلمی کارنامہ لطف بیان اور حسن بیان کے ساتھ دہلی کی تہذیب و تمدن کا آخری نمونہ پیش کرتا ہے۔ ان کے طرز تحریر کی داد ان کے ایک ہم پایہ اور ان سے بزرگ ادیب دیتے ہیں۔‘‘20

غرض ناصرنذیر فراق نے اردو نثر نگاری کو اپنے فن پاروں کے ذریعے وسعت بخشی۔ اردونثر نگاری کو اپنی انشا پردازی، فنی تخلیقات اور خوش اسلوبِ بیان سے آراستہ کیا۔ان کے مضامین، ناول،افسانے اور انشائیے اردو نثرکے ارتقا میں اہم کڑی ہیں۔ ان کی تحریریں قدیم دلّی کی تہذیب و ثقافت کا آئینہ ہیں اور اردو ادب میں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ انھوں نے اردو زبان کو اپنے فنی کارناموں اور اسلوبیات کے ذریعے سجایا، سنوارا اور اس کی درستگی بھی کی۔فراق دہلوی کو ان کے فنی کارناموں،ادبی خدمات اور ادب لطیف کی وجہ سے اردو زبان و ادب میں تا قیامت یاد رکھا جائے گا۔

 حواشی

1             اردو کے اسالیب بیان: غلام محی الدین قادری زور، مکتبہ ابراہیمہ امدادباہمی، حیدرآباد،دکن1927، ص 15,16

2             سیرالصنفین(جلد اول): محمد یحی تنہا، ادارئہ اشاعت ادب میرٹھ، 1976، ص44

3             میخا نۂ درد: ناصر نذیر فراق دہلوی، جیدبرقی پریس، 1910، ص 236

4             چارچاند: ناصر نذیر فراق دہلوی، دلی پرنٹنگ ورکس، دہلی  1930، ص 4

5             ایضاً، ص 11

6             میخانۂ درد، ص229 

7             ایضاً، ص 229-30

8             چارچاند: ناصر نذیر فراق دہلوی، دلی پرنٹنگ ورکس، دہلی1930، ص2

9             ایضاً، ص 6

10          مضامینِ فراق: ناصر نذیر فراق دہلوی۔محبوب المطابع برقی پریس،دہلی،ص69

11          بیگموں کی چھیڑ چھاڑ: ناصر نذیر فراق دہلوی، شاہجہاں بک ایجنسی،دہلی۔ص27

12          رسالہ ساقی،دہلی، افسانہ نمبر، جولائی 1935

13          دلّی کا اجڑا ہوا لال قلعہ: ناصر نذیر فراق دہلوی، شاہجہاں بک ایجنسی،دہلی، ص11

14          رسالہ ساقی،دہلی، فروری1930، ص2

15          رسالہ مخزن، اگست 1912، ص47

16          کان ملاحت: ناصر نذیر فراق دہلوی،  رسالہ مخزن، جولائی1912، ص30

17          اختر محل: ناصر نذیر فراقدہلوی

18          میخانۂ دردسرِورق

19          چارچاند،ص3

20           داستان تاریخِ اردو: حامد حسن قادری، اے بی سی آفسیٹ پرنٹرز،دہلی 2007، ص868

 

Sabir Riyaz Khas

Department of Urdu, Aligarh Muslim University

Aligarh- 202002

Mob.: 9044277505

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

جنوبی ہند میں فکر غالب کا مینار: علامہ شاکر نائطی، مضمون نگار: ابوبکر ابراہیم عمری

  اردو دنیا، فروری، 2025 جنوبی ہند خصوصا تامل ناڈو میں مرزااسداللہ خان غالب کے فکر وفن کی آبیاری میں علامہ ابو صالح غضنفر حسین شاکر نائطی...